قدرتی آفات کا ایک سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ یہ صرف وقتی تباہی نہیں لاتیں بلکہ ان کے اثرات برسوں تک قائم رہتے ہیں۔ سیلاب پانی کے بہاؤ کے ساتھ گھروں، کھیتوں اور سڑکوں کو تباہ کرتا ہے لیکن اس کے بعد جو مشکلات سامنے آتی ہیں وہ اور بھی زیادہ کمر توڑ اور جان لیوا ہوتی ہیں۔
پاکستان کے حالیہ سیلابی حالات نے ایک بار پھر یہ حقیقت اجاگر کر دی ہے کہ پانی کے اترنے کے بعد بھی متاثرین کی زندگیوں میں سکون نہیں لوٹتا بلکہ ایک نئی آزمائش ان کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ یہ آزمائش مہنگائی، بے روزگاری، بیماریوں، تعلیمی رکاوٹوں اور سماجی مسائل کی صورت میں سامنے آتی ہے۔
سیلاب کا سب سے پہلا اثر زرعی معیشت پر ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت ہے اور جب کھڑی فصلیں تباہ ہو جائیں تو اس کا اثر صرف کسان پر نہیں بلکہ پورے ملک پر پڑتا ہے۔ کپاس، گنا، چاول، مکئی اور سبزیاں جب پانی کی نذر ہوئیں تو منڈیوں میں قلت پیدا ہوئی۔ یہی قلت مہنگائی کی شکل میں ہر شہری کے لیے دردِ سر بن گئی۔
آج شہروں کے بازاروں میں جائیں تو سبزیوں کے نرخ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔ دودھ، گھی اور آٹے جیسی بنیادی اشیاء کی قیمتیں بھی کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں تو صورتحال اور بھی سنگین ہے، جہاں لوگ نہ صرف کھانے پینے کی اشیاء کے بحران کا شکار ہیں بلکہ اگر کچھ دستیاب بھی ہو تو قیمت اتنی زیادہ ہے کہ غریب عوام خریدنے سے قاصر ہیں۔
مہنگائی کی یہ لہر صرف وقتی نہیں ہے۔ کھیتوں کی تباہی کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں بھی غذائی اجناس کی کمی برقرار رہے گی۔ اگر حکومت فوری اقدامات نہ کرے تو یہ مسئلہ غذائی تحفظ کے بحران میں بدل سکتا ہے۔
سیلاب نے نہ صرف زمینوں کو اجاڑا بلکہ روزگار کے ذرائع بھی ختم کر دیے۔ دیہات کے مزدور جن کا رزق کھیتوں اور کھلیانوں سے جڑا تھا، آج بے سہارا ہیں۔ کھیتی باڑی تباہ ہوئی تو کسان بھی متاثر ہوئے اور مزدور بھی۔ وہ لوگ جو روزانہ دیہاڑی لگا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتے تھے، اب خالی ہاتھ بیٹھے ہیں۔
شہروں کی طرف ہجرت کرنے والے متاثرین نے وہاں کے روزگار کے مواقع پر بھی دباؤ بڑھا دیا ہے۔ پہلے ہی بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ تھی، اب متاثرہ افراد کی شمولیت نے یہ مسئلہ مزید سنگین بنا دیا ہے۔ چھوٹے کارخانے، دکانیں اور ورکشاپس جو پانی میں بہہ گئے، ان کے مالکان اور ملازمین بھی بے روزگار ہو گئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک بڑا طبقہ ایسا ہے، جو محنت کرنے کے باوجود اپنے گھر کا چولہا جلانے سے قاصر ہے۔
سیلابی پانی کے ٹھہر جانے سے جو بیماریاں پھیلتی ہیں وہ متاثرین کے لیے دوسری بڑی آزمائش ہیں۔ گندے پانی اور کیچڑ نے ہیضہ، ملیریا، ٹائیفائیڈ اور جلدی امراض کو عام کر دیا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں صحت کی سہولتیں پہلے ہی ناکافی تھیں، اب وہ بالکل مفلوج ہو گئی ہیں۔
سرکاری اسپتال یا تو تباہ ہو گئے یا پھر ان میں اتنے مریض جمع ہیں کہ ڈاکٹر اور دوائیں دونوں ناکافی ہیں۔ متاثرہ علاقوں کے غریب عوام نجی اسپتال جانے کی سکت نہیں رکھتے۔ دواؤں کی قلت نے بیماریوں کو مزید پھیلنے کا موقع دیا ہے۔ بچوں اور خواتین کی صحت سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔ کئی بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور حاملہ خواتین کو طبی سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔
سیلاب صرف گھروں اور کھیتوں کو نہیں بہاتا بلکہ بچوں کے مستقبل کو بھی ڈبو دیتا ہے۔ وہ سکول جو کچے مکانوں یا عارضی عمارتوں میں قائم تھے، پانی کے سامنے ٹک نہ سکے۔ سینکڑوں سکول مکمل طور پر تباہ ہو گئے، جب کہ کئی تعلیمی ادارے عارضی پناہ گزین کیمپوں میں تبدیل کر دیے گئے۔
نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں۔ ان کے والدین پہلے ہی روزگار اور کھانے پینے کی فکر میں مبتلا ہیں، اب تعلیم ان کے لیے ثانوی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ یہ صورتحال مستقبل میں ناخواندگی اور غربت کے مزید پھیلاؤ کا سبب بنے گی۔
سیلاب متاثرین کو صرف قدرتی آفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ سماجی اور اخلاقی مسائل نے بھی ان کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ کئی جگہوں پر امدادی سامان کی تقسیم سیاسی وابستگی کی بنیاد پر کی گئی۔ اگر متاثرہ فرد کا تعلق کسی مخصوص جماعت سے نہ تھا تو اسے امداد سے محروم رکھا گیا۔
مزید یہ کہ بعض بااثر افراد نے امدادی سامان ذخیرہ کیا اور پھر منڈی میں بیچ دیا۔ خیمے اور راشن بلیک میں فروخت کیے گئے۔ یہ رویے نہ صرف ہماری اجتماعی بے حسی کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم نے اپنی انسانیت کو مفاد کے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
خواتین کو پناہ گزین کیمپوں میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ صفائی ستھرائی کا فقدان، پرائیویسی کی کمی اور بنیادی سہولتوں کی عدم موجودگی نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ بچوں کی تعلیم اور خوراک کی کمی نے خواتین کو مزید اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔
یہ المیہ ہے کہ جب عوام مشکلات کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں تو ہمارے سیاستدان اقتدار کی کشمکش میں مصروف ہیں۔ فوٹو سیشن ہو رہے ہیں،باعزت لوگوں کو سوشل میڈیا پر دکھا کر پریشان کیا جارہا ہے اورایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے، جب کہ متاثرین خالی خیموں اور گندے پانی کے کنارے بیٹھے ہیں۔ یہ طرزِ عمل ہماری اجتماعی بے حسی کا آئینہ دار ہے۔
قوم کو ایسے وقت میں متحد ہو کر ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہیے تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ تقسیم مزید بڑھ گئی ہے۔ امداد بھی سیاسی بنیادوں پر بانٹی جارہی ہے اور مسائل کا حل نکالنے کے بجائے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالی جارہی ہے۔ سیلاب نے ہمیں ایک بار پھر یاد دلایا ہے کہ ہم قدرتی آفات کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پانی کے بہاؤ کو روکنا ممکن نہیں لیکن اس کے نقصانات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔
سیلاب کا پانی تھم جاتا ہے، زمین خشک ہو جاتی ہے، لیکن متاثرین کی آنکھوں میں آنسو اور دل میں دکھ باقی رہ جاتے ہیں۔ ان کے زخم صرف امدادی پیکج یا وقتی راشن سے نہیں بھر سکتے بلکہ اس کے لیے ایک جامع پالیسی، اجتماعی عزم اور انسانیت کو مقدم رکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ وقت ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کب تک ہم صرف ریسکیو آپریشن کرتے رہیں گے؟ کب تک لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہوتے رہیں گے؟ اگر ہم نے آج اپنی ترجیحات درست نہ کیں تو آنے والے برسوں میں یہی مناظر اور بھی زیادہ دردناک صورت اختیار کر لیں گے۔
سیلاب نے ہمیں ایک آئینہ دکھایا ہےکہ ہم کتنے بے بس ہیں اور ہمیں مل کر کتنا کچھ بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے اپنی سیاست کو خدمت میں نہ بدلا، اپنی معیشت کو محفوظ نہ کیا اور اپنی معاشرتی اخلاقیات کو نہ سنبھالا تو ہر برس پانی کے ساتھ ساتھ ہماری امیدیں بھی بہتی رہیں گی۔