Follw Us on:

جاپانی وزیر اعظم نے استعفیٰ کیوں دے دیا؟ دنیا کی چوتھی بڑی معیشت میں ’غیر یقینی دور‘ کا خدشہ

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Pm ishiba
جولائی میں ایوانِ بالا کے انتخابات میں شکست کے بعد سے ہی ان پر استعفے کے دباؤ میں اضافہ ہورہا تھا۔ (فوٹو: رائٹرز)

جاپان کے وزیر اعظم شیگرو ایشیبا نے آج اتوار کے روز استعفیٰ دے دیا، جس سے دنیا کی چوتھی بڑی معیشت میں پالیسی کے حوالے سے طویل غیر یقینی دور کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

68 سالہ ایشیبا نے حال ہی میں امریکا کے ساتھ ایک تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دی تھی، جس کے تحت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عائد کردہ محصولات میں نرمی کی گئی۔

تاہم، ایک پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ انتخابات میں مسلسل ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔

ایشیبا ایک سال سے بھی کم عرصہ پہلے اقتدار میں آئے تھے، لیکن ان کی جماعت نے عوامی غصے کے باعث دونوں ایوانوں میں اکثریت کھو دی۔

انہوں نے اپنی جماعت لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) کو ہدایت دی کہ ہنگامی بنیادوں پر قیادت کے نئے انتخابات کرائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ نئے رہنما کے انتخاب تک اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے۔

جذباتی انداز میں ان کا کہنا تھا کہ “جاپان نے تجارتی معاہدے پر دستخط کرلیے ہیں اور صدر نے ایگزیکٹو آرڈر جاری کردیا ہے، یہ ایک اہم رکاوٹ عبور کرلی گئی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اب یہ ذمہ داری نئی نسل کو سونپ دوں۔”

Pm ishiba.
زشتہ انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سانسیٹو پارٹی نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ (فوٹو: رائٹرز)

جولائی میں ایوانِ بالا کے انتخابات میں شکست کے بعد سے ہی ان پر استعفے کے دباؤ میں اضافہ ہورہا تھا۔

سیاسی غیر یقینی صورتحال کے باعث گزشتہ ہفتے جاپانی ین اور حکومتی بانڈز پر فروخت کا دباؤ دیکھنے کو ملا، جبکہ 30 سالہ بانڈز کی ییلڈ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔

اب سرمایہ کار اس امکان پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ ان کی جگہ کوئی ایسا رہنما آسکتا ہے جو نرم مالی و زرعی پالیسیوں کا حامی ہو۔

ان میں سب سے نمایاں ایل ڈی پی کی سینئر رہنما سناے تاکائچی ہیں، جو جاپان کے مرکزی بینک کی شرح سود میں اضافے کی مخالف ہیں۔

تاکائچی، جنہیں پچھلے سال قیادت کے مقابلے میں ایشیبا نے معمولی فرق سے شکست دی تھی، اب مضبوط امیدوار سمجھی جارہی ہیں۔ دوسرا نمایاں نام زراعت کے وزیر شنجیرو کوئزومی کا ہے، جو بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کی کوششوں کے باعث عوامی سطح پر مقبول ہوئے ہیں۔

ماہر معاشیات کازوتاکا مائدہ کا کہنا ہے کہ “ایل ڈی پی کی مسلسل انتخابی ناکامیوں کے بعد ایشیبا کا استعفیٰ ناگزیر تھا۔” ان کے مطابق کوئزومی اور تاکائچی دونوں مضبوط امیدوار ہیں، تاہم مالیاتی منڈی خاص طور پر تاکائچی کی پالیسیوں پر نظر رکھے گی۔

Pm ishiba..
تجزیہ کاروں کے مطابق نیا رہنما مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے فوری انتخابات بھی کرا سکتا ہے۔ (فوٹو: رائٹرز)

چونکہ حکومتی اتحاد پارلیمانی اکثریت کھو چکا ہے، اس لیے نیا ایل ڈی پی صدر وزیر اعظم بننے کا یقینی امیدوار نہیں، لیکن ایوانِ زیریں میں سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناطے اس کا امکان زیادہ ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق نیا رہنما مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے فوری انتخابات بھی کرا سکتا ہے۔

گزشتہ انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سانسیٹو پارٹی نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، جس نے جاپانی سیاست میں سخت گیر اور مخالفِ امیگریشن نظریات کو مرکزی دھارے میں داخل کردیا ہے۔

تاہم، کیوڈو نیوز کے ایک سروے کے مطابق 55 فیصد عوام نے فوری انتخابات کی ضرورت کو مسترد کیا۔

مالیاتی ماہر مائیکل براؤن کا کہنا ہے کہ پیر کو جاپانی ین اور طویل مدتی بانڈز پر مزید دباؤ آنے کا امکان ہے۔ ان کے مطابق “یہ دباؤ بنیادی طور پر اس سیاسی خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوگا، جو نہ صرف ایل ڈی پی کی قیادت کے مقابلے بلکہ ممکنہ عام انتخابات کے امکانات سے بھی جڑا ہوا ہے۔”

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس