Follw Us on:

فیشن انڈسٹری میں حجاب کا بڑھتا رجحان، کیا یہ صرف مارکیٹنگ ہے؟

افضل بلال
افضل بلال

حجاب کا فیشن فروغ پارہا ہے اور فیشن انڈسٹری اسے قبول بھی کررہی ہے، کھیلوں کے میدان میں باحجاب خواتین دوڑتی نظر آتی ہیں تو دفاتر، کام کی جگہوں پر سکارف پہنے لڑکیاں کام کرتی نظر آتی ہیں ۔ حتیٰ کے ٹی وی چینلز پر نیوز اینکرز، رپورٹزز بھی سرکو ڈھانپے دکھائی دیتی ہیں، سوال یہ ہے کہ فیشن انڈسٹری نے حجاب کو قبول کرلیا؟

حجاب کا تعلق صرف اسلام تک محدود نہیں ہے بلکہ مختلف ثقافتوں اور مذاہب میں بھی اس کی اہمیت کو دیکھا جا سکتا ہے، جیسا کہ یہودی اور مسیحی روایات میں خواتین کا سر ڈھانپنا پاکیزگی اور عبادت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ہندو اور سکھ ثقافت میں بھی خواتین دوپٹے یا چادر سے خود کو ڈھانپتی ہیں، جو حیا اور احترام کی نشانی تصور کیا جاتا ہے۔ قدیم یونانی اور رومی معاشروں میں بھی مخصوص لباس عورت کی عزت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

 ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ممبر اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ “انسان کو اللہ تعالیٰ نے شرم و حیا کا فطری جذبہ بخشا ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی ہے کہ حضرت آدم ؑ پر شیطان نے سب سے پہلا حملہ کیا، انھیں بے پردہ اور بے لباس کیا۔ حضرت آدم نے خود کو درختوں کے پتوں سے ڈھانپا، جس کا مطلب ہے کہ خود کوباپردہ رکھنا انسان کی فطرت میں حضرت آدم ؑ سے شامل ہے۔”

انھوں نے مزید کہا کہ “شیطان کا پسندیدہ ترین مشغلہ اسے بے حجاب کرنا ہے اور جب بھی اسے موقع ملتا ہے وہ انسان کو بے حجاب کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بے لباس اور بے حجاب ہونا حیوان کی فطرت میں شامل ہے۔”

موجودہ وقت میں حجاب کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہےاور کئی مسلم خواتین اسے اپنی مذہبی اور ثقافتی شناخت کے طور پر اپنا رہی ہیں۔ دوسری طرف مغربی ممالک میں حجاب آزادیِ اظہار کی علامت کے طور پر بھی مقبول ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس بعض ممالک میں حجاب کو خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جا رہا ہے۔ حجاب پر جاری عالمی بحث مذہبی آزادی، سماجی ہم آہنگی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک اہم موضوع بنی ہوئی ہے۔

خود کوباپردہ رکھنا انسان کی فطرت میں حضرت آدم ؑ سے شامل ہے۔ (فوٹو: حجاب بلاگ)

اس حوالے سے ڈاکٹر سمیحہ راحیل کا کہنا ہے کہ “جو عورت باحجاب ہوتی ہے وہ زیادہ خوبصورت لگتی ہے۔ تمام مذاہب میں جب عورت اپنی مذہبی فرائض سرانجام دیتی ہے تو وہ ڈھیلے ڈھالے اور جسم کو ڈھکنے والے لباس زیب تن کرتی ہے۔ ہر مذہب میں باحجاب رہنا عزت کی علامت ہے اور یہی وجہ ہے کہ حجاب آزادی اور توانائی کی علامت ہے۔”

اس وقت حجاب کے حوالے سے عالمی سطح پر دو متضاد نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک جانب بہت سی مسلمان خواتین اسے اپنی خودمختاری، مذہبی آزادی اور ثقافتی شناخت کا حصہ قرار دیتی ہیں تو دوسری جانب بعض خواتین اسے جبر کی علامت کا نام دیتی ہیں۔

نجی خبررساں ادارے ‘جیو نیوز’ کی نامہ نگار اور سینیئر صحافی دعا مرزا نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ””خواتین کی خود مختاری کا انحصار ان کی خود اعتمادی پر ہوتا ہے۔ اگر خواتین حجاب پہن کر پراعتماد ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ ورنہ بہت ساری ایسی خواتین ہیں جو حجاب کرتی تو ہیں لیکن وہ سماجی دباؤ کے تحت کرتی ہیں۔ جب یہ خواتین اس پر واپس ردِعمل دیتی ہیں تو بہت منفی بحث ہوتی ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ “یونیورسٹیز، اسکولز اور مدارس میں حجاب کرنا ضروری ہوتا ہے ساتھ ہی خاندان کا بھی دباؤ ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں جب باہر جا کر ابایا اترتا ہے تو اندر سے بغیر آستین کے لباس زین تن کیے ہوئے خواتین نکلتی ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک خودمختاری خود اعتمادی پر ہی منحصر ہے چاہے حجاب کیا ہو یا نہ کیا ہو”۔

حالیہ برسوں میں کئی عالمی فیشن برانڈز نے اپنے کلیکشنز میں حجاب کو شامل کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم خواتین کی فیشن مارکیٹ کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔

حالیہ برسوں میں کئی عالمی فیشن برانڈز نے اپنے کلیکشنز میں حجاب کو شامل کیا ہے۔ (فوٹو: مرسی کوسمیٹکس)

یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب لاہور کے شعبہ ابلاغیات کی پروفیسر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے نزدیک “فیشن انڈسٹری میں حجاب کا بڑھتا ہوا رجحان مسلم خواتین کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس سے فیشن انڈسٹری میں ان کی نمائندگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ اپنی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے فیشن کا حصہ بھی بن رہی ہیں۔”

دنیا بھر میں مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنی مرضی اور پسند سے حجاب پہننے کو ترجیح دے رہی ہے۔ حجاب کو جبر کے بجائے خودمختاری اور مذہبی آزادی کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، خاص طور پر مغربی ممالک میں جہاں اب مسلم خواتین اپنی شناخت کو فخر سے اپنا رہی ہیں۔

سینیئر صحافی دعا مرزا کا کے نزدیک “حجاب کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے کوئی دباؤ یا پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ جو جس طرح پرسکون ہے اسی طرح رہے۔ اس پر کوئی بھی فیصلہ تھونپا نہیں جانا چاہیے۔ ملازمت میں بھی حجاب کو لے کر مسائل کا سامنا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت ساری ایسی خواتین ہیں جو حجاب کرتی ہیں اور غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل ہیں۔ کسی پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔”

آج کے جدید حجاب نہ صرف روایتی انداز کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ انہیں فیشن کے نئے رنگوں، ٹیکسچرز اور اسٹائلز میں متعارف کرایا جا رہا ہے جو نوجوان مسلم خواتین میں مقبول ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا اور جدید فیشن انڈسٹری میں بھی حجاب کو نت نئے انداز سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق “کچھ عالمی برانڈز مسلم خواتین کی ضروریات اور ثقافتی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے حجاب ڈیزائن کر رہے ہیں۔ لیکن یہاں یہ ضروری ہے کہ وہ مقامی ثقافتوں اور روایات کا احترام بھی کریں۔”

حجاب اب صرف مذہبی فریضہ نہیں بلکہ خواتین کی خوداعتمادی اور آزادیِ اظہار کا مظہر بھی بن چکا ہے۔ میڈیا انڈسٹری میں بھی اس حوالے سے ایک اہم کردار رہا ہے۔ ڈاکٹر سمیعہ کے مطابق “کسی حد تک میڈیا کا ماننا ہے کہ جو عورتیں حجاب نہیں کرتیں وہ ماڈرن عورتیں ہیں، مگر یہ غلط ہے۔ اسلام نے حجاب کا حکم دیا تھا تاکہ عورتیں اپنے جسم کو ڈھکیں اور ان کی عزت کی جائے۔ میں نے حجاب کی بدولت پاکستانی میڈیا میں بہت زیادہ عزت حاصل کی ہے۔”

عالمی برانڈز مسلم خواتین کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے حجاب ڈیزائن کر رہے ہیں۔ (فوٹو: مرسی کامیٹکس)

دوسری جانب سینیئر صحافی دعا مرزا کا ماننا ہے کہ “میڈیا انڈسٹری میں مہر بخاری، نادیہ مرزا جیسی اور بھی بہت اینکرز ایسی ہیں جو حجاب کرتی ہیں۔ ان کو حجاب کی وجہ سے میڈیا میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ شروع شروع میں دیکھا گیا تھا کہ حجاب کی وجہ سے ملازمت نہیں ملتی تھیں لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ ذاتی رائے تب ہی بنتی ہیں جب بہت زیادہ سٹائلش حجاب لیے جاتے ہیں۔ بہت سارے برینڈز بھی اب ماڈرن حجاب مہیا کر رہے ہیں تاکہ خواتین زیادہ آرام دہ اور جدید فیشنز کے مطابق حجاب لیں۔ اس طرح خواتین پھر اسی فیشن کا حصہ بن جاتی ہیں۔”

مختلف ممالک میں جہاں حجاب کو خود اعتمادی اور آزادیِ اظہار کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، وہیں فیشن انڈسٹری بھی اس کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈال رہی ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ “اگر حجاب کو فیشن کے طور پر پیش کیا جائے تو یہ مسلم خواتین کو اپنی شناخت کے ساتھ فخر کرنے اور خود اعتمادی میں اضافہ کرنے کا موقع بھی فراہم کر سکتا ہے۔”

فرانس، بیلجیئم اور نیدرلینڈز جیسے یورپی ممالک میں عوامی مقامات، اسکولوں اور سرکاری اداروں میں حجاب پر جزوی یا مکمل پابندی عائد ہے۔ اسے ریاستی سیکولرازم اور سماجی یکجہتی کے نام پر درست قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سمیعہ کے نزدیک ” سیکولرازم ایک مذہب کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، ہم لوگ 4 ستمبر کو حجاب ڈے مناتے ہیں مگر خطے میں 1 فرروری کو بھی حجاب ڈے منایا جاتا ہے۔ مسلمان عورت ایک مذہبی فریضے کے طور پر حجاب پہنتی ہیں، حجاب ایک ڈریس کوڈ ہے۔ حجاب پر عائدپابندی انسانیت پر ظلم ہے جسے بند کیا جانا چاہیے۔”

انسانی حقوق کے کارکن اور مسلم کمیونٹیز کی جانب سے حجاب پر پابندیوں کو مذہبی آزادی پر قدغن اور امتیازی سلوک سے تشبیہ دی جارہی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی تنظیمیں بھی ان پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

اگر اسلامی ممالک میں حجاب کے قوانین کی بات کی جائے توکچھ ریاستیں اسے لازمی قرار دیتی ہیں، جب کہ کچھ میں خواتین کو اپنی مرضی سے پہننے یا نہ پہننے کی آزادی حاصل ہے۔

اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں نے ان پابندیوں پر تشویش کا اظہار کیا ۔ (دی یورو کلچرل)

ممبر اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر سمیحہ کا کہنا ہے کہ “پاکستان ایک مشرقی معاشرہ ہے جہاں ہر عورت خواہ وہ عیسائی، سکھ، ہندو یا پھر مسلمان ہے حجاب کو فوقیت دیتی ہے۔ امریکہ کے ایک مشہور تھنک ٹینک پی یو ریسرچ سینٹر نے آج سے کئی سال قبل ایک سروے کرایا تھا جس میں نتیجہ اخذ کیا تھا کہ 98 فیصد پاکستانی عورتیں باہر نکلنے سے پہلے حجاب کرتی ہیں، جبکہ جو 2 فیصد عورتیں حجاب نہیں کرتی ان پر کوئی جبر نہیں اور انھیں عزت کی نگاہ سے ہی دیکھا جاتا ہے۔”

ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک میں حجاب قانونی طور پر لازمی ہے جہاں خلاف ورزی پر سزائیں دی جا تی ہیں، جبکہ دوسری جانب ترکی، انڈونیشیا اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک میں خواتین کو اپنی مرضی سے حجاب پہننے کا اختیار حاصل ہے۔

 دعا مرزا کے مطابق “”حجاب پہننے یا پہننے کا دباؤ کسی حد تک ابھی بھی ہے۔ بہت سارے خاندان ابھی بھی ایسے ہیں کہ وہ دباؤ ڈالتے ہیں کہ حجاب لیا جائے چاہے خواتین چاہ رہی ہوں یا نہ چاہ رہی ہوں۔ جس خاندان میں خواتین زندگی بسر کر رہی ہوتی ہیں تو ان کو یہ معلوم ہی ہوتا ہے کہ یہ اس کی خاندانی ثقافت ہے اور ماحول کیسا ہے۔ دباؤ بس اسی حد تک ہی ہے اور بہت ساری جگہوں پر یہ لازم بھی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ تقریباً 70 فیصد خواتین کو دباؤ کی وجہ سے حجاب کرنا پڑتا ہے۔”

حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا پر حجاب کو فیشن کے حصے کے طور پر بھی دکھایا گیا ہے، جہاں خواتین اپنے انفرادی انداز اور خوداعتمادی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ کچھ عالمی فلموں اور ڈراموں میں حجاب کو ایک طاقتور اور جرات مندانہ اظہار کے طور پر دکھایا گیا ہے، جس سے لوگوں کے تصورات میں بدلاؤ آیا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے نزدیک ” بہت سے جدید حجاب مغربی طرز پر ڈیزائن کیے گئے ہیں جو مسلم خواتین کی روایتی پسند سے مختلف ہیں۔ انہوں نے بنیادی حجاب کے تصور کو کسی حد تک بدل دیا ہے۔”

بہت سے جدید حجاب مغربی طرز پر ڈیزائن کیے گئے ہیں جو مسلم خواتین کی روایتی پسند سے مختلف ہیں۔ (فوٹو: ایکس)

پاکستانی معاشرے میں حجاب ایک اہم مذہبی اور ثقافتی علامت ہے۔ یہاں مسلم خواتین کی بڑی تعداد حجاب کو اپنی شناخت، عزت اور مذہبی فرض سمجھ کر پہنتی ہے۔

ڈاکٹر سمیحہ کے مطابق “پاکستان میں عورتوں کی اکثریت حجاب کو دینی فریضہ سمجھ کر پہنتی ہے اور بعض اسے ثقافتی علامت کے طور پر بھی پہنتے ہیں۔” دوسری جانب سینئر صحافی دعا مرزا کا ماننا ہے کہ “حجاب کو ثقافتی روایت کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے اور مذہبی فریضہ تو ہے ہی کیونکہ سینے اور سر کو ڈھانپنے کا واضح حکم ہے۔ لیکن اس طرح لحاف وغیرہ کا رواج جو ہے وہ ذاتی انتخاب کے طور پر ہی دیکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔”

معاشرتی سطح پر حجاب ایک محفوظ اور باعزت زندگی گزارنے کے ساتھ جڑا ہے خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں روایتی اقدار کا احترام کیا جاتا ہے۔ فیشن انڈسٹری میں حجاب کے فروغ سے مسلم خواتین گھریلو اور پیشہ ورانہ زندگی میں توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ حاجب کو فیشن انڈسٹری میں شامل کر کے اور نت نئے ڈیزائن متعارف کروا کر اچھا خاصہ منافع بھی کمایا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق “حجاب کی فیشن انڈسٹری میں شمولیت خواتین کی نمائندگی میں اضافہ کر رہی ہے اور ان کی متنوع شناخت کو تسلیم بھی کر رہی ہے، اگرچہ یہ موٹا منافع کمانے کا طریقہ تو ہے لیکن پھر بھی ایک مثبت پیش رفت ہے۔”

حجاب کا فیشن انڈسٹری میں شامل ہونا ایک بڑی اور مثبت تبدیلی ہے۔ اس سے مسلم خواتین کو حجاب کے مختلف طریقوں کے مواقع مل رہے ہیں۔ تاہم یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا یہ مثبت تبدیلی ہے یا محض منافع کمانے کی ایک حکمت عملی جسے مذہبی ٹچ دیا گیا ہے۔

افضل بلال

افضل بلال

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس