Follw Us on:

شادیوں پر فضول خرچی دکھاوا ہے یا پھر احساسِ کمتری، حقیقت کیا ہے؟

مادھو لعل
مادھو لعل
سوشل میڈیا انفلائنسر رجب بٹ کی شادی کے مناظر (فوٹو: گوگل)

حالیہ مہینوں میں یوٹیوبر رجب بٹ کی شادی میں ملک کے نامور سوشل میڈیا سٹارز کی جانب سے پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا۔ رائفل سے  لے کر شیر کے بچے تک لوگوں نے بے شمار تحائف دیے، جس کی وجہ سے دولہے کو پولیس اسٹیشن کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

ایک طرف پیسہ اڑانے جیسی فضول رسم پروان چڑھ رہی ہے تو دوسری طرف جہیز میں طرح طرح کی چیزیں مانگنا بھی ایک الگ مسئلہ بن گیا ہے، آخر شادیوں پر فضول خرچی کرنے کی وجہ کیا ہے؟

ہرسال ستمبر کے اوائل سے ہی شادیوں کا موسم شروع ہو جاتا ہے اور دسمبر تک جاری رہتا ہے۔ اس دورانیے میں آپ کو سڑکوں پر باراتیوں کی لمبی لمبی گاڑیاں اور بے دریغ خرچ ہوتا ہوا پیسہ نظر آئے گا، مگر غلطی سے کہیں آپ نے ان لوگوں کے سامنے مہنگائی کا نام لے لیا تو ایسا رونا رو ئیں گے کہ آپ ہفتوں پچھتاتے رہیں گے۔

(فوٹو: ایم ایم موٹرز اینڈ رنٹ کار)

کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ جہاں ایک طرف ملک میں لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر رہے ہوں، وہیں دوسری طرف فضول پیسہ خرچ ہو رہا ہو؟

ایک عام فرد یہ سوچنے پر مجبورہو جاتا ہے کہ ’کیسے جاہل لوگ ہیں جو فضول میں پیسے کا ضیاع کر رہے ہیں‘ یا پھر آپ کہیں گےکہ یہ پیسے کی نمائش کی جارہی ہے، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب انھیں رسومات میں جکڑے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب اگر نومبر کو ’شادی ماہ‘ کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ شادیاں نومبر میں ہوتی ہیں، جن میں سب سے زیادہ خرچہ متوسط طبقے کی جانب سے دیکھنے کو ملتا ہے۔

اس وقت خاندان والوں سے شراکت داری ہونے کے نام پر قرضہ لے کر شادی کرنے کا رواج عام ہوچکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دیہاتوں میں عزت کے نام پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے، لیکن شہروں نے اب دیہاتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

شادی ہالوں کے افتتاح کے بعد سے شہر کے تمام شادی ہال ہر وقت بھرے ملتے ہیں۔ فضول خر چی کا یہ عالم ہے کہ چھوٹے ہالوں میں شادی کی بجائے صرف جنم دن کے کیک کاٹے جاتے ہیں۔

شادی ھال میں لوگ کھانا کھا رہے ہیں۔ (فوٹو: گوگل)

یاد رہے کہ یہ وہ لوگ نہیں جو امیر ہیں، بلکہ یہ وہ ہیں جو امیر دکھنا چاہتے ہیں۔

اگر شادیوں پر بے تحاشا پیسہ خرچ کرنے کی وجوہات دیکھی جائیں تو بڑی وجہ یہ سامنے آتی ہے کہ ان کے آبا ؤ اجداد نے اس طرح کی شادیاں کی تھیں، اب اگر وہ فضول خرچی نہیں کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے؟

دوسری طرف اشتہارات اور ڈرامو ں نے فضول خرچی کو ہوا دی ہے، بلاوجہ ایسی چیزیں دکھاتے ہیں جن سےلگتا ہے کہ ان کے بغیر شاید شادی ادھوری ہے۔

عام طور پر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ شادیوں میں یوں فضول خرچی کرنے کی وجہ دکھاوا ہے یا پھر احسا س کمتری؟

یہ ایک نفسیاتی سوال ہے، جس کے بارے میں ماہرین اپنی اپنی رائے رکھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق دونوں جواب ہی اپنی جگہ پر درست ہیں۔ مگر کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ احسا س کمتری ہے جس کے پیشِ نظر فضول خرچی نے جنم لیا ہے۔

(فوٹو: گوگل)

فضول خرچی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شادیوں پر بے بہا پیسہ خرچ کرنے والوں کو لگتا ہے کہ پیسہ خرچ نہ کرنے سے لوگ انھیں اپنے سے کم تر سمجھیں گے اور ان کی عزت نہیں کی جائے گی۔

ایسے لوگوں کو لگتا ہے کہ عزت پیسے سے ملتی ہے اور وہ عزت خریدنے نکل پڑتے ہیں، مگر وہ شاید نہیں جانتے کہ عزت خریدی نہیں جاتی بلکہ کمانی پڑتی ہے۔

ماہرینِ نفسیات کے مطابق ایسے لوگ احسا س کمتری کا شکار ہوتے ہیں، اپنی دھاک بٹھانے کی غرض سے فضول خرچی کرتے ہیں اور بعد میں پریشانیوں کا شکار رہتے ہیں۔

یہ ز یادہ تر سفید پوش طبقے کے لوگ ہوتے ہیں، جو عزت اور احسا س کمتری میں آکر خود کو مصیبتوں میں ڈال لیتے ہیں۔

‘پاکستان میٹرز’ سے شادیوں پر کی جانے والی فضول خرچی کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اسائنمنٹ ایڈیٹر اینڈ بلاگر 24 نیوز ثنا نقوی کا کہنا تھا کہ شادیوں پرکی جانے فضول خرچی کی ایک بڑی وجہ معاشرتی رسومات کی قید ہے۔ اس کے علاوہ دکھاوے، رشتےداروں میں احساسِ برتری اور ذاتی تسکین کے لئے بھی لوگ شادیوں پر فضول خرچی کرتے ہیں۔

دلہن نکاح نامے پر دستخط کر رہی ہے۔ (فوٹو: گوگل)

ثنا نقوی کا کہنا تھا کہ قریبی رشتے داروں اور دوست احباب سے اپنا موازنہ کرنے کی وجہ سے سفید پوش طبقہ احساسِ کمتری کا شکار ہوچکا ہے۔

شادیوں پر کی جانے والی فضول خرچیوں کو روکنے کےلئے ضروری ہے کہ شادی کی رسومات کو سادگی اور شرعی طریقے سے کیا جائے، اس کے علاوہ شادی هالز کے اوقات کار اور ون ڈش کی پابندی میں انتظامیہ کی جانب سے سختی فضول خرچی کو روکنے میں صحیح معنوں میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

یاد رہے کہ ہر پڑھا لکھا انسان یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ شادیوں پر فضول خرچی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، مگر جب وقت آتا ہے تو وہ بھی انھیں فضول رسومات کا شکار ہو جاتا ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہم سب کو اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔

مزید یہ کہ آخر کون سی ایسی وجوہات ہیں، جنھوں نے ہمیں اندر سے اتنا کھوکھلا کر دیا ہے کہ ہم لوگ ایک مصنوعی زندگی جینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس