سندھ اور لاہور ہائی کورٹس نے پیکا ایکٹ کے خلاف درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
پیکا ایکٹ کو صحافیوں اور دیگر ماہرین کی طرف سے اظہار خیال کے خلاف کالا قانون قرار دیا گیا ہے،جس کے خلاف سندھ اور لاہور ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس محمد شفیع صدیقی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پیکا ایکٹ کو چیلنج کرنے والی درخواست کی سماعت کی،عدالت نے استفسار کیا کہ اس قانون میں کیا خرابی ہے، کیا جھوٹی خبریں پھیلانے والے کو سزا کا سامنا نہیں کرنا چاہیے؟
درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر علی طاہر نے بنیادی سوال اٹھایا کہ کون فیصلہ کرتا ہے کہ کیا جھوٹ ہے اور کیا سچ ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام فیصلے عدالتیں نہیں کرتیں، کچھ حکام کی طرف سے بنائے گئے ہیں. “آپ کو حکام کے فیصلوں کے خلاف اپیل کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔”
بیرسٹر علی طاہر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایسے فیصلے عدالت کو کرنے چاہیے کیونکہ ان میں بنیادی حقوق شامل ہیں، چیف جسٹس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے تو کیس کی سماعت آئینی بنچ کرے۔

بیرسٹر علی طاہر نے اٹک سیمنٹ کیس کا حوالہ دیا، جہاں عدالت نے فیصلہ کیا تھا کہ باقاعدہ بنچ کسی بھی قانون کی آئینی توثیق کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سول سوسائٹی اور صحافتی تنظیموں کے ساتھ مل کر پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ نے بھی پیکا ایکٹ کے خلاف دائر درخواست پر فریقین سے 5 مارچ تک جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے درخواست کو اسی نوعیت کی دیگر درخواستوں کے ساتھ سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کی اور مزید سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔
اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی احمد بچھر سمیت دیگر نے اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے توسط سے درخواست دائر کی۔
عدالت عالیہ لاہور کے جسٹس فاروق حیدر نے پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

وکیل نے کہا کہ درخواست میں پیکا ایکٹ کی بعض شقوں کو چیلنج کیا گیا ہے، لہٰذا اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری ہونے چاہئیں،جسٹس فاروق حیدر نے کہا کہ یہ کوئی قانون نہیں، صرف عدالتی نظیر ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پیکا ترمیمی ایکٹ آئین کے آرٹیکل 19 اے کی خلاف ورزی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے نوٹس جاری کرتے مزید سماعت ملتوی کر دی۔