ایلن مسک کی زیر قیادت سرمایہ کاروں کے ایک کنسورشیم نے چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی اوپن اے آئی کو خریدنے کے لیے 97.4 ارب ڈالر کی پیشکش کی ہے جبکہ اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹو سیم آلٹ نے ایلن مسک سے ’ایکس‘ خریدنے کی پیش کش کردی۔
یہ پیش کش اوپن اے آئی کے بانیوں اور دنیا کے امیر ترین شخص کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات کی ایک تازہ ترین جھلک ہے جو اب اربوں ڈالر کی لڑائی میں بدل چکا ہے ۔
ایلن مسک کے وکیل مارک ٹوبروف نے اس پیش کش کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ پیش کش کمپنی کے ‘تمام اثاثہ جات’ کے لیے دی گئی تھی۔ گزشتہ روز یہ باضابطہ طور پر اوپن اے آئی کے بورڈ کے سامنے پیش کی گئی۔ ایلن مسک اس پیش کش کے ذریعے اوپن اے آئی کے مستقبل کی حکمت عملی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹو سیم آلٹ مین نے اس پیش کش پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر ایک دلچسپ پوسٹ کی۔ آلٹ مین نے ایلن مسک کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی ان سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو وہ ایکس (سابقہ ٹویٹر) کو 9.74 بلین ڈالر میں خرید سکتے ہیں۔ اس بیان سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان تعلقات میں شدت آ چکی ہے۔
یہ سب 2015 میں شروع ہوا تھا جب ایلن مسک اور سیم آلٹ مین نے مل کر اوپن اے آئی کی بنیاد رکھی تھی۔ اس وقت یہ ایک غیر منافع بخش ادارہ تھا، جس کا مقصد انسانیت کے فائدے کے لیے مصنوعی ذہانت کی ترقی تھا۔ 2018 میں ٹیسلا اور ایکس باس سے تعلقات کے خاتمے کے بعد دونوں کے درمیان اختلافات بڑھتے گئے۔
آلٹ مین نے کمپنی کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے دوبارہ کوشش کی۔ مسک کا کہنا تھا کہ اوپن اے آئی اب ایک کاروباری ادارہ بن چکا ہے جو انسانیت کے فائدے کے بجائے صرف مالی فائدے پر مرکوز ہے اور آلٹ مین کا کہنا تھا کہ کمپنی کے بہترین مصنوعی ذہانت کے ماڈل تیار کرنے کے لیے منافع بخش ادارہ میں تبدیلی ضروری تھی۔
اوپن اے آئی کی تازہ ترین فنڈنگ راؤنڈ میں کمپنی کی مالیت 157 بلین ڈالر تک پہنچی تھی۔ لیکن مسک کے کنسورشیم کی طرف سے 97.4 ارب ڈالر کی پیش کش کے باوجود کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت کمپنی کی حقیقی قیمت 300 بلین ڈالر کے قریب ہو سکتی ہے۔
مسک نے اس بات پر زور دیا کہ اوپن اے آئی کو ایک اوپن سورس اور سیفٹی فوکسڈ فورس میں واپس آنا چاہیے جو اس کے بانیوں نے تشکیل دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مقصد کمپنی کو اس کی اصل حکمت عملی کی طرف واپس لے جانا ہے تاکہ انسانیت کی بھلا ئی کے لیے مصنوعی ذہانت کی ترقی ہو۔
اس موقع پر اوپن اے آئی کو مسک کی اے آئی کمپنی ‘ایکس اے آئی’ سمیت دیگر نجی ایکویٹی فرموں کی حمایت حاصل ہے۔ جن میں بیرن کیپٹل گروپ اور ویلر مینجمنٹ شامل ہیں۔
دریں اثنا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسٹار گیٹ پروجیکٹ کے نام سے ایک نیا منصوبہ متعارف کرایا ہے۔ جس کا مقصد امریکا میں مصنوعی ذہانت کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کرنا ہے۔ ٹرمپ نے اس منصوبے کو ‘تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا مصنوعی ذہانت انفراسٹرکچر منصوبہ’ قرار دیا ہے اور اس کا دعویٰ کیا ہے کہ یہ امریکا کو ‘ٹیکنالوجی کے مستقبل’ میں مضبوط رکھے گا۔
اگرچہ مسک اور ٹرمپ دونوں کے درمیان قریبی تعلقات ہیں، مگر مسک نے اس منصوبے پر سوال اٹھایا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس میں اتنی رقم نہیں ہے جتنی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا تھا۔
یہ تمام واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک نیا جنگل قائم ہو چکا ہے جہاں مالی طاقت اور اثر و رسوخ کی لڑائی جاری ہے۔ اوپن اے آئی کے مستقبل کا فیصلہ صرف اس کی داخلی حکمت عملی سے نہیں بلکہ ان اربوں ڈالر کی پیشکش سے بھی ہوگا جو اس کی ملکیت کے لیے لڑی جا رہی ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ٹیکنالوجی کے مستقبل کا تعین ہوگا اور شاید انسانیت کے لیے بھی ایک نیا دور شروع ہو گا۔