Follw Us on:

بااختیار خواتین اور صنفی امتیاز کا خاتمہ؟ حقیقت یا افسانہ

زین اختر
زین اختر
ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2023 کے مطابق صنفی امتیاز کے مکمل خاتمے کے لیے دنیا کو مزید 100 سال درکار ہیں۔ (فوٹو: گوگل)

موجودہ دور میں خواتین کو با اختیار بنانے اور صنفی امتیاز کا خاتمہ کرنےکے لیے عالمی سطح پر بہت زیادہ پیش رفت ہوئی ہے، اقوامِ متحدہ کی طرف سے خواتین کے حقوق کے لیے چارٹر بنائے گئے اور عالمی سطح پر شعور اجاگر کیا گیا ہے۔ خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن (سی سی ڈی اے ڈبلیو)  بین الاقوامی برادری خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔

پاکستان میں بھی حالیہ ایک عرصے میں خواتین کے حقوق میں نمایاں بہتری آئی ہے، خواتین تعلیمی و سیاسی میدان میں دیکھی گئی ہیں، مگر اس کےباوجود ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2023 کے مطابق صنفی امتیاز کے مکمل خاتمے کے لیے دنیا کو مزید 100 سال درکار ہیں۔

پاکستان میں تاریخی طور پر خواتین کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کی گئی ہیں، پاکستان میں 1973 کے آئین میں خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا گیا، مختلف قوانین خواتین کے تحفظ کا بل 2006 اور گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل 2012 منظور کیے گئے۔ تعلیم، روزگار، سیاست اور معاشرت میں خواتین کا کردار بتدریج بڑھ رہا ہے، لیکن یہ پیش رفت محدود اور مخصوص طبقات تک محدود ہے۔

واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نے صنفی مساوات کے فروغ کے لیے مختلف قوانین اور پالیسیز متعارف کروائی ہیں۔ خواتین کے تحفظ کے لیے مخصوص قوانین اور کام کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔

ان سب اقدامات کے باوجود پاکستان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے، جس کی بڑی وجہ ان قوانین پر مؤثر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی کی کمی اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔

کسی بھی ملک کی ترقی میں خواتین کا کردار خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جیساکہ بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ ‘کوئی بھی قوم اس وقت تک کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتی، جب تک اس کی خواتین ان کے شانہ بشانہ نہ ہوں۔’

انقلابی شاعر حبیب جالب خواتین کے مظاہرے میں شریک رہے (فوٹو: فیس بک)

اسی لیے اگر صنفی مساوات کا خواب حقیقت بنانا ہے تو  حکومت، سول سوسائٹی، میڈیا اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ مستقبل میں پاکستانی خواتین کے لیے بہتر امکانات پیدا کرنے کے لیے مؤثر قانون سازی، اس پر عملدرآمد اور معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلیاں لانا ہوں گی۔

‘پاکستان میٹرز’ کو یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ عمرانیات کی ڈاکٹر فرزانہ امجد نے بتایا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے شعور میں اضافہ ضرور ہوا ہے، لیکن عملی اقدامات ابھی بھی ناکافی ہیں۔ کئی شعبوں میں خواتین کی شرکت بڑھی ہے، مگر جاب مارکیٹ، پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں ان کا کردار محدود ہے، جسے مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر فرزانہ امجد کے مطابق صنفی امتیاز کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ روایتی سماجی نظریات اور پدرشاہی نظام ہے، جو خواتین کو محدود رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، تعلیم، معاشی مواقع اور قانونی عملدرآمد کی کمزوری بھی خواتین کو مساوی حقوق سے محروم رکھتی ہے۔

فرزانہ امجد نے کہا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی قوانین موجود ہیں، مگر ان پر مؤثر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ خواتین کے خلاف تشدد، ہراسانی، وراثت کے مسائل اور کم عمری کی شادی جیسے معاملات ابھی بھی سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں۔

فرزانہ امجد کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرتی رویے خواتین کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں، کیونکہ اکثر خواتین کو گھر تک محدود رکھنے یا کمزور سمجھنے کی سوچ عام ہے۔ جب تک سماجی سطح پر خواتین کو مساوی حیثیت دینے کا رجحان پروان نہیں چڑھے گا، ترقی کے امکانات محدود رہیں گے۔

لاہور میں 1983 میں بھرپور مظاہرہ کیا گیا (فوٹو: فیس بک)

ماہرِتعلیم پروفیسر ڈاکٹر ثوبیہ ذاکر نے پاکستان میٹرز کو بتایا ہے کہ تعلیم اور معاشی خودمختاری ہی وہ دو عوامل ہیں جو خواتین کو خودمختار بنا سکتے ہیں۔ جب خواتین تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم ہوں گی، تو وہ اپنے حقوق کے لیے کھل کر بات کر سکیں گی اور معاشرے میں اپنی جگہ مضبوط کر سکیں گی۔

ڈاکٹر ثوبیہ ذاکر کے مطابق حکومت کو خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانا ہوگا، تعلیمی اداروں اور دفاتر میں ہراسانی کے خلاف واضح اقدامات کرنا ہوں گے اور خواتین کے لیے خصوصی تربیتی و معاشی منصوبے متعارف کروانے ہوں گے تاکہ انہیں برابری کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔

پروفیسر ثوبیہ ذاکر کہتی ہیں کہ شہری خواتین کو تعلیم اور ملازمتوں تک کچھ حد تک رسائی حاصل ہے، مگر دیہی خواتین صحت، تعلیم اور بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ حکومت کو دیہی خواتین کے لیے خصوصی تعلیمی اور معاشی منصوبے شروع کرنے چاہئیں، تاکہ وہ بھی ترقی کے سفر میں شامل ہو سکیں۔

نجی نشریاتی ادارے دنیا کے اینکر پرسن اسامہ عبید نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں کچھ مثبت اقدامات ضرور کیے جا رہے ہیں، لیکن مجموعی طور پر میڈیا اب بھی روایتی صنفی امتیاز کو فروغ دیتا ہے۔ اشتہارات، ڈرامے اور خبروں میں خواتین کو اکثر کمزور، مظلوم یا روایتی کرداروں میں دکھایا جاتا ہے، جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس