حالیہ برسوں میں سائنس کے میدان میں انقلاب آیا ہے، جس نے دنیا کو ایک گلوبل ویلیج بنا کر رکھ دیا ہے۔ نت نئی ایجاد نے ہماری زندگیوں کو یکسر بدل دیا ہے، اسمارٹ فونز، سوشل میڈیا، اور آن لائن تفریحی ذرائع کی بھرمار نے مطالعے کی روایتی عادت کو متاثر کیا ہے۔
ماضی میں کتب انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ ہوتی تھیں، فارغ اوقات میں مختلف قسم کی کتابیں پڑھنا ہر گھر میں عام تھا، مطالعہ ذہنی نشوونما، تخلیقی سوچ اور علمی وسعت کے لیے بے حد ضروری ہے۔ مطالعے کی عادت انسان کو زندگی کی مشکلات اور غم و فکر سے دور ایک محفوظ پناہ گاہ فراہم کرتی ہے۔
آج کے جدید دور میں سوشل میڈیا، اسمارٹ فونز اور دیگر ڈیجیٹل تفریحات نے ہماری توجہ کو منتشر کر دیا ہے۔
حالیہ تحقیق کے مطابق ایک طالب علم دن میں تقریباً 9 گھنٹے اسکرین کے سامنے گزارتا ہے، جس سے مطالعے کے لیے وقت کم رہ جاتا ہے۔
تیز رفتار زندگی اور وقت کی کمی نے لوگوں کو کتابوں سے دور کر دیا ہے، تعلیمی نصاب میں غیر نصابی کتب کے مطالعے پر کم توجہ، لائبریریوں کی کمی اور کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی اس زوال میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ تعلیم ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا ہے کہ ڈیجیٹل تفریحی ذرائع، تیز رفتار لائف اسٹائل اور مختصر ویڈیوز کے رجحان نے نوجوانوں کی توجہ کا دورانیہ کم کر دیا ہے، جس کے باعث وہ طویل مطالعے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ مزید برآں، تعلیمی نصاب میں تحقیقی اور مطالعاتی عادات کو فروغ نہ دینے کے باعث نوجوانوں میں کتاب بینی کی رغبت گھٹ رہی ہے۔
نوجوانوں میں کتاب بینی کا رجحان کم ہونے کی ایک وجہ ڈیجیٹل تفریحات کی جانب ان کی بڑھتی ہوئی دلچسپی ہے۔ اگرچہ ای بکس اور آڈیو بکس روایتی کتابوں کا متبادل بن سکتی ہیں، لیکن ان کا استعمال بھی محدود ہے۔
‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ تعلیم پروفیسر کامران مجاہد کا کہنا تھا کہ کتابی کلچر کی بحالی کے لیے گھر، اسکول اور معاشرتی سطح پر مثبت تبدیلیاں ضروری ہیں۔ والدین کو بچوں میں مطالعے کی عادت ڈالنے، میڈیا کو کتابوں کو فروغ دینے، اور حکومت کو لائبریریوں کے قیام جیسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کتابوں کو زندگی کا لازمی حصہ بنایا جا سکے۔
یہاں ایک اہم سوال جنم لیتا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو کتابی مطالعے کے فروغ کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ آڈیو بکس اور ای بکس کے ذریعے مطالعے کو آسان بنایا جا سکتا ہے۔ آن لائن بک ریویوز اور بُک کلبز کے ذریعے قارئین کو کتابوں کی جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے بتایا ہے کہ ای بکس اور آڈیو بکس سہولت ضرور فراہم کرتی ہیں، لیکن روایتی کتاب کی اہمیت برقرار رہے گی۔ کاغذ پر لکھی تحریر کو پڑھنے سے ذہنی یکسوئی اور بہتر تفہیم حاصل ہوتی ہے، جو ڈیجیٹل فارمیٹ میں مشکل ہو سکتا ہے۔
پروفیسر کامران مجاہد نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ لائبریریاں مطالعے کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، لیکن پاکستان میں ان کی کمی نوجوانوں کو کتابوں سے دور کر رہی ہے۔ پبلک لائبریریوں کے قیام اور اسکول و کالج کی سطح پر لائبریری کے مؤثر استعمال سے اس رحجان کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ مسلسل سوشل میڈیا، ویڈیوز اور مختصر معلوماتی فارمیٹ دیکھنے کی وجہ سے نوجوانوں کا ذہنی ارتکاز کمزور ہو رہا ہے۔ یہ مسئلہ کتابوں کے طویل مطالعے میں مشکلات پیدا کرتا ہے، کیونکہ مستقل توجہ برقرار رکھنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔
تعلیمی اداروں میں لائبریریوں کا قیام اور طلبہ کو غیر نصابی کتب کے مطالعے کی ترغیب دینا ضروری ہے۔ عوامی اور نجی سطح پر کتاب میلوں کا انعقاد اور حکومتی پالیسیوں میں کتاب بینی کے فروغ پر زور دینا چاہیے۔
پروفیسر کامران مجاہد نے کہا ہے کہ تعلیمی ادارے نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی کتابوں کے مطالعے کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ہفتہ وار ریڈنگ سیشنز، کتابوں پر مباحثے، اور اسٹوڈنٹ لائبریری سسٹم کو فعال بنا کر طلبہ میں کتابوں سے محبت پیدا کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق اگرچہ سوشل میڈیا نوجوانوں کی توجہ بھٹکانے کا سبب بھی بن رہا ہے، لیکن اگر اس کا درست استعمال کیا جائے تو یہ کتابوں کی ترویج کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔ کتابوں کے ریویوز، ریڈنگ چیلنجز، اور بُک کلَبز جیسے اقدامات سے نوجوانوں میں مطالعے کا رجحان بڑھایا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے کتابوں کی ترویج ممکن ہے۔ مشہور شخصیات اور انفلوئنسرز کتابوں کی تشہیر کر کے مطالعے کی عادت کو فروغ دے سکتے ہیں۔
پروفیسر کامران مجاہد کے مطابق پاکستان میں کتابوں کی قیمتوں میں اضافہ اور کاغذ کی قلت جیسے مسائل عام آدمی کو کتابوں سے دور کر رہے ہیں۔ اگر حکومت سبسڈی فراہم کرے اور ڈیجیٹل فارمیٹ میں سستی کتابیں دستیاب ہوں تو کتاب بینی کی عادت کو بحال کیا جا سکتا ہے۔
ڈیجیٹل دور میں کتابی مطالعے کی عادت کو بحال کیا جا سکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ فرد، معاشرہ اور حکومت مل کر اس کے لیے کوشش کریں۔ مطالعے کی عادت نہ صرف فرد کی ذہنی نشوونما کے لیے ضروری ہے بلکہ معاشرتی ترقی کے لیے بھی اہم ہے۔