پاکستانی صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ ہم اسرائیل کے دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہیں اور امریکی صدر کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان کی زمین سے نکالیں۔
جماعتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام فلسطین انٹرنیشنل کانفرنس میں صحافی حامد میر کا کہنا تھا کہ بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح نے 9 دسمبر 1947 کو امریکی صدر ٹرومین کو خط لکھا تھا، جو کہ امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر جا کر پڑھا جا سکتا ہے۔
بانی پاکستان نے خط میں لکھا کہ اقوامِ متحدہ کی فلسطین کے بارے میں قرار داد خود اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے خلاف ہے۔ فلسطین کی تقسیم اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے 1947 میں پیش گوئی کر دی تھی کہ اقوام متحدہ کا یہ فیصلہ نہ فلسطینوں کو مدد کرے گا اور نہ ہی یہودیوں کی مدد کرے گا اور دونوں کو مسائل اٹھانا ہوں گے۔
اقوامِ متحدہ کی قرارداد نمبر 181 نے فلسطین کی تقسیم کر دی اور فلسطین کی تقسیم ایک نو آبادیاتی لائحہ عمل تھا۔ اب اگر حکومت پاکستان کہے کہ ہم دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں تو یہ اقوام متحدہ کی ایک متنازع قرارداد کو تسلیم کرنا ہو گا جو درست نہیں۔
انہوں نے کانفرنس کے شرکا سے متنازع قرارداد مسترد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم شہباز شریف کو کہیں کہ وہ قائداعظم کا امریکی صدر ٹرومین کو لکھا گیا خط پڑھیں۔ اس وقت اسرائیلی وزیراعظم نے قائداعظم نے کو خط لکھ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کہا مگر قائداعظم نے اس کا جواب تک دینا گوارا نہ کیا۔ اس کے بجائے انہوں نے اسرائیلیوں کے آقا امریکا کو خط لکھا۔
مزید پڑھیں: اسرائیل ایک ناجائز اور دہشت گرد ریاست ہے۔
پاکستانی صحافی نے کہا کہ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے جب کہ دوسری طرف ہم کہتے ہیں کہ ہم دو ریاستی حل چاہتے ہیں جو کہ اسرائیل کے قیام پر زور دیتا ہے۔ اس قراردار کے مطابق فلسطین کی سرزمین کے تین ٹکڑے ہونے تھے، ایک اسرائیل کو دوسرا فلسطین کو اور یروشلم سمیت مسجد اقصی کو تیسرا حصہ قرار دیا گیا، جس پر بعد میں اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ ایک طاقتور شخص نے مجھ سمیت تین اور صحافیوں کو کال کی اور کہا کہ وزیر اعظم کے پاس جاکر کہو کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے، جس پر صحافی نے انہیں منع کیا اور کہا کہ یہ میرا کام نہیں اور مجھے ضرورت نہیں ہے کہ وزیرِاعظم کے پاس جاکر کہوں کہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔
دوسری جانب طاقتور شخص کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان کو 10 فوائد ملیں گے اور فلسطینیوں نے اپنی زمین یہودیوں کو خود بیچی اور اس طرح اسرائیل بنا۔
اس شخص نے کہا کہ پاکستان کو فلسطینیوں کے لیے قربان کرنا چاہتے ہیں، جنہوں نے اپنی بہنیں ، مائیں اور سب کچھ بیچ دیا، جس پر پاکستانی صحافی نے کہا کہ جب اسرائیل بنا تھا، تو 90 فیصد زمین فلسطینیوں کے پاس تھی صرف چھ فیصد زمین یہودیوں اور دوسرے لوگوں کو دی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: جنگ کے بعد امریکا اسرائیل کو اسلحہ بھیج رہا ہے لیکن کیوں؟
حامد میر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس پورا اختیار ہے کہ وہ اسرائیل کے ویزے کے بغیر مسجدِ اقصی اور یروشلم جا سکیں، کیونکہ وہ اقوامِ متحدہ کے دائرے کار میں آتی ہیں۔
صحافی نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کے متعلق حالیہ بیان کی سخت مذمت کی جانی چاہیے، کیونکہ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ وہ فلسطین کے وائسرائے ہیں، جب کہ وہ صرف امریکا کے صدر ہیں اور ان کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ فلسطینیوں کو ان کی زمین سے نکال سکیں۔ مزید یہ کہ ان کا بیان عالمی قانون کی خلاف ورزی ہے۔