April 19, 2025 10:44 pm

English / Urdu

Follw Us on:

سمارٹ فونز: آپ کے بچوں کا خطرناک مستقبل؟

مظہر اللہ بشیر
مظہر اللہ بشیر
Dangers of smart phone for children
موبائل فونز کا زیادہ استعمال ان بچوں میں تنقیدی سوچ کو ختم کر رہا ہے جس کی وجہ سے انہیں دوسروں کے جذبات سمجھنے اور معاشرے میں تعلق بنانے میں مشکلات کا سامناہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ آئی پیڈز اور سمارٹ فونز کا حد سے زیادہ استعمال آپ کے بچوں کو ذہنی مریض بنا رہا ہے؟ جی، یہ بالکل درست ہے۔ ایک تحقیق، جس میں بچوں کے آئی پیڈز کے زیادہ استعمال اور ذہنی تبدیلوں کا مطالعہ کیا گیا ہے،اس میں یہ سامنے آیا ہے کہ اسمارٹ فونز کا زیادہ استعمال بچوں کو غیر تخلیقی اور ان کا عادی بنا رہا ہے۔

 

ماہر نفسیات ڈاکٹر توقیر احمد نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  “سمارٹ فونز اور آئی پیڈز کا زیادہ استعمال بچوں میں ڈپریشن، بے چینی اور نیند کی کمی جیسے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ایک حد سے زیادہ اسکرین ٹائم بچوں کی توجہ کو متاثر کرتا ہے اور انہیں حقیقی دنیا سے ان کی دوری بڑھا دیتا ہے۔”

 

بہت سی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ ٹیکنالوجی کا بے دریغ استعمال 2010 کے بعد پیدا ہونے والے بچوں پر بہت برے اثرات مرتب کر رہا ہے۔ آئی پیڈز اور آئی فونز کا زیادہ استعمال بچوں میں معاشرتی مسائل، اخلاقیات کے خاتمے اور جذباتی پیچیدگیوں کو جنم دیتا ہے۔

جب انہیں سکرین سے دور کیا جاتا ہے تو وہ بے چینی، چڑچڑے پن اور غصے کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر توقیر احمد کے مطابق “2010 کے بعد پیدا ہونے والے بچے ایک ایسے دور میں پروان چڑھ رہے ہیں جہاں ٹیکنالوجی ہر جگہ موجود ہے۔ والدین بھی بچوں کو زیادہ اسکرین ٹائم دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جسمانی سرگرمیوں اور سماجی میل جول سے محروم ہو جاتے ہیں۔”

 

2010 یا اس کے بعد میں پیدا ہونے والے بچوں کو آئی پیڈز کے بے دریغ اور مسلسل استعمال کی وجہ سے آئی پیڈز بچے بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں ایسا کہنے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ آئی پیڈ 2010 میں آیا تھا۔ان سالوں میں پیدا ہونے والے بچوں کو ٹیکنالوجی تک کھلم کھلا رسائی حاصل ہے جس کی وجہ سے ان بچوں کا قدرتی چیزوں سے تعلق منقطع ہو کر رہ گیا ہے۔

 

موبائل فونز کا زیادہ استعمال ان بچوں میں تنقیدی سوچ کو ختم کر رہا ہے جس کی وجہ سے انہیں دوسروں کے جذبات سمجھنے اور معاشرے میں تعلق بنانے میں مشکلات کا سامناہے۔

 

ڈاکٹر توقیر احمد کا کہنا ہے کہ “مسلسل سکرین پر رہنے والے بچے تخلیقی سرگرمیوں جیسے کہ مطالعہ، ڈرائنگ یا ذہنی مشقوں میں کم دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ صورتحال ان کے دماغی ارتقا پر بھی اثر ڈالتی ہے کیونکہ وہ جلد بازی کے عادی ہو جاتے ہیں اور گہری سوچ کے عمل سے گریز کرتے ہیں۔”

 

بہت سے تحقیقات بتاتی ہیں کہ جو بچے سکرینز پر حد سے زیادہ وقت گزارتے ہیں انہیں ہاتھوں سے کام کرنے مثلاً پڑھنے اور لکھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے بچے اسمارٹ فونز سے روایتی انداز میں صلاحیتیں سیکھنے میں مشغول رہتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے کوئی کام نہیں کرتے۔

سمارٹ فونز اور آئی پیڈز کا زیادہ استعمال بچوں میں ڈپریشن، بے چینی اور نیند کی کمی جیسے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔

سکرینز پہ حد سے زیادہ وقت گزارنے سےبچوں میں معاشرتی، جذباتی اور اپنی اہمیت کے متعلق مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ  دوسروں  کے چہروں کے تاثرات کو سمجھنے اور نئی معاشرتی صلاحیتیں سیکھنے میں بچے مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔

 

ڈاکٹر توقیر احمد سمجھتے ہیں کہ “جو بچے زیادہ وقت ڈیجیٹل ڈیوائسز پر گزارتے ہیں وہ حقیقی دنیا میں دوسروں سے بات چیت میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ ان میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے اور وہ جذباتی طور پر الگ تھلگ ہو سکتے ہیں۔”

 

دوسری جانب جب والدین اپنے بچوں سے آئی پیڈز لینے کی کوشش کرتے ہیں تو بچے غصے اور مایوسی میں خطرناک حد تک ردِعمل کا اظہار کرتے  ہیں۔

 

جو بچے دن میں دو گھنٹوں سے زیادہ آئی پیڈز استعمال کرتے ہیں وہ زیادہ معاشرتی اور جذباتی مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ آئی پیڈز استعمال کرنے کے دوران وہ اپنی اہمیت کے مسائل کا بھی سامنا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر ان کو یہ اہمیت نہیں ملتی تو وہ اس پر غصے سے ردعمل دیتے ہیں۔

 

ڈاکٹر توقیر احمد کے مطابق “اسمارٹ فونز بچوں میں فوری تسکین کی عادت ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے جب انہیں سکرین سے دور کیا جاتا ہے تو وہ بے چینی، چڑچڑے پن اور غصے کا شکار ہو جاتے ہیں۔”

 

2017 تک 80 فیصد بچوں کی رسائی آئی پیڈز یا اس سے ملتی جلتی مصنوعات تک ہو چکی تھی۔ مزید یہ کہ اسمارٹ فونز کا بے جا استعمال کرنے والے بچے تعلیمی میدان میں بھی بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے رویوں میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور وہ چڑچڑےہوجاتے ہیں۔

 

ماہر تعلیم پروفیسر زاہد بلال نے ‘پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “زیادہ اسکرین ٹائم بچوں کی توجہ کو کم کر دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ کلاس روم میں توجہ نہیں دے پاتے۔ اس کے علاوہ یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے جس سے تعلیمی نتائج پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔”

 

اساتذہ کے لیے ایسے بچوں کے رویے برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ بچے ان کی عزت نہیں کرتے اور ان کے ساتھ بُرا رویہ اپناتے ہیں۔ بالآخر تنگ آکر اساتذہ  اپنی نوکریاں تک چھوڑ دیتے ہیں۔

 

واضح رہے کہ اس میں غلطی محض بچوں کی نہیں ہے بلکہ والدین بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔ آج کل کے اس جدید دور میں والدین کے پاس اپنے بچوں کو دینے کے لیے وقت نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو اسمارٹ فونز لے کر دے دیتے ہیں اورنتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے اسمارٹ فونز کے ہاتھ میں آتے ہی والدین کو بھول جاتے ہیں۔

 

پروفیسر زاہد بلال کے مطابق “والدین کا بچوں کو خاموش اور مصروف رکھنے کے لیے آئی پیڈز دینا ایک خطرناک رویہ ہے۔ اس سے بچے حقیقی دنیا کے مسائل کو خود حل کرنے کے قابل نہیں بنتے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں اور انہیں تخلیقی سرگرمیوں میں مشغول رکھیں۔”

 

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں اور انھیں باہر گھومنے کے لیے لے جائیں تاکہ وہ معاشرے کی رسم و رواج سمجھ سکیں اور وہ سیکھیں کہ انھیں کس طرح لوگوں سے پیش آنا ہے۔ تعلیمی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی بچوں کے اسکرین ٹائم کو کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

 

پروفیسر زاہد بلال کا ماننا ہے کہ “والدین کو بچوں کے لیے کھانے کے اوقات اور سونے سے پہلے مخصوص ‘نو سکرین زون’ بنانے چاہئیں۔ تعلیمی اداروں کو بھی نصاب میں زیادہ جسمانی اور تخلیقی سرگرمیاں شامل کرنی چاہئیں۔”

دورِ جدید میں ٹیکنالوجی زندگی کے ہر شعبے میں ایک لازم جزو بن کئی ہے۔ لیکن ضرورت سے زیادہ اسکرین ٹائم خاص کر بچوں پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

 

پروفیسر زاہد بلال کا کہنا ہے کہ “ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر چھوڑنا ممکن نہیں لیکن اس کا متوازن استعمال ضروری ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کے لیے اسکرین ٹائم کی حد مقرر کریں اور انہیں تعلیمی اور تخلیقی سرگرمیوں کے لیے ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی ترغیب دیں۔”

 

موجودہ دور میں ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہے لیکن اس کا حد سے زیادہ استعمال بچوں کی ذہنی، جذباتی اور تعلیمی نشوونما پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کے لیے متوازن اسکرین ٹائم مقرر کریں اور انہیں جسمانی و سماجی سرگرمیوں میں مشغول رکھیں۔ صحت مند ذہنی نشوونما کے لیے جسمانی سرگرمیوں، تخلیقی مشاغل اور سماجی میل جول کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے۔ اسی صورت میں ہی بچے ایک متوازن اور خوشگوار زندگی گزار سکیں گے۔

مظہر اللہ بشیر ملٹی میڈیا جرنلسٹ کی حیثیت میں پاکستان میٹرز کی ٹیم کا حصہ ہیں۔

مظہر اللہ بشیر

مظہر اللہ بشیر

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس