’ہمیں عالمی ناانصافی پر خاموش نہیں رہنا‘ بوڈوفٹبال کلب نے یوروپا لیگ میچ کی آمدنی غزہ کے نام کردی

ناروے کے فٹ بال کلب نارویجن بوڈو(گلیمٹ) نے ایک عظیم انسانی اقدام کے تحت فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے، یوئیفا یوروپا لیگ کے میچ کے ٹکٹوں کی آمدنی کا 65,000 ڈالر غزہ کی امداد کے لیے عطیہ کر دیا ۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب غزہ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی فوجی حملوں کی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں 47,000 سے زائد فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں اورعلاقے کا بیشتر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔ بوڈو نے اسرائیل کے مکابی تل ابیب کے خلاف 23 جنوری 2025 کو ہونے والے یوئیفا یوروپا لیگ کے میچ کی آمدنی کو غزہ کے لیے عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس میچ میں بوڈو نے مکابی تل ابیب کو 3-1 سے شکست دی، اور اس فتح کے ساتھ ہی کلب نے پورے میچ کی ٹکٹوں کی آمدنی، جو کہ 735,000 نارویجن کرونر(تقریباً 65,000 امریکی ڈالر) بنتی ہے، غزہ میں انسانی امداد کی کوششوں کے لیے ریڈ کراس کو عطیہ کر دی۔ نارویجن کلب کے ترجمان نے اس اقدام کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’دنیا کے دیگر حصوں میں ہونے والی عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور مصائب سے گلیمٹ متاثر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ہوگا۔ ہم میکابی تل ابیب کے خلاف اس میچ سے حاصل ہونے والی تمام ٹکٹوں کی آمدنی غزہ کی امدادی کارروائیوں کے لیے مختص کر رہے ہیں۔ یہ رقم ہم سب کی طرف سے عطیہ کی جا رہی ہے’۔ یہ انسانی اقدام عالمی سطح پر فلسطینی عوام کی حمایت میں ایک اہم پیغام دے رہا ہے، جو کہ جنگ، تباہی اور بے شمار مشکلات کا شکار ہیں۔ ناروے نے مئی 2024 میں اسپین اور آئرلینڈ کے ساتھ مل کر فلسطین کی ریاست کو تسلیم کیا تھا اور جنگ بندی اور تنازع کے منصفانہ حل کی حمایت کی تھی۔ حالیہ جنگ بندی، جو 19 جنوری کو قطر، امریکا اور مصر کی ثالثی کے بعد عمل میں آئی، ایک نازک راحت فراہم کرنے کے باوجود غزہ کی آبادی کی شدید مشکلات کو کم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ نارویجن کلب نے اس عطیہ کے ذریعے صرف فٹ بال کے میدان میں اپنے کردار کو نہیں بلکہ عالمی یکجہتی کے حوالے سے بھی ایک اہم پیغام دیا ہے۔ کلب کے صدر نے کہا کہ ‘ہم سیاست میں مداخلت کرنے والے نہیں ہیں، لیکن ہمیں انسانیت کے اصولوں کے تحت ناانصافی کے سامنے خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ کہتے نہیں عمل بھی کرتے ہیں۔’ بوڈو کا یہ قدم عالمی کھیلوں کی دنیا میں ایک نئے انداز کی مثال بن چکا ہے جہاں کھیل کو عالمی مسائل کے حل کے لیے ایک طاقتور ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس میچ کے ذریعے جمع کی جانے والی رقم غزہ میں ریڈ کراس کی امدادی کوششوں پر خرچ کی جائے گی، جو کہ غزہ میں انسانی بحران کے دوران ضروری امداد فراہم کرے گی۔ غزہ میں فلسطینی عوام، جنہوں نے جنگ کی تباہ کاریوں، نقصانات اور بے شمار مشکلات کا سامنا کیا ہے، اس امداد سے فوری طور پر فائدہ اٹھائیں گے۔ نارویجن کلب کا یہ اقدام ایک ایسی کہانی پیش کرتا ہے جو صرف فٹ بال سے متعلق نہیں، بلکہ انسانیت کے لیے ایک سبق ہے کہ کھیل کی طاقت سے عالمی مسائل پر بھی اثر ڈالا جا سکتا ہے۔ یقینی طور پر، بوڈو کا یہ اقدام عالمی کھیلوں کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کرے گا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
عرب وزرا خارجہ نے فلسطینیوں کو ہمسایہ ممالک بھیجنے کا ’ٹرمپ منصوبہ‘ مسترد کردیا

عرب وزرائے خارجہ نے امریکی صدر کے فلسطینیوں کو دوسرے ممالک میں بھیجنے کے منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ عرب وزرائے خارجہ نے ہفتے کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مصر اور اردن سے غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کو لینے کے مطالبے کے خلاف متفقہ موقف پیش کرتے ہوئے فلسطینیوں کو کسی بھی صورت میں ان کی سرزمین سے منتقل کرنے کو مسترد کر دیا۔ قاہرہ میں ہونے والے اجلاس کے بعد ایک مشترکہ بیان میں مصر، اردن، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، فلسطینی اتھارٹی اور عرب لیگ کے وزرائے خارجہ اور حکام نے کہا کہ اس طرح کے اقدام سے خطے میں استحکام کو خطرہ ہوگا ، تنازعات پھیلیں گے اور امن کے امکانات کو نقصان پہنچےگا۔ “مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ”ہم فلسطینیوں کے حقوق سے سمجھوتہ کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں، خواہ وہ آبادکاری کی سرگرمیاں ہوں ، زمینی انخلاء یا الحاق کے ذریعے مالکان سے زمین خالی کرنا “۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ دو ریاستی حل کی بنیاد پر مشرق وسطیٰ میں ایک منصفانہ اور جامع امن کے حصول کے لیے ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ کام کرنا چاپتے ہیں۔ یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب ٹرمپ نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ مصر اور اردن کو غزہ سے فلسطینیوں کو لے جانا چاہیے، جسے انہوں نے 15 ماہ کی اسرائیلی بمباری کے بعد مسمارشدہ جگہ قرار دیا تھا ۔جہاں 2.3 ملین افراد میں سے زیادہ تر کو بے گھر کر دیا تھا۔ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے بدھ کے روز اس خیال کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ “مصر غزہ کے لوگوں کی نقل مکانی میں سہولت فراہم کرے گا۔ مصری اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پر نکلیں گے”۔ جمعرات کو ٹرمپ نے مصر اور اردن دونوں کے لیے فوجی امداد سمیت وافر امریکی امداد دینےکا اعلان کرتے ہوئے کہا “ہم ان کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں، اور وہ ہمارے لیے یہ کرنے جا رہے ہیں”۔ فلسطینی قیادت کے مطابق وہ علاقہ جسے ہم ایک آزاد ریاست کا حصہ بنانا چاہتے ہیں، وہاں سےنکلنے کی کوئی بھی تجویزپسند نہیں کی جائے گی۔ اکتوبر 2023 میں غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے پڑوسی عرب ریاستوں نے اسے بار بار مسترد کیا ہے۔ اردن پہلے ہی کئی ملین فلسطینیوں کا گھر ہے جبکہ ہزار وں مصر میں بھی رہتے ہیں۔ مصر اور اردن کی وزارت خارجہ نے حالیہ دنوں میں ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ عرب وزراء نے اقوام متحدہ کے ساتھ ایک عالمی کانفرنس منعقد کرنے کے مصر کے منصوبے کا بھی خیرمقدم کیا جس میں غزہ کی تعمیر نو پر توجہ دی جائے گی، جو اسرائیل اور حماس کے درمیان 15 ماہ کی جنگ کے دوران زیادہ تر ویران ہے۔ کانفرنس کے لیے ابھی کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی۔
ماحولیاتی تبدیلی: کیا زمین کو بچانے کا وقت ختم ہو رہا ہے؟

ماحولیاتی تبدیلی، جسے گلوبل وارمنگ بھی کہا جاتا ہے، دنیا بھر میں درجہ حرارت میں اضافہ اور قدرتی ماحول کی خرابی کا باعث بن رہی ہے، جس کے سنگین اثرات پاکستان جیسے ممالک پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق، انسانی سرگرمیاں جیسے فوسل فیولز کا استعمال اور جنگلات کی کٹائی اس تبدیلی کے اہم عوامل ہیں۔ اس کی وجہ سے موسموں میں بے ترتیبی، گرمیوں میں شدت، سردیوں کا طویل ہونا اور سموگ جیسے مسائل جنم لے چکے ہیں۔ امریکا جیسے ممالک کی جانب سے ماحولیاتی معاہدوں سے انکار، جیسے کہ پیرس معاہدہ، عالمی سطح پر اس مسئلے کے حل کو مزید مشکل بنا رہا ہے۔ اس بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف قدرتی وسائل کو بچایا جا سکے بلکہ انسانوں کی صحت اور معیشت کو بھی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونے والے مسائل میں فصلوں کی پیداوار میں کمی، پانی کی کمی اور پینے کے صاف پانی تک رسائی کا فقدان، صحت کے مسائل، جیسے اسموگ اور ہیٹ اسٹروک اور سیلاب اور طوفانوں کے باعث بنیادی ڈھانچے کی تباہی شامل ہے۔
برطانوی شہزادی کیٹ کی کینسر کے بعد شاہی کردار میں واپسی

برطانوی ویلز کی شہزادی، کیٹ میڈلٹن نے کینسر کے علاج کے بعد اپنے پہلے عوامی پیغام میں کہا کہ معاشرتی اور جذباتی صلاحیتوں کی پرورش کے بغیر حقیقی ترقی ممکن نہیں۔ شہزادی کیٹ کی یہ اہم گفتگو رائل فاؤنڈیشن سینٹر فار ارلی چائلڈہوڈ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں سامنے آئی۔ کیٹ نے کہا کہ ’اگر ہم ایک صحت مند اور خوشحال معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنے رویوں اور جذبات پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر تبدیلی لائیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں‘۔ شہزادی نے نشے اور ذہنی صحت کی خرابیوں جیسے سنگین مسائل کے حل کے لیے سماجی اور جذباتی صلاحیتوں کی اہمیت کو اجاگر کیا، اور کہا کہ ہمیں ان صلاحیتوں کی پرورش کرنی ہوگی تاکہ ہم اپنے رشتہ داروں اور کمیونٹی کے ساتھ مضبوط روابط قائم کر سکیں۔ شہزادی کیٹ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس طرح کی مہارتیں لوگوں کو ذہنی سکون، اعتماد اور تعاون کی طرف راغب کرتی ہیں، جس سے نہ صرف فرد کی زندگی بلکہ پورے معاشرے میں بھی بہتری آتی ہے۔ کیٹ اور شہزادہ ولیم کی رائل فاؤنڈیشن نے ’ارلی چائلڈ ہوڈ‘ مرکزکی بنیاد رکھی تاکہ بچوں کی ابتدائی تربیت اور ذہنی نشوونما میں ان صلاحیتوں کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔ شہزادی کیٹ اس وقت اپنے عوامی شاہی کردار میں واپس آ رہی ہیں، کیونکہ انہوں نے حال ہی میں کینسر کی ایک غیر واضح قسم کے علاج کے لیے کیموتھراپی کا کورس مکمل کیا ہے اور گزشتہ ہفتے دو اہم تقریبات میں شرکت کی۔ ان کی یہ واپسی ان کے عزم اور ہمت کا مظہر ہے، اور وہ اب مزید توانائی اور حوصلے کے ساتھ عوامی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
سوڈان کی مرکزی سبزی منڈی پر حملہ: 56 افراد ہلاک ہو گئے

سوڈان کے شہر اومدرمان کی سبزی منڈی پر توپ خانے کی گولہ باری اور فضائی حملوں کے نتیجے میں کم از کم 56 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز ہونے والے اس حملے میں کم از کم 158 افراد زخمی بھی ہوئے تھے جس کا الزام فوجی گروہ ریپڈ سپورٹ فورسز پر لگایا گیا تھا۔ وزیر ثقافت اور حکومتی ترجمان خالد العیسیر نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ “ہلاک ہونے والوں میں بہت سی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حملے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے”۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا، ’’یہ مجرمانہ فعل اس فوجی گروہ کے خونی ریکارڈ میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ عالمی انسانی قانون کی سیدھی خلاف ورزی ہے”۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ توپ خانے کی گولہ باری مغربی اومدرمان سے ہوئی، جہاں آر ایس ایف کا کنٹرول ہے اور انہیں ڈرونز کی مدد حاصل ہے۔ ایک رہائشی والدنے خبر رساں ادارےاے ایف پی کو اومدرمان میں بتایا کہ “ایک ہی وقت میں مختلف سڑکوں پر فائرنگ کر رہے تھے۔”انہوں نے مزید کہا کہ راکٹ اور توپ خانے سے گولہ باری ہو رہی تھی۔” ایک زندہ بچ جانے والے نے بتایا کہ گولے سبزی منڈی کے درمیان میں گرے، اسی وجہ سے بہت زیادہ لوگ جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں۔ قریب واقع الناؤ ہسپتال کے عملے نے کہا کہ” وہ ہلاکتوں کی تعداد سے حیران ہیں اور زخمیوں کو ابھی تک ہسپتال لایا جا رہا ہے”۔ہسپتال کے ایک رضاکار نے کہا کہ “انہیں زخمیوں کو لے جانے کے لیے کفن، خون کے عطیہ کرنے والوں اور اسٹریچرزکی اشد ضرورت ہے”۔ خرطوم میں ایک اور واقعے میں کےاے آر ایف کے زیر کنٹرول علاقے پر فضائی حملے میں دو شہری مارے گئے۔ مقامی ایمرجنسی رسپانس روم نے اے ایف پی کے حوالے سے بتایا کہ شہری ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ ای آر آرسوڈان بھر میں ہنگامی دیکھ بھال کرنے والی سینکڑوں رضاکار کمیٹیوں میں سے ایک ہے۔ سوڈانی فوج اور آر ایس ایف کے درمیان اپریل 2023 میں جنگ چھڑ گئی تھی۔ اس نے ہزاروں لوگوں کو ہلاک کیا، لاکھوں لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال دیا اور نصف آبادی کو فاقوں میں ڈالا۔ ہفتے کے روز ہونے والا حملہ آر ایس ایف کے کمانڈر محمد حمدان ڈگلو کے فوج سے دارالحکومت واپس لینے کا وعدہ کرنے کے ایک دن بعد ہوا ہے۔ سوڈان کی فوج نے گزشتہ ماہ خرطوم میں کئی اڈوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا، جن میں اس کا جنگ سے پہلے کا ہیڈکوارٹر بھی شامل ہے، جس نےآر ایس ایف کو تیزی سے شہر کے مضافات میں دھکیل دیا۔
محمد بن سلمان کا ویژن 2030، حقیقت یا افسانہ

انیس سو پچھتر میں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل نے خواتین کی تعلیم کے لئے اداروں کے قیام کی اجازت دی اور ٹیلی ویژن پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے کئی معاشی اصلاحات متعارف کروائیں۔ نتیجتاً ایک دعوت میں اپنے بھتیجے سے بغل گیر ہو رہے تھے کہ بھتیجے کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ قتل کی حقیقی محرکات کیا تھے اس حوالے سے سعودی تاریخ آج تک خاموش ہے۔ محمد بن سلمان کے کراؤن پرنس بننے کے بعد آج سعودی عرب ایک انقلاب سے گزر رہا ہے۔ وہ ملک جہاں اونٹوں کی ریس کے علاوہ کوئی دوسرا کھیل نظر نہیں آتا تھا، ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ کی جانب سے ریسلنگ کے سب سے بڑے مقابلے ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں 2034 کا فیفا فٹبال ورلڈ کپ بھی سعودی عرب میں کھیلا جائے گا۔ ایک روایتی اسلامی ملک جہاں خواتین نقاب یا حجاب کے بنا گھر سے نکل نہیں سکتیں تھی وہاں خواتیں کے لئے ڈرائیونگ سکول قائم ہو چکے ہیں جہاں سے ہر ماہ سینکڑوں کی تعداد میں خواتین ڈرائیونگ کے لائسنس حاصل کر رہی ہیں۔ خواتین کے نقاب پر پابندی اٹھا دی گئی ہے اور وہ اپنی مرضی سے کوئی بھی لباس پہن سکتی ہیں۔ آج سعودی عرب میں خواتین بائیک رائیڈنگ کرتی ہوئی بھی نظر آتی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں تفریح کے نام پر 400 سے زائد سینمار گھر بھی کھولے جا چکے ہیں۔ میوزک، آرٹ اور کلچرل سر گرمیوں پر عائد پابندیاں بھی اٹھائی جا چکی ہیں، آئے روز ڈانس کلبز کے افتتاح ہو رہے ہیں۔ مکہ اور مدینہ کے شہروں کو چھوڑ کر دیگر شہروں میں اذان کے بعد قرآن کی تلاوت پر پابندی عائد کی جا چکی ہے تا کہ سیاحوں کو شور کی آلودگی سے محفوظ رکھتے ہوئے پر سکون ماحول فراہم کیا جا سکے۔ مذہبی پولیس کی سرگرمیوں اور اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے۔ انہیں کسی بھی پبلک پلیس پر لوگوں کی معاشرتی اور اخلاقی سرگرمیوں پر نظر رکھنے سے روک دیا گیا ہے۔ وہابی ازم جو 2 صدیوں سے آل سعود کے خاندان کی بادشاہت کو مذہبی جواز فراہم کرتا رہا ہے۔ جس کے سر پر سعودی عرب کے عوام کی اخلاقی، معاشرتی اور مذہبی تربیت کے حوالے سے پالیسیز کی تشکیل کی ذمہ داری تھی وہ محمد بن سلمان آج وہابی ازم کو سعودی ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ وہ سعودی عرب کو وہابی فکر سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ الشیخ فیمیلی کا اثرورسوخ دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔ مختلف شیوخ کو محمد بن سلمان کی پالیسیز پر تنقید کرنے کی پاداش میں جیلوں میں بند کر دیا گیا ہے۔ گزستہ چند سالوں میں دنیا بھر سے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی نامور سیلیبرٹیز کیلئے سعودی عرب کے مختلف شہروں میں پرفارمنسز کا انععقاد کیا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں سے مذہبی تعلیمات کی جگہ تنقیدی سوچ کا حامل نصاب متعارف کروایا جا رہا ہے تا کہ طالبعلم ان مذہبی احکامات پر سوال اٹھا سکیں جو موجودہ دنیا کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے اور سعودی عرب کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے جاتے ہیں۔ لہٰذا سعودی عرب کو بدلتی دنیا میں جدید تقاضوں سے ہمکنار کرنے کے لئے مذہبی شدت پسندی میں کمی لانے کے نام پر آرٹ، فنون لطیفہ، کلچرل سرگرمیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ویژن 2030 کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ ویژن 2030 کراؤن پرنس محمد بن سلمان کی جانب سے 2016 میں لانچ کیا گیا تھا، اس کا مقصد سعودی عرب کی معیشت اور معاشرت میں بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کروانا تھا۔ سعودی عرب کی معشیت کے سالانا جی ڈی پی کا 80 فیصد حصہ تیل کی برآمدات سے حاصل ہوتا ہے۔ 2011 میں محمد بن سلمان جب سعودی سیاست کے افق پر طلوع ہوئے تومختلف وجوہات کی بنا پر دنیا بھرمیں تیل کی قیمتیں 80 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 35 ڈالر فی بیرل پر آگئیں تھیں جس وجہ سے سعودی معشیت کو بڑا دھچکا لگا تھا۔ دوسری طرف مغربی ممالک کی جانب سے بھی تیل کی طلب میں کمی واقع ہو گئی اور دن بدن تیل کے ذخائر میں بھی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ ان اصلاحات کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کی 36 ملین آبادی کا 70 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جو یو اے ای سے آپریٹ ہونے والے این بی سی مووی چینل کو دیکھ کر جوان ہوا ہے اور مغربی اقدار کو پسند کرتا ہے۔ نوجوانوں کی اتنی بڑی آبادی کو انگیج کرنے کے لئے اور بادشاہت کو اندرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لئے ایسی اصلاحات متعارف کروانا وقت کا تقاضا بھی ہے اور ضرورت بھی۔ یہاں ایک بات ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ محمد بن سلمان یہ سب کچھ مغربی طاقتوں کی ایما پر نہیں کر رہے بلکہ محمد سلمان دانستً میں یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں ترقی کا آغاز تب ہوا جب مغرب نے مذہب اور سیاست کو علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ لہٰذا سعودی معشیت کا تیل پر انحصار کم کرنے اور سعودی معاشرے کو جدید دنیا سے ہمکنار کرنے کے لئے ویژن 2030 کو متعارف کروایا گیا تھا۔ اسی ویژن کے تحت 500 ملین یوایس ڈالر کی لاگت سے سعودی عرب کے شمالی مغربی علاقے پر نیوم نامی شہر تعمیر کیا جائے گا جو ساڑھے 10 ہزار مربع میل رقبے پر پھیلا ہوا ہو گا اور بحراحمر کی ساحلی پٹی سے منسلک ہو گا۔ اس کی سرحد مصر اور اردن تک پھیلی ہوئی ہو گی۔ نیوم شہر میں اور بھی فلک بوس پراجیکٹس ‘دی لائن’ اور ‘دی مرر’ کے نام سے تعمیر کئے جا رہے ہیں جہاں سڑکیں ہوں گی نہ کاریں بلکہ برقی ریل گاڑیاں شہریوں کی ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کریں گی، توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہائیڈروکاربن کی بجائے توانائی کے ماحول دوست فطری ذرائع کو استعمال میں لایا جائے گا۔ کنگ سلمان پارک کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا پارک بھی تعمیر کیا جا رہا ہے جو سنٹرل پارک سے 5 گنا بڑا ہو گا۔ سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض میں ایک مصنوئی اربن فورسٹ کی تعمیر
امریکا کا درآمدات پر ٹیکس: ٹروڈو کی شہریوں کو امریکا نہ جانے کی تلقین

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز میکسیکو، کینیڈا اور چین سے آنے والی اشیا پر بڑے پیمانے پر ٹیکس لگانے کا حکم دیا اور کہا کہ وہ فینٹینائل کے آنے کو روکیں گے۔ دوسری جانب کینیڈا اور میکسیکو کے معاملے میں غیر قانونی تارکین وطن امریکا میں، ایک تجارتی جنگ کا آغاز کر سکتے ہیں جس سے عالمی ترقی میں نقصان اور مہنگائی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ میکسیکو اور کینیڈا، جو امریکا کے سرفہرست تجارتی شراکت دار ہیں، نے فوری طور پر جوابی ٹیرف لگانے کا فیصلہ کیا۔ چین نے کہا کہ وہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں ٹرمپ کے اقدام کو چیلنج کرے گا اور دیگر جوابی اقدامات کرے گا۔ تین ایگزیکٹو آرڈرز میں، ٹرمپ نے میکسیکو اور کینیڈا کی زیادہ تر درآمدات پر 25فیصداور چین سے آنے والی اشیا پر 10فیصد ٹیکس عائد کیے ہیں، جو منگل سے شروع ہو رہے ہیں۔ پیٹرول اور دیگر تیل کی مصنوعات پر وسطی مغربی ریاستوں کی طرف سے اٹھائے گئے خدشات کے جواب میں، ٹرمپ نے کینیڈا سے توانائی کی مصنوعات پر صرف 10فیصد ٹیکس لگایا، جبکہ میکسیکو کی توانائی کی درآمدات کو پورے 25فیصد ٹیرف کا سامنا ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ “کینیڈا 155 بلین ڈالر کی امریکی اشیا بشمول بیئر، وائن، لکڑی اور مختلف آلات پر 25 فیصد ٹیکس کے ساتھ جواب دے گا، جس کا آغاز منگل سے 30 بلین ڈالر اور 21 دن بعد 125 بلین ڈالر سے ہوگا”۔ ٹروڈو نے امریکی شہریوں کو کہا کہ ٹرمپ کے ٹیکس سے ان کے کپڑے جوتوں اور پٹرول کی قیمتیں بڑھ جائیں گی اور آٹو اسمبلی پلانٹس بند ہو جائیں گے۔اور نکل، پوٹاش، یورینیم، سٹیل اور ایلومینیم جیسی اشیا کی سپلائی کم ہو جائے گی۔ انہوں نے اپنے شہریوں کو کہا کہ وہ امریکا کا سفر نہ کریں اور امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں”۔ میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بام نے سماجی رابطے کی ایپ ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ اپنے وزیر اقتصادیات کو جوابی ٹیرف لاگو کرنے کی ہدایت کر رہی ہیں لیکن انہوں نے اس کی کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔ کینیڈا اور میکسیکو نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے ٹیکسز کا سامنا کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ چین کی وزارت تجارت نے جوابی اقدامات کی وضاحت نہیں کی۔ ان کے بیان نے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان مذاکرات کا دروازہ کھولا ہوا ہے۔ اس نے کہا “چین کو امید ہے کہ امریکا اپنے فینٹینائل اور دیگر مسائل کو عقلی انداز میں دیکھے گا اور حل کرےگا”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “بیجنگ کھلے انداز میں بات کرنا چاہتا ہے، تعاون کو مضبوط اور اختلافات کو منظم کرنا چاہتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ایک فیکٹ شیٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس بحران کے خاتمے تک برقرار رہیں گے، لیکن اس بارے میں زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں گئی کہ تینوں ممالک کو بحالی کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہوگی۔
ایف بی آر کا جنوری میں ٹیکس وصولی کا نیا ریکارڈ مگر پھر بھی 84 ارب خسارے کا سامنا

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے جنوری میں 872 ارب روپے کا ریکارڈ ٹیکس ریونیو اکٹھا کیا ہے،جو کہ گزشتہ سال یعنی جنوری 2024 ء کی نسبت 29 فیصد زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔29 فیصد اضافہ ہونے کے باوجود ایف بی آر کو ہدف پورا کرنے میں نکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ وزارت خزانہ کی طرف سے گذشتہ رات گئے جاری کردہ عبوری اعداد و شمار کے مطابق جنوری میں 872 ارب روپے کے ریکارڈ محصولات جمع ہوئے ہیں، جنوری میں جمع شدہ محصولات میں پچھلے سال کی نسبت 29 فیصد اضافہ ہوا ہے، پچھلے سال جنوری میں جمع شدہ محصولات کا حجم 677 ارب روپے تھا۔ یہ کامیابی شرح سود میں 10 فیصد کمی اور افراط زر میں گزشتہ سال سے 22 فیصد کمی کے باوجود حاصل ہوئی ہے۔ ایف بی آر نے مختلف ٹیکس کیٹیگریز میں نمایاں نمو کو بھی نمایاں کیا، جس میں انکم ٹیکس ریونیو میں 28 فیصد اضافہ، سیلز ٹیکس ریونیو میں 29 فیصد اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی وصولی میں 34 فیصد اضافہ ہوا،کسٹمز ڈیوٹی میں بھی خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا، جس میں 30 فیصد اضافہ ہوا، جو ملک میں اقتصادی سرگرمیوں اور ترقی کی بحالی کا اشارہ ہے۔ یہ اس سال پہلی مرتبہ ہے کہ کسٹمز ڈیوٹی میں اتنا نمایاں اضافہ درج کیا گیا ہے،جنوری میں محصولات کی مضبوط کارکردگی ٹیکس وصولی کو مضبوط بنانے اور معیشت کی مجموعی بحالی کے لیے ایف بی آر کی کوششوں کی عکاسی کرتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب ایف بی آر نے گذشتہ ماہ(جنوری2025)کے دوران مجموعی طور پر 84 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا انکشاف کیا ہے ، جو کہ ایف بی آر کو حاصل کرنے میں نکامی کا سامنا کرنا پڑا،جبکہ رواں مالی سال2024-25 کے پہلے7 ماہ(جولائی تا جنوری)کے دوران ایف بی آر کا ریونیو شارٹ فال 468ارب روپے ہوگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایف بی آر کو گذشتہ ماہ 872 ارب روپے کی عبوری ٹیکس وصولیاں ہوئی ہیں جو گذشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے اگرچہ29 فیصد زیادہ ہیں تاہم جنوری2025کیلئے مقرر کردہ 956ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کے ہدف کے مقابلے میں 84 ارب روپے کم ہیں۔ تاہم یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جنوری 2025 کے لیے 85 ارب روپے کا شارٹ فال تھا جس میں 872 ارب روپے کی کل ٹیکس وصولی تھی، جو 956 ارب روپے کے ہدف سے کم تھی،دسمبر 2024 میں، ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے 1,326 بلین روپے اکٹھے کیے جو اس مہینے کے لیے 1,373 بلین روپے کے ہدف سے محروم تھے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) ماہانہ کی بجائے سہ ماہی بنیادوں پر ٹیکس وصولی کا اندازہ لگاتا ہے، جنوری سے مارچ 2025 کی مدت کے لیے ہدف 3,150 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ وہ توقع کرتے ہیں کہ مارچ میں معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے ساتھ ٹیکس وصولیوں میں بہتری آئے گی۔
“پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات پھر شروع ہوں گے” فواد چوہدری کی پیش گوئی

سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ابھی حکومت اور پاکستان تحریکِ انصاف کے درمیان مذاکرات کا پراسس ختم نہیں ہوا، مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے۔ نجی خبررساں ادارے ایکسپریس کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے موجودہ سیاسی صورتِ حال پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت ایک آل پارٹیز کانفرنس کی ضرورت ہے اور اگر عمران خان اس میں شرکت نہیں کرتے، تو پھر اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا اور یہ بھی بے معنی ہو گی۔ سابق وفاقی وزیر نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ ابھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچا، مذاکرات بہت جلد دوبارہ شروع ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب مذاکراتی کمیٹی کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں ہے تو وہ حکومت سے کیا مذاکرات کرے؟ یہ بات واضح رہے کہ فیصلے تو بانی پی ٹی آئی عمران خان نے ہی کرنے ہیں، تو حکومت کو چاہیے کہ وہ مذاکراتی کمیٹی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کروائے، مگر ایسا تو کیا نہیں جا رہا۔ سابق وفاقی وزیر نے کہا ہے کہ ایک ایسے غیر سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، جس میں سب شامل ہوں۔ مذاکرات میں اصل اسٹیک ہولڈرز ہی شامل نہیں ہے، دوسری طرف کوئی بھی جماعت اتنی طاقتور نہیں کہ دوسری جماعت کوایک حد سے زیادہ نیچا دکھا سکے۔ فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی سے ان کی ملاقاتیں ماضی میں ہوئیں تھیں، ان کو دیکھ کر یہی کہوں گا کہ بانی پی ٹی آئی نے ڈیل نہیں کرنی۔ انھوں نے پختہ عزم کو ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے بانی پی ٹی آئی اپنی پوزیشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، وہ بالکل خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ اپنے بیان میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت سے بانی پی ٹی آئی مینج نہیں ہو رہے، کیسز بے شک چلتے رہیں لیکن انصاف کیا جائے۔ ٹاک شو میں ان کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ تو 2016 میں مسلم لیگ ن لے کر آئی تھی، جب کہ پی ٹی آئی تو پی ایم ڈی اے لے کر آئی تھی اور ایسا نہیں ہو سکتا کہ اپنی مرضی سے کسی کو بھی اٹھا کر جیلوں میں ڈال دیا جائے، ان کو سمجھ ہی نہیں کہ میڈیا کیسے چلایا جا تا ہے۔ دوسری طرف اگر پی ٹی آئی گرینڈ اپوزیشن الائنس بنا لیتی ہے، تو حکومت کو خطرات ہیں، اس کی وجہ یہ ہے حکومت بہت کمزور ہے اور ایک درمیانہ احتجاج حکومت کو غیر مستحکم کر دے گا۔ انھوں نے کہا کہ مذاکرات میں شاہ محمود قریشی جیسے لوگ مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں، مگر مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ شاہ محمود قریشی کس بنیاد پر جیل میں ہیں؟ مزید یہ کہ عدم سیاسی استحکام سے پاکستان کا نقصان ہوتا ہے اور پچھلے ایک عرصے سے ملک میں مستقل عدم استحکام ہے۔ معاشی استحکام کے لیے طویل مدتی پالیسی کی ضرورت ہے اور راتوں رات پاکستان کی معیشت نہیں سنبھلنے والی۔ یاد رہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان 28 جنوری کو مذاکراتی میٹنگ ہونی تھی، مگر پی ٹی آئی مذاکرات کرنے سے بھاگ گئی، جس کے بعد وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف نے کہا تھا کہ ہم مذاکرات کرنا چاہتے ہیں مگر پی ٹی آئی بھاگ رہی ہے۔
بہاولنگر میگا کرپشن اسکینڈل میں پیش رفت، سابقہ سی ای او ایجوکیشن شاہدہ حفیظ گرفتار

بہاولنگر محکمہ تعلیم میں ایڈیشنل گرانٹ کے نام پر 50 کروڑ روپے سے زائد کی مبینہ میگا کرپشن کا سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے۔ اینٹی کرپشن حکام نے کارروائی کرتے ہوئے سابقہ سی ای او ایجوکیشن شاہدہ حفیظ کو گرفتار کر لیا ہے، جسے اسکینڈل کا مرکزی کردار بتایا جا رہا ہے۔ ایف آئی آر سرکل آفیسر اینٹی کرپشن اکرم ذکی کی مدعیت میں درج کی گئی، جس میں سابقہ سی ای او، بجٹ اینڈ اکاؤنٹس آفیسر اور دیگر افسران پر سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق حکومت پنجاب کی جانب سے ضلع بہاولنگر کے اسکولوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے دی گئی کروڑوں روپے کی گرانٹ کو مبینہ طور پر ملی بھگت سے خرد برد کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اینٹی کرپشن ٹیم نے کاروائی کرتے ہوئے چھاپہ مارا، جس میں سابقہ سی ای او ایجوکیشن کو گرفتار کیا گیا۔ سابقہ سی ای او کی گرفتاری کے بعد محکمہ اکاؤنٹس سمیت دیگر ملوث افسران روپوش ہو گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں، کیونکہ اسکینڈل کی تفتیش میں بڑے انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔ دوسری جانب محکمہ تعلیم نے اس کرپشن اسکینڈل میں ملوث ہونے کے شبہ میں 81 ہیڈ ماسٹرز کو ان کے عہدوں سے فارغ کر دیا ہے، جس سے تعلیمی حلقوں میں شدید اضطراب پایا جا رہا ہے۔ ملزمہ شاہدہ حفیظ کو گرفتاری کے بعد علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے انھیں تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر اینٹی کرپشن حکام کے حوالے کر دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق دورانِ تفتیش ملزمہ نے مبینہ طور پر اہم انکشافات کیے ہیں، جن کی بنیاد پر مزید تحقیقات جاری ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میگا کرپشن اسکینڈل نے بہاولنگر میں ہلچل مچا دی ہے، جس کی وجہ سے عوامی سطح پر محکمہ تعلیم اور محکمہ خزانہ کے اندرونی معاملات پر سخت سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ کرپشن میں ملوث تمام ذمہ داران کو بے نقاب کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور انھیں آئین و قانون کے مطابق سخت سزائیں دی جائیں۔ یاد رہے کہ 23 جنوری کو محکمہ تعلیم بہاولنگر کے 50 کروڑ روپے سے زائد کے مالیاتی کرپشن اسکینڈل میں ملوث اسکول ہیڈ ماسٹرز کے تمام مالی اختیارات ختم کر دیے گئے تھے۔ سی ای او ایجوکیشن بہاولنگر ڈاکٹر اسحاق نے باضابطہ طور پر مراسلہ جاری کیا تھا کہ اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ہدایت پر مالی و انتظامی اختیارات سلب کیے گئے ہیں۔