امریکا میں ایک اور فضائی حادثہ، ائیر ایمبولینس گرنے سے 6 افراد ہلاک

Plane crash in philadelphia

فلاڈیلفیا میں جمعہ کے روز ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا جب ایک میڈیکو ایئر ایمبولینس طیارہ پرواز کے فوراً بعد گر کر تباہ ہوگیا۔ اس حادثے میں پانچ افراد ایک بچی سمیت چھ افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ طیارہ گرنے کے بعد پھٹ کر ایک شدید آگ میں تبدیل ہو گیا جس سے نہ صرف طیارے کے اندر بلکہ نیچے کے علاقے میں بھی تباہی مچ گئی۔ حادثہ 31 جنوری کو پیش آیا، جب Jet Rescue Air Ambulance کمپنی کا ایک طیارہ فلاڈیلفیا کے شمال مشرقی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔ طیارے میں چار عملے کے اراکین، ایک بچی اور اس کی ماں سوار تھیں۔ طیارہ نیوٹسٹ فلالفیا ایئرپورٹ سے اُڑ کر قریباً 1,800 کلومیٹر دور اسپریگ فیلڈ-برنسن نیشنل ایئرپورٹ کی طرف جا رہا تھا مگر کچھ ہی دیر بعد یہ طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا۔ ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ طیارہ زمین کی طرف انتہائی تیز رفتاری سے گرا اور جب یہ نیچے آیا تو ایک ہولناک آگ کی لپیٹ میں آ گیا جس سے آس پاس کی کئی عمارتیں اور گاڑیاں بھی آگ میں جلنے لگیں۔ اس حادثے کی جگہ پر جس طرح جسم کے ٹکڑے سڑکوں اور گھروں میں بکھرے ہوئے تھے اس منظر نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس تباہی کا شکار ہونے والے افراد میں وہ بچی بھی شامل تھی جو اپنی والدہ کے ساتھ علاج کے لیے فلائٹ میں سوار تھی۔ حکام نے فوری طور پر تحقیقات شروع کر دیں ہیں، تاہم ابتدائی طور پر اس بات کا پتہ نہیں چل سکا کہ طیارہ حادثے کا شکار کیوں ہوا۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق طیارہ شدید بارش اور کم دیکھائی کی حالت میں پرواز کر رہا تھا۔ اس سے قبل کمپنی کے نمائندے نے کہا تھا کہ طیارہ بہترین حالت میں تھا اور اس میں کسی قسم کی تکنیکی خرابی نہیں تھی۔ فلاڈیلفیا کی میئر چیریل پارکر نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ “یہ ایک سنگین اور دل دہلا دینے والا حادثہ ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ علاقے میں بڑی تباہی آئی ہے اور کئی مکانات اور گاڑیاں مکمل طور پر جل کر راکھ ہو چکی ہیں۔ مزید برآں پنسلوانیا کے گورنر جوش شیپرو نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ہمیں یقین ہے کہ اس علاقے میں بڑی تعداد میں جانی نقصان ہوا ہے۔” دوسری جانب میکسیکن حکومت نے بھی اس حادثے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ طیارے میں سوار تمام افراد میکسیکن شہری تھے۔ اس کے علاوہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا “یہ بہت افسوسناک ہے کہ فلاڈیلفیا میں طیارہ گر کر تباہ ہوگیا اور کئی معصوم جانیں ضائع ہو گئیں۔” حادثے کے فوراً بعد ریسکیو ٹیمیں اور فائر بریگیڈ کے اہلکار جائے حادثہ پر پہنچے اور آگ پر قابو پانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ دو گھنٹوں کے اندر زیادہ تر آگ پر قابو پا لیا گیا تھا، مگر علاقے میں اس وقت بھی خوف اور شش و پنج کی فضا قائم تھی۔ یہ حادثہ ایک سنگین اور دلگداز واقعہ تھا جس میں چھ افراد کی جانیں ضائع ہو گئیں۔اس افسوسناک واقعے نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ فضائی سفر کے دوران حفاظتی تدابیر کتنی اہم ہیں اور اس نوعیت کے حادثات کے بعد انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ حادثہ ہمیں یہ سبق دیتا ہےکہ قدرتی آفات اور غیر متوقع حادثات کسی بھی وقت رونما ہو سکتے ہیں، اور ہمیں ہمیشہ تیار رہنا چاہیے تاکہ ہم ان سے بہتر طریقے سے نمٹ سکیں۔

حکومت کے وعدے اور بجلی کا بحران: حقائق اور افواہیں

Protest for electricity

پاکستان، ایک ایسا ملک جو توانائی کے بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ ایک طرف حکومت کے دعوے اور وعدے، اور دوسری طرف عوام بجلی کے بلوں اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ الیکشن 2024 کے دوران ہر سیاسی جماعت نے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے وعدے کیے۔ حکومتی شخصیات کے بیانات کو یاد کریں تو کہا کچھ تھا، کیا کچھ اور۔ سندھ میں اکثریت رکھنے والے حکومتی اتحادی بلاول بھٹو اور وزیر اعلی پنجاب مریم نواز دونوں نے 200 اور 300 یونٹ تک بجلی میں سبسڈی دینے کا اعلان کیا مگر پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں ابھی بھی3 سے 4 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ اسی طرح سندھ میں بھی بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک اور بیان میں کہا گیا کہ ہم بجلی کی قیمتوں میں 50 روپے تک کمی کریں گے۔ عوام کو سستی اور معیاری بجلی فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ دعوے صرف دعوے ہی رہ گئے، اور عوام کو بجلی کے بلوں کی شکل میں نئے ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے بجلی کے بل میں اصل بجلی کے استعمال سے زیادہ ٹیکس شامل ہیں؟عوام طرح طرح کے ٹیکسز دے رہے ہیں ۔یہ سب ٹیکس عوام کو اس بجلی کے لیے ادا کرنے پڑتے ہیں، جو وہ استعمال ہی نہیں کرتے۔ جب عوام غربت اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، حکومت اپنے مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کر رہی ہے، صرف 2024 میں حکومتی وزراء کی تنخواہوں میں 35% اضافہ ہوا۔ حتیٰ کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہیں کئی گنا بڑھا دی گئی ہیں۔ سرکاری افسران کو مفت بجلی، گاڑیاں، اور دیگر مراعات دی جا رہی ہیں۔ پارلیمنٹ میں وزراء کے سفر اور دیگر اخراجات کے لیے اربوں روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب عوام اپنے بجلی کے بل تک ادا کرنے کے قابل نہیں۔” عوام بجلی کے بل بھرنے کے لیے اپنے زیورات اور زمینیں بیچ رہے ہیں، جبکہ حکومتی نمائندے سرکاری مراعات کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ کیا یہ عوامی خدمت ہے؟۔پاکستان میں بجلی کا بحران صرف ٹیکسوں یا مہنگائی کا مسئلہ نہیں۔ یہ ایک نظامی خرابی ہے، جہاں بجلی کی ترسیل کا نظام ناقص ہے۔ آئی پی پیز کے خفیہ معاہدے عوام پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔ کپیسٹی پیمنٹ کے تحت عوام اس بجلی کی قیمت ادا کر رہے ہیں جو وہ استعمال نہیں کرتے۔گزشتہ سال بجلی کے بلوں کی وجہ سے 18 افراد نے اپنی زندگیاں ختم کر لیں۔ یہ محض اعدادوشمار نہیں، بلکہ ہر موت کے پیچھے ایک کہانی ہے۔کچھ ماہرین کے مطابق حکومت اگر چاہے تو اس بحران کو حل کر سکتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ عوام کے لیے فیصلے کیے جائیں، نہ کہ نجی کمپنیوں کے مفادات کے لیے۔ کیا حکومت اپنے وعدے پورے کرے گی، یا عوام مزید قربانیاں دیں گے؟

چین کے زیر اثر گرین لینڈ اور پاناما کینال پر امریکا کی نظر

Trump with robio

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گرین لینڈ حاصل کرنے اور پاناما کینال پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی خواہش آرکٹک اور لاطینی امریکہ میں چین کی سرگرمیوں اور اثرورسوخ کے بڑھتے ہوئے خدشات کی وجہ سے ہے اور یہ قومی سلامتی کے جائز مفادات کے تحت ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے حال ہی میں یہ دعویٰ کیا کہ پاناما کینال پر امریکی اختیار دوبارہ حاصل کرنا اور گرین لینڈ کو اپنے زیرنگیں لانا، چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ روبیو نے ان دعووں کی حمایت میں کہا کہ یہ تمام اقدامات امریکی قومی سلامتی کے مفاد میں ہیں اور انہیں کسی بھی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاناما کینال، جو امریکی تاریخ کا ایک سنگ میل ہے، ایک وقت میں امریکا کی ملکیت تھی لیکن 1999 میں پاناما کے حوالے کر دی گئی تھی۔ اب امریکا کے سامنے یہ چیلنج ہے کہ چین اس علاقے میں بڑھتی ہوئی اکانومک سرگرمیاں شروع کر چکا ہے جس سے امریکی مفادات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ روبیو کا کہنا ہے کہ “چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی خاص طور پر پاناما کینال میں امریکی جہازوں کی آمدورفت اور عالمی تجارتی راستوں پر اثر ڈال سکتی ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چین نے اس کینال کے دونوں سروں پر بندرگاہوں اور انفراسٹرکچر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے جس سے امریکی مفادات پر سنجیدہ خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ پاناما کینال کا معاملہ تو ایک طرف، روبیو نے اس بات کو بھی اُجاگر کیا کہ چین کی نظر گرین لینڈ پر بھی ہے۔ گرین لینڈ، جو ڈنمارک کا حصہ ہے امریکی آرکٹک پالیسی کے لیے ایک انتہائی اہم مقام بن چکا ہے۔ روبیو کا کہنا ہے کہ چین یہاں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اگر امریکا نے اس کی مخالفت نہ کی تو چین اس علاقے کو اپنے اکانومک اور ملٹری مفادات کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ گرین لینڈ کے بارے میں روبیو کا موقف تھا کہ “چین وہاں اپنے اثرات بڑھا رہا ہے اور امریکا کے لیے ضروری ہے کہ وہ وہاں اپنی موجودگی مضبوط کرے”۔ انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اگر امریکا نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو چین اس علاقے میں اہمیت حاصل کر سکتا ہے جو کہ نہ صرف امریکا کے لیے خطرہ بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔ یہ تمام مسائل امریکا اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے عالمی مقابلے کے ایک حصے کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔ چین کا عالمی سطح پر اثر و رسوخ روز بروز بڑھ رہا ہے اور امریکا، روبیو کی قیادت میں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی ترتیب دے رہا ہے۔ روبیو نے اس بات پر زور دیا کہ امریکا کو ان دونوں اہم مقامات پر دوبارہ اپنی پوزیشن مستحکم کرنی چاہیے تاکہ عالمی تجارتی راستے اور امریکی سلامتی محفوظ رہ سکیں۔ پاناما کے صدر ہوزے راؤل ملینو نے روبیو کے دورے سے قبل واضح طور پر کہا کہ پاناما کینال پر امریکا کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔ ملینو کا کہنا تھا کہ “نہر پاناما کی ملکیت ہے اور اس پر کسی بھی قسم کی بات چیت غیر ممکن ہے”۔ یہ بات چیت اس وقت کی جا رہی ہے جب امریکا اور پاناما کے درمیان چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے شدید اختلافات سامنے آ چکے ہیں۔ روبیو نے اس حوالے سے کہا کہ چین کی جانب سے پاناما کینال کے اہم مقامات پر سرمایہ کاری سے امریکا کو تحفظات ہیں کیونکہ یہ چینی کمپنیاں بیجنگ حکومت کے زیر اثر ہو سکتی ہیں اور کسی عالمی تنازع کی صورت میں وہ امریکا کے لیے نہر کو بند کرنے کے لیے حکم دے سکتی ہیں۔ روبیو نے کہا کہ “اگر چین نے ایسا کیا تو یہ ایک براہ راست خطرہ بن جائے گا”۔ اس کے ساتھ ہی امریکا کی جانب سے گرین لینڈ کے بارے میں بھی ایک زبردست بیان سامنے آیا ہے۔ روبیو نے کہا کہ “ڈنمارک گرین لینڈ کی حفاظت نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ چین کے بڑھتے اثرات کو روک سکتا ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ نیٹو کے دفاعی معاہدے کے تحت گرین لینڈ میں اپنی موجودگی کو مزید مستحکم کرے تاکہ عالمی طاقتوں کے درمیان جغرافیائی سیاسی کشمکش میں امریکہ کا مفاد محفوظ رہ سکے۔ چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ امریکا کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے اور یہ خدشات روبیو اور ٹرمپ کی قیادت میں مزید سنجیدہ ہو چکے ہیں۔ پاناما کینال اور گرین لینڈ جیسے اہم جغرافیائی مقامات پر امریکی مفادات کی جنگ اب ایک عالمی سیاست کا حصہ بن چکی ہے جو چین کی بڑھتی طاقت کے خلاف امریکی حکمت عملی کو واضح طور پر سامنے لاتی ہے۔ پاناما میں روبیو کا دورہ ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا کیونکہ اس دوران امریکا اور پاناما کے درمیان نہ صرف اکانومک بلکہ دفاعی امور پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ امریکی وزیر خارجہ روبیو کے مطابق “یہ دورہ پاناما کینال کی حفاظت کے حوالے سے ایک مضبوط پیغام دینے کے لیے ہے، کیونکہ چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے سامنے امریکی مفادات کو مزید مستحکم کرنا ضروری ہے”۔ یہ جنگ نہ صرف سیاسی، بلکہ اقتصادی اور دفاعی بھی ہے جو عالمی سطح پر ایک نیا محاذ کھول رہی ہے جس کا اثر دنیا بھر پر پڑ سکتا ہے۔

ٹرمپ کی ملازمین برطرف کرنے کی پالیسی: اب تک کیا ہو چکا؟

D trump

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو اپنے افتتاح کے بعد سے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے اور امریکہ کی 2.2 ملین مضبوط وفاقی افرادی قوت کو ایک نئے انداز سے دوبارہ بنانے اور تعدادکم کرنے کے لیے اقدامات کیے۔ ٹرمپ کے اقدامات میں زیادہ تر سرکاری ملازمین کو کنٹریکس کی پیشکش، سینکڑوں اہلکاروں کو برطرف یانئے سرے سے تعینات کرنا، ایجنسی کے نگرانوں کو ہٹانا، اور ایسا حکم جاری کرنا شامل ہے جس سے لاکھوں سرکاری ملازمین کو برطرف کرنا آسان ہو سکے۔ ٹرمپ اور ان کی ریپبلکن انتظامیہ نے اب تک جو اقدامات کیے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے 20 لاکھ سویلین کل وقتی وفاقی کارکنوں کو کنٹریکس کی پیشکش کی ہے۔ وفاقی ملازمین کو بھیجی گئی ای میل کے مطابق، “موخر استعفیٰ پروگرام” وفاقی ملازمین کو 30 ستمبر تک پے رول پر رہنے کی اجازت دے گا لیکن ذاتی طور پر کام کیے بغیر اور ممکنہ طور پر اس دوران ان کی ڈیوٹی کم یا ختم کر دی جائے گی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ممکنہ طور پر کھربوں ڈالر کی وفاقی امداد کو روکنے کے لیے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس سے حکومت میں افراتفری پھیل گئی اور یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ اس سے ہزاروں وفاقی گرانٹ پروگرام متاثر ہوں گے جو کروڑوں امریکیوں کی خدمت کرتے ہیں۔ ٹرمپ نے متعدد سرکاری ایجنسیوں کے 17 انسپکٹرز جنرلوں کو برطرف کر دیا ہے، یہ ایک ایسا اقدام ہے جس سے آزاد ملازمین کے ساتھ ایمانداروں کی جگہ لینے کا راستہ صاف ہو جاتا ہے۔ محکمہ خارجہ، دفاع اور ٹرانسپورٹیشن سمیت ایجنسیوں کے انسپکٹرز جنرل کو وائٹ ہاؤس کے عملے کے ڈائریکٹر کی ای میلز کے ذریعے مطلع کیا گیا کہ انہیں فوری طور پر برطرف کر دیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے وفاقی کارکنوں کو پورا وقت دفتر میں کام  آنے اور ایجنسیوں کو ریموٹ کام کے انتظامات کو روکنے کا حکم دیا۔ اس نے فوجی، امیگریشن انفورسمنٹ، قومی سلامتی اور پبلک سیفٹی کی ملازمتوں کے علاوہ وفاقی بھرتیوں پر پابندی لگا دی۔ محکمہ انصاف میں تقریباً 20 سینئر وکلاء، بشمول ماحولیاتی، فوجی، قومی سلامتی، شہری حقوق کے وکلاء اور کچھ امیگریشن عدالت کے عملے کو دوبارہ تعینات کیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی کا جائزہ لینے کا حکم دیا ہےکیونکہ وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا ملک کی اہم وفاقی ڈیزاسٹر رسپانس ایجنسی کو بند کرنا ہے یا اس کی نئے سرے سے بنانا ہے۔

’یہاں صرف ملبے کے ڈھیر ہیں‘ غزہ لوٹنے والا کا دل ٹوٹ گیا

Ghaza distroyed

خمس اور احمد امامراہ نے جان لیا تھا کہ شمالی غزہ میں اپنے گھر واپس آ کر انہیں زیادہ سے زیادہ ملبہ ہی ملے گا۔ لیکن وہ پھر بھی واپس آئے کیونکہ ان کے والد اور بھائی ایک سال گزر جانے کے باوجود ملبے میں دفن ہیں۔ غزہ شہر کے الشجاعیہ محلے میں کھڑے ہو کر خمس امامراہ نے کہا “جب میں یہاں واپس آیا تو میرا دل ٹوٹ گیا، میں واپس صرف اپنے والد اور بھائی کو ڈھونڈنے آیا ہوں۔ مجھے کچھ اور نہیں چاہیے میرا بس ایک ہی سوال ہے کہ مجھے اپنے والد اور بھائی کہاں ملیں گے، بس یہی ہے، بس یہی۔” یہ لمحہ ان کے لیے اتنا دل دہلا دینے والا تھا کہ وہ اس ملبے کے ڈھیر میں اپنی ماں کی سبز رنگ کی بنائی ہوئی ٹوکری تلاش کرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے رکے۔ انہوں نے کہا “وہ بُنائی پسند کرتی تھیں، اون کے ساتھ کام کرتی تھیں۔ خدا میری ماں کی مغفرت کرے، وہ کہانیاں سناتی تھیں۔” ان کی ماں اسرائیلی حملے میں زخمی ہو گئی تھیں اور انہیں علاج کے لیے مصر منتقل کر دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد سے اسرائیل نے رفاہ کراسنگ بند کر دی تھی جس کی وجہ سے صرف چند فلسطینیوں کو ہی علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت ملی۔ امامراہ نے ایک خبر رساں ادارے سی این این کو بتایا کے غزہ کا بیشتر حصہ اسرائیلی بمباری سے تباہ ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 69 فیصد تعمیرات مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ شمالی غزہ کے رہائشیوں کو جنگ کے آغاز میں ہی جنوبی علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور جب وہ علاقے خالی ہو گئے تو واپسی ممکن نہ رہی۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ ایک سال سے زائد عرصے بعد واپس آ رہے ہیں اور ان کے سامنے ایسی تباہی ہے کہ جس کا تصور کرنا بھی ناممکن تھا۔ خمس اور احمد امامراہ نے 11 کلومیٹر کا سفر طے کیا تاکہ وہ الشجاعیہ واپس پہنچ سکیں، مگر راستہ انتہائی دشوار تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ “یہ سفر اتنا مشکل تھا کہ راستے میں ملبے اور گندے پانی کے ڈھیر پڑے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ کئی جگہوں پر انسانی لاشوں کو بھی نہ اٹھایا گیا تھا اور کچھ لاشیں ابھی بھی وہیں پڑی ہوئی ہیں۔” اس وقت شمالی غزہ کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے۔ اس علاقے میں کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور کوئی امدادی کیمپ نہیں ہے، جبکہ امدادی اداروں کو یہاں مدد فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ شمالی غزہ کے مقامی اسپتال کے سربراہ ‘محمد صالح’ نے کہا کہ “یہاں کوئی بھی جگہ پناہ گزینی کے لیے دستیاب نہیں ہے، یہاں صرف ملبے کے ڈھیر ہیں، اور لوگ اپنے گھروں کی مرمت کی کوشش کر رہے ہیں، مگر صورتحال انتہائی سنگین ہے۔” کئی افراد جنہوں نے شمالی غزہ واپس جانے کا ارادہ کیا تھا، وہ اسی تباہی کے بعد واپس جنوبی پناہ گاہوں میں آ گئے ہیں۔ ان میں سے ایک اروا ال مسری نے بتایا کہ ان کے خاندان کے افراد نے واپس جانے کا فیصلہ کیا، مگر جب وہ واپس گئے تو انہیں اپنی بربادی کے سوا کچھ بھی نہ ملا۔ اس نے کہا کہ “یہاں زندگی نہیں ہے، ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے۔ میرے بھائی کو پانی کے لیے جابلیہ جانا پڑا، اور پھر وہ غزہ شہر جا کر ہمیں بتا رہے تھے کہ ابھی واپس مت آنا۔” کچھ بھی باقی نہیں بچا، خمس اور احمد امامراہ کے خاندان میں 60 افراد تھے جن میں سے صرف 11 بچ پائے ہیں۔ احمد امامراہ نے بتایا کہ “میری بیٹی 45 دن تک آئی سی یو میں رہی، اور میرا چھوٹا بیٹا آج بھی اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکا کہ اس نے اپنی ماں کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا۔” یہ تباہی ان کے لیے ایک اور سانحے کی شکل میں آئی، خمس نے بتایا کہ “ہم بہت خوش تھے، میں نے اس بچی کے لیے بہت انتظار کیا تھا، جبکہ وہ اور میری بیوی ایک ساتھ مارے گئے۔” حتیٰ کہ جب وہ اپنے ان پیاروں کی قبروں کی زیارت کے لیے گئے، تو ان کی قبریں بھی اسرائیلی فورسز نے مٹا دیں تھیں۔ “انہوں نے ہماری قبریں بھی مسمار کر دیں، کچھ بھی نہیں چھوڑا۔” خمس امامراہ نے کہا کہ “ہم واپس شمالی غزہ آئے ہیں لیکن کچھ بھی نہیں پایا۔ یہ سب کچھ ملبہ ہے، اور ہم پھر بھی یہاں ہیں کیونکہ ہم غزہ سے ہیں، ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔ اگر زندگی اتنی مشکل بھی ہو، ہم غزہ میں ہی رہیں گے، ہم اس زمین کو نہیں چھوڑیں گے، یہ ہمارے آبا کی زمین ہے، اور ہم یہاں رہیں گے۔” خمس کے الفاظ ایک گہری حقیقت کو عیاں کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں “یہ زمین ہمارے آبا کی ہے، ہم کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ ہمارے والد، دادا، اور بھائی یہاں دفن ہیں ہم اس جگہ کو نہیں چھوڑ سکتے۔”

پیٹرول اور ڈیزل مزید مہنگا، حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کر دیا

Petrol price increases

وزارتِ خزانہ کے جاری کردہ نوٹیفیکشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں ایک روپے فی لیٹر کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 257 روپے 13 پیسے فی لیٹر مقررہوگئی ہے۔ دوسری جانب ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 7 روپے فی لیٹر کا بڑا اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد ڈیزل کی نئی قیمت  267 روپے 95 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ خیال رہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اطلاق یکم فروری کو رات 12 بجے سے ہوگا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل حکومت نے مسلسل دوسری بار 15 دسمبر کو پیٹرول 3 روپے 47 پیسے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل 2 روپے 63 پیسے مہنگا کر دیا تھا، جس کی بعد پیٹرول کی نئی قیمت 256 روپے 13 پیسے فی لیٹر، جب کہ ڈیزل کی قیمت 260 روپے فی پیسے ہوگئی تھی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے یکم جنوری کو ایک بار پھر پیٹرول 56 پیسے فی لیٹر، جب کہ ڈیزل 2 روپے 96 پیسے  مہنگا کردیا گیا، جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 256 روپے 66 پیسے فی لیٹر اور ڈیزل کی نئی قیمت 258 روپے 34 پیسے ہوگئی۔ نجی خبر رساں ادارے ڈان کی 30 جنوری کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے سبب ہائی اسپیڈ ڈیزل، پیٹرول اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں 6 روپے فی لیٹر تک اضافے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ عالمی منڈی میں ہائی اسپیڈ ڈیزل کی اوسط قیمت میں 2.50 پیسے کا اضافہ ہوا، جب کہ پیٹرول کی قیمت میں تقریباً 50 سینٹ فی بیرل سے زائد تک کا اضافہ ہوا ہے۔  سرکاری دستاویزات کے مطابق اس وقت حکومت کی جانب سے پیٹرول اور ایچ ایس ڈی پر تقریباً 76 روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کیا جارہاہے۔ حکومت پیٹرول اور ایچ ایس ڈی پر تقریباً 16 روپے فی لیٹر کسٹم ڈیوٹی بھی  وصول کرتی ہے۔ اس کے علاوہ آئل کمپنیوں اور ان کے ڈیلرز کی جانب سے دونوں مصنوعات پر تقریباً 17 روپے فی لیٹر ڈسٹری بیوشن اینڈ سیل مارجن وصول کیا جاتا ہے۔ اس کےساتھ لائٹ ڈیزل اور ہائی آکٹین بلینڈنگ اجزا پر 50 روپے فی لیٹر چارجز وصول کیے جاتے ہیں۔

ٹرمپ کا کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان

Trump press conference

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  نے کہا ہے کہ وہ یکم فروری سے کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25 فیصد سرحدی ٹیکس (ٹیرف) لگا رہے ہیں، لیکن ابھی اس بارے میں یہ فیصلہ نہیں کیا گیا کہ ان ممالک کے تیل پر ٹیرف لگایا جائے گا یا نہیں۔ مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو اوول آفس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئےکہا کہ یکم فروری سے کنیڈا اور  میکسیکو سے درآمدات پر 25 فیصد  ٹیرف  کی دی گئی دھمکی پر عمل کیا جائے گا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد غیر دستاویزی تارکین وطن کی بڑی تعداد اور امریکی سرحدوں کے ساتھ ساتھ اس کے پڑوسیوں کے ساتھ تجارتی خسارے میں آنے والے معاملے کو دور کرنا ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ چین پر بھی نئے محصولات لگانے کا منصوبہ بنا یا جا رہا ہے، تاہم  انہوں نے اس کی کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ چین پر ٹیرف لگانے کا سوچ رہے ہیں، کیونکہ چین امریکہ میں فینٹینائل بھیج رہا ہے، جو ہماری لاکھوں اموات کا سبب بن رہے ہیں۔اسی لیے چین کو بھی ٹیرف ادا کرنے ہوں گے اور اس کے لیے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ واضح رہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے چینی ساختہ مصنوعات پر 60 فیصد تک ٹیرف لگانے کی دھمکی دی تھی، لیکن وائٹ ہاؤس میں حلف لینے کے بعد فوری طور پر انہوں نے کوئی کاروائی نہ کی۔ اس کے علاوہ  منصبِ صدارت سنبھالنے کے موقع پر اپنے افتتاحی خطاب میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ امریکی کارکنوں اور خاندانوں کے تحفظ کے لیے تجارتی نظام کی حالت دُرست کرنے کا کام فوری طور پر شروع کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسرے ممالک کو مالا مال کرنے کے لیے اپنے شہریوں پر ٹیکس لگانے کے بجائے، وہ اپنے شہریوں کو مالا مال کرنے کے لیےبیرون ممالک پر محصول اور ٹیکس لگائیں گے۔ مزید یہ کہ ٹرمپ  انتظامیہ غیر ممالک سے تمام محصولات، ٹیکسز اور آمدنی جمع کرنے کیلیے ایکسٹرنل ریونیو سروس بھی قائم کرے گی۔ دوسری جانب 2018 کے بعد سے ہی چین سے امریکی اشیا کی درآمدات قدرے کم ہو گئی ہیں۔ ماہرین اقتصادیات نے  اسے جزوی طور پر بڑھتے ہوئے محصولات کی ایک سیریز سے منسوب کیا ہے جسے ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت کے دوران لگایا تھا۔  سوئٹزرلینڈ ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے چین کے نائب وزیر اعظم ڈنگ زیوشیانگ نے کہا کہ چین اپنی درآمدات کو بڑھانا چاہتا ہے، جس کے لیے تجارتی تناؤ کا حل تلاش کیا جارہا ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان کے جواب میں کینیڈا اور میکسیکو انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ امریکی محصولات کا جواب خود اپنے اقدامات سے دیں گے، جب کہ دوسری طرف وائٹ ہاؤس  کو یہ یقین دلانے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ وہ اپنی امریکی سرحدوں سے متعلق خدشات کو دور کرنے کے لیے کارروائی کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ اگر کینیڈا اور میکسیکو سے امریکی تیل کی درآمد پر محصول عائد ہوتا ہے تو اس سے زندگی کی لاگت کو کم کرنے کے ٹرمپ کے وعدے کمزور ہوجائیں گے۔محصولات دراصل بیرون ملک تیار کردہ سامان پر درآمدی ٹیکس ہیں۔ مزید یہ کہ امریکی آئل ریفائنریوں سے گزرنے والا تقریباً 40 فیصد خام تیل درآمد کیا جاتا ہے ، جس کی اکثر مقدار کینیڈا سے آتی ہے۔

فخر زمان کے ساتھی اوپنر کا فیصلہ میچ سے قبل ہو گا، پی سی بی کی وضاحت

Fakhar zaman & babar

نیشنل سلیکشن کمیٹی ممبر اسد شفیق نے بتا دیا کہ چیمپئنز ٹرافی 2025 کے 15 رکنی اسکواڈ کو کیوں سلیکٹ کیا گیا ہے؟ پاکستان نیشنل سلیکشن کمیٹی کے ممبراسد شفیق نے اپنے بیان میں بتایا  ہے کہ چیمپیئنز ٹرافی 2025 کے لیے کھلاڑیوں کے انتخاب کے وقت کون کون سی باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے قومی ٹیم کے15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کیا گیاہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری کردہ ویڈیو بیان میں پاکستان نیشنل کمیٹی کے ممبراسد شفیق نے  کہا ہےکہ جب چیمپیئنز ٹرافی کے لیے حتمی ٹیم کا انتخاب کیا جارہا تھا تو چند باتوں کو مدِنظر رکھا گیا۔ جاری کردہ ویڈیو بیان انھوں نے کہا کہ سب سے پہلے تو اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیاکہ کونسے حالات کے لیے کونسا کھلاڑی موزوں ہوگااور پھر اس کا انتخاب کیا۔ 🗣️ National selection committee member Asad Shafiq explains the strategy behind the Pakistan squad for ICC #ChampionsTrophy 2025 🏆 More details 👉 https://t.co/hrr0n2bx5P#WeHaveWeWill pic.twitter.com/lsRrwZgxGt — Pakistan Cricket (@TheRealPCB) January 31, 2025 دوسری جانب یہ بات بھی ہمارے ذہن میں تھی کہ چونکہ یہ آئی سی سی کا بڑا ایونٹ ہے تو تجربہ کار کھلاڑیوں کا ٹیم میں ہونا ضروری ہے اور پھر تجربے کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو ترجیح دی گئی۔ تیسرا  بڑا اور اہم ایک  روزہ کرکٹ میں آل راؤنڈر کا کردار ہوتا ہے، وہ کپتان کو ہمت ہوتے ہیں، وہ میچ میں بیلنس لاتے ہیں اور پھر یہ دیکھ کر آل راؤنڈرز کا انتخاب کیا گیا۔ ممبر نیشنل کمیٹی نے کہا کہ جہاں تک بات فخر زمان کے انتخاب کی ہے تو فخر نے ماضی میں بڑے میچوں میں پاکستان کو جیت سے ہمکنار کیا ہے ۔  فخر کی صحت اب بہتر ہوگئی ہے،  ہماری اس سے بات چیت ہوئی ہے ۔ اس کے انتخاب کی ایک اہم وجہ یہ تھی۔ اس کے علاوہ فخر زمان کے ساتھ اوپننگ کون کرے گا، اس کا فیصلہ سلیکشن کمیٹی میچ سے قبل حالات کو دیکھتے ہوئے کرے گی۔ اگر صائم ایوب کی بات کی جائے تواس وقت وہ تندرست نہیں ہے۔ گزشتہ کچھ ماہ سے صائم اچھی فارم میں تھا مگر بدقسمتی سے اسے ٹیم سے باہر رہنا پڑےگا۔ صائم پاکستان کا مستقبل ہے اسی لیے کمیٹی چاہتی ہے کہ وہ تندرست ہوکر واپس آکر کھیلے۔ سعود شکیل کے انتخاب میں دیکھا گیا کہ سعود کی ٹیسٹ اور لسٹ اے کی کارکردگی بہت اچھی ہے، جیساکہ یہ آئی سی سی کا ایک بڑا ایونٹ ہے تو ضروری تھا ایک ایسے کھلاڑی کا انتخاب کرنا جو پریشر برداشت کرنے میں اچھا ہواور پھر سعود کا انتخاب کیا گیا۔مزید یہ کہ سعود اوپننگ بھی کر سکتا ہے اور مڈل آرڈر میں بھی کھیل سکتا ہے۔ جاری کردہ ویڈیو بیان کے اختتام میں اسد شفیق نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک عرصےسے پاکستان میں کوئی بڑا ایونٹ نہیں ہوا، جس کی وجہ سے کھلاڑی اور فینز دونوں ایک دوسرے کی کمی محسوس کررہے تھے ۔ میں امید کرتا ہوں کے آپ سب اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے آئیں گے اور ٹیم اور اپنے اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو اسپورٹ کریں گے۔ واضح رہے سہ فریقی سیریز اور چیمپیئنز ٹرافی 2025  کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے حتمی اسکواڈ کا اعلان کر دیا ہے۔ محمد رضوان چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت کریں گے، جب کہ سلمان علی آغا نائب کپتان ہوں گے۔ اسکواڈ میں کئی بڑے تجربہ کار کھلاڑیوں کی واپسی ہوئی ہے، جن میں فخرزمان، فہیم اشرف، خوشدل شاہ اور سعود شکیل شامل ہیں۔ ان کے علاوہ بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ ، کامران غلام ،محمد حسنین، طیب طاہر، عثمان خان، حارث راؤف  اور ابرار احمد  بھی 15 رکنی ٹیم کا حصہ ہیں۔

بلاول کا 300 اور مریم کا 200 یونٹ مفت بجلی دینے کا وعدہ کہاں گیا؟ منعم ظفر

Munam zafar khan speeching

جماعت اسلامی کے رہنما منعم ظفر خان کا کہنا ہے کہ تمام جماعتیں آئی پی پیز کے کھیل میں برابر کی شریک ہیں، وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اقتدار میں آنے سے قبل 200 اور بلاول بھٹو زرداری نے 300 یونٹ بجلی مفت دینے کا کہا تھا، مگر اقتدار میں آکر سب بھول گئے۔ کراچی میں شاہین کمپلیکس پر جماعتِ اسلامی کی جانب سے مہنگی بجلی اور لوڈشیڈنگ کے خلاف مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ آئی پی پیز سے معاہدے ختم اور ان کے نتیجے میں بجلی فوری سستی کی جائے۔ جماعتِ اسلامی  نے مطالبہ کیا کہ عوام کو بجلی کے بلوں کی قیمتوں میں فوری ریلیف دیا جائے۔ جمعہ کو امیر جماعت اسلامی پاکستان حاظ نعیم الرحمن کی اپیل پر آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی کے باوجود بجلی قیمتوں میں کمی نہ کرنے کے خلاف جماعت اسلامی کے تحت شاہین کمپلیکس آئی آئی چندریگر روڈ پر احتجاج کیا گیا تھا۔ امیر جماعتِ اسلامی نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ احتجاج بجلی کی قیمتوں میں من مانے اضافے کے خلاف کیا جا رہا ہے، آئی پی پیز کے اس کھیل میں پیپلز پارٹی، ایم۔کیوایم، مسلم لیگ ن سمیت تمام بڑی جماعتیں شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ  آپ نےجو دعوے اور وعدے کیےتھے اسے پورا کریں، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری  نے کہا تھا کہ 300 یونٹ بجلی فری کردیں گے۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اقتدار سے قبل اعلان کیا تھا کہ 200 یوننٹ بجلی فری دی جائے گی، اس کا کیا بنا؟  اقتدارمیں آکر سب اپنے وعدے بھول گئے۔ امیر جماعتِ اسلامی کراچی نےکہا کہ کراچی شہرمیں بجلی نہیں مل رہی، لیکن بل پورا وصول کیا جارہا ہے۔ انھوں نے ماضی میں جماعتِ اسلامی سے کیا گیا وعدہ یاد دلاتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی نے26 جولائی کو احتجاج کیا تو حکومت نے کہا کہ آئی پی پیز پربات نہیں ہوگی، لیکن پھر معلومات ملیں کہ زیادہ ترآئی پی پیز یہاں موجودہ لوگوں کی ملکیت ہے۔ منعم ظفر خان نے کہا کہ2 ہزار ارب روپے اس قوم نے کیپیسٹی چارجزکی مد میں ادا کیے ہیں، 10 ارب روپےماہانہ ان آئی پی پیز کو دیے گئے، جس نے ایک یونٹ بجلی بھی پیدا نہیں کی۔ حکومت مسلسل جھوٹ بول رہی ہے، ہمیں بتایا جائے کہ 11 ارب روپے جو آئی پی پیز سے بچےہیں اسکا فائدہ عوام کو کب اور کون دےگا؟ انہوں نے ایم کیو ایم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیوایم ہرحکومت کےساتھ مفادات کے لیے جڑ جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعتِ اسلامی کی  جدوجہد ہےکہ کے الیکڑک کو لگام دی جائے، جس علاقےمیں ایک فیصد بل ادا نہیں کرتے وہاں اضافی بل بھیجے جاتے ہیں، جماعت اسلامی اس ظلم کے خلاف ہر چوک، چوراہے پر بات کررہی ہے۔ دوسری طرف بجلی کے صارفین 18لاکھ سے38 لاکھ ہوگئے،لیکن جنریشن میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کا واضح مطالبہ ہےکہ کراچی میں لوڈ شیڈنگ ختم کی جائے اور اگر نیشنل گرڈ سےبجلی حاصل کرلی جاتی ہےتو کے الیکڑک کی ضرورت ہی نہیں پڑیگی۔ منعم ظفر خان نے کہا کہ لوگ کراچی سے اپنے کارخانے بند کرکے پنجاب منتقل کر رہےہیں، احتجاج کے نتیجے میں ہم حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں گے، یہ فارم 47 والے لوگ ہیں۔ انہوں نے مزید کہ آج سندھ اسمبلی میں جامعات کا بل اس وقت منظور کرلیا، اساتذہ باہر احتجاج کرتے رہے لیکن کسی نے نہیں سنی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کا ایک ہی وژن ہے اور وہ یہ کہ جہالت سب کے لیے ہے۔

تجربہ کار کھلاڑیوں کی واپسی، پاکستان نے سہ فریقی سیریز اور چیمپیئنز ٹرافی کے لیے حتمی اسکواڈ کا اعلان کر دیا

Pakistan champion trophy squad

سہ فریقی سیریز اور چیمپیئنز ٹرافی 2025  کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے حتمی اسکواڈ کا اعلان کر دیا ہے۔ پی سی بی کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق محمد رضوان چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت کریں گے جبکہ سلمان علی آغا نائب کپتان ہوں گے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے  چیمپئنز ٹرافی 2025 کے 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کر دیا ہے، اسکواڈ میں کئی بڑے تجربہ کار کھلاڑیوں کی واپسی ہوئی ہے، جن میں فخرزمان، فہیم اشرف، خوشدل شاہ اور سعود شکیل شامل ہیں۔ واضح رہے کہ جارح مزاج اوپنر بلے باز فخر زمان ورلڈ کپ 2023 کے بعد قومی ٹیم میں دوبارہ شامل ہوئے ہیں، ان کے علاوہ بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور کامران غلام سکواڈ کا حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ محمد حسنین، طیب طاہر، عثمان خان، حارث راؤف  اور ابرار احمد ٹیم کا حصہ ہوں گے۔ دوسری جانب اوپننگ بلے باز صائم ایوب انجری کی وجہ سے جاری کردہ اسکواڈ کا حصہ نہیں ہیں اور وہ چیمپئنز ٹرافی میں شمولیت نہیں کر سکیں گے۔ ٹیم کے اسکواڈ کا اعلان کرتے ہوئےسلیکٹرز نے کہا ہے کہ فخر زمان کے اوپننگ پارٹنر سعود شکیل یا بابر اعظم ہوسکتے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا، جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ابھی اوپننگ پارٹنر کے حوالے سے تبادلہ خیال کرنا باقی ہے۔ سلیکٹر اسد شفیق نے صائم ایوب سے اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ  اندازہ ہے کہ صائم ایوب کے لیے چیمپئنز ٹرافی نہ کھیلنا کتنا تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔ واضح رہے کہ پی سی بی کی جانب سے چند روز قبل آئی سی سی کو ابتدائی اسکواڈ کے نام بھیجے تھے، پی سی بی کی جانب سے جمع کروائے گئے ابتدائی اسکواڈ میں کپتان محمد رضوان، بابر اعظم، طیب طاہر، عرفان خان نیازی، سفیان مقیم، محمد حسنین، عبداللہ شفیق، نسیم شاہ، عثمان خان، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، ابرار احمد، کامران غلام سمیت سلمان علی آغا، امام الحق، فخر زمان، حسیب اللہ اور عباس آفریدی کا نام شامل تھے۔ خیال رہے کہ  چیمپیئنز ٹرافی 2025 کی مہمان نوازی پاکستان کو سونپی گئی ہے، جس کے لیے مقررہ اسٹیڈیمز کو عالمی معیار کے مطابق بنایا گیا ہے۔ چیمپیئنز ٹرافی 19 فروری سے 9 مارچ تک پاکستان میں کھیلی جائے گی، تاہم اس کے چند میچز دبئی میں کھیلے جائیں گے، کیونکہ انڈیا نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان میں میچز کھیلنے سے انکار کردیا تھا۔ انڈیا کے انکار کے بعد یہ طے پایا ہے کہ انڈیا کے تمام میچز نیوٹرل وینیو میں کھیلے جائیں گے، جس کے لیے دبئی کا انتخاب کیا گیا ہے، جب کہ دوسری تمام ٹیمیں پاکستان میں میچز کھیلیں گے۔ یاد رہے کہ یہ میچز نیشنل اسٹیڈیم کراچی، قذافی اسٹیڈیم لاہور اور راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلے جائیں گے۔ قومی ٹیم 19 فروری کو نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں نیوزی لینڈ کے خلاف کھیل کر ایونٹ کا آغاز کرے گی۔