
کبھی کبھار ایسا لگتا ہے جیسے یہ ملک،یہ مٹی، یہ آسمان، یہ دھوپ، سب کچھ کسی اور کا ہے۔ جیسے عام آدمی اس سرزمین کا وہ بدقسمت باسی ہے جس کی سانسیں بھی اب قرض کی ضمانت پر چل رہی ہیں۔ جون کی یہ دوپہریں، جب آسمان آگ برساتا ہے
کچھ جاہلوں کو ہر وقت اپنی ہی ریاست کو کوستے دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے۔ ان کی پسند کے خلاف کوئی حکومت آجائے تو یہ آئی آئی ایف کے پاس جا پہنچتے ہیں اور انہیں خط لکھتے ہیں کہ “خبردار پاکستان کو قرض نا دینا”۔یہ دن رات پاکستان کے
بالآخر وہ دن بھی آ ہی گیا جب آزاد کشمیر کی سیاست میں ایک اور اہم موڑ نے جنم لیا۔ ملک کے معروف بزنس مین، سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر اور استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ سردار تنویر الیاس خان نے نہ صرف اپنی جماعت کو خیرباد کہا بلکہ اپنے
ضرورت ہے کہ ہم جذبات کے ہجوم سے نکل کر عقل، دین اور آئین کی روشنی میں سچائی کو سمجھنے اور بیان کرنے کی جرات کریں۔ سینیٹر پرویز رشید کی سینیٹ میں حالیہ تقریر اور مسلم لیگ ن کی خاموشی نے ایک بار پھر اس زخم کو چھیڑا ہے جو
اکثر ہم سوچتے ہیں کہ موت ایک خاموشی ہے، مگر بعض اموات چیخ ہوتی ہیں — انسان کی تنہائی، اپنوں کی بےحسی، اور دنیا کی بےوفائی کی چیخ۔ کبھی کبھی کوئی خبرنہیں آتی، بس خاموشی چیخ اٹھتی ہے۔ اداکارہ عائشہ خان کی موت کا معاملہ کچھ ایسا ہی تھا… ایک
فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی وائٹ ہاوس آمد کو پاکستانی میڈیا میں ایک ”تاریخی کامیابی“ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر ان کی مہمان نوازی، تصویری مسکراہٹیں، پرجوش مصافحے اور رسمی ظہرانہ، یہ سب کچھ بظاہر ایک قومی وقار
پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ”بلاسفیمی بزنس“ کے حوالے سے ایک باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے، جس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں بعض وکلا،وفاقی تحقیقاتی ادارے کے اہلکار،حساس اداروں کے افسران اور حتیٰ کہ بعض جج حضرات بھی توہین مذہب کے مقدمات
جنگ بندی کی طرف بڑھتے ہوئے حالات نے نئی کروٹ لی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جنگ میں شدت پیدا ہو رہی ہے اور اس کی ہلاکت خیزی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا پہلا بڑا اشارہ نیتن یاہو نے دیا۔ اس نے تہران سے انخلا کی بات کی۔
پاکستان کی جانب سے ایران کی حمایت کے جرات مندانہ مؤقف کو ساری عرب دنیا میں سراہا جا رہا ہے۔ اسی طرح سعودی ولی عہد کی جانب سے ایرانی صدر کے ساتھ رابطے کو ایک مثبت اور نتیجہ خیز تبدیلی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ ملکوں کے درمیان
ایران اسرائیل جنگ تیسرے روز کہاں کھڑی ہے؟ اس سوال پر غور کرتے جائیں، منظر کھلتا جائے گا۔ جنگ کے تیسرے روز اسرائیل کے دو حلیفوں یعنی امریکا اور برطانیہ نے بہ انداز دیگر اسرائیل کی گلو خلاصی کے لیے آواز بلند کی ہے۔ برطانیہ نے کہا ہے کہ اب