
سہیل وڑائچ نے اپنے حالیہ کالم میں، جس انداز سے جنرل عاصم منیر کی شخصیت کو پیش کیا ہے،اس میں ایک صحافی کا قلم کم اور ایک “درباری مؤرخ” کا انداز زیادہ جھلکتا ہے۔ ان کے الفاظ سے لگتا ہے کہ جیسے کسی فیلڈ مارشل کے قصیدے تحریر ہو رہے
ٹشو پیپر کا استعمال ہمیشہ سے ہی عارضی رہا ہے، جسے جب چاہیں استعمال کریں اور پھینک دیں۔ ایسے ہی 79 سال سے ہم عوام سے ہورہا ہے۔ سیاستدان ہوں یا بیورکریٹس، جج ہوں یا آمریت پرست حکمران سبھی ایسا کرتے آرہے ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم
14اگست آزادی یا غلامی کا دن مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے قوموں کی تاریخ میں ایسے ایام بھی آتے ہیں جن کو تاریخ نے ہمیشہ زندہ اور روشن رکھاہے۔ زندگی کے یہ دودن ہوتے ہیں جن کے
وہ تین دسمبر 1996 کو جبالیہ کے مہاجر کیمپ میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ کیمپ 1948 میں مقامی افراد کی جبری بےدخلی کے بعد وجود میں آیا تھا۔ گھر میں، محلے کی مسجد میں، مقامی اسکول میں پڑھتا بچہ الاقصیٰ یونیورسٹی جا پہنچتا ہے۔ اس نے اپنی آنکھوں سے ہزار
آپ کے جسم کے اعضا کام کرتے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کریں، سلامت اور فعال اعضا اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں ان نعمتوں کی قدر وہی جانتا ہے جن کے پاس یہ نہیں ہوتے یا پھر ان میں کوئی نقص ہوتا ہے، میں اپنی ہی مثال آپ
اخبارات میں ضرورت رشتہ کے اشتہارات پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کےلیے یہ کتنا بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ لڑکے ہیں تو ان کی عمریں ڈھلتی جارہی ہیں اور لڑکیاں ہیں تو بیٹھے بیٹھے بالوں میں چاندی آگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں کتنے
تحریک پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی ایک عظیم جدوجہد تھی، جس کا مقصد ایک ایسی آزاد مملکت کا قیام تھا، جہاں وہ اپنے مذہبی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کو تحفظ دے سکیں۔ اس تحریک میں مختلف طبقات نے اپنا کردار ادا کیا، لیکن علماء کا کردار نہایت اہم اور فیصلہ
جب کسی قوم کے زخموں پر نمک چھڑکنے والا اس کا حکمران ہو تو شفا کے خواب بھی گناہ بن جاتے ہیں۔ جب مظلوم کی فریاد کو اقتدار کی میز پر تمسخر بنا دیا جائے تو عدل کا ترازو زمین پر گر جاتا ہے۔ ابھی کل ہی قوم نے یہ
مصنوعی ذہانت بیسویں صدی کے اختتام اور اکیسویں صدی کی ابتدا سے ہی سائنسی ترقی کا اہم ستون بن چکی ہے۔ چاہے وہ چیٹ بوٹس ہوں، خودکار ترجمے، تصویری شناخت، خودکار گاڑیاں یا طبی تشخیص، ہر شعبے میں اے آئی اپنی جگہ مضبوطی سے بنا چکی ہے۔ مگراس ٹیکنالوجی کے
وہ صحرائی مقتل جب بپھرے ہوئے دن کے سورج تلے آتش فشاں کی مانند دہک رہا تھا، وہاں ایک وجود اُتر رہا تھا۔ نہ خوف کے سائے، نہ لرزتے قدم، نہ فریاد کی آہٹ۔ بڑی سی چادر اوڑھے، سرخ جوڑا پہنے، دراز قد شیتل جیسے قیامت سے پہلے کا ایک