
جیسے جیسے نئی معلومات سامنے آ رہی ہیں، انڈیا کے لیے اپنی شرمندگی چھپانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جو واقعہ ابتدا میں ایک معمولی سرحدی جھڑپ سمجھا گیا تھا، اب ایک انتہائی منظم اور درست کارروائی دکھائی دیتا ہے۔ ادھر انڈیا خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہے اور ادھر
کنزیومر کورٹس کا قیام کسی سیاسی رہنما کی ذات تک محدود نہیں بلکہ یہ قانون کی بالادستی،شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور ریاست کی فلاحی ذمہ داریوں کا مظہر ہے۔ یہ عدالتیں کسی فرد،پارٹی یا حکومت کے ذاتی مفاد کی غرض سے نہیں بلکہ ایک ایسے عوامی خواب کی تعبیر
یوم تکبیر کا تذکرہ جس طرح محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے بغیرممکن نہیں اس ہی طرح محسن پاکستان کا تذکرہ سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خان جمالی کے بغیر نامکمل ہے۔ میر ظفر اللہ خان جمالی مسلم لیگ ق کی جانب سے وزیراعظم منتخب ہوئے تو ان کو ایوان
سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک روح کو جھنجھوڑ دینے والی ویڈیو وائرل ہے، جس میں حرم مکی کے امام، شیخ یاسر الدوسری، ایک ناقابلِ یقین واقعے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ واقعہ محض ایک مسافر کی تاخیر کا نہیں، بلکہ کامل ایمان اور سچے توکل کی زندہ مثال ہے۔
پاکستان روایتی طور پر زراعت، ٹیکسٹائل اور سروس سیکٹر کے لیے جانا جاتا تھا۔ لیکن اب تیزی سے ٹیکنالوجی اور جدت کے میدان میں ایک نمایاں کردار ادا کرنے لگا ہے۔ حالیہ برسوں میں ٹیک کمپنیوں اور انوویشن ہبز نے ایک خاموش انقلاب برپا کیا ہے جو لوگوں کے جینے،
چینی صدرشی جن پنگ امریکی فوجی بالادستی کو کمزور کر رہے ہیں، چین کی افواج میں تیزی سے توسیع پر خدشات بڑھ رہے ہیں کہ یہ ملک امریکہ کے لیے وجودی خطرہ بن سکتا ہے۔ چین نے نہایت جارحانہ انداز میں ایک بڑی فوج تشکیل دی ہے جس کا مقصد ہماری
جب بھی پاکستان میں دہشت گردی کی کوئی نئی لہر اٹھتی ہے، خاص طور پر بلوچستان میں تو ایک سوال ذہن میں فوراً آتا ہے کہ آخر اس خونریزی کے پیچھے کون ہے؟ اگر اس سوال کا جواب کسی تجزیے، مشاہدے یا قیاس پر چھوڑا جائے تو شاید کسی کو
ہماری زندگیوں میں کتنے دن آتے ہیں اور کتنے گزر جاتے ہیں، مگر کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو دل و روح پر ایک ان مٹ نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ عشرہ ذوالحجہ کے یہ دس دن بھی ایسے ہی دن ہیں، رب کے قرب کے دس سنہرے مواقع، بندگی کی
اب جب کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے اہم ترین ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کا کامیاب اور غیر معمولی اور اسرائیل سے غیر مربوط دورہ مکمل کر چکے ہیں، تو ایک بات اب زیادہ وضاحت سے کہی جا سکتی ہے کہ غیرقانونی صیہونی ریاست
کبھی کبھی لفظوں کے بدن پر ایسی وردی پہنا دی جاتی ہے کہ وہ’ نعرہ ‘بن جاتے ہیں، وہی نعرہ جو قوموں کو جنگ میں دھکیل سکتا ہے یا پھر کسی ایک شخص کے ماتھے پر فاتح کا تمغہ چسپاں کر سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں صوبائی وزیر اطلاعات پنجاب