
صوابی میں ایک درزی نے بیوی کی جانب سے گھر واپسی سے انکار پر اپنے چار کمسن بچوں کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کر لی۔ کچھ دن پہلے ٹانک میں بھی ایک جیولر نے معاشی پریشانیوں اور روزگار کی وجہ سے بیوی، 2 بیٹیوں اور ایک بیٹے کو
جنوبی ایشیا کے ماہرین اور تجزیہ نگاروں کی نظریں امریکی صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات پر جمی ہوئی تھیں۔ اس ملاقات سے بہت کچھ طے ہونا تھا اور اب خاصا کچھ سامنے آ چکا ہے۔ تجزیہ نگار اندازے لگا رہے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اس
علم کا میدان ہو یا سیاست، سماج کا ذکر ہو یا امت کی سربلندی کی خواہش، بیسویں اور اکیسویں صدی میں ان موضوعات پر گفتگو اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک حسن البنا شہید کا ذکر نہ ہو جائے۔ عین اس وقت جب 1948 کی عرب اسرائیل
“مجھے خلع چاہیے” تصور کریں ایک خاتون حلق کے بل یہ تین الفاظ نکالتی ہے اور اس کے اثرات کہاں اور کیسے پہنچتے ہیں۔ سب سے پہلے تو شوہر نامدار وہ کچھ دیر کے لیے خاموش اور حیران ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر زوردار ری ایکشن آتا ہے۔
پرانے زمانے میں کھلی مشکیزےکو کہا جاتا تھا۔ کھلی کا مطلب پانی رکھنے کا مٹکا بھی ہے۔ آج کل ان کی جگہ کنستر یا بوتلوں نے لے لی ہے۔ آج بھی بلوچستان میں ایک بوتل پہ کپڑا چڑھا دیا جاتا ہے اور اس کا پانی پیا جاتا ہے۔ آج سے
حکومت کو اقتدار میں آئے ایک برس گزرگیا، مگر عام انتخابات ابھی بھی ناقابلِ قبول ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعتِ اسلامی ‘فارم 47’ کی حکومت کے خلاف آج ملک بھر میں یومِ سیاہ منارہی ہیں۔ حکومت احتجاج روکنے کے لیے پورا زور لگا رہی
کیا واقعی اسکرین اور گیجٹس کا زیادہ استعمال بچوں کے لیے نقصان دہ ہے؟ اور اگر ہے تو عام والدین اپنے بچوں کو اس ڈیجیٹل دنیا سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو اس وقت تمام ہی والدین کے سامنے ایک چیلنج کی صورت اختیار کرگیا
شامی ڈکٹیٹر بشار الاسد اپنے خاندان کے 50 سالہ اقتدار کا سورج غروب ہونے کے بعد روس میں پناہ گزین ہے، مگر شام کے شہر حماۃ کے مکین 43 برس قبل کے وہ مناظر نہیں بھولے جب ان کا شہر لہو میں ڈبو دیا گیا تھا۔ انسانی حقوق سے متعلق
ایک ہاتھ میں ببل اور ایک ہاتھ میں پیسے دبائے بوسیدہ سے کپڑے پہنے سات سال کا یہ بچہ کراچی میں ایک بس ٹرمینل پر ‘ببل’ بیچ رہا تھا۔ میں نے انتظار کے لمحوں میں شاید وقت دیکھا ہوگا، گھڑی کا ڈائل جگمگایا ہوگا۔ بچے کے لیے شاید یہ نیا
انیس سو پچھتر میں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل نے خواتین کی تعلیم کے لئے اداروں کے قیام کی اجازت دی اور ٹیلی ویژن پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے کئی معاشی اصلاحات متعارف کروائیں۔ نتیجتاً ایک دعوت میں اپنے بھتیجے سے بغل گیر ہو رہے تھے کہ بھتیجے