
فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی وائٹ ہاوس آمد کو پاکستانی میڈیا میں ایک ”تاریخی کامیابی“ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر ان کی مہمان نوازی، تصویری مسکراہٹیں، پرجوش مصافحے اور رسمی ظہرانہ، یہ سب کچھ بظاہر ایک قومی وقار
پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر ”بلاسفیمی بزنس“ کے حوالے سے ایک باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے، جس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں بعض وکلا،وفاقی تحقیقاتی ادارے کے اہلکار،حساس اداروں کے افسران اور حتیٰ کہ بعض جج حضرات بھی توہین مذہب کے مقدمات
جنگ بندی کی طرف بڑھتے ہوئے حالات نے نئی کروٹ لی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جنگ میں شدت پیدا ہو رہی ہے اور اس کی ہلاکت خیزی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا پہلا بڑا اشارہ نیتن یاہو نے دیا۔ اس نے تہران سے انخلا کی بات کی۔
پاکستان کی جانب سے ایران کی حمایت کے جرات مندانہ مؤقف کو ساری عرب دنیا میں سراہا جا رہا ہے۔ اسی طرح سعودی ولی عہد کی جانب سے ایرانی صدر کے ساتھ رابطے کو ایک مثبت اور نتیجہ خیز تبدیلی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ ملکوں کے درمیان
ایران اسرائیل جنگ تیسرے روز کہاں کھڑی ہے؟ اس سوال پر غور کرتے جائیں، منظر کھلتا جائے گا۔ جنگ کے تیسرے روز اسرائیل کے دو حلیفوں یعنی امریکا اور برطانیہ نے بہ انداز دیگر اسرائیل کی گلو خلاصی کے لیے آواز بلند کی ہے۔ برطانیہ نے کہا ہے کہ اب
فلسطینی شہر حیفہ، جو کہ ایک قدیم بندرگاہ ہے اور اس وقت اسرائیلی قبضے میں ہے، وہاں بھارتی بزنس گروپ اڈانی کی ایک لاکھ کروڑ انڈین روپے سے زائد کی سرمایہ کاری موجود ہے۔ یہ محض بزنس نہیں، بلکہ بندرگاہ پر اختیار اور جغرافیائی رسائی کا جدید ترین ماڈل ہے۔
ایران ایک ایسا ملک ہے، جس نے اپنے ”نام نہاد اسلامی“ انقلاب کے بعد نہ صرف اپنی سرزمین بلکہ پوری مسلم دنیا پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ 1979میں خمینی کے ”شیعہ انقلاب“ کے بعد ایران نے نظریاتی سرحدوں کو زمینی سرحدوں پر ترجیح دی اور ”تصدیر انقلاب“یعنی انقلاب
“بھائی میں تو سموکنگ نہیں کرتا میں تو ویپنگ کرتا ہوں۔ میرا بھائی، میرا بیٹا ویپنگ کرتا ہے۔ سموکنگ چھوڑنی ہے تو ویپنگ شروع کر دو۔ نہیں نہیں ویپنگ صحت کے لیے خطرناک نہیں ہے۔” یہ وہ تمام جملے ہیں جو ہمیں عام سننے کو ملتے ہیں۔ کیا آپ کو
چند ہفتے قبل، میں نے “اسرائیل یتیم ہوگیا” کے عنوان سے ایک بلاگ لکھا تھا جس میں میں نے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے جنگی مجرم وزیرِاعظم نیتن یاہو کے درمیان بڑھتے اختلافات اورسفارتی تنہائی کو موضوع بنایا تھا۔ اس وقت بین القوامی میڈیا اور امریکہ
سال 2025-26 کا وفاقی بجٹ پیش کیا گیا تو حسب روایت حکومت نے ”اپنی کارکردگی کی قصیدہ گوئی“ کے ساتھ” خوش فہمیوں“ کے انبار لگا دیے۔ وزراء نے دعویٰ کیا کہ یہ بجٹ عام آدمی کے لیے ہے،ملکی معیشت کو مستحکم کرے گااور ترقی کی نئی راہیں کھولے گا مگر