اللّٰہ کا سہارا: دنیا کی تلخ حقیقتوں میں امید کی کرن

زندگی کا سفر ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ہم اپنی تمام تر نیک نیتی کے ساتھ اللہ کی راہ میں چل رہے ہوتے ہیں مگر پھر بھی لوگوں کی باتیں ہمیں تھکا دیتی ہیں۔ ان کی زبانیں ہمارے اخلاص پر سوال اٹھاتی ہیں، ہمارے ارادوں کو جانچتی ہیں، اور ہمارے حوصلے کو توڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہماری کوششوں کا کوئی اعتبار ہی نہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کی باتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں اور ان سے بچنا ممکن نہیں۔ ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہاں ہر عمل کا ایک ردِعمل ہوتا ہے۔ لوگ ہمیشہ ہمارے بارے میں کوئی نہ کوئی رائے رکھتے ہیں چاہے ہم اچھا کریں یا برا۔ سوشل میڈیا، خبروں اور روزمرہ زندگی میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ دوسروں کی زندگیوں پر کیسے تبصرے کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ تبصرے حوصلہ بڑھانے کے بجائے مایوسی کا باعث بنتے ہیں اور انسان تھکنے لگتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی زندگی میں کسی نہ کسی موڑ پر ایسی صورتحال سے گزرتا ہے جب دنیا کے الفاظ تیر بن کر دل کو چھیدنے لگتے ہیں۔ جب تنقید اور طنز کی گونج ہمارے اندر کی روشنی کو ماند کرنے لگتی ہے۔ جب دل چاہتا ہے کہ سب چھوڑ چھاڑ کر کہیں دور چلے جائیں جہاں صرف سکون ہو اور اللہ کی محبت کا سایہ۔ لیکن ایسے لمحات میں ہی اللہ کی رحمت ہمیں تھام لیتی ہے۔ وہ جو ہمارا رب ہے، جو ہماری نیتوں سے واقف ہے، جو دلوں کے حال جانتا ہے، وہ ہمیں ہمارے درد کے ساتھ کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ ہم نے اس کی رضا کے لیے کیا کچھ قربان کیا اور پھر وہی ہمیں وہ سکون عطا کرتا ہے جو دنیا کی کوئی چیز نہیں دے سکتی۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں: “فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا، إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا” (پس بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے، بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔) (سورۃ الشرح: 5-6) یہ سچ ہے کہ دنیا کی باتیں ہمیں تھکا سکتی ہیں مگر اللہ کا سہارا ہمیں تھام لیتا ہے۔ جب ہم اپنی زندگی کا مرکز اللہ کو بنا لیتے ہیں تو پھر لوگوں کی رائے بے معنی ہو جاتی ہے۔ وہ چاہے جتنا بھی بولیں جتنا بھی تنقید کریں ہمارے دل کو سکون تب ہی ملے گا جب ہم جان لیں گے کہ ہماری اصل کامیابی اللہ کے ہاں ہے نہ کہ دنیا کی داد و تحسین میں ہے۔ آج کے دور میں جہاں دنیا کی تیز رفتار زندگی میں لوگ ایک دوسرے پر جملے کستے ہیں، اپنی رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، وہاں ہمیں خود کو مضبوط رکھنا ہوگا۔ اگر کبھی لوگوں کی باتیں تھکانے لگیں تو بس رک کر اللہ کی طرف رجوع کر لیں۔ وہی ہمارا سب سے بڑا سہارا ہے اور وہی ہمیں وہ طاقت دے گا جو ہمیں دنیا کی تھکن سے آزاد کر دے۔ جو لوگ اللہ کے لیے چلتے ہیں وہ کبھی نہیں ہارتے۔ کیونکہ ان کا سفر دنیا کی نظروں میں نہیں بلکہ اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنے راستے پر ثابت قدم رہیے۔ دنیا کی باتوں کو دل پر نہ لیجیے بلکہ اللہ کی محبت کو اپنی سب سے بڑی طاقت بنائیے۔ یہی وہ روشنی ہے جو ہمیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتی ہے۔ جو ہمیں آزمائشوں میں مضبوط رکھتی ہے اور جو ہر مشکل میں امید کی کرن ثابت ہوتی ہے۔ میری دعا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں جب تک زندہ رکھے اپنے سہارے کا ہی محتاج رکھے آمین۔ اور یقناً اللّٰہ کے سہارے کی محتاجی بہترین محتاجی ہے۔
کرپٹ پیرنٹنگ

کرپٹ اور وہ بھی پیرنٹنگ، اس کا کیا مطلب ہوا؟ کرپشن تو یہ ہوتی ہے ناں کہ کسی نے سرکاری خزانے یا ترقیاتی کاموں میں پیسوں کا غبن کر لیا ہو تو بھلا والدین کیسے کرپٹ ہو سکتے ہیں؟ کرپٹ پیرنٹنگ (Corrupt Parenting) اس طرزِ پرورش کو کہا جاتا ہے جس میں والدین اپنے بچوں کی اخلاقی، سماجی یا نفسیاتی تعمیر میں غیر صحت مندانہ بلکہ غیر اخلاقی رویوں کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ رویے ظلم، جھوٹ، دھوکہ دہی، غیر ذمہ داری، جانبداری اور خود غرضی جیسی منفی عادات سکھانے پر مبنی ہو سکتے ہیں۔ تو سوال یہ ہم کرپٹ والدین کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟ عموماً ایسے کرپٹ والدین کے اندر یہ چند باتیں موجود ہوسکتی ہیں۔ جس میں غلط کاموں پر بچوں کی حمایت کرنا، نظم و ضبط کی کمی یا حد سے زیادہ نرمی کرنا، غیر اخلاقی فوائد حاصل کرنے کے لیے بچوں کو اکسانا یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھنا، دوسروں کے حقوق پامال کرنے کا جواز دینا، اور غیر قانونی، غیر اخلاقی سرگرمیوں میں بچوں کے ملوث ہونے پر خاموش رہنا یا حوصلہ افزائی کرنا شامل ہیں۔ یہ صرف چند اشارے ہیں جو کرپٹ پیرنٹنگ کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اب اس کرپٹ پیرنٹنگ کی اصطلاح کو اپنی عملی زندگی میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور وہ ہے مصطفیٰ عامر قتل کیس، جس کا چرچا ہر طرف پھیلا ہوا ہے! یہاں پر آپ کو کرپٹ پیرنٹنگ کے دو مختلف رنگ نظر آئیں گے۔ پہلا رنگ مصطفیٰ کی والدہ اور والد کی کرپٹ پیرنٹنگ جبکہ دوسرا رنگ ارمغان کے والد کی کرپٹ پیرنٹنگ ہے۔ پہلے رنگ کی بات کریں تو مصطفیٰ کی تمام تر مصروفیت اس کی والدہ کے علم میں تھیں۔ لڑکیوں سے تعلقات کا معاملہ ہو یا ڈرگز کا لین دین، بغیر نمبر پلیٹ گاڑی کے کرتب ہوں یا جرائم پیشہ افراد سے تعلق سب کا اس کے والدین کومعلوم تھا۔ اس کی والدہ کے علم میں سب کچھ تھا۔ Passive Corrupt Parenting.یعنی جہاں والدین اب کچھ جانتے ہوئے بھی چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے، نظر انداز کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے بچوں کے ساتھ کچھ سانحہ ہو جائے تو یہ مظلومیت کا کارڈ اٹھائے جگہ جگہ نظر آنے لگتے ہیں۔ دوسرے رنگ کی بات کریں تو اس میں ارمغان کے والد کی کرپٹ پیرنٹنگ آتی ہے۔ مصطفیٰ کے ممکنہ قاتل ارمغان کے والد، کرپٹ پیرنٹنگ کا دوسرا رنگ بکھیرتے نظر آتے ہیں جسے Aggressive Corrupt Parenting کہتے ہیں۔ یعنی ایسے والدین جنہیں نہ صرف اپنے ہونہار بچوں کے غیر اخلاقی سرگرمیوں، غیر قانونی دھندوں کا علم ہوتا ہے بلکہ وہ اسے بھرپور طریقے سے حوصلہ دینے کا کام کررہے ہوتے ہیں، اس کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں اور کسی قانونی مسئلے کی صورت اپنے بچوں کو قانون کے شکنجے سے باہر نکال لے جانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہی کرپٹ پیرنٹنگ ایسے سانحات کو جنم دیتی ہے جسے عوام کچھ دن کے لیے خوب ڈسکس کرتے ہیں اور پھر اپنی اپنی زندگیوں میں کھو جاتے ہیں۔
بھارت کو امریکی اسلحے کی فروخت پاکستان کو کیسے متاثر کرسکتی ہے؟

بھارتی وزیراعطم نریندر مودی کے حالیہ دورہ امریکہ میں سب سے اہم یہ خبر سامنے آئی کہ امریکہ بھارت کو ایف پینتس (F-35) فائٹر طیارے سمیت دیگر جدید ترین اسلحہ دے سکتا ہے۔ اس خبر کی بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس نے بھی پزیرائی کی۔ کانگریس کے اہم رہنما اور معروف بھارتی مصنف، دانشور ششی تھرور کا بیان پڑھا، جس میں انہوں نے ایف پینتیس طیارے بھارت کو دئیے جانے کے اعلان کو سراہا۔ ادھر چین اور پاکستان نے اس خبر پر تنقید کرتے ہوئے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خطے میں اسلحے کی دوڑ شروع ہوجائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر بھارت کو ایف پینتیس طیارہ مل گیا تو اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ بھارتی ائیرفورس کو کس قسم کی برتری مل جائے گی؟ اور پاکستان کے پاس اس کے لئے جوابی پلان کیا ہے؟ ایف پینتیس طیارہ کیوں اتنا اہم ہے؟ ایف پینتیس دراصل ففتھ جنریشن لڑاکا (فائٹر)طیارہ ہے، اس کا پورا نام ایف پینتیس لائٹننگ (F-35 Lightning II )ہے، اس کے تین ویرینٹس ہیں۔ ایف پینتیس اے، ایف پینتیس بی اور ایف پینتیس سی۔ ایف پینتیس کو جدید ترین ففتھ جنریشن لڑاکا طیاروں میں سب سے نمایاں سمجھا جاتا ہے۔ آگے جا کر ہم بتاتے ہیں کہ ففتھ جنریش طیارے سے کیا مراد ہے۔ سردست یہ سمجھ لیں کہ دنیا بھر میں فائٹر طیاروں کے شہزادے سمجھے جاتے ہیں۔ ایف پینتیس کو ولی عہد سمجھ لیں، اس کی ٹکر کا صرف چین ہی طیارہ بنا رہا ہے، اس کے بارے میں بھی ابھی مستند معلومات میسر نہیں۔ ایف 35 کا سی ویرینٹ دراصل امریکی نیوی استعمال کرتی ہے، یہ طیارہ بردار بحری جہازوں کے لئے ہیں جبکہ ایف پینتیس بی بہت چھوٹی جگہ پر لینڈ ہوسکتا ہے، یہ امریکی اٹیکنگ میرین فوج کے لئے خاص طور سے بنایا گیا ہے۔ ایف پینتیس اے نسبتاً سستا ورژن ہے اور امریکہ نے اپنے بعض اتحادی ممالک کو یہ طیارہ دیا ہے، برطانیہ، اسرائیل،آسٹریلیا، جاپان وغیرہ استعمال کر رہے ہیں۔ بھارت کو بھی اب صدر ٹرمپ نے یہ پیشکش کی ہے۔ فورتھ اور ففتھ جنریشن فائٹر طیارے اس سے مراد طیارے کا جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہونا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے وقت اور کچھ بعد میں سکینڈ جنریشن، تھرڈ جنریشن فائٹر طیارے استعمال ہوتے تھے۔ 70 کے عشرے سے لے کر 90 کے عشرے تک اور بعد میں بھی فورتھ جنریش طیارے بنائے گئے اور دنیا کی بیشتر ائیرفورس میں ابھی تک فورتھ جنریشن طیارے ہی چھائے ہیں۔ ایف سولہ (F-16) ان میں سب سے ممتاز ہے اور کئی حوالوں سے یہ بانی سمجھا جاتا ہے۔ فورتھ جنریشن طیاروں میں اصل فرق انجن، ہتھیاریعنی میزائل، کمپوزٹ میٹریل اور ایوانکس کا استعمال ہے۔ ایف سولہ کے بھی کئی ویرینٹس آ چکے ہیں، اسے مسلسل اپ گریڈ کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کو جو ایف سولہ طیارے دئیے گئے تھے، اس کے بعد اس کے کئی اپ گریڈ آچکے ہیں۔ ایف سولہ تو امریکی طیارہ ہے، البتہ اس کے مقابلے میں فرانس نے میراج دو ہزار طیارہ، روس نے مگ انتیس (Mig 29) اور سخوئی ستائیس (Su 27)، چین کا جے آٹھ فائٹر طیارہ شامل ہیں۔ پاکستان اور چین کا مشترکہ تیار شدہ طیارہ جے سترہ تھنڈر بھی فورتھ جنریشن فائٹر طیارہ ہے، البتہ اس کا بلاک تھری مزید ایڈوانسڈ ہے اور اسے فور پلس جنریشن فائٹر کہہ سکتے ہیں۔ فور پلس یعنی فورتھ اور ففتھ جنریشن کے درمیان میں جو چند طیارے دنیا میں مشہور ہیں، ان میں ایف سولہ وائپر، فرانس کا رفال، روس کا سخوئی پینتیس، یورپ کے کئی ممالک کا مشترکہ تیار کردہ یوروفائٹر ٹائفون، چین کا جے ٹین سی، روس کا مِگ پینتیس، چین کا جے ٹین سی اور سوئیڈن کا گریفن ای شامل ہیں۔ بھارت نے فرانس کے رفال طیارے کو اپنی ائیرفورس میں شامل کر رکھا ہے جبکہ پاکستان نے چین سے جے ٹین سی طیارے لے رکھے ہیں۔ ففتھ جنریشن طیارہ سب سے جدید ہے اور ابھی تک صرف تین ممالک(امریکہ، روس، چین) کے پاس اس کی صلاحیت موجود ہے، جنوبی کوریا اور ترکی اس جانب پیش رفت کر رہے ہیں، مگر ابھی تک ان کے پاس یہ طیارہ تیار شدہ حالت میں نہیں۔ امریکہ کے پاس دو ففتھ جنریش فائٹر طیارے ہیں، ایف بائیس ریپٹر (F-22 Raptor) اور ایف پینتیس لائٹننگ جبکہ روس کے پاس سخوئی ستاون اور چین کے پاس بھی دو ففتھ جنریش فائٹر جے ٹوئنٹی اور جے پینتیس موجود ہیں۔ ساوتھ کوریا کا کے ایف اکیس بورام بھی کچھ حد تک ففتھ جنریشن طیارہ ہے جبکہ ترکی اپنے طور پر ففتھ جنریش طیارہ کان (TF-X Kaan) بنا رہا ہے جس کی ابھی فائنل پروڈکشن شروع نہیں ہوئی۔ ففتھ جنریش طیارے میں بہت سی خوبیاں ہیں، سب سے نمایاں اور اہم اس کا سٹیلتھ ہونا ہے، یعنی یہ ریڈار پر مشکل سے نظر آتا ہےا ور اسے ڈیٹکٹ کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ مکمل طور پر سٹیلتھ طیارہ بنانا اس وقت شائد ممکن نہیں مگر امریکی اور چینی طیاروں کو ریڈار پر پکڑنا آسان نہیں۔ اس کے قوی امکانات ہیں کہ انہیں تب ڈیٹکٹ، ٹریس اور نشانہ بنایا جائے جب یہ اپنا کام کر کے واپس جا رہے ہوں۔ سٹیلتھ طیاروں کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ یہ فورتھ جنریش طیاروں کے ریڈار پر آئے بغیر لانگ رینج میزائلوں سے انہیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ففتھ جنریش فائٹر طیارے کے سامنے فورتھ جنریش طیارہ نہیں ٹھہر سکتا ، یوں ففتھ جنریشن طیارے والی ائیر فورس کو واضح طور پر دوسروں پر سبقت حاصل ہوجائے گی۔ کیا بھارتی ائیرفورس کو سبقت حاصل ہوجائے گی؟ اس کا جواب ہاں میں دینا مشکل ہے، اس لیے کہ امریکی صدر نے بے شک ایف پینتیس طیارے بھارت کو دینے کا اعلان کیا ہے، مگر اس پراسیس میں تین چار سال لگ جانا عام بات ہے۔ پہلی بات یہ کہ امریکہ اپنے جدید ترین طیارے کو یوں ہی بھارت کے حوالے نہیں کرے گا، اس میں کچھ تبدیلیاں لازمی ہوں گی، بعض چیزیں امریکی کسی اتحادی تک کو نہیں دے رہے اور پھر خریدار کی ضروریات کے مطابق بھی تبدیلیاں ہوتی ہیں، یوں بھارتی ضرورت کے مطابق ایف پینتیس طیارے بننے میں ہی اڑھائی تین
قدرتی آفات کے سامنے بےبس انسان

ہفتے کے روز اسلام آباد زلزلے سے لرز اٹھا ایسے ہی اتوار کو نئ دہلی میں زلزلے جھٹکے محسوس کئے گئے۔ جب میں یہ سطور لکھ رہی تھی تو لزبن پرتگال میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے۔ زلزلے سیلاب طوفان اور آگ کا پھیل جانا بس اچانک سے ہوتا ہے اور ترقی یافتہ ممالک بھی ان آفات میں بےبس محسوس کرتے ہیں۔ قدرتی آفات دنیا کی اٹل حقیقت ہیں کوئی بھی انکے ہونے سے انکار نہیں کرسکتا۔ انسان جتنی بھی ترقی کرلے وہ ان آفات کے سامنے بے بس ہے۔ یہ اتنے بڑے پیمانے پر وقوع پذیر ہوتی ہیں کہ انسان تمام تر ترقی وسائل ہونے کے باوجود انکے سامنے مکمل طور پر بےبس ہوجاتا ہے۔ آسٹریلیا جوکہ دنیا بھر کے نایاب جانوروں کا مسکن ہے یہاں پر جانوروں کی افزائش کے لئے پارکس اور سینچریاں موجود ہیں لیکن ۲۰۲۰ میں یہاں اچانک بھیانک آگ بھڑک اٹھی۔ یہ آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ ہزاروں مربع میل کارقبہ اس کی لپیٹ میں آگیا۔ حکومت آسٹریلیا کو جہاں انسانوں کی فکر تھی وہاں ہی انہیں ان جانوروں کی بھی فکر تھی جو اس آگ کی زد میں آگئے تھے۔ آسڑیلیا نے اپنے شہریوں کو ان علاقوں کو چھوڑنے کا حکم دیا جہاں آگ لگی ہوئی تھی اور خود جانوروں کی منتقلی کا کام بھی شروع کیا۔ ہزاروں فائر فائیٹرز نے اس آگ کو قابو کرنے میں حصہ لیا لیکن خشک موسم اور تیز ہوائیں ان کے کام میں روکاوٹ ڈال رہی تھیں۔ وہاں سے لوگوں نے جب ویڈیوز شئیر کی تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے انسان آتش فشاں کے دھانے میں آگئے ہو ہر طرف آگ اسکی چنگاریاں اور دھواں ایک خوفناک منظر پیش کررہا تھا۔ ایک آسٹریلوی خاتون جب اپنا علاقہ چھوڑ رہی تھی تو اس نے ایک کولا بئیر کو درخت کے ساتھ لگے روتے ہوئے دیکھا یہ سرمئ بھالو آسٹریلیا کی پہچان ہیں اور یہ معصوم سے بھالو بہت چھوٹے اور سست ہوتے ہیں اور پتے انکی مرغوب غذا ہے وہ درختوں پر رہتے ہیں۔ یہ ننھا بھالو آگ سے ڈر کررو رہا تھا اس خاتون نے اسکو اتارا تولیے میں لپیٹ لیا اور اسکو پانی پلایا۔ وہ رو بھی رہا تھا اور تھوڑا جلا بھی ہوا تھا یہ منظر پوری دنیا نے سوشل میڈیا کی توسط سے دیکھا اور سب کی آنکھیں بھر آئی۔ اس آگ نے جہاں انسانوں کا بھاری مالیاتی نقصان کیا وہاں اس کی زد میں معصوم جانور بھی آگئے۔ آسٹریلیا نے انکی بحالی کے لئے بہت کام کیا اور دوبارہ آگ کے نا پھیلنے کی طریقوں پر بھی غور کیا۔ پر پھر بھی انسان قدرتی آفات کو روک نہیں سکتا لیکن اس کے پھیلاو اور نقصانات کو کم کرسکتے ہیں۔ پھر اس سال کے آغاز میں دنیا کے امیر ترین علاقوں میں شمار ہونے لاس اینجلس میں آگ پھیل گئ۔ لاس اینجلس امریکا کا تجارتی معاشی اور ثقافتی حب بھی ہے۔ اس کی آبادی تین اعشاریہ نو ملین ہے اور دنیا بھر کے امیر لوگ اور ہالی وڈ کے اداکار یہاں رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہاں میدانی علاقہ بھی ہے،پہاڑی علاقہ بھی اور ساحلی پٹی بھی موجود ہے۔ امرا نے اپنے گھر پہاڑوں اور ساحلی پٹی پر بنائے ہوئے جن میں معروف اداکار لیوناڈو ڈی کپریو، ٹیلرسوئفٹ، ٹام کروز،جینفر آٹسن، جونی ڈپ، سیلنا گومز، جسٹن بیبر، جینفر لوپیز اور دیگر شامل ہیں۔ اداکاروں کی بڑی تعداد بیورلی ہلز نامی علاقے میں رہتی ہے۔ یہاں پر ہالی وڈ کی بہت سی اہم نشانیاں موجود ہیں جن میں والٹ ڈزنی،بالی وڈ باول، بالی وڈ واک آف فیم، ڈولبی تھیٹر دیگر شامل ہیں۔ ہر سال یہاں آسکر ایوارڈز کی میزبانی بھی کی جاتی ہے۔ہالی وڈ کا ایک قدیم سائین بھی لگا ہوا ہے جو اس جگہ کی پہچان ہے۔ اگر ہم لاس اینجلس کو ارضیاتی طور پر دیکھیں تو یہ بحرالکاہل کے رنگ آف فائر پر موجود ہے اور یہاں اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں۔ لاس اینجلس کی آب و ہوا کا جائزہ لیں تو یہاں گرمی کا موسم طویل ہوتا ہے اور سردی کا دورانیہ کم ہوتا ہے۔ سردیوں اور بہار کے موسم میں بارش ہوتی ہے لیکن گرمیاں خشک ہوتی ہیں۔ موسم سرما میں سانتا انا کیلی فورنیا سے آنے والی ہوائیں یہاں خشک اور گرم بخارات کو پیدا کرتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر جنگلات میں آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ جنوری میں بھی ایسا ہی ہوا اور اچانک آگ بھڑک اٹھی جس کی زد میں بہت بڑی آبادی آگئ۔ ابھی اس بات کا تعین کرنا باقی ہے کہ یہ آگ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے لگی یا آب ہوا میں تبدیلی اس کی وجہ تھی۔ تاہم اس آگ نے دیکھتے دیکھتے بڑے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس آگ سے جہاں عام شہری متاثر ہوئے وہاں ہالی وڈ اداکاروں کے قیمتی محلات جیسے گھر بھی تباہ ہوگئے۔ پیرس ہلٹن، انتھونی ہوپکنز، جیف بریجز، یوجین لیوی، جیمز وڈز دیگر کے گھر اس آگ کی لپیٹ میں آگئے۔ پوش علاقے ایسا منظر پیش کررہے تھے جیسے یہاں کسی نے کوئی طاقت ور بم مار دیا ہو۔ جلے ہوئے مکانات پگھلی ہوئی اشیا، جلی ہوئی گاڑیاں ، تباہ ہوئے تجارتی مراکز کے مناظر بہت خوفناک تھے۔ مالیبو کے ساحل پر امرا کے مہنگے گھر اب کھنڈر کا منظر پیش کررہے ہیں۔ اس جگہ پر اداکار اور امیر لوگ گھر لینا باعث امارات سمجھتے تھے۔ ساحلی پٹی پر یہ رہائشی علاقہ اب مکمل تباہ ہوگیا ہے۔ لوگ اپنے اثاثوں کو جلتا دیکھ کر غمگین ہیں یہ آگ انکی حسین یادوں کو نگل گئ۔ کروڑوں کا نقصان ہوا اور لاکھوں لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں۔ یہ آگ کیوں لگی امریکی حکومت نے اس کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ تاہم امریکا جیسی سپر پاور بھی قدرت کے سامنے بےبس نظر آئی۔ جنہوں نے اپنے پیاروں کو اس آگ میں کھودیا اور جنہوں نےاپنے گھر اپنے سامنے خاک کا ڈھیر بنتے دیکھے انکے زہنوں میں یہ ہی سوال ہیں کہ کیا یہ آگ انسانی غلطی سے لگی اور پھیلی یا یہ کسی انسانی سرگرمی کا نتیجہ تھی یا پھر موسمیاتی تبدیلیاں اس پیچھے کارفرما ہیں۔ ایسے بہت سے سوالات کا جواب نئ حکومت کو دینا ہوگا اور متاثرین کی بحالی کی
فیملی سے خودکشی تک

صوابی میں ایک درزی نے بیوی کی جانب سے گھر واپسی سے انکار پر اپنے چار کمسن بچوں کو قتل کرنے کے بعد خود کشی کر لی۔ کچھ دن پہلے ٹانک میں بھی ایک جیولر نے معاشی پریشانیوں اور روزگار کی وجہ سے بیوی، 2 بیٹیوں اور ایک بیٹے کو قتل کر کے خود کشی کر لی تھی. اس طرح کے واقعات کی ایک لمبی فہرست بنائی جاسکتی ہے جہاں ماں نے یا باپ نے بچوں کو مار کر یا اس کی کوشش کرکے خود کشی کر لی ہو۔ ایسی صورتحال میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ‘فیملی’ جس کا مطلب ہی تحفظ، محبت اور تعلق ہے، وہاں اتنی شدت کیوں آتی جارہی ہے؟ اس کا جواب ہے تعلق کے فطری پہلوؤں کو ناں سمجھنا، دنیاوی آسائشوں کی غیر فطری خواہش اور تربیت کو زندگی سے بے دخل کر دینا۔ میڈیا نے تعلق کا ایک فینٹیسی ورژن لوگوں کے ذہنوں میں بھرپور طریقے سے ڈال دیا ہے جہاں غیر انسانی حد تک ہیرو یا ہیروئن اپنے آپ کی قربانی دیتے نظر آئیں گے۔ جبکہ یہ فطری طور پر ممکن ہی نہیں کیونکہ اچھے سے اچھا فرد 24 گھنٹے ‘فرشتہ موڈ’ میں نہیں رہ سکتا، کبھی وہ نارمل ہوگا تو کبھی غصے میں، کبھی خوشگواری سے بات کرے گا تو کبھی چڑچڑے انداز میں، کبھی نرمی غالب ہوگی توکبھی انتہائی سختی۔ الغرض انسانی فطرت کے مطابق وہ ڈراموں، فلموں اور میڈیا کے خود ساختہ ‘اچھے انسان’ کے برعکس اچھے اور برے، دونوں روئیے اپنائے گا۔ لیکن اگر میڈیا کا بنایا غیر فطری تعلق ہی ‘آئیڈیل’ ہوگا تو ہر دن دھچکہ ملے گا، توقعات ٹوٹیں گی، ہر روز تعلق تہس نہس ہوتے ختم ہوتا جائے گا یہاں تک کہ فرد اپنے شریک حیات اور بچوں سے لاتعلق ہوتا جائے گا۔ ہر فرد میں آگے بڑھنے کی فطری خواہش ہوتی ہیں، لیکن نیچرل ڈیزائن ایسا ہے کہ ہر فرد ہر چیز حاصل نہیں کر سکتا، اسی طریقے سے دنیا میں توازن برقرار رہتا ہے۔ جیسے کوئی دولت بہت کما لے گا تو تعلقات میں ناکام ہوگا۔ کوئی مال نہیں کما پاتا لیکن تعلق نبھانے میں بہترین ہے، کوئی لوگوں کو سمجھنے اور ان کی مدد میں بہت تیز ہوتا ہے تو کوئی تکنیکی صلاحیت سے مالا مال ہوتا ہے۔ لیکن اس فطری تقسیم کی خوبصورتی کو ‘مال و آسائشوں’ کو ہر صورت حاصل کرنے کی شدت بدصورتی کی حد تک بگاڑ دیتی ہے۔ خواہش کی آگ بتدریج تعلق کی نرمی و گرمی کو تباہ کر دیتی ہے یہاں تک کہ شریک حیات جب تک مالی و دنیاوی آسودگی فراہم کر رہا ہے جب تک تو اچھا لگتا ہے، ورنہ دوسری صورت ایسے فرد سے تعلق کی خرابی کا سفر طلاق یا خلع کی منزل تک پہنچا دیتا ہے۔ خودکشی اور قتل جیسے انتہائی اقدام ہوں یا تعلق و فیملی کا بدصورت ہونا۔ تمام کی جڑ تربیت نہ ہونے سے نکلتی ہے۔ گھر ہو، اسکول ہو، کالج ہو یا دیگر سماجی ادارے، لوگوں کو لوگوں کے ساتھ رہنے کی تربیت نہیں دی جارہی۔ شادی کے بعد کی اونچ نیچ نہیں سمجھائی جارہی، رشتوں کی نزاکتیں نہیں منتقل کی جارہیں، خواہشات کی آگ کو کیسے قابو میں رکھنا ہے یہ نہیں سیکھایا جارہا۔ مرد کو نہیں پتا کہ کیسے اپنی شخصیت کو تعمیری اور مصیبت کے وقت میں تحفظ کا مرکز بنانا ہے۔ خاتون نہیں جانتی معاشی یا تعلق کے بحران میں کیسے زندگی، تعلق اور بچوں کو NAVIGATE کرنا ہے۔ ان تمام اسباب کا نتیجہ صوابی یا ٹانک جیسے المناک واقعات کی صورت نکلتا ہے۔
مودی ٹرمپ ملاقات : پاکستان پر کیا اثرات پڑیں گے؟

جنوبی ایشیا کے ماہرین اور تجزیہ نگاروں کی نظریں امریکی صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات پر جمی ہوئی تھیں۔ اس ملاقات سے بہت کچھ طے ہونا تھا اور اب خاصا کچھ سامنے آ چکا ہے۔ تجزیہ نگار اندازے لگا رہے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اس کے کیا اثرات پڑیں گے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ صدر ٹرمپ نے دنیا بھر کے حکمرانوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری بار جیتنے کے بعد ٹرمپ کو ٹرمپ 2 کے نام سے امریکی میڈیا میں یاد کیا جا رہا ہے/ اس بار وہ زیادہ جارحانہ، تباہ کن انداز سے آگے بڑھے ہیں۔ ٹرمپ امریکہ مخالفوں کے خلاف بھی بہت کچھ کریں گے ، سردست ان سے امریکہ کے اتحادی زیادہ پریشان ہیں۔ امریکی اتحادیوں پر وہ اس بار پوری شدت سے حملہ آور ہوئے ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ کینیڈا اور میکسیکو پر وہ ایسی بے رحمی سے پچیس فیصد تک ٹیرف لگا دیں گے؟ پانامہ اور گرین لینڈ کے معاملے میں یوں کھلی دھمکیوں پر اتر آئیں گے۔ نہایت بے دید ہو کر ٹرمپ نے سعودی حکمرانوں کو پہلے کہا کہ پانچ سو ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کرو۔ سعودی حکومت نے چھ سو بلین ڈالر کی پیش کش تو ٹرمپ نے اچانک حقارت اور بے نیازی سے اسے مسترد کرتے ہوئے حکم صادر کیا کہ نہیں یہ کم ہیں، ایک ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو۔ ان بے چاروں کو تائید کرنا پڑی کہ ممکن ہے ہم اس سے بھی زیادہ سرمایہ کاری کر ڈالیں۔ انڈیا بھی اس بار ٹرمپ کے نشانے پر تھا۔ ٹرمپ دراصل فیصلہ کر چکا ہے کہ اس بار اسے معیشت کو ترجیح بنانا ہے اور کسی ملک کو امریکہ سے فائدہ نہیں اٹھانے دے گا۔ تجاری توازن بھی ٹھیک رکھے گا اور جو ملک امریکی مصنوعات پر ٹیرف لگائے گا، امریکہ بھی جواب میں ان پر ویسا ہی ٹیرف لگا دے گا۔ صدر ٹرمپ دو دن قبل یہ ایگزیکٹو آرڈر جاری کر چکے ہیں۔ نریندر مودی کو ٹرمپ نے اپنی تقریب حلف برداری میں نہیں بلایا تھا ۔ حالانکہ مخالف ہوتے ہوئے بھی چینی صدر کو دعوت دی تھی، وہ نہیں آئے ، ان کی جگہ نائب چینی صدر شریک ہوئے۔ مودی کو البتہ ٹرمپ نے اب دورہ امریکہ کے لئے مدعو کیا۔ وہ چوتھے ّّخوش نصیب ٗٗحکمران ہیں جنہیں ٹرمپ نے دعوت دی۔ ویسے دعوت کیا، ایک طرح سے سمجھیں کہ سمن دے کر بلایا ہے۔ جب ٹرمپ نے مودی سے فون پر بات کی تو کہا کہ انڈیا فیئر ٹیرف پالیسی بنائے۔ انڈین سوچتے رہے کہ کس طرح ٹرمپ کو راضی کریں۔ مودی جی اتنے گھبرائے ہوئے تھے کہ انہوں نے جانے سے پہلے کئی فیصلے کر ڈالے۔ امریکی مصنوعات پر ٹیرف ازخود نصف سے بھی کم کر دیا۔ جتنی ایک رعایت دے سکتے تھے، وہ پہلے ہی دے ڈالی۔ بھارت نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی مخالفت بھی نہیں کی ہے، وہ خاموش رہے۔ انڈین پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں یہ سوال اٹھایا گیا تو بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر نے جواب دینے ہی سے انکار کر ڈالا۔ دوسری طرف بھارت میں امریکی نیشنل سکھ شہری گرپتونت سنگھ پنوں پر قاتلانہ حملے کا الزام ایک بھارتی انٹیلی جینس افسر وکاش یادو پرلگایا گیا تھا۔ امریکی ادارے اس حوالے سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ صدر بائیڈن کے دور میں امریکی یہ بات کرتے رہے مگر مودی حکومت اسے ٹال جاتی تھی۔ اب ٹرمپ کے ڈر سے چند دن پہلے بھارت نے معاملے کی تحقیقات کے لئے ایک لیگل پینل کی تشکیل کا اعلان کیا ہے۔ دراصل مودی حکومت ٹرمپ انتظامیہ سے خوفزدہ ہے جو کہ امریکہ میں کسی بھی قسم کی نان سینس برداشت نہیں کریں گے۔ خیر ملاقات ہوگئی۔ ٹرمپ اور مودی جی نے آپس میں جپھا ڈالا، مسکرا مسکرا کر باتیں کیں، مشترکہ پریس کانفرنس بھی کر ڈالی۔ مودی تین بار بھارت کے وزیراعظم بن چکے ہیں، مگر وہ میڈیا سے بات چیت سے گریز کرتے ہیں، سولو پریس کانفرنس تو بالکل نہیں کرتے ، دوسرے حکمران کے ساتھ بھی مشترکہ پریس کانفرنس کم ہی کرتے ہیں۔ مودی نے ٹرمپ کے ساتھ البتہ پریس کانفرنس کی، دو سوالات کے جواب بھی دئیے۔ ایک سوال مودی سے ان کے کاروباری دوست گوتم ایڈانی کے حوالے سے کیا گیا جس پر امریکہ میں فراڈ کے کیسز چل رہے ہیں۔ مودی سوال ٹال گئے کہ میں نے اس بارے میں صدر ٹرمپ سے نہیں پوچھا ۔ ویسے ٹرمپ بھی بنگلہ دیش کے حوالے سے سوال ٹال گئے اور کہا کہ مودی بنگلہ دیش پر کئی برسوں سے کام کر رہے ہیں، اس کا جواب وہ دیں۔ خیر مودی جی سے دوسرا سوال امریکہ سے نکالے گئے بھارتی شہریوں کے بارے میں کیا گیا جو غیر قانونی طور پر امریکہ میں تھے۔ مودی نے کہا کہ ہم انہیں قبول کریں گے اور یہ امریکہ کا حق ہے وغیرہ وغیرہ۔ مودی جی نے ویسے خاصی چاپلوسی کا مظاہرہ کیا اور وقتافوقتاً ٹرمپ کو مکھن بھی لگاتے رہے۔ کہا کہ مجھے صدر ٹرمپ کی یہ بات پسند ہے کہ وہ امریکی عوام اور امریکہ کو پہلی ترجیح پر رکھتے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ میں بھی بھارت اور بھارتی عوام کے لئے یہی چاہتا ہوں۔ مودی کا ایک خاص سٹائل ہے کہ وہ لفظوں کی ہیراپھیری سے اپنا پوائنٹ بنایا کرتے اور اس سے خود ہی لطف اٹھاتے ہیں۔ ان کے ٹیم والے ایسے تھکے ہارے جوکس شائد مجبور ہو کر بنایا کرتے ہیں ۔ اس پریس کانفرنس میں بھی مودی کہنے لگے کہ ٹرمپ کا نعرہ ہے، میک امریکا گریٹ اگین یعنی ماگا (MAGA)جبکہ میرا نعرہ ہے، میک انڈیا گریٹ اگین یعنی مِیگا(MIGA)تو جب انڈیا اور امریکہ مل کر کام کریں گے تو یہ ماگا اور مِیگا مل کر ہوجائے گا میگا (Mega)۔ اب یہ خاصا تھکا ہوا اور بے تکا جملہ ہے۔ ماگا اور می گا مل کر میگا کیسے بن جاتے ہیں ؟ پھر مودی کہنے لگے کہ ایک اور ایک دو نہیں بنتے بلکہ گیارہ بنتے ہیں۔ ان کا اشارہ مشہور ہندی، اردو محاورے کی طرف تھا۔ خیر ٹرمپ خوشامد سے خوش ہوتے ہیں، وہ مسکراتے رہے ، چہرہ تمتماتا رہا، مگر
حسن البنا شہید، دلیل کے ہتھیار سے اپنوں کے دل موہنے اور مخالفین کو لاجواب کردینے والا منفرد کردار

علم کا میدان ہو یا سیاست، سماج کا ذکر ہو یا امت کی سربلندی کی خواہش، بیسویں اور اکیسویں صدی میں ان موضوعات پر گفتگو اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک حسن البنا شہید کا ذکر نہ ہو جائے۔ عین اس وقت جب 1948 کی عرب اسرائیل جنگ جاری تھی۔ برطانیہ فسلطین کی سرزمین فلسطینیوں سے چھین کر اسرائیل قائم کر رہا تھا۔ 12 فروری 1949 کو مصری حکومت کی ایما پر حسن البنا کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا، انہوں نے محض 42 برس کی عمر پائی، مگر اس دوران وہ اتنا کچھ کر گئے کہ آج بھی ان کا نام عزت واحترام سے لیا جاتا ہے۔ نفرت وتعصب پر مبنی قوم پرستی کی مزاحمت ہو یا اصل ایشوز کو نظرانداز کر کے وقت گزاری کا انداز، حسن البنا شہید اور ان کے تربیت یافتہ اخوان المسلمون کے لوگ دنیا بھر میں دلوں پر دستک دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حسن أحمد عبد الرحمن محمد البنا 14 اکتوبر 1906 کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ برطانیہ اور اتحادی خلافت عثمانیہ کو ختم کر کے مشرق وسطی پر قابض ہو چکے تھے۔ جہاں جو ملے، لوٹ لو یا کسی بھی قیمت پر چھین لو کے اصول پر کاربند برطانیہ اور اس کے اتحادی صرف عسکری ہی نہیں تہذیبی اور ثقافتی زبردستی بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ قوم پرست تحریک سے اپنی سیاسی زندگی شروع کرنے والے حسن البنا جب امت کو متحد کرنے نکلے تو برطانوی استبداد کے مقابلے کا مرحلہ درپیش تھا۔ اسی تناظر میں انہوں نے کہا کہ ” اسلام کی دعوت پر لبیک کہو، سپاہی بنو، کیوں کہ اِسی میں ملک کی بقا اور امت کی عزت ہے، بالآخر ہم تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں۔” امریکا میں مقیم پاکستانی صحافی معوذ حسن کے مطابق ‘حسن البنا نے مختلف رسالوں میں 2000 سے زائد مضامین لکھے۔ اُن کی خود نوشت “مذکرات الدعوة والداعیة” آج بھی دُنیا بھر میں مقبول ہے’ پاکستانیوں سے حسن البنا شہید کا ایک منفرد رشتہ ہے۔ ان کا قائد اعظم کو تحفتا دیا گیا قرآن پاک کا نسخہ آج بھی کراچی میں محفوظ ہے۔ پاکستانی مصنف سلیم منصور خالد کے مطابق ‘قائداعظم اور حسن البنا کے درمیان براہِ راست ملاقات بھی ہوئی۔ بعدازاں یہ رابطہ متعدد حوالوں سے برابر قائم رہا۔’ مفتیِ اعظم فلسطین محمد امین الحسینی بیان کرتے ہیں ’’مجھے یاد ہے ایک دعوت کا اہتمام عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن عزام نے قائداعظم محمد علی جناح کے اعزاز میں کیا تھا، قائداعظم کے ہمراہ لیاقت علی خاں بھی تھے، عزام صاحب کے گھر سب سے پہلے پہنچنے والوں میں، میں اور امام حسن البنا شہید تھے۔ ہم قائداعظم سے دیر تک محو گفتگو رہے۔ اسی عرصہ قیام کے دوران قاہرہ میں ایک ضیافت سے خطاب کرتے ہوئے 18دسمبر 46ء کو قائداعظم نے کہا تھا کہ ’’اگر ہند میں ہندو سلطنت قائم ہوگئی تو اس کا مطلب ہوگا ہند میں اسلام کا خاتمہ اور دیگر مسلم ممالک میں بھی… اس باب میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ روحانی اور مذہبی رشتے ہمیں مصر سے منسلک کرتے ہیں۔ اگر ہم ڈوبے تو سب ڈوب جائیں گے۔‘‘ پروفیسر خور شید احمد کہتے ہیں کہ ’’اخوان کے نوجوان رہنما سعید رمضان نے بتایا کہ وہ (حسن البنا شہید) خود اور اخوان کی قیادت کے مرکزی رہنما تحریک پاکستان کی تائید کے لیے مصر کے طول و عرض میں پُرجوش تقاریر کیا کرتے تھے۔اس کے برعکس مصرکے سیکولر قوم پرستوں میں کانگریس اور نہرو کے بارے میں نرم گوشہ پایا جاتا تھااور وہ ان کی تائید کرتے تھے‘‘۔ قیام پاکستان کی خبر سن کر حسن البنا نے پاکستان کے بانی اور گورنر جنرل قائداعظم کے نام حسب ذیل ٹیلی گرام ارسال کیا: عزت مآب محمد علی جناح آج کے اس تاریخی اور ابدی حقیقت کے حامل دن، کہ جب دانش اور حکمت پر مبنی آپ کی قیادت میں پاکستان کی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا ہے،میں آپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد اور نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں۔ یہ مبارک باد‘ وادیِ نیل کے سپوتوں اور بالخصوص اخوان المسلمون کے دلی جذبات کی حقیقی عکاس اور نمایندہ مبارک باد ہے۔ پاکستان کے پہلے یوم آزادی 14 اگست 1948 کو جاری کردہ اپنے پیغام میں حسن البنا شہید نے لکھا ‘اس دور میں کہ جب پوری دنیا ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ اسے ایک طرف سے سوشلزم اپنی طرف کھینچ رہا ہے اور دوسری طرف سے اینگلو امریکی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام، حالانکہ مسلمانوں کے لیے ان دونوں نظاموں میں کوئی خیرا ور بھلائی نہیں ہے۔ ان کے پاس اللہ کی کتاب ہے، نظام اسلامی کا مکمل خاکہ ہے اور رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے’۔ حسن البناء شہید نے ایک اور موقع پر کہا “اسلام عبادت و قیادت، مذہب و ریاست، روحانیت و عمل، نماز واطاعت و حکمرانی کا مشترکہ نام ہے، ان میں کسی کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔”
20 ہزار ایمپاورڈ خواتین

“مجھے خلع چاہیے” تصور کریں ایک خاتون حلق کے بل یہ تین الفاظ نکالتی ہے اور اس کے اثرات کہاں اور کیسے پہنچتے ہیں۔ سب سے پہلے تو شوہر نامدار وہ کچھ دیر کے لیے خاموش اور حیران ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر زوردار ری ایکشن آتا ہے۔ پھر بچے پہلے تو سمجھ نہیں پاتے کہ ان کی ماما نے کیا کہا، لیکن جب سمجھ جاتے ہیں تو وہ واقعتاً بجھ سے جاتے ہیں اور بالکل خاموش ہو جاتے ہیں۔ پھر لڑکی کے والدین جو خود بھی شدید ڈپریشن والی کیفیت میں چلے جاتے ہیں الا یہ کہ وہ خود ہی شہہ دیتے رہے ہوں! اور یہ تو صرف آغاز ہوتا ہے ایک لمبی جدوجہد کا جو “مجھے خلع چاہیے” سے شروع ہوتی ہے۔ دونوں طرف کے خاندان ہل کر رہ جاتے ہیں اور پھر آغاز ہوتا ہے ایک لمبے، انتہائی مہنگے اور خواری سے بھرپور قانونی سفر کا۔ سندھ بھر کے کورٹ سے جمع شدہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2024 میں 20 ہزار خواتین نے خلع حاصل کی جبکہ 2023 میں یہ ڈیٹا بتاتا ہے کہ خلع لینے والی خواتین کی تعداد 18 ہزار رہی تھی۔ یعنی 20 ہزار خاندان 2024 میں ہمیشہ کے لیے جدا ہوئے۔ ان سے جڑے دسیوں ہزاروں بچے کورٹ میں دھکے کھاتے پھریں گے کہ ان کی کسٹڈی ان کی ماما کی طرف جائے گی یا پاپا کی طرف۔ آنسو، چیخیں، دکھ، غصہ، نفرت اور انتقام کے رنگ تقریبا ہر خلع کی کہانی میں نظر آئیں گے۔ کچھ کیسز میں والد بچوں سے ملنے کے لیے ترستے رہ جائیں گے! آخر اتنی بڑی تعداد میں خواتین کیوں خلع کی طرف جارہی ہیں؟ ایک سینئیر کورٹ تجزیہ نگار کے مطابق ان میں سے زیادہ تر خواتین وہ ہوتی ہیں جن کی عمریں 20-30 برس کے درمیان ہوتی ہیں۔ بقول ان کے میں ہر روز ان خواتین کسی نہ کسی انداز میں عدالت میں دیکھتا ہوں اور باہر ان کے روئیے ذمہ دارانہ (mature) نہیں ہوتے۔ یعنی سوچ و فکر، احساسات اور روئیوں میں پختگی نہ ہونا ایک بنیادی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ اگر چند عجیب و غریب اور نہ سمجھ میں آنی والی وجوہات میں دیر تک سونے یا جاگنے پر مسائل، شوہر یا سسرال والوں پر دقیانوسی ہونے کے الزام، مطلوبہ مالی سہولیات کی عدم دستیابی، شوہر کی شخصیت پسند نہ ہونا، اور جسمانی ضروریات پوری نہ ہونے جیسی کافی مشکلات شامل ہیں۔ لیکن ان میں سے بیشتر وجوہات عموما سطحی ہوتی ہیں۔ خلع کے پراسس کی ایک بہت بڑی مگر عدالت میں نظر انداز کی جانے والی وجہ سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ ہوتا ہے۔ تحقیقات بتاتی ہیں خواتین کی فیصلہ سازی (Decision Making) پر ایک بڑا اثر ان کے سوشل سرکل کا ہوتا ہے جہاں خواتین کے گروپس پر ہر خانگی مسئلے کا حل ٹاکسک اور نارسسٹ بندے سے جان چھڑا کر امپاورڈ (Empowered) خاتون بن جانا ہوتا ہے۔ لیکن اس خلع کے بعد ایک خاتون کیسے سفر شروع کرتی ہے؟ اس کی جذباتی، نفسیاتی، سماجی حالت کیا ہوتی ہے؟ اور بچوں سے اس کے معاملات کس نوعیت کے ہوتے ہیں؟ ان سوالات پر سوشل میڈیا پر بحث ندارد ہے۔ فی الحال تو امپاورمنٹ (Empowerment) خلع کی ایک بنیادی وجہ بنتی چلی جارہی ہے، جس پر روک ٹوک کسی طرف سے آتی نظر نہیں آرہی۔ اس کا نتیجہ ہم 2024 میں 20 ہزار امپاورڈ (Empowered) خواتین کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔
مشکیزہ: ایک قدیم روایت

پرانے زمانے میں کھلی مشکیزےکو کہا جاتا تھا۔ کھلی کا مطلب پانی رکھنے کا مٹکا بھی ہے۔ آج کل ان کی جگہ کنستر یا بوتلوں نے لے لی ہے۔ آج بھی بلوچستان میں ایک بوتل پہ کپڑا چڑھا دیا جاتا ہے اور اس کا پانی پیا جاتا ہے۔ آج سے 50 سال پہلے (کھلی) مشکیزہ بنانے کے لیے بکری اور بکرے کی کھال کا استعمال کیا جاتا تھا۔ آج کل کھلی ملک میں ناپید ہو گئی ہے. چھوٹی بکری اور بکرےکو ذبح کرنے کے بعد اس کی کھال اتاری جاتی تھی۔ دس ہفتوں تک کھال کو خشک کیا جاتا تھا اور پھر گرم پانی میں ابالا بھی جاتا ہے اس کے بعد پھر ریشم کے دھاگے سے سی دیا جاتا تھا۔ اس کا پانی فریج سے زیاد ٹھنڈا نہیں تو گرم بھی نہیں ہوتا۔ مشکیزےکا استعمال قدیم روایت کا حصہ ہے۔ دنیا میں بہت سی اقوام اس کا استعمال کرتی ہیں۔ بلوچ قوم بھی مشکیزے کا استعمال اپنے ارتقائی دور سے کرتی چلی آرہی ہے۔ مشکیزے کو بلوچی زبان میں ’’مشک‘‘کہا جاتا ہے ۔زمانہ قدیم میں پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مشکیزہ ایجاد کیا گیاتھا ۔ مشکیزہ بنانے کا کام کافی مشکل اور کھٹن ہونے کی وجہ سے بہت کم لوگ اس کو بناتے ہیں اور زیادہ تر بلوچ خواتین ہی مشکیزہ بنانے کا کام کرتی ہیں۔مشکیزہ بنانے کے لئے بکری اور بکرے کی کھال استعمال کی جاتی ہے۔ بکری یا بکرے کو ذبح کرنے کے بعد کھال کو اتارنے میں کافی احتیاط کی جاتی ہے تاکہ اس میں سوراخ نہ ہونے پائے، اور سوراخ ہونے کی صورت میں کھال مشکیزہ بنانے کے لئے کام نہیں آتی ۔یہ کام بھی ماہر لوگ ہی کرتے ہیں کھال کو اتارنے کے بعد تقریباً چار ہفتوں تک سورج کی تپش میں رکھ کر خشک کیا جاتا ہے اور پھر کیکر کے چھلکے سے ان کو گرم پانی میں ابالا جاتا ہے۔ دس دن تک یہ کھال پانی میں رکھی جاتی ہےجس سے یہ چمڑہ مضبوط ہوجاتا اور پھٹنے کا خطرہ ٹل جاتا ہے ۔اس کے بعد ریشم کے دھاگوں سے غیر ضروری سوراخ بند کرکے صرف پانی ڈالنے اور نکالنے کے لئے ایک بڑا سوراخ رہ جاتا ہے . پانی اس میں رکھنے کی وجہ سے کھال کی اصل رنگت تبدیل ہوجاتی ہے تو اس کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے ۔کھال مضبوط اور پائیدار بن جاتی ہے۔ بعد میں مشکیزہ براؤن رنگ کا ہو جاتا ہے۔. مشکیزے بلوچ ثقافت کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے ،آج کے جدید دور میں بھی بلوچستان کے پہاڑی اور دور آفتادہ گاؤں میں جہاں بجلی کی سہولت موجود نہیں ہے،وہاں کے لوگ پانی ٹھنڈا کرنے کے لئے مشکیزے کا استعمال کرتے ہیں۔ مشکیزےمیں پانی رکھنے سے اس کی رنگت اور ذائقہ برقرار رہتا ہے۔ مشکیزےبنانے والی ایک عورت کے مطابق مشکیزے کی تیاری کا مرحلہ انتہائی مشکل اور کٹھن کام ہے۔ جسے آج بھی مکران کے دیہی علاقوں میں استعمال کیا جارہا ہےاور جب ماضی میں پوری دنیا میں پانی ٹھنڈا کرنے کے ذرائع نہ تھے تو بلوچوں نے اپنی ضرورت کے پیش نظر مشکیزہ بناکر دنیا کو فریج اور ڈیفریزر بنانے کا خیال فراہم کردیا۔ لکھاری اور محقق گلزار گچکی کا کہنا ہے کہ جب انسانوں نے گاؤں کی صورت میں رہائش اختیار کرنا شروع کی تو قحط کے دنوں میں پانی کو ذخیرہ کرنے کا آغازہوا۔ اس وقت مشکیزے کا استعمال شروع ہوا۔وہ کہتے ہیں آج بھی ان علاقوں میں مشکیزے کا استعمال ہورہا ہے جہاں اب تک بجلی نہیں پہنچی ہے۔ کیچ اور آواران سمیت بلوچستان کے دور تر افتادہ گاؤں میں مشکیزے کا استعمال کیا جارہا ہے کیونکہ بجلی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دیہاتوں میں پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مشکیزہ استعمال کرنے کی قدیم روایت زندہ ہے۔ مشکیزے کی ایک چھوٹی قسم بھی ہے جسے مقامی زبان میں “کلی”کہا جاتا ہے اور یہ چھوٹی بکری یا بکرے کی کھال سے تیار کی جاتی ہے۔اسے عام طور پر چرواہے استعمال کرتے ہیں جوکہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہلکی وزن کا ہوتا ہے۔ مشکیزے پاکستان کے دور افتادہ پہاڑی اور میدانی علاقوں میں لوگوں کے لئے ڈیپ فریزر اور فریج کا کام دیتے ہیں۔ ہرپاکستانی ان پسماندہ پاکستانیوں کی زندگی کے معمول کا اندازہ کرسکتا ہے خاص طور پر وہ جو فریج ،ڈیپ فریزر،کولر کے ٹھنڈے پانی کے عادی ہوں۔
انتخابات اور دھاندلی کا کھیل: کیا پاکستانی جمہوریت خطرے میں ہے؟

حکومت کو اقتدار میں آئے ایک برس گزرگیا، مگر عام انتخابات ابھی بھی ناقابلِ قبول ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعتِ اسلامی ‘فارم 47’ کی حکومت کے خلاف آج ملک بھر میں یومِ سیاہ منارہی ہیں۔ حکومت احتجاج روکنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے، پنجاب بھر میں دفعہ 144 نافذ کر دیا گیا ہےاورہر قسم کے سیاسی احتجاجوں، جلسوں،ریلیوں، دھرنوں اور ایسی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ قیامِ پاکستان سے ہی جمہوریت شدید مشکلات سے دوچار ہے، کبھی مارشل لا نے تو کبھی سیاسی عدم اعتماد نے ملک کی راہ میں رکاوٹیں حائل کیں، جس سے ملک مستحکم نہیں ہوسکا۔ عام انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات حرفِ عام سننے کو ملتے ہیں، انتخابات کے دوران دھاندلی کے الزامات اور لڑائی فساد ہر دفعہ دکھائی دیتا ہے، جس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں، جیسے کیا یہ الزامات محض سیاسی چالیں ہیں یا واقعی جمہوری عمل میں سنگین خرابیاں موجود ہیں؟ کیا پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے،یا پھر دھاندلی کے دعوے اسے کمزور کر رہے ہیں؟ پاکستان کے آغاز سے ہی جمہوریت کا سفر ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے۔آزادی کے فوراً بعد ملک کو مستحکم بنانے کے لیے جمہوری نظام رائج کرنے کی کوشش کی گئی ، مگر سیاسی عدم استحکام، فوجی آمریت اور عدالتی مداخلت نے اس خواب کو شرمند ۂ تعبیر نہ ہونے دیا۔ پاکستان کے شفاف ترین انتخابات 1970 میں ہونے والے مانےجاتے ہیں، مگر ان انتخابات نے ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور ان کے دلوں میں نفرت کا ایسا بیج بویا جو تاحال ختم نہیں ہوسکا۔ اس کے بعد سے ہونے والے تمام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا، جو آج تک لگتا آرہا ہے۔ واضح رہے کہ عام انتخابات ملک کی جمہوریت کا بنیادی جزو ہوتے ہیں اور ان کا صاف شفاف ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے تا کہ عوام کی پسند کے لائے ہوئے حکمران لائے جائیں اور ملک ترقی کرسکے۔ اس کے برعکس جب انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سامنے آتے ہیں، تو عوامی اعتماد متزلزل ہوجاتا ہے اور جمہوریت کمزور پڑ جاتی ہے۔ حالیہ ہوئے فروری 2024 کے عام انتخابات بھی دھاندلی کے الزامات سے محفوظ نہ رہ سکے، مختلف سیاسی پارٹیوں نے ووٹوں کی گنتی، نتائج میں ردو بدل اور پولنگ اسٹیشنوں پر بے ضابطگیوں کے الزامات لگائے، تقریباً ملک کی تمام بڑی جماعتوں نے الیکشنز پر سوالات اٹھائے۔ پاکستان تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی پاکستان کی جانب سے اس دن کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن قرار دے دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے ایک سربراہ نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘2024 کے انتخابات نہیں بلکہ دھاندلی کا ایک نیا طریقہ تھا۔ ہمارے امیدواروں کو انتخابی مہم کے دوران ہی نااہل کرنے کی کوشش کی گئی۔ عوام نے جس طرح ہمیں ووٹ دیے، وہ نتائج میں نظر نہیں آئے۔’ اس کے برعکس انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نے انتخابات کو منصفانہ قرار دیا اور کہا کہ ‘یہ جمہوریت کی فتح ہے، عوام نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ دھاندلی کا رونا وہی لوگ رو رہے ہیں، جو اپنی شکست تسلیم نہیں کر پا رہے۔ چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بیان دیا کہ انتخابات مکمل طور پر شفاف انداز میں کروائے گئے ہیں، اگر کسی جماعت کی الیکشنز کی شفافیت پر اعتراض ہے تو عدلیہ سے رجوع کرے۔ امیر جماعتِ اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا ہے کہ 8 فروری کا دن ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، اس دن جعلی نمائندوں کو عوام پر مسلط کیا گیااور عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا، فارم 12 کی جگہ فارم 13 دیئے گئے۔ دوسری جانب عالمی مبصرین کی جانب سے بھی انتخابات کی شفافیت پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا، بعض نے انتخابات کو تسلی بخش قرار دیا تو بعض نے اسے تشویشناک قرار دیا۔ پاکستانی عوام گزشتہ کچھ سالوں سے انتخابات اور سیاست کے حوالے سے کافی سنجیدہ نظر آئی ہے، خاص طور پر پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم استحکام کی تحریک کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عمران خان، اسٹیبلشمنٹ اور شفاف الیکشن کی ایک ایسی کہانی چلی ہے جس نے ہر شخص کو اس بات سے باخبر کیا کہ قیامِ پاکستان سے ہی ملک میں اسٹیبلشمنٹ جو چاہتی ہے، وہی ہوتا ہے۔ ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی تعلیم یافتہ ہے یا پھر ان پڑھ، وہ اسٹیبلشمنٹ لفظ سے واقف ہے۔ گزشتہ انتخابات نے عوامی اعتماد کو ایسا متزلزل کیا ہےکہ عوام کو محسوس ہوا ہے جیسے ان کے ووٹ کی قدر نہیں، جس کی وجہ سے جمہوری اداروں سے ان کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ہر دھاندلی کے الزام کے بعد عوامی اعتماد میں کمی آئی، 2013 میں پی ٹی آئی نے دھاندلی کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا، جس سے جمہوری عمل پر گہرے اثرات مرتب ہوئے، پھر 2018 کے انتخابات میں ن لیگ نے دھاندلی کا شور مچایا اور اب 2024 میں ایک بار پھر تاریخ نے اپنے آپ کو دوہرایا ہے۔ دھاندلی کے الزامات عدم استحکام لاتے ہیں، جس سے ملک میں سیاسی کشمکش شدت اختیار کرتی ہے،مزید یہ کہ جمہوری ادارے خواہ وہ عدلیہ ہو یا الیکشن کمیشن ان پر سوالات اٹھتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوری عمل کو شفاف اور مستحکم بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک انتخابات پر عوام کا مکمل اعتماد بحال نہیں ہوگا، تب تک جمہوریت حقیقی معنوں میں مضبوط نہیں ہوگی۔ اس مقصد کے لیے ریاستی ادارے، سیاسی جماعتیں اور عوام سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات کے عمل کو زیادہ شفاف اور قابلِ اعتماد بنایا جائے، جس کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن خودمختار اور غیر جانبدار ہواور انتخابات کی نگرانی کی جائے۔ جدید دنیا میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال عام ہو گیا ہے، لیکن پاکستان میں اب تک یہ مکمل طور پر لاگو نہیں کیا جاسکا۔ اگر ان کا درست اور شفاف طریقے سے پاکستان میں استعمال کیا جائے تو دھاندلی کے امکانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ مزید یہ