April 18, 2025 12:17 am

English / Urdu

حسن البنا شہید، دلیل کے ہتھیار سے اپنوں کے دل موہنے اور مخالفین کو لاجواب کردینے والا منفرد کردار

علم کا میدان ہو یا سیاست، سماج کا ذکر ہو یا امت کی سربلندی کی خواہش، بیسویں اور اکیسویں صدی میں ان موضوعات پر گفتگو اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک حسن البنا شہید کا ذکر نہ ہو جائے۔ عین اس وقت جب 1948 کی عرب اسرائیل جنگ جاری تھی۔ برطانیہ فسلطین کی سرزمین فلسطینیوں سے چھین کر اسرائیل قائم کر رہا تھا۔ 12 فروری 1949 کو مصری حکومت کی ایما پر حسن البنا کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا، انہوں نے محض 42 برس کی عمر پائی، مگر اس دوران وہ اتنا کچھ کر گئے کہ آج بھی ان کا نام عزت واحترام سے لیا جاتا ہے۔ نفرت وتعصب پر مبنی قوم پرستی کی مزاحمت ہو یا اصل ایشوز کو نظرانداز کر کے وقت گزاری کا انداز، حسن البنا شہید اور ان کے تربیت یافتہ اخوان المسلمون کے لوگ دنیا بھر میں دلوں پر دستک دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حسن أحمد عبد الرحمن محمد البنا 14 اکتوبر 1906 کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ برطانیہ اور اتحادی خلافت عثمانیہ کو ختم کر کے مشرق وسطی پر قابض ہو چکے تھے۔ جہاں جو ملے، لوٹ لو یا کسی بھی قیمت پر چھین لو کے اصول پر کاربند برطانیہ اور اس کے اتحادی صرف عسکری ہی نہیں تہذیبی اور ثقافتی زبردستی بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ قوم پرست تحریک سے اپنی سیاسی زندگی شروع کرنے والے حسن البنا جب امت کو متحد کرنے نکلے تو برطانوی استبداد کے مقابلے کا مرحلہ درپیش تھا۔ اسی تناظر میں انہوں نے کہا کہ ” اسلام کی دعوت پر لبیک کہو، سپاہی بنو، کیوں کہ اِسی میں ملک کی بقا اور امت کی عزت ہے، بالآخر ہم تمام مسلمان آپس میں بھائی ہیں۔” امریکا میں مقیم پاکستانی صحافی معوذ حسن کے مطابق ‘حسن البنا نے مختلف رسالوں میں 2000 سے زائد مضامین لکھے۔ اُن کی خود نوشت “مذکرات الدعوة والداعیة” آج بھی دُنیا بھر میں مقبول ہے’ پاکستانیوں سے حسن البنا شہید کا ایک منفرد رشتہ ہے۔ ان کا قائد اعظم کو تحفتا دیا گیا قرآن پاک کا نسخہ آج بھی کراچی میں محفوظ ہے۔ پاکستانی مصنف سلیم منصور خالد کے مطابق ‘قائداعظم اور حسن البنا کے درمیان براہِ راست ملاقات بھی ہوئی۔ بعدازاں یہ رابطہ متعدد حوالوں سے برابر قائم رہا۔’ مفتیِ اعظم فلسطین محمد امین الحسینی بیان کرتے ہیں ’’مجھے یاد ہے ایک دعوت کا اہتمام عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمن عزام  نے قائداعظم محمد علی جناح کے اعزاز میں کیا تھا، قائداعظم کے ہمراہ لیاقت علی خاں بھی تھے، عزام صاحب کے گھر سب سے پہلے پہنچنے والوں میں، میں اور امام حسن البنا شہید تھے۔ ہم قائداعظم سے دیر تک محو گفتگو رہے۔ اسی عرصہ قیام کے دوران قاہرہ میں ایک ضیافت سے خطاب کرتے ہوئے 18دسمبر 46ء کو قائداعظم نے کہا تھا کہ ’’اگر ہند میں ہندو سلطنت قائم ہوگئی تو اس کا مطلب ہوگا ہند میں اسلام کا خاتمہ اور دیگر مسلم ممالک میں بھی… اس باب میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ روحانی اور مذہبی رشتے ہمیں مصر سے منسلک کرتے ہیں۔ اگر ہم ڈوبے تو سب ڈوب جائیں گے۔‘‘ پروفیسر خور شید احمد کہتے ہیں کہ ’’اخوان کے نوجوان رہنما سعید رمضان نے بتایا کہ وہ (حسن البنا شہید) خود اور اخوان کی قیادت کے مرکزی رہنما تحریک پاکستان کی تائید کے لیے مصر کے طول و عرض میں پُرجوش تقاریر کیا کرتے تھے۔اس کے برعکس مصرکے سیکولر قوم پرستوں میں کانگریس اور نہرو کے بارے میں نرم گوشہ پایا جاتا تھااور وہ ان کی تائید کرتے تھے‘‘۔ قیام پاکستان کی خبر سن کر حسن البنا نے پاکستان کے بانی اور گورنر جنرل قائداعظم کے نام حسب ذیل ٹیلی گرام ارسال کیا: عزت مآب محمد علی جناح آج کے اس تاریخی اور ابدی حقیقت کے حامل دن، کہ جب دانش اور حکمت پر مبنی آپ کی قیادت میں پاکستان کی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا ہے،میں آپ کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد اور نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں۔ یہ مبارک باد‘ وادیِ نیل کے سپوتوں اور بالخصوص اخوان المسلمون کے دلی جذبات کی حقیقی عکاس اور نمایندہ مبارک باد ہے۔ پاکستان کے پہلے یوم آزادی 14 اگست 1948 کو جاری کردہ اپنے پیغام میں حسن البنا شہید نے لکھا ‘اس دور میں کہ جب پوری دنیا ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ اسے ایک طرف سے سوشلزم اپنی طرف کھینچ رہا ہے اور دوسری طرف سے اینگلو امریکی سرمایہ دارانہ جمہوری نظام، حالانکہ مسلمانوں کے لیے ان دونوں نظاموں میں کوئی خیرا ور بھلائی نہیں ہے۔ ان کے پاس اللہ کی کتاب ہے، نظام اسلامی کا مکمل خاکہ ہے اور رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے’۔ حسن البناء شہید نے ایک اور موقع پر کہا “اسلام عبادت و قیادت، مذہب و ریاست، روحانیت و عمل، نماز واطاعت و حکمرانی کا مشترکہ نام ہے، ان میں کسی کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔”

20 ہزار ایمپاورڈ خواتین

“مجھے خلع چاہیے” تصور کریں ایک خاتون حلق کے بل یہ تین الفاظ نکالتی ہے اور اس کے اثرات کہاں اور کیسے پہنچتے ہیں۔ سب سے پہلے تو شوہر نامدار وہ کچھ دیر کے لیے خاموش اور حیران ہو کر رہ جاتا ہے اور پھر زوردار ری ایکشن آتا ہے۔ پھر بچے پہلے تو سمجھ نہیں پاتے کہ ان کی ماما نے کیا کہا، لیکن جب سمجھ جاتے ہیں تو وہ واقعتاً بجھ سے جاتے ہیں اور بالکل خاموش ہو جاتے ہیں۔ پھر لڑکی کے والدین جو خود بھی شدید ڈپریشن والی کیفیت میں چلے جاتے ہیں الا یہ کہ وہ خود ہی شہہ دیتے رہے ہوں! اور یہ تو صرف آغاز ہوتا ہے ایک لمبی جدوجہد کا جو “مجھے خلع چاہیے” سے شروع ہوتی ہے۔ دونوں طرف کے خاندان ہل کر رہ جاتے ہیں اور پھر آغاز ہوتا ہے ایک لمبے، انتہائی مہنگے اور خواری سے بھرپور قانونی سفر کا۔ سندھ بھر کے کورٹ سے جمع شدہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2024 میں 20 ہزار خواتین نے خلع حاصل کی جبکہ 2023 میں یہ ڈیٹا بتاتا ہے کہ خلع لینے والی خواتین کی تعداد 18 ہزار رہی تھی۔ یعنی 20 ہزار خاندان 2024 میں ہمیشہ کے لیے جدا ہوئے۔ ان سے جڑے دسیوں ہزاروں بچے کورٹ میں دھکے کھاتے پھریں گے کہ ان کی کسٹڈی ان کی ماما کی طرف جائے گی یا پاپا کی طرف۔ آنسو، چیخیں، دکھ، غصہ، نفرت اور انتقام کے رنگ تقریبا ہر خلع کی کہانی میں نظر آئیں گے۔ کچھ کیسز میں والد بچوں سے ملنے کے لیے ترستے رہ جائیں گے! آخر اتنی بڑی تعداد میں خواتین کیوں خلع کی طرف جارہی ہیں؟ ایک سینئیر کورٹ تجزیہ نگار کے مطابق ان میں سے زیادہ تر خواتین وہ ہوتی ہیں جن کی عمریں 20-30 برس کے درمیان ہوتی ہیں۔ بقول ان کے میں ہر روز ان خواتین کسی نہ کسی انداز میں عدالت میں دیکھتا ہوں اور باہر ان کے روئیے ذمہ دارانہ (mature) نہیں ہوتے۔ یعنی سوچ و فکر، احساسات اور روئیوں میں پختگی نہ ہونا ایک بنیادی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ اگر چند عجیب و غریب اور نہ سمجھ میں آنی والی وجوہات میں دیر تک سونے یا جاگنے پر مسائل، شوہر یا سسرال والوں پر دقیانوسی ہونے کے الزام، مطلوبہ مالی سہولیات کی عدم دستیابی، شوہر کی شخصیت پسند نہ ہونا، اور جسمانی ضروریات پوری نہ ہونے جیسی کافی مشکلات شامل ہیں۔ لیکن ان میں سے بیشتر وجوہات عموما سطحی ہوتی ہیں۔ خلع کے پراسس کی ایک بہت بڑی مگر عدالت میں نظر انداز کی جانے والی وجہ سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ ہوتا ہے۔ تحقیقات بتاتی ہیں خواتین کی فیصلہ سازی (Decision Making) پر ایک بڑا اثر ان کے سوشل سرکل کا ہوتا ہے جہاں خواتین کے گروپس پر ہر خانگی مسئلے کا حل ٹاکسک اور نارسسٹ بندے سے جان چھڑا کر امپاورڈ (Empowered) خاتون بن جانا ہوتا ہے۔ لیکن اس خلع کے بعد ایک خاتون کیسے سفر شروع کرتی ہے؟ اس کی جذباتی، نفسیاتی، سماجی حالت کیا ہوتی ہے؟ اور بچوں سے اس کے معاملات کس نوعیت کے ہوتے ہیں؟ ان سوالات پر سوشل میڈیا پر بحث ندارد ہے۔ فی الحال تو امپاورمنٹ (Empowerment) خلع کی ایک بنیادی وجہ بنتی چلی جارہی ہے، جس پر روک ٹوک کسی طرف سے آتی نظر نہیں آرہی۔ اس کا نتیجہ ہم 2024 میں 20 ہزار امپاورڈ (Empowered) خواتین کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔

مشکیزہ: ایک قدیم روایت

پرانے زمانے میں کھلی مشکیزےکو کہا جاتا تھا۔ کھلی کا مطلب پانی رکھنے کا مٹکا بھی ہے۔ آج کل ان کی جگہ کنستر یا بوتلوں نے لے لی ہے۔ آج بھی بلوچستان میں ایک بوتل پہ کپڑا چڑھا دیا جاتا ہے اور اس کا پانی پیا جاتا ہے۔ آج سے 50 سال پہلے (کھلی) مشکیزہ بنانے کے لیے بکری اور بکرے کی کھال کا استعمال کیا جاتا تھا۔ آج کل کھلی ملک میں ناپید ہو گئی ہے. چھوٹی بکری اور بکرےکو ذبح کرنے کے بعد اس کی کھال اتاری جاتی تھی۔ دس ہفتوں تک کھال کو خشک کیا جاتا تھا اور پھر گرم پانی میں ابالا بھی جاتا ہے  اس کے بعد پھر ریشم کے دھاگے سے سی دیا جاتا تھا۔ اس کا پانی فریج سے زیاد ٹھنڈا نہیں تو گرم بھی نہیں ہوتا۔ مشکیزےکا استعمال قدیم روایت کا حصہ ہے۔ دنیا میں بہت سی اقوام اس کا استعمال کرتی ہیں۔ بلوچ قوم بھی مشکیزے کا استعمال اپنے ارتقائی دور سے کرتی چلی آرہی ہے۔ مشکیزے کو بلوچی زبان میں ’’مشک‘‘کہا جاتا ہے ۔زمانہ قدیم میں پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مشکیزہ ایجاد کیا گیاتھا ۔ مشکیزہ بنانے کا کام کافی مشکل اور کھٹن ہونے کی وجہ سے بہت کم لوگ اس کو بناتے ہیں اور زیادہ تر بلوچ خواتین ہی مشکیزہ بنانے کا کام کرتی ہیں۔مشکیزہ بنانے کے لئے بکری اور بکرے کی کھال استعمال کی جاتی ہے۔ بکری یا بکرے کو ذبح کرنے کے بعد کھال کو اتارنے میں کافی احتیاط کی جاتی ہے تاکہ اس میں سوراخ نہ ہونے پائے، اور سوراخ ہونے کی صورت میں کھال مشکیزہ بنانے کے لئے کام نہیں آتی ۔یہ کام بھی ماہر لوگ ہی کرتے ہیں کھال کو اتارنے کے بعد تقریباً چار ہفتوں تک سورج کی تپش میں رکھ کر خشک کیا جاتا ہے اور پھر کیکر کے چھلکے سے ان کو گرم پانی میں ابالا جاتا ہے۔ دس دن تک یہ کھال پانی میں رکھی جاتی ہےجس سے یہ چمڑہ مضبوط ہوجاتا اور پھٹنے کا خطرہ ٹل جاتا ہے ۔اس کے بعد ریشم کے دھاگوں سے غیر ضروری سوراخ بند کرکے صرف پانی ڈالنے اور نکالنے کے لئے ایک بڑا سوراخ رہ جاتا ہے . پانی اس میں رکھنے کی وجہ سے کھال کی اصل رنگت تبدیل ہوجاتی ہے تو اس کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے ۔کھال مضبوط اور پائیدار بن جاتی ہے۔ بعد میں مشکیزہ براؤن رنگ کا ہو جاتا ہے۔. مشکیزے بلوچ ثقافت کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے ،آج کے جدید دور میں بھی بلوچستان کے پہاڑی اور دور آفتادہ گاؤں میں جہاں بجلی کی سہولت موجود نہیں ہے،وہاں کے لوگ پانی ٹھنڈا کرنے کے لئے مشکیزے کا استعمال کرتے ہیں۔ مشکیزےمیں پانی رکھنے سے اس کی رنگت اور ذائقہ برقرار  رہتا ہے۔ مشکیزےبنانے والی ایک عورت کے مطابق مشکیزے کی تیاری کا مرحلہ انتہائی مشکل اور کٹھن کام ہے۔ جسے آج بھی مکران کے دیہی علاقوں میں استعمال کیا جارہا ہےاور جب ماضی میں پوری دنیا میں پانی ٹھنڈا کرنے کے ذرائع نہ تھے تو بلوچوں نے اپنی ضرورت کے پیش نظر مشکیزہ بناکر دنیا کو فریج اور ڈیفریزر بنانے کا خیال فراہم کردیا۔ لکھاری اور محقق گلزار گچکی کا کہنا ہے کہ جب انسانوں نے گاؤں کی صورت میں رہائش اختیار کرنا شروع کی تو قحط کے دنوں میں پانی کو ذخیرہ کرنے کا آغازہوا۔ اس وقت مشکیزے کا استعمال شروع ہوا۔وہ کہتے ہیں آج بھی ان علاقوں میں مشکیزے کا استعمال ہورہا ہے جہاں اب تک بجلی نہیں پہنچی ہے۔ کیچ اور آواران سمیت بلوچستان کے دور تر افتادہ گاؤں میں مشکیزے کا استعمال کیا جارہا ہے کیونکہ بجلی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دیہاتوں میں پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مشکیزہ استعمال کرنے کی قدیم روایت زندہ ہے۔ مشکیزے کی ایک چھوٹی قسم بھی ہے جسے مقامی زبان میں “کلی”کہا جاتا ہے اور یہ چھوٹی بکری یا بکرے کی کھال سے تیار کی جاتی ہے۔اسے عام طور پر چرواہے استعمال کرتے ہیں جوکہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہلکی وزن کا ہوتا ہے۔ مشکیزے پاکستان کے دور افتادہ پہاڑی اور میدانی علاقوں میں لوگوں کے لئے ڈیپ فریزر اور فریج کا کام دیتے ہیں۔ ہرپاکستانی ان پسماندہ پاکستانیوں کی زندگی کے معمول کا اندازہ کرسکتا ہے خاص طور پر وہ جو فریج ،ڈیپ فریزر،کولر کے ٹھنڈے پانی کے عادی ہوں۔

انتخابات اور دھاندلی کا کھیل: کیا پاکستانی جمہوریت خطرے میں ہے؟

حکومت کو اقتدار میں آئے ایک برس گزرگیا، مگر عام انتخابات ابھی بھی ناقابلِ قبول ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعتِ اسلامی ‘فارم 47’ کی حکومت کے خلاف آج ملک بھر میں یومِ سیاہ منارہی ہیں۔ حکومت احتجاج روکنے کے لیے پورا زور لگا رہی ہے، پنجاب بھر میں دفعہ 144 نافذ کر دیا گیا ہےاورہر قسم کے سیاسی احتجاجوں، جلسوں،ریلیوں، دھرنوں اور ایسی تمام سرگرمیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ قیامِ پاکستان سے ہی جمہوریت  شدید مشکلات سے دوچار ہے، کبھی مارشل لا نے تو کبھی سیاسی عدم اعتماد نے ملک کی راہ میں رکاوٹیں حائل کیں، جس سے  ملک مستحکم نہیں ہوسکا۔ عام انتخابات کے بعد دھاندلی کے الزامات حرفِ عام سننے کو ملتے ہیں، انتخابات کے دوران دھاندلی کے الزامات اور لڑائی فساد ہر دفعہ دکھائی دیتا ہے، جس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں، جیسے کیا یہ الزامات محض سیاسی چالیں ہیں یا واقعی جمہوری عمل میں سنگین خرابیاں موجود ہیں؟ کیا پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے،یا پھر دھاندلی کے دعوے اسے کمزور کر رہے ہیں؟ پاکستان کے آغاز سے ہی جمہوریت کا سفر ہمیشہ  اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے۔آزادی کے فوراً بعد ملک کو مستحکم بنانے کے لیے جمہوری نظام رائج کرنے کی کوشش کی گئی ، مگر سیاسی عدم استحکام، فوجی آمریت اور عدالتی مداخلت نے اس خواب کو شرمند ۂ تعبیر نہ ہونے دیا۔ پاکستان کے شفاف ترین انتخابات  1970 میں ہونے والے مانےجاتے ہیں، مگر ان انتخابات نے ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور ان کے دلوں میں نفرت کا ایسا بیج بویا جو تاحال ختم نہیں ہوسکا۔ اس کے بعد سے ہونے والے تمام انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا، جو آج تک لگتا آرہا ہے۔ واضح رہے کہ عام انتخابات ملک کی جمہوریت کا بنیادی جزو ہوتے ہیں اور ان کا صاف شفاف ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے تا کہ عوام کی پسند کے لائے ہوئے حکمران لائے جائیں اور ملک ترقی کرسکے۔ اس کے برعکس جب انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سامنے آتے ہیں، تو عوامی اعتماد متزلزل ہوجاتا ہے اور جمہوریت  کمزور پڑ جاتی ہے۔ حالیہ ہوئے فروری 2024 کے عام انتخابات بھی دھاندلی کے الزامات سے محفوظ نہ رہ سکے، مختلف سیاسی پارٹیوں نے ووٹوں کی گنتی، نتائج میں ردو بدل اور پولنگ اسٹیشنوں پر بے ضابطگیوں کے الزامات لگائے، تقریباً ملک کی تمام بڑی جماعتوں نے الیکشنز پر سوالات اٹھائے۔ پاکستان تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی پاکستان کی جانب سے اس دن کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ دن قرار دے دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے ایک سربراہ نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘2024 کے انتخابات نہیں بلکہ دھاندلی کا ایک نیا طریقہ تھا۔ ہمارے امیدواروں کو انتخابی مہم کے دوران ہی نااہل کرنے کی کوشش کی گئی۔ عوام نے جس طرح ہمیں ووٹ دیے، وہ نتائج میں نظر نہیں آئے۔’ اس کے برعکس انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نے انتخابات کو منصفانہ قرار دیا اور کہا کہ ‘یہ جمہوریت کی فتح ہے، عوام نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ دھاندلی کا رونا وہی لوگ رو رہے ہیں، جو اپنی شکست تسلیم نہیں کر پا رہے۔ چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بیان دیا کہ  انتخابات مکمل طور پر شفاف انداز میں کروائے گئے ہیں، اگر کسی جماعت کی الیکشنز کی شفافیت پر اعتراض ہے تو عدلیہ سے رجوع کرے۔ امیر جماعتِ اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا ہے کہ 8  فروری کا دن ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، اس دن جعلی نمائندوں کو عوام پر مسلط کیا گیااور عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا، فارم 12 کی جگہ فارم 13 دیئے گئے۔ دوسری جانب عالمی مبصرین کی جانب سے بھی انتخابات کی شفافیت پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا، بعض نے انتخابات کو تسلی بخش قرار دیا تو بعض  نے اسے تشویشناک قرار دیا۔ پاکستانی عوام گزشتہ کچھ سالوں سے انتخابات اور سیاست کے حوالے سے کافی سنجیدہ نظر آئی ہے،  خاص طور پر پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم استحکام کی تحریک کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عمران خان، اسٹیبلشمنٹ اور شفاف الیکشن کی ایک ایسی کہانی چلی ہے جس نے ہر شخص کو اس بات سے باخبر کیا کہ قیامِ پاکستان سے ہی ملک میں اسٹیبلشمنٹ جو چاہتی ہے، وہی ہوتا ہے۔ ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی تعلیم یافتہ ہے یا پھر ان پڑھ، وہ اسٹیبلشمنٹ لفظ سے واقف ہے۔ گزشتہ انتخابات نے عوامی اعتماد کو ایسا متزلزل کیا ہےکہ عوام کو محسوس ہوا ہے جیسے  ان کے ووٹ کی قدر نہیں، جس کی وجہ سے جمہوری اداروں سے ان کا اعتبار اٹھ گیا ہے۔ ہر دھاندلی کے الزام کے بعد عوامی اعتماد میں کمی آئی،  2013 میں پی ٹی آئی نے دھاندلی کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا، جس سے جمہوری عمل پر گہرے اثرات مرتب ہوئے، پھر  2018 کے انتخابات میں ن لیگ نے دھاندلی کا شور مچایا  اور اب 2024 میں ایک بار پھر تاریخ نے اپنے آپ کو دوہرایا ہے۔ دھاندلی کے الزامات عدم استحکام لاتے ہیں، جس سے ملک میں سیاسی کشمکش شدت اختیار کرتی ہے،مزید یہ کہ جمہوری ادارے خواہ وہ عدلیہ ہو یا الیکشن کمیشن ان پر سوالات اٹھتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوری عمل کو شفاف اور مستحکم بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک انتخابات پر عوام کا مکمل اعتماد بحال نہیں ہوگا، تب تک جمہوریت حقیقی معنوں میں مضبوط نہیں ہوگی۔ اس مقصد کے لیے ریاستی ادارے، سیاسی جماعتیں اور عوام سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ جمہوریت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات کے عمل کو زیادہ شفاف اور قابلِ اعتماد بنایا جائے، جس کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن  خودمختار اور غیر جانبدار ہواور انتخابات کی نگرانی کی جائے۔ جدید دنیا میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال عام ہو گیا ہے، لیکن پاکستان میں اب تک یہ مکمل طور پر لاگو نہیں کیا جاسکا۔ اگر ان کا درست اور شفاف طریقے سے پاکستان میں استعمال کیا جائے تو دھاندلی کے امکانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ مزید یہ

موبائل میں گم بچپن، کیا بچے ٹیکنالوجی کے غلام بن رہے ہیں؟

کیا واقعی اسکرین اور گیجٹس کا زیادہ استعمال بچوں کے لیے نقصان دہ ہے؟ اور اگر ہے تو عام والدین اپنے بچوں کو اس ڈیجیٹل دنیا سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو اس وقت تمام ہی والدین کے سامنے ایک چیلنج کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ سلیکون ویلی جہاں دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی تخلیق ہوتی ہے، وہاں کے بڑے ٹیک لیڈر اپنے بچوں کو اسکرین سے دور رکھنے کے لیے خصوصی اسکولوں میں داخل کراتے ہیں۔ گوگل، ایپل اور دیگر بڑی ٹیک کمپنیوں کے ایگزیکٹوز اپنے بچوں کو ایسے والڈورف اور دیگر روایتی تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں جہاں اسمارٹ فونز، ٹیبلٹس اور کمپیوٹرز کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ حیرت انگیز حقیقت کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ اس ضمن میں گیجٹس کے بچوں کی نفسیاتی صحت پر اثرات کو جاننا بھی ضروری ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کراچی سے تعلق رکھنے والی ماہرِ نفسیات طوبیٰ اشرف نے کہا ہے کہ اکثر والدین کہتے ہیں کہ اگر بچوں کو موبائل فون نہ دیا جائے تو ان کا رویہ خراب ہوجاتا ہے، وہ اسکول کا کام نہیں کرتے،کھانا نہیں کھاتے یا پھر اپنی ناراضگی کا اظہار بات چیت بند کر دیتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ بچوں کا تو ہر کام ہی اسکرین کے ساتھ نتھی ہے، یعنی وہ کھانا کھاتے اور ہوم ورک کرتے ہوئے بھی اسکرین پر کارٹون یا پھر میوزک سننے کی عادی ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں والدین بالکل بے بس ہوجاتے ہیں اور وہ ماہر نفسیات سے اس مسئلے کا حل مانگتے ہیں۔ طوبی اشرف نے ہمیں مزید بتایا کہ گیجٹس کا زیادہ استعمال بچوں کی نفسیات پر بہت برے اثرات مرتب کر رہا ہے، کیونکہ انفارمیشن صرف ایک کلک پر موجود ہوتی ہے۔ بچوں میں اس کے سبب عدم برداشت کی صورتِ حال جنم لے رہی ہے، وہ ہر کام کو جلدی کرنا چاہتے ہیں، ان کا رویہ اور مزاج بہت جلدی تبدیل ہونے لگتا ہے،عجلت پسندی ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے اور وہ ایک غیر متوازن انسان کی صورت میں اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ ابتدائی عمر میں بچوں کو گیجٹس سے دور رکھنا نہایت ضروری ہے ورنہ ان کی حرکت کرنے اور چیزوں کو تھامنے کی صلاحیت متاثر  ہوجاتی ہے، یعنی ان کو جن چیزوں کو چھو کر دیکھنا چاہے، وہ اسکرین پر صرف اسے محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایک خلا ہے جو کہ ڈیجیٹل اسکرین کی وجہ سے پیدا ہوگیا ہے۔ طوبی اشرف ٹیکنالوجی کو انسانوں کا متبادل نہیں سمجھتی انہوں نے حالیہ دنوں میں مغرب میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کچھ عرصے کے لیے بچوں کو کلاس ٹیچر کے بجائے گیجٹس سے تعلیم دینے کا تجربہ کیاگیا، نتیجہ یہ نکلا کہ بچے چیزیں تو سیکھ گئے، مگر ان میں تمیز سے رہنے، بول چال کے آداب اور مزاج کی خرابی کے مسائل سامنے آئے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اتالیق فاؤنڈیشن کے سی ای او شہزاد قمر نے کہا ہے کہ ٹیکنالوجی ایک طاقتور آلہ ہے، جس کے فوائد اور نقصانات دونوں ہیں۔ اس کا استعمال غیر متوازن یا زیادہ ہونے سے بچوں کی صحت، دماغی صلاحیت، تعلیم اور معاشرتی رویے پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اخلاقیات کے حوالے سے بھی خطرات ہوسکتے ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ آپ بچوں کو ٹیکنالوجی سے دور نہیں رکھ سکتے۔ بچے اس کا استعمال کر رہے ہیں اور اس میں مزید اضافہ ہوگا، لہذا اس کے محفوظ اور مفید استعمال پر بات ہونی چاہیے، تاکہ اس کا فائدہ حاصل کیا جا سکے اور کسی بھی منفی اثرات سے بچا جا سکے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے شعبہ تدریس سے منسلک عبدالولی نے کہا ہے کہ گیجیٹس کا استعمال بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابتدا ہی میں روک دیتا ہے۔ انسان عمومی طور پر سہل پسند واقع ہوا ہے، لہذا اگر ٹیکنالوجی سارے مسائل حل کرنے لگے گی توانسان خود کیا کرے گا،؟ بچے پہلے انٹرنیٹ سے ڈھونڈ کر اسائنمنٹ بناتے تھے، اب مصنوعی ذہانت سے پوچھتے ہیں اور کام ہو جاتا ہے۔ گیجیٹس استعمال کیے جائیں لیکن اس سے قبل آپ کو وہی کام خود کرنا آنا چاہیے۔ اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم نے حساب کتاب زبانی شروع کیا اور اس کے بعد کیلکولیٹر سے چیک کر لیا، لیکن اب تو بچے دماغ میں چھوٹا سا حساب نہیں کر سکتے، یعنی ذہنی صلاحیتوں و تخلیقی مزاج کو پنپنے کا موقع ہی نہیں مل رہا۔ کلاس روم میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عبدالولی نے کہا ہے کہ ہمارے کلاس رومز سادہ ہوں اور وہ روایتی تعلیم سے بچوں کو آشنا کر دیں، تو یہ ہی غنیمت ہے۔ ٹیکنالوجی کے نام پر اسکولوں میں واٹس ایپ گروپ بن گئے ہیں اور بھی دیگر آن لائن کلاسز وغیرہ کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل سے سب ہی آگاہ ہیں۔ قدیم طریقہ تعلیم ہی رائج رہے تو بہتر ہے، ٹیکنالوجی نے ہم سے اچھے اور برے کی تمیز چھین لی ہے، ہم معاشرتی طور پر تنہا ہو گئے ہیں۔ عبدالولی نے کہا ہے کہ صرف امریکا یا سلیکون ویلی کی بات نہیں بلکہ ایپل کے بانی آسٹیو جابز، جس کا آئی فون دنیا بھر میں مقبول ہے، نے اپنے بچوں کے استعمال پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے اے آئی کنسلٹنٹ عثمان صدیقی نے کہا ہے کہ کوئی بھی ٹیکنالوجی کا بزنس کرنے والا فرد عام افراد کی نسبت دور اندیش ہوتا ہے اور وہ اس کے مہلک اثرات سے باخبر ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اے آئی انسانیت کے لیے جہاں مفید ہے، وہیں اس کے نقصانات بھی موجود ہیں، جن کے اثرات بہت دیر پا ہیں۔ چین نے امریکی اے آئی ٹول چیٹ جی پی ٹی کے مقابلے میں ایک تہائی کی قمیت میں ڈیپ سیک تیار کرکے سب کو جہاں حیران کردیا ہے، وہیں یہ بات لمحہ فکری ہے کہ اے آئی کے بدلتے ہوئے فیچرز کو بچوں کی پہنچ سے دور رکھا جائے، کیونکہ کسی بھی قسم کی بداحتیاطی کسی بڑے نقصان کا سبب

‘ سمجھ نہیں آتا جشن منائیں یا ماتم کریں’ شامی شہر حماۃ میں خوفناک قتل عام کے 43 برس

شامی ڈکٹیٹر بشار الاسد اپنے خاندان کے 50 سالہ اقتدار کا سورج غروب ہونے کے بعد روس میں پناہ گزین ہے، مگر شام کے شہر حماۃ کے مکین 43 برس قبل کے وہ مناظر نہیں بھولے جب ان کا شہر لہو میں ڈبو دیا گیا تھا۔ انسانی حقوق سے متعلق اداروں کا اندازہ ہے کہ حماۃ پر اس وقت کے شامی صدر حافظ الاسد کی ہدایت پر ہونے والے حملے میں 10 سے 40 ہزار لوگ قتل کیے گئے۔ تقریبا دو تہائی شہر کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ تاریخی طور پر دستیاب اعدادوشمار کے مطابق حماۃ شہر میں اسد خاندان کے حکم پر ہونے والے اس قتل عام کے وقت شہر کی آبادی تقریبا 250000 مردوخواتین پر مشتمل تھی۔ 27 روزہ حکومتی کارروائی کے اختتام پر کوئی خاندان ایسا نہیں بچا تھا جس کاکوئی نہ کوئی فرد اسد فورسز کے ہاتھوں قتل نہ ہوا ہو۔ شامی افراد کے مطابق اس خوں ریز کارروائی کے دوران اخوان المسلمون کے لوگوں اور دیگر سنی گروہوں  نے حکومتی فورسز کی مزاحمت کی کوشش کی۔ مگر چند روز کے اندر ان سب کو مار دیا گیا۔ مسلسل آپریشن سے بچ جانے والے شامی مزاحمت کار برطانیہ، امریکہ، جرمنی، ایران سمیت دیگر ملکوں کی طرف فرار ہونے پر مجبور کر دیے گئے تھے۔ 1982 کی کارروائی کے بعد زندہ بچ کر بیرون ملک جانے میں کامیاب ہونے والے ایک اخوانی کارکن ابو تمیمہ کے مطابق بارودیہ نامی قصبہ مزاحمت کاروں کا مرکز تھا جس پر اسد فورسز نے سب سے پہلے قبضہ کیا اور تباہی ڈھائی۔ ان کے مطابق ‘مزاحمت کے خلاف فوری کامیابی کے باوجود اسد فورسز نے کئی دنوں تک کارروائی جاری رکھی، عام شہریوں کا قتل عام کیا جن کا اخوان المسلمون سے کوئی تعلق بھی نہ تھا۔ متاثرین کے مطابق حافظ الاسد کی فورسز نے شامی ماؤں کی گودوں سے ان کے شیرخوار بچے چھینے، بندوقوں کے بٹ مار کر معصوم جانیں لیں مگر انہیں ذرا رحم نہیں آیا تھا۔ ایک اور شامی خانی کے مطابق ان کے والد بھی قتل ہونے والے افراد میں شامل تھے۔ فرانس سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آنکھوں کے معالج کے طور پر کام کرنے والے شامی شہری کو اسد فورسز نے گرفتار کیا اور قریبی فیکٹری میں لے جا کر ان کی آنکھیں نکال دی گئیں، اس کے بعد انہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ عرب میڈیا سے کی گئی گفتگو میں خانی کا کہنا تھا کہ شام میں مقیم سنی مسلمانوں کے خلاف اسد فورسز کی یہ درندگی ماضی کا قصہ نہیں بلکہ اب بھی ان کا طریقہ واردات یہی تھا۔ خانی کا کہنا تھا کہ 48 برس قبل ہونے والے قتل عام اور اپنے والد کے قتل کے خلاف اگر انہوں نے چند ماہ پہلے تک کوئی شکایت کی ہوتی تو ان کا حشر بھی والد جیسا ہونا تھا۔ یاد رہے کہ حماۃ کا شہر دسمبر 2024 میں اسد فورسز کے قبضے سے اس وقت آزاد ہوا جب ہیئۃ تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) ودیگر گروہوں نے بشارالاسد کو بےدخل کر کے شام کا اقتدار سنبھالا ہے۔ خانی کے مطابق ‘انہیں اور کئی دیگر افراد کو مجبور کیا گیا کہ وہ یہ کہیں کہ سویلینز کو اخوانی کارکنوں نے قتل کیا ہے۔’ ‘ اسد چاہتا تھا کہ پورے حماۃ کو مزاحمت کی سزا دی جائے۔ ہمارے ذریعے وہ پورے شام کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ کوئی مزاحمت نہ کرے اور ایسا ہی ہوا، 30 برس تک کوئی کھڑا نہیں ہو سکا۔ 1982 میں بدترین قتل عام سہنے والے حماۃ شہر میں تقریبا 30 برس بعد پہلا احتجاج 2011 میں ہوا۔ مسجد عمر بن خطاب سے نکلنے والے جلوس کے شرکا نے حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے اسد رجیم سے جان چھڑانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ یہ اسد خاندان کے لیے کئی دہائیوں بعد پہلا چیلنج تھا۔ یہ وہی مسجد تھی جسے اسد فورسز نے حملہ کے وقت جیل میں بدل دیا تھا۔ خواتین اور بچوں کو یہاں قید کر کے ان کے مردوں کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ یہاں محبوس بچوں اور خواتین کو کہا گیا کہ باہر نکلنے پر وہ اپنے مردوں کے زندہ ملنے کی امید نہ رکھیں اور ایسا ہی ہوا بھی۔ خانی کے مطابق وہ رہا ہونے کے بعد علاقہ چھوڑ کر چلے گئے، کچھ عرصہ بعد واپس آئے تو ان کی کلاس میں کوئی ایسا بچہ نہ تھا جس کے والد کو اسدی فورسز نے شہید نہ کر دیا ہو۔ 27 روزہ فوجی آپریشن مکمل کرنے کے بعد اس وقت کے شامی ڈکٹیٹر حافظ الاسد کا کہنا تھا کہ ‘حماۃ میں جو ہونا تھا ہو چکا، اب سب ختم ہو گیا ہے۔’ تاہم جدید تاریخ میں فلسطین کے سوا کسی بھی شہری علاقے میں ہونے والے اس بدترین قتل عام میں ‘سب ختم نہیں ہوا’ بلکہ پیچھے بچ جانے والے آج بھی وہ لمحے یاد کر کے کانپ اٹھتے ہیں۔ گزشتہ 43 برسوں کے سینے میں چھپے یہ سارے واقعات حماۃ کے مکینوں کے لیے تو نئے نہیں، لیکن دو فروری کی تاریخ نے موقع پیدا کیا ہے کہ باقی دنیا بھی اس بھیانک قتل عام اور اس کے ذمہ داروں کو یاد رکھے۔ اتنا ہی نہیں حماۃ میں گزری قیامت کے بچ جانے والے متاثرین کو بھی یاد رکھا جائے۔ حماۃ میں کیا ہوا تھا؟ ‘حماۃ قتل عام’ کے نام سے معروف واقعہ دو فروری 1982 کو شامی ڈکٹیٹر حافظ الاسد کے حکم پر میجر جنرل رفعت الاسد نے کارروائی کی تھی۔ حماۃ شہر کی تنگ گلیوں میں ٹینک دوڑائے گئے۔ 27 روز تک جاری رہنے والی کارروائی میں شامی فوج، پیراملٹری فورسز، علوی ملیشیا اور بعثی حکومت کے دیگر یونٹس نے اخوان المسلمون کی قیادت میں ہونے والی مزاحمت کو نشانہ بنایا تھا۔ 1976 سے علاقے کے سنی گروہ اسد حکومت کے مظالم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ جسے ختم کرنے کے لیے سنی مسلمانوں کے خلاف یہ کارروائی کی گئی۔ آپریشن سے قبل حافظ الاسد کے حکم پر شہر کو محاصرے میں لے کر بند اور بیرونی دنیا سے منقطع کر دیا گیا تھا۔ میڈیا بلیک آؤٹ کیا گیا، تمام مواصلات کو ختم، کئی ماہ تک جلی اور کھانے کی ترسیل بھی

ابن مریم ہوا کرے کوئی، مرے دکھ کی دوا کرے کوئی

ایک ہاتھ میں ببل اور ایک ہاتھ میں پیسے دبائے بوسیدہ سے کپڑے پہنے سات سال کا یہ بچہ کراچی میں ایک بس ٹرمینل پر ‘ببل’ بیچ رہا تھا۔ میں نے انتظار کے لمحوں میں شاید وقت دیکھا ہوگا، گھڑی کا ڈائل جگمگایا ہوگا۔ بچے کے لیے شاید یہ نیا سا تجربہ اور اضطراری فعل ہوگا، مجھے احساس تب ہوا جب بچہ اچانک میری کلائی سے بندھی گھڑی سے کھیلنے لگا۔ میں ایک لمحے کے لیے سٹپٹایا لیکن پھر بچے کو حیرت سے گھڑی سے کھیلتے دیکھ کر اپنی کلائی بچے کے حوالے کر دی اور وہ کتنی ہی دیر دنیا و مافیا سے بے خبر گھڑی میں مگن رہا۔ (ویڈیو بنانے کا خیال بہت بعد میں آیا) اور کچھ پل کو ہی سہی، بھول گیا کہ وہ کون ہے، کہاں سے اور کیوں آیا ہے۔ ببل اُس کے ہاتھ میں تھی لیکن وہ گھڑی سے کھیل رہا تھا۔ خیر کچھ دیر میں ہی اسے ویڈیو بننے کا احساس ہوا۔ پہلے اس نے پھر ببل بیچنا چاہی لیکن پھر موبائل سکرین میں اپنی کی تصویر دیکھ کر ایک مرتبہ پھر بہل گیا۔ جب تک سوالات اور ویڈیو کا سلسلہ چلا، بچہ تذبذب کا شکار ہی رہا۔ مجبوری اور ذمہ داری ببل بیچنے پر قائل کرتی اور اندر کی معصومیت موبائل سکرین پر خود کو دیکھ کر شاداں ہوئے جاتی۔ 7 سال کا بچہ، قسم سے دل کٹ سا گیا.. اس کی معصومیت، بے خودی، تجسّس، حالت زار تھی کہ کچوکے لگائے جا رہی تھی۔   View this post on Instagram   A post shared by Shoaib Hashmi (@link2shoaib) بچے کہیں کے بھی ہوں، معصوم ہوتے ہیں. دو مرتبہ باپ کا پوچھا لیکن اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ماں نے جانے کن حالات میں ننھی سے جان کو بس اڈوں کی سفاک دنیا میں جھونک دیا ہوگا. دنیا میں ویسے تو جانے کتنی ہی مائیں حالات سے مجبور ہوکر ایسا کرتی ہوں گی.. میں نے خود 17 سال کی عمر سے نوکری شروع کی اور سخت حالات رہے، یہ تو فقط 7 سال کا ہے.. کھیلنے کودنے کی عمر میں دو وقت کی روٹی پوری کرنا زندگی کا مشن ہے۔ شاید یہ قطعہ انہی بچوں کے بارے میں ہے کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو میری کہانی صاحب ہوں فقط جھیل میں ٹھہرا ہوا پانی صاحب میں نے بچپن میں بڑھاپے میں قدم رکھا ہے میں نے دیکھی ہی نہیں اپنی جوانی صاحب

محمد بن سلمان کا ویژن 2030، حقیقت یا افسانہ

انیس سو پچھتر میں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل نے خواتین کی تعلیم کے لئے اداروں کے قیام کی اجازت دی اور ٹیلی ویژن پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے کئی معاشی اصلاحات متعارف کروائیں۔ نتیجتاً ایک دعوت میں اپنے بھتیجے سے بغل گیر ہو رہے تھے کہ بھتیجے کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ قتل کی حقیقی محرکات کیا تھے اس حوالے سے سعودی تاریخ آج تک خاموش ہے۔ محمد بن سلمان کے کراؤن پرنس بننے کے بعد آج سعودی عرب ایک انقلاب سے گزر رہا ہے۔ وہ ملک جہاں اونٹوں کی ریس کے علاوہ کوئی دوسرا کھیل نظر نہیں آتا تھا، ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ کی جانب سے ریسلنگ کے سب سے بڑے مقابلے ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں 2034 کا فیفا فٹبال ورلڈ کپ بھی سعودی عرب میں کھیلا جائے گا۔ ایک روایتی اسلامی ملک جہاں خواتین نقاب یا حجاب کے بنا گھر سے نکل نہیں سکتیں تھی وہاں خواتیں کے لئے ڈرائیونگ سکول قائم ہو چکے ہیں جہاں سے ہر ماہ سینکڑوں کی تعداد میں خواتین ڈرائیونگ کے لائسنس حاصل کر رہی ہیں۔ خواتین کے نقاب پر پابندی اٹھا دی گئی ہے اور وہ اپنی مرضی سے کوئی بھی لباس پہن سکتی ہیں۔ آج سعودی عرب میں خواتین بائیک رائیڈنگ کرتی ہوئی بھی نظر آتی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں تفریح کے نام پر 400 سے زائد سینمار گھر بھی کھولے جا چکے ہیں۔ میوزک، آرٹ اور کلچرل سر گرمیوں پر عائد پابندیاں بھی اٹھائی جا چکی ہیں، آئے روز ڈانس کلبز کے افتتاح ہو رہے ہیں۔ مکہ اور مدینہ کے شہروں کو چھوڑ کر دیگر شہروں میں اذان کے بعد قرآن کی تلاوت پر پابندی عائد کی جا چکی ہے تا کہ سیاحوں کو شور کی آلودگی سے محفوظ رکھتے ہوئے پر سکون ماحول فراہم کیا جا سکے۔ مذہبی پولیس کی سرگرمیوں اور اختیارات کو محدود کر دیا گیا ہے۔ انہیں کسی بھی پبلک پلیس پر لوگوں کی معاشرتی اور اخلاقی سرگرمیوں پر نظر رکھنے سے روک دیا گیا ہے۔ وہابی ازم جو 2 صدیوں سے آل سعود کے خاندان کی بادشاہت کو مذہبی جواز فراہم کرتا رہا ہے۔ جس کے سر پر سعودی عرب کے عوام کی اخلاقی، معاشرتی اور مذہبی تربیت کے حوالے سے پالیسیز کی تشکیل کی ذمہ داری تھی وہ محمد بن سلمان آج وہابی ازم کو سعودی ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ وہ سعودی عرب کو وہابی فکر سے آزاد کرنا چاہتے ہیں۔ الشیخ فیمیلی کا اثرورسوخ دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔ مختلف شیوخ کو محمد بن سلمان کی پالیسیز پر تنقید کرنے کی پاداش میں جیلوں میں بند کر دیا گیا ہے۔ گزستہ چند سالوں میں دنیا بھر سے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی نامور سیلیبرٹیز کیلئے سعودی عرب کے مختلف شہروں میں پرفارمنسز کا انععقاد کیا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں سے مذہبی تعلیمات کی جگہ تنقیدی سوچ کا حامل نصاب متعارف کروایا جا رہا ہے تا کہ طالبعلم ان مذہبی احکامات پر سوال اٹھا سکیں جو موجودہ دنیا کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتے اور سعودی عرب کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے جاتے ہیں۔ لہٰذا سعودی عرب کو بدلتی دنیا میں جدید تقاضوں سے ہمکنار کرنے کے لئے مذہبی شدت پسندی میں کمی لانے کے نام پر آرٹ، فنون لطیفہ، کلچرل سرگرمیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ویژن 2030 کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ ویژن 2030 کراؤن پرنس محمد بن سلمان کی جانب سے 2016 میں لانچ کیا گیا تھا، اس کا مقصد سعودی عرب کی معیشت اور معاشرت میں بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کروانا تھا۔ سعودی عرب کی معشیت کے سالانا جی ڈی پی کا 80 فیصد حصہ تیل کی برآمدات سے حاصل ہوتا ہے۔ 2011 میں محمد بن سلمان جب سعودی سیاست کے افق پر طلوع ہوئے تومختلف وجوہات کی بنا پر دنیا بھرمیں تیل کی قیمتیں 80 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 35 ڈالر فی بیرل پر آگئیں تھیں جس وجہ سے سعودی معشیت کو بڑا دھچکا لگا تھا۔ دوسری طرف مغربی ممالک کی جانب سے بھی تیل کی طلب میں کمی واقع ہو گئی اور دن بدن تیل کے ذخائر میں بھی کمی ہوتی جا رہی ہے۔ ان اصلاحات کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کی 36 ملین آبادی کا 70 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جو یو اے ای سے آپریٹ ہونے والے این بی سی مووی چینل کو دیکھ کر جوان ہوا ہے اور مغربی اقدار کو پسند کرتا ہے۔ نوجوانوں کی اتنی بڑی آبادی کو انگیج کرنے کے لئے اور بادشاہت کو اندرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لئے ایسی اصلاحات متعارف کروانا وقت کا تقاضا بھی ہے اور ضرورت بھی۔ یہاں ایک بات ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ  محمد بن سلمان یہ سب کچھ مغربی طاقتوں کی ایما پر نہیں کر رہے بلکہ محمد سلمان دانستً میں یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب میں ترقی کا آغاز تب ہوا جب مغرب نے مذہب اور سیاست کو علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ لہٰذا سعودی معشیت کا تیل پر انحصار کم کرنے اور سعودی معاشرے کو جدید دنیا سے ہمکنار کرنے کے لئے ویژن 2030 کو متعارف کروایا گیا تھا۔ اسی ویژن کے تحت 500 ملین یوایس ڈالر کی لاگت سے سعودی عرب کے شمالی مغربی علاقے پر نیوم نامی شہر تعمیر کیا جائے گا جو ساڑھے 10 ہزار مربع میل رقبے پر پھیلا ہوا ہو گا اور بحراحمر کی ساحلی پٹی سے منسلک ہو گا۔ اس کی سرحد مصر اور اردن تک پھیلی ہوئی ہو گی۔ نیوم شہر میں اور بھی فلک بوس پراجیکٹس ‘دی لائن’ اور ‘دی مرر’ کے نام سے تعمیر کئے جا رہے ہیں جہاں سڑکیں ہوں گی نہ کاریں بلکہ برقی ریل گاڑیاں شہریوں کی ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کریں گی، توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہائیڈروکاربن کی بجائے توانائی کے ماحول دوست فطری ذرائع کو استعمال میں لایا جائے گا۔ کنگ سلمان پارک کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا پارک بھی تعمیر کیا جا رہا ہے جو سنٹرل پارک سے 5 گنا بڑا ہو گا۔ سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض میں ایک مصنوئی اربن فورسٹ کی تعمیر

چینی بھائیوں کا شکریہ بنتا ہے

کالم لکھنے کا مقصد اپنے چینی بھائیوں، دوستوں کا شکریہ ادا کرنا، انہیں سلام محبت پیش کرنا ہے، مگر اس سے پہلے چند معروضات تو پیش کرنا بنتا ہے تاکہ بات اچھے طریقے سے سمجھ آ سکے۔  صاحبو ، ہمیں اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی سے کوئی کد یا ناراضی نہیں، اس کے فری ورژن سے فائدہ ہی اٹھا رہے ہیں۔ اچھی ، جامع معلومات دیتا ہے اور اس کے ساتھ کچھ سر کھپا لیا جائے تو ہماری ضروریات کو بہتر طریقے سے سمجھ جاتا ہے ۔ سچی بات ہے کہ میرے دل میں ڈیپ سیک اے آئی کے لئے بھی محبت کے چشمے نہیں ابل رہے۔ نیوٹرل سا معاملہ ہے۔ پہلے دن اس پر اکائونٹ ہی نہیں بنا سکا، جب بنایا تو اب مجھے چیٹ جی پی ٹی سے قدرے بہتر لگا کہ یہاں پر جتنے مرضی سوال پوچھ لو، یہ انکار نہیں کرتا، چیٹ جی پی ٹی کی طرح یہ نہیں کہتا کہ آپ کے سوالات کا کوٹہ ختم ہوگیا، اب چند گھنٹوں بعد رابطہ کریں۔ یہ بات مجھے ڈیپ سیک کی اچھی لگی۔  ویسے مجھے ڈیپ سیک یعنی اس کے اے آئی اسسٹنٹ کی یہ بات بھی اچھی لگی کہ وہ ہر جواب سے پہلے ایک مونولاگ یعنی خودکلامی کر کے بات سمجھنے کی کوشش کرتی ہے، یہ سب تیزی سے لکھا آتا ہے اور پھر اصل جواب سامنے آئے گا۔ چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک میں اب آگے بڑھنے کی کشمکش ہوگی،ٹاپ پر آنے کے لئے دونوں کمپنیاں اپنی سرتوڑ کوشش کریں گی۔ سنا ہے کہ چینی کمپنی علی بابا نے بھی اپنا اے آئی اسسٹنٹ لانچ کر دیا ہے جو شائد چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک سے بھی بہتر ہوگا۔  یہ سب لڑائیاں اپنی جگہ مگر میں چینی بھائیوں کا اس لئے شکرگزار اور ممنوں ہوں کہ انہوں نے ایک کرشمہ تخلیق کیا، ایک نئی امید جگائی، حوصلہ پیدا کیا ہے۔  چینی ماہرین نے یہ ثابت کیا ہے کہ آگے بڑھنے کے لئے ضروری نہیں کہ اربوں کھربوں ڈالر کا عظیم الشان انفراسٹرکچر اور بے پناہ مالی وسائل ہوں، دنیا کی جدید ترین امریکی کمپنیوں کی سپورٹ ہو اور مغرب کی چکاچوند کر دینے والی ٹیکنالوجی کا جادو شامل ہو۔  چینی کمپنی ڈیپ سیک کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انہوں نے یہ دکھا دیا ہے کہ اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی جیسےمیگا سٹرکچر، بے تہاشا وسائل اور نیوڈا کمپنی جیسے جدید ترین چپس کے بغیر بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے آج کی بے رحم، سفاک اور سیاہ دنیا میں ہمیں بتلایا اور سکھایا ہے کہ کمزور بھی جنگ جیت سکتا ہے۔  آج کل ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ موٹیویشنل سپیکرز سے اس لئے نالاں رہتے ہیں کہ ان کے خیال میں وہ خواب بیچتے ہیں، فرضی، خیالی کامیابی کی کہانیاں سناتے اور کمزوروں کو جیت جانے کی راہ دکھاتے ہیں۔ ہمارے یہ پریکٹیکل لوگ اس پر بڑے نالاں اور برہم ہوتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ عقلمند آدمی وہی ہے جو طاقتور ترین آدمی کی طاقت سے مرعوب ہو کر ہار مان لے، اس کے آگے کھڑا ہونے کا خیال بھی دل میں نہ لے آئے اور پوری فرماں برداری کے ساتھ اوسط درجے کی زندگی گزارتا رہے۔  جو موٹیویشنل سپیکر اس کے برعکس باتیں بتاتے ، مختلف کامیابی کی داستانیں سناتے ہیں ان سب پر ہمارے یہ پریکٹیکل، روشن خیال ، سمجھدار، زیرک لوگ ناراض اور ناخوش ہیں۔ اسی لئے یہ وقتاً فوقتاً ان موٹیویشنل سپیکرز کو بے بھائو کی سناتے رہتے ہیں۔  سچی بات تو یہ ہے کہ چین نے بھی موٹیویشنل سپیکر والا کام کیا، فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے باتیں نہیں کیں، عمل بھی کر کے دکھایا۔ انہوں نے ایک بڑی زبردست، ہلا دینے والی شاک ویو مغرب کے اعلیٰ ترین، طاقتور ترین بزنس سرکلز میں انجیکٹ کر دی ہے ۔  تاریخ ہمیں ویسے اس طرح کی کئی کہانیاں سناتی ہے۔ تاریخ عالم میں ایسے کئی جتھے، گروہ اٹھے جو اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑے طاقتور لشکروں سے ٹکرا گئے اور فتح پا لی۔ مغلیہ سلطنت کے بانی بابر کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ وہ چند ہزار کا لشکر لے کر آیا اور ابراہیم لودھی کے ایک لاکھ کے لشکر کی سوشل میڈیائی محاورے کے مطابق بینڈ بجا دی۔ بہادری اور جرات تو خیر ہوگی ہی ، مگر فرق شائد بابر کی جنگی چالوں اور بہتر عسکری ٹیکنالوجی کا بھی تھا۔  زمانے بدل گئے، دستور تبدیل ہوئے۔عہد حاضر میں جدید ٹیکنالوجی اور جدید وسائل کا ارتکاز چند ہاتھوں میں کچھ اس طرح ہوا کہ مغرب اور خاص کر امریکہ نے بڑی فیصلہ کن برتری حاصل کر لی ۔ گیپ اتنا زیادہ بڑھ گیا کہ کوئی ہوشمند شائد اسے پاٹنے کا، کم کرنے اور آگے نکل جانے کا سوچے ہی ناں۔ مجھے ازخود خوشی ہے کہ چینیوں میں ایسے ّّپریکٹیکل ٗٗ اور نپی تلی ّّہوشمندیٗٗ والے کم ہیں، خواب دیکھنے، کرشمہ تخلیق کرنے، اپنے فن کا جادو جگانے اور ناممکن کو ممکن بنانے والے لوگ موجود ہیں۔  کئی سال پہلے ایک برطانوی ادیب کا لیکچر کی تفصیل پڑھی۔ اس نے بتایا کہ چینیوں نے نائن الیون کے دو تین سال بعد اپنے ماہرین کی ایک ٹیم مغربی ممالک میں بھیجی جس نے طویل سٹڈی کے بعد بتایا کہ چینی بچوں کو فینٹسی پر مبنی کہانیاں پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد چینی سکولوں کے نصاب میں باقاعدہ طور پر سپر ہیروز والی کہانیاں ڈالی گئیں، فیری ٹیلز پڑھنے کی عادت بنائی گئی کیونکہ ان کہانیوں سے بچے یہ سیکھتے ہیں کہ طاقتور ترین کو بھی شکست دی جا سکتی ہے اور کچھ نیا، کچھ انوکھا، کچھ اچھوتا تخلیق ہوسکتا ہے جس سے جن اور دیو کو شکست ہو، پری کو رہا کرایا جا سکے اور کمزور کی جیت ہو۔  چینی کمپنیوں ڈیپ سیک، علی بابا اور دیگر کی حالیہ خیرہ کن کامیابیاں یہ بتاتی ہیں کہ پچھلے پندرہ برسوں میں چینی ماہرین نے اپنی نئی نسل کو آوٹ آف باکس تھنکنگ کی عادت ڈال دی۔ وہ مروجہ سیٹ پیمانے سے باہر نکل کر سوچنے اور کچھ کر گزرنے کے قائل اور عادی ہوچکے ۔  چین کا

بیگ اور کتابوں کی چھٹی، ای لرننگ جدید مگر مکمل متبادل نہیں

ای لرننگ نے تعلیم کے طریقوں میں انقلابی تبدیلیاں لائی ہیں لیکن اس کے باوجود روایتی اسکولوں میں سماجی تعلقات اور ذاتی تجربات کی اہمیت برقرار ہے۔ ٹیکنالوجی کا یہ انقلاب تعلیم کے تسلسل کو بہتر بناتا ہے مگر بچوں کی شخصیت کی تکمیل میں روایتی تعلیم کا کردار بھی ضروری ہے۔ ای لرننگ جسے آن لائن تعلیم بھی کہا جاتا ہے انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے تعلیم فراہم کرنے کا جدید طریقہ ہے یہ طریقہ تدریس جہاں کئی لحاظ سے سہولت فراہم کرتا ہے وہاں اس کے کچھ چیلنجز بھی ہیں۔  بچوں کے اسکول جانے کی خوشی، استاد کے ساتھ براہِ راست تعلق اور کلاس روم کے ماحول کی تو ای لرننگ کا متبادل نظر آتا ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی کا یہ انقلاب بچوں کے دلوں میں اسکول جانے کی محبت کو مٹا دے؟ عالمی سطح پر تیز رفتار ٹیکنالوجی کی ترقی نے کئی شعبوں کو متاثر کیا ہے اور تعلیم ان میں سرِفہرست ہے۔ کرونا وبا کے دوران جب دنیا بھر میں اسکول اور تعلیمی ادارے بند ہوئے، ای لرنینگ (E-learning) نے نہ صرف تعلیمی تسلسل کو برقرار رکھا بلکہ اس نئے طریقہ تدریس نے تعلیم کے روایتی نظام کو چیلنج بھی کیا۔ ایک لمحے کے لیے یہ سوال دل میں آتا ہے کیا ای لرننگ وہ انقلاب ہے جو اسکولوں کے روایتی طریقے کو ہمیشہ کے لیے بدل دے گا؟ یا پھر یہ صرف ایک وقتی حل ہے جو وقت کے ساتھ اپنا اثر کھو دے گا؟ ای لرنینگ کا آغاز ابتدا میں صرف یونیورسٹیوں اور اوپن کالجوں تک محدود تھا لیکن کرونا وبا نے اس کے استعمال کی رفتار میں ایک زبردست اضافہ کیا۔ دنیا کے مختلف حصوں میں اسکولز بند ہونے کے باوجود ای لرننگ نے طلبا کو ایک نئی امید دی اور تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا۔ جرمن شہر کولون میں اسکولوں نے اس بات کا تجربہ شروع کیا ہے کہ مستقبل میں اسکولوں میں کتابوں اور بلیک بورڈ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ طلباء اپنے لیپ ٹاپز پر کلاس کے تمام مواد تک رسائی حاصل کریں گے اور انٹرنیٹ کے ذریعے سیکھنے کی سرگرمیاں بڑھیں گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا اسکول میں بچوں کی ملاقات، دوستوں کے ساتھ کھیلنا اور اساتذہ کے ساتھ براہ راست رابطہ ان سب چیزوں کا متبادل ممکن ہے؟ دوسری جانب ای لرننگ کے بے شمار فوائد ہیں جو اسے روایتی تعلیم سے ممتاز کرتے ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں طلباء کو جگہ اور وقت کی آزادی ہوتی ہے۔ وہ اپنے شیڈول کے مطابق تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ویڈیوز، انٹرایکٹو ماڈیولز اور گیمز کے ذریعے تعلیم کو مزید دلچسپ اور مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم کیا یہ ڈیجیٹل تعلیم بچوں کی سوچ، جذبات اور سماجی تعلقات کو مکمل طور پر سمجھنے میں کامیاب ہو سکتی ہے؟ ای لرننگ کے فوائد کے باوجود اس میں کئی چیلنجز بھی ہیں جو اس طریقہ تدریس کو مکمل طور پر کامیاب ہونے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ ہندوستان میں تقریباً 40 کروڑ طلباء ہیں اور 10 لاکھ سے زیادہ سکولز ہیں مگر وہاں کئی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت، بجلی کی فراہمی اور اسمارٹ فونز کی کمی کی وجہ سے ای لرننگ کے فوائد کو حاصل کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ کلاس روم کے ماحول میں جو سماجی تعلقات بنتے ہیں اور جو تفریحی سرگرمیاں بچوں کی شخصیت کو پروان چڑھاتی ہیں وہ ای لرننگ کے ذریعے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ بچے سکول میں آکر اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ کھیلتے ہیں سیکھتے ہیں اور بہت کچھ سمجھتے ہیں جو ای لرننگ میں ممکن نہیں۔ جبکہ ای لرننگ کا مستقبل روشن نظر آ رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ روایتی تعلیم کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ماہرین کے مطابق مستقبل میں اسکولوں میں کتابوں اور کاپیوں کا تیزی سے خاتمہ ہو سکتا ہے اور ہر طالب علم کے پاس اپنا لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ ہوگا۔ تاہم ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ تبدیلی صرف تدریسی وسائل تک محدود ہوگی یا پھر اس کا اثر طلباء کی شخصیت پر بھی پڑے گا؟ بچوں کی شخصیت کی تکمیل کے لیے اساتذہ کا کردار, ہم جماعتوں کے ساتھ تعلقات اور اسکول کی روزمرہ کی سرگرمیاں بہت ضروری ہیں۔ ای لرننگ نے تعلیم کے میدان میں ایک نیا انقلاب برپا کیا ہے، جس نے دنیا بھر کے تعلیمی نظام کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک موثر طریقہ تدریس ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ روایتی اسکولوں کی اہمیت بھی برقرار رہنی چاہیے تاکہ بچوں کو ایک متوازن اور مکمل تعلیم فراہم کی جا سکے۔ مستقبل میں ای لرننگ کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہمیں اس کے چیلنجز اور حل پر بھی نظر رکھنی ہوگی تاکہ ہم ایک مکمل اور ذمہ دار شہری تیار کر سکیں۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہادی ای لرننگ کے سی ای او حنین زیدی نے کہا کہ “ای لرننگ تعلیمی کارکردگی میں مثبت تبدیلیاں لائی ہیں، خاص طور پر ان بچوں کے لیے جو خود سے سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ روایتی تعلیم کے مقابلے میں زیادہ لچکدار اور جدید تدریسی طریقے مہیا کرتی ہے، مگر یہ مکمل متبادل نہیں ہو سکتی، کیونکہ روایتی تعلیم کا سماجی اور اخلاقی ترقی میں بھی کردار ہوتا ہے۔ ای لرننگ کے فوائد جیسے کہ کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ سے سیکھنے کی سہولت اور جدید ڈیجیٹل مواد کی دستیابی، اسے ایک مستقل حل بنا سکتے ہیں۔ تاہم، تکنیکی رکاوٹیں، طلبہ کی توجہ مرکوز رکھنے میں مشکلات، اور اساتذہ و طلبہ کے براہ راست تعلق کی کمی جیسے چیلنجز موجود ہیں۔ لہذا، یہ مکمل روایتی تعلیم کی جگہ نہیں لے سکتی، لیکن ایک اہم جز ضرور بن سکتی ہے”۔ طلبا اور ای لرننگ کی وجہ سے ان کے روابط کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ “ای لرننگ میں کلاس روم جیسا سماجی ماحول نہیں ہوتا، جس سے بچوں میں باہمی روابط اور سماجی مہارتوں کے فروغ میں کمی آسکتی ہے۔ تاہم، اگر اس میں گروپ ایکٹیویٹیز، آن لائن مباحثے، اور انٹرایکٹو لرننگ کو شامل کیا جائے تو