عالمی برانڈز کا بائیکاٹ: کیا پاکستانی معیشت خودمختاری کی جانب گامزن ہے؟

ایک غیر متوقع موڑ نے پاکستان کی مارکیٹ کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے، پاکستان میں عالمی برانڈز کے خلاف بائیکاٹ مہم نے مقامی کاروباروں کے لیے سنہری موقع پیدا کر دیا ہے۔ جہاں عالمی نام پیچھے ہٹ رہے ہیں وہیں پاکستانی نوجوان اور اُبھرتے کاروباری افراد میدان میں اُتر آئے ہیں۔ مقامی مصنوعات کی مانگ میں بے مثال اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور صارفین دل سے ان گھریلو برانڈز کو اپناتے جا رہے ہیں۔ ہ صرف ایک وقتی رجحان نہیں، بلکہ معاشی خودمختاری کی جانب پہلا مضبوط قدم ہے۔
چین اور امریکا کی کشمکش میں پاکستانی معیشت کی سمت کیا ہے؟

دنیا کی دو بڑی معیشتوں میں چین اور امریکا کا نام سرِفہرست آتا ہے۔ ان کے درمیان جاری تجارتی کشمکش نے عالمی اقتصادی منظرنامے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ صدارت کا حلف لینے کے کچھ دن بعد ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تمام چھوٹے بڑے ممالک پر ٹیرف عائد کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ امریکہ کو بہت لوٹ لیا گیا ہے، اب بس اور اب سب ممالک کو ٹیرف دینا پڑیں گے۔ امریکا کی جانب سے لگائے گئے ٹیرف کے جواب میں اکثر ممالک کی جانب سے جوابی ٹیرف عائد کردیے گئے، جس نے خطے میں ایک نئی کشمکش کو جنم دیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چینی مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد چین نے بھی جوابی اقدامات کیے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی جنگ شدت اختیار کر گئی۔ درجنوں ممالک پر لگائے جانے والے اضافی ٹیرف کو 90 دن کے لیے روک دیا گیالیکن آئی فون سے لے کر بچوں کے کھلونے بنانے والے چین پر 125 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا اور جواباً چین نے بھی امریکی مصنوعات پر 125 فیصد ٹیرف عائد کردیا۔ پاکستان ان دو طاقتوں کی ہمیشہ سے ہی ترجیحات میں رہا ہے، ان طاقتوں کے درمیان جاری یہ جنگ پاکستان کے لیے فوائد اور مشکلات دونوں ایک ساتھ لے کر آئی ہے۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر شفاقت علی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ نے عالمی سپلائی چینز کو متاثر کیا ہے جس کا بالواسطہ اثر پاکستان پر بھی پڑا ہے۔ پاکستان کو خاص طور پر ٹیکسٹائل اور زراعت کے شعبوں میں کچھ مواقع ملے لیکن پالیسیوں کی عدم تسلسل اور بھاری لاگت کا مقابلہ نہ کرنے کے باعث فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ چینی مصنوعات پر امریکی ٹیرف کے باعث امریکی خریدار متبادل سپلائرز کی تلاش میں ہیں، جس سے پاکستانی برآمدات میں اضافہ ممکن ہے۔ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چین نے پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، جس کا مقصد بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور توانائی کے منصوبوں کی تکمیل ہے۔ گوادر پورٹ، موٹرویز اور صنعتی زونز جیسے منصوبے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر شفاقت علی کا کہنا ہے کہ سی پیک کی بدولت پاکستان کی اقتصادی اور جغرافیائی قربت چین سے بڑھ رہی ہے جو امریکہ کے ساتھ تعلقات میں ایک توازن کا تقاضا کرتی ہے۔ طویل مدتی اثرات میں پاکستان کو محتاط سفارتی حکمت عملی اپنانی ہوگی تاکہ کسی ایک بلاک پر انحصار نہ ہو۔ اگرچہ تجارتی جنگ نے پاکستان کے لیے نئے مواقع پیدا کیے ہیں، لیکن اس کے ساتھ کچھ چیلنجز بھی سامنے آئے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق عالمی تجارتی کشمکش کے باعث ترقی پذیر ممالک میں سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے، جو پاکستان جیسے ممالک کے لیے تشویشناک ہے۔ امریکا اور چین کی جاری اس جنگ کی وجہ سے عموماً یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا پاکستان کو امریکی منڈیوں میں چینی مصنوعات کی جگہ لینے کا یہ ایک موقع ہے؟ اس حوالے سے ڈاکٹر شفاقت علی کا کہنا ہے کہ یہ موقع وقتی طور پر تو موجود ہے لیکن اس سے دیرپا فائدہ صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب پاکستان اپنی مصنوعات کے معیار اور ترسیل کی صلاحیت میں بہتری لائے۔ موجودہ انفراسٹرکچر اور پالیسی رکاوٹیں اس موقع کو مکمل طور پر استعمال کرنے نہیں دیتیں۔ اس کے علاوہ یہ کہ پاکستان کی معیشت پر چین کے بڑھتے ہوئے انحصار نے بین الاقوامی قرض دہندگان کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان کا کل قرضہ 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جس میں سے 30 فیصد چین کا ہے۔ ماہرِ معاشیات نے کہا ہے کہ اگر سرمایہ کاری شفاف شرائط پر ہو اور مقامی معیشت کو مضبوط کرے تو یہ فائدہ مند ہے۔ لیکن قرضوں کی غیر شفافیت اور ریونیو شیئرنگ میں عدم توازن پاکستان کی معاشی خودمختاری کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اگر متبادل مالی ذرائع نہ ہوں تو یہ خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں شمسی توانائی کے استعمال میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو 2021 میں 4 فیصد سے بڑھ کر 2024 میں 14 فیصد ہو گیا ہے۔ یہ ترقی زیادہ تر امیر طبقے اور کاروباری اداروں کی جانب سے سستی چینی سولر پینلز کی تنصیب کے باعث ممکن ہوئی ہے۔ مگردرمیانے طبقے اور کرایہ داروں کے لیے یہ ٹیکنالوجی اب بھی دور ازکار ہے، جس سے معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈوکیٹ تقویم چانڈیو کا کہنا تھا کہ شمسی توانائی کے شعبے میں ترقی کے باوجود درمیانے طبقے کی شمولیت میں رکاوٹ کی بڑی وجوہات میں زیادہ ابتدائی لاگت، حکومتی سبسڈی یا آسان فنانسنگ کی کمی، تکنیکی آگاہی کا فقدان، ناقص سروسز پر عدم اعتماد اور کرایہ داروں کے لیے تنصیب میں مشکلات شامل ہیں۔ پاکستان نے 2024 میں آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج حاصل کیا، جس سے معیشت کو سہارا ملا۔ اس کے علاوہ سعودی فنڈ برائے ترقی کے ساتھ 1.2 ارب ڈالر کے تیل کی ادائیگی مؤخر کرنے کا معاہدہ بھی کیا گیا، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی۔ ڈاکٹر شفاقت علی کے مطابق آئی ایم ایف پروگرامز اکثر سخت شرائط سے مشروط ہوتے ہیں، جس سے پاکستان کی اقتصادی خودمختاری محدود ہو جاتی ہے۔ فیصلوں میں آزادی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ملکی آمدنی میں اضافہ ہو اور بیرونی قرضوں پر انحصارکم کیا جائے اگر ایسا نہ کیا گیا تو خطرہ مزید بڑھے گا۔ امریکا اور چین کے درمیان جاری اس ٹیرف جنگ میں پاکستانی حلقوں میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ عالمی تجارتی عدم استحکام کے پیش نظر پاکستان کو اپنی برآمدی حکمتِ عملی میں کیا تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے؟ ایڈوکیٹ تقویم چانڈیو کا کہنا ہے کہ پاکستان کو روایتی برآمدات سے ہٹ کر ٹیکنالوجی، آئی ٹی اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی برآمدات بڑھانی چاہئیں۔ اس کے ساتھ نئی عالمی منڈیوں میں رسائی اور مقامی صنعتوں کی
پاکستانی فضائی حدود کی بندش سے انڈین ایئرلائنز کو 10 روز میں 200 کروڑ سے زائد کا نقصان

پاکستانی فضائی حدود کی بندش انڈین ایئرلائنز پر بھاری پڑنے لگی، اب تک ایک ہزار سے زائد پروازیں متاثر، جب کہ انڈین ایوی ایشن انڈسٹری کو 200 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔ نجی نشریاتی ادارے اے آر وائی نیوزکے مطابق پاکستان کی فضائی حدود کی بندش کو دس روز مکمل ہو چکے ہیں۔ اس دوران انڈین ایئرلائنز کو طویل روٹس، اضافی فیول اور ری فیولنگ جیسے مہنگے متبادل ذرائع اختیار کرنا پڑے، جس سے نہ صرف آپریشنل لاگت میں غیر معمولی اضافہ ہوا بلکہ پروازوں کا شیڈول بھی درہم برہم ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق ایئر انڈیا، اسپائس جیٹ، آکاسا ایئر، انڈیگو اور ایئر انڈیا ایکسپریس سمیت متعدد انڈین ایئرلائنز کی درجنوں پروازیں منسوخ کی جا چکی ہیں۔ لمبے راستوں کے باعث اخراجات دگنے ہو چکے ہیں اور ایئرلائنز کو روزانہ کروڑوں روپے کا مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستانی فضائی حدود کی بندش کے بعد انڈین طیاروں کو متبادل روٹ اختیار کرتے ہوئے آدھے انڈیا کا چکر کاٹ کر بحیرہ عرب سے گزرنا پڑ رہا ہے، جس سے نہ صرف فیول کا خرچ بڑھا ہے بلکہ پروازوں کا دورانیہ بھی 4 سے 10 گھنٹے تک طویل ہو چکا ہے۔ واضح رہے کہ انڈیگو ایئر نے وسط ایشیائی ممالک کے لیے اپنا فضائی آپریشن عارضی طور پر معطل کر دیا ہے، جب کہ دہلی، ممبئی، امرتسر، بنگلورو اور احمد آباد سے دبئی جانے والی پروازیں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ امریکا جانے والی انڈین پروازوں کو یورپ میں لینڈنگ کے بعد عملہ تبدیل کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری جانب دوہری لینڈنگ، ری فیولنگ اور فضائی خلل کے باعث انڈین مسافر بھی شدید پریشانی کا شکار ہیں، کئی مسافروں کو پروازیں منسوخ ہونے پر ریفنڈز بھی موصول نہیں ہوئے۔ یاد رہے کہ 2019 میں بھی پاکستانی فضائی حدود کی بندش کے باعث انڈین ایئرلائنز کو 700 کروڑ روپے کا بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا اور موجودہ صورتحال ایک بار پھر اسی تاریخ کو دہرا رہی ہے۔
’آئندہ سال مزید ٹیکس متعارف ہوں گے‘ وفاقی حکومت کا اگلے مالی سال کے لیے 14.3 کھرب روپے کے ٹیکس کا ہدف

وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ مالی سال 2025-26 کے لیے 14.3 کھرب روپے کے نئے ٹیکس ہدف کا ارادہ رکھتی ہے، جو کہ رواں مالی سال کے نظرثانی شدہ ہدف سے 2 کھرب روپے زیادہ ہے۔ اس نئے ہدف کے حصول کے لیے حکومت کو کم از کم 500 ارب روپے کے اضافی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔ وزارت خزانہ اس ہدف کو ممکن بنانے کے لیے درکار اقدامات کو حتمی شکل دینے پر کام شروع کر چکی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے بجٹ کی پیشکش عید سے قبل، ممکنہ طور پر 2 یا 3 جون کو متوقع ہے۔ یہ نیا ٹیکس ہدف آئندہ مالی سال کے متوقع جی ڈی پی کے 11 فیصد کے برابر ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق، اگرچہ معیشت کے حجم کے مطابق ہدف میں معمولی ردوبدل ہو سکتا ہے، لیکن جی ڈی پی کے 11 فیصد کو بنیاد کے طور پر رکھا جائے گا۔ یہ بھی پڑھیں: رواں سال پاکستانی برآمدات میں ریکارڈ اضافہ، حجم 26.859 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تاہم، یہ ہدف ابھی حتمی نہیں ہے اور اس کا انحصار عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منظوری پر ہے، جو 14 مئی سے پاکستان کا دورہ کر کے مالیاتی اہداف کا جائزہ لے گا۔ یہ نیا ہدف رواں مالی سال کے 12.3 کھرب روپے کے ہدف سے 16 فیصد زیادہ ہے، جسے مہنگائی اور معاشی سست روی کے باعث ابتدائی 13 کھرب روپے سے کم کر دیا گیا تھا۔ یہ کم شدہ ہدف بھی جی ڈی پی کے 10.6 فیصد کے برابر تھا۔ آنے والے مالی سال میں 14.3 کھرب روپے کے ہدف کے حصول کے لیے حکومت کو 500 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات متعارف کرانا ہوں گے، جو رواں سال کے دوران پہلے ہی لگائے گئے 1.3 کھرب روپے کے نئے ٹیکسوں کے علاوہ ہوں گے۔ رواں سال کے ٹیکسوں کا بڑا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈالا گیا تاکہ نظرثانی شدہ ہدف پورا کیا جا سکے۔ تاہم، ایف بی آر کو اب تک 830 ارب روپے کا شارٹ فال درپیش ہے، جو معیشت کی کمزور استعداد کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مزید ٹیکس بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتی جب تک کہ ٹیکس نیٹ میں وسعت نہ دی جائے۔ ایف بی آر کے چیئرمین راشد لنگڑیال نے عندیہ دیا ہے کہ آئندہ بجٹ ٹیکس وصولیوں کے اہداف کے حوالے سے مشکل ہوگا، اور مزید ٹیکس اقدامات متعارف کرائے جائیں گے تاکہ مالیاتی خسارے کو قابو میں رکھا جا سکے۔
رواں سال پاکستانی برآمدات میں ریکارڈ اضافہ، حجم 26.859 ارب ڈالر تک پہنچ گیا

پاکستان کی برآمدات میں رواں مالی سال 2024-25 کے ابتدائی دس ماہ کے دوران 6.25 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس عرصے میں برآمدات کا حجم 26.859 ارب ڈالر رہا، جو گزشتہ سال اسی مدت میں 25.278 ارب ڈالر تھا۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے جاری کردہ تجارتی اعداد و شمار کے مطابق، ملک کا تجارتی خسارہ بھی 8.81 فیصد بڑھ کر 21.351 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 19.622 ارب ڈالر تھا۔ درآمدات میں بھی اضافہ دیکھا گیا، جو 7.37 فیصد اضافے کے ساتھ 48.210 ارب ڈالر ہو گئیں، جبکہ گزشتہ سال اسی مدت میں یہ 44.9 ارب ڈالر تھیں۔ یہ بھی پڑھیں: الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ: حب پاور کمپنی ملک بھر میں چارجنگ پوائنٹس قائم کرے گی اپریل 2025 میں مہینہ وار بنیادوں پر پاکستان کا تجارتی خسارہ 55.20 فیصد کے اضافے سے 3.388 ارب ڈالر ہو گیا، جو مارچ 2025 میں 2.183 ارب ڈالر تھا۔ اپریل میں برآمدات میں 19.05 فیصد کمی ہوئی اور یہ 2.141 ارب ڈالر رہیں، جبکہ مارچ میں یہ 2.645 ارب ڈالر تھیں۔ دوسری جانب، درآمدات میں اپریل کے دوران 14.52 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 5.529 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، جبکہ مارچ میں یہ 4.828 ارب ڈالر تھیں۔ سال بہ سال بنیاد پر بھی اپریل 2025 میں تجارتی خسارے میں 35.79 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جو اپریل 2024 میں 2.495 ارب ڈالر تھا۔ اپریل 2025 میں برآمدات میں 8.93 فیصد کمی ہوئی، جو اپریل 2024 میں 2.351 ارب ڈالر کے مقابلے میں 2.141 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں۔ درآمدات میں سالانہ بنیاد پر 14.09 فیصد اضافہ ہوا، جو اپریل 2024 میں 4.846 ارب ڈالر کے مقابلے میں اپریل 2025 میں 5.529 ارب ڈالر رہی۔
پاکستان میں بجلی کا نیا 10 سالہ منصوبہ: حکومت کا 4743 ارب روپے بچانے کا دعویٰ

وفاقی وزیر برائے توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان کے بجلی کے شعبے کے لیے 10 سالہ منصوبہ آئی جی سی ای پی 2025-34 کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت بجلی کی خریداری سے متعلق سنگل بائر ماڈل ختم کر کے مسابقتی بولی کا نظام متعارف کرایا جا رہا ہے۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اویس لغاری نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت مہنگی اور غیر ضروری بجلی کے منصوبے منسوخ کر دیے گئے ہیں اور بجلی کی خریداری کا حجم 14 ہزار میگاواٹ سے کم کرکے 7 ہزار میگاواٹ کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے قومی خزانے پر پڑنے والا بوجھ 4,743 ارب روپے کم ہوگا۔ وفاقی وزیر کے مطابق حکومت اب مزید بجلی نہیں خریدے گی اور نہ ہی نئے منصوبوں کے لیے حکومتی گارنٹی دی جائے گی، جس سے مختلف قسم کے پیسٹی چارجز سے بھی چھٹکارا حاصل ہوگا۔ مزید پڑھیں: کراچی، گھریلو جھگڑا خونریزی میں بدل گیا، سُسر کے ہاتھوں داماد قتل اویس لغاری کا کہنا تھا کہ منصوبے میں پہلی بار شفافیت اور میرٹ کی بنیاد پر منصوبوں کا انتخاب کیا گیا ہے، کسی مخصوص فرد، گروہ یا جماعت کو فائدہ نہیں پہنچایا گیا۔ پاور ڈویژن کی رپورٹ کے مطابق منصوبے کی تاریخوں میں رد و بدل سے 10 ارب ڈالر (2,790 ارب روپے) کی بچت ممکن ہوئی، جب کہ 7,967 میگاواٹ کے منصوبوں کو نکالنے سے مزید 17 ارب ڈالر (1,953 ارب روپے) کی بچت کی گئی ہے۔ منصوبے کے تحت مقامی وسائل جیسے ہائیڈرو، سولر، نیوکلیئر اور ونڈ انرجی کو ترجیح دی جائے گی تاکہ درآمدی ایندھن پر انحصار کم ہو، اور زرمبادلہ کے اربوں ڈالر بچائے جا سکیں۔ اویس لغاری نے کہا کہ یہ منصوبہ پاکستان میں سستی، پائیدار اور میرٹ پر مبنی بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائے گا، جس کا براہ راست فائدہ صارفین اور ملکی معیشت کو ہوگا۔
حکومت کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں کمی کردی، فی لیٹر پیٹرول کی قیمت میں 2 روپے کی کمی کردی گئی۔ وفاقی حکومت نے عوام کو ریلیف دیتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر دیا ہے، جس کا باضابطہ نوٹیفکیشن وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کر دیا گیا ہے۔ جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 2 روپے فی لیٹر کمی کی گئی ہے، جس کے بعد نئی قیمت 254.63 روپے سے کم ہو کر 252.63 روپے فی لیٹر مقرر کر دی گئی ہے۔ اسی طرح ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں بھی 2 روپے فی لیٹر کی کمی کی گئی ہے، جس کے بعد اس کی نئی قیمت 258.64 روپے سے گھٹ کر 256.64 روپے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اطلاق آج رات 12 بجے سے ہوگا، جو اگلے 15 روز کے لیے نافذ العمل رہے گا۔
تنخواہ دار طبقے کی زندگی کو آسان بنانے کی کوششیں جاری ہیں، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ٹیکس سے استثنیٰ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مینوفیکچرنگ سمیت تمام برآمدی شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں آنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے کی زندگی کو سادہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں، اور چونکہ 70 سے 80 فیصد تنخواہ دار افراد کی آمدنی ان کے اکاؤنٹ میں آتے ہی ٹیکس کاٹ لی جاتی ہے، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ انہیں ٹیکس ایڈوائزر کی ضرورت نہ پڑے۔ اس مقصد کے لیے سادہ ٹیکس فارم بنانے پر کام ہو رہا ہے جس میں صرف 9 سے 10 خانے ہوں گے، جن میں آٹو فل کا آپشن بھی موجود ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ توانائی کے شعبے میں درست سمت میں اقدامات کیے جا رہے ہیں، اور ٹیکس سے متعلق بزنس کمیونٹی کی تجاویز کے لیے جنوری میں ہی درخواست دے دی گئی تھی تاکہ بجٹ میں انہیں شامل کیا جا سکے۔ کئی تجارتی تنظیموں کی آراء موصول ہو چکی ہیں، اور ہم نے آزاد تجزیہ کاروں کی مدد بھی لی ہے تاکہ دیگر ملکوں کی طرز پر ٹیکس پالیسی کی تیاری میں رہنمائی حاصل ہو۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ چونکہ پاکستان اس وقت عالمی مالیاتی فنڈ کے پروگرام میں ہے، اس لیے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس بجٹ میں کیا ممکن ہے اور کیا نہیں۔ ہم تمام شراکت داروں کے پاس جا رہے ہیں تاکہ ان سے تجاویز لی جا سکیں، اور یہ تاثر غلط ہے کہ یہ سفارشات نظر انداز کی جائیں گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کابینہ نے منظوری دے دی ہے کہ ٹیکس پالیسی آفس کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے الگ کیا جائے گا، اور اب یہ آفس براہ راست وزارت خزانہ کو رپورٹ کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی نیا کاروبار شروع ہوتا ہے تو وہ طویل مدتی منصوبہ بندی کرتا ہے، لیکن ہمارا بجٹ صرف ایک سال کے لیے بنایا جاتا ہے۔ اس لیے اب ٹیکس پالیسی آفس مستقل بنیادوں پر کاروباری طبقے کے مسائل دیکھے گا جبکہ ایف بی آر صرف ٹیکس وصولی پر توجہ دے گا۔ آئندہ بجٹ ایف بی آر کا پالیسی سے آخری تعلق ہوگا، اس کے بعد یہ ذمہ داری ختم ہو جائے گی۔
پاکستان میں مہنگائی کی شرح 60 سالوں کی کم ترین سطح پر آگئی ہے، وزیر خزانہ اورنگزیب کا دعویٰ

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران بتایا کہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 60 سالوں کی کم ترین سطح پر آگئی ہے، زرمبادلہ ذخائر دگنا اور روپے کی قدر میں تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں اس وقت مہنگائی کی شرح صرف 0.7 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو گزشتہ چھ دہائیوں میں سب سے کم ہے۔ وزیر خزانہ نے مزید بتایا کہ پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر میں حیرت انگیز اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور یہ دگنا ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مارچ 2025 تک کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ایک ارب ڈالر سے زیادہ رہا جبکہ بیرونی سرمایہ کاری میں 44 فیصد اور آئی ٹی برآمدات میں 24 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ محمد اورنگزیب نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت قرضوں میں کمی کے لیے مالیاتی ذرائع بڑھائے گی اور ٹیکس اصلاحات کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی نجکاری سے ہر سال جی ڈی پی کا 2 فیصد بچانے کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترسیلات زر کا حجم 38 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے جو کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ ان تمام اقدامات کا مقصد پاکستان کو ایک مستحکم اور ترقی یافتہ معیشت بنانا ہے اور حکومت اس سفر پر پوری قوت سے گامزن ہے۔ مزید پڑھیں: چینی وزیر خارجہ کا اسحاق ڈار سے رابطہ، پاک انڈیا کشیدگی میں ثالثی کی پیشکش
فیکٹ چیک: ‘مہنگے پیٹرول سے سڑک کی تعمیر’ حکومت پیٹرول کی مد میں پاکستانیوں سے 15 روز میں کتنا ٹیکس وصول کرتی ہے؟

چند روز قبل وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اعلان کیا کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام کو منتقل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس رقم سے سندھ اور بلوچستان میں سڑکیں تعمیر کی جائیں گی۔ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ اسی روز حکومت نے مہنگائی سے پریشان پاکستانیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے کوٹے پر صدر بننے والے آصف زرداری کے آرڈیننس کے ذریعے پیٹرولیم قیمتوں پر عائد لیوی میں بھی بھاری اضافہ کر دیا۔ پیٹرولیم سیکٹر کے اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت عالمی منڈی کے نرخوں کے مطابق فی لیٹر پیٹرول 122 روپے میں میسر ہے۔ پاکستان میں پہنچ کر 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی، ایکسچینج ریٹ کا ایک روپیہ، لیوی فی لیٹر 78 روپے، ان لینڈ فریٹ ایکوزیشن مارجن فی لیٹر تقریبا 7 روپے عائد ہے۔ اس طرح فی لیٹر کل ٹیکس 108 روپے وصول کیا جا رہا ہے۔ ڈیلر اور ڈسٹری بیوشن مارجن ڈال کر پاکستانیوں کو 122 روپے فی لیٹر کا پیٹرول 254 روپے فی لیٹر میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ڈیٹا کے مطابق ملک میں جنوری 2025 کے دوران 1.38 ملین ٹن پیٹرولیم مصنوعات استعمال کی گئیں۔ حالیہ ایام میں اس مقدار میں مزید اضافہ ہوا ہے تاہم اگر انہی اعداد کو دیکھا جائے تو پاکستانی 15 روز میں 7 کروڑ 95 لاکھ لیٹر سے زائد کا ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ دیگر مدات کو نظر انداز کر کے صرف پیٹرولیم لیوی کا حساب کیا جائے تو پاکستانی 15 روز میں حکومت کو 63 ارب 61 کروڑ روپے کی بھاری رقم ادا کریں گے۔ تمام ٹیکسز شمار کیے جائیں تو پاکستانی 15 روز میں سرکار کو 85 ارب 94 کروڑ روپے سے زائد کی رقم ادا کریں گے۔ ان اعدادوشمار کی روشنی میں معاشی ماہرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب پاکستانی پہلے سے ہی بھاری ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہیں تو ان پر مزید معاشی دباؤ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ پاکستان میں تنخواہ دار 38.5 فیصد، کاروباری فرد 50 فیصد جب کہ بینکس اپنی آمدن کا 53 فیصد ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیکس کے سرکاری ڈیٹا کے مطابق کارپوریٹ سیکٹر نے 39 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔ ٹیکس کا معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ روزمرہ خریداری پر عملا 25 فیصد تک جنرل سیلز ٹیکس، سڑک پر سفر کریں تو ہائی ویز اور موٹر ویز پر بھاری ٹول ٹیکس، ٹیلیفون وانٹرنیٹ پر ایڈوانس ٹیکس تک عائد ہے جو ہر فرد نے لازما ادا کرنا ہوتا ہے۔ معیشت کی رپورٹنگ سے وابستہ صحافی اور ٹیلی ویژن میزبان شہباز رانا کے مطابق ان بھاری ٹیکسوں کا مقصد ترقیاتی و دیگر اخراجات کے لیے وسائل مہیا کرنا ہوتا ہے۔ ‘ایسے میں بھاری بھرکم ٹیکس کی کوئی جسٹیفیکیشن نہیں بنتی۔’