پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ کمی، فروری میں صرف 1.5 فیصد تک پہنچ گئی

پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں مسلسل کمی دیکھنے کو ملی ہے، جس کے نتیجے میں فروری 2025 میں پاکستان کی صارف قیمت اشاریہ (CPI) مہنگائی کی شرح 1.5 فیصد تک پہنچ گئی، جو کہ گزشتہ نو سالوں میں سب سے کم سطح ہے۔ اس کمی نے ماہرین معیشت اور عوام دونوں کو چونکا دیا ہے، کیونکہ یہ اعداد و شمار کسی بھی معاشی بحران سے نکلنے کی جانب ایک مثبت اشارہ ہیں۔ پاکستانی معیشت کے اس زوال پذیر دور میں یہ کمی ایک امید کی کرن کے طور پر ابھری ہے، جس کا اثر عوام کی روزمرہ زندگی پر پڑ رہا ہے۔ فروری کے مہینے میں CPI کی شرح میں 1.51 فیصد کمی آئی ہے جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 23.1 فیصد کم ہے۔ اس کمی کو ماہرین “ڈس انفلیشن” (Disinflation) کا نام دے رہے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ مہنگائی کی شرح تو کم ہو رہی ہے مگر قیمتیں مکمل طور پر گر نہیں رہی۔ کراچی کی معروف بروکریج فرم، ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے اس حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا کہ “پاکستان کا CPI فروری 2025 میں 1.5 فیصد کی سطح پر پہنچ گیا ہے، جو پچھلے 113 مہینوں میں سب سے کم ہے۔” یہ بھی پڑھیں: 190 ملین پاؤنڈ کا ڈاکہ مارنے والے اپنی سزا بھگت رہے ہیں، عطا تارڑ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مہنگائی کی موجودہ سطح مارکیٹ کی توقعات سے کم ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ موجودہ مالی سال کے آٹھ مہینوں میں مہنگائی کی اوسط شرح 5.85 فیصد رہی، جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں یہ 27.96 فیصد تھی۔ پاکستان بیورو آف شماریات (PBS) کے مطابق، فروری 2025 میں شہری اور دیہی علاقوں میں مختلف قیمتوں کی شرح میں فرق آیا ہے۔ شہری علاقوں میں خوراک کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملا، جن میں دال مونگ (32.65 فیصد)، بیسن (28.97 فیصد)، دال چنا (25.40 فیصد)، آلو (22.88 فیصد)، تازہ پھل (21.55 فیصد) اور مکھن (21.12 فیصد) شامل ہیں۔ دیہی علاقوں میں بھی قیمتوں میں اضافہ ہوا، خاص طور پر بیسن (33.86 فیصد)، دال مونگ (32.16 فیصد) اور دال چنا (30.68 فیصد) کی قیمتوں میں بڑھوتری آئی۔ دیہی علاقوں میں غیر خوراکی اشیاء جیسے کہ موٹر گاڑیوں کے ٹیکس (126.61 فیصد)، تعلیم (24.49 فیصد) اور دندان سازی کی خدمات (19.53 فیصد) کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا۔ ضرور پڑھیں: سیف سٹی کا اقدام: شہری اپنی شکایات کی پیش رفت باآسانی ٹریک کریں، مگر کیسے مہینے کے اعتبار سے، فروری 2025 میں شہری علاقوں میں تازہ پھلوں کی قیمتوں میں 14.99 فیصد، چینی کی قیمت میں 9.35 فیصد، مکھن کی قیمت میں 5.61 فیصد اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ دیہی علاقوں میں بھی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا، خاص طور پر تازہ پھل (13.97 فیصد) اور چینی (9.73 فیصد) کی قیمتوں میں۔ وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے وزیراعظم شہباز شریف کا بیان جاری کیا جس میں انہوں نے کہا کہ “وزیراعظم نے مہنگائی میں ریکارڈ کمی کو خوش آئند قرار دیا ہے اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ اس کے اثرات عوام تک پہنچنے لگے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے ہدایات دی گئی ہیں کہ مہنگائی میں مزید کمی لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ اگرچہ مہنگائی کی شرح میں کمی ایک مثبت قدم ہے، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت کی مکمل بحالی کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستانی عوام کی خریداری کی طاقت میں کمی، زرعی شعبے کی مشکلات اور عالمی اقتصادی بحران کے اثرات ابھی تک موجود ہیں۔ تاہم، موجودہ حکومتی اقدامات اور مہنگائی میں کمی، پاکستانی معیشت کے لیے ایک اہم اشارہ ہیں کہ بہتر دن آ سکتے ہیں۔ پاکستان میں فروری 2025 میں مہنگائی کی شرح میں ہونے والی کمی نے معاشی ماہرین اور عوام کو خوشی کی لہر دی ہے۔ اس کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات کچھ حد تک کامیاب ہو رہے ہیں، لیکن معیشت کی مکمل بحالی کے لیے ابھی اور کوششیں درکار ہوں گی۔ عوام کی امیدیں اسی بات پر جمی ہوئی ہیں کہ وزیراعظم کی ہدایات اور حکومت کے اقدامات ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنائیں گے اور مہنگائی کو مزید قابو میں لایا جائے گا۔ مزید پڑھیں: گنڈاپور کی ترجیحات میں صوبے کے غریب عوام نہیں اڈیالہ کا قیدی ہے، عظمیٰ بخاری

آئی ایم ایف کا وفد کل پاکستان پہنچے گا، 7 ارب ڈالر پر مذاکرات کا آغاز

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا 9 رکنی وفد کل 3 مارچ کو پاکستان پہنچ رہا ہے، جس کا مقصد 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے تحت اگلی قسط یعنی ایک ارب ڈالر پر مذاکرات کرنا ہے۔ یہ مذاکرات 14 مارچ تک جاری رہیں گے، اور اس دوران پاکستان کے معاشی مستقبل کے اہم فیصلے ہوں گے۔ آئی ایم ایف کے مشن کی قیادت ‘نیتھن پورٹر’ کریں گے، جو پاکستان میں اپنی ٹیم کے ہمراہ اقتصادی جائزہ لینے آئیں گے۔ اس جائزے کا مقصد یہ جانچنا ہے کہ آیا پاکستان نے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی شرائط پر عمل کیا ہے یا نہیں۔ اس مشن کے دوران، تکنیکی اور پالیسی سطح پر دو مراحل میں مذاکرات ہوں گے۔ ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق ان مذاکرات کے دوران پاکستان کو آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ کے بارے میں تجاویز بھی ملیں گی۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام اور کلائمٹ فنانسنگ پر مذاکرات کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، آئی ایم ایف وفد مختلف حکومتی اداروں کے ساتھ ملاقاتیں کرے گا، جن میں وزارت خزانہ، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، اور پاور ڈویژن شامل ہیں۔ پاکستان نے اس اہم موقع پر اپنی پہلی ششماہی رپورٹ بھی آئی ایم ایف کے حوالے کرنے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کی معیشت کی موجودہ حالت، قرضوں کی ادائیگی، اور مالیاتی استحکام پر تفصیل سے بات کی جائے گی۔ آئی ایم ایف وفد پاور ڈویژن اور نیپرا کے حکام سے بھی ملاقاتیں کرے گا تاکہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے بات چیت کی جا سکے۔ نقد رقم کی کمی کی صورت میں پاکستان کو 1 ارب ڈالر کی اگلی قسط ملنے کی توقع ہے، جو ملک کی معاشی صورتحال کے لئے ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تقریبا ایک ارب ڈالر کی کلائمٹ فنانسنگ کا بھی فیصلہ متوقع ہے جس سے پاکستان کے ماحولیاتی اقدامات کو فروغ ملے گا۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے اس وقت قرض پروگرام کے تحت ہر شرط پر عمل درآمد کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے، اور آئی ایم ایف کی حمایت سے ملک کی معیشت کی بحالی کے امکانات روشن نظر آتے ہیں۔ تاہم، اس تمام عمل میں حکومت کی مالی پالیسیوں کی کامیابی اور آئی ایم ایف کے مطالبات پر عملدرآمد ہی اس مذاکرات کے کامیاب ہونے کا تعین کرے گا۔ یہ مذاکرات نہ صرف پاکستان کی معیشت کے مستقبل کے لیے اہم ہیں بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کریں گے۔ مزید پڑھیں: قومی اسمبلی نے 220 غیر ضروری پوسٹیں ختم کر کے 1 ارب روپے بچا لیے

زکوٰۃ کی کٹوتی کے لیے 3 مارچ کو تمام بینکس بند رہیں گے، کتنی کٹوتی ہو گی؟

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ کل 3 مارچ بروز پیر کو عوامی خدمات کے لیے تمام بینکس بند رہیں گے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے، جس کے مطابق 3 مارچ کو اسٹیٹ بینک و دیگر کمرشل بینکوں میں زکوٰۃ کٹوتی کی وجہ سے پبلک ڈیلنگ بند رہے گی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق تمام بینکوں کا عملہ زکوٰة کٹوتی کے سلسلے میں اپنی ڈیوٹیز پر حاضر ہوگا۔ خیال رہے کہ ایڈمنسٹریٹر جنرل زکوٰۃ نے سال 1445-46 ہجری کے لیے زکوٰۃ کا نصاب مقرر کر دیا ہے، جس کے مطابق بینک اکاؤنٹ میں مقررہ رقم کی موجودگی پر زکوٰۃ کی کٹوتی کی جائے گی۔ نجی نشریاتی ادارے اے آر وائی  کے مطابق ایڈمنسٹریٹر جنرل زکوٰۃ نے سال 1445-46 ہجری کے لیے زکوٰۃ کا نصاب مقرر کر دیا ہے جو کہ 179,689 روپے  ہوگا۔ زکوٰۃ و عشر آرڈیننس 1980 کے مطابق اگر کسی بینک اکاؤنٹ میں یکم رمضان المبارک 1446 ہجری کو اس سے کم رقم موجود ہو تو اس سے زکوٰۃ کی رقم منہا نہیں کی جائے گی۔ مزید پڑھیں: اس بار رمضان واقعی مختلف ہو! نجی چینل کے مطابق بچت اکاؤنٹ، نفع ونقصان اور اس طرح کے اکاؤنٹس پر زکوٰۃ لاگو ہوگی، کرنٹ اکاؤنٹس سے زکوٰۃ نہیں کاٹی جائے گی۔ یاد رہے کہ رمضان المبارک کا پہلا دن ‘کٹوتی کی تاریخ’ کے طور پر نوٹیفائی کیا گیاتھا، مگر اب دوسرے روزے کو زکوٰۃ کی کٹوتی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا ہے۔ زکوٰۃ کی وصولی اور انتظامی ایجنسیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ زکوٰۃ کی کٹوتی کے بعد فوری طور پر فارم سی زیڈ 08 (A&B) کی کاپی فراہم کریں اور زکوٰۃ کی جمع شدہ رقم کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں موجود مرکزی زکوٰۃ اکاؤنٹ نمبر سی زیڈ 08 میں جمع کرائیں۔ ایڈمنسٹریٹر جنرل زکوٰۃ، زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کے نظام کی نگرانی کرتے ہیں تاکہ یہ رقم مستحق اور ضرورت مند افراد تک پہنچ سکے۔

امریکا کی جانب سے کینیڈا اور میکسیکو پر متوقع ٹیرفز، 4 مارچ کو ہو گا اہم اعلان

امریکی وزیرِ تجارت ‘ہیوڈ لوٹک’ نے فاکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں تصدیق کی ہے کہ امریکا کی جانب سے کینیڈا اور میکسیکو پر ٹیرفز کا نفاذ 4 مارچ سے متوقع ہے۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ ان ٹیرفز کی حتمی شرح کا تعین خود امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔ ٹرمپ نے اس سے پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ دونوں ممالک پر 25 فیصد ٹیرف عائد کریں گے مگر لوٹک کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ابھی کچھ بھی حتمی نہیں، اور صدر ٹرمپ اس پر مزید سوچ بچار کر رہے ہیں۔ لوٹک نے کہا، “یہ ایک تبدیل ہوتی صورتحال ہے، صدر ٹرمپ ابھی اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ میکسیکو اور کینیڈا کے ساتھ معاملات کس انداز میں طے کیے جائیں۔” یہ ٹیرفز اس بات کا اشارہ ہیں کہ امریکا اپنے تجارتی تعلقات میں سختی لانے والا ہے، اور ان ممالک سے تجارت میں تبدیلیاں متوقع ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، امریکا چین پر بھی 10 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، اگر چین امریکا کی سرحدوں کے ذریعے فینٹینائل کی اسمگلنگ کو روکنے میں کامیاب نہ ہوا تو۔ امریکی صدر کی اس اہم پالیسی سے عالمی تجارتی ماحول میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ مزید پڑھیں: روس کا شام میں فوجی اڈوں کو برقرار رکھنے کے لیے جوئے کا کھیل

یوٹیلیٹی سٹورز کے لیے رمضان ریلیف پیکیج کا آغاز

رمضان المبارک کی آمد پر وزیرعظم شہباز شریف کے احکامات کی روشنی میں یوٹیلٹی سٹورز پر خصوصی ریلیف پیکج کا آغاز کر دیا گیا ہے، 800 سے زائد برانڈڈ اشیاء پر 15 فیصد تک رعایت دی جائے گی۔ رپورٹ کے مطابق وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن مرکز میں یوٹیلیٹی سٹور پر رمضان پیکج کا آغاز کیا۔ شہباز شریف کی ہدایت کے مطابق یوٹیلیٹی سٹورز پر رمضان ریلیف پیکیج عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے علیحدہ سکیم ہے۔ جس کے تحت گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر سمیت ملک بھر کے لیے 20 ارب روپے کے ریلیف کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے حکام کو سٹورز پر اشیاء کی مقدار اور معیار کو یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی۔ سستی اشیاء کی فراہمی کے لیے ملک بھر میں قائم یوٹیلٹی سٹورز کے کھلے رہنے کے اوقات بھی بڑھا کر صبح نو بجے سے رات دس بجے تک کر دیئے گئے ہیں۔

بٹ کوائن کی قدر میں بڑی کمی، 78 ہزار ڈالر تک پہنچ گیا

ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکہ کو کرپٹو کیپٹل اور بٹ کوائن سپر پاور بنائیں گے۔"

جمعہ کے روز بٹ کوائن کی قدر میں ایک موقع پر 7.2 فیصد تک کمی آئی، اور یہ 78,226 ڈالر تک گر گیا، جو کہ جنوری میں ریکارڈ کیے گئے 109,241 ڈالر کے آل ٹائم ہائی سے 28 فیصد کی گراوٹ ظاہر کرتا ہے۔   تاہم، بعد میں کچھ استحکام آیا اور بٹ کوائن دن کے اختتام پر معمولی تبدیلی کے ساتھ ٹریڈ کر رہا تھا۔   فروری کے دوران بٹ کوائن میں 18 فیصد کمی دیکھی گئی، جو کہ جون 2022 کے بعد اس کی سب سے بڑی ماہانہ گراوٹ ہے۔   کرپٹو فنڈ “اسپِلٹ کیپٹل” کے شریک بانی زہیر ابتکار نے کہا کہ،  ‘بڑے سرمایہ کاروں نے مارکیٹ سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا، جس کی وجہ سے اس ہفتے غیر معمولی فروخت دیکھی گئی۔’ ٹرمپ کی نئی تجارتی پالیسی: کرپٹو مارکیٹ پر اثرات صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تجارتی اقدامات نے بھی عالمی منڈیوں کو متاثر کیا ہے، جن میں کرپٹو کرنسیز سرفہرست ہیںٹرمپ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ: کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25 فیصد نئے ٹیرف عائد کیے جائیں گے، جو 4 مارچ سے نافذ العمل ہوں گے۔   چین سے درآمدات پر مزید 10 فیصد اضافی ڈیوٹی لگائی جائے گی، جس کے بعد بیجنگ نے “مکمل جوابی اقدامات” کی دھمکی دی ہے۔ بٹ کوائن کی گراوٹ نے ان سرمایہ کاروں کے لیے حیرانی کی لہر دوڑا دی ہے، جنہوں نے ٹرمپ کی کرپٹو-فرینڈلی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے کرپٹو میں بڑی سرمایہ کاری کی تھی۔   بیس جنوری کو ٹرمپ کی حلف برداری کے دن بٹ کوائن 109,241 ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچا، مگر اب ٹرمپ کی جارحانہ تجارتی پالیسیوں نے کرپٹو مارکیٹ کو شدید دباؤ میں ڈال دیا ہے۔   بٹ کوائن مزید کتنا گر سکتا ہے؟ کرپٹو پلیٹ فارم “یو ہوڈلر” کے چیف آف مارکیٹس، روسلان لینکھا کے مطابق، بٹ کوائن 70,000 ڈالر کے قریب تکنیکی سپورٹ پر آ سکتا ہے، مگر اگر اسٹاک مارکیٹ میں مزید منفی رجحان دیکھا گیا، تو اس سے بھی نیچے جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ: “اگر امریکی اسٹاک مارکیٹ میں مزید مندی جاری رہی، تو بٹ کوائن پر بھی دباؤ برقرار رہے گا۔” ٹرمپ نے کرپٹو کے حامی افراد کو اہم حکومتی عہدوں پر تعینات کیا ہے۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے حالیہ ہفتوں میں کئی کرپٹو کمپنیوں کی تحقیقات بند کر دی ہیں۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکہ کو کرپٹو کیپٹل اور بٹ کوائن سپر پاور بنائیں گے۔”   کیا بٹ کوائن پھر اوپر جا سکتا ہے؟ بٹ کوائن پھر اوپر جا سکتا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ تکنیکی عوامل اور سرمایہ کاروں کے رویے کریں گے۔ اگر عالمی معیشت میں مزید عدم استحکام آیا، تو کرپٹو کرنسیوں کی گراوٹ مزید شدید ہو سکتی ہے۔ تاہم، اگر سرمایہ کاروں نے ڈِپ بائنگ (Dip Buying) کا موقع دیکھا، تو بٹ کوائن مستحکم ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں اور مارکیٹ کے ردِعمل پر سب کی نظریں جمی ہیں۔ اگلے چند ہفتے یہ طے کریں گے کہ بٹ کوائن کی مندی کا سفر کہاں رکتا ہے، اور کیا ٹرمپ اس بحران کو کرپٹو کے لیے مثبت سمت میں موڑ سکتے ہیں؟

تیل کی قیمتوں میں کمی، پیٹرول کتنا سستا ہوا؟

وفاقی حکومت نے آئندہ 15 روز کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کر دیا ہے، پیٹرول کی قیمت میں 50 پیسے فی لیٹر کمی کی گئی ہے، جس کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 255 روپے 63 پیسے فی لیٹر پر پہنچ گئی ہے۔ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 5 روپے 31 پیسے کی کمی کی گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ کے جاری کردہ نوٹیکفیکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 50 پیسے فی لیٹر کمی اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 4 روپے فی لیٹر کمی کی گئی ہے، جس کے بعد ہائی اسپیڈ ڈیزل کی نئی قیمت 258 روپے 64 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔  لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 2 روپے 47 پیسے فی لیٹر کمی کی گئی ہے، جس کے بعد لائٹ ڈیزل آئل کی نئی قیمت 153 روپے 34 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ مزید پڑھیں: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی، وزارتِ خزانہ کا نوٹیفیکیشن جاری مٹی کے تیل کی قیمت میں 3 روپے 53 پیسے فی لیٹر کمی کر دی گئی ہے، جس کے بعد مٹی کے تیل کی نئی قیمت 168 روپے 12 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات نے مارچ 2025 کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اعلان کر دیا۔ متحدہ عرب امارات کی فیول کمیٹی نے مارچ 2025 کے مہینے کے لیے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا اعلان کیا ہے، جس کے بعد سپر 98 پیٹرول کی قیمت 2.73 درہم فی لیٹر ہوگی جو فروری میں 2.74 درہم فی لیٹر تھی۔ اسپیشل 95 کی قیمت 2.61 فی لیٹر ہو گی جو پچھلے مہینے 2.63 درہم فی لیٹر تھی۔ ای پلس زمرے کا پٹرول 2.54 درہم فی لیٹر میں دستیاب ہوگا جو فروری میں 2.55 درہم فی لیٹر تھا۔ یہ بھی پڑھیں: قرضوں کے بوجھ تلے دبی بے حال معیشت، متبادل کیا ہے؟ مزید یہ کہ ڈیزل کی قیمت اب 2.77 درہم فی لیٹر ہوگی جو پچھلے مہینے 2.82 درہم فی لیٹر تھی۔ یاد رہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اطلاق آج رات 12 بجے سے ہوگا۔

ترسیلات زر میں 25.2 فیصد اضافہ، یہ کیسے ممکن ہوا؟

وزارت خزانہ کی طرف سے ماہانہ اقتصادی آؤٹ لک رپورٹ پیش کی گئی ہے جس میں پاکستان نے رواں مالی سال کے پہلے سات مہینوں کے دوران ترسیلات زر، برآمدات اور درآمدات میں اضافہ ریکارڈ کیا ہے، جولائی سے جنوری تک ترسیلات زر میں 25.2 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ برآمدات میں 9.7 فیصد اور درآمدات میں 16.8 فیصد اضافہ ہوا۔ نجی نشریاتی ادارہ ایکسپریس نیوز کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 11ارب 20 کروڑ  ڈالر تک پہنچ گئے جبکہ روپیہ مستحکم رہا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ٹیکس وصولی میں پہلے چھ ماہ میں 26.2 فیصد اضافہ ہوا، نان ٹیکس ریونیو میں 82 فیصد اضافہ ہوا۔ اسی مدت کے دوران مالیاتی خسارہ 36.1 فیصد کم ہوا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سات ماہ کے دوران افراط زر کی شرح 28.7 فیصد سے کم ہوکر 6.5 فیصد ہوگئی، جبکہ جنوری میں 63 ہزار سے زائد پاکستانی روزگار کے لیے بیرون ملک گے۔ مزید برآں، پاکستان کے آئی ٹی برآمد کنندگان آئندہ چند سالوں میں قطر کو آئی ٹی اور آئی ٹی سے چلنے والی خدمات کی برآمدات کو 25 ملین ڈالر تک بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن کی وزارت ، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے ساتھ مل کر، آئی ٹی برآمد کنندگان  جدید مصنوعات اور خدمات کے ساتھ روایتی اور ابھرتی ہوئی دونوں مارکیٹوں میں جارحانہ اسٹریٹجک توسیعی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ اس اقدام کے ایک حصے کے طور پر، 30 سے ​​زائد مندوبین کے ساتھ 10 آئی ٹی کمپنیوں کا ایک وفد ویب سمٹ قطر 2025 میں شرکت کر رہا ہے، جو دنیا کی معروف ٹیکنالوجی کانفرنسوں میں سے ایک ہے۔ وفد ایک وقف پاکستان پویلین میں پاکستان کے متحرک آئی ٹی اور ٹیک انوویشن لینڈ سکیپ کی نمائش کر رہا ہے۔ پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے سینئر وائس چیئرمین عمیر نظام نے کہا کہ آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن کی وزارت ، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تعاون سے پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری کی پیش رفت کی وجہ سے قطر کی اہم مارکیٹ اب پاکستانی آئی ٹی کمپنیوں کے لیے بامعنی انداز میں کھل رہی ہے۔

پاکستان اور بنگلہ دیش میں 54 سال بعد سرکاری سطح پر براہ راست تجارت کا آغاز، 50 ہزار ٹن پاکستانی چاول درآمد

پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کئی دہائیوں بعد براہ راست حکومت سے حکومت تک تجارتی تعلقات کا آغاز ہو چکا ہے اور اس کا پہلا قدم بنگلہ دیش میں 50,000 ٹن چاول کی درآمد سے ہوا ہے۔ یہ اہم پیش رفت 2024 کے آخر میں ان دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے نتیجے میں ہوئی ہے۔ ماضی میں دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی رہی ہے مگر 2024 کے اگست میں بنگلہ دیش کی طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں ایک نیا موڑ آیا۔ شیخ حسینہ کے انڈیا کے ساتھ مضبوط روابط اور ان کی حکومت کے خلاف بغاوت کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش نے تعلقات میں بہتری کی راہیں تلاش کیں۔ حسینہ کے انڈیا فرار ہونے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک واضح سرد مہری کا آغاز ہوا جس سے پاکستان کو بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے کا موقع ملا۔ نومبر 2024 میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان براہ راست نجی تجارت کا آغاز ہوا جب کراچی سے ایک مال بردار جہاز براہ راست چٹاگانگ روانہ ہوا۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں بعد پہلا براہ راست تجارتی جہاز تھا، جس نے نیا تاریخ رقم کیا۔ اس کے بعد، حکومتوں کے درمیان چاول کی درآمد کے لیے ایک معاہدہ بھی طے پایا، جس کے تحت 50,000 ٹن چاول بنگلہ دیش کی جانب سے پاکستان سے خریدا گیا۔ زیاالدین احمد بنگلہ دیش کے وزارت خوراک کے ایک سینئر افسر نے اس معاہدے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ “یہ پاکستان سے چاول کی درآمد کا پہلا حکومت سے حکومت تک کا معاہدہ ہے اور یہ ہمارے لیے ایک نیا راستہ فراہم کرتا ہے جو ہمیں نہ صرف سپلائی کے ذرائع کی متنوعیت فراہم کرتا ہے بلکہ قیمتوں کے حوالے سے بھی ایک مسابقتی فائدہ فراہم کرتا ہے۔” یہ بھی پڑھیں: ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کے لیے امریکا کی دھمکی، عالمی تیل کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ بڑھ گیا یہ معاہدہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ بنگلہ دیش ایک نچلے علاقے پر واقع ہے جو عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سب سے زیادہ شکار ہے۔ بنگلہ دیش جو کہ دنیا کے سب سے زیادہ سیلابی اور طوفانی علاقوں میں سے ایک ہے، یہ ملک اپنی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے عالمی سطح پر مختلف ممالک سے چاول کی درآمد پر انحصار کرتا ہے۔ پاکستانی چاول کی درآمد کا یہ عمل بنگلہ دیش کے لیے نیا نہیں ہے کیونکہ نجی شعبہ پہلے ہی کئی سالوں سے پاکستان سے چاول خرید رہا تھا، مگر اس تجارت کو پہلے دیگر ممالک جیسے سری لنکا، سنگاپور اور ملائیشیا میں منتقل کرنا پڑتا تھا۔ اب دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات میں بہتری آ چکی ہے، اور یہ معاہدہ دونوں ممالک کے لیے ایک نیا اور مستحکم تجارتی راہ فراہم کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات مستحکم ہوں گے بلکہ یہ اس بات کا غماز بھی ہے کہ عالمی سطح پر تجارتی تعلقات میں تبدیلیاں اور نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اس اہم پیش رفت کا آغاز ایک نئے تجارتی دور کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے، جو دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرے گا۔ مزید پڑھیں: شہباز شریف آذربائیجان کے بعد ازبکستان کے دورے پر، مقاصد کیا ہیں؟

ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کے لیے امریکا کی دھمکی، عالمی تیل کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ بڑھ گیا

سابق امریکی وزیر خارجہ ‘مائیک پومپیو’ نے پیر کو ایران کے خلاف نئے اقدامات کا اعلان کیا جس نے عالمی سطح پر تیل کی منڈی میں نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ امریکا نے ایران سے تیل خریدنے والے ملکوں کو دی جانے والی استثنی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پانچ ملکوں نے مئی تک ایران سے تیل کی خریداری بند نہ کی تو ان پر امریکی اقتصادی پابندیاں عائد ہو جائیں گی۔ ان پانچ ملکوں میں چین، انڈیا، جاپان، جنوبی کوریا اور ترکی شامل ہیں اور اگر انہوں نے امریکی فیصلہ تسلیم نہ کیا تو عالمی تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ یہ فیصلہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد آیا ہے اور اس کا اثر نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ عالمی سطح پر بھی محسوس کیا جائے گا۔ پومپیو کا کہنا تھا کہ امریکا کا مقصد ایران کو اُس پیسے سے محروم کرنا ہے جسے وہ مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ ان کے مطابق ایران کی حکومت نے گزشتہ چار دہائیوں میں تیل کی دولت کا استعمال دہشت گردی کی فنڈنگ اور عالمی امن کے لیے خطرہ بننے کے لیے کیا ہے۔ ضرور پڑھیں:اسرائیل کا رمضان میں فلسطینیوں کی مسجد اقصیٰ میں داخلے پر نئی پابندیاں لگانے کا فیصلہ یہ معاملہ ایک سال قبل اُس وقت شروع ہوا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر نکلنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد امریکا نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں اور ایران کے تیل کی برآمدات کو کم کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، امریکا نے جب ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کو عارضی طور پر استثنیٰ دیا تو ان ممالک میں چین، بھارت، جاپان، جنوبی کوریا، ترکی، اٹلی، یونان اور تائیوان شامل تھے۔ ان میں سے تین ممالک اٹلی، یونان اور تائیوان نے متبادل ذرائع تلاش کر لیے تھے لیکن چین اور امریکا کے اتحادی ملکوں انڈیا، جاپان، جنوبی کوریا اور ترکی نے ایران سے تیل خریدنا جاری رکھا۔ امریکا نے حالیہ فیصلے کے ذریعے ان ممالک پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ 2 مئی تک ایران سے تیل خریدنا بند کر دیں، ورنہ ان پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد ہوں گی۔ پومپیو کے اعلان کے بعد عالمی تیل کی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ ایران کی تیل کی برآمدات میں روزانہ 13 لاکھ بیرل کا حصہ ہے، اور اس کی برآمدات کی مقدار اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایرانی تیل کی ترسیل میں دشواری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایرانی تیل بردار جہاز اپنے ٹرانسپونڈر بند کر دیتے ہیں جس سے یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ تیل کہاں سے آ رہا ہے اور کہاں جا رہا ہے۔ امریکا نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو ایران کی تیل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پیداوار بڑھانے کی درخواست کی ہے لیکن ماہرین کے مطابق یہ دونوں ممالک اس کمی کو مکمل طور پر پورا نہیں کر سکتے۔ عالمی سطح پر تیل کی فراہمی میں خلل پڑنے کی صورت میں قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے جو کہ عالمی معیشت پر بھی اثرانداز ہوگا۔ یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ انتظامیہ کا USAID کے 3,600 ملازمین کی برطرفی کا فیصلہ ایران کے ردعمل کے امکانات بھی عالمی سطح پر تشویش کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایران نے کئی بار آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی ہے جس سے نہ صرف ایران بلکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی تیل کی برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔ آبنائے ہرمز ایک انتہائی اہم تجارتی راستہ ہے، جس کے ذریعے عالمی تیل کی ایک بڑی مقدار دنیا کے مختلف حصوں تک پہنچتی ہے۔ ایران کی طرف سے اس آبی گزرگاہ کو بند کرنے کی دھمکی اس لیے زیادہ سنجیدہ سمجھی جا رہی ہے کہ اس راستے کا کنٹرول ایران کے ہاتھ میں ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے لیے آبنائے ہرمز کو بند کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ایران کی اپنی برآمدات بھی اس راستے سے گزرتی ہیں اور اس کو بند کرنے سے ایران خود اپنے تجارتی راستوں کو محدود کر لے گا۔ اس کے علاوہ ایران کی اس دھمکی سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ایران پر حملہ کرنے کا جواز مل سکتا ہے جس سے ایران کو سنگین نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکا کی طرف سے عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیاں ایرانی معیشت پر سنگین اثرات ڈال رہی ہیں۔ ایران کی معیشت گزشتہ برس 6 فیصد سکڑنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا اور اس کے شہریوں کو ضروریات زندگی کے لیے 47 فیصد زیادہ خرچ کرنا پڑ رہا ہے۔ ایرانی عوام افراط زر اور بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں جو کہ ان کی روزمرہ زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔ امریکا کا ایران پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ نہ صرف مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھا رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کا بھی باعث بن رہا ہے۔ ایران کی معیشت کی حالت اور عالمی منڈی پر اثرات، خاص طور پر تیل کی فراہمی میں خلل کے امکانات، ایک اہم چیلنج کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایران کی ممکنہ کارروائیاں اور امریکی ردعمل، عالمی تعلقات میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایران اور اس کے اتحادی کیسے اس بحران سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اور عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کہاں تک پہنچتی ہیں۔ مزید پڑھیں: انڈیا اور برطانیہ تجارتی مذاکرات: دونوں ممالک کا اگلی دہائی میں دوطرفہ تجارت کو دوگنا کرنے کا عزم