540 ملین روپے کی خرد برد، اداکارہ نادیہ حسین مشکل میں پھنس گئیں

Actress nadia khan

بینک الفلاح سیکیورٹیز میں 540 ملین روپے کی خرد برد معاملے میں بنا تصدیق کیے ایف آئی اے آفیسر پر رشوت کا الزام لگانا اداکارہ نادیہ حسین کو مہنگا پڑ گیا۔ ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل نے بینک الفلاح سیکیورٹیز میں 540 ملین روپے کی مبینہ خرد برد کے معاملے پر کارروائی کرتے ہوئے سابق سی ای او عاطف محمد خان کو گرفتار کیا، ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم عاطف محمد خان نے بطور سی ای او اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور مالیاتی دھوکہ دہی میں ملوث پایا گیا۔ ملزم کو 8 مارچ 2025 کو کراچی سے گرفتار کیا گیا اور اس کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔ ملزم کی گرفتاری کے بعد اس کی اہلیہ اداکارہ نادیہ حسین کو ایک نامعلوم جعلساز کی جانب سے واٹس ایپ پر کال موصول ہوئی، جس میں ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر کی تصویر بطور ڈی پی استعمال کی گئی۔ جعلساز نے مبینہ طور پر رشوت طلب کی۔ نادیہ حسین نے فوری طور پر ایف آئی اے کراچی سے رابطہ کیا، جس پر انہیں آگاہ کیا گیا کہ یہ ایک جعلی کال ہے اور انہیں سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر میں باضابطہ شکایت درج کروانے کی ہدایت کی گئی۔ تاہم، نادیہ حسین نے شکایت درج کروانے کے بجائے سوشل میڈیا پر ایف آئی اے کے خلاف الزامات لگانا شروع کر دیے۔ ایف آئی اے حکام نے نادیہ حسین کے سوشل میڈیا پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیا اور واضح کیا کہ بغیر ثبوت کسی ادارے پر الزامات لگانا قانونی جرم ہے۔ سائبر کرائم ونگ کراچی نے نادیہ حسین کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ترجمان ایف آئی اے نے شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ کسی بھی مشکوک کال یا دھوکہ دہی کی کوشش کی صورت میں فوری طور پر متعلقہ ادارے سے رجوع کریں اور سوشل میڈیا پر بغیر تصدیق کے الزامات لگانے سے گریز کریں، کیونکہ ایسا کرنا ملکی قوانین کے تحت سنگین جرم ہے۔ دوسری جانب جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے نادیہ حسین نے کہا کہ ایف آئی اے کی ٹیم آج صبح آئی تھی، جس نے انہیں موصول ہونے والی فون کال اور ان کے بیان سے متعلق معلومات لیں۔ نادیہ حسین نے کہا کہ انہوں نے ایف آئی اے حکام کو ساری معلومات فراہم کیں، سوشل میڈیا پوسٹ کی ڈسکرپشن پر واضح کیا تھا کہ یہ فراڈکال ہے۔ اداکارہ کا کہنا تھا کہ پوسٹ کرنے سے قبل فراڈ کال سے متعلق ایف آئی اے کو آگاہ بھی کیا تھا۔ نادیہ حسین نے کہا کہ انہیں گرفتار نہیں کیا گیا اور اگلے ہفتے بیان ریکارڈ کرانے کے لیے بلایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اداکارہ نادیہ حسین نے سوشل میڈيا پر ایک آڈیو میسج شيئر کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ان سے ایف آئی اے حکام نے شوہر کے کیس میں 50 لاکھ روپے رشوت طلب کی ہے۔

کولڈ پلے کا بھارت میں عالمی ریکارڈ: 1 کروڑ 3 لاکھ افراد نے کنسرٹس میں شرکت کر کے تاریخ رقم کر دی

Cold play

دنیا بھر میں پاپ میوزک کے مداحوں کے دلوں پر راج کرنے والا برطانوی راک بینڈ ‘کولڈ پلے’ نے بھارت میں اپنے شاندار کنسرٹس کے ذریعے تاریخ رقم کر دی ہے۔ بینڈ نے اپنے کنسرٹس میں ایک کروڑ تین لاکھ سے زائد شائقین کو اپنی موسیقی کے جادو میں محصور کر لیا جس کے نتیجے میں ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم ہوا۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق کولڈ پلے نے 18 جنوری سے 26 جنوری تک ممبئی اور احمد آباد کے بڑے اسٹیڈیموں میں شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔ ان شوز میں تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار افراد نے ہر شو میں شرکت کی جس نے ٹیلر سوئفٹ کے کنسرٹس کا ریکارڈ توڑ دیا۔ گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق اس سے پہلے یہ اعزاز مارچ 2022 میں کوسٹاریکا کے کنسرٹ کے پاس تھا جہاں سب سے زیادہ افراد نے شرکت کی تھی۔ مگر اب بھارت میں کولڈ پلے کے کنسرٹس نے یہ ریکارڈ بھی اپنے نام کر لیا ہے۔ کولڈ پلے نے اس شاندار کامیابی کے بعد اپنے بھارتی مداحوں کا دل سے شکریہ ادا کیا اور کہا “شکریہ احمد آباد، شکریہ بھارت! ہم ان دو ہفتوں کو کبھی نہیں بھولیں گے, آپ کی محبت اور مہربانی ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہے گی۔” کولڈ پلے نے اپنے کامیاب دورے کا اختتام بھارت میں کیا اور اب اگلا کنسرٹ اپریل میں ہانگ کانگ میں شیڈول ہے۔ اس کے بعد وہ سیئول اور امریکا میں بھی اپنے مداحوں سے ملاقات کریں گے۔ یہ شو نہ صرف کولڈ پلے کی کامیابی کا عکاس ہے بلکہ یہ بھارت میں موسیقی کے شوقین افراد کے لیے ایک ناقابل فراموش لمحہ بھی بن گیا ہے۔

پاکستان انڈیا کرکٹ جنگ، نیٹ فلکس نے ٹریلر جاری کر دیا

Pak vs ind

نیٹ فلکس کی جانب سے کرکٹ اور سینیماکے شائقین کے لیے ” دی گریٹیسٹ رائولری: انڈیا ورسس پاکستان” کے نام سے سیریز لانے کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ سیریز 7 فروری کو نیٹ فلکس پر ریلیز ہوگی۔ نیٹ فلکس نے اپنی ویب سائٹ پر سیریز کا ٹریلر جاری کرتے ہوئے لکھا ۔  “پاکستان اور انڈیا کے درمیان سب سے بڑی جنگ کو کھوجتے ہوئے، یہ ڈاکیومینٹری کرکٹ پیچ کے پیچیدہ ماضی اور غیریقینی حال کی عکاسی کرے گی”۔ ٹریلر میں پاکستان اور انڈیا کے بڑے کھلاڑیوں کو دکھایا گیا ہے جن میں شعیب اختر، رمیز راجہ، وقار یونس، وریندر سہواگ، سارؤ گنگولی، سنیل گواسکر اور شیکر دھون شامل ہیں۔ سیریز کا ٹریلر دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ کی جنگ، تاریخی، ثقافتی اور جذباتی پس منظر کے ساتھ دکھاتا ہے۔ لیجنڈ کرکٹرز ٹریلر میں انڈیا بمقابلہ پاکستان کے میچ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔     View this post on Instagram   A post shared by Netflix India (@netflix_in) ٹریلر میں سارؤ گنگولی کہتے ہیں کہ “کہنے کو تو اسے دوستانہ دورے کا نام دیا جاتا تھا لیکن شعیب اختر 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینک رہا ہے، اس میں دوستی کہاں ہے؟” یہ سیریز گرے میٹر میڈیا کی جانب سے بنائی جائے گی جس میں چاندرادیو، اور سٹیورٹ سوگ ہدایت کاری کریں گے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والے کرکٹ کے مقابلے سنسنی اور دلچسبی سے بھرپور ہوتا ہے۔  شائقین امید کر رہے ہیں کہ یہ سیریز پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی کرکٹ جنگ کو مزید دلچسب بنائے گی اور ہم محظوظ ہو سکیں گے۔

فلمی نغموں سے حمدونعت کا سفر، روحانی سکینت بخشتی شاعری نے مظفر وارثی کو امر کر دیا

آج اُردو ادب اور اسلامی شاعری کے عظیم شاعر، نغمہ نگار اور نعت خواں مظفر وارثی کی چودہویں برسی منائی جارہی ہے۔ 28 جنوری 2011 کو لاہور میں وفات پانے والے مظفر وارثی کا نام صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری کی گونج آج بھی دلوں میں زندہ ہے اور ان کا کلام اردو ادب اور اسلامی شاعری کے خزانے کا ایک انمول حصہ ہے۔ مظفر وارثی 1933 میں بھارت کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ان کا ادبی سفر ابتدا میں فلمی نغمہ نگاری کے ذریعے شروع ہوا، جہاں انہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ تاہم، بہت جلد ان کی طبیعت میں ایک گہری روحانیت اور دینی لگاؤ پیدا ہوا، جس کے باعث انہوں نے نعت و حمد کے میدان میں قدم رکھا۔ ان کی شاعری کا رنگ اور اثر الگ تھا، اور یہی وہ وقت تھا جب مظفر وارثی نے اپنا نام عالمی سطح پر روشن کیا۔ مظفر وارثی کی شاعری نے انہیں ایک خاص مقام دلایا۔ ان کی نعتیں اور حمدیہ اشعار ایمان کی گہرائیوں تک پہنچتے ہیں اور ان کی زبان میں ایک ایسی تاثیر تھی کہ ان کا کلام سنتے ہی دل میں سکون اور محبت کا ایک لہر دوڑ جاتی تھی۔ ان کی ایک مشہور نعت “یہ روشنی جہاں سے آئی ہے” آج بھی لوگوں کے دلوں میں گونج رہی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں حضرت محمد ﷺ سے محبت کی ایک لہر پیدا کی اور ان کی حمد اور نعتوں میں اللہ کی عظمت کو بے مثال انداز میں بیان کیا۔ ان کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے سادگی کے ساتھ گہری روحانیت کو پیش کیا، جو ہر کسی کو اپنی طرف کھینچ لیتی تھی۔ مظفر وارثی کی شاعری کی کامیابیاں اور پذیرائیاں صرف پاکستان تک محدود نہیں رہیں۔ انہوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے عالمی سطح پر بھی شہرت حاصل کی۔ ان کی نعتوں اور حمد کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اور ان کے کلام نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں لاکھوں دلوں کو چھوا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں “پرائیڈ آف پرفارمنس” ایوارڈ سے نوازا، جو ملک کے اعلیٰ ترین ادبی اعزازات میں شمار ہوتا ہے۔ 28 جنوری 2011 کو مظفر وارثی کا انتقال ہو گیا، لیکن ان کی شاعری کا اثر آج بھی زندہ ہے۔ ان کے کلام کی محبت میں کمی نہیں آئی، بلکہ ہر گزرتے سال کے ساتھ ان کی شاعری کی اہمیت اور گہرائی کو مزید سراہا گیا ہے۔ آج بھی مختلف محافل اور محافلِ نعت میں ان کے کلام کو پیش کیا جاتا ہے، اور ان کی آواز کا اثر آج بھی لوگوں کے دلوں میں محسوس ہوتا ہے۔ ان کی شاعری نہ صرف اُردو ادب کا خزانہ ہے بلکہ اسلامی شاعری کے لیے بھی ایک نیا سنگ میل ثابت ہوئی۔ ان کا کلام انسانیت کی خدمت اور محبت کا پیغام ہے، جو کسی بھی زبان یا سرحد سے آزاد ہے۔ آج، مظفر وارثی کی چودہویں برسی کے موقع پر ادبی حلقوں، شاعروں اور علمی تنظیموں نے انہیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔ مختلف شہروں میں ان کی شاعری کی محافل منعقد کی گئیں اور ان کی نعتوں کو سن کر لوگوں نے اپنے دلوں کو سکون بخشا۔ اس دن کی اہمیت اس بات میں بھی ہے کہ یہ ہمیں  یاد دلاتا ہے کہ شاعری صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک زبان ہے جو دلوں کی گہرائیوں میں اثر ڈالتی ہے۔ مظفر وارثی کی چودہویں برسی پر ان کی شاعری اور نعتوں کی اہمیت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ ان کا کلام آج بھی دنیا بھر میں لوگوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے۔ ان کی شاعری نے نہ صرف اردو ادب کو مالا مال کیا بلکہ اسلامی شاعری کے دائرے میں بھی ایک نیا باب رقم کیا۔ مظفر وارثی کی تخلیقات کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی، اور ان کا کلام آنے والی نسلوں کو محبت، عقیدت اور روحانیت کا پیغام دیتا رہے گا۔

سیف علی خان کے 15 ہزار کروڑ داؤ پر لگ گئے

(فائل فوٹو)

معروف بالی وڈ اداکار سیف علی خان اس وقت ایک قانونی تنازعے میں گھِرے ہوئے ہیں جس کی جڑیں پاکستان سے جڑتی ہیں،بالی ووڈ کے اس اسٹار پر چاقو سےحملے کی خبریں تو میڈیا کی سرخیوں میں رہ چکی ہیں لیکن اب ان کی جائیداد اور پاکستان سے تعلق کا تنازعہ زیادہ زور پکڑ چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انڈیا کی حکومت سیف علی خان کی 15 ہزار کروڑ روپے مالیت کی جائیداد ضبط کرنے جا رہی ہے؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی وجہ کیا ہو گی؟ بھوپال کا شاہی خاندان اور پاکستان کا تعلق یہ تمام تنازعہ اس جائیداد کے حوالے سے ہے جو بھوپال کے نواب خاندان کی موروثی ملکیت تھی۔ ہندوستان کی آزادی سے پہلے بھوپال ایک شاہی ریاست تھی اور اس کے نواب حمید اللہ خان کی سب سے بڑی بیٹی عابدہ سلطان 1948 میں پاکستان چلی گئیں۔ اس کے بعد 2015 میں حکومتِ ہند نے اس زمین کو “دشمن کی جائیداد” قرار دے دیا، اس ایک فیصلے نے پورے تنازعے کو جنم دیا، اور سوالات اٹھنے لگے کہ اس جائیداد کا کیا ہوگا؟ پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1965 کی جنگ کے بعد “اینیمی پراپرٹی ایکٹ” منظور کیا گیا تھا جس کے تحت وہ افراد جنہوں نے انڈیا چھوڑ کر پاکستان کا رخ کیا ان کی جائیدادوں اور کاروباروں کا کنٹرول حکومتِ انڈیا نے سنبھال لیا۔ اس قانون کے مطابق پاکستان یا چین کی شہریت اختیار کرنے والے افراد کی جائیداد “دشمن کی جائیداد” قرار پاتی ہے اور ان کا انتظام حکومت کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ دوسری جانب سیف علی خان کی جائیداد میں کئی اہم جائیدادیں شامل ہیں جن میں بھوپال کی موروثی جائیداد “فلیگ سٹاف ہاؤس”، “نور الصباح پیلس”، “دارالسلام”، “حبیبی بنگلہ”، “احمد آباد پیلس”، اور “کوہِ فضا” کی پراپرٹیز شامل ہیں۔ قبل ازیں جب حکومتِ ہند نے 2015 میں ان جائیدادوں کو “دشمن کی جائیداد” قرار دیا تو سیف علی خان کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا ہو گیا۔ ان کی والدہ شرمیلا ٹیگور اور خود سیف علی خان نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس فیصلے کے خلاف قانونی جنگ شروع کر دی۔ سیف علی خان کا اس جائیداد سے تعلق اس وقت بنتا ہے جب ہم عابدہ سلطان کی کہانی پر نظر ڈالیں۔ عابدہ سلطان جو بھوپال کے نواب حمید اللہ خان کی بیٹی تھیں،انہوں نے 1948 میں پاکستان جانے کا فیصلہ کیااور اس فیصلے کے بعد ان کی جائیداد پر حکومت انڈیا نے اپنا قبضہ جمانا شروع کیا۔ 2015 میں جب حکومتِ انڈیا نے ان جائیدادوں کو “دشمن کی جائیداد” قرار دیا، تو یہ بات مزید پیچیدہ ہو گئی کہ آیا سیف علی خان ان جائیدادوں کے قانونی وارث ہیں یا نہیں؟ بی بی سی اردو کے مطابق سیف علی خان اور ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ یہ جائیدادیں دراصل ان کی دادی ساجدہ سلطان کی ہیں اور اس پر ان کا قانونی حق ہے۔ ساجدہ کی شادی پٹودی کے نواب افتخار علی خان سے ہوئی تھی جو انڈیا کے سابق کرکٹ کپتان منصور علی خان پٹودی کے والد تھے اور سیف علی خان کے دادا تھے۔ اس بنیاد پر سیف علی خان کے وکلا کا موقف ہے کہ یہ جائیدادیں “دشمن کی جائیداد” قرار نہیں دی جا سکتیں کیونکہ یہ انڈیا میں واقع ہیں اور اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دسمبر 2024 میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اس تنازعے پر فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ سیف علی خان اور ان کے خاندان کو اینیمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت اپیل دائر کرنی ہو گی۔ اس فیصلے کے بعد یہ سوالات مزید گمبھیر ہو گئے کہ آیا سیف علی خان کی 15 ہزار کروڑ کی جائیداد حکومتِ انڈیا کے قبضے میں چلی جائے گی یا وہ اس قانونی جنگ میں کامیاب ہو پائیں گے۔ اس وقت تمام نظریں اس قانونی جنگ پر مرکوز ہیں اور کوئی بھی یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ سیف علی خان کی جائیداد پر حکومت کا قبضہ ایک پیچیدہ قانونی مسئلہ بن چکا ہے جس میں ان کے خاندان کا حق تسلیم کرنے کی جدوجہد جاری ہے۔ یہ تنازعہ صرف قانونی نہیں بلکہ انڈیا اور پاکستان کے سیاسی اور تاریخی تعلقات سے بھی جڑا ہے جس کی قیمت مالی سے بڑھ کر ایک گہرا سیاسی پہلو اختیار کر چکی ہے۔

رجب بٹ کو شیر کے بچے کو غیر قانونی طور پر رکھنے پر سزا

Rajjab butt

معروف ٹک ٹاکر رجب بٹ کو شیر کے بچے کو غیر قانونی طور پر رکھنے کے الزام میں عدالت نے سزا سنادی۔ اس کیس میں جیوڈیشل مجسٹریٹ نے رجب بٹ کو ایک سال کی کمیونٹی سروس کرنے کا حکم دیا، لیکن اس سزا کی نوعیت اور رجب بٹ کا اعتراف جرم اس کیس کو ایک منفرد اور دلچسپ موڑ دیتا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب وائلڈ لائف آفیسر نے رجب بٹ کے خلاف ایک درخواست جمع کروائی جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ رجب بٹ نے شیر کا بچہ اپنے پاس رکھا تھا۔ رجب بٹ نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ جانتے بوجھتے نہیں تھے کہ جنگلی جانوروں کو غیر قانونی طور پر رکھنا جرم ہے۔ رجب بٹ نے عدالت میں بیان دیا، کہ”میں نے اس عمل سے ایک غلط مثال قائم کی اور اب مجھے احساس ہو گیا ہے کہ جنگلی جانوروں کو اس طرح رکھنا غیر مناسب ہے۔” اس کے بعد انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور کہا کہ “مجھے یہ علم نہیں تھا کہ جنگلی جانور تحفے کے طور پر وصول نہیں کیے جا سکتے تھے۔” اس بیان کے بعد عدالت نے رجب بٹ کو ایک سال کی کمیونٹی سروس فراہم کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں وہ پروبیشن آفیسر کے ماتحت کام کرے گا۔ اس کمیونٹی سروس کا حصہ یہ تھا کہ رجب بٹ ہر ماہ اپنے سوشل میڈیا پر وی لاگ کے ذریعے جانوروں کے حقوق اور تحفظ کے بارے میں آگاہی فراہم کرے گا۔ ان وی لاگ میں وہ اس بارے میں گفتگو کرے گا کہ جنگلی جانوروں کے تحفظ اور ان کے حقوق کو کس طرح یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ رجب بٹ کو اس بات کا پابند بنایا گیا کہ وہ یہ وی لاگ اپنے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپلوڈ کرے گا۔ یہ فیصلہ نہ صرف رجب بٹ کے لیے ایک سبق ہے بلکہ ایک بڑا پیغام بھی دیتا ہے کہ سوشل میڈیا پر مشہور شخصیات کو اپنے اثر و رسوخ کا درست استعمال کرنا چاہیے۔ عدالت نے وائلڈ لائف محکمہ کو ہدایت کی کہ وہ رجب بٹ کو جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے تمام ضروری مواد فراہم کرے تاکہ وہ آگاہی مہم میں بھرپور حصہ لے سکے۔ رجب بٹ نے اپنے عمل پر پچھتاوا ظاہر کیا اور کہا کہ اب وہ جنگلی جانوروں کے حقوق کے بارے میں مثبت پیغام رسانی کرے گا۔ اس فیصلے کے بعد رجب بٹ نے عدالت سے درخواست کی کہ اسے اپنی غلطی کو سدھارنے کا موقع دیا جائے۔ عدالت نے اس درخواست پر غور کرتے ہوئے اسے ایک موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ رجب بٹ کے اس معاملے نے نہ صرف لاہور بلکہ پورے ملک میں جنگلی جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹک ٹکر اس ایک سال کی کمیونٹی سروس کے دوران کس حد تک لوگوں کو آگاہی دے پاتا ہے اور اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے کیا اثرات مرتب کرتا ہے۔

سیف علی خان کی 150 ارب کی جائیداد ضبط، آخر معاملہ کیا ہے؟

Saif ali khan

سیف علی خان کچھ وقت سے خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ ہوسکتا ہے وہ ہسپتال سے گھر چلے گئے ہوں اور خنجر کے حملے کے بعد صحت مند ہونے جا رہے ہوں مگر مشکلات اور پریشانیاں ان کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق تقریباً 15کروڑ مالیت کی جائیداد جس کے مالک پٹودی فیملی ہے اور جس کا حصہ سیف علی خان بھی ہیں، اینیمی پراپرٹی ایکٹ 1968کے تحت حکومت ضبط کر سکتی ہے۔ اس سے پہلے 2019 میں، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے ان جائیدادوں پر لگائی گئی پابندی کو ہٹا دیا تھا۔ فیصلے میں ان میں سے کچھ جائیدادوں میں سیف کا بچپن کا گھر فلیگ اسٹاف ہاؤس، نور الصباح پیلس، دارالسلام، حبیبی کا بنگلہ، احمد آباد پیلس، کوہیفزہ پراپرٹی، اور دیگر شامل ہیں۔ اب، حکومت ان املاک کو اینیمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت ضبط کر سکتی ہے، حکومت کو ان لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کی اجازت دیتا ہے جو تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ اینیمی پراپرٹی ایکٹ 1968 کیا ہے؟ اینیمی پراپرٹی ایکٹ حکومت  کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ لوگ جو تقسیم ہند کے بعد انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے ہیں ان کی جائیداد ضبط کی جا سکتی ہیں۔ 1965 اور 1971 کی پاک انڈیا جنگ کے بعد بہت سے لوگوں نے اپنی جائیداد چھوڑتے ہوئے انڈیا سے پاکستان ہجرت کی۔ انڈیا کے دفاعی ایکٹ کے مطابق وہ لوگ جو پاکستان کی شہریت حاصل کر لیتے ہیں انڈین حکومت ان کی جائیداد ضبط کر سکتی ہے۔ مرکزی حکومت ان جائیدادوں کو “دشمن کی جائیداد” کے نام سے اپنے قانون میں لکھتی ہے۔ ایسا تب بھی ہوا تھا جب کچھ لوگ 1962 کی سائنو انڈین جنگ کے بعد چین ہجرت کر گئے تھے۔ اینیمی پراپرٹی ایکٹ میں 2017 میں ترمیم ہوئی اور یہ طے پایا کہ جو بھی شخص اپنا ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک جائے گا چاہے وہ ملک انڈیا کا کسی بھی طرح سے دشمن ہو یا نہ ہو، اس کی جائیداد ضبط کی جا سکتی ہے۔ پٹودی خاندان کی جائیداد اینیمی پراپرٹی ایکٹ سےکیسے تعلق رکھتی ہے؟ تقسیمِ ہند کے وقت ریاست بھوپال کے نواب حمیداللہ تھے۔ ان کی تین بیٹیاں تھیں جن میں سب سے بڑی عابدہ سلطان تھیں جو پاکستان ہجرت کر گئیں۔ دوسری بیٹی جو انڈیا میں ہی رہیں ان کا نام ساجدہ سلطان تھا اور ان کی شادی نواب افتخار علی خان پٹودی سے ہوئی جنہیں نواب آف پٹودی بھی کہا جاتا ہے۔ ساجدہ اپنے والد کی وفات کے بعد وراثت کی مالکن گئیں۔ساجدہ کا بیٹا منصور علی خان تھا جو کہ ایک کرکٹر تھے۔ ان کا بیٹاسیف علی خان ہے جو ساجدہ سلطان کا پوتا ہے اور جنہیں وراثت میں جائیداد ملی ہے۔ 2014 میں اینیمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت بھوپال میں پٹودی خاندان کی جائیداد کو اینیمی پراپرٹی کہا گیا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ عابدہ سلطان جو کہ ساجدہ کی بڑی بہن ہیں پاکستان ہجرت کر گئی تھیں اس لیے اس جائیداد کو اینیمی پراپرٹی کہا جا سکتا ہے۔ یہ مسئلہ تب پیداہوا جب 2016 میں پٹودی خاندان کی جائیداد کے متعلق آرڈیننس دیا جس کے مطابق انڈین حکومت نے کہا کہ ورثاء جائیداد کو حاصل نہیں کر سکتے۔ پٹودی کاندان کی جائیداد کو اینیمی پراپرٹی قرار دینے کے خلاف پٹودی خاندان نے 2015 میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں گئی۔ ہائی کورٹ نے اس وقت جائیداد کو پٹودی خاندان کی ہی رہنے دیا جب کہ بعد میں 2019 میں ساجدہ سلطان کو قانونی وارث تسلیم کر لیا۔ جب کہ پچھلے مہینے ہائی کورٹ نے سیف علی خان کی پٹیشن کو برطرف کر دیا۔ سیف اب تک پٹودی محل کےبھی قانونی وارث بھی ہیں۔ اس سے قبل یہ محل ایک ہوٹل چین کو لیز پر دیا گیا تھا۔ ” سیف نے پہلے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ “میرے والد نے اسے لیز پر دیا اور فرانسس (واکزیرگ) اور امان (ناتھ)، جو وہاں ایک ہوٹل چلاتے تھے، جائیداد کی اچھی طرح دیکھ بھال کرتے تھے۔ میری والدہ (شرمیلا ٹیگور) کیا ایک چھوٹا سا گھر ہے اور وہ ہمیشہ بہت سکون سے رہتی ہیں”۔ سیف نے 2021 میں بالی ووڈ ہنگامہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، “یہ ایک منصفانہ مالیاتی انتظام تھا اور رپورٹس کے برعکس، مجھے اسے واپس خریدنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ میں پہلے ہی اس کا مالک تھا”۔ سیف اب محل کو گرمیوں میں استعمال کرتے ہیں اور اکثر اسے فلم کی شوٹنگ کے مقصد کے لیے فلم پروڈکشنز کو لیز پر دیتے ہیں۔ ہاؤسنگ ڈاٹ کام کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں، ان کی بہن سوہا نے محل کی تاریخ کے بارے میں کچھ اور یادیں شیئر کیں، اور کہا کہ سیف ہی اس کا مالک ہے۔ سوہا نے انکشاف کیا کہ ان کی دادی ساجدہ سلطان بھوپال کی بیگم تھیں اور ان کے دادا پٹودی کے نواب تھے۔ وہ کئی سالوں سے اس سے محبت کرتا تھا لیکن اس کے والد نے اسے اس سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ پٹودی محل ان کے سسر کو متاثر کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ سوہا نے مزید کہا، “انہوں نے اسے 1935 میں بنایا تھا تاکہ وہ شادی کر سکیں۔ وہ اپنے سسر کو متاثر کرنا چاہتا تھا لیکن اسے بنانے کے آدھے راستے میں اس کے پاس پیسے ختم ہو گئے! اس لیے جب آپ وہاں جائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں بہت سارے قالین ہیں اور ان میں سے کچھ کے نیچے سنگ مرمر کے فرش ہیں، لیکن ان میں سے اکثر میں عام سیمنٹ ہے، کیونکہ اس کے پاس پیسے ختم ہو گئے ہیں”۔ سیف علی خان نے ابھی تک عدالت کے اس نئے فیصلے پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی کچھ جائیداد ضبط کی جا سکتی ہے۔ سیف علی خان 16 جنوری کو ممبئی میں ان کی رہائش گاہ پر ہونے والے چاقو کے حملے کے بعد صحت یاب ہو رہے ہیں جب ایک حملہ آور نے چوری کی ناکام کوشش کے بعد فرار ہونے کی کوشش کی۔ اس عمل میں سیف کی ہاتھا پائی ہو گئی اور چور نے

ایسی جگہ جہاں لوگ پیسے دے کر تھپڑ کھاتے ہیں

گاہک کھانے کے ساتھ ہوٹل سٹاف سے تھپڑ کھاکر بل ادا کرتے ہیں۔

اگر میں آپ کو یہ پتا چلے کہ دنیا میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں لوگ خود پیسےدے کر تھپڑ کھاتے ہیں تو آپ یقیناً حیران ہوں گے۔ عام  طور پر ریستوران کھانا اور پرسکون ماحول فراہم کرتے ہیں مگر دنیا میں ایسے ریستوران بھی موجود  ہیں جوکھانوں کے ساتھ تھپڑ بھی مہیاکرتے ہیں۔ حیرت انگیز بات  یہ ہے کہ  یہاں پر آنے والے گاہک کھانے کے ساتھ ہوٹل سٹاف سے تھپڑ کھاکر بل ادا کرتے ہیں۔ اس طرح کے زیادہ تر ہوٹل جاپان میں پائے جاتے ہیں۔ جاپان کے جنوبی ساحل پر واقع  ناگویا کے ایک ریستوران میں خواتین پر مشتمل عملہ گاہکوں کے چہرے پر تھپڑ رسید کرتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے  کہ گاہک جانتے ہیں کہ اس ہوٹل میں تھپڑ رسید کیے جائیں گے، اس کے باوجود وہ آتے ہیں اوراپنی  مرضی سے سخت سے سخت تھپڑ کھاتے ہیں۔ خبر رساں ادارے العربیہ اردو کے مطابق  کیمونو پہنے فی میل ویٹرز باربار صارفین کے چہرے پر تھپڑ مارتی ہیں۔ پہلے ویٹرس صارفین کے چہرے پر تھپڑ مارتی ہیں جس کے بعد پورے رستوران میں لوگ تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے بعد ویٹرس  اور صارفین دونوں جھک کر ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔  تھپڑوں کے عوض انھیں 300  ین دیے جاتے ہیں ۔ 1 جاپانی ین  1.83 پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ ہوٹل عملے میں سے من  پسند ویٹرس  سے گال لال کروانے پر 500 ین کی فیس دینی پڑتی ہے۔ ازاکیا اور جاپان کےاکثر شراب خانوں میں تھپڑ رسید کیے جاتے ہیں جوکہ اتنے زوردار ہوتے ہیں  کہ گاہک کبھی کبھار اپنی نشستوں سے دور جاگرتے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں سوشل میڈیا پر کئی  ویڈیو وائرل ہوئیں جس میں ویٹرس کو گاہکوں کو نہایت بےدردی سے تھپڑ مار تے ہوئے دیکھا گیا۔ جنوبی ساحل پر واقع ناگویا کے اس ریستوران کا نام شاچیہوکویا ہے۔ہوٹل کی مالکن  بتاتی ہیں  ابتدامیں  یہ ہوٹل خسارے میں رہا اور بند ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا، ہم نے ہوٹل بچانے کی بہت کوششیں کیں مگر کوئی فائدہ نہ ہو سکا۔ آخر میں ہم نے  یہ عجیب  و غریب چال چلی، یہ منفرد طریقہ اتنا کامیاب ثابت ہوا کہ ہمیں  مزید ویٹریس کو ہائر کرنا پڑا۔ ہوٹل کے گاہک کہتے ہیں کہ یہ ایک دلچسب تجربہ ہے۔ ہمیں خوبصورت لڑکی تھپڑ مارتی ہے جس سے ہم محظوظ ہوتے ہیں اور بہتر محسوس کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ذہن کو بھی اچھا لگتا ہےجس سے ہم اپنے کاموں پر زیادہ توجہ دے سکتے ہیں۔  ہوٹل عملہ اپنے منفرد ملبوسات کی وجہ سے پہچان رکھتا ہے،  میل عملہ  نےسونے سےبنےباڈی سوٹ اورمچھلی کے سائز کے ہیڈڈریس   جبکہ فی میل عملہ نے کیمونیا پہنا ہوتا ہے۔ جاپان میں مارکیٹنگ کے نت نئےمنفرد طریقے دیکھنے کو ملتے ہیں جوکہ عوام کو اپنی جانب راغب کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔ کھانے کے حوالے سے بڑے پیمانے پرآئے روز نئے عجیب وغریب تجربات کیے جاتے ہیں۔ جاپان کےایک ہوٹل میں گاہکوں کو سیل میں ہتھکڑیاں لگا کر بند کیا جاتا ہے جہاں انھیں ویٹرس کھانا مہیا کرتی ہیں ۔ ٹوکیو میں موجودایک ریستوران   کو ایلیمنٹری سکول کے کلاس روم کی طرح سجاکرگاہکوں کو بٹھایا جاتا ہےاور عملہ انھیں اساتذہ کے لباس میں کھانا مہیا کرتا ہے۔  

ایسی جگہ جہاں لوگ پیسے دے کر تھپڑ کھاتے ہیں

گاہک کھانے کے ساتھ ہوٹل سٹاف سے تھپڑ کھاکر بل ادا کرتے ہیں۔

اگر آپ کو یہ پتا چلے کہ دنیا میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں لوگ خود پیسےدے کر تھپڑ کھاتے ہیں تو آپ یقیناً حیران ہوں گے۔ عام  طور پر ریستوران کھانا اور پرسکون ماحول فراہم کرتے ہیں مگر دنیا میں ایسے ریستوران بھی موجود  ہیں جوکھانوں کے ساتھ تھپڑ بھی مہیاکرتے ہیں۔ حیرت انگیز بات  یہ ہے کہ  یہاں پر آنے والے گاہک کھانے کے ساتھ ہوٹل سٹاف سے تھپڑ کھاکر بل ادا کرتے ہیں۔ اس طرح کے زیادہ تر ہوٹل جاپان میں پائے جاتے ہیں۔ جاپان کے جنوبی ساحل پر واقع  ناگویا کے ایک ریستوران میں خواتین پر مشتمل عملہ گاہکوں کے چہرے پر تھپڑ رسید کرتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے  کہ گاہک جانتے ہیں کہ اس ہوٹل میں تھپڑ رسید کیے جائیں گے، اس کے باوجود وہ آتے ہیں اوراپنی  مرضی سے سخت سے سخت تھپڑ کھاتے ہیں۔ خبر رساں ادارے العربیہ اردو کے مطابق  کیمونو پہنے فی میل ویٹرز باربار صارفین کے چہرے پر تھپڑ مارتی ہیں۔ پہلے ویٹرس صارفین کے چہرے پر تھپڑ مارتی ہیں جس کے بعد پورے رستوران میں لوگ تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے بعد ویٹرس  اور صارفین دونوں جھک کر ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔  تھپڑوں کے عوض انھیں 300  ین دیے جاتے ہیں ۔ 1 جاپانی ین  1.83 پاکستانی روپے کے برابر ہے۔ ہوٹل عملے میں سے من  پسند ویٹرس  سے گال لال کروانے پر 500 ین کی فیس دینی پڑتی ہے۔ ازاکیا اور جاپان کےاکثر شراب خانوں میں تھپڑ رسید کیے جاتے ہیں جوکہ اتنے زوردار ہوتے ہیں  کہ گاہک کبھی کبھار اپنی نشستوں سے دور جاگرتے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں سوشل میڈیا پر کئی  ویڈیو وائرل ہوئیں جس میں ویٹرس کو گاہکوں کو نہایت بےدردی سے تھپڑ مار تے ہوئے دیکھا گیا۔ جنوبی ساحل پر واقع ناگویا کے اس ریستوران کا نام شاچیہوکویا ہے۔ہوٹل کی مالکن  بتاتی ہیں  ابتدامیں  یہ ہوٹل خسارے میں رہا اور بند ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا، ہم نے ہوٹل بچانے کی بہت کوششیں کیں مگر کوئی فائدہ نہ ہو سکا۔ آخر میں ہم نے  یہ عجیب  و غریب چال چلی، یہ منفرد طریقہ اتنا کامیاب ثابت ہوا کہ ہمیں  مزید ویٹریس کو ہائر کرنا پڑا۔ ہوٹل کے گاہک کہتے ہیں کہ یہ ایک دلچسب تجربہ ہے۔ ہمیں خوبصورت لڑکی تھپڑ مارتی ہے جس سے ہم محظوظ ہوتے ہیں اور بہتر محسوس کرتے ہیں۔ یہ ہمارے ذہن کو بھی اچھا لگتا ہےجس سے ہم اپنے کاموں پر زیادہ توجہ دے سکتے ہیں۔  ہوٹل عملہ اپنے منفرد ملبوسات کی وجہ سے پہچان رکھتا ہے،  میل عملہ  نےسونے سےبنےباڈی سوٹ اورمچھلی کے سائز کے ہیڈڈریس   جبکہ فی میل عملہ نے کیمونیا پہنا ہوتا ہے۔ جاپان میں مارکیٹنگ کے نت نئےمنفرد طریقے دیکھنے کو ملتے ہیں جوکہ عوام کو اپنی جانب راغب کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔ کھانے کے حوالے سے بڑے پیمانے پرآئے روز نئے عجیب وغریب تجربات کیے جاتے ہیں۔ جاپان کےایک ہوٹل میں گاہکوں کو سیل میں ہتھکڑیاں لگا کر بند کیا جاتا ہے جہاں انھیں ویٹرس کھانا مہیا کرتی ہیں ۔ ٹوکیو میں موجودایک ریستوران   کو ایلیمنٹری سکول کے کلاس روم کی طرح سجاکرگاہکوں کو بٹھایا جاتا ہےاور عملہ انھیں اساتذہ کے لباس میں کھانا مہیا کرتا ہے۔