علاقائی زبانیں اور قومی اتحاد: عید ہمیں کیسے یکجہتی اور محبت سکھاتی ہے؟

پاکستان میں عید ایک ایسا موقع ہوتا ہے جب تمام مسلمان اپنے دکھ درد بھلا کر سنت نبوی (ﷺ) کے مطابق عید کے دن خوشی مناتے ہیں۔ پاکستان مختلف علاقوں اور ثقافتوں کے لوگ ایک ہی ایک ہی دن عید مناتے ہیں جو کہ قومی یکجہتی اور بھائی چارے کی علامت ہے۔  ہر خطہ اپنے خاص انداز میں عید کی تیاری کرتا ہے اور مختلف روایات کے مطابق خوشیوں کا اظہار کرتا ہے۔ عید کی نماز، تہوار کی رونق یہ سب پاکستانی معاشرت کا حصہ ہیں۔ یہ دن ہمیں ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے اور اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

عید کی چھٹیاں: پاکستان میٹرز کا رپورٹر کیسے گھر پہنچا؟ مشکل سفر، یادگار لمحے ہمیشہ کے لیے رہ گئے!

جیسے ہی عید کی آمد آمد ہوتی ہے، ملک بھر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے، لیکن وہ افراد جو اپنے گھروں کو لوٹنے کے خواہشمند ہوتے ہیں، ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج سفری مشکلات بن جاتی ہیں۔ ٹکٹوں کی عدم دستیابی اور کرایوں میں بے تحاشہ اضافے نے شہریوں کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ کے رپورٹر عاصم ارشاد کو عید کے لیے لاہور سے بہاولپور کا سفر کرنا پڑا، جہاں انہیں بہت سے مشکلات پیش آئیں۔ سب سے پہلے انہیں ٹکٹ لینے میں دشواری آئی اور پھر ٹکٹ نہ ملی۔ پاکستان میٹرز کے رپورٹر کا کہنا ہے کہ انہیں نہ صرف سیٹ کے حصول میں دشواری ہو رہی ہے بلکہ کرایے بھی دگنے سے زیادہ بڑھا دیے گئے ہیں۔ چند روز قبل کرایہ 1700 روپے تھا، جو اب 2200 روپے کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح راوی ٹول پلازہ پر بھی کرایوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جہاں معمولی فاصلوں کے لیے بھی اضافی چارجز وصول کیے جا رہے ہیں۔ سفر کے دوران کھانے پینے کی اشیاء کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ ایک کپ چائے 150 روپے میں فروخت کی جا رہی ہے، جو عام دنوں کے مقابلے میں دگنی قیمت ہے۔ دوسری جانب ٹرانسپورٹرز کا مؤقف ہے کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور رش کے باعث کرایوں میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ تاہم، شہریوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر اس معاملے کا نوٹس لے اور سفری سہولیات کو عام آدمی کی پہنچ میں لانے کے لیے اقدامات کرے۔

الوداع رمضان، کیا عبادتوں کا سلسلہ برقرار رہے گا؟

رمضان رخصت ہو چکا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ حقیقتاً الوداع ہے؟ وہی مہینہ جس میں ہم نے اللہ سے قربت کا سفر طے کیا، وہی راتیں جب آنکھوں سے بہتے آنسوؤں نے گناہوں کی معافی مانگی، وہی دن جب کسی بھوکے کا پیٹ بھرا۔ مگر اب کیا سب ختم ہو گیا؟ رمضان کا نور، وہ عبادات کی روشنی، وہ اللہ سے جڑنے کا احساس… کیا سب عید کی چمک دمک میں کھو جائے گا؟ وہ آنسو جو شب قدر میں بہائے، وہ لمحات جو سجدوں میں گزارے، کیا وہ سب ماضی بن جائے گا؟ ہم نے اس مقدس مہینے میں بھوکوں کی تکلیف کو محسوس کیا، ناداروں کی مدد کی، اللہ کی قربت کو پایا، مگر کیا اب سب بھلا دیا جائے گا؟ کیا اب وہی غفلت، وہی دوری، وہی بے حسی لوٹ آئے گی؟ یہ رمضان محض ایک مہینہ نہیں تھا، بلکہ ایک امتحان تھا، ایک پیغام تھا، ایک دعوت تھی کہ ہم بدل جائیں، کہ ہم بہتر ہو جائیں۔ یہ وقت ہے فیصلہ کرنے کا کہ رمضان کو اپنی زندگی سے جدا مت کریں، بلکہ اسے اپنے دلوں میں زندہ رکھیں۔

زیروویسٹ ڈے: ”ایک دن ہم ہوں گے، وساٸل نہ ہوں گے“

فرض کریں آپ جو کھانا کھاتے ہیں وہ ختم ہوجائے، جس پیٹرول کی مدد سے آپ کی گاڑی چلتی ہے، وہ پیٹرول ختم ہوجائے اور سب سے بڑھ کر دنیا کی سب سے عظیم ترین نعمت پانی بھی آپ کی رسائی میں نہ رہے تو آپ کیا کریں گے۔ ہماری زمین ماحولیاتی تبدیلی کا شدت سے سامنا کر رہی ہے۔ اس اثنا میں ہمارے قدرتی وسائل تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔زیرو ویسٹ ڈے ان محدود وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کرنے اور وسائل کا تحفظ کرنا سیکھاتا ہے۔ زیرو ویسٹ ڈے ہر سال 30 مارچ کو منایا جاتا ہے، جس کا مقصد فضلہ کم کرنے، ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ اور پائیدار طرز زندگی کو فروغ دینا ہے۔ یہ دن ہمیں اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ زمین کے قدرتی وسائل محدود ہیں اور ہمیں انہیں دانشمندی سے استعمال کرنا چاہیے۔ زیرو ویسٹ کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے روزمرہ کے معمولات میں ایسی تبدیلیاں کریں جن سے کچرا کم سے کم پیدا ہو۔ اس میں دوبارہ قابل استعمال اشیاء کو اپنانا، ری سائیکلنگ کو فروغ دینا، خوراک کے ضیاع سے بچنا اور پلاسٹک جیسے نقصان دہ مواد کا استعمال کم کرنا شامل ہے۔ اس دن کو منانے کے لیے مختلف ممالک میں آگاہی مہم چلائی جاتی ہیں، جس میں تعلیمی سیمینار، صفائی مہم اور پلاسٹک فری اقدامات شامل ہوتے ہیں۔ ہر فرد اپنی روزمرہ زندگی میں چھوٹے چھوٹے اقدامات کے ذریعے اس مہم کا حصہ بن سکتا ہے، جیسے کپڑے کے تھیلے استعمال کرنا، غیر ضروری اشیاء کی خریداری سے گریز کرنا اور گھریلو فضلہ کو کم سے کم کرنا۔ زیرو ویسٹ ڈے کا مقصد صرف ایک دن کی مہم نہیں بلکہ ایک ایسے طرز زندگی کو فروغ دینا ہے جو ماحول کے لیے محفوظ اور مستقبل کی نسلوں کے لیے بہتر ہو۔

مہنگائی نے عید کی خوشیاں چھین لیں

عید قریب آتے ہی ملک بھر کے بازاروں میں خریداری کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے، تاہم اس بار مہنگائی اور آن لائن شاپنگ کے رجحان نے روایتی بازاروں کی رونق کو متاثر کیا ہے۔ لاہور کے اچھرہ بازار میں دکانداروں اور خریداروں نے مہنگائی کے اثرات اور بدلتے خریداری کے رجحانات پر ‘پاکستان میٹرز’ بتایا کہ آن لائن شاپنگ کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے مارکیٹوں میں وہ پہلے جیسا رش نظر نہیں آ رہا۔ ایک دکاندار کا کہنا تھا کہ پہلے 70 فیصد خریدار مارکیٹ میں آتے تھے، لیکن اب یہ تعداد کم ہو کر تقریباً 60 فیصد رہ گئی ہے۔ ایک اور دکاندار نے بتایا کہ آن لائن خریداری میں سہولت زیادہ ہے، لوگ گھر بیٹھے چیزیں منگوا لیتے ہیں، لیکن بازار آ کر چیزوں کو خود دیکھنے اور پسند کرنے کا مزہ الگ ہی ہوتا ہے۔ دوسری جانب خریداروں کا کہنا تھا کہ اس سال عید کی خریداری پر مہنگائی کے سائے گہرے ہیں، کئی افراد محدود بجٹ میں خریداری کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک خاتون خریدار نے شکایت کی کہ ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے، پہلے جو شاپنگ آسانی سے ہو جاتی تھی، اب اسے مکمل کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ تاجر برادری بھی مہنگائی کے اثرات سے پریشان ہے اور آن لائن کاروبار کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں خریداروں کو متوجہ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی اپنا رہی ہے۔ ایک دکاندار نے بتایا کہ ہم انسٹاگرام، فیس بک اور یوٹیوب پر اپنے کاروبار کو فروغ دے رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ گاہک ہم تک پہنچ سکیں۔” اگرچہ آن لائن خریداری بڑھ رہی ہے، مگر بازاروں میں اب بھی ایسے افراد موجود ہیں جو چوڑیوں، جیولری، مالا، پونی، ہیئر بینڈ، بریڈل سیٹ اور دیگر عید کی اشیاء خریدنے کے لیے مارکیٹ کا رخ کر رہے ہیں۔ پاکستان میٹرز کے مطابق بدلتے ہوئے رجحانات کے باوجود بازاروں میں عید کی خریداری کا سلسلہ جاری ہے۔ آن لائن خریداری کے فوائد اپنی جگہ مگر بازاروں میں خریداری کی روایت اب بھی زندہ ہے۔

عید پر سفر: مشکلات کی منزل یا خوشیوں کا راستہ؟

عید مسلمانوں کے لیے خوشیوں، محبتوں اور خاندانی ملاپ کا تہوار ہے۔ ہر سال لاکھوں لوگ اپنے پیاروں کے ساتھ عید منانے کے لیے بڑے شہروں سے اپنے آبائی علاقوں کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ عید کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ سفر کی مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ بسوں، ٹرینوں اور دیگر سفری ذرائع پر بے پناہ رش، ٹکٹوں کی عدم دستیابی اور کرایوں میں بے تحاشا اضافہ عام شہریوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ اس سال بھی عید پر یہی صورت حال دیکھنے میں آئی اور عوام کو سفری مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ عید کے موقع پر ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے کرایوں میں اضافہ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے عام شہری سخت پریشان ہیں۔ مسافروں نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ بس ٹکٹوں کے نرخوں میں 500 سے 1000 روپے تک اضافہ کر دیا گیا ہے، جو عوام پر ایک اضافی بوجھ ہے۔ ایک مسافر کا کہنا تھا کہ اگر سروس بہتر ہو تو ٹھیک ہے، لیکن اچانک کرایے بڑھا دینا عوام پر ظلم ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر کرے تاکہ عوام کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مسافروں کی بڑی تعداد کی وجہ سے بسوں اور ٹرینوں کی ٹکٹیں جلدی فروخت ہو گئیں۔ جو لوگ پہلے سے بکنگ کروا چکے تھے، انہیں تو ٹکٹ مل گئے، لیکن جو آخری دنوں میں آئے، انہیں بلیک میں مہنگی ٹکٹیں خریدنی پڑیں۔ کچھ شہریوں کا کہنا تھا کہ ہم نے کئی بار چکر لگائے، لیکن ٹکٹ نہیں ملی۔ آخرکار ایک جاننے والے نے اپنی پہلے سے خریدی گئی ٹکٹ مہنگے داموں ہمیں دے دی۔” عید کے سفر میں بدنظمی، مہنگائی اور رش نے عوام کے لیے مشکلات پیدا کیں۔ اگر حکومت اور متعلقہ ادارے پہلے سے منصوبہ بندی کریں تو عوام کو بہتر سفری سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔

لاہور سے آبائی گھر واپسی: ’دن میں تارے نظر آگئے‘

عید پر لاہور سے آبائی گھروں کو جانے والے پردیسی ٹرانسپورٹرز کے ہاتھوں لوٹے جارہے ہیں، اچانک سے کئی گنا کرایہ بڑھا دیا گیا ہے۔ ایک مسافر نے بتایا کہ اچانک سے 500 روپے تک کرایہ بڑھادیاگیا جو ظلم ہے، قیمتوں میں اضافے کو تب روکا جاسکتا ہے جب حکومت اپنی ٹرانسپورٹ ہوگی۔ انڈیا ہم سے اس لیے بہتر ہے کہ ان کی اپنی کمپنیاں ہیں۔ لاہور سے میلسی جانے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ مجھے پورے پیسوں میں ٹکٹ ملا ہے، بہت دشواری ہوئی ہے، پہلے ٹکٹ ہوجاتی تو اچھا ہوتا۔ یہاں بلیک میں ٹکٹس مل رہے ہیں ۔ ایک اور مسافر نے بتایا کہ ٹکٹ لینا انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔ دن میں تارے نظر آگئے ہیں ۔

عید سے پہلے عیدی: الخدمت نے زیرکفالت بچوں کو بڑے مال میں شاپنگ کرادی

الخدمت فاؤنڈیشن نے یتیم بچوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے کے لیے ایک خوبصورت قدم اٹھایا۔ عید کی خوشیوں میں انہیں شامل کرنے کے لیے لاہور کے ڈولمن مال لے جایا گیا، جہاں انہوں نے اپنی پسند کے نئے کپڑے اور جوتے خریدے۔ یہ صرف خریداری کا موقع نہیں تھا بلکہ ان بچوں کے لیے ایک یادگار دن بھی تھا۔ مال میں گھومنے پھرنے، تفریحی سرگرمیوں اور مزیدار کھانوں سے انہوں نے بھرپور لطف اٹھایا۔ الخدمت فاؤنڈیشن کا یہ اقدام ان بچوں کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں، جو والدین کے سائے سے محروم ہیں۔ یہ خوشیاں بانٹنے کا خوبصورت انداز تھا، جس نے بچوں کے دل میں محبت اور اپنائیت کا احساس پیدا کیا۔ ایسے اقدامات معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں اور دوسروں کو بھی نیکی کے اس سفر میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔

پاکستان میں بجلی کی قیمتوں پر سیاسی چال، حقیقت کیا ہے؟

عوام کو بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی کی امید دلائی گئی تھی اور 23مارچ کو قوم کو ایک بڑا اعلان سننے کی امید تھی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا،بجلی کے نرخوں میں آٹھ روپے فی یونٹ کمی کی خبریں آئیں، لیکن یومِ پاکستان پر اس حوالے سے کوئی اعلان نہ ہونے پر عوام میں بے چینی بڑھ گئی۔ حکومت کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کے ذریعے حاصل ہونے والے اضافی ریونیو کو بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے پاکستان میں بجلی کی آئے روز بڑھتی ہوئی قیمت کی مذمت کی ہے اور کہا کہ حکومت کو بہت وقت دے دیا، عید کے بعد بجلی کی قیمتوں میں کمی اور آئی پی پیز کے خلاف بڑی تحریک کا آغاز کریں گے۔ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالر کے توسیع فنڈ سہولت کے تحت پہلے دو سالہ جائزے کے مرحلے میں ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو ایک منصوبہ پیش کیا تھا، جس کے تحت انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز ( آئی پی پی یز)کے معاہدوں پر نظرثانی کے ذریعے بجلی کے ٹیرف میں دو روپے فی یونٹ کمی کی تجویز دی گئی تھی۔ لیکن آئی ایم ایف نے اس پیکیج کی افادیت پر سوالات اٹھا دیے۔ ان کا مؤقف ہے کہ پاکستان کی مالیاتی صورتحال ایسی نہیں کہ کسی بھی قسم کی سبسڈی یا ریلیف دیا جا سکے۔ حکومت کے دعووں کے برعکس نیپرا کا ایک الگ مؤقف ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں  نے نیپرا کو سالانہ بیس ٹیرف پر نظرثانی کی درخواست دی ہے، جس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ تاجر برادری اور عوام سراپا احتجاج ہیں۔ تاجر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر بجلی کے نرخوں میں کمی نہ ہوئی تو وہ عید کے بعد ملک گیر ہڑتال کریں گے۔ ماہرین کی رائے میں پاکستان میں بجلی دیگر ممالک کے مقابلے میں مہنگی ترین ہے، جس کی وجہ غیر مؤثر معاہدے، مہنگی توانائی اور پالیسیوں میں عدم تسلسل ہے۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کھل کر تنقید کی اور کہا کہ جب خطے کے دیگر ممالک میں بجلی سستی ہے، تو پاکستان میں مہنگی کیوں؟ حکومت نے بجلی کے شعبے میں اصلاحات اور تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کا عندیہ دیا ہے۔ اگر یہ اقدامات کیے گئے تو کیا واقعی بجلی کے نرخوں میں کمی ہوگی؟ یا یہ ایک اور سیاسی وعدہ ہی رہے گا؟ عوام کے لیے سب سے بڑا سوال یہی ہےکیا حکومت اپنے وعدے پر عمل کر پائے گی یا یہ بھی محض ایک خواب ہی رہے گا؟ بجلی کے نرخوں میں کمی کا معاملہ صرف معاشی نہیں، بلکہ عوامی فلاح کا بھی سوال ہے۔

پاکستان نے انڈیا کو پیچھے چھوڑدیا، آخر ایسا کیسے ممکن ہوا؟

پاکستان نے سیاحت کے لیے محفوظ ملکوں کی درجہ بندی میں انڈیا، برطانیہ، امریکہ، اسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ائرلینڈ، سویڈن اور ملائیشیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ درجہ بندی عالمی کراؤڈ سورسڈ پلیٹ فارم نمبو نے جاری کی ہے، جس میں پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔ آخر ایسا کیسے ممکن ہوا؟ 2025 کی اس رپورٹ کے مطابق، پاکستان نے 65ویں نمبر پر جگہ بنائی ہے، جس کا سیفٹی اسکور 56.3 رہا۔ یہ وہی درجہ بندی ہے جس میں پاکستان نے بھارت، امریکہ، برطانیہ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جیسے ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم سب سے محفوظ ممالک کی بات کریں تو اندورا اس فہرست میں پہلے نمبر پر رہا، جس کا سیفٹی اسکور 84.7 ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے بعد متحدہ عرب امارات، قطر، تائیوان اور عمان جیسے ممالک شامل رہے۔ یہ درجہ بندی کچھ مغربی ممالک کے لیے حیران کن رہی، کیونکہ ان کی پوزیشن کافی نیچے چلی گئی ہے۔ امریکہ 89ویں اور برطانیہ 87ویں نمبر پر آ گئے، جب کہ فرانس مزید نیچے جا کر 110ویں نمبر پر پہنچ گیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیفٹی درجہ بندی میں اتنی بہتری کیسے آئی؟ تجزیہ کاروں کے مطابق، اس کی ممکنہ وجوہات میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات، امن و امان کی بہتری، اور سیکیورٹی فورسز کی بہتر حکمت عملی شامل ہیں۔ دوسری طرف، اگر سب سے غیر محفوظ ممالک کی بات کریں تو وینزویلا اس فہرست میں سب سے نیچے رہا، جب کہ ہیٹی، افغانستان، جنوبی افریقہ اور پاپوا نیو گنی بھی خطرناک ممالک میں شامل رہے۔ پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری ایک مثبت پیش رفت ہے، جو نہ صرف سیاحت بلکہ ملک کی عالمی ساکھ کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر پاکستان اسی رفتار سے آگے بڑھتا رہا تو مستقبل میں مزید بہتری کے امکانات موجود ہیں۔