فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی: تاجر اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لیے متحد

  فلسطین میں جاری اسرائیل کی نسل کشی کی وجہ سے تاجروں نے اسرائیلی چیزوں کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک تاجر نے پاکستان میٹرز سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کا مئسلہ ساری عالم اسلام کا مسئلہ ہے اس کے لیے مسلمان برادری کو یکجا ہو ہو گا، انہوں نے مزید کہا کہ ہم ریاست سے بھی درخواست کرتے ہیں اس مسئلے پر فلسطین کا ساتھ دیں۔ کراچی کے ایک تاجر نے پاکستان میترز کو بتایا کہ فلسطین کی یکجہتی میں ہم نے کراچی کی ساری کی ساری مارکیٹیں بند کی ہیں اور پاکستان حکومت سے بھی ہماری درخواست ہے کہ عالم متحدہ میں فلسطین کے حق میں آواز بلند کریں

‘نہ کسان کو کچھ ملے اور نہ عوام کو تو یہ حکومت ہے یا کیا ہے’ حافظ نعیم الرحمان

حال ہی میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں اہم حکومتی عہدیداران نے کسانوں سے کیے گئے وعدوں پر بڑھتی ہوئی تشویش پر بات کی۔ گزشتہ سال حکومت نے زرعی شعبے کی بہتری کے لیے اہم وعدے کیے تھے، لیکن اب ان وعدوں پر عمل درآمد مشکوک ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اگر حکومت کسانوں کے لیے اعلان کردہ مالی امداد سے پیچھے ہٹتی ہے تو اس کے نتیجے میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں شدید بدامنی پیدا ہو سکتی ہے، جہاں پہلے ہی کسان شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ گفتگو کے دوران کسانوں کے ملکی معیشت میں کلیدی کردار پر زور دیا گیا اور خبردار کیا گیا کہ اگر ان کے مسائل کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا تو اس کے سنگین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

پاکستان کی 75 فیصد صنعت کسانوں کے کندھوں پر، کسان سراپا احتجاج کیوں ہیں؟

ملک کی معیشت میں زراعت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور کسان اس نظام کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہ طبقہ آج بھی اپنے بنیادی حقوق اور مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں کھاد، بیج اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ، پانی کی قلت، فصلوں کی مناسب قیمت کا نہ ملنا، اور زرعی قرضوں پر سود جیسے مسائل نے کسانوں کی کمر توڑ دی ہے۔ ان تمام مسائل کو اجاگر کرنے اور حکومتی توجہ حاصل کرنے کے لیے لاہور میں آل پاکستان کسان کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک کے مختلف علاقوں سے کسانوں نے شرکت کی۔ کسانوں نے کھلے الفاظ میں اپنے دکھ، پریشانیاں اور مطالبات پیش کیے۔ لیکن افسوسناک بات یہ رہی کہ اس اہم کانفرنس میں حکومت یا متعلقہ اداروں کا کوئی نمائندہ شریک نہ ہوا، جس نے کسانوں کی مایوسی میں مزید اضافہ کر دیا۔ یہ رویہ حکومتی عدم دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر حکومت نے کسانوں کے مسائل کو سنجیدگی سے نہ لیا تو نہ صرف زراعت کا شعبہ مزید زوال کا شکار ہوگا بلکہ ملکی معیشت پر بھی اس کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

وہ ملک جس کی کرنسی امریکی ڈالر سے بھی تگڑی ہے

یورپ میں واقع ایک منفرد ملک “لبرلینڈ” دنیا بھر میں اپنی انفرادیت کی وجہ سے توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ یہ ملک نہ صرف ٹیکس فری ہے بلکہ آن لائن شہریت فراہم کرتا ہے، جہاں کوئی مستقل رہائش پذیر نہیں، پھر بھی مکمل نظام حکومت، آئین اور قومی اسمبلی موجود ہے۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں موجود لبرلینڈ کے سفیر نے بتایا کہ لبرلینڈ دنیا کا واحد ملک ہے جو شہریوں کو آن لائن شہریت فراہم کرتا ہے۔ اس کا ویزا پراسیس نہایت آسان، تیز اور کم خرچ ہے، جس کے ذریعے کسی بھی فرد کے لیے اس ملک کی سیر کرنا ممکن ہے۔ لبرلینڈ دریائے ڈینیوب کے مغربی کنارے پر واقع ہے، جو کروشیا اور سربیا کے درمیان ایک خودمختار ریاست کے طور پر قائم ہے۔ اس خطے کو بعض نقشوں میں “گورنجاسیگا” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ قریبی اہم شہر کروشیا اور بیکی مونسٹر (سربیا کا خودمختار صوبہ) ہیں۔ لبرلینڈ کے سفیر نے بتایا کہ یہاں کا پورا حکومتی ڈھانچہ فعال ہے، اگرچہ ابھی کوئی مستقل آبادی وہاں مقیم نہیں۔ اس ریاست نے خود کو آزاد جمہوریہ کے طور پر متعارف کروایا ہے اور اس کا مستقبل میں یورپ کے بڑے ممالک میں شامل ہونے کا خواب ہے۔ پاکستانی طلباء کے لیے لبرلینڈ میں تعلیم حاصل کرنے کے کئی مواقع موجود ہیں۔ سفیر کے مطابق، لبرلینڈ کی ایک ورچوئل یونیورسٹی فعال ہے جو پاکستانی طلباء کو اعلیٰ تعلیم فراہم کر رہی ہے۔ اس یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طلباء میں سے 50 فیصد کو اسکالرشپ کی صورت میں فیس کی واپسی کی سہولت دی جاتی ہے۔ یہ پاکستانی نوجوانوں کے لیے یورپ کی ڈگری حاصل کرنے کا ایک سنہرا موقع ہے۔ سفیر کا مزید کہنا تھا کہ مستقبل میں لبرلینڈ دنیا بھر میں ایک اہم مقام حاصل کرے گا اور اس کا اثر و رسوخ عالمی سطح پر محسوس کیا جائے گا۔

لاس ویگاس کا انقلابی سفیئر:  360ڈگری کی سکرین کے نئے دور کا آغاز

لاس ویگاس کا سفیئر، جو اپنی انفرادیت کی وجہ سے دنیا بھر میں شہرت حاصل کر چکا ہے، اب ایک نئی قسم کے سینما اور تجربات کی دنیا کا دروازہ کھول رہا ہے۔ یہ گنبد نما سکرین جہاں دیواریں اور چھت ایک ہی سکرین میں بدل جاتی ہیں، دنیا کے سب سے بڑے اور منفرد ڈیجیٹل سنیما تجربے کی نمائندگی کرتی ہے۔ سفیئر کا سائز اور تکنیکی خصوصیات اس کی مقبولیت کا راز ہیں۔ ایک لاکھ 60 ہزار مربع فٹ کی سکرین، جو دیکھنے والوں کو اس قدر متأثر کرتی ہے کہ وہ خود کو منظر کا حصہ محسوس کرتے ہیں، اس کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اس میں نصب 1 لاکھ 60 ہزار سپیکرز کا ساؤنڈ سسٹم ہر شائقین کے لیے دلکش اور جادوئی ثابت ہوتا ہے۔ سفیئر کی تکمیل میں 2 سے 3 بلین ڈالر خرچ ہوئے، جو سینما کی دنیا کے لیے ایک ناقابل یقین رقم ہے۔ لیکن اس منفرد پراجیکٹ کی کامیابی اس رقم کو جواز فراہم کرتی ہے، کیونکہ یہ سینما کا مستقبل بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لاس ویگاس کا سفیئر صرف ایک سنیما نہیں، بلکہ ایک انقلابی تجربہ ہے جس میں ہر زاویہ، ہر منظر اور ہر آواز کو نئے انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ سفیئر کے انقلابی سنیما تجربے کے علاوہ، ایک اور نیا رجحان بھی مقبولیت حاصل کر رہا ہے، ڈیجیٹل کمرےصارفین کو اعلی ریزولیوشن ویژول کے ساتھ گھیر لیتے ہیں، جس میں 360° ڈسپلے اور ورچوئل رئیلٹی جیسی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کمرے کی مدد سے آپ ساحل سمندر کا سکون، جنگل کی پُرسکون فضا، یا شہر کے منظر کی ہلچل کا تجربہ کر سکتے ہیں، وہ بھی بغیر کمرے سے باہر نکلے۔

جیل میں جدید تعلیم: قید بھی نعمت بن گئی

قید و بند کی صعوبتیں اکثر انسان کو مایوسی، پشیمانی اور تنہائی میں دھکیل دیتی ہیں، لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو اندھیرے میں روشنی کا دیا جلا دیتے ہیں۔ سینٹرل جیل کراچی، جو عموماً اپنے سخت ماحول اور قیدیوں کے حالات کے باعث خبروں میں رہتی ہے، ان دنوں ایک خوش آئند اور حیرت انگیز تبدیلی کا گواہ بن چکی ہے۔ یہاں ایک قیدی، جسے عام حالات میں معاشرہ مجرم سمجھ کر بھول چکا ہوتا، وہ قیدی آج اپنی قابلیت، عزم اور مثبت سوچ کے ذریعے دیگر قیدیوں کی زندگی بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس قیدی نے جیل کی چہار دیواری کے اندر رہتے ہوئے جدید آئی ٹی کورسز کا سلسلہ شروع کر کے اپنے جیسے بہت سے قیدیوں کے لیے نئی راہیں ہموار کر دی ہیں۔ یہ صرف سیکھنے سکھانے کا عمل نہیں، بلکہ ایک خاموش انقلاب ہے جو امید، اصلاح اور علم کے ذریعے جنم لے رہا ہے۔

فیک نیوز سے کیسے بچا جائے،5 طریقے جو زندگیاں بچا سکتے ہیں

آج کے ڈیجیٹل دور میں خبر کا پھیلنا صرف چند سیکنڈز کی بات ہے، لیکن اس خبر کا سچا ہونا ضروری نہیں سیاسی بیانات، مشہور شخصیات کے اسکینڈلز، یا کسی بحران کے دوران، جھوٹی خبریں نہ صرف لوگوں کو گمراہ کرتی ہیں بلکہ خوف، نفرت اور بداعتمادی بھی پیدا کرتی ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے، ہم سچ اور جھوٹ میں فرق کیسے کریں؟ آئیے، چند آسان مگر زبردست طریقے جانتے ہیں: ذریعہ چیک کریں: اگر یہ خبر واقعی اہم ہے تو مستند نیوز ویب سائٹس پر بھی موجود ہوگی۔ اگر صرف غیر معروف یا سوشل میڈیا پیجز پر ہے، تو محتاط رہیں۔ تصاویر کی تصدیق کریں،کسی بھی تصویر یا ویڈیو کو گوگل ریورس امیج سرچ کے ذریعے چیک کریں کہ یہ کہاں اور کب کی ہے۔ تاریخ دیکھیں، پرانی خبروں کو نیا رنگ دے کر پیش کیا جا سکتا ہے۔ شیئر کرنے سے پہلے تاریخ ضرور دیکھیں۔ جذباتی ہیڈلائنز پر شک کریں، اگر کوئی خبر حد سے زیادہ سنسنی خیز یا جذباتی ہو، تو اس پر مزید تحقیق کریں۔ کسی ماہر یا صحافی سے پوچھیں، اگر خبر کسی سائنسی، معاشی یا سیاسی معاملے پر ہو تو کسی ماہر سے رائے ضرور لیں۔ یاد رکھیں! ایک کلک، ایک شیئر، اور ایک میسج کسی کی زندگی، شہرت یا ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس  کےلیے ذمہ دار شہری بنیں، تصدیق کریں اور صرف سچ پھیلائیں۔ کیونکہ معلومات کی دنیا میں فرق صرف اتنا ہے… کہ آپ سچ جانتے ہیں یا سچ مانتے ہیں

کراچی کی بوتل گلی: قید خوشبوؤں کا خاموش فسانہ

رمضان کے مقدس مہینے میں عود اور مختلف اقسام کی خوشبوؤں کی خریداری میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شہر کی خوشبو مارکیٹوں میں عوام کا رش بڑھا، جہاں خریداروں نے مذہبی و روحانی مقاصد کے لیے خصوصی خوشبوئیں خریدنے میں دلچسپی لی۔ دکانداروں نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ مختلف قیمتوں اور اقسام کی خوشبوئیں متعارف کروائی ہیں، جن میں پچیس ہزار روپے فی تولہ کے قیمتی عود سے لے کر چھے سو روپے تک کے سستے پرفیومز شامل ہیں۔ بتایا گیا کہ ان خوشبوؤں میں اسیل، وسال، مدینہ تل حرمین، شمامہ تل امبر اور صفہ مروہ جیسی عربک فرگرینسز زیادہ مقبول ہو رہی ہیں، جنہیں نماز، تراویح اور دیگر مذہبی عبادات کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔ دکانداروں کا کہنا تھا کہ نوجوان صارفین کی توجہ جدید فرینچ خوشبوؤں کی طرف بھی بڑھ رہی ہے۔ ایونٹس کریڈ، پولو سپورٹ، ڈینل ڈیزائر اور بلوڈی چینل جیسی خوشبوئیں زیادہ استعمال کی جا رہی ہیں، جنہیں کم قیمت پر تیار کر کے صارفین کو فراہم کیا جا رہا ہے۔ دکاندار عود کی پندرہ سے زائد اقسام رکھے ہوئے ہیں، جن میں وائٹ عود، سلور عود اور عود اسپان جیسی فرنچ کمپوزڈ خوشبوئیں شامل ہیں۔ عود کی اصل اقسام محدود مقدار میں دستیاب ہیں، جب کہ فرنچ عود زیادہ مقدار میں فروخت ہو رہا ہے۔ دکانداروں نے یہ بھی بتایا ہے کہ زیادہ تر خوشبوئیں جرمنی، ترکی اور دبئی جیسے ممالک سے منگوائی جاتی ہیں، اور ہر بجٹ کے افراد کے لیے مناسب آپشنز دستیاب ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ جو لوگ روحانی خوشبوؤں کا شوق رکھتے ہیں، وہ اکثر خالص اور مہنگی خوشبوئیں پسند کرتے ہیں، جب کہ عام صارفین نسبتاً سادہ اور کم قیمت والے پرفیومز کو ترجیح دیتے ہیں۔ مارکیٹ میں موجود ایک دکاندار کا کہنا تھا کہ انہیں خوشبوؤں کا کاروبار کرتے ہوئے بارہ سے پندرہ سال ہو چکے ہیں اور ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہر کسٹمر کو اس کی پسند اور ضرورت کے مطابق خوشبو فراہم کی جائے۔

موبائل کی لت: ہم اپنے فون کے بغیر کتنا وقت گزار سکتے ہیں؟

موبائل اب ضرورت سے زیادہ عادت بلکہ لت بن چکا ہے،وقت سے زیادہ موبائل استعمال کرنا انسانی صحت کے لیے خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کبھی غور کریں کہ آپ کا دن کیسے گزرتا ہے؟ صبح آنکھ کھلتے ہی سب سے پہلا کام کیا ہوتا ہے؟ موبائل چیک کرنا! رات سونے سے پہلے آخری کام؟ موبائل! دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوں، تب بھی ایک ہاتھ میں موبائل، یہاں تک کہ کسی اہم میٹنگ میں بھی، ہماری نظریں بار بار فون کی طرف جاتی ہیں۔ یہ کوئی عام عادت نہیں، بلکہ ایک ذہنی اور جذباتی لت ہے، جو ہماری زندگی پر کئی منفی اثرات ڈال رہی ہے،زیادہ اسکرین ٹائم ہماری آنکھوں کی روشنی کم کر رہا ہے، نیند کو متاثر کر رہا ہے، اور ذہنی دباؤ کو بڑھا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال ڈپریشن اور احساسِ کمتری کا باعث بنتا ہے، کیونکہ ہم دوسروں کی چمکتی دمکتی زندگیوں کو دیکھ کر اپنی زندگی کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں۔ اپنے گھر میں کچھ جگہوں کو ‘نو فون زون’ قرار دیں، جیسے بیڈ روم، کھانے کی میز، اور فیملی گیدرنگز،اس سے آپ کو اصل زندگی کے لمحات انجوائے کرنے کا موقع ملے گا۔ اپنے موبائل میں جا کر دیکھیں کہ آپ روزانہ کتنے گھنٹے فون استعمال کر رہے ہیں؟ جب حقیقت کا سامنا ہوگا، تب ہی تبدیلی آئے گی۔ ہفتے میں ایک دن یا کم از کم چند گھنٹے سوشل میڈیا سے مکمل بریک لیں! آپ دیکھیں گے کہ آپ کا ذہن کتنا ہلکا محسوس کرے گا۔

بلوچستان: سونے کی چڑیا یا دہکتا انگارہ؟

ریت کے طوفان میں لپٹے اس بنجر پہاڑی علاقے میں جہاں سورج کی تپش زمین کو جھلسا دیتی ہے، وہ خزانے چھپے ہیں جن میں کسی بھی ملک کی تقدیر بدلنے کی طاقت ہوتی ہے۔ بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا مگر سب سے زیادہ محروم، قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے۔ مگر یہ دولت یہاں کے باسیوں کے لیے خوشحالی کی نوید کم اور مشکلات کا پہاڑ زیادہ ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ جس زمین کے نیچے اربوں ڈالر کے خزانے دفن ہوں، وہاں کے لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہوں؟ چاغی کے تپتے ریگستان میں واقع ریکوڈک کی زمین کے نیچے چھپے خزانے کی کہانی نے جہاں بین الاقوامی کمپنیوں کو اپنی طرف کھینچ لیا ہے، وہیں یہ مقامی لوگوں کے لیے ایک اور سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ جب 2022 میں پاکستان اور بیرک گولڈ کارپوریشن کے درمیان معاہدہ ہوا تو حکومتی بیانات میں یہ ظاہر کیا گیا کہ بلوچستان کواس کا 25 فیصد حصہ ملے گا۔ مگر بلوچ قوم پرست جماعتوں کا اعتراض تھا کہ یہ 25 فیصد محض ایک دکھاوا ہے، اصل منافع تو بیرونی کمپنیوں اور وفاقی حکومت کی تجوری میں جائے گا۔ اس منصوبے نے اس سوال کو جنم دیاہے کہ اگر بلوچستان کو واقعی 25 فیصد حصہ دیا گیا ہے، تو اس کا اثر مقامی ترقی پر کیوں نظر نہیں آتا؟ بلوچستان میں معدنی وسائل کا ایک اور مرکز سینڈک ہے، جہاں چینی کمپنی MCC (میتھالرجیکل کارپوریشن آف چائنا) سالانہ لاکھوں ٹن تانبہ، سونا اور چاندی نکال رہی ہے۔ 2022 میں یہاں سے تقریباً 400 ملین ڈالر کی برآمدات ہوئیں، مگر بلوچستان کے عوام کو اس سے کیا ملا؟ بلوچستان ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے مطابق سینڈک منصوبے میں 80 فیصد مزدوروں کا تعلق بلوچ قبائل سے نہیں، مقامی لوگوں کو زیادہ تر نچلے درجے کی نوکریاں دی گئی ہیں۔ اگر یہ بلوچستان کا خزانہ ہے تو پھر یہاں کے لوگوں کو اس خزانے سے خوشحالی کیوں نہیں مل رہی؟ بلوچستان کا ایک اوراہم اثاثہ سوئی گیس ہے۔ اوگرا (OGRA) کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل گیس پیداوار کا 45% بلوچستان سے حاصل ہوتا ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ خود بلوچستان کے 75% دیہاتی علاقے گیس کی سہولت سے محروم ہیں۔ یہ گیس پورے ملک کو توانائی فراہم کر رہی ہے، مگر بلوچوں کی سرزمین پر آج بھی لکڑیاں جلائی جارہی ہیں۔ بلوچستان میں کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جن میں چمالانگ، دُکی اور تربت کے کوئلہ فیلڈز قابلِ ذکر ہیں۔ بلوچستان مائننگ ڈیپارٹمنٹ کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق چمالانگ کوئلہ منصوبے سے 2 بلین ڈالر کا کوئلہ نکالا جا چکا ہے۔ پاکستان کا 70% ماربل بلوچستان سے حاصل ہوتا ہے اور دنیا بھر میں برآمد کیا جاتا ہے، مگر کیا اس رقم میں سے بلوچستان کے عوام کو بھی کچھ ملا؟ بلوچستان کی ترقی کے سب سے بڑے دعوے سی پیک اور گوادر بندرگاہ سے جڑے ہیں۔ 2015 میں جب پاکستان اور چین نے 62 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا، تو حکومت نے دعویٰ کیا کہ گوادر ترقی کا مرکز بنے گا۔ مگر حقیقت اس سے مختلف ہے۔ گوادر پورٹ 40 سال کے لیے چین کو لیز پر دے دی گئی اور یہاں سے ہونے والی آمدنی کا صرف 9 فیصد پاکستان کو ملے گا، جب کہ باقی چین لے جائے گا۔ کیا پاکستان کے لیے اتنا کم حصہ لینا واقعی ایک اچھا سودا تھا؟