پاکستان میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ: وجوہات، اثرات اور ممکنہ حل

پاکستان میں مہنگائی کے طوفان نے عوامی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے، حالیہ دنوں میں خوردنی تیل (Edible Oil) کی قیمتوں میں اضافے نے عام شہریوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ عالمی منڈی میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ، درآمدی اخراجات میں اضافے اور مقامی پالیسیوں کی وجہ سے یہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایسے میں بہت سے سوال اٹھتے ہیں جیسے خوردنی تیل کی قیمتیں کب کب اور کتنی بڑھیں؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ آئل ملز مالکان، عوام اور حکومت اس حوالے سے کیا کہہ رہے ہیں؟ اور ماہرین کا کیا موقف ہے؟ پاکستان میں خوردنی تیل کی قیمتیں وقتاً فوقتاً بڑھتی رہی ہیں، لیکن 2024 اور 2025 میں ان میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ اکتوبر 2024 میں گھی اور خوردنی تیل کی قیمت میں فی کلو 40 سے 50 روپے اضافہ ہوا۔ فروری 2025 میں خوردنی تیل کی قیمت میں مزید 10 روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوا، جو عوام کے لیے ایک اور بڑا دھچکا تھا۔ قیمتوں میں اضافے کی وجوہات میں عالمی منڈی میں پام آئل کی قیمت میں اضافہ، ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی، اور مقامی سطح پر پیداوار کم ہونا شامل ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر خوردنی تیل درآمد کیا جاتا ہے، خاص طور پر ملائیشیا اور انڈونیشیا سے پام آئل درآمد کیا جاتا ہے۔ 2024 کے آخر میں ملائیشیا میں خراب موسم اور سپلائی چین میں مسائل کی وجہ سے پام آئل کی پیداوار کم ہوئی جس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھ گئیں۔ پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور ڈالر کے مقابلے میں اس کی گرتی ہوئی حیثیت بھی خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بنی۔ چونکہ پاکستان خوردنی تیل درآمد کرتا ہے، اس لیے ڈالر مہنگا ہونے سے تیل کی درآمدی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان بزنس فورم کے صدر خواجہ محبوب نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ ماہ رمضان کے دوران کوکنگ آئل اور گھی کی ممکنہ قلت کا خدشہ ہے کیونکہ کسٹم کلیئرنس کے مسائل کی وجہ سے پورٹ قاسم پر تقربیاً 3 لاکھ ٹن پام آئل پھنسا ہوا ہے۔ صدر پاکستان بزنس فورم خواجہ محبوب الرحمن نے بتایا کہ نئے نافذ کیے گئے فیس لیس کسٹمز سسٹم نے خوردنی تیل کی کلیئرنس کو بری طرح متاثر کیا ہے جس سے ملک بھر میں سپلائی چین متاثر ہوئی ہے۔ کلیئرنس میں تاخیر کی وجہ سے پھنسے ہوئے جہازوں پر 50 سے 60 ڈالر فی ٹن ڈیمریج چارجز عائد ہورہے ہیں۔ خواجہ محبوب نے کہا ہے کہ یہی صورتحال رہی تو رمضان المبارک میں قیمتوں میں 25 سے 30 روپے فی کلو اضافہ ہوسکتا ہے۔ بناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق حکومت خوردنی تیل پر تقریباً 100 روپے فی کلو کے ٹیکس وصول کر رہی ہے جس سے قیمتیں مزید بڑھ گئی ہیں۔ دوسری جانب آئل ملز مالکان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت یہ ٹیکس کم کر دے تو قیمتوں میں نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں خوردنی تیل کی مقامی پیداوار انتہائی محدود ہے، جس کی وجہ سے درآمدات پر انحصار زیادہ ہے۔ اگر حکومت مقامی سطح پر خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے کے اقدامات کرے تو قیمتوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ آئل ملز مالکان کا مؤقف کہ عالمی سطح پر خام مال کی قیمتوں میں اضافے، روپے کی قدر میں کمی، اور حکومتی ٹیکسز کی وجہ سے قیمتیں بڑھانا ان کی مجبوری ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکسز میں کمی کرے اور کاروباری لاگت کم کرنے میں مدد فراہم کرے۔ پاکستان میں پہلے ہی مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر ہے اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے نے عام شہریوں کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ایک گھریلو خاتون نے تیل کی قیمت میں اضافے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ “پہلے ہی کھانے پینے کی چیزیں مہنگی تھیں، اب تیل بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو رہا ہے۔ سبزی پکانے کے لیے بھی ہمیں تیل کی مقدار کم کرنی پڑ رہی ہے۔” ایک دکاندار کے مطابق قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے گاہکوں نے خریداری کم کر دی ہے جس سے ان کے کاروبار پر بھی منفی اثر پڑا ہے۔ ادھر حکومت کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا اثر مقامی مارکیٹ پر بھی پڑتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے حالیہ اجلاس میں کہا کہ “ہم عوام پر بوجھ کم کرنے کے لیے سبسڈی دینے پر غور کر رہے ہیں، لیکن عالمی مارکیٹ کے حالات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔” اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC) نے وزارت صنعت اور قومی پرائس مانیٹرنگ کمیٹی سے اس مسئلے پر رپورٹ طلب کر لی ہے، تاہم عوام کو فوری طور پر ریلیف ملنے کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگر حکومت خوردنی تیل پر عائد ٹیکسز میں کمی کرے، درآمدی پالیسیوں کو بہتر بنائے اور مقامی سطح پر خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے کے منصوبے شروع کرے تو اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ اقتصادیات کے پروفیسر ڈاکٹر آصف کامران نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان میں مہنگائی کا ایک بڑا سبب درآمدی اشیا پر انحصار ہے۔ اگر حکومت زرعی شعبے میں اصلاحات لا کر خوردنی تیل کی مقامی پیداوار میں اضافہ کرے، تو ہمیں عالمی منڈی کے اتار چڑھاؤ پر کم انحصار کرنا پڑے گا۔” پاکستان میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجوہات میں عالمی منڈی میں قیمتوں کا بڑھنا، روپے کی قدر میں کمی، اور حکومتی پالیسی شامل ہیں۔ عوام مہنگائی کے اس بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، جبکہ آئل ملز مالکان حکومت کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ حکومت نے اس معاملے کا نوٹس لیا ہے لیکن فوری ریلیف کے امکانات کم نظر آ رہے ہیں۔ اگر حکومت بروقت اقدامات نہ کرے تو مستقبل میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، جس کے اثرات عام شہریوں اور ملک کی معیشت پر بھی مرتب ہوں گے۔

اسرائیلی وزیراعظم کا بیان توہین آمیز‘ پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان

انہوں نے کہا کہ انڈیا کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔

پاکستان نے اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے سعودی عرب میں فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہمیشہ کی طرح ریاض کے ساتھ کھڑا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ ترکیہ کے صدر نے قبرص کے معاملے پر پاکستان کی حمایت کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ترکیہ کے صدر کے دورے کے دوران 24 معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے۔ دورے کے دوران دونوں سربراہان مملکت کی سربراہی میں ترکیہ پاکستان اسٹرٹیجک کونسل کا ساتواں اجلاس بھی منعقد کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ترکیہ کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہیں۔ مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انڈیا کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اسرائیلی وزیراعظم کے حالیہ بیان کی مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کا بیان غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز ہے۔  ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سعودی عرب سے مکمل اظہار یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاض کے فلسطین پر غیر متزلزل مؤقف کو کمزور کرنے اور اس کے فلسطینی نصب العین کو غلط طریقے سے پیش کرنے کی کوئی بھی کوشش انتہائی افسوس ناک ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے گذشتہ ہفتے اسرائیلی ٹی چینل 14 کو ایک انٹرویو کے دوران فلسطینیوں کی خودمختاری کے کسی تصور کو مسترد کرتے ہوئے ان کے اپنے وطن کی بجائے سعودی عرب میں ایک فلسطینی ریاست قائم کرنے کی تجویز دی تھی۔  

LIVE ’پاکستان ہمارا دوسرا گھر ہے‘ ترک صدر، 24 معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط

ترک صدر رجب طیب اردوان، ترک خاتون اول کے ہمراہ دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے، پاکستان پہنچنے پر مہمانوں کا شاندار استقبال کیا گیا، صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف خود استقبال کے لیے پہنچے۔ ان کے ہمراہ اعلیٰ سطح کا وفد بھی ہے جس میں وزرا اور اعلیٰ حکام کے علاوہ کاروباری شخصیات شامل ہیں۔ پانچ برس بعد پاکستان کے اس دورے میں وزیراعظم شہباز شریف سمیت اعلیٰ سیاسی قیادت سے ان کی ملاقاتیں متوقع ہیں۔ دورے کے دوران وزیراعظم شہباز شریف اور صدر رجب طیب اردوان جمعرات کو پاک ترک اعلیٰ سطحی سٹریٹیجک کوآپریشن کونسل کے ساتویں اجلاس کی مشترکہ صدارت بھی کریں گے۔ اس سے قبل ہائی لیول سٹریٹیجک کونسل کا چھٹا اجلاس فروری 2020 میں ہوا تھا۔ اسلام آباد میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے صدر اردوان کے دورے سے متعلق ایک بیان میں کہا کہ ’پاک ترک سٹریٹیجک کوآپریشن کونسل کے اجلاس کے اختتام پر اہم معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط بھی متوقع ہیں۔ ‘جب کہ وزیراعظم شہباز شریف اور ترک صدر اردوان دورے کے اختتام پر مشترکہ پریس کانفرنس بھی کریں گے’۔ ’ترک صدر رجب طیب اردوان ترکی پاکستان بزنس سرمایہ کاری فورم سے بھی خطاب کریں گے۔‘ پاکستان ترکی سے ملجم پروجیکٹ کے تحت جنگی بحری جہاز خریدنے والا پہلا ملک ہے، جب کہ پاکستان ترکی سے آقنچی، بیرکتار اور ٹی بی ٹو جیسے ڈرونز بھی خرید چکا ہے۔ پاکستان، ترکی کا ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کان کا جوائنٹ وینچر بھی کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے اور دونوں ممالک ٹی ایف ایکس ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ کی پاکستان میں اسمبلی لائن قائم کرنے پر متفق ہو چکے ہیں۔ غزہ صورتحال پر او آئی سی کے ہنگامی اجلاس سے قبل  ترکی اور پاکستان کی ملاقات اہمیت کی حامل ہے۔ مزید پڑھیں:آزادی کی نوید سنانے والی آواز خاموش کیوں ہو رہی ہے؟ ترک صدر کی وزیر اعظم ہاؤس آمد، گارڈ آف آنر پیش کیا گیا پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان کی وزیراعظم ہاؤس آمد پر شاندار استقبال کیا گیا۔ وزیراعظم ہاؤس آمد پر شہباز شریف نے ترک صدراورخاتون اول کا پرتپاک استقبال کیا اور ان کے اعزاز میں سلامی بھی دی گئی، دونوں ممالک کے قومی ترانے بھی پیش کیے گئے۔  وزیراعظم شہباز شریف نے مہمان خصوصی کو وفاقی کابینہ کے اراکین سے فرداً فرداً ملاقات بھی کروائی۔ رجب طیب اردوان کی آرمی چیف سے ملاقات  بعد ازاں ترک صدر رجب طیب اردوان سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی ملاقات کی اور انہیں خوش آمدید کہا۔ اس کے علاوہ ترک صدر کو ایف سولہ طیاروں کی فارمیشن نے فلائی پاسٹ پیش کر کے معزز مہمان کو سلامی دی۔ گزشتہ روز رات دیر گئے ترک صدر خاتون اول اور سرمایہ کاروں اور تاجر رہنماؤں کے ہمراہ نور خان ائیر بیس پہنچے تھے جہاں صدر پاکستان آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کو 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی تھی۔

بااختیار خواتین اور صنفی امتیاز کا خاتمہ؟ حقیقت یا افسانہ

موجودہ دور میں خواتین کو با اختیار بنانے اور صنفی امتیاز کا خاتمہ کرنےکے لیے عالمی سطح پر بہت زیادہ پیش رفت ہوئی ہے، اقوامِ متحدہ کی طرف سے خواتین کے حقوق کے لیے چارٹر بنائے گئے اور عالمی سطح پر شعور اجاگر کیا گیا ہے۔ خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن (سی سی ڈی اے ڈبلیو)  بین الاقوامی برادری خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ پاکستان میں بھی حالیہ ایک عرصے میں خواتین کے حقوق میں نمایاں بہتری آئی ہے، خواتین تعلیمی و سیاسی میدان میں دیکھی گئی ہیں، مگر اس کےباوجود ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2023 کے مطابق صنفی امتیاز کے مکمل خاتمے کے لیے دنیا کو مزید 100 سال درکار ہیں۔ پاکستان میں تاریخی طور پر خواتین کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کی گئی ہیں، پاکستان میں 1973 کے آئین میں خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا گیا، مختلف قوانین خواتین کے تحفظ کا بل 2006 اور گھریلو تشدد کی روک تھام کا بل 2012 منظور کیے گئے۔ تعلیم، روزگار، سیاست اور معاشرت میں خواتین کا کردار بتدریج بڑھ رہا ہے، لیکن یہ پیش رفت محدود اور مخصوص طبقات تک محدود ہے۔ واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نے صنفی مساوات کے فروغ کے لیے مختلف قوانین اور پالیسیز متعارف کروائی ہیں۔ خواتین کے تحفظ کے لیے مخصوص قوانین اور کام کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔ ان سب اقدامات کے باوجود پاکستان میں خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے، جس کی بڑی وجہ ان قوانین پر مؤثر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی کی کمی اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں خواتین کا کردار خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جیساکہ بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ ‘کوئی بھی قوم اس وقت تک کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتی، جب تک اس کی خواتین ان کے شانہ بشانہ نہ ہوں۔’ اسی لیے اگر صنفی مساوات کا خواب حقیقت بنانا ہے تو  حکومت، سول سوسائٹی، میڈیا اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ مستقبل میں پاکستانی خواتین کے لیے بہتر امکانات پیدا کرنے کے لیے مؤثر قانون سازی، اس پر عملدرآمد اور معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ عمرانیات کی ڈاکٹر فرزانہ امجد نے بتایا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے شعور میں اضافہ ضرور ہوا ہے، لیکن عملی اقدامات ابھی بھی ناکافی ہیں۔ کئی شعبوں میں خواتین کی شرکت بڑھی ہے، مگر جاب مارکیٹ، پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں ان کا کردار محدود ہے، جسے مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ امجد کے مطابق صنفی امتیاز کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ روایتی سماجی نظریات اور پدرشاہی نظام ہے، جو خواتین کو محدود رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، تعلیم، معاشی مواقع اور قانونی عملدرآمد کی کمزوری بھی خواتین کو مساوی حقوق سے محروم رکھتی ہے۔ فرزانہ امجد نے کہا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی قوانین موجود ہیں، مگر ان پر مؤثر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ خواتین کے خلاف تشدد، ہراسانی، وراثت کے مسائل اور کم عمری کی شادی جیسے معاملات ابھی بھی سنجیدہ توجہ کے متقاضی ہیں۔ فرزانہ امجد کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرتی رویے خواتین کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں، کیونکہ اکثر خواتین کو گھر تک محدود رکھنے یا کمزور سمجھنے کی سوچ عام ہے۔ جب تک سماجی سطح پر خواتین کو مساوی حیثیت دینے کا رجحان پروان نہیں چڑھے گا، ترقی کے امکانات محدود رہیں گے۔ ماہرِتعلیم پروفیسر ڈاکٹر ثوبیہ ذاکر نے پاکستان میٹرز کو بتایا ہے کہ تعلیم اور معاشی خودمختاری ہی وہ دو عوامل ہیں جو خواتین کو خودمختار بنا سکتے ہیں۔ جب خواتین تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم ہوں گی، تو وہ اپنے حقوق کے لیے کھل کر بات کر سکیں گی اور معاشرے میں اپنی جگہ مضبوط کر سکیں گی۔ ڈاکٹر ثوبیہ ذاکر کے مطابق حکومت کو خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروانا ہوگا، تعلیمی اداروں اور دفاتر میں ہراسانی کے خلاف واضح اقدامات کرنا ہوں گے اور خواتین کے لیے خصوصی تربیتی و معاشی منصوبے متعارف کروانے ہوں گے تاکہ انہیں برابری کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ پروفیسر ثوبیہ ذاکر کہتی ہیں کہ شہری خواتین کو تعلیم اور ملازمتوں تک کچھ حد تک رسائی حاصل ہے، مگر دیہی خواتین صحت، تعلیم اور بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ حکومت کو دیہی خواتین کے لیے خصوصی تعلیمی اور معاشی منصوبے شروع کرنے چاہئیں، تاکہ وہ بھی ترقی کے سفر میں شامل ہو سکیں۔ نجی نشریاتی ادارے دنیا کے اینکر پرسن اسامہ عبید نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں کچھ مثبت اقدامات ضرور کیے جا رہے ہیں، لیکن مجموعی طور پر میڈیا اب بھی روایتی صنفی امتیاز کو فروغ دیتا ہے۔ اشتہارات، ڈرامے اور خبروں میں خواتین کو اکثر کمزور، مظلوم یا روایتی کرداروں میں دکھایا جاتا ہے، جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔

’عمران خان کا خط کمیٹی کو بجھوا دیا، وہی اسے دیکھے گی‘ چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے ایک اہم بریفنگ میں آئی ایم ایف وفد سے ملاقات، عدلیہ کی آزادی، عدالتی اصلاحات، عمران خان اور شہباز شریف کے خطوط، سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری، اور پشاور ہائی کورٹ کے ججز کے تحفظات سمیت اہم معاملات پر گفتگو کی ہے۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے انکشاف کیا کہ انہوں نے آئی ایم ایف کے 6 رکنی وفد سے ملاقات کی، جس میں عدلیہ کی آزادی، عدالتی اصلاحات اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے تحفظ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔   آئی ایم ایف وفد نے سوال کیا کہ اگر بیرونی سرمایہ کاری آتی ہے تو کیا وہ محفوظ ہوگی؟ جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور ہمیں آپ کی مدد درکار ہوگی۔   وفد کو عدالتی ریفارمز اور نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے ایجنڈے سے آگاہ کیا گیا۔ آئی ایم ایف نے پراپرٹی رائٹس کے تحفظ سے متعلق اپنی تجاویز دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس پر اصلاحات کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ہم نے آئین کے تحت عدلیہ کی آزادی کا حلف اٹھا رکھا ہے اور ہمارا کام نہیں کہ ہم آئی ایم ایف کو ہر معاملے کی تفصیل دیں۔ انہوں نے آئی ایم ایف وفد کو بتایا کہ عدلیہ کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) کی ضرورت ہوگی تاکہ انصاف کی فراہمی مزید مؤثر بنائی جا سکے۔ ہائیکورٹس میں جلد سماعت کے لیے خصوصی بینچز بنانے کی تجویز بھی دی گئی۔ عمران خان اور شہباز شریف کے خطوط پر مؤقف چیف جسٹس نے تصدیق کی کہ انہیں سابق وزیراعظم عمران خان اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف دونوں کے خطوط موصول ہوئے ہیں۔ عمران خان کا خط آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اور اسے ججز پر مشتمل آئینی کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔ عمران خان نے اپنے خط کے ساتھ ایک یو ایس بی میں شواہد بھی فراہم کیے ہیں، جس کا جائزہ لیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے مختلف شخصیات کے خطوط موصول ہوتے ہیں، مگر ہر خط کا جواب دینا ممکن نہیں ہوتا۔ وزیراعظم شہباز شریف کے خط پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے اٹارنی جنرل کے ذریعے وزیراعظم کو سلام کا پیغام بھجوایا، مگر خط کا جواب نہیں دیں گے۔ وزیراعظم کو کہا گیا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ آئیں تاکہ عدالتی اصلاحات پر بات ہو سکے۔ عدالتی اصلاحات اور ججز کے خدشات چیف جسٹس نے بتایا کہ انہوں نے حکومت اور اپوزیشن دونوں سے عدالتی اصلاحات کے لیے ایجنڈا مانگا ہے۔ قائد حزب اختلاف سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، جو بڑی مشکل سے ممکن ہوا۔ ججز کو ہدایت دی گئی کہ سسٹم کو چلنے دیں اور کسی بھی وجہ سے اسے روکیں نہیں۔ میرے بھائی ججز جو کارپوریٹ کیسز سن رہے تھے، وہ آج کل کیسز نہیں سن رہے، یہ مسئلہ حل ہونا چاہیے۔ پشاور ہائی کورٹ کے ججز اور عدالتی بحران چیف جسٹس نے پشاور ہائی کورٹ میں ججز کے تحفظات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کل ججز بائیکاٹ نہ کرتے تو سنیارٹی میں دوسرے نمبر کے جج سپریم کورٹ آتے، نہ کہ چوتھے نمبر کے، پشاور ہائی کورٹ کے تمام ججز کو ایک ساتھ بلا کر بات کی تھی، تمام ججز نے کہا جو بھی سپریم کورٹ آئے، انہیں اعتراض نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ اگر چوتھے نمبر کے جج کو ووٹ نہ دیتا تو وہ بھی سپریم کورٹ میں نہ آ سکتے، کل بائیکاٹ کرنے والے ججز کو کہا تھا کہ کچھ دیر انتظار کریں، 26 اکتوبر کو حلف لیا اور ہائی کورٹ کے چھ ججز کو اپنے گھر بلایا، ان کا خط اب ایجنڈا نمبر ون ہے، جیلوں میں جاتا ہوں تو لوگ مجھے قصوروار سمجھتے ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا ہے آئندہ ہفتے سے دو مستقل بنچ صرف فوجداری مقدمات سنیں گے، ججز ہوں گے تو ہی بنچز بنا سکوں گا، سپریم کورٹ میں نئی تقرریاں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا نیا چیف جسٹس چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے لیے زیر غور آ سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ججز کی تقرریوں میں شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنایا جائے گا۔

” آرمی چیف کے نام خط ملک کی بہتری کے لیے لکھا تھا” عمران خان کی اڈیالہ جیل میں وکلاء اور میڈیا سے گفتگو

سابق وزیرِاعظم و بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اڈیالہ جیل میں وکلاء اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آٹھ فروری کو ملک بھر بشمول پنجاب، سندھ اور صوابی میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے پر عوام کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ آرمی چیف کے نام خط ملک کی بہتری کے لیے نیک نیتی سے لکھا تھا۔ اڈیالہ جیل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ اس ننگی فسطائیت کے دور میں بھی عوام ہر مرتبہ میری کال پر خوف کے بت توڑ کر نکلتی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قوم اب ہر حال میں حقیقی آزادی کی منتظر ہے۔ اردلی حکومت اندر سے ڈری ہوئی ہے۔ ملک بھر میں چھاپے مارے گئے اور لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔” بانی پی ٹی آئی کا کہنا  تھا کہ ” کرکٹ کا بہانہ بنا کر ہمیں مینار پاکستان جلسے کی اجازت نہیں دی گئی، اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کھوکھلی حکومت اندر سے کس قدر بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔” عمران خان نے آرمی چیف کو لکھے گئے خط کی وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے آرمی چیف کے نام خط ملک کی بہتری کے لیے نیک نیتی سے لکھا تھا۔ یہ میرا ملک ہے اور مجھے اس کی فکر ہے۔ میں ڈی جی آئی ایس پی آر کو کہنا چاہتا ہوں کہ فوج کی ساکھ مکمل طور پر تباہ ہو رہی ہے۔ آپ کہتے تو یہ ہیں کہ ہم سیاست میں مداخلت نہیں کرتے مگر بچہ بچہ واقف ہے کہ ملک کا نظام آرمی چیف ہی چلا رہا ہے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ اور چیئرمین پی سی بی محسن نقوی پر تنقید کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ملک پر محسن نقوی جیسے ٹاوٹس مسلط کر دئیے گئے ہیں، جس نے کبھی کونسلر کا انتخاب نہیں لڑا، مگر اب وہ کرکٹ سے لے کر خارجی اور داخلی معاملات تک ہر چیز کا کرتا دھرتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ ملک میں ہر جانب جبر و فسطائیت کا بازار گرم ہے۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کی خودمختاری کا جنازہ نکال دیا گیا۔ قاضی فائز عیسیٰ تاریخ کے جانبدار اور بے شرم ترین چیف جسٹس تھے، جن کا کردار جسٹس منیر سے بھی زیادہ گھناونا تھا۔ ان کے دور میں جمہوریت پر شب خون مارا گیا، انسانی حقوق بری طرح پامال ہوئے، مگر انہوں نے بجائے کوئی ایکشن لینے کے، ہر غیر قانونی اقدام کی سہولت کاری کی۔ سابق وزیرِاعظم نے کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق دونوں بری طرح پامال ہیں۔ انتخابات کے نام پر ڈھونگ رچا کر عوام سے ان کا مینڈیٹ چھینا گیا۔ چیف  الیکشن کمشنر اور قاضی فائز عیسیٰ اس سب میں اسٹیبلشمنٹ کے سہولت کار بنے رہے۔ ان دونوں چہروں نے اپنے عہدوں اور عوام سے غداری کی۔ اس سب کے نتیجے میں جعلی ایم این ایز، جعلی پارلیمان جعلی وزیراعظم اور جعلی صدر کا وجود عمل میں آیا ہے۔ موجودہ عدالتی نظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کا کام اب آئینی بینچ سے لیا جا رہا ہے۔ملک کو بنانا ریپبلک بنا دیا گیا ہے۔ ججز کا یہ فرض ہوتا ہے کہ دو طرفہ مؤقف سنا جائے، مگر یہاں ایک ہی طرف کا مؤقف سن کر فیصلے سنا دئیے جاتے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے جسٹس یحیٰ آفریدی کا نام لیتے ہوئے کہا کہ وہ یحیٰ آفریدی  کو خصوصی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جو ملک میں انسانی حقوق اور قانون کا حال ہے، آپ کو اس کے خلاف کھڑے ہو کر تاریخ میں سرخرو ہونا چاہیئے اور قاضی عیسیٰ جیسا شرمناک کردار ادا نہیں کرنا چاہیئے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ پیکا کے کالے قانون کے ذریعے میڈیا اور سوشل میڈیا کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔انٹرنیٹ کا جو حال کیا گیا، وہ سب کے سامنے ہے۔معیشت کو 1.7 بلین ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔ملک میں برین ڈرین تیزی سے جاری ہے۔17 لاکھ افراد بیرون ملک منتقل ہو چکے ہیں۔معاشی تباہی اور بے روزگاری سے پوری قوم پریشان ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 9 مئی اور 26 نومبر پر کمیشن کا مطالبہ اسی لیے کیا تھا کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ مذاکرات صرف ایک ڈرامہ ہیں۔ آٹھ فروری پر کمیشن بنانا تو ان کے بس کی بات ہی نہیں تھی۔ اگر ان کی نیت صاف ہوتی تو 9 مئی اور 26 نومبر پر کمیشن بنا کر دودھ کا دودھ پانی کا پانی کرتے، کیونکہ یہ انسانی حقوق سے متعلق معاملات تھے اور فوری طور پر ان پر ایکشن لیا جا سکتا تھا، مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ سابق وزیرِاعظم کا کہنا تھا کہ 26 نومبر کو اسٹیبلشمنٹ نے گولیاں چلوا کر نہتی عوام کا قتل کیا۔ملک کے سب سے بڑے منی لانڈررز کو قوم پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ 30 سال سے خفیہ ایجنسیاں ہمیں بتا رہی تھیں کہ ملک کو ان دو خاندانوں نے کس طرح لوٹا۔ سرے محل اور مے فئیر فلیٹس کی فائلیں انہوں نے ہمیں خود دکھائیں۔ اس کے علاوہ  نیب نے 1100 ارب ریکور کرنے تھے۔ ہمارے دور میں 480 ارب ریکور کیے گئے کیونکہ ہم احتساب کو لے کر سنجیدہ تھے، جب کہ پچھلے 17 سال میں صرف 80 سے 90 ارب ہی اکٹھے ہو سکے۔ نیب ترامیم کر کے ان دو خاندانوں کے تمام مقدمات بند کر دیے گئے۔ مقصود چپڑاسی، مے فئیر، ون ہائیڈ پارک میں رشوت، اومنی گروپ سمیت تمام مقدمات بند کر دیے گئے۔ ہمیں خود ہی بتایا گیا کہ یہ لوگ کرپٹ ہیں اور اب دھاندلی کے ذریعے ان کو ہم پر مسلط کر دیا گیا، صرف اس لیے کیونکہ بوٹ پالشی ان کی مہارت ہے۔ پاکستان کی عوام جن چہروں کو مسترد کر چکی ہے ان کو حکومت دے کر فوج نے اپنی ساکھ تباہ کر لی ہے اور عوام میں نفرت پیدا کی ہے۔ اس جعلی نظام کی بقاء صرف تحریک انصاف کو کچلنے اور ہمارے لوگوں کو جیلوں میں رکھنے میں ہے، تاکہ

ٹرمپ نے خلیج میکسیکو کو خلیج امریکا قرار دینے کے اعلامیے پر دستخط کر دیے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خلیج میکسیکو کو خلیج امریکا قرار دینے کے اعلامیے پر دستخط کر دیے۔ انہوں نے یہ اعلان خلیج میکسکو جاتے ہوئے جہاز میں کیے جس  کے بعد جہاز میں بھی اس کا اعلان کیا گیا۔ اس پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ” یہ بہت اچھا اقدام ہے”۔ یاد رہے کہ ٹرمپ کے اس اقدام سے پہلے ہی گوگل میپس پر خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کر کے خلیج امریکا کر دیا گیا تھا۔ ٹرمپ نے اپنی صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی کہا تھا کہ وہ خلیج میکسیکو کو خلیج امریکا کا نام دے دیں گے۔ ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کے دن ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے جس کے تحت محکمہ داخلہ کو 30 دن کے اندر وہ تمام مناسب اقدامات کرنے کی ہدایت دی گئی جو نام کی تبدیلی کے لیے ضروری ہوں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے محکمہ داخلہ نے جمعے کے روز اعلان کیا تھا کہ اس نے خلیج میکسیکو کا نام بدل کر “خلیج امریکا” رکھا ہے، اور الاسکا کی بلند ترین چوٹی “ڈینالی” کا نام پھر سے “ماؤنٹ میک کینلے” رکھ دیا ہے۔ گوگل میپس، جو الفابیٹ (جی او جی ایل) کے تحت ہے، ان تبدیلیوں کو اپنے نقشوں میں بھی شامل کرے گا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد یہ نام تبدیل کرنے کا حکم دیا تھا۔ امریکی محکمہ داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ صدر کی ہدایات کے مطابق “خلیج میکسیکو” اب باضابطہ طور پر “خلیج امریکا” کہلائے گا اور شمالی امریکا کی بلند ترین چوٹی کا نام ایک بار پھر ماؤنٹ میک کینلے رکھا جائے گا۔ میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بام نے اس ماہ کے آغاز میں مذاق میں تجویز دی تھی کہ شمالی امریکا کا نام بدل کر “میکسیکن امریکا” رکھ دینا چاہیے۔ گوگل کے ترجمان نے خبر رساں ادارے ’روئٹرز‘ کو بتایا کہ کمپنی اپنے نقشوں میں مقامی روایات کے مطابق ناموں کا استعمال کرتی ہے۔ اس طرح، جاپان اور جنوبی کوریا کے قریب سمندری پانی کو “بحیرہ جاپان (مشرقی بحیرہ)” کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ 2012 میں ایران نے گوگل پر دباؤ ڈالا تھا اور گوگل کے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ جب گوگل نے “خلیج فارس” کا نام اپنے نقشے سے ہٹا دیا تھا اور ایران اور جزیرہ نما عرب کے درمیان سمندر کا نام نہیں دیا تھا۔ اب وہ پانی “خلیج فارس (خلیج عرب)” کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ گلف یا خلیج سمندر کے اس حصے کو کہتے ہیں جو تین جانب سے خشکی سے گھرا ہو اور اس میں داخلے کا راستہ بھی ہو۔ عام طور پر خلیج میں داخلے کا راستہ تنگ ہوتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ‘سکوں’ کی پیداوار بند کرنے کی ہدایت کردی، ایسا کیوں ہوا؟

نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز (اتوار) اعلان کیا کہ انہوں نے سیکرٹری خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کو ہدایت جاری کر دی ہے کہ وہ پینیز (چھوٹے سکے یا سینٹ) کی پیداوار روک دیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت کے بعد خاص طور پر ‘پینی’ کی تیاری کو روکا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مشکل فیصلہ اس لئے کیا گیا کیونکہ ایک پینی کی تیاری پر خرچ ہونے والی لاگت ایک فیصد سے زیادہ ہے جو کہ امریکی عوام کے پیسوں کے ضیاع کا سبب ہے۔ گزشتہ روز ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں صدر ٹرمپ نے لکھا کہ “ہمیں اپنے عظیم ملک کے بجٹ سے فضول اخراجات کو نکالنا ہے چاہے وہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو۔” انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے کئی دہائیوں تک ان سکوں کی تیاری پر پیسہ خرچ کیا ہے۔ ایک پینی (سینٹ) پر خرچ دو سینٹ سے تجاوز کر گیا ہے۔ ایلون مسک کے ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی نے بھی اس معاملے پر توجہ دی تھی اور سوشل میڈیا پر اس کی خرابیوں کا ذکر کیا تھا۔ گزشتہ ماہ سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری کردہ اپنے پیغام میں ایلون مسک نے واضح طور پر کہا تھا کہ ایک سینٹ (سکے) کی تیاری کے اخراجات ناقابل قبول ہیں اس لیے اس کی پیداوار کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ 2023 میں امریکی منٹ نے بھی رپورٹ کیا تھا کہ امریکا نے تقریباً 4.1 بلین سکے بنائے تھے جن میں سے زیادہ تر ‘پینی’ تھے۔ اسی طرح مالی سال 2024 میں ‘پینی’ کی تیاری پر 3.7 سینٹ لاگت آئی، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 20 فیصد زیادہ ہے۔ اس اضافے کی بنیادی وجہ زنک اور تانبے جیسی دھاتوں کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ جس کے باعث ‘پینی’ کی تیاری مزید مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ نیویارک ٹائمز میگزین کی گزشتہ برس کی ایک رپورٹ میں سکے کی پیداوار کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طویل عرصے سے یہ سکے امریکی معیشت کے لئے ایک بوجھ بن چکے ہیں۔ اب انہیں ختم کرنا ضروری ہو چکا ہے۔ دوسری جانب بروکنگ انسٹیٹیوشن کی ایک رپورٹ نے بھی یہ تجویز پیش کی تھی کہ نہ صرف ‘پینی’ بلکہ نکل کے سکے کی پیداوار بھی روکی جائے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی حکومت کو اپنے مالی وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنا چاہیے اور ان سکے کی تیاری پر پیسہ ضائع کرنے سے بچنا چاہیے۔ امریکی صدر جکے اس اقدام سے ایک بڑی بحث شروع ہو سکتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی چھوٹے سکوں کی پیداوار بند کر دینا ایک معقول فیصلہ ہے؟ اس سے حکومت کی مالی بچت میں اضافہ ہو گا یا پھر یہ صرف ایک علامتی فیصلہ ثابت ہوگا؟ اس وقت امریکا اور دنیا بھر میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ ٹرمپ کے اس فیصلے سے واقعی مالی وسائل کی بچت ہو سکے گی یا یہ محض ایک سیاسی اقدام بن کر رہ جائے گا۔ لیکن امریکی عوام اور سیاستدان اس فیصلے کو بہت دھیان سے دیکھ رہے ہیں اور اس کے طویل المدتی اثرات کا تجزیہ کر رہے ہیں۔

کیا دالیں گوشت جتنی توانائی رکھتی ہیں؟

سائنس کی ترقی کی بدولت دنیا میں جہاں انسان نے تمام مسائل پر قابو پایا ہے، وہیں نت نئی ابھرنے والی بیماریوں نے انسان کو ذہنی کشمکش میں ڈال دیا ہے۔ ان بڑھتی ہوئی تبدیلیوں کی بدولت دنیا بھر میں خوراک کے رجحانات میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں اور پاکستان بھی ان تبدیلیوں سے مستثنیٰ نہیں رہ سکا۔ تیزی سے بدلتی ہوئی طرزِ زندگی، صحت کے بڑھتے ہوئے خدشات، جانوروں کی ختم ہوتی نسل، بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور مہنگائی کی وجہ سے لوگ گوشت کی بجائے دالوں پر انحصار کرنے لگے ہیں، جس کی وجہ سے ایک اہم سوال نے جنم لیا ہے کہ کیا دالیں واقعی پروٹین کا بہترین متبادل ہیں یا پھر محض یہ ایک غذائی انتخاب ہے؟ انسانی جسم کے لیے پروٹین ایک بنیادی جزو ہے، جو پٹھوں کی مضبوطی، مدافعتی نظام کو بہتر بنانے اور خلیوں کی نشوونما میں مدد دیتا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ پروٹین کا سب سے مؤثر ذریعہ گوشت ہے، لیکن غذائی ماہرین کہتے ہیں کہ دالوں میں پروٹین کے ساتھ فائبر، آئرن اور دیگر ضروری وٹامنز بھی پائے جاتے ہیں، جو انسانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہیں، اس لیے گوشت کی نسبت دالیں بہترین متبادل ہیں۔ ‘پاکستان میٹرز’ کو غذائی ماہر ڈاکٹر انجم اکبر نے بتایا ہے کہ ”اگرچہ دالیں کم چکنائی والے پروٹین اور معدنیات کی بھرپور فراہمی کا ذریعہ ہیں، مگر یہ گوشت کے تمام غذائی اجزاء کا مکمل متبادل نہیں بن سکتیں، کیونکہ گوشت میں پائے جانے والے اجزاء دالوں میں اتنی مقدار میں نہیں پائے جاتے، لیکن  ایک متوازن غذا میں دالوں کو شامل کر کے گوشت کی مقدار کو کم کیا جا سکتا ہے۔” پاکستان میں گوشت کی بجائے دالوں کا کثرت سے استعمال اس لیے نہیں کیا جاتا  کہ یہ گوشت کے متبادل ہے، بلکہ یہ گوشت کی نسبت سستی ملتی ہیں، تو سفید پوش طبقے کی ایک بڑی تعداد اکثر دالوں پر گزارہ کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک  ترقی پذیر ملک ہے، جہاں مہنگائی عروج پر ہے اور گوشت ہر شہری کی قوتِ خرید میں نہیں، جس کی بدولت  دالیں ایک سستا اور غذائیت سے بھرپور متبادل بنتی جا رہی ہیں۔ دنیا بھر میں دالوں کے استعمال کی ایک اور وجہ دالوں میں پروٹین کے ساتھ ساتھ فائبر، آئرن، کیلشیم اور مختلف وٹامنز کا پایا جانا ہے،  جو جسمانی صحت کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ واضح رہے کہ ایک کپ دال میں تقریباً 15-18 گرام پروٹین پایا جاتا ہے، جو اسے گوشت کے قریب ترین پروٹین کا ذریعہ بناتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے غذائی ماہرِ ڈاکٹر فہد سلیمان نے کہا ہے کہ ” پروٹین حاصل کرنے کے لیے دالوں کے علاوہ انڈے، دہی، گری دار میوے اور بیجوں کو بھی خوراک میں شامل کرنا ضروری ہے ،تاکہ جسم کے لیے ضروری تمام امائنو ایسڈز کو پورا کیا جا سکے۔” خیال رہے کہ گوشت میں پائے جانے والے پروٹین میں تمام ضروری امائنو ایسڈز شامل ہوتے ہیں، جب کہ دوسری جانب دالوں میں بعض امائنو ایسڈز کی کمی ہوتی ہے، اسے لیے کہا جاتا ہے کہ متوازن غذا صحت کے لیے انتہائی ضروری ہے اور اسے روزانہ کی بنیاد پر کھایا جائے۔ دالوں پر کی جانے والی مختلف تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دالیں دل  کے لیے بے حد مفید ہیں،  اس کی وجہ یہ ہے کہ دالوں میں فائبر اور کم چکنائی پائی جاتی ہے، جس سے یہ کولیسٹرول لیول کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں اور ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتی  ہیں۔ دالوں کا استعمال محض صحت بڑھانے کے لیے ہی نہیں، بلکہ وزن کم کرنے میں بھی مددگار  ہے، ایسا اس لیے ہے کیونکہ دال کھانے سے  دیر تک پیٹ بھرے رہنے کا احساس ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بندہ کم کھاتا ہے۔ ڈاکٹر فہد سلیمان کے مطابق دالوں کو سبزیوں، دودھ کی مصنوعات اور مکمل اناج کے ساتھ کھانے سے متوازن غذا حاصل کی جا سکتی ہے، جو صحت کے لیے زیادہ مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ دالیں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بھی مفید مانی جاتی ہیں، کیونکہ ان میں کم گلیسیمک انڈیکس پایا جاتا ہے، جو بلڈ شوگر لیول کو مستحکم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ جانوروں کے گوشت کے زیادہ استعمال سے کولیسٹرول بڑھنے کا خدشہ، ہائی بلڈ پریشر اور دیگر امراض ہونے خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ دالوں کا زیادہ استعمال بیماریوں سے بچاؤ میں بھی مددگار ہے۔ ڈاکٹر انجم اکبر کے مطابق دالوں میں پودوں سے حاصل شدہ پروٹین ہوتا ہے، جو فائبر سے بھرپور اور ہاضمے کے لیے مفید ہے، اس کے برعکس گوشت میں موجود پروٹین جانوروں سے حاصل ہوتا ہے، جو بعض اوقات زیادہ چکنائی اور کولیسٹرول کا باعث بن سکتا ہے۔ یاد رہے کہ دالوں کے زیادہ مقدار میں استعمال سے بعض افراد میں معدے کی تکلیف، گیس اور ہاضمے کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جہاں ہر چیز کے زیادہ استعمال سے فوائد ملتے ہیں، وہیں اس کے نقصانات بھی ہوتے ہیں، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہر چیز کو ضرورت کے مطابق متوازن مقدار میں استعمال کیا جائے۔ دالیں گوشت کی نسبت سستی اور مفید ہیں، مگر پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے میں ان کی مقدار میں کمی آئی ہے، جس کی وجہ سے ان کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ ڈاکٹر فہد سلیمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دالوں کی پیداوار میں کمی، کاشتکاری کے جدید طریقوں کی عدم دستیابی اور درآمدات پر انحصار بڑے مسائل ہیں، جنہیں بہتر پالیسیوں کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب ڈاکٹر انجم اکبر نے دالوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دالوں کے زیادہ استعمال سے گوشت کی پیداوار میں کمی ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بھی کمی آئے گی، جو ماحولیاتی تحفظ کے لیے مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں دالوں کا استعمال خوراک کا لازمی جزو ہے، مگر گزشتہ چند دہائیوں میں گوشت کا استعمال کچھ حد تک بڑھ گیا تھا، جس کی وجہ سے مسائل بھی دیکھے گئے، مگر حالیہ ہونے والی

پسند کے ہمسفر کی تلاش میں بوڑھے ہوتے نوجوان

پاکستان میں آج کے نوجوان اپنی پسندیدہ زندگی کے ساتھی کو تلاش کرنے میں اتنے بے چین ہیں کہ عمر کے ایک مخصوص حصے میں پہنچ کر بھی ان کی شادی نہیں ہو پاتی۔ نوجوانوں کے لیے شادی ایک نہ ختم ہونے والا مسئلہ بنتا جا رہا ہے جس میں ایک طرف معاشرتی دباؤ، مذہبی مسائل اور والدین کی مداخلت رکاوٹ بنتے ہیں، تو دوسری طرف جہیز کے مطالبات اور اقتصادی مشکلات بھی اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتی ہیں۔ کیا موجودہ معاشی اور سماجی حالات کے پیش نظر نوجوانوں کی شادی میں حائل رکاوٹوں کو کم کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟ یونیورسٹی آف اوکاڑہ کے شعبہ سماجی تعلیم کی پروفیسر ڈاکٹر عائشہ افتخار نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نوجوانوں کی شادی میں حائل رکاوٹوں اور ان کے پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ “نوجوانوں کی شادی میں رکاوٹوں کو کم کرنے کے لیے سادہ شادیوں کو فروغ دینا اور جہیز جیسی غیر ضروری روایات کا خاتمہ ضروری ہے۔ حکومت کو روزگار کے مواقع بڑھانے اور شادی کے اخراجات میں معاونت کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ یہ مسئلہ حل ہو سکے۔” پاکستان میں نوجوانوں کی شادی کے معاملے پر فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ والدین روایات کے مطابق اپنے بچوں کے لیے شریک حیات کا انتخاب کرتے ہیں، جبکہ نوجوان اپنی پسند کو ترجیح دیتے ہیں۔ ماہر عمرانیات ڈاکٹر حسان علی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے روایات اور نوجوانوں کی ذاتی پسند سے متعلق کہا کہ “والدین اور نوجوانوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کھلی گفتگو اور باہمی اعتماد ضروری ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی پسند کو سمجھیں جبکہ نوجوان روایات اور خاندانی اقدار کا احترام کریں تاکہ ایک متوازن فیصلہ ممکن ہو سکے۔” اس کشمکش میں والدین کی مداخلت اہم ہے لیکن ساتھ ہی نوجوانوں کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ معاشی مسائل اور جہیز کا مطالبہ ان رکاوٹوں کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ ان سب عوامل کا اثر نوجوانوں کی زندگیوں پر کس طرح پڑ رہا ہے؟ بہت سے نوجوان اپنی زندگی کے درمیانی حصے میں پہنچ کر بھی ازدواجی زندگی کی طرف قدم نہیں بڑھا پاتے، اور یہ صورتحال مسلسل پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر عائشہ افتخار کے نزدیک “معاشی عدم استحکام اور مہنگائی کے باعث نوجوانوں کے لیے شادی کرنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اس پر جہیز کے غیر ضروری مطالبات مزید دباؤ ڈال دیتے ہیں، جس کی وجہ سے کئی خاندان اپنی بیٹیوں کی شادی میں تاخیر پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے سماجی رویوں میں تبدیلی اور سادگی کو فروغ دینا ضروری ہے۔” پاکستان میں شادی کے حوالے سے معاشرتی توقعات بہت زیادہ ہیں۔ والدین اور خاندان کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکا یا لڑکی اپنے خاندان کی عزت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک روایتی طریقے سے شادی کرے۔ اس کے باوجود نوجوان اپنی پسند کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن معاشرتی اور ثقافتی روایات کی وجہ سے اکثر ان کے انتخاب کو خاندان کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں والدین کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے اکثر نوجوان اپنے والدین کے منتخب کردہ شریک حیات کو ترجیح دیتے ہیں جو کہ ان کی ذاتی پسند کے برعکس ہو سکتی ہے۔ یہ دباؤ ان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالتا ہے اور انہیں اپنی زندگی کے اہم ترین فیصلے میں الجھن میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ افتخار کا کہنا ہے کہ “پاکستانی معاشرے میں خاندانی نظام اور ثقافتی روایات کا گہرا اثر ہے جس کی وجہ سے والدین اکثر اپنی مرضی کو ترجیح دیتے ہیں۔ پسند کی شادی کو خاندانی وقار اور روایات کے خلاف سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے مخالفت جنم لیتی ہے۔ اس رویے میں تبدیلی کے لیے مکالمے اور شعور کی بیداری ضروری ہے۔” مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسلام میں پسند کی شادی کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اس میں شرعی اصولوں کی پابندی ضروری ہے۔ نوجوانوں کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ اپنے شریک حیات کا انتخاب کرتے وقت دین داری، اخلاقیات اور اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھیں۔ تاہم معاشرتی روایات اور خاندان کی طرف سے شرعی حدود کی صحیح رہنمائی کا فقدان نوجوانوں کے لیے ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ معاشی مشکلات بھی اس مسئلے میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ مالی دباؤ شادی کے عمل کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ ڈاکٹر حسان علی کا کہنا ہے کہ “اسلام میں نکاح کو آسان بنانے پر زور دیا گیا ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں معاشی مسائل اور غیر ضروری رسومات نے شادی کو مشکل بنا دیا ہے۔ مہنگائی، روزگار کی کمی، اور جہیز جیسی روایات نوجوانوں کے لیے مشکلات کھڑی کرتی ہیں۔ دوسری جانب اسلام سادگی اور برابری پر مبنی نکاح کا درس دیتا ہے۔” جہیز کا مسئلہ اس سارے معاملات کو مزید پیچیدہ بناتا ہے۔ جہیز کی بڑھتی ہوئی مانگ نے نوجوانوں کی شادی میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ والدین کی طرف سے بڑی رقم، زیورات، اور گاڑی کا تقاضا کیا جاتا ہے، جو اکثر خاندانوں کے لیے مالی طور پر ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے کئی لڑکے اور لڑکیاں اپنی پسند کی شادی مؤخر کر دیتے ہیں۔ اس صورتحال نے ازدواجی زندگی کے آغاز کو ہی مشکل بنا دیا ہے۔ اس پورے معاملے میں بہت سے عوامل شامل ہیں جیسے معاشرتی توقعات، والدین کا دباؤ، اور اقتصادی مشکلات وہ مسائل ہیں جو نوجوانوں کی شادی میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ڈاکٹر حسان علی کے مطابق “ہمارے معاشرے میں والدین کی اعلیٰ توقعات، مالی دباؤ اور مثالی رشتہ تلاش کرنے کی کوشش شادی میں تاخیر کا باعث بنتی ہے۔ اس مسئلے کا حل سادگی کو فروغ دینا، جہیز کی حوصلہ شکنی کرنا، اور نوجوانوں کو معاشی طور پر خودمختار بنانے میں مدد دینا ہے تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں۔” اس حوالے سے ڈاکٹر عائشہ افتخار کا کہنا ہے کہ “ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ جہیز کی لعنت کا خاتمہ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ شادی ایک خوبصورت اور