پنجاب میں پتنگ بازی پر مکمل پابندی: ثقافتی روایت کا خاتمہ یا عوامی حفاظت ہے؟

پاکستان کے سب سے زیادہ آباد صوبے پنجاب نے بسنت کے ہزاروں سالہ تہوار کے دوران پتنگ بازی پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عوامی حفاظت کے پیش نظر کیا گیا ہے جبکہ نقادوں کا ماننا ہے کہ یہ ایک اہم ثقافتی تہوار کی خلاف ورزی ہے جسے پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ حکام نے کہا ہے کہ پچھلے چند برسوں میں پتنگ بازی کے دوران تیز دھار دھاگوں، خاص طور پر شیشے اور دھاتی کوٹڈ دھاگوں کی وجہ سے متعدد افراد کی اموات اور زخمی ہونے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ ان دھاگوں کی زد میں آ کر درجنوں لوگ جان کی بازی ہار گئے، اور کچھ کی موت برقی تاروں سے لگنے والی کرنٹ کی وجہ سے ہوئی۔ ان تمام واقعات نے حکومت کو سخت فیصلے پر مجبور کیا۔ پنجاب اسمبلی نے 2024 میں پنجاب پروہبیشن آف کائٹ فلائنگ (ایمینڈمنٹ) ایکٹ منظور کیا، جس میں پتنگ بازی کے علاوہ پتنگ بنانے والوں، بیچنے والوں اور ٹرانسپورٹرز کے لیے بھی سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ اس نئے قانون کے تحت پتنگ بازی کو غیر ضمانتی جرم قرار دیا گیا ہے اور اس میں تین سال کی قید یا 100,000 روپے جرمانے کی جگہ پانچ سال کی قید اور دو لاکھ روپے جرمانہ مقرر کیا گیا ہے۔ اگرچہ حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ پابندی عوامی حفاظت کے لیے ضروری ہے، لیکن بہت سے لوگ اس فیصلے کو بے جا سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب پنجاب کے مختلف علاقوں میں لوگ اس بات پر احتجاج کر رہے ہیں کہ یہ پابندی ایک اہم ثقافتی ورثے کا خاتمہ کر رہی ہے۔ لاہور اور گردونواح میں بسنت کا تہوار سالوں سے رنگ و روشنی کا اہم موقع رہا ہے۔ اس دن، نہ صرف مختلف علاقوں سے لوگ اپنی پتنگیں اڑانے کے لیے نکلتے ہیں بلکہ ایک ساتھ کھانے پینے کی محفلیں بھی ہوتی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: مجھے نیند نہیں آتی! میرا بس چلے تو ابھی 15 فیصد ٹیکس اور شرح سود کم کردوں، وزیراعظم شہباز شریف پنجاب اسمبلی نے جو ترمیم منظور کی ہے وہ 2007 کے “پروہبیشن آف کائٹ فلائنگ ایکٹ” کا حصہ ہے۔ اس ترمیم کے تحت اب پتنگ بنانے والوں، ٹرانسپورٹرز اور بیچنے والوں کو پانچ سے سات سال کی قید اور پانچ لاکھ سے پانچ ملین روپے جرمانہ کی سزا ہو گی۔ اس قانون میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ پتنگ بازی کے لیے استعمال ہونے والی دھاگے خاص طور پر شیشہ اور دھات سے کوٹڈ دھاگوں کی منتقلی اور ان کی تیاری کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نابالغوں کے لیے بھی سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ پتنگ بازی، خاص طور پر بسنت کے دوران ایک ایسا ثقافتی تہوار تھا جس میں لوگ ایک ساتھ آ کر خوشیاں مناتے تھے۔ بسنت کی مناسبت سے پتنگ بازی کے تمام ہنر مند افراد اس صنعت سے جڑے ہوئے تھے جن میں سے زیادہ تر غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ 2004 میں لاہور میں بسنت سے وابستہ صنعت نے 220 ملین روپے کی آمدنی حاصل کی تھی اور پورے صوبے میں اس صنعت کا حجم تین ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ لیکن پابندی کے نتیجے میں ہزاروں لوگوں کے روزگار پر برا اثر پڑا ہے، خاص طور پر خواتین جو اس صنعت میں کام کرتی ہیں۔ ان کے لیے اب کوئی متبادل روزگار دستیاب نہیں۔ ضرور پڑھیں: جو لوگ فوج کے خلاف باتیں کرتے ہیں ان کی خود 190 ملین پاؤنڈز کی چوری نکل آئی، عطا اللہ تارڑ میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے گزشتہ برس لاہور میں 100,000 سے زیادہ پتنگیں ضبط کیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی۔ بعض مقامات پر تو پولیس نے کائٹ فیکٹریوں کو سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے چھوٹ دی جس سے ان کی کارروائی کو کمزور بنایا۔ کچھ میڈیا ادارے، جیسے کہ ‘دی ٹربیون’ نے اس فیصلے کو عوامی حفاظت کے حق میں ایک ضروری قدم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “بسنت ایک خوبصورت تہوار ہے، لیکن جب یہ جشن انسانی زندگیوں کے نقصان کا باعث بنے تو حفاظت کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔” اگرچہ حکومتی اقدامات پر کچھ افراد نے حمایت کی ہے مگر پتنگ بازی کی جماعتیں اس پابندی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ راولپنڈی کائٹ فلائنگ ایسوسی ایشن نے اعلان کیا ہے کہ وہ 13 اور 14 فروری کو بسنت کا جشن منائیں گے اور پابندی کے باوجود پتنگ بازی کریں گے۔ پنجاب میں پتنگ بازی پر پابندی کا فیصلہ نہ صرف عوامی تحفظ کے حوالے سے ایک بڑا قدم ہے بلکہ یہ ایک ثقافتی تبدیلی کی علامت بھی ہے۔ جہاں ایک طرف یہ پابندی عوام کی زندگیوں کو بچانے کے لیے ضروری قرار دی گئی ہے، وہیں دوسری طرف اس نے لوگوں کے دلوں میں بسنت کی روح کو کمزور کر دیا ہے۔ یہ تذبذب اب تک باقی ہے کہ آیا پابندیاں لوگوں کو روکتی ہیں یا انہیں ان کی روایت سے جڑا رہنے کے لیے نئے طریقے اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ مزید پڑھیں: پتنگ بازی کرنے والے کے والد کے خلاف مقدمہ، سڑک پر پٹائی اور گھر مسمار کرنے کی وارننگ
غزہ جنگ بندی: حماس نے تین اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا

درجنوں فلسطینی اسرائیلی جیلوں سے رہائی کے بعد رام اللہ پہنچ گئے ہیں اور مزید رہائی پانے والے افراد بھی جلد ہی وہاں پہنچنے کی توقع ہے۔ دوسری جانب امریکا کے محکمہ خارجہ نے اسرائیل کو 6.75 بلین ڈالر کے بموں، گائیڈنس کٹس اور فیوزز کے علاوہ 660 ملین ڈالر کے ہیلفائر میزائلوں کی فروخت کی منظوری دے دی ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے نتیجے میں 48,181 افراد کی ہلاکت اور 111,638 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے، جیسا کہ غزہ کی وزارت صحت نے رپورٹ کیا ہے۔ حکومتی میڈیا دفتر نے ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 61,709 افراد بتائی ہے، اور کہا ہے کہ ہزاروں افراد جو ملبے تلے دبے ہوئے تھے، اب وہ مرنے کے طور پر فرض کر لیے گئے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر ہونے والے حملوں میں کم از کم 1,139 افراد ہلاک ہوئے اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ فلسطینی حکمران جماعت حماس نے تین اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا۔ جن میں 52 سالہ الیاہو ڈیٹسن یوسف شرابی، 34 سالہ ابراہیم لیشا لیوی اور 56 سالہ اوہد بن امی شامل ہیں۔ 19 جنوری کو جنگ بندی شروع ہونے کے بعد سے اب تک 18 یرغمالیوں کو رہا کیا جا چکا ہے اور بدلے میں اسرائیل نے 383 قیدیوں کو رہا کیا ہے۔ اسرائیی فوج کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے 183 قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ تقریبا 33 یرغمالیوں اور 1900 قیدیوں کو تین ہفتوں میں جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام تک رہا کیا جائے گا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ 33 میں سے 8 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 251 یرغمالیوں کو یرغمال بنایا گیا تھا اور تقریبا 1200 افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔ نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں کم از کم 61,709 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کی تقریبا دو تہائی عمارتوں کو اسرائیل کے حملوں سے نقصان پہنچا ہے یا تباہ کر دیا گیا ہے۔ آج رہا ہونے والی یرغمالی کون ہیں؟ 52 سالہ ایلی شرابی کو کبوتز بیری سے ان کے بھائی یوسی کے ساتھ لے جایا گیا تھا، جن کی موت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اس حملے میں ایلی کی برطانوی نژاد بیوی لیانے اور دو بیٹیاں نویا اور یحل ہلاک ہو گئیں۔ 56 سالہ احد بن امی کو بھی ان کی اہلیہ راز کے ساتھ کبوتز بیری سے اغوا کیا گیا تھا۔ راز کو حماس نے رہا کر دیا تھا۔ مغویوں کے خاندانوں کے فورم کے مطابق،احد بن امی، جو ایک اکاؤنٹنٹ ہیں، ‘اپنے اچھے فیصلے اور حس مزاح کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔’ تل ابیب کے جنوب میں واقع شہر ریشون لی زیون سے تعلق رکھنے والے 34 سالہ لیوی اپنی اہلیہ ایناو کے ساتھ نووا فیسٹیول میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ لیوی کو یرغمال بنا لیا گیا تھا اور ایناو کی لاش ایک بموں سے محفوظ رہنے والی پناہ گاہ سے ملی تھی جہاں یہ جوڑا چھپا ہوا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینامن نتن یاہو کے دفتر نے تصدیق کی ہے کہ حکام کو مغویوں کی فہرست مل گئی ہے اور ان کے اہل خانہ کو مطلع کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل جمعے کے روز یرغمالیوں اور لاپتہ خاندانوں کے فورم ہیڈکوارٹرز نے تین یرغمالیوں کی ‘متوقع رہائی کی خبر’ کا خیر مقدم کیا تھا۔ یرغمالیوں کے نام جاری کرنے سے چند گھنٹے قبل حماس نے اسرائیل پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے تحت غزہ میں انسانی امداد کی مقدار بڑھانے کے اپنے وعدے کی پاسداری کرنے میں ناکام رہا ہے۔ غزہ میں حماس کے میڈیا آفس کی سربراہ سلامہ ماروف نے غزہ سٹی میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا: کہ ‘اسرائیلی رکاوٹوں کی وجہ سے انسانی صورتحال تباہ کن ہے۔’ انھوں نے کہا کہ جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے متوقع 12,000 امدادی گاڑیوں میں سے صرف 8,500 غزہ میں داخل ہوئی ہیں اور طبی سازوسامان اور پناہ گاہوں کی فراہمی میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی ہے۔ یہ الزام اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ ٹام فلیچر کے بیان برعکس ہے جنہوں نے جمعرات کو کہا تھا کہ جنگ بندی کے آغاز کے بعد سے خوراک، ادویات اور خیموں کے ساتھ 10،000 گاڑیاں غزہ میں داخل ہو چکی ہیں۔ دریں اثنا 34 سالہ اسرائیلی یرغمالی یارڈن بیباس نے نتن یاہو سے براہ راست درخواست کی ہے کہ وہ ان کی بیوی اور بچوں کو واپس لائیں جو اب بھی قید میں ہیں۔ ‘وزیر اعظم نتن یاہو، میں اب آپ کو اپنے الفاظ سے مخاطب کر رہا ہوں۔۔۔میرے خاندان ک واپس لائیں۔’ رہائی کے بعد اپنے پہلے عوامی بیان میں بیباس نے کہا کہ ‘میرے خاندان کو واپس لائیں، میرے دوستوں کو واپس لائیں، سب کو گھر لائیں۔’ حماس نے نومبر 2023 میں دعویٰ کیا تھا کہ بیباس کی اہلیہ شیری اور دو چھوٹے بیٹے اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اسرائیل نے اس خبر کی تصدیق نہیں کی ہے۔
“15ویں نمبر پر موجود لاہور ہائیکورٹ کا جج سپریم کورٹ کے لیے اہل کیسے؟” چیف جسٹس کو خط

سپریم کورٹ کے 4 ججوں نے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کو خط لکھ دیا، خط میں 10 فروری کے جوڈیشل اجلاس کو مؤخر کرنے کی درخواست کی گئی۔ نجی نشریاتی ادارے جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے 4 ججوں نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھا ہے۔ خط میں سوال کیا گیا ہے کہ ‘ لاہور ہائی کورٹ کا ایک جج 15ویں نمبر پر تھا، اسلام آباد تبادلے کے بعد سپریم کورٹ کے لیے اہل کیسے ہو گیا؟’ خط میں کہا گیا ہے کہ آئینی ترمیم کیس زیرِ سماعت ہے، ترمیم سے فائدہ اٹھانے والے ججز کے آنے سے عوامی اعتماد متاثر ہو گا، اگر آئینی بینچ فل کورٹ کی درخواستیں منظور کرتا ہے تو فل کورٹ تشکیل کون دے گا؟ قانون واضح ہے جو براہِ راست نہیں کیا جا سکتا، وہ بلاواسطہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ آئینی ترمیم کیس کے فیصلے تک نئے ججز کی تعیناتی کا عمل روکا جائے، کم از کم آئینی بینچ کی جانب سے فل کورٹ کی درخواستوں پر فیصلے کا انتظار کیا جائے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی سینیارٹی طے ہونے تک بھی جوڈیشل کمیشن اجلاس مؤخر کیا جائے۔ خط کے متن کے مطابق 26ویں ترمیم کیس میں آئینی بینچ فل کورٹ کا کہہ سکتا ہے، نئے ججز آئے تو فل کورٹ کون سی ہو گی یہ تنازع بنے گا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں تین ججز ٹرانسفر ہوئے۔ آئین کے مطابق نئے ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں دوبارہ حلف لازم تھا، حلف کے بغیر اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان ججز کا جج ہونا مشکوک ہوجاتا ہے، اس کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ میں سینیارٹی لسٹ بدلی جا چکی ہے۔ ججز نے خط میں مزید کہا ہے کہ آئینی ترمیم کا کیس ترمیم کے نتیجے میں بننے والا آئینی بینچ سن رہا ہے، آئینی ترمیم کا مقدمہ فوری طور پر فل کورٹ میں مقرر ہونا چاہیے۔ پہلے آئینی ترمیم کا کیس فل کورٹ میں مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا، آئینی بینچ میں بھی کیس کافی تاخیر سے مقرر کیا گیا اور آئینی ترمیم کیس کی آئندہ سماعت سے قبل ہی نئے ججز کی تعیناتی کے لیے جلد بازی میں اجلاس بلایا گیا۔ خط کے متن کے مطابق عوام کو موجودہ حالات میں ‘کورٹ پیکنگ’ کا تاثر مل رہا ہے، جاننا چاہتے ہیں کس کے ایجنڈا اور مفاد کے لیے عدالت کی تذلیل کی جا رہی ہے؟ جاننا چاہتے ہیں کہ عدالت کو اس صورتِ حال میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ واضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم جوڈیشل کمیشن کا اجلاس 10 فروری کو شیڈول ہے، جوڈیشل کمیشن کے اس اجلاس کو مؤخر کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ خط لکھنے والوں میں جسٹس منصور، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ اور جسٹس اطہر شامل ہیں۔
’’ کشمیریوں کا خون بہانے سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا ‘‘ شہباز شریف کی انڈیا کو مذاکرات کی پیشکش

وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف نے ‘یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر آزاد کشمیر کی قانون اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ معصوم کشمیریوں کا خون بہانے سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا، مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مذاکرات سے حل ہو گا۔ ‘یومِ یکجہتی کشمیر’ کے موقع پر وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف نے مظفرآباد میں قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور اس کے عوام کشمیریوں کو حقِ خوداریت ملنے تک آزادی کی اس جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ شہباز شریف نے انڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘یہ مسٔلہ کشمیریوں کا خون بہانے، ان کے گھر جلانے، کشمیری بچوں اور نوجوانوں کا قتلِ عام کرنے، کشمیری قائدین کو قید کرنے اور خطے کو لاکھوں فوجیوں کی چھاؤنی اور دنیا کی سب سے بڑی جیل بنانے سے حل نہیں ہو گا۔’ قانون ساز اسمبلی سے خطاب میں وزیرِاعظم پاکستان نے کہا کہ انڈیا اور خطے کے مفاد میں یہی ہے کہ انڈیا پانچ اگست 2019 کی سوچ سے باہر نکل آئے۔ انڈیا کو چاہیے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی منظور قرار دادوں پر عمل کرتے ہوئے تنازع جموں و کشمیر پر بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کرے۔ شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ خطے اور دنیا میں پائیدار امن، ہمسائیوں سے پرامن بقائے باہمی کے اصول کو اپنایا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بات چیت کے سفارتی اور جمہوری اصولوں کی رو میں جموں و کشمیر سمیت تمام تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے اور یہ اس خطے میں بسنے والے اربوں لوگوں کی ترقی اور خوشحالی کا تقاضا ہے۔ کشمیریوں کا خون بہانے سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ تاریخ خون بہانے والوں کو ظالم کے طور پر یاد رکھتی ہے۔ کشمیر نہ کبھی انڈیا کا حصہ تھا اور نہ ہی مظلوم کشمیری عوام اسے مانتی ہے، یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی یہ تسلیم نہیں کرتی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’پانچ فروری کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کے لیے ہمارے پختہ عزم کی تجدید نو کا دن ہے اور وہ کشمیر کے شہدا کو سلام پیش کرتے ہیں۔’ کشمیری گذشتہ سات دہائیوں سے اپنے خون سے آزادی کی داستان لکھ رہے ہیں۔ انڈیا کی جانب سے وادی کو خون سے سرخ کرنے کے باوجود کشمیری اپنے حق کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا لاکھوں کی فوج میں مزید اضافہ کرتا چلا جا رہا ہے، لیکن اس کے باوجود بہادر کشمیریوں کی آزادی کی تڑپ اور بڑھتی جا رہی ہے۔ پانچ فروری انڈیا کو یہ یاد دلاتا ہے کہ کسی بھی پانچ اگست سے کشمیر انڈیا کا حصہ نہیں بن سکتا اور یاد رہے کہ یہ محض نعرہ نہیں ہے، بلکہ آزادی کے متوالوں کا ایمان ہے، کشمیر کا ذرہ ذرہ کشمیر کے رہنے والوں کا ہے۔ پاکستان کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے حصول تک ان کی غیر متزلزل اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم سمیت تمام عالمی فورمز پر کشمیریوں کا مؤقف بھرپور انداز میں پیش کیا۔ بقول شہباز شریف: ’ہم دنیا کے ہر فورم پر کشمیروں کے لیے آواز بلند کرتے رہیں گے، بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا۔‘
حماس، سعودی عرب، چین سمیت عالمی برادری نے غزہ پر قبضے کا امریکی منصوبہ مسترد کر دیا

حماس، سعودی عرب، فرانس، یوکے، آسٹریلیا، برازیل اور ترکیہ نے غزہ پر قبضے کا امریکی منصوبہ مسترد کر دیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے منگل کے روز ایک چونکا دینے والا اعلان کیا تھا کہ “امریکا غزہ پر قبضہ کرے گا اور وہاں استحکام کے لیے کام کرے گا۔ امریکہ فلسطینیوں کو دوسری جگہوں پر آباد کرنے اور اسے معاشی طور پر ترقی دینے کے بعد جنگ سے علاقے پر قبضہ کر لے گا”۔ وہ اسرائیل کے دورے پر آئے ہوئے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ امریکی صدر کے اعلان کے بعد عالمی ممالک کا ردِ عمل آگیا۔ سعودی عرب سعودی عرب نے امریکا کے موقف کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ “وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرے گا”۔ سعودی وزارتِ خارجہ نےکہا کہ “سعودی عرب فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتا ہے”۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ” سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے واضح انداز میں سعودی عرب کے موقف بتایا ہے جو کسی بھی حالت میں کسی قسم کی تشریح کی اجازت نہیں چاہتا”۔ ان کا کہنا تھا کہ “فلسطینیوں کی کسی بھی قسم کی نقل مکانی فلسطینیوں اور عرب ممالک دونوں کے درمیان ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ غزہ کی جنگ میں جب لڑائی شروع ہوئی توفلسطینیوں کو خدشہ تھا کہ وہ ایک اور “نقبہ” یا تباہی کا شکار ہو جائیں گے، اس وقت جب اسرائیل کی ریاست کے بننے کے وقت جنگ میں لاکھوں لوگوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا”۔ حماس فلسطینی حکمران جماعت حماس کے سینئر عہدیدار سمیع ابو زہری نے کہا کہ “غزہ میں فلسطینیوں کو نسلی طور پر پاک کرنے کا مطالبہ ان کی سرزمین سے بے دخلی ہے”۔ ابو زہری نے کہا کہ “غزہ پر قبضے کی خواہش کے بارے میں ٹرمپ کا بیان مضحکہ خیز ہے اور اس قسم کے کوئی بھی خیالات خطے کو مزید بھڑکانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ “ہم انہیں خطے میں افراتفری اور کشیدگی پیدا کرنے کا ایک نسخہ سمجھتے ہیں کیونکہ غزہ کے لوگ ایسے منصوبوں کو منظور نہیں ہونے دیں گے”۔” انہوں نے کہا کہ “ہم ٹرمپ کے ان بیانات کو مسترد کرتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا “غزہ کی پٹی کے باشندوں کے پاس چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے” اور ہم انہیں خطے میں افراتفری اور کشیدگی پیدا کرنے کا ایک نسخہ سمجھتے ہیں۔ “غزہ کی پٹی میں ہمارے لوگ ان منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کے خلاف قبضے اور جارحیت کو ختم کیا جائے، نہ کہ انہیں ان کی سرزمین سے بے دخل کیا جائے”۔ آسٹریلیا دوسری جانب آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نےکہا ہے کہ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے اعلان سے انہیں شدید جھٹکا لگا ہے۔ آسٹریلوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہم اس مسئلے میں دو ریاستی حل چاہتے ہیں۔ آسٹریلوی سینیٹر لیڈیا تھوپے نے ایکس پر لکھا کہ “امریکا کا یوں کھلے عام غزہ پر قبضہ کرنا نسلی امتیاز اور نوآبادیاتی مطالبہ ہے”۔ روس روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ “مقبوضہ مغربی کنارے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے اسرائیلی منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں ہیں اور غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں،” روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ “اجتماعی سزا کی پالیسی پر عمل کرنا ایک ایسا طریقہ ہے جسے روس مسترد کرتا ہے”۔ چین چین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ “وہ غزہ کے لوگوں کی جبری منتقلی کی مخالفت کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ تمام فریق جنگ بندی اور تنازعات کے بعد کی حکمرانی کو مسئلہ فلسطین کو دو ریاستی حل پر مبنی سیاسی حل کی طرف واپس لانے کے موقع کے طور پر استعمال کریں گے”۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل انسانی حقوق کی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پال اوبرائن نے کہا ہے کہ “غزہ سے تمام شہریوں کو بے دخل کرنا انہیں بطور انسان تباہ کرنے کے مترادف ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “غزہ ان کا گھر ہے، غزہ کی موت اور اس کی تباہی اسرائیلی حملوں کا نتیجہ ہے جو اس نے امریکی بارود کے ساتھ کی ہے”۔ ترکیہ ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے کہا کہ “ٹرمپ کے تبصرے ناقابل قبول ہیں” اور انہوں نے خبردار کیا کہ فلسطینیوں کی رائے کو چھوڑنا مزید تنازعات کو جنم دے گا”۔ فیدان نے کہا کہ “ترکیہ اسرائیل کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات پر نظرثانی کرے گا۔ اگر فلسطینیوں کا قتل بند نہ ہوا اور ان کے حالات نہ بدلے تو تجارت منقطع کرنا اور اپنے سفیر کو واپس بلانا جیسے اقدامات ہو سکتے ہیں”۔ فرانس فرانس کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کرسٹوف لیموئن نے کہا کہ “فرانس غزہ کی فلسطینی آبادی کی کسی بھی جبری نقل مکانی کے خلاف اپنی مخالفت کا اعادہ کرتا ہے، جو کہ بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی، فلسطینیوں کی جائز امنگوں پر حملہ، بلکہ دو ریاستی حل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ اور ہمارے قریبی شراکت داروں مصر اور اردن کے لیے ایک بڑا عدم استحکام کا باعث ہے”۔ لیموئن نے مزید کہا کہ “غزہ کا مستقبل مستقبل کی فلسطینی ریاست کے تناظر میں ہونا چاہیے اور اس پر کسی تیسرے ملک کا کنٹرول نہیں ہونا چاہیے”۔ یوکے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ “فلسطینیوں کا مستقبل صرف اپنے ملک میں ہی ہے”۔ انہوں نے کہا کہ “ہم ہمیشہ اپنے مؤقف میں واضح رہے ہیں کہ ہمیں دو ریاستوں کو دیکھنا چاہیے۔ ہمیں فلسطینیوں کو غزہ اور مغربی کنارے میں اپنے آبائی علاقوں میں زندہ اور خوشحال دیکھنا چاہیے۔ برازیل برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا نے کہا کہ “ٹرمپ کی تجویز کوئی معنی نہیں رکھتی‘‘۔ فلسطینی کہاں رہیں گے؟ یہ کسی بھی انسان کی سمجھ سے باہر ہے،” لولا نے مقامی ریڈیو سٹیشنوں کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا۔ “فلسطینیوں کو غزہ کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے”۔”
یوم یکجہتی کشمیر 5 فروری کو ہی کیوں منایا جاتا ہے؟

پاکستان میں پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے ایک دن جو نہ صرف پاکستانی عوام کے دلوں میں کشمیریوں کے ساتھ محبت اور یکجہتی کا جذبہ بھرتا ہے بلکہ اس دن کی تاریخ بھی ایک سنسنی خیز اور دل دہلا دینے والی کہانی سموئے ہوئے ہے۔ یہ دن کشمیر کی آزادی کے لئے آواز اٹھانے والے، ان کے حقوق کے لئے لڑنے والے اور ان کے درد کو محسوس کرنے والے تمام افراد کے لئے ایک نشانِ عزم ہے۔ یہ دن پہلی مرتبہ 1990 میں منایا گیا جب جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے پاکستان میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے ایک ہڑتال کی کال دی۔ اس وقت ملک کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو پنجاب میں نواز شریف وزیر اعلیٰ تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جماعت اسلامی کے سابق رہنما قاضی حسین احمد کی ایک کال پورے پاکستان میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کرنے کا سبب بنی۔ دونوں رہنماؤں نے اس کال کی حمایت کی اور پانچ فروری کو سرکاری سطح پر یوم یکجہتی کشمیر منانے کا آغاز ہوا۔ لیکن یہ دن محض ایک رسمی تعطیل یا احتجاج کا دن نہیں تھا بلکہ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا جب پاکستانی عوام نے کشمیر کے مسئلے کو اپنی تقدیر سمجھ کر اس کے حل کے لیے ایک نیا جذبہ محسوس کیا۔ یوم یکجہتی کشمیر کی جڑیں ایک صدی پرانی ہیں یہ دن کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی ایک طویل تاریخ کی نشاندہی کرتا ہے۔ خبر رساں ادارے بی بی سی اردو کے مطابق پہلی مرتبہ 1931 میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن پورے ہندوستان میں منایا گیا تھا۔ اس وقت ایک ناخوشگوار واقعے میں 21 کشمیریوں کی موت ہوئی تھی جس کے بعد علامہ اقبال نے کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی تھی۔ یہ 14 اگست 1931 کا دن تھا جب ہندوستان بھر میں کشمیریوں کے حق میں احتجاج اور یکجہتی کی تحریک شروع ہوئی۔ یہ وقت تھا جب کشمیریوں کی آواز بلند ہوئی اور ایک نئی سیاسی بیداری کا آغاز ہوا۔ دوسری جانب فروری 1989 میں جب سوویت یونین افغانستان سے نکلا تو کشمیریوں کے دلوں میں آزادی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ کشمیر کے نوجوانوں نے اپنے لیے آزادی کی تحریک چلانے کا عزم کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب انڈیا کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی صاحبزادی ربعیہ سعید کا اغوا ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ کشمیریوں نے اس واقعہ کو اپنی آزادی کے حق میں ایک کامیابی کے طور پر منایا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب کشمیریوں کی تحریک آزادی میں ایک نئی شدت آئی۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نوجوانوں کی حمایت میں جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں اور مظفر آباد میں قاضی حسین احمد نے کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی۔ پاکستان کی حکومت نے اس دن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے 1990 میں اس دن کو سرکاری طور پر منانے کی ہدایت دی۔ اس کے بعد پانچ فروری کو ملک بھر میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے مختلف پروگرامز اور مظاہرے ہوتے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے پروفیسر حسن عسکری شعبہ تاریخ یونیورسٹی آف اوکاڑہ نے بتایا”یوم یکجہتی کشمیر 5 فروری کو منانے کا آغاز 1990 میں ہوا جب پاکستان نے کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے اس دن کو مخصوص کیا۔ اس دن کا مقصد عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کی اہمیت یاد دلانا اور بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنا ہے”۔ اس کے علاوہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں بھی پاکستان نے کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا اور کشمیریوں کے حقوق کے لئے ہر فورم پر آواز اٹھائی۔ یوم یکجہتی کشمیر کا آغاز ایک سیاسی تحریک سے ہوا تھا لیکن اس کے پیچھے ایک اور گہری حقیقت چھپی ہوئی ہے۔ یہ دن کشمیر کے لاکھوں بے گناہ شہریوں کی قربانیوں اور جدوجہد کی علامت ہے۔ یہ دن کشمیریوں کے لئے ایک پیغام ہے کہ پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔ پروفیسر حسن عسکری نے کہا کہ” یوم یکجہتی کشمیر منانے سے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں مدد ملتی ہے، لیکن صرف علامتی حمایت کافی نہیں۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر مزید مضبوط حکمت عملی اپنانے، بین الاقوامی فورمز پر فعال کردار ادا کرنے، اور کشمیری عوام کی عملی مدد کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ مسئلہ حل کی طرف بڑھ سکے”۔ کشمیر کی آزادی کا خواب پاکستانیوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا، اور یہ دن اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے پروفیسر عبدالباسط جامعہ سرگودھا شعبہ تاریخ ماہر امور خارجہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے متعلق کہا ” اقوامِ متحدہ کی قراردادیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک مضبوط قانونی اور اخلاقی بنیاد فراہم کرتی ہیں، لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اور عالمی برادری کی عدم دلچسپی کے باعث ان پر عملدرآمد ممکن نہیں ہو سکا۔ پاکستان کو سفارتی، سیاسی اور عوامی سطح پر کوششیں جاری رکھنی چاہییں، لیکن ساتھ ہی دیگر ممکنہ حل، جیسے بیک ڈور ڈپلومیسی اور علاقائی مذاکرات، پر بھی غور کرنا ہوگا تاکہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق کوئی قابلِ قبول حل نکالا جا سکے۔” انڈین پالیسیوں کے نوجوانوں پر اثرات کے بارے میں انہوں نے کہا”بھارتی پالیسیوں نے کشمیر کے نوجوانوں میں شدید مایوسی اور بے چینی کو جنم دیا ہے۔ مسلسل کرفیو، انٹرنیٹ کی بندش، جبری گرفتاریاں، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ان کی ذہنی اور سماجی ترقی پر گہرے اثرات ڈال رہی ہیں۔ بدقسمتی سے عالمی برادری، بالخصوص بڑی طاقتیں، اپنے اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات کی وجہ سے اس معاملے پر مؤثر اقدامات نہیں کر رہیں، جس سے بھارت کو مزید جارحیت کی شہ مل رہی ہے۔” آج بھی پانچ فروری کو لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کشمیری ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے عزم میں کمی نہیں آئی بلکہ ہر گزرتے سال کے ساتھ یہ عزم مزید پختہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے
’ملکی خودمختاری اور سالمیت کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہیں‘ آرمی چیف کا کورکمانڈرز کانفرنس سے خطاب

جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت 267ویں کور کمانڈرز کانفرنس ہو ئی جس دوران شرکاء نے مادرِ وطن کے امن و استحکام کے لئے شہدائے افواجِ پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاکستانی شہریوں کی لازوال قربانیوں کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا۔ فورم نے درپیش خطرات کا مفصل جائزہ لیتے ہوئے علاقائی اور داخلی سلامتی کے منظر نامے پر روشنی ڈالی، شرکاء کانفرنس نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور ورکنگ باؤنڈری کے ساتھ موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جبکہ یوم یکجہتی کشمیر (5 فروری 2025) کے موقع پر کشمیر کے پُرعزم لوگوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی۔ فورم نے بھارت کی جانب سے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کی اور انہیں خطے کے امن اور استحکام کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا۔ یہ بھی پڑھیں: سعودی ترقیاتی فنڈ کے سی ای او کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات شرکاء کانفرنس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے لیے ان کی جدوجہد میں پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ شرکاء نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ فورم نے بھارتی فوجی قیادت کے حالیہ عاقبت نا اندیش اور اشتعال انگیز بیانات کا بھی سخت نوٹس لیا اور انہیں غیر ذمہ دارانہ اور علاقائی استحکام کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ فورم سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ ’پاکستان آرمی ملکی خودمختاری اور سالمیت کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہے، بھارتی فوج کے کھوکھلے بیانات ان کی بڑھتی ہوئی مایوسی کی نشاندہی کرتے ہیں‘۔” انہوں نے مزید کہا کہ “اس قسم کے بیانات،اپنے عوام اور عالمی برادری کی توجہ بھارت کی اندرونی خلفشار اور اُسکی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے ہیں، ہم کسی بھی مہم جوئی کا پاکستان مکمل طاقت کے ساتھ جواب دے گا انشاء اللہ۔‘‘ فورم نے فتنتہ الخوارج کی جانب سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین کے مسلسل استعمال پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور اس بات کی ضرورت پر زور دیا کے عبوری افغان حکومت فتنہ الخوارج کی موجودگی سے انکار کی بجائے اسکے خلاف ٹھوس اور عملی اقدامات کرے۔ فورم نے واضح کیا کہ افغانستان اور فتنہ الخوارج کے ضمن میں جاری شدہ تمام ضروری اقدامات اور حکمت عملی کو جاری رکھا جائے گا جو پاکستان اور اُسکے عوام کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔ فورم نے بلوچستان میں عوام پر مرکوز سماجی و اقتصادی ترقی کے اقدامات کو تیز کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا تاکہ احساس محرومی کے من گھڑت بیانیے کی نفی کی جا سکے۔ فورم نے اس بات کا اعادہ کیاکہ ”کسی کو بھی بلوچستان میں امن کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، غیر ملکی پشت پناہی کرنے والی پراکسیز کی بلوچستان کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے اور انتہا پسندی پر مائل کرنے کے مذموم عزائم کو بلوچستان کے عوام کی غیر متزلزل حمایت سے ناکام بنایا جائے گا، انشاء اللہ‘‘۔ یہ بھی پڑھیں: ’حکمران کشمیر پر سودے بازی سے باز رہیں ‘ کراچی کشمیر کانفرنس کے شرکا کا مطالبہ تمام فارمیشنوں کی آپریشنل تیاریوں کی تعریف کرتے ہوئے آرمی چیف نے مشن پر مبنی تربیت، بہتر فوجی تعاون، روایتی اور انسداد دہشت گردی کی مد میں مشترکہ مشقوں کے انعقاد کی اہمیت پر زور دیا۔ کانفرنس کے اختتام پر آرمی چیف نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ”عسکری قیادت قوم کو درپیش کثیرالجہتی چیلنجز سے مکمل طور پر آگاہ ہے، عسکری قیادت پاکستان کی قابلِ فخر عوام کی بھرپور حمایت کے ساتھ اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے‘‘۔ مزید پڑھیں: صدر پاکستان کا دورہ چین، ’امریکی دباؤ بے اثر کرنے کی کوشش‘ ؟
کیا صرف طرزِ زندگی بدلنے سے کینسر سے بچاؤ ممکن ہے؟

کینسر ایک ایسی بیماری ہے جس میں جسم کے خلیے بے قابو ہو کر بڑھنے لگتے ہیں اور جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل جاتے ہیں۔ یہ بیماری عام طور پر جینیاتی تغیرات کی وجہ سے ہوتی ہے اور مختلف اقسام میں پائی جاتی ہے۔ لاہور کے نجی ہسپتال کے سرجن ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “کینسر کی متعدد اقسام ہیں، جن میں بریسٹ کینسر، پھیپھڑوں کا کینسر، خون کا کینسر (لیوکیمیا)، اور کولون کینسر شامل ہیں۔ کینسر عام طور پر جینیاتی تبدیلیوں، تمباکو نوشی، غیر صحت بخش خوراک، موٹاپے اور ماحولیاتی عوامل جیسے ریڈی ایشن یا زہریلے کیمیکلز کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جلد تشخیص اور مناسب علاج سے اس کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔” کینسر کی علامات میں غیر معمولی گلٹیاں، وزن میں اچانک کمی یا اضافہ، مسلسل تھکاوٹ، جلد پر غیر معمولی تبدیلیاں، مستقل کھانسی، آواز میں تبدیلی، کھانے میں دشواری، ہاضمے کے مسائل، خون بہنا، زخموں کا نہ ٹھیک ہونا اور مستقل جسمانی درد وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر عاصم رضا کے مطابق “کینسر کی علامات اس کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہیں، لیکن عام طور پر مسلسل تھکن، بغیر کسی وجہ کے وزن میں کمی، کسی بھی جگہ غیر معمولی گلٹی یا سوجن، طویل عرصے تک کھانسی یا خون آنا، اور زخموں کا دیر سے بھرنا شامل ہیں۔ اگر یہ علامات برقرار رہیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے معائنہ کروانا ضروری ہے۔” عالمی سطح پر کینسر کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں موروثی (جینیاتی) عوامل، ماحولیاتی آلودگی، تابکاری اثرات، غیر صحت مند خوراک، موٹاپا، تمباکو نوشی، شراب نوشی اور دیگر مضر صحت عادات شامل ہیں۔ ماہر جینیٹکس ڈاکٹر خدیجہ قمر نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” تمباکو نوشی اور شراب نوشی میں موجود مضر کیمیکل خلیوں کے ڈی این اے کو نقصان پہنچاتے ہیں، جس سے کینسر پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تمباکو میں شامل نکوٹین اور دیگر زہریلے اجزا خاص طور پر پھیپھڑوں، منہ، گلے اور مثانے کے کینسر کا سبب بن سکتے ہیں، جبکہ شراب نوشی جگر، معدے اور بریسٹ کینسر کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔ ان عادات سے پرہیز کر کے کینسر سے بچاؤ ممکن ہے۔” کینسر یا سرطان کی کئی اقسام ہیں اور ان سے بچاؤ کے طریقوں پر سبھی ماہرین متفق بھی نہیں ہیں، تاہم محققین اس بات پر ضرور اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ طرزِ زندگی بدلنے سے کینسر کی نصف سے زائد اقسام سے بچاؤ ممکن ہے۔ ڈاکٹر خدیجہ کے نزدیک “صحت مند خوراک اور باقاعدہ ورزش کینسر کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کر سکتی ہیں، لیکن یہ خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ جینیاتی عوامل، ماحولیاتی آلودگی، اور کچھ وائرس بھی کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لیے احتیاطی تدابیر کے ساتھ ساتھ باقاعدہ طبی معائنہ بھی ضروری ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کو بروقت پہچانا جا سکے۔” طبی ماہرین کے مطابق طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیاں جیسے متوازن خوراک، باقاعدہ ورزش، وزن کو کنٹرول میں رکھنا اور نشہ آور اشیا سے پرہیز کینسر کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ابتدائی تشخیص، جدید علاج اور احتیاطی تدابیر اپنا کر اس مہلک بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “متوازن خوراک، باقاعدہ ورزش، اور وزن کو کنٹرول میں رکھ کر کینسر کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کیا جا سکتا ہے، لیکن اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ صحت مند طرزِ زندگی مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہے اور جسم کو ان عوامل سے بچاتی ہے جو کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔ تاہم جینیاتی عوامل اور ماحولیاتی اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے باقاعدہ طبی معائنہ بھی ضروری ہے۔” متوازن اور صحت مند خوراک جیسے نامیاتی غذا، سبزیاں، پھل اور کم چکنائی والے کھانے جسمانی قوت مدافعت کو مضبوط بناتے ہیں۔ باقاعدہ ورزش اور جسمانی سرگرمیاں موٹاپے، دل کی بیماریوں اور کینسر کے امکانات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ خاص طور پرتمباکو اور الکحل سے پرہیز صحت مند طرزِ زندگی کا لازمی جزو ہے۔ ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ ڈاکٹر خدیجہ قمر کے مطابق “ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کرتی ہیں، جس سے کینسر کے خلیے بڑھنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ مسلسل تناؤ کی حالت میں ہارمونز کی عدم توازن پیدا ہو سکتی ہے، جو کینسر کے خطرے کو بڑھاتی ہے۔ اس لیے ذہنی سکون اور مناسب نیند صحت کے لیے ضروری ہیں۔” طبی ماہرین کے مطابق طرزِ زندگی میں مثبت تبدیلیاں بیماریوں کے خطرے کو کم کر سکتی ہیں، مگر جینیاتی عوامل بھی کینسر کے امکانات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جن پر طرزِ زندگی کا زیادہ اثر نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر عاصم رضا کا کہنا ہے کہ “جینیاتی عوامل بعض صورتوں میں اتنے طاقتور ہو سکتے ہیں کہ صحت مند طرزِ زندگی اپنانے کے باوجود بھی کینسر ہونے کے امکانات رہتے ہیں۔ کچھ مخصوص جینیاتی تغیرات (mutations) موروثی طور پر منتقل ہوتے ہیں، جو کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ تاہم متوازن غذا، باقاعدہ ورزش، اور نقصان دہ عادات سے پرہیز کرنے سے اس خطرے کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔” دوسری طرف قدرتی جڑی بوٹیاں اور روایتی ادویات بھی مریضوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہیں، مگر ماہرین انہیں مکمل علاج کا متبادل نہیں سمجھتے۔ پاکستان میں بھی بہت سے افراد اس بیماری کی علامات کو نظرانداز کرتے ہیں اور روایتی ٹوٹکوں پر انحصار کرتے ہیں جس سے یہ بیماری جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر خدیجہ قمر کے نزدیک ” متبادل طریقہ علاج جیسے ہربل میڈیسن یا ہومیوپیتھی بعض کیسز میں مدافعتی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں، لیکن سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ کینسر کے مکمل علاج یا بچاؤ میں مؤثر ثابت نہیں ہوئے۔ کینسر کا مؤثر علاج جدید طبی طریقوں جیسے کیموتھراپی، ریڈیوتھراپی، اور سرجری سے ممکن ہے، اس لیے مریضوں کو مستند طبی ماہرین سے رجوع کرنا چاہیے اور بغیر تحقیق کے
’بلوچستان میں دہشت و شر کی فضا پھیلانے والے عناصر ترقی کے دشمن ہیں‘ وزیر اعظم

وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف خصوصی دورے کے لیے کوئٹہ پہنچ گئے۔ وزیرِاعظم شہباز شریف دہشت گردوں سے بہادری سے لڑنے والے زخمی اہلکاروں کی عیادت کے لیے سی ایم ایچ کوئٹہ گئے۔ وزیر اعظم نے نڈر جوانوں کے جذبے اور غیر متزلزل عزم کی تعریف کی۔ نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار، وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ اطلاعات عطاء اللّٰہ تارڑ اور وزیرِ بجلی اویس لغاری بھی وزیرِ اعظم کے ہمراہ ہیں۔خصوصی دورے کے دوران وزیرِ اعظم کو امن و امان کی موجودہ صورتِ حال پر بریفنگ دی جائے گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ “دہشت گردی کے ناسور کے ملک سے مکمل خاتمے کے لیے افواج پاکستان اور پاکستانی عوام شانہ بشانہ کھڑے ہیں”۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم نے 31 جنوری اور یکم فروری کی درمیانی شب ضلع قلات کے علاقے منگیچر میں عسکریت پسندوں کے حملے زخمی ہونے والے اہلکاروں کی سی ایم ایچ کوئٹہ میں عیادت کے موقع پر کیا۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کوئٹہ آمد کے بعد وزیر اعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی کے ہمراہ سی ایم ایچ کوئٹہ پہنچے۔ انہوں نے جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا “آپ سب قوم کے ہیرو ہیں اور پوری قوم کو اپنے بہادر نوجوانوں پر فخر ہے۔ دشمن پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا”۔ وزیر اعظم نے کہا کہ “بلوچستان میں دہشت و شر کی فضا پھیلانے والے عناصر بلوچستان کی ترقی کے دشمن ہیں”۔ ان کا کہنا تھا کہ “بلوچستان کے عوام کے تحفظ کے لیے سکیورٹی فورسز شر پسند عناصر کے سد باب کے لیے دن رات مصروف عمل ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے لیے افواجِ پاکستان اور عوام شانہ بشانہ ہیں۔ دہشت اور بدامنی پھیلانے والے عناصر ترقی کے دشمن ہیں۔ بلوچستان کے امن، ترقی اور خوشحالی کے خلاف ناپاک عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے”۔
“حکومت اور اپوزیشن آئین کی دھجیاں نہ بکھیریں” وکلا کا 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف مارچ اور ہڑتال کا اعلان

وکلا برادری کی جانب سے 26 آئینی ترمیم کے خلاف پیر کے روز اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا گیا ہے، مارچ کا اعلان لاہور ہائی کورٹ بار کے زیر اہتمام ہونے والے وکلاء کنونشن میں کیا گیا۔ اتوار کو لاہور میں ہونے والے آل پاکستان وکلا کنونشن کی صدارت لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر اسد منظور بٹ نے کی۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے تحت ہونے والے آل پاکستان وکلا کنونشن کے مشترکہ اعلامیے میں سپریم جوڈيشل کونسل کا اجلاس فوری منسوخ کرنے، 26 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دینے اور ترمیم کے خلاف درخواست پر سماعت براہِ راست نشر کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گيا ہے کہ جب تک 26 ویں ترمیم کا فیصلہ نہیں ہوتا اس وقت تک نئی تعیناتیاں نہ کی جائیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر جج کو ہی چیف جسٹس بنایا جائے۔ لاہور ہائی کورٹ بار وکلا کنونشن میں حال ہی میں پاس کیے گئے پیکا ایکٹ کی بھی مذمت کی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر اسد منظور بٹ نے کہا ہے کہ صحافیوں کی جدوجہد کا مکمل ساتھ دیتے ہیں۔ وکلا کنویشن سے خطاب میں وکیل رہنما حامد خان نے کہا کہ وکلا کی تحریک شروع ہوچکی ہے، یہ 26 ویں ترمیم کو بہا لے جائے گی۔ صحافیوں کی آزادی ختم کرنے کے لیے پیکا ایکٹ میں ترمیم کی گئی، وکلا ہر فورم پر صحافیوں کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف اسلام آباد کی تینوں بارز نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دیگر ہائی کورٹس سے ججز کی منتقلی کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کل ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ اسلام آباد کی تینوں نمائندہ بار کونسلز کے مشترکہ اجلاس نے تین ججز کے اسلام آباد ہائی کورٹ منتقلی کا نوٹیفکیشن واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پیکا ایکٹ کے ذریعے میڈیا کو فتح کرلیا گیا اور اب اسلام آباد ہائی کورٹ کو فتح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بار کونسلز تین ججز کے اسلام آباد ہائی کورٹ منتقل ہونے کا نوٹیفکیشن ہرفورم پرچیلنج کریں گی۔ جوڈیشل کمیشن کا سپریم کورٹ کے ججزکی تعیناتی کے لیے 10 فروری کا اجلاس مؤخرکیا جائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ تین فروری 11 بجے تمام بارکونسلز کے زیر اہتمام وکلا کنونشن کا انعقاد کیا جائےگا، اسلام آباد ہائی کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں 3تین فروری کو وکلا ہڑتال کریں گے۔ صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ریاست علی آزاد نے کہا کہ سینئر موسٹ جج کو چیف جسٹس بنانا تھا، 26 ویں آئینی ترمیم میں بھی یہی لکھا ہے، آئینی ترمیم بھی بدنیتی پر مبنی تھی، اس کے باوجود ٹرانسفر کیے جا رہے ہیں۔ وکلا تحریک آج بھی چل رہی ہے، لیکن کچھ لوگ اقتدار میں بیٹھ کرفائدہ لے رہے ہیں۔ صدر اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار نعیم علی گجر نے کہا کہ جب قانون پاس ہونا ہو یا کوئی آئین شکنی ہوتو وکلا ہی سامنے آتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں آتی ہیں تو ماضی بھول جاتی ہیں، ہم کسی جج یا شخصیت کے ساتھ نہیں، عدلیہ اور آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تین سینئر ججز میں سے ایک کو چیف جسٹس بنایا جائے۔ نعیم علی گجر نے کہا کہ وکلا باہر سے آنے والے ججز کے خلاف بھرپور احتجاج اور مزاحمت کریں گے۔