پناہ گزینوں کی کامیاب واپسی ، صیہونی منصوبوں کی ناکامی کی علامت قرار

حماس نے پناہ گزینوں کی کامیاب واپسی کو صیہونی منصوبوں کی ناکامی قرار دے دیا ہے، جس کے مطابق لاکھوں بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی اسرائیلی قابضین کی ناکامی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ یہ منظر فلسطینوں کی ثابت قدمی، عزم اور مزاحمت کا زندہ اور جرآت مندانہ پیغام ہے۔ 28جنوری 2025 کی صبح غزہ کی پٹی میں ایک ایسا منظر سامنے آیا جو تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ وسطی اور جنوبی غزہ کے ہزاروں بے گھر فلسطینی جو گزشتہ 15  ماہ سے صیہونی جارحیت، نسل کشی اور جبری نقل مکانی کا شکار تھے۔ ایک نیا سفر شروع کرنے کے لیے شمالی غزہ کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ واپسی نہ صرف ان فلسطینیوں کے لیے ایک عظیم لمحہ تھی بلکہ یہ صیہونی قبضے کے خلاف فلسطینی عوام کی طاقت اور عزم کا منہ بولتا ثبوت بن گئی۔ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے ایک بیان میں اس تاریخی اقدام پر زور دیا اور کہا کہ یہ واپسی فلسطینیوں کے اپنے وطن کی طرف واپسی کے عظیم خواب کی تکمیل کی علامت ہے۔ حماس نے اس موقع پر کہا کہ اس واپسی نے اسرائیلی قابض حکومت کے ان تمام منصوبوں کو ناکام بنا دیا ہے، جن کا مقصد غزہ کے عوام کو بے گھر کرنا اور ان کی طاقت کو کچلنا تھا۔ حماس نے مزید کہا کہ یہ منظر فلسطینیوں کی ثابت قدمی، عزم اور مزاحمت کا زندہ اور جرات مندانہ پیغام ہے۔ غزہ کے پناہ گزینوں کا شمال کی جانب پرجوش مارچ ان کے وطن واپس جانے کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ فلسطینی عوام کے لیے مزاحمت، صداقت اور آزادی کی جدو جہد کا سلسلہ کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا۔ حماس کے مطابق لاکھوں بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ میں واپسی اسرائیلی قابضین کی ناکامی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ حماس نے یہ بھی کہا کہ یہ واقعہ فلسطینیوں کے عزم اور استقامت کی کامیابی ہے جو 77 سال سے صیہونی قوتوں کے ظلم و جبر کے باوجود جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واپسی نے یہ ثابت کیا ہے کہ فلسطینیوں کے خواب کو مسمار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کی سرزمین سے مزاحمت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس تاریخی واپسی نے اسرائیل کے انتہا پسند حکومتی منصوبوں کو چکنا چور کر دیا ہے جو غزہ کے عوام کو دہشت زدہ کرنے اور انہیں بے گھر کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ حماس کے مطابق یہ واقعہ فلسطینیوں کی فتح کی علامت ہے، جس سے یہ ثابت ہوا ہےکہ فلسطینیوں کے عزم کے سامنے کوئی بھی طاقت نہیں ٹھہر سکتی۔ حماس نے یہ بھی کہا کہ یہ واپسی فلسطینی عوام کی آزادی کی راہ میں ایک نیا سنگ میل ثابت ہو گی۔ اس نے قابضین کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ فلسطینی عوام اپنی سرزمین کو واپس لینے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ حماس کے مطابق فلسطینی عوام کا یہ اعلان ہے کہ یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت بناتے ہوئے ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عملی طور پر ممکن ہے۔ یہ واپسی نہ صرف فلسطینی عوام کی کامیابی ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک طاقتور پیغام بھیجا گیا ہے کہ فلسطینی عوام کا عزم اور ارادہ کسی بھی صورت میں ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ غزہ کے اس عظیم اقدام نے دنیا کو ایک بار پھر یاد دلادیا ہےکہ فلسطین کا مسئلہ صرف ایک سرزمین کا نہیں، بلکہ ایک حق، آزادی اور عزت کا سوال ہے۔ یاد رہے کہ 7 اکتوبر کو حماس اور دیگر تنظیموں نے سرحد پار اسرائیل پر حملہ کردیا، جس سے 1139 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوگئے۔ دوسری طرف اسرائیلی فوج کی جانب سے 405 فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف کیا گیا ہے، جب کہ مجموعی طور پر تقریباً 1940 اسرائیلی فوج نسل کشی کی اس جنگ میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے فلسطین پر جارحیت کی انتہا کردی، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اکتوبر 2023 سےشروع ہونے والی اس جنگ میں 46707 سے زائد فلسطینی جاں بحق جب کہ 1 لاکھ 10 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں، جن میں کثیر تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ واضح رہے کہ 16 جنوری کو قطر، امریکا اور مصر کی ثالثی میں حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدے کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا کہ جنگ بندی کا نفاذ 19 جنوری سے ہوگا۔ جنگ بندی معاہدےکے پہلے مرحلے میں حماس کی جانب سے 3 اسرائیلی خواتین کو رہا کیا گیا، جس کے بدلے میں اسرائیل نے 90 فلسطینیوں کو رہا کیا۔ دوسری جانب جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیلی فورسز کی جنوبی غزہ اور فلسطین کے دیگر مقبوضہ علاقوں میں فوجی کارروائیاں جاری ہیں اور جنگ بندی شروع ہونے کے بعد اب تک ایک درجن کے قریب فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔

چینی اے آئی کمپنی ڈیپ سیک دنیا بھرمیں مقبول:کیا یہ امریکی ٹیک اسٹاک کے لیے خطرہ ہے؟

ایک چینی مصنوعی ذہانت کی کمپنی ڈیپ سیک کی طرف سے حیرت انگیز پیشرفت کے بعد پیر کی صبح امریکی اسٹاک میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ، جس نے امریکہ کی ٹیکنالوجی کی صنعت کے آس پاس ناقابل تسخیر ہونے کی چمک کو خطرے میں ڈال دیا۔ عالمی خبر ارساں ادارہ سی این این کے مطابق چینی کمپنی ڈیپ سیک نے گزشتہ سال کے شروع میں ایک شاندار صلاحیت کا انکشاف کیا،اس نے آر ون چیٹ جی پی ٹی نما اے آئی ماڈل پیش کیا، جس میں تمام مانوس صلاحیتیں ہیں، جو میٹاکے مقبول اے آئی ماڈلز کی قیمت کے ایک حصے پر کام کرتی ہے ۔ چینی مصنوعی ذہانت کی کمپنی نے کہا کہ اس نے اپنے جدید ترین اے آئی ماڈل کی تربیت پر صرف 5.6 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں، اس کے مقابلے میں امریکی کمپنیاں اپنی اے آئی ٹیکنالوجیز پر کروڑوں یا اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ وال سٹریٹ جنرل نے سب سے پہلے ٹیکنالوجی کی انتہائی کم قیمت کی اطلاع دی۔ امریکن کمپنی ایس اینڈ پی میں 500 انڈیکس یعنی 1.4% کی کمی واقع ہوئی اور ٹیک ہیوی میں 2.3% کی کمی ہوئی۔ ڈاؤ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ سیشن کے شروع میں مارکیٹیں کافی حد تک کم تھیں، لیکن سرمایہ کاروں نے ہو سکتا ہے کہ کسی حد تک سیل آف کا اندازہ لگایا ہو۔ واضح رہے کہ میٹا نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ وہ اس سال اے آئی کی ترقی پر 65 بلین ڈالر سے زیادہ خرچ کرے گا۔ اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹ مین نے پچھلے سال کہا تھا کہ اے آئی انڈسٹری کو کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی تاکہ اس شعبے کے پیچیدہ ماڈلز کو چلانے والے بجلی کے بھوکے ڈیٹا سینٹرز کو طاقت دینے کے لیے درکار ان ڈیمانڈ چپس کی ترقی میں مدد ملے۔ سی این این کے مطابق مارک اینڈریسن، صدر ڈاؤنلڈ ٹرمپ کے حامی اور دنیا کے معروف ٹیک سرمایہ کاروں میں سے ایک نے ایکس پر ایک پوسٹ میں  لکھا کہ ڈیپ سیک کو میں نے اب تک کی سب سے حیرت انگیز اور متاثر کن پیش رفتوں میں سے دیکھا ہے ۔ نسبتاً نامعلوم اے آئی سٹارٹ اپ کی شاندار کامیابی اس وقت اور بھی چونکا دینے والی ہو جاتی ہے جب اس بات پر غور کیا جائے کہ امریکہ نے قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے چین کو آئی پاور اے آئی چپس کی فراہمی کو محدود کرنے کے لیے برسوں سے کام کیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈیپ سیک اپنے کم لاگت والے ماڈل کو کم طاقت والے اے آئی چپس پر حاصل کرنے کے قابل تھا۔ عالمی خبر ارساں ادارہ سی این این کے مطابق پیر کی صبح امریکی ٹیک اسٹاکس کو نقصان پہنچا،نویڈا اے آئی چپس کا سب سے بڑا سپلائرہے، جس کا اسٹاک پچھلے دو سالوں میں ہر ایک میں دوگنا سے زیادہ  ہونے کے باوجود  12فیصدگر گیا۔ گوگل کی پیرنٹ کمپنی میٹا اور الفابیٹ میں بھی تیزی سے کمی ہوئی۔ ڈیپ سیک نے وسیع تر اسٹاک مارکیٹ کو نیچے گھسیٹا، کیونکہ ٹیک اسٹاک مارکیٹ کا ایک اہم حصہ ہے۔ امریکی سکالر دانیل لرنر کا کہنا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کی بہتر کارکردگی ٹیکنالوجی اور برتری کے ذریعے چلائی گئی ہے جو امریکی کمپنیوں کو اے آئی میں حاصل ہے۔دیپ سیک ماڈل رول آؤٹ سرمایہ کاروں کو امریکی کمپنیوں کے لیڈ پر سوال کرنے کی طرف لے جا رہا ہے اور کتنا خرچ کیا جا رہا ہے اور آیا یہ خرچ منافع (یا زیادہ خرچ) کا باعث بنے گا۔ اس ہفتے کمائی کی اطلاع دینے والی ٹیک کمپنیوں کی ایک سیریز کا آغاز ہورہا ہے، اس سریز سےڈیپ سیک کے حیران کن ردعمل سے آنے والے دنوں اور ہفتوں میں مارکیٹ کی ہنگامہ خیز حرکت ہو سکتی ہے۔ اس دوران، سرمایہ کار چینی  اے آئی کمپنیوں کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ سیکسو کے چیف انویسٹمنٹ سٹریٹیجسٹ چارو چنانا  کا کہنا ہے کہ چینی ٹیک کمپنیاں بشمول ڈیپ سیک جیسے نئے آنے والے جغرافیائی سیاسی خدشات اور کمزور عالمی مانگ کی وجہ سے نمایاں رعایت پر تجارت کر رہی ہے،دیپ سیک کا عروج کم قیمت والی چینیاے آئی کمپنیوں میں سرمایہ کاروں کی نئی دلچسپی کو جنم دے سکتا ہے، جو ایک متبادل ترقی کی کہانی فراہم کرتا ہے

سینیٹ کمیٹی نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری دے دی : کیا اس بل سے صحافیوں کی آزادی متاثر ہوگی؟

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ترمیمی بل کو شدید بحث و مباحثے کے بعد منظور کر لیا، تاہم اس بل پر صحافتی تنظیموں کی طرف سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ بل صحافتی آزادی اور عوامی مفاد کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین فیصل سلیم کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں مختلف ارکان اور صحافتی تنظیموں نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اجلاس کے دوران صحافتی تنظیموں نے فیک نیوز کی وضاحت نہ ہونے کو اس بل کی سب سے بڑی خامی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں فیک نیوز کے بارے میں کسی معیار کی وضاحت نہیں کی گئی ہے، جس سے یہ امکان پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ بل غیرضروری طور پر صحافیوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ صحافتی تنظیموں کا کہنا ہےکہ فیک نیوز کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے معیار اور طریقہ کار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، اور اس کے بارے میں کوئی ٹھوس رہنمائی نہیں فراہم کی گئی۔ ان تنظیموں نے اس بل میں فیک نیوز کی تعریف کو بھی مبہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی بنیاد پر کسی بھی خبر یا مواد کو فیک نیوز کے طور پر قرار دینا ممکن ہو سکتا ہے، جس سے صحافیوں کی آزادی متاثر ہو گی۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بھی اس بل کی جلدی منظوری پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ کم وقت میں اس قانون کا بغور مطالعہ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بل کی تفصیل کو سمجھنے کے لیے زیادہ وقت درکار ہے تاکہ اس کی تمام پہلوؤں کو گہرائی سے جانچا جا سکے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ قانون سازی میں جلدبازی سے گریز کیا جانا چاہیے تاکہ اس کے اثرات کو درست طور پر سمجھا جا سکے۔ چیئرمین کمیٹی فیصل سلیم رحمان نے صحافتی تنظیموں سے سوال کیا کہ وہ اپنے تحریری تحفظات کیوں پیش نہیں کر رہے اور ان سے درخواست کی کہ وہ کمیٹی کے سامنے اپنے اعتراضات پیش کریں۔ اس موقع پر صحافیوں کی تنظیموں نے اپنے تحفظات کو واضح کرتے ہوئے اس بل کی بعض شقوں پر سوالات اٹھائے۔ صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس بل کے نفاذ سے صحافیوں کی آزادی متاثر ہو سکتی ہے، جس کے نتائج نہ صرف صحافت بلکہ عوامی مفاد کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس بل کے جواز کو مضبوط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قانون عوام کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ پیکا بل میں ترامیم کی گئی ہیں تاکہ اس کا اطلاق بہتر طریقے سے ہو سکے اور فیک نیوز کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بل کی مدد سے حکومت فیک نیوز کے خطرات کو کم کر سکے گی اور عوام کو درست معلومات فراہم کرنے کا عمل مزید موثر بنے گا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی فیک نیوز کے مسئلے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ اس حوالے سے قانون سازی ضروری ہے تاکہ عوام کو گمراہ کن معلومات سے بچایا جا سکے۔ تاہم، انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس بل کی تیاری کے دوران صحافیوں اور میڈیا تنظیموں سے مشاورت کی کمی محسوس ہوئی ہے، جو کہ قانون سازی کے عمل کو مزید شفاف اور موثر بنانے کے لئے ضروری تھی۔ کمیٹی کے اجلاس میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ یہ بل اگر صحافیوں کی آزادی پر اثر انداز ہو گا تو اس کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔ مختلف ارکان نے کہا کہ اگر اس بل کے ذریعے صحافیوں کے حقوق پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی تو وہ اس کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گے۔ آخرکار، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پیکا ترمیمی بل کی منظوری دے دی، تاہم کمیٹی کے ارکان نے اس بات پر زور دیا کہ اس بل پر مزید مشاورت کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ صحافتی تنظیموں اور دیگر متعلقہ فریقین کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بل میں مزید بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے پیکا ترمیمی بل کی منظوری کے باوجود اس بل کے مستقبل پر اب بھی سوالات اٹھ رہے ہیں، اور اس کی حتمی شکل میں صحافتی تنظیموں کی مشاورت کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود میں کمی کردی

اسٹیٹ بینک نے نئے سال کی پہلی مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا۔ نئی مانیٹری پالیسی میں شرح سود میں ایک فیصد کمی کی گئی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ “اسٹیٹ بنک نے شرح سود میں ایک فیصد کمی کا فیصلہ کیا ہے”۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ” تمام اعدادوشمار کا جائزہ لینے کے بعد شرح سود میں ایک فیصد کی کمی کی۔ اب شرح سود  13سے کم ہو کر 12 پر آگئی۔ معیشت بہتر  رہی ہے لیکن چیلنجز موجود ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ مسلسل 6 ماہ سے سرپلس میں رہا ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ”گزشتہ چند ماہ میں مہنگائی کم ہوئی ہے۔ ملک میں مجموعی زر مبادلہ ذخائر 16 ایشاریہ 19 ارب ڈالر ہیں۔ مرکزی بینک کے زرمبادلہ ذخائر 11 ایشاریہ 44 ارب ڈالر ہوگئے۔دسمبر 2024 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 58 کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے سرپلس رہا۔ امید ہے اس ماہ مہنگائی کی شرح میں مزید کمی ہو جائے گی”۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ” مال سال 2025 میں جی ڈی پی نمودو ایشاریہ 5 سے 3ایشاریہ فیصد رہے گی”۔ جمیل احمد نے کہا ہے کہ  پاکستان کے معاشی اعشاریے مثبت ہیں، مہنگائی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ خاطر خواہ کم ہوئے، مہنگائی مئی 2023 میں 38 فیصد تھی جو کم ہوکر 4.1 فیصد رہی، جبکہ جنوری میں مہنگائی مزید کم ہوگی۔ اب شرح سود میں کمی ہونے سے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی ہو گی اور کاروبار میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا جس سے روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ نوجوانوں کو معاشی طور پر خود کفیل بنانے اور کاروبار کے لیے ان کی حوصلہ افزائی میں یہ ایک بہت بڑی رکاوٹ تھی ۔لیکن شرحِ سود میں مسلسل کمی کے ساتھ امید کی جاسکتی ہے کہ نوجوان کاروباری افراد بھی قسمت آزمائی کے لیے متحرک ہوں گے۔ اگر علاقائی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت بھی خطے کے تمام ممالک میں شرح سود کے لحاذ سے اوپر ہے۔ بھارت اور نیپال میں شرح سود 6.5 فیصد ہے۔ سری لنکا میں 8.25 فیصد اور بنگلہ دیش میں 10 فیصد ملک میں افراطِ زر کی شرح سنگل ڈیجٹ میں آنے کے بعد شرح سود کو بھی سنگل ڈیجٹ میں آنا چاہیے اس طرح پاکستان علاقائی ممالک کے قریب آ جائے گا ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جمیل احمد کا کہنا ہے کہ 2025 میں پاکستان کا پہلا نیا نوٹ جاری ہو جائے گا۔جمیل احمد نے اپنے بیان میں کہا کہ رواں سال نئے کرنسی نوٹوں کا اجرا شروع ہو جائے گا، اس سال کرنسی نوٹ کے نئے ڈیزائن والے نوٹ مارکیٹ کر دیں گےگورنر سٹیٹ بینک نے بتایا کہ نئے ڈیزائن مرحلہ وار پرنٹ کیے جائیں گے، سٹیٹ بینک نئے نوٹ کی تکنیکی ویلیوایشن کر رہا ہے، نئے نوٹ کو جلد منظوری کیلیے کابینہ کے سامنے پیش کریں گے۔

پوری دنیا سے اجڑنے کے بعد نسل کشی کرنے لگے، تاریخ گواہ ہے!

یہودیوں کا نسل کشی سے تعلق آج سے نہیں ،بلکہ 2 ہزار سال پہلے سے ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں یہودیوں کے ساتھ بد ترین سلوک روا رکھا گیا ۔ 2ہزار سال پہلے روم کے باشندوں نے یہودیوں کو موجودہ اسرائیل سے نکال دیا تھا۔ اس علاقے سے نکلنے کے بعد یہودی پوری دنیا میں پھیلنے لگے مگر زیادہ تر اقوام نے انہیں قبول نہیں کیا۔ آج وہی قوم موجودہ اسرائیل اور فلسطین میں موجود ہے اور فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔ جرمنی میں ہونے والی تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی ،جسے ہالوکاسٹ کہا جاتا ہے،کے بعد بچ جانے والے یہودیوں نے یہ ضرورت انتہائی زیادہ محسوس کی کہ ان کا ایک الگ وطن ہونا چاہیے۔ ان کی یہ ضرورت14 مئی 1948 کو پوری ہوئی جب فلسطین میں یہودیوں نے اسرائیل کے نام سے اپنی ریاست کا اعلان کیا۔ اس زمین سے یہودیوں ، مسلمانوں  اور عیسائیوں  کی عقیدت کی بنیادی وجہ یہاں موجود مذہبی مقامات ہیں جو تینوں مذاہب کے لوگوں کے لیے مقدس ہیں۔ اسی وجہ سے تینوں مذاہب کے لوگ اس زمین کو حاصل کرنا چاہتے ہیں جو یہاں ہونے والی نسل کشی کی وجوہات میں سب سے اہم ہے۔ جب سے یہودیوں نے یورپ چھوڑکر فلسطین میں آباد کاری شروع کی ہے، فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ 1947 میں اقوامِ متحدہ نے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم  کر دیا جائے جبکہ یروشلم کو بین الاقوامی شہر  بنایا جائے۔ تاہم جب 1948 میں اسرائیلی ریاست کا اعلان ہوا تو اگلے ہی روز مصر، اردن، شام اور عراق نے اسرائیل پر حملہ کردیا۔ یہ پہلی عرب اسرائیل جنگ تھی،جس کے بعد جہاں عرب ریاست بننا تھی وہ علاقہ مختلف ممالک کے قبضے میں آگیا۔ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے عرب اتحاد کو شکست دے کر ان کے مختلف علاقوں پہ قبضہ کر لیا۔ جن میں مصر سے غزہ کی پٹی اور سینائی، شام سے گولان اور اردن سے مشرقی یروشلم سمیت غرب اردن شامل ہیں۔ 1973 کو مصر اور شام نے اپنے علاقے چھڑانے کے لیے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔  تاہم کچھ برس بعد دونوں ممالک نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا اور اپنے علاقے واپس لے لیے۔ فلسطین میں حماس نامی ایک عسکری گروہ برسرِاقتدار ہے اور اسرائیل کے ساتھ مسلسل جنگی حالت میں ہے۔ حماس نے 2007 میں فلسطین میں اقتدار سنبھالا۔ تب سے اب تک اسرائیل اور حماس کے بیچ متعدد جنگیں ہو چکی ہیں۔ خبر رساں ادارے الجزیرہ کے مطابق، 2جنوری 2025  تک فلسطین اور اسرائیل کی حالیہ جنگ میں صرف غزہ میں 45،581 لوگ مارے گئے ہیں جن میں 17،492 بچے شامل ہیں اور 11،160 لوگ لاپتہ ہیں۔ اس کے علاوہ 108،438لوگ زخمی ہیں۔ حماس کے حملوں سے اسرائیل میں 1،139لوگ مارے گئے ہیں۔ 4 جنوری کو اسرائیل کی جانب سے غزہ پہ دوبارہ بمزگرائے گئےجس میں 150 سے زائد لوگ مارے گئے ہیں۔ غزہ میں آدھے سے زیادہ لوگوں کے گھرتباہ ہوچکے ہیں۔ 88 فیصد سکول اور 68 فیصدسڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی جنگ میں اب تک 200 سے زائد  فلسطینی شہریوں اور صحافیوں کو مارا جا چکا ہے۔ 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کو غزہ سے نکلنے کے 65 احکامات جاری کیے ہیں جب کہ فلسطینی غزہ کو اپنا وطن مانتے ہیں اور اسرائیل کی غیر قانونی آبادکاری کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کی جنگ نے انسانیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ جنگ بندی ہوچکی مگر اسرائیل ابھی بھی بمباری سے باز نہیں آرہا۔ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب کے شعبہ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان علی فانی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہالوکاسٹ کے اسرائیلی عوامی پر نفسیاتی اثرات سے متعلق کھل کر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ” دنیا بھر میں رومن سلطنت سے لے کر پہلی جنگ عظیم کے اختتام تک مغربی عیسائی ریاستوں اور اقوام نے یہودیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا، وہ انتہائی تکلیف دہ اور دل شکن تھا۔ اس عرصے میں صرف مسلم دنیا نے ہی یہودیوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا اور ان کے ساتھ جینے کے مساوی حقوق دیے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “تاریخی طور پر جب 1492 میں سپین سے مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو عیسائی حکام نے وہاں کے تمام یہودیوں کو عیسائیت قبول کرنے کی شرط رکھی، یا پھر سپین سے نکل جانے کو کہا۔ اس کے بعد جو یہودی سپین سے نکلے انہیں سلطنت عثمانیہ نے خوش آمدید کہا اور اپنے ساتھ رہنے کی دعوت دی۔ مغربی عیسائی ریاستوں کی تاریخ یہودیوں کے ساتھ بدسلوکی کی داستان ہے جس کے نتیجے میں یہودی صدیوں تک دربدر رہے۔ عیسائی ریاستوں نے ان یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کی تجویز اس لیے پیش کی کہ وہ اپنے ملکوں سے انہیں نکال سکیں”۔ دوسری جانب گورنمنٹ گرونانک گریجوایٹ کالج ننکانہ صاحب کے شعبہ ابلاغیات کے پروفیسر محمد بلال نے ‘پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہالوکاسٹ کے اسرائیلی عوام پر اثرات کے حوالے سے کہا کہ ” ہولوکاسٹ نے اسرائیل کی قومی اور خارجہ پالیسی پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ ہولوکاسٹ کے بعد اسرائیل کی تشکیل ایک محفوظ وطن فراہم کرنے کے مقصد کے تحت ہوئی جہاں یہودیوں کو کسی بھی ممکنہ مظالم سے تحفظ مل سکے۔ یہ نظریہ اسرائیل کی قومی شناخت کا مرکزی عنصر ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہولوکاسٹ کا ذکر اسرائیل کے عالمی تعلقات اور سلامتی کے معاملات میں ایک اہم دلیل کے طور پر کیا جاتا ہے۔ اسرائیل کی فوجی طاقت اور خودمختاری کے تحفظ کو یقینی بنانے کی پالیسی اسی تجربے سے متاثر ہے۔ ہولوکاسٹ کے اثرات کی وجہ سے اسرائیل نے عالمی برادری سے ہمدردی اور مالی امداد حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی”۔ فلسطینی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عرفان نے کہا کہ ” تاریخ میں یہودیوں کے ساتھ ہونے والی ہولوکاسٹ یا نسل کشی کی طرح آج فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ اسرائیل کر رہا ہے وہ اسی ظلم کی دہائی ہے۔1917 میں بالفور ڈیکلیریشن کے تحت

پاکستان نے علامتی غلامی چھوڑ کر دوبارہ کیوں اختیار کی؟

دولت مشترکہ (کامن ویلتھ) 56 آزاد ممالک کی عالمی تنظیم ہے جو کہ جمہوریت ثقافت اور اقتصادی تعاون کے فروغ، قانونی کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے کام کرتی ہے، دولت مشترکہ ممالک میں سے زیادہ تر وہ ملک ہیں جو برطانوی راج سے آزاد ہوئے ہیں۔ دولت مشترکہ دنیا کی 30 فیصد سے زائد آبادی اور 20 فیصد سے زائد رقبے پر پھیلی ہوئی ہےجو کہ عالمی معیشت میں 16 فیصد حصہ ڈالتی ہے۔ ہر 4 سال بعد دولت مشترکہ ممالک کے مابین کھیلوں کے مقابلے بھی ہوتے ہیں۔ دولت مشترکہ ممالک میں سڑک اور پٹری کے بائیں جانب سفری نظام اور امریکی انگریزی کی بجائے برطانوی انگریزی کا استعمال کیا جاتا ہے، اس کا صدر دفتر برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں واقع ہے۔ پاکستان نے بھی آزادی کے بعد 1947 میں ہی دولت مشترکہ تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی تھی، لیکن 30 جنوری 1972 میں وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے برطانیہ کی جانب سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے پر احتجاجاً دولت مشترکہ سے علیحدگی کا اعلان کر دیا، بھٹو کے اس اقدام کے باعث برطانیہ میں موجود تارکین وطن کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دولت مشترکہ سے علیحدگی کے بعد پاکستان کے لئے کامن ویلتھ کے ترقیاتی پروگراموں سے استفادے کے مواقع ختم ہو گئے، عالمی تعلقات بھی متاثر ہوئے اور کئی دہائیوں تک اقتصادی اور سفارتی ساکھ کو تقصان پہنچتا رہا۔ 80 کی دہائی میں پاکستان نے ایک بار پھر سے دولت مشترکہ میں شمولیت اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، جمہوریت کی بحالی اور عالمی تعلقات کی مضبوطی کے لئے اس تنظیم کا دوبارہ حصہ بننے کی کوشش کی گئی، 1989 میں بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں پاکستان دوبارہ دولت مشترکہ کا حصہ بن گیا۔ دولت مشترکہ رکنیت بحال ہوتے ہی پاکستان کو تجارتی، اقتصادی اور تعلیمی پروگراموں میں دوبارہ شمولیت کا موقع ملا، پاکستان نے اس پلیٹ فارم کے ذریعے عالمی برادری تک اپنا مؤقف پہنچایا اور بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ کو بحال کرنے کے سفر کا آغاز کیا۔ پاکستان کا برطانیہ سے آزادی کے بعد اس علامتی غلامی (کامن ویلتھ) کو اختیار کرنا، پھر سے الگ ہو کر دوبارہ حصہ بننے کا سفر عالمی تعلقات کی پیچیدگیاں اور ملکی مفادات کے لئے بین الاقوامی پلیٹ فارمز کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغیات کے پروفیسر ڈاکٹر نوید اقبال نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے دولت مشترکہ سے علیحدگی کے فیصلے پر روشنی ڈالی۔ انہوں کا کہنا ہے کہ “جدید دنیا میں کوئی بھی ملک تنہا گزارا نہیں کر سکتا۔ اسے اپنے خارجی تعلقات ہر ایک کے ساتھ بنا کر رکھنے ہوتے ہیں۔ پاکستان کو پہلا نقصان یہی ہوا کہ بین القوامی سطح پر کسی حد تک ساکھ متاثر ہوئی، کیونکہ پاکستان بنے کے کچھ ہی سال بعد جمہوریت حکومت کے خاتمہ کے بعد فوجی حکومت آئی تھی۔دوسرا پاکستان کو نقصان تب ہوا جب پاکستان نے دولت مشترکہ سے علحیدگی اختیار کی تھی کیونکہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے تو پاکستان میں معیشت پر قابو پانے کے لیے دولت مشترکہ جیسے اداروں کی اشد ضرورت تھی”۔ دوسری جانب اس حوالے سے ماہر بین الاقوامی تعلقات محمد بلال نے پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفگو کرتے ہوئے کہا کہ “1972 میں پاکستان نے کامن ویلتھ چھوڑ دی تھی۔ پھر 1989 میں واپس آیا۔ اس کے بعد 2004 میں پاکستان کو سسپینڈ کردیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان دوبارہ 2008 کے اندر آگیا۔ کامن ویلتھ ایک کالونیالیزم کی نشانی ہے۔ اور کالونیالیزم کی آسان ترین تعریف یہ ہے کہ جب سے کلونیل پاؤرز نے کالونیوں کو چھوڑا ہے تو وہاں پہ وہ اپنا سسٹم اور اپنی سوچ دے کر گئے۔ اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ جب حضرت موسیؑ جس وقت بنی اسرائیل کو لے کر نکلے ہیں تو وہاں بنی اسرائیل نے خود دیکھا کس طرح ریڈ سی پھٹا کس طرح راستہ بنا فرعون ڈوبا”۔ محمد بلال نے مزید کہا کہ “اس سے پہلے بھی انہوں نے حضرت موسیؑ کے معجزات دیکھے۔ لیکن جیسے ہی موسیؑ کوہ طور پر پیغام لے جاتے ہیں تو پیچھے سے سامری ایک بچھڑا بناتا ہے اسی طرح کا بچھڑا جس کی پوجا مصری کرتے ہیں۔ اور اس کی پوجا شروع ہوجاتی ہے کہ یہ کیا ہوا ہے موسیؑ نیچے اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کیا ہوا ہے اپنے بھائی حضرتِ ہارونؑ کو ڈانٹتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ کلیونیٹیز کا مطلب یہ ہے کہ آپ جسمانی طور پر تو نکل جاتے ہیں لیکن ذہنی لحاظ سے آپ غلام رہتے ہو ان کلونیل ماسٹرز کے اور کلونیل پاؤرز کے”۔ کامن ویلتھ سے علیحدگی کے بعد چیلنجز پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نوید اقبال نے کہا کہ “میں سمجھتا ہوں کہ 2 بڑے چیلنجز تھے ایک پاکستان عالمی سطح پر ساخت کی بحالی کا تھا، کیونکہ پاکستان کا دشمن ملک بھارت پاکستان کو عالمی سطح پر نقصان کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ پاکستان کو عالمی تنہائی میں دیکھیلا جائے۔ پاکستان کو دوسرا بڑا چیلنج اس دورانیہ میں معیشت کا تھا۔ اسا دورانیہ میں پاکستاں کی معیشت خراب تھی اور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کی جارہی تھی۔ لیکن رکنیت ختم ہونے کے سبب پاکستان کو اس طرح سے فائدہ نہ ہو سکا، نہ معیشت بحال ہو پائی اور نہ ہی تجارت میں بہتری آ سکی”۔ دوسری جانب محمد بلال کے نزدیک “پاکستان کو کیا ہے تھوڑی سی سپورٹ لیکن اس چیز کے بدلے میں آپ اس چیز کے بدلے میں ان کا کنٹرول جو ہے وہ بہت زیادہ ہم پر بڑھ جاتا ہے۔ آج بھی آپ دیکھ لیں کہ ہم سمجھتے ہیں کے جو پڑھا لکھا بندہ ہے وہ امریکہ سے یا برطانیہ سے پڑھ کر آیا ہے۔ اپنی ڈگریوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ انکی تعلیم کو اور انکی ڈگریوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے لیکن ہماری خط و کتابت ساری انگریزی میں ہے۔ جو اپنا نظام اور کلونیلٹی چھوڑ کر گئے ہیں ابھی تک اسی  کی پیروی کررہے ہیں۔ انہی کے نظام تلے دبے ہوئے ہیں”۔ دولت مشترکہ میں

“عدلیہ کی آزادی کے خلاف کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی” 26ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج

پاکستان تحریک انصاف نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے۔ عدلیہ کی آزادی کے خلاف کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ آئینی ترمیم اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کے خلاف ہے۔ پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں 26 آئینی ترمیم کوچیلنج کرتے ہوئے درخواست دائر کی ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیاجائے اور اس درخواست میں آئینی ترمیم پر فیصلے تک قائم جوڈیشل کمیشن کو ججز تعیناتی سے روکنے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت ہونے والے تمام اقدامات کالعدم قرار دیے جائیں۔ پارلیمنٹ آئین کے بنیادی خدوخال کو تبدیل نہیں کر سکتی ۔ پی ٹی آئی کی طرف سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے۔ عدلیہ کی آزادی کے خلاف کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ آئینی ترمیم اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کے خلاف ہے۔ نجی ٹی وی ڈان نیوز کے مطابق اس سے قبل جماعت اسلامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی 26ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے جبکہ سابق وزیر اعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے بھی 26ویں ترمیم کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ  کا 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کہنا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ ہی ختم کرے گی اور عدلیہ کی آزادی بحال ہوگی، انھوں نے کہا کہ  ملی یکجتی کونسل کا مرکزی وفد 27 جنوری کو کرم صورتحال پر وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور سے اسلام آباد میں ملاقات کرے گا۔ لیاقت بلوچ نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل میں وفاق صوبوں کے اعتراض دور کرے، انسانی سمگلنگ کا قلع قمع ہونا چاہیے، مزدور دشمن اقدامات پر اتحادی حکومت ایک پیج پر ہے۔ انھوں نے مزید کہا  کہ ایک سال بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین کا انتخاب اچھا اقدام ہے، سینیٹر اعجاز چودھری کے پروڈکشن آرڈرز پر عمل نہ کرنے پر چیئرمین سینیٹ کا اقدام اچھا ہے۔ دوسری جانب  پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کو کالعدم کرنے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے، اگر اس ترمیم کو کالعدم کرنے کی کوشش کی گئی تو کوئی دوسرا ادارہ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔۔ چئیرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا بنچ ہو یا آئینی بنچ، سب کو آئین اور قانون کا احترام کرنا چاہیے۔ ترمیم کا کوئی بھی رول بیک صرف پارلیمنٹ کو کرنا چاہیے، نہ تو پیپلز پارٹی اور نہ ہی کوئی اور کسی ادارے کی جانب سے تبدیلیوں کو کالعدم کرنے کی کوشش کو قبول کرے گا۔ اکتوبر 2024 میں منظور ہونے والی اس ترمیم نے عدالتی تقرری کے عمل میں، خاص طور پر آرٹیکل175-A میں اہم تبدیلیاں متعارف کروائیں، ان تبدیلیوں میں سے خاص طور پر  چیف جسٹس آف پاکستان کے انتخاب کے طریقہ کار کو تبدیل کیا گیا۔ یاد رہے کہ 26ویں آئینی ترمیمی بل کا مسودہ 20 اکتوبر کو سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور کیا گیا، جس کے بعد اس بل کو 21 اکتوبر کی علی الصبح قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت منظورکیا گیا تھا۔ 26ویں آئینی ترمیمی بل دراصل قانون سازی ہے جس کا مقصد سپریم کورٹ کے ازخود(سوموٹو) اختیارات لینا ، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت تین سال مقرر کرنا اور اگلے چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار وزیر اعظم کو دینا ہے۔ واضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم نے اہم بحث چھیڑ دی ہے، سپریم کورٹ کا ایک آئینی بنچ 27 جنوری کو اس کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرے گا۔

کیا خیبر پختونخوا حکومت ہزاروں ملازمین کی برطرفی کی تیاری کر رہی ہے؟

خیبر پختونخوا حکومت نے حیران کن فیصلہ کرتے ہوئے نگران دورِ حکومت میں بھرتی ہونے والے 16 ہزار سرکاری ملازمین کو ملازمت سے برطرف کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ‘خیبر پختونخوا ملازمین برطرفی از خدمت بل 2025’ کے نام سے ایک بل تیار کیا گیا ہے جس کے تحت نگران دور حکومت میں غیر قانونی بھرتی ہونے والے ملازمین کو فوراً نوکریوں سے فارغ کر دیا جائے گا۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ قانون کے مطابق اور عوامی مفاد میں کیا گیا ہے۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف محکموں سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق تقریباً 8 ہزار ملازمین کی نشاندہی کی گئی ہےجن میں پولیس اور صحت کے محکمے کے ملازمین بھی شامل ہیں۔ اس بل کے تحت سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے کے لئے ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس کے سربراہ ایسٹبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری ہوں گے۔ ان کے ساتھ ایڈووکیٹ جنرل، قانون، خزانہ اور انتظامیہ کے محکموں کے افسران بھی شامل ہوں گے۔ یہ کمیٹی برطرفیوں کے عمل کو آسان بنانے کے لئے ممکنہ پیچیدگیوں کا جائزہ لے گی اور اس فیصلے کے عملی نفاذ کی نگرانی کرے گی۔ اس بل کے تحت اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ متعلقہ ادارے اور محکمے فوراً ان ملازمین کے بارے میں نوٹیفکیشن جاری کریں گے تاکہ ان کی برطرفی کا عمل شروع کیا جا سکے۔ اس طرح کے اقدام سے صوبے کے سرکاری اداروں میں ہونے والی بے ضابطگیوں اور غیر قانونی بھرتیوں کا خاتمہ ہوگا۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا اسمبلی میں “خیبر پختونخوا ریگولیٹری فورس بل 2025” بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس بل کے تحت صوبے میں ایک ایسی فورس قائم کی جائے گی جو مختلف شعبوں میں ریگولیٹری قوانین کو نافذ کرے گی اور ان کے خلاف ہونے والی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لئے کام کرے گی۔ اس فورس کو پولیس افسران کی طرح وسیع اختیارات دیے جائیں گے اور اس کا ہیڈ آفس صوبائی دارالحکومت پشاور میں قائم ہوگا۔ اس فورس کے مقاصد میں ماحولیاتی تحفظ، فوڈ سیفٹی، قیمتوں کی نگرانی اور دیگر اہم شعبوں میں قوانین کی پیروی کو یقینی بنانا شامل ہوگا۔ ریگولیٹری فورس کے زیر انتظام ہر ضلع میں ایک یونٹ قائم کیا جائے گا جس کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ہوگا۔ اس کی مدت تین سال ہوگی۔ تاہم وزیراعلیٰ کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ ڈی جی کو اس سے کم یا زیادہ مدت کے لئے تعینات کریں۔ خیال رہے کہ خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کی پنشن میں اصطلاحات کرنے پر صوبائی دارالحکومت پشاور میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا تھا، حکومت کی جانب سے اصطلاحات لانے پر سرکاری ملازمین صوبائی اسمبلی کے باہر احتجاجی دھرنا دیے ہوئے تھے، حکومت اور آل گورنمنٹ ایمپلائز کوارڈینیشن کے درمیان مذاکرات ناکام ہونے پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ کر دی تھی۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ پینشن اصلاحات کے نام پر ہمارے بچوں کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے، ہمارے ساتھیوں کو رات گئے گرفتار کیا گیا جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ اس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ایکس ( سابقہ ٹویٹر) پر صارفین نے دھرنے کی تصاویر اور ویڈیو شئیر کرتے ہوئے احتجاج کے حوالے سے خوب تبصرے کیے۔ صارفین کی جانب مظاہرین پر شیلنگ کو ظلم قرار دیا گیا اور حکومت پر کڑی تنقید کی گئی۔ صارفین کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پر چڑھائی کرنا حلال ہے جبکہ اپنے حق کے لیے باہر نکلنا حرام ہے۔ واضح رہے کہ یہ دونوں بل حکومت کے سخت اقدامات کا غماز ہیں جن کا مقصد صوبے میں شفافیت اور نظم و ضبط کو بڑھانا ہے۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں نہ صرف سرکاری محکموں میں اصلاحات کی راہ ہموار ہو گی بلکہ عوام کے اندر بھی حکومت کے بارے میں اعتماد بڑھے گا۔

جناح انٹارکٹک اسٹیشن: مفادات کے تحفظ کا انوکھا پلیٹ فارم، کیا پاکستان اسے دوبارہ فعال کر پائے گا؟

روزِ اؤل سے انسان قدرت کے کرشموں کو اپنی عقل سے کھوجتا آیا ہے۔ انسان کی سوچنے اور نئے طریقے دریافت کرنے کی صلاحیت اسے اس قابل بناتی ہے کہ وہ زمین و آسمان کی تہوں میں چھپے قدرت کے رازوں کو دریافت کر سکے۔ کائنات کے پوشیدہ پہلوؤں سے روشنائی کا سفر آج بھی جاری ہے جس کی ایک مثال پاکستان کا جناح انٹارکٹک اسٹیشن ہے۔ جناع انٹارکٹک اسٹیشن براعظم انٹارکٹیکا پہ واقع ایک تحقیقی سٹیشن ہے۔ یہ سٹیشن پاکستان کے انٹارکٹیکا پروگرام کے تحت کام کرتا ہے۔ جس کے تحت پاکستان باقی ممالک کی شراکت داری کے ساتھ اس علاقے میں تحقیق کرتا ہے کہ اس علاقے کو ترقی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ یہ اسٹیشن مشرقی انٹارکٹیکا کے علاقے جنوبی رونڈین کے پہاڑوں کی ملکہ مود لینڈ میں واقع ہے۔ دوسری جنگ عظیم کےبعد براعظم انٹارکٹکا پہ مختلف ممالک نے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں عالمی اداروں کی مدد سے 1958 میں سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق قائم کیا گیا۔ یہ اس براعظم میں سائنسی تحقیق سرانجام دے رہا ہے۔ 1959 میں واشنگٹن میں “انٹارکٹک معاہدہ” ہوا جس میں 12 ممالک کےدستخط ہوئے۔ اب تک کُل ممالک کی تعداد 58 ہو چکی ہے۔ سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق کے قائم ہونے کے بعد وہاں مختلف ممالک نے اپنے اپنے سائنسی سٹیشنز قائم کیے۔ مزید براں کمیٹی وہاں موجود باقی ممالک کے سائنسی پروگرامز کے ساتھ شراکت داری بھی کرتی ہے۔ پاکستان نے ‘سائنسی کمیٹی برائے انٹارکٹیکا تحقیق’ کے ساتھ انٹارکٹیکا میں تحقیق کے لیے 1991 میں ایک معاہدہ کیا جسے پاکستان آرکیٹک پروگرام کہا جاتا ہے۔ یہ پروگرام پاکستان کی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی کے تعاون سے ‘نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے محیطیات’ نے پاک بحریہ کے زیر انتظام شروع کیا۔ پاکستان نے اس پروگرام کے تحت وہاں جناح انٹارکٹک اسٹیشن قائم کیا۔ 2001 میں اسٹیشن کے ڈیٹا آپریشنل سسٹم کو ‘بدر بی’ سیٹلائٹ کے ساتھ منسلک کیا گیا جس سے کراچی میں واقع این آئی او کے ہیڈکوارٹرز میں اس علاقے کے ڈیجیٹل مناظر کی ٹرانسمیشن شروع ہو گئی۔ 2002 میں سپارکو کے سائنسدانوں نے اسٹیشن کا دورہ کیا اور وہاں جدید ترین سپر کمپیوٹر نصب کیا۔ 2005 میں پاکستان ائیر فورس کے انجینئرز نے وہاں چھوٹی سی فضائی پٹی اور ایک کنٹرول روم قائم کیا۔ جہاں سے اب پاکستان سے آنے جانے والی پروازوں کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن کا مقصد براعظم انٹارکٹیکا کے متعلق مختلف شعبوں میں تحقیق کرنا ہے۔ جس میں ماحولیاتی معائنہ، سمندری حیاتیات اور برف کی ساخت شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی اورموسموں کے پیٹرنز کو سمجھنا شامل ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے براعظم انٹارکٹکا بھی محفوظ نہیں اور برف پگھلنا اور پئنگوئنز کی نقل و حرکت کا تبدیل ہونا جیسے عوامل کا سامنا کر رہا ہے۔ اسٹیشن پر موجود سائنسدان انٹارکٹیکا پہ موسمیاتی تبدیلی سے نبٹنے کے لیے بھی تحقیق کررہے ہیں۔ اس اسٹیشن میں تحقیق کے لیے تجربہ گاہیں، بنیادی سازوسامان اور لیبارٹریز موجود ہیں۔ سائنسدانوں کے رہنے کے لیے کوارٹرز بھی موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا ہوائی اڈا بھی ہے جہاں سے جہازوں کی آمد و رفت ہوتی ہے۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن عالمی سطح پہ پاکستانی شراکت داری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ایک اہم سہولت ہے جس کے ذریعے ہم ساتویں براعظم سے منسلک ہوتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کل کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے انسان وہاں مستقل رہائش اختیار کرنے کے قابل بھی ہوجائے۔ جامعہ پنجاب کے شعبہ سپیس سائنسس کے پروفیسر ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جناح انٹارکٹک اسٹیشن کا قیام 1991 میں پاکستان کے انٹارکٹک پروگرام کے تحت عمل میں آیا۔ اس کا بنیادی مقصد انٹارکٹیکا کے ماحولیاتی، موسمیاتی اور جغرافیائی پہلوؤں پر تحقیق کرنا ہے۔ یہ پاکستان کو عالمی سائنسی کمیونٹی میں ایک ذمہ دار رکن کے طور پر پیش کرتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی اور زمین کی قدرتی حالت کو سمجھنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر اس کا فائدہ یہ ہے کہ پاکستان بین الاقوامی تحقیقاتی پروجیکٹس میں شامل ہو کر اپنی سائنسی صلاحیت کو بہتر کر سکتا ہے اور ماحولیاتی تحفظ کے شعبے میں اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتا ہے”۔ دوسری جانب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ سپیس سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر زبیر خان کا کہنا ہے کہ “جناح انٹارکٹک اسٹیشن پاکستان کی سائنسی برتری کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ اسٹیشن موسمیاتی تبدیلیوں اور قطبی تحقیق میں عالمی تعاون کو فروغ دے رہا ہے، یہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے”۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن میں جاری تحقیقاتی شعبوں پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے کہا کہ پاکستان انٹارکٹیکا میں مختلف سائنسی شعبوں پر توجہ دے رہا ہے، جن میں موسمیاتی، سمندری حیات، جغرافیائی، ماحولیاتی اور بائیولوجیکل تحقیق شامل ہیں۔ موسمیاتی تحقیق میں گلوبل وارمنگ اور اوزون لیئر کے نقصان کے اثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے، سمندری حیات کی تحقیق میں سمندری ایکوسسٹمز اور ان میں رہنے والے جانداروں کا جائزہ لیا جاتا ہے، جغرافیائی علوم میں گلیشیئرز کی حرکت اور زمین کے اندرونی نظام پر تحقیق کی جاتی ہے، بائیولوجیکل تحقیق میں انٹارکٹک خطے میں مائیکرو آرگینزمز اور ان کے ارتقائی عمل کا مطالعہ کیا جاتا ہے، اور ماحولیاتی تحقیق میں برفانی تہوں میں گیسوں کے اثرات اور قدیم ماحولیاتی حالات کا پتہ لگایا جاتا ہے”۔ دوسری جانب ڈاکٹر زبیر خان کا ماننا ہے کہ ” جناح انٹارکٹک اسٹیشن کے ذریعے پاکستان سمندری حیاتیات، ماحولیاتی تبدیلی، برفانی تشکیل اور موسمی پیٹرنز جیسے سائنس کے اہم شعبوں پر توجہ دے رہا ہے”۔ جناح انٹارکٹک اسٹیشن کے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق نتائج اور معلومات پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر جہانزیب قریشی نے کہا کہ ” جناح انٹارکٹک اسٹیشن کے ذریعے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کئی اہم نتائج سامنے آئے ہیں، ادھر سے اوزون لیئر کے حوالے سے ڈیٹا حاصل ہوا ہے، جس نے پاکستان اور دیگر ممالک کو اوزون کی کمی کے اثرات کو سمجھنے میں مدد دی ہے، گلیشیئرز کی پگھلنے کی رفتار اور اس کے سمندر کی سطح پر اثرات کا جائزہ بھی

ٹیکسٹائل انڈسٹری کا زوال: حکومتی پالیسیوں کی ناکامی یا غیر سنجیدگی؟

Textile-industry

پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری، جو کبھی ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی تھی، آج زوال کی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف ملک کی سب سے بڑی برآمدی قوت تھی بلکہ لاکھوں خاندانوں کے روزگار کا ذریعہ بھی۔ مگر حالیہ اعدادوشمار کے مطابق، ملک کی 568 ٹیکسٹائل ملز میں سے 187 بند ہو چکی ہیں۔ یہ صرف کاروباری بحران نہیں بلکہ معیشت کے لیے ایک خطرناک الارم ہے۔ ماضی کی شان اور آج کی حقیقت پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر ماضی میں اپنی صلاحیت اور معیار کے باعث دنیا بھر میں مشہور تھا۔ فیصل آباد، جو کبھی ‘پاکستان کا مانچسٹر’ کہلاتا تھا، عالمی سطح پر برآمدات کا مرکز تھا۔ مگر آج، وہی صنعتی زون خاموش ہے۔ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جہاں 147 ملز بند ہو چکی ہیں۔ فیصل آباد میں 31، ملتان میں 33، اور قصور میں 47 ملز کی بندش اس بحران کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔ ان بندشوں کے پیچھے صرف مشینیں خاموش نہیں ہوئیں، بلکہ لاکھوں خاندان بھی بے روزگاری کا شکار ہوئے ہیں۔ حکومتی ناکامی: مسائل اور وجوہات ٹیکسٹائل انڈسٹری کی زبوحالی کے پیچھے مہنگی بجلی اور گیس، تاقص منصوبہ بندی، حکومتی بے بسی، روپے کی گرتی قدر، امپورٹ پالیسیاں اور سیاسی عدم استحکام جیسے بہت سے مسائل ہیں۔ پاکستان میں بجلی اور گیس کی قیمتیں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔ بجلی کی قیمت 50 روپے فی یونٹ تک جا پہنچی ہے جس سے پیداواری لاگت ناقابل برداشت ہو گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے صنعت کو سہارا دینے کے لیے کوئی واضح پالیسی یا حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ برآمدات کا 60 فیصد فراہم کرنے والے اس شعبے کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے دباؤ کا شکار کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ڈالر کی قلت اور خام مال کی درآمد پر پابندیاں صنعت کو مزید بحران میں دھکیل رہی ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف کاروبار کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ برآمدی ہدف کو بھی ناممکن بنا رہے ہیں۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام نے سرمایہ کاری کے مواقع کو محدود کر دیا ہے۔ ایسی صورتحال میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار لمبی مدت کی منصوبہ بندی سے گریز کر رہے ہیں۔ ان تمام مسائل نے اس انڈسٹری کے زوال میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ حکومتی دعوے اور تلخ حقیقت حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ صنعت کی بحالی کے لیے اقدامات کر رہی ہے، لیکن زمینی حقائق ان دعوؤں کے برعکس ہیں۔ ‘ایکسپورٹ ریوائیول پیکج’ اور سبسڈی کے اعلانات محض کاغذی ثابت ہوئے ہیں۔ عملی اقدامات کی کمی نے صنعت کاروں کو بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔ بنگلہ دیش اور ویتنام نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو حکومتی تعاون کے ذریعے عالمی سطح پر مستحکم کیا۔ بنگلہ دیش نے سستی بجلی، مزدوروں کو مراعات اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کے ذریعے اپنی برآمدات کو مستحکم رکھا۔ دوسری طرف پاکستان حکومتی نااہلی کے باعث اپنی موجودہ پوزیشن بھی کھو رہا ہے۔ ماہرین کی تجاویز سابق صدر لاہور چیمبر آف کامرس کاشف انور نے ‘پاکستان میٹرز’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری جو کبھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی تھی، آج شدید بحران کا شکار ہے۔ مہنگی بجلی اور گیس، غیر مستحکم معاشی پالیسیاں، بلند شرح سود اور خام مال کی قلت اس صنعت کی بندش کی اہم وجوہات ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں مسابقت کی کمی اور حکومت کی غیر سنجیدہ حکمت عملی نے بھی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پیداواری لاگت کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے جس سے برآمدات کم ہو رہی ہیں اور لاکھوں مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے حکومت کو فوری طور پر بجلی اور گیس پر سبسڈی فراہم کرنی ہوگی، کاروبار دوست اور طویل مدتی پالیسیاں بنانی ہوں گی، اور خام مال کی بروقت اور سستی فراہمی یقینی بنانی ہوگی۔ اس کے ساتھ برآمدات کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی مراعات اور عالمی مارکیٹ میں مسابقت کے قابل بنانے کے لیے رعایتی قرضے دینا ناگزیر ہے۔ مضبوط حکومتی پالیسی اور عملی اقدامات ہی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بحالی کا واحد راستہ ہیں”۔ دوسری جانب ٹیکسٹائل ایکسپرٹ غلام رسول چوہدری نے ‘پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ ٹیکسٹائل کی بحالی کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی لائی جائے، برآمدات کے لیے سبسڈی اور خام مال کی دستیابی کو یقینی بنانا جائے، ڈالر کی دستیابی اور امپورٹ پابندیوں کا خاتمہ کیا جائے، طویل المدتی صنعتی پالیسی کا نفاذ کیا جائے، اور سیاسی استحکام کو یقینی بنا کر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا جائے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا زوال حکومتی بے حسی، ناقص منصوبہ بندی، اور نظرانداز رویے کا نتیجہ ہے۔ یہ بحران صرف ایک شعبے تک محدود نہیں بلکہ لاکھوں خاندانوں کے روزگار اور ملکی معیشت کے استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اگر حکومت نے فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے تو پاکستان نہ صرف اپنی برآمدی پوزیشن کھو دے گا بلکہ معیشت کو سنبھالنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ اب وقت ہے کہ حکمران خواب غفلت سے نکل کر حقیقت کا سامنا کریں اور اس اہم صنعت کو بچانے کے لیے عملی اقدامات کریں، ورنہ تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔