نائیجیریا میں ’شدید سیلاب‘ نے 115 لوگوں کی جان لے لی، درجنوں افراد تاحال لاپتہ

Floods in nigeria

نائیجیریا کے وسطی علاقوں میں موسلا دھار بارشوں کے بعد آنے والے شدید سیلاب نے کم از کم 115 افراد کی جان لے لی ہے اور درجنوں افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ مقامی حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔    بدھ کی رات سے جمعرات کی صبح تک ہونے والی موسلا دھار بارشوں نے ریاست نائیجر کے دارالحکومت موکوا اور قریبی علاقوں کو شدید متاثر کیا۔ نائیجر اسٹیٹ ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی کے ترجمان کے مطابق، اب تک 115 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں، جن میں سے زیادہ تر کو دریائے نائیجر سے برآمد کیا گیا۔ ریسکیو ٹیمیں امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور مقامی افراد بھی اپنے پیاروں کو ملبے سے تلاش کر رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے، وزیراعظم شہباز شریف ماہرین کے مطابق، یہ ہولناک سیلاب موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ شدید اور مسلسل بارشوں کا غیر معمولی دورانیہ اور شدت بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں موسم کس تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اسی طرح کے شدید موسمی حالات دیگر ممالک میں بھی سامنے آ رہے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اب عملی تباہی میں تبدیل ہو چکا ہے۔

’مقامی صنعت کا تحفظ‘، امریکا کا اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر ٹیرف 50 فیصد کرنے کا اعلان

Trump steel tarif

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر عائد 25 فیصد ٹیرف کو بڑھا کر 50 فیصد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پنسلوانیا کے صنعتی شہر پٹسبرگ میں ایک سیاسی جلسے سے خطاب کے دوران اس فیصلے کا اعلان کیا۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ اس اقدام سے امریکی اسٹیل انڈسٹری کو نئی زندگی ملے گی، ملازمتیں بڑھیں گی، اور ملک کی دفاعی صلاحیت مضبوط ہو گی۔ امریکی صدر نے کہا کہ، درآمد ہونے والے اسٹیل اور ایلومینیم پر ٹیکس (25) فیصد کے بجائے (50) فیصد کرنے کا مقصد مقامی صنعتوں کو تحفظ دینا اور امریکا کو عالمی سطح پر اسٹیل کی پیداوار میں خود کفیل بنانا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے، وزیراعظم شہباز شریف اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ فیصلہ مقامی انڈسٹری کی بقا، روزگار کے تحفظ اور قومی سلامتی کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی اسٹیل انڈسٹری کو چین، جاپان، انڈیا اور دیگر ممالک سے درآمد کی جانے والی سستی مصنوعات نے نقصان پہنچایا ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اُن کے پہلے دورِ حکومت میں لگائے گئے پچیس فیصد ٹیرف نے امریکی اسٹیل انڈسٹری کو جزوی طور پر بحال کیا، اور اب اس میں مزید بہتری لانے کے لیے ٹیرف کو دگنا کرنا ضروری ہے۔ یہ نیا ٹیرف پورے امریکا میں نافذ کیا جائے گا اور بدھ کے روز سے اس پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔ اس کا اطلاق تمام درآمدی اسٹیل اور ایلومینیم پر ہوگا۔ امریکی صدر نے کہا کہ، یہ فیصلہ نہ صرف امریکا کی مقامی صنعت کو تحفظ فراہم کرے گا بلکہ اس کے ساتھ جاپانی کمپنی نپّون اسٹیل اور امریکی یو ایس اسٹیل کے درمیان 14 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا آغاز بھی ہے۔ یہ سرمایہ کاری چودہ ماہ کے دوران کی جائے گی اور معاہدے کے تحت امریکی حکومت کو پیداوار میں کمی کے فیصلوں پر ویٹو پاور حاصل ہوگی۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ معاہدے کے تحت کسی بھی امریکی ملازم کو برطرف نہیں کیا جائے گا، نہ ہی کسی قسم کی آؤٹ سورسنگ ہوگی۔ ہر اسٹیل ورکر کو 5 ہزار ڈالر بونس بھی دیا جائے گا۔ تاہم، ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ابھی تک معاہدے کی حتمی دستاویزات نہیں دیکھی ہیں۔ ماہرین کے مطابق، پاکستانی صنعتوں، خصوصاً آٹو، تعمیرات اور انجینئرنگ شعبہ جات، جو اسٹیل پر انحصار کرتے ہیں، اُنہیں اپنی قیمتوں میں تبدیلی اور درآمدی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا پڑ سکتی ہے۔ پاکستانی برآمد کنندگان کے لیے بھی یہ فیصلہ اہم ہے۔ اگر امریکا عالمی سطح پر درآمدی پابندیاں بڑھاتا ہے تو سپلائی چین متاثر ہوگی اور پاکستانی کمپنیوں کے لیے امریکی مارکیٹ تک رسائی مزید مشکل ہو سکتی ہے۔ چین، جو دنیا کا سب سے بڑا اسٹیل پیدا کرنے والا ملک ہے، نے امریکی فیصلے پر شدید ردعمل دیا ہے۔ بیجنگ نے امریکہ پر “امتیازی پابندیاں” لگانے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ امریکا تجارتی معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ٹرمپ نے چین پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ حالیہ تجارتی معاہدے کی شقوں پر عمل نہیں کر رہا، خاص طور پر نان ٹیرف رکاوٹوں کے خاتمے کے حوالے سے۔

پاکستانی وفد ’تجارتی مذاکرات‘ کے لیے اگلے ہفتے امریکا کے دورے پر آئے گا، ڈونلڈ ٹرمپ

Trump

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان کا ایک وفد اگلے ہفتے امریکا کا دورہ کرے گا تاکہ تجارتی محصولات سے متعلق بات چیت کی جا سکے۔ عالمی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی یا جنگ ہوتی ہے تو امریکا ان ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھے گا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو امریکا کے ساتھ تین ارب ڈالر کے تجارتی فائدے کی وجہ سے اپنی برآمدات پر 29 فیصد ٹیرف کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب انڈیا کو بھی امریکی تجارتی پالیسی کے تحت 26 فیصد ٹیرف کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکا اور انڈیا کے درمیان ایک تجارتی معاہدے پر کام جاری ہے اور دونوں ملک اس معاہدے کے قریب ہیں۔ انڈین وزیر تجارت نے اس مقصد کے لیے حال ہی میں واشنگٹن کا دورہ بھی کیا۔ صدر ٹرمپ نے اس موقع پر کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ امریکا ان ملکوں کے ساتھ تجارت کرے جو جنگ میں مصروف ہوں اور ایک دوسرے پر گولیاں برسا رہے ہوں، خاص طور پر جب جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ موجود ہو۔ یہ بھی پڑھیں: پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے، وزیراعظم شہباز شریف انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ممکنہ جنگ کو روکا، جو کہ ایٹمی تباہی میں بدل سکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے رہنماؤں نے ان کے پیغام کو سمجھا اور جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی، جس کے بعد کشیدگی کم ہوئی۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے تجارتی پیشکش کو ایک سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور اس کی مدد سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیز فائر ممکن بنایا۔ جب دونوں ممالک نے پہلے جنگ بندی سے انکار کیا تو انہوں نے یہ پیغام دیا کہ اگر لڑائی بند ہو جائے تو امریکا تجارت کرے گا، ورنہ نہیں۔ یاد رہے کہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کے مختلف علاقوں پر حملوں کے بعد، پاکستان نے جوابی کارروائی کی تھی۔ اس کے بعد سعودی عرب، امریکا اور ترکی نے دونوں ممالک کو جنگ سے روکنے کے لیے مداخلت کی اور آخرکار جنگ بندی پر اتفاق ہوا۔ 10 مئی کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر اس جنگ بندی کی تصدیق کی تھی۔

انڈونیشیا میں کان کنی کے دوران چٹان گر گئی، لاشیں ملبے تلے دب گئیں، 10 افراد ہلاک

Indonesia

انڈونیشیا کے صوبے مغربی جاوا میں کان پر چٹان گرنے سے کم از کم 10 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہو گئے۔ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ ایجنسی (BNPB) کے مطابق، ملبے تلے دبے ہوئے افراد کی تلاش کا عمل تاحال جاری ہے۔ یہ حادثہ مغربی جاوا کے علاقے سیربن میں جمعہ کے روز پیش آیا، جہاں چٹانیں گرنے کے بعد صورتحال انتہائی سنگین ہو گئی۔ مقامی میڈیا، خاص طور پر کومپاس ٹی وی نے جائے وقوعہ سے مناظر نشر کیے جن میں بھاری مشینری کے ذریعے پتھروں کو ہٹانے کا عمل جاری تھا۔ امدادی اہلکاروں نے لاشوں کو ایمبولینس میں منتقل کیا۔ ڈیزاسٹر ایجنسی کا کہنا ہے کہ تین کھدائی کرنے والے اور دیگر بھاری مشینری بھی چٹانوں کے نیچے دب گئی ہے، اور امدادی سرگرمیاں ہفتہ کو بھی جاری رہیں گی۔ تاحال لاپتہ افراد کی درست تعداد معلوم نہیں ہو سکی، تاہم ابتدائی رپورٹس میں تقریباً 10 افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات دی گئی تھیں۔ مغربی جاوا کے گورنر دیدی ملیادی نے اپنے انسٹاگرام پیغام میں حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کان کارکنوں کے لیے محفوظ نہیں تھی اور حفاظتی معیارات پر پوری نہیں اترتی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتظامیہ اس حادثے کی مکمل تحقیقات کرے گی اور متاثرہ خاندانوں کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ مزید پڑھیں: پاکستان اور ایران کے درمیان بارڈر 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا اعلان یہ واقعہ انڈونیشیا میں کان کنی کی صنعت میں حفاظتی اقدامات پر نئے سوالات کھڑے کر رہا ہے، جہاں اکثر حفاظتی ضوابط کی خلاف ورزیاں سامنے آتی رہی ہیں۔

پاکستان انڈیا کشیدگی بڑھی تو صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی ہے، جنرل ساحر شمشاد مرزا

Genral shair shamshad

جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ اگر پاکستان اور انڈیا کے درمیان آئندہ کشیدگی میں اضافہ ہوا تو دونوں ممالک کے لیے صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی ہے۔ سنگاپور میں شنگری لا ڈائیلاگ فورم میں شرکت کے دوران عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ دونوں ممالک کی افواج نے سرحد پر تعینات فوجیوں کی تعداد میں کمی کا عمل شروع کر دیا ہے، مگر آئندہ کشیدگی بڑھی تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ حالیہ کشیدگی کے دوران جوہری ہتھیاروں کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، لیکن یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال تھی۔ ساحر شمشاد مرزا نے خبردار کیا ہے کہ اس بار لڑائی صرف انڈیا کے زیر قبضہ کشمیر تک محدود نہیں رہی، اس لیے مستقبل میں کشیدگی بڑھنے کا خطرہ زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بار کچھ نہیں ہوا، لیکن آپ کسی بھی وقت کسی بھی اسٹریٹجک غلط حساب کتاب کو مسترد نہیں کر سکتے، کیونکہ جب بحران جاری ہوتا ہے تو ردعمل مختلف ہوتے ہیں۔ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین  نے کہا کہ یہ تصادم متنازعہ علاقے تک محدود نہیں رہے گا، یہ پورے ہندوستان اور پورے پاکستان تک آئے گا، یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔ یہ بھی پڑھیں:’آپریشن شیلڈ‘، مودی سرکار کی پاکستانی سرحد کے ساتھ سول ڈیفینس مشقیں، انتظامیہ نے بلیک آؤٹ کا الرٹ جاری کر دیا انہوں نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان بحران سے نمٹنے کے مؤثر طریقہ کار کی عدم موجودگی کی وجہ سے آئندہ عالمی ثالثی مشکل ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول عالمی برادری کے لیے مداخلت کرنے کا وقت بہت کم ہو جائے گا اور میں یہ کہوں گا کہ نقصان اور تباہی اس وقت سے پہلے بھی ہو سکتی ہے جب عالمی برادری اس ٹائم ونڈو کا فائدہ اٹھائے گی۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ پاکستان مذاکرات کے لیے تیار ہے، تاہم اس وقت صرف ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹر جنرل کے درمیان بحران ہاٹ لائن اور سرحدی سطح پر چند حکمت عملی ہاٹ لائنز کے علاوہ کوئی رابطہ موجود نہیں ہے۔ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین نے واضح کیا کہ حالیہ کشیدگی کے دوران دونوں ممالک کے درمیان کوئی بیک چینل یا غیر رسمی بات چیت نہیں ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی انڈین  چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان سے ملاقات کا بھی کوئی منصوبہ نہیں ہے، جو اس وقت خود بھی شنگری لا فورم میں موجود ہیں۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا  نے اختتام پر کہا کہ یہ مسائل صرف مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے ہی حل کیے جا سکتے ہیں، انہیں میدان جنگ میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ مزید پڑھیں:ایران اور سعودی عرب کی بڑھتی قربت: پاکستان کیسے سفارتی توازن برقرار رکھ سکتا ہے؟ خیال رہے کہ انڈین وزیر اعظم نریندرا مودی پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر انڈیا پر دوبارہ حملے ہوئے تو انڈیا سرحد پار دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنائے گا، جب کہ انڈین  وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

ہم فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں، فرانسیسی صدر

France president

فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا نہ صرف اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ سیاسی ضرورت بھی ہے۔ انہوں نے یورپی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کی سنگین انسانی صورتحال پر اسرائیل کے خلاف اپنا موقف سخت کریں۔ جمعہ کو سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ سیکیورٹی فورم کے آغاز سے قبل پریس کانفرنس میں میکرون نے کہا کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں انسانی بحران کے حل کے لیے فوری اقدامات نہیں کیے تو فرانس اور دیگر یورپی ممالک کو اسرائیل کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے، جن میں ممکنہ طور پر پابندیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ میکرون نے کہا کہ “اگر اگلے چند گھنٹوں یا دنوں میں اسرائیل نے غزہ کی صورتحال پر مناسب ردعمل نہیں دیا تو ہمیں اپنے اجتماعی موقف کو سخت کرنا ہوگا۔” انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ انسانی حقوق کے احترام کے بارے میں مفروضوں کو ترک کر کے پابندیاں عائد کی جائیں۔ فرانس اور سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ وہ جون میں نیو یارک میں ایک عالمی کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کریں گے جس کا مقصد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک روڈ میپ تیار کرنا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ’میں نے سب کچھ کھو دیا‘، سوئٹزرلینڈ کے گاؤں میں گلیشیائی تودا گرنے سے رہائشی صدمے کا شکار میکرون نے اس موقع پر کہا کہ فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے لیکن یہ تسلیم اس وقت کیا جائے گا جب فلسطینی اتھارٹی ضروری اصلاحات کرے گی اور اسرائیل کے ساتھ باہمی تسلیمیت کی بنیاد پر عمل کیا جائے گا۔ انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں اپنے دورے کے دوران، میکرون اور انڈونیشی صدر پروباؤو سبیانتو نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں غزہ میں اسرائیل کے کنٹرول کے منصوبوں اور فلسطینی آبادی کو زبردستی نکالنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کی گئی۔ دونوں رہنماؤں نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ غزہ کی صورتحال انتہائی سنگین ہے، جہاں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں 54,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہے اور ایک تہائی سے زائد آبادی کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ لازمی پڑھیں: اسرائیل نے ’جنگ بندی کی تجویز‘ پر دستخط کر دیے، حماس غور کر رہا ہے، امریکا فرانس کی حکومت نے غزہ کے لیے 100 ملین یورو کی اضافی امداد کا اعلان کیا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ میکرون نے کہا ہے کہ “ہمیں غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کی حفاظت کی جا سکے اور امدادی سامان کی ترسیل ممکن ہو سکے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کو اپنی فوجی کارروائیوں کو دہشت گردوں کے خلاف مخصوص اور متناسب بنانا چاہیے۔ فرانس کے صدر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے اور یہ دونوں فریقوں کے درمیان دیرپا امن کے قیام کے لیے اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہمیں ایک ایسا حل تلاش کرنا ہوگا جو دونوں فریقوں کے حقوق اور سلامتی کو یقینی بنائے۔” میکرون کے یہ بیانات بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے خلاف بڑھتے ہوئے دباؤ کی عکاسی کرتی ہیں اور یہ ظاہر کرتی ہیں کہ فرانس فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ مزید پڑھیں: ایلون مسک ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ

’ٹرمپ ٹیرف‘ عارضی طور پر بحال، پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

Trump 100 day

امریکا کی وفاقی اپیلز کورٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں نافذ کیے گئے تجارتی محصولات کو عارضی طور پر بحال کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکی محکمہ تجارت کی اپیل پر کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ان محصولات کو فی الحال برقرار رکھا جائے تاکہ عدالتی کارروائی مکمل ہو سکے۔ گزشتہ دن ایک امریکی تجارتی عدالت نے ان محصولات کو غیر آئینی قرار دے کر فوری طور پر معطل کر دیا تھا۔ تاہم اب اپیلز کورٹ نے اس حکم پر عمل درآمد روک دیا ہے اور فریقین کو پانچ اور نو جون تک دلائل جمع کرانے کا وقت دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت میں اسٹیل، ایلومینیم اور دیگر درآمدی اشیاء پر بھاری محصولات عائد کیے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ یہ اقدامات امریکی صنعت کو تحفظ دینے کے لیے ضروری ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ صورتحال تشویشناک ہو سکتی ہے، خاص طور پر جب کہ ملک کی معیشت برآمدات پر کافی حد تک انحصار کرتی ہے۔ اگرچہ ان امریکی محصولات کا ہدف براہ راست پاکستان نہیں، لیکن عالمی مارکیٹ میں اس قسم کی پالیسیوں سے پیدا ہونے والا عدم استحکام بالواسطہ طور پر پاکستانی برآمد کنندگان کو متاثر کر سکتا ہے۔ پاکستان امریکا کو ٹیکسٹائل، سرجیکل آلات، کھیلوں کا سامان اور دیگر اشیاء برآمد کرتا ہے۔ ان مصنوعات پر فی الحال کوئی نیا محصول لاگو نہیں کیا گیا۔

ایلون مسک ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ

Trump and musk

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ معروف کاروباری شخصیت ایلون مسک کے ساتھ آج اوول آفس میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کریں گے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایلون مسک ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں گے اور ان کے تعلقات مضبوط ہیں۔ یہ بیان ایک دن بعد سامنے آیا ہے جب یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ ایلون مسک نے ٹرمپ انتظامیہ سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ اس خبر کی تصدیق بعض وائٹ ہاؤس اہلکاروں نے بھی کی تھی، جس سے یہ تاثر ملا کہ مسک اب حکومت کا حصہ نہیں رہے۔ ایلون مسک ٹیسلا، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور دیگر کئی کمپنیوں کے مالک ہیں اور وہ امریکا کے محکمہ برائے حکومتی کارکردگی (DOGE) کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کے حوالے سے آنے والی متضاد اطلاعات کے باوجود صدر ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ ان کے اور مسک کے تعلقات قائم ہیں اور وہ ان کے ساتھ مکمل تعاون جاری رکھیں گے۔ دوسری جانب، امریکی عدالت نے ٹرمپ کی جانب سے عائد کیے گئے ٹیرف عارضی طور پر بحال کر دیے ہیں۔ اس سے قبل ایک عدالت نے انہیں غیر قانونی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپیل کورٹ میں مؤقف اختیار کیا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے لیے تجارتی پالیسی کو استعمال کیا گیا تھا۔ مزید پڑھیں: کشمیر خود لوٹ کے ہمارے پاس آئے گا، انڈین وزیردفاع کا دعویٰ 

’میں نے سب کچھ کھو دیا‘، سوئٹزرلینڈ کے گاؤں میں گلیشیائی تودا گرنے سے رہائشی صدمے کا شکار

Switzerland

سوئٹزرلینڈ کے ایک گاؤں بلیٹن میں ایک بڑا گلیشیائی تودا گر گیا جس کی وجہ سے لاکھوں مکعب میٹر برف، مٹی اور چٹان ایک پہاڑ سے نیچے آئیں اور گاؤں کو اپنے اندر دفن کر گئیں۔ محققین اسے موسمیاتی تبدیلی کا ایک خطرناک مظہر قرار دے رہے ہیں، جو خطے کو شدید متاثر کر رہا ہے۔ حادثے سے قبل، مئی کے شروع میں ہی حکام نے برچ گلیشیئر کے قریب پہاڑ کے حصے میں دراڑوں کو دیکھتے ہوئے 300 رہائشیوں کو پہلے ہی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا، جس سے بڑی جانی نقصان سے بچاؤ ممکن ہوا۔ تاہم، اب بھی ایک 64 سالہ شخص لاپتہ ہے، جس کی تلاش کے لیے کتے اور تھرمل ڈرون استعمال کیے گئے، مگر جمعرات کو ریسکیو آپریشن گرتے ہوئے ملبے اور مزید چٹانیں گرنے کے خدشے کے باعث روک دیا گیا۔ حادثے کے بعد، ملبے نے دریائے لونزا کو روک دیا جس سے ایک بڑی جھیل بن گئی۔ یہ جھیل تیزی سے پانی سے بھر رہی ہے، ہر گھنٹے میں سطح تقریباً 80 سینٹی میٹر بلند ہو رہی ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر یہ قدرتی بندش ٹوٹ گئی تو ایک اور تباہ کن سیلاب کا خدشہ ہے۔ یہ بھی پڑھیں: زیرو مائلج گاڑیوں کی فروخت پر کمپنی مالکان کی طلبی: کیا چین اپنی’آٹو پالیسی‘ بدل رہا ہے؟  سوئس فوج حالات کا بغور جائزہ لے رہی ہے جبکہ صدر کیرن کیلر سوٹر، جو آئرلینڈ میں تھیں، ہنگامی طور پر وطن واپس آ رہی ہیں اور جمعہ کو متاثرہ مقام کا دورہ کریں گی۔ واقعے سے متاثرہ افراد شدید صدمے اور دکھ کا شکار ہیں۔ بلیٹن کی ایک خاتون نے صحافیوں سے بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا، “میں نے کل سب کچھ کھو دیا، میں اس وقت کچھ نہیں کہنا چاہتی۔” گاؤں سے باہر نکلنے والی سڑک مٹی اور پتھروں میں گم ہو چکی ہے اور ایک ہلکا سا دھول کا بادل اب بھی پہاڑ کے اوپر معلق ہے جہاں چٹانیں گری تھیں۔ ثقافتی علوم کے ماہر ورنےر بیل والڈ نے اپنا خاندانی گھر کھو دیا جو 1654 میں بنایا گیا تھا۔ ان کی بستی “ریڈ”، جو بلیٹن کے قریب واقع ہے، مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہے۔ یہ حادثہ نہ صرف مقامی افراد کے لیے ایک انسانی المیہ ہے بلکہ ماحولیاتی ماہرین کے لیے ایک سنگین انتباہ بھی ہے کہ گلیشیئرز پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کتنے گہرے اور فوری ہو سکتے ہیں۔

اسرائیل نے ’جنگ بندی کی تجویز‘ پر دستخط کر دیے، حماس غور کر رہا ہے، امریکا

Ceasefire2

وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے لیے پیش کی گئی امریکی جنگ بندی کی تجویز سے اتفاق کر لیا ہے، جبکہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم اس پر غور کر رہی ہے۔ حماس نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس معاہدے کی شرائط ان کے بنیادی مطالبات کو پورا نہیں کرتیں۔ امریکی تجویز ایک ابتدائی مرحلے میں 60 دن کی جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کا خاکہ پیش کرتی ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ اسرائیل نے اس منصوبے پر دستخط کر دیے ہیں، اگرچہ اس کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ یہ بھی پڑھیں: زیرو مائلج گاڑیوں کی فروخت پر کمپنی مالکان کی طلبی: کیا چین اپنی’آٹو پالیسی‘ بدل رہا ہے؟  اسرائیلی میڈیا کے مطابق وزیر اعظم نیتن یاہو نے غزہ میں یرغمالیوں کے اہل خانہ کو بتایا کہ اسرائیل نے امریکی صدر کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وِٹکوف کی تجویز کو قبول کر لیا ہے، تاہم نیتن یاہو کے دفتر نے ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی۔ فلسطینی گروپ حماس کے نمائندے سامی ابو زہری نے بتایا کہ گروپ ابھی بھی اس تجویز کا جائزہ لے رہا ہے، لیکن انہوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا کیونکہ اس میں اسرائیلی افواج کی واپسی، جنگ کے خاتمے اور مکمل امدادی رسائی کی یقین دہانی شامل نہیں۔ ان اختلافات کے باعث مارچ میں ختم ہونے والی پچھلی جنگ بندی کے بعد سے دوبارہ امن قائم کرنے کی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ اسرائیل کا اصرار ہے کہ حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کیا جائے اور اسے ایک حکومتی و عسکری قوت کے طور پر ختم کیا جائے، جبکہ حماس اس شرط کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کی واپسی اور جنگ کے باضابطہ خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اسی دوران، امریکی حمایت یافتہ اور اسرائیلی منظور شدہ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن نے امداد کی تقسیم کا دائرہ تیسرے مقام تک بڑھا دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے غزہ میں 20 لاکھ افراد کو قحط کے خطرے سے دوچار قرار دیا ہے، جسے اسرائیل کی جانب سے 11 ہفتوں سے جاری امدادی بندش نے مزید سنگین بنا دیا ہے۔ منگل کے روز امدادی اشیاء کی تقسیم کے موقع پر شدید بدنظمی دیکھی گئی، جب ہزاروں فلسطینی تقسیم کے مقامات پر امڈ آئے اور نجی سیکیورٹی کنٹریکٹرز کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس افراتفری نے اسرائیل پر مزید خوراک کی فراہمی اور جنگ بندی پر عالمی دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن اب تک 18 لاکھ کھانے تقسیم کر چکی ہے۔ امریکی ایلچی وِٹکوف نے کہا کہ واشنگٹن فریقین کو جنگ بندی کی ایک نئی تجویز بھیجنے کے قریب ہے اور اس نے ایک طویل مدتی، پائیدار حل کی امید ظاہر کی ہے۔ عالمی برادری، خاص طور پر یورپی ممالک، اب اسرائیل پر دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ وہ جنگ کو ختم کرے اور امدادی راہ داریوں کو مؤثر بنائے۔ اسرائیل نے غزہ میں اپنی عسکری کارروائی 7 اکتوبر 2023 کے اس حملے کے ردعمل میں شروع کی تھی، جس میں حماس نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کر کے 1,200 افراد کو ہلاک اور 251 کو یرغمال بنایا تھا۔ غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق، اس کے بعد سے اسرائیلی کارروائیوں میں 54,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور پورا علاقہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔