اپریل 11, 2025 12:57 صبح

English / Urdu

امریکی ٹیرف: 50 سے زائد ممالک کا وائٹ ہاؤس سے تجارتی مذاکرات کا مطالبہ

دنیا کے تجارتی نظام میں بہت سی تبدیلیاں آچکی ہیں، 50 سے زیادہ ممالک نے امریکا کے وائٹ ہاؤس سے رابطہ کیا ہے اور تجارتی مذاکرات شروع کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔  وائٹ ہاوس میں رابطہ کرنے والے یہ وہ ممالک ہیں جنہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی تجارتی پالیسیوں سے تشویش لاحق ہے۔ جبکہ عالمی سطح پر جاری ان تبدیلیوں نے مالیاتی منڈیوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے، جس کے اثرات کئی ممالک کی معیشتوں پر برائے راست پڑ رہے ہیں۔ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی نے عالمی سطح پر ایک نئی تشویش پیدا کی ہے۔ امریکی صدر کی جانب سے ایک کے بعد ایک نئے ٹیر ف اور تجارتی پابندیوں کا اعلان کیا گیا ہے جس سے عالمی سطح پر معیشت میں ہلچل مچ گئی ہے۔  اس دوران ٹرمپ کے اکانومی مشیر، کیون ہیسیٹ نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ 50 سے زیادہ ممالک نے وائٹ ہاؤس سے رابطہ کیا ہے اور امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کی خواہش ظاہر کی ہے۔  ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات عالمی سطح پر امریکی مفادات کو مستحکم کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں اور امریکی معیشت کی ترقی کو تیز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کامیاب ہو گی یا پھر عالمی سطح پر ایک تجارتی جنگ کا آغاز ہوگا؟ ٹرمپ کی طرف سے جاری کیے گئے نئے ٹیر ف نے عالمی منڈیوں کو لرزہ براندام کر دیا ہے۔  امریکی ٹیر ف کے اثرات صرف امریکی معیشت پر نہیں پڑے بلکہ عالمی معیشت بھی اس کے اثرات سے بچ نہ سکی۔ امریکی اسٹاک مارکیٹس میں شدید مندی دیکھنے کو ملی اور سرمایہ کاروں کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی ٹریژری کے سیکریٹری، اسکاٹ بیسینٹ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی معیشت میں کسی قسم کی کساد بازاری کی کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔  ان کا کہنا تھا کہ حالیہ اقتصادی اعداد و شمار جیسے امریکی ملازمتوں کی شرح میں غیر متوقع اضافہ، اس بات کی دلیل ہیں کہ امریکی معیشت کی حالت مستحکم ہے اور ابھی کسی بڑی مشکل کی کوئی علامت نہیں ہے۔ اس کے باوجود عالمی منڈیوں میں سرمایہ کاروں کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب یورپی یونین نے امریکا کے ان اقدامات کے خلاف اپنی تیاری مکمل کر لی ہے۔ یہ بھی پڑھیں:امریکی ٹیرف پالیسی: انڈیا کی معیشت پر گہرے اثرات اور ریپو ریٹ میں کمی کی پیشگوئی یورپی یونین کی 27 ممبر ریاستیں ایک مشترکہ محاذ پر متحد ہو کر امریکی ٹیرف کے خلاف جوابی اقدامات اٹھانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ یورپ کی قیادت نے امریکا کے خلاف جوابی کارروائی کے طور پر 28 ارب ڈالر تک کے امریکی مصنوعات پر اضافی ٹیرف عائد کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ یہ اقدام یورپ کی اقتصادی طاقت کا مظہر ہے جو امریکی تجارتی جنگ کے جواب میں اپنا موقف مضبوطی سے پیش کر رہا ہے۔  یورپی یونین کے رکن ممالک میں فرانس، اٹلی اور آئرلینڈ سمیت مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں۔ فرانس نے اس تجویز کو پیش کیا ہے کہ یورپی کمپنیاں امریکا میں اپنی سرمایہ کاری کو معطل کر دیں تاکہ وہاں کی اقتصادی پالیسیوں کی سمت کے بارے میں مزید وضاحت مل سکے۔  دوسری جانب آئرلینڈ نے تجویز دی ہے کہ یورپ کو محتاط اور سوچ سمجھ کر جوابی کارروائی کرنی چاہیے تاکہ عالمی تجارت میں مزید بدامنی نہ پھیل سکے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بھی اپنے فیصلوں پر قائم رہنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ تجارتی پالیسی امریکا کے مفاد میں ہے اور اس سے نہ صرف امریکا کی معیشت کو فائدہ پہنچے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی امریکی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا۔  ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا نے ہمیشہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کے معاملات میں نقصان اٹھایا ہے اور یہ وقت ہے کہ امریکا اپنے مفادات کی حفاظت کرے۔ مزید پڑھیں: امریکی ٹیرف عالمی معیشت کے لیے بڑا خطرہ ہیں، آئی ایم ایف

فلسطینیوں کے حق میں معاشی مزاحمت، بائیکاٹ مہم عالمی سطح پر دوبارہ سرگرم

امریکی سرپرستی میں فلسطین پر حالیہ اسرائیلی حملوں اور ان میں ہزاروں شہادتوں کے ردعمل میں عوامی سطح پر اسرائیلی اور پرواسرائیلی بائیکاٹ کی مہم نئے سرے سے شروع ہوئی ہے۔ حالیہ مہم کی خاص بات یہ ہیکہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں سوشل میڈیا صارفین، تاجر، کاروباری ادارے اس مہم کا حصہ بن رہے ہیں۔ اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا سمیت اتحادیوں فرانس، برطانیہ وغیرہ کی مصنوعات کے خلاف حالیہ مہم صرف مشروبات تک محدود نہیں بلکہ کاسمیٹکس، گروسری آئٹمز، ہاؤس ہولڈ پراڈکٹس، ڈیوائسز اور ڈیجیٹل خدمات کو بھی ہدف بنایا جا رہا ہے۔ eکا آغاز اور پھیلاؤ: فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف سب سے پہلی بائیکاٹ مہم 2023 کے اکتوبر میں سوشل میڈیا پر پاکستان میں شروع ہوئی۔ اس مہم میں عوامی سطح پر اسرائیلی مصنوعات، جیسے اسٹاربکس، میکڈونلڈز، کے ایف سی، اور دیگر مغربی برانڈز کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی۔ اس کے بعد، دیگر اسلامی ممالک جیسے ملائیشیا، مصر، اردن، کویت اور مراکش میں بھی اسی نوعیت کی مہمات چلائیں گئیں۔ ملائیشیا: ملائیشیا میں فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے خلاف بائیکاٹ مہم نے زور پکڑا اور یہ 2023 کے اواخر میں سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل گئی۔ حکومت اور عوام دونوں کی طرف سے اس مہم کی حمایت کی گئی۔ خاص طور پر، اسٹاربکس، میکڈونلڈز اور دیگر غیرملکی برانڈز کی مصنوعات کو نشانہ بنایا گیا۔ ملائیشیا میں بائیکاٹ کے اثرات واضح تھے، جہاں اسٹاربکس نے تسلیم کیا کہ اس کے 400 سٹورز میں کم از کم 40 فیصد فروخت میں کمی آئی۔ حکومت نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی حمایت کی اور اس مہم کی پزیرائی میں عوامی سطح پر اضافہ دیکھنے کو ملااس کے علاوہ، کئی مقامی برانڈز نے بھی اس مہم کو تیز کرنے میں تعاون کیا۔ مصر: مصر میں بھی فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے لئے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی۔ مصر کے مختلف شہروں میں لوگوں نے بازاروں میں اسرائیلی مصنوعات کی نمائش پر احتجاج کیا۔  مصر میں اس مہم کا اثر خاص طور پر بڑے شہروں میں محسوس کیا گیا۔ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے نتیجے میں کئی غیرملکی کمپنیوں کی فروخت میں 25 سے 30 فیصد تک کمی آئی۔ خاص طور پر اسٹاربکس اور کے ایف سی جیسے برانڈز کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اردن: اردن میں بھی اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی اور عوامی سطح پر اس میں دلچسپی لی گئی۔ اردن میں احتجاجی مظاہرے اور سوشل میڈیا پر #BoycottIsrael کے ہیش ٹیگ کے ذریعے لوگوں نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی۔ اردن میں بائیکاٹ مہم کے اثرات مایوس کن نہیں تھے۔ مقامی سطح پر اسرائیلی مصنوعات کی فروخت میں 20 سے 25 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔ تاہم، عالمی سطح پر اس بائیکاٹ کا اثر محدود رہا اور اسرائیل کو اس کی معیشت میں کوئی نمایاں نقصان نہیں پہنچا۔ کویت: کویت میں اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی مہم کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ کویتی حکومت نے اس مہم کی غیرمستقیم طور پر حمایت کی اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کی مصنوعات کا بائیکاٹ اسلامی دنیا کی یکجہتی کا مظہر ہے۔کویت میں بائیکاٹ کے اثرات خاص طور پر غیرملکی کمپنیوں پر مرتب ہوئے، جنہوں نے کویت میں اپنے کاروبار کو متاثر ہوتے ہوئے دیکھا۔ مقامی سطح پر اسرائیلی مصنوعات کی فروخت میں 40 فیصد تک کمی آئی، اور کچھ کمپنیوں نے اپنے پروڈکٹس کی قیمتیں بڑھا دیں تاکہ عوام کی توجہ ہٹ سکے مراکش: مراکش میں بھی فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کی گئی۔ مراکش کے سوشل میڈیا اور عوامی فورمز پر اس مہم کو نمایاں طور پر پزیرائی ملی مراکش میں اسرائیلی مصنوعات کی فروخت میں 15 سے 20 فیصد تک کمی آئی، اور لوگوں نے احتجاجی مظاہروں کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ مراکش میں اس مہم کی کامیابی زیادہ تر عوامی سطح پر تھی اور اس کا اثر عالمی سطح پر کم تھا۔ پاکستان میں بائیکاٹ مہم کا اثر: پاکستان میں بائیکاٹ مہم کی مقبولیت خاص طور پر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ تھی۔ حکومتی سطح پر اس مہم کی حمایت نہیں کی گئی، مگر عوامی سطح پر اس مہم کا زور پکڑا۔ مارکیٹ میں اسرائیلی مصنوعات کی خرید و فروخت میں واضح کمی دیکھی گئی، خاص طور پر ان کمپنیوں کے ساتھ جڑے مصنوعات جو اسرائیل کے ساتھ کسی نہ کسی طریقے سے جڑے ہوئے تھے۔ پاکستان بزنس فورم کے مطابق، اسرائیل سے جڑی مصنوعات کی فروخت میں 40-50 فیصد کمی آئی۔ اس کے علاوہ، کچھ غیرملکی برانڈز نے پاکستان میں اپنے آپریشنز کو محدود کیا یا اپنے پراڈکٹس کی قیمتوں میں اضافہ کیا تاکہ بائیکاٹ کے اثرات کم کیے جا سکیں۔ پاکستان بزنس  فورم کے کو آرڈینیٹر ابراہیم زبیر نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ  بائیکاٹ کی مہم میں عوام کی سرگرم شرکت ضرور نظر آئی ہے، خصوصاً میکڈونلڈ، کوکا کولا اور دیگر ایسی مصنوعات کا جنہیں لوگوں نے کچھ عرصے کے لئے چھوڑا۔ تاہم، یہ بائیکاٹ اس وقت تک موثر نہیں ہو سکتا جب تک بڑی کاروباری کمیونٹیز اور حکومت اس میں شامل نہ ہوں۔ عوامی سطح پر بائیکاٹ کے اثرات تھوڑے سے نظر آتے ہیں کیونکہ جب تک یہ مصنوعات ہر بازار، ہر ریسٹورنٹ اور ہر دکان پر دستیاب ہیں، عوام کی مجبوری کبھی نہ کبھی انہیں خریدنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک ریسٹورنٹ میں اگر 10 افراد ہیں، تو پانچ لوگ شاید ان مصنوعات کو چھوڑ دیں گے، لیکن باقی لوگ یا تو خاموشی سے خرید لیں گے یا کسی نہ کسی وجہ سے ان کو خریدنے پر مجبور ہوں گے اس بائیکاٹ کو موثر بنانے کے لئے کاروباری کمیونٹیز کا اتحاد ضروری ہے، اور اگر حکومت اس میں شراکت دار بنے، تو یہ ایک مضبوط اور کامیاب مہم بن سکتی ہے۔ عوام کی طرف سے اس کی بھرپور حمایت تب ہی ممکن ہو سکتی ہے جب یہ مہم وسیع سطح پر منظم ہو، تاکہ اس کا اثر اصل میں دیکھنے کو ملے۔ سابق ایگزیکٹو ممبر لاہور چیمبر آف کامرس اعجاز تنویر کے مطابق بائیکاٹ مہم کا خاص طور پر غیر

غزہ میں اسرائیلی بمباری سے 20 دنوں میں 490 بچے شہید، مجموعی تعداد 15 ہزار سے تجاوز کر گئی: یونیسیف

غزہ پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ تھم نہ سکا، صرف 20 دنوں میں 490 معصوم بچے شہید ہوگئے، جب کہ مجموعی طور پر شہید ہونے والے بچوں کی تعداد 15 ہزار سے تجاوز کر گئی۔ یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں ایک ملین سے زائد بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ تنظیم کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر بچے نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ ذہنی و نفسیاتی طور پر بھی جنگ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ فوری جنگ بندی اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کی فراہمی ناگزیر ہو چکی ہے۔

فلسطینی مزاحمت کاروں کی عالمی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ملازمین سے خاص اپیل

غاصب اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں شہید ہونے والے انجینیئر ابتہال ابو السعد کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فلسطینی مزاحمت کاروں نے ٹیکنالوجی کمپنیوں کے انسانیت کا درد رکھنے والے ملازمین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے اداروں کی سفاکانہ کارروائیوں میں شریک کار نہ بنیں۔ اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ”حماس انجینیئر ابتہال ابو السعد کے جرات مندانہ مؤقف کو زبردست خراجِ تحسین پیش کرتی ہے، جنہوں نے غیر معمولی حوصلے اور قربانی کے ساتھ بڑی عالمی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی صیہونی قاتل مشین کے ساتھ ملی بھگت کو بے نقاب کیا۔” ”ان کمپنیوں نے قابض اسرائیلی فوج کو مصنوعی ذہانت کے اوزار اور ٹیکنالوجی فراہم کی، جو غزہ میں ہمارے عوام کے خلاف نسل کشی کے جرائم میں استعمال ہو رہی ہے۔” ”ہم ان تمام ملازمین اور اداروں سے اپیل کرتے ہیں، جو قابض اسرائیلی فورسز اور اس کے جرائم کی حمایت میں شریک ہیں کہ وہ انجینیئر ابتہال ابو السعد کے اس جرات مندانہ مؤقف کی پیروی کریں۔” ”ہم اقوام متحدہ، دنیا کے ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قبضے کے جرائم میں تکنیکی شراکت کی تمام اقسام کو دستاویزی شکل دیں، ان کمپنیوں کا احتساب کریں، انہیں بین الاقوامی عدالتوں میں پیش کریں اور ان پر فوری پابندیاں عائد کریں کیونکہ یہ قوانین اور انسانی اخلاقیات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔” یاد رہے کہ 4 اپریل کو مائیکروسافٹ کے 50ویں سالگرہ کی تقریب کے دوران کمپنی کے AI سی ای او مصطفیٰ سلیمان کی تقریر اس وقت روک دی گئی، جب مائیکروسافٹ کے ملازم انجینیئر ابتہال ابو السعد نے احتجاج کیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ جنگ سے منافع کما رہے ہیں، نسل کشی کے لیے AI کا استعمال بند کریں۔ یہ احتجاج اس وقت ہوا جب سلیمان کمپنی کے AI اسسٹنٹ پراڈکٹ پر بات کر رہے تھے۔ ان کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں آپ کا احتجاج سن رہا ہوں، شکریہ۔ جس کے بعد سکیورٹی ابتہال کو باہر لے گئی۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک تحقیق کے مطابق مائیکروسافٹ اور اوپن AI کے ماڈلز کو اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ اور لبنان میں بمباری کے اہداف چننے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس انکشاف کے بعد نہ صرف مائیکروسافٹ بلکہ کئی دیگر ادارے بھی فلسطین کے حق میں عالمی احتجاج کی زد میں آئے۔ ابتہال ابو السعد نے کمپنی کے دیگر ملازمین کو ایک ای میل بھی بھیجی، جس میں انہوں نے اپنے احتجاج کی وضاحت کی۔ اس کے بعد ان سمیت ایک اور ملازمہ کے ورک اکاؤنٹس بند کر دیے گئے۔ واضح رہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کی پٹی کے اسپتالوں میں 60 شہداء اور 162 زخمی لائے گئے، جو مجرمانہ قابض فوج کی دانستہ قتل عام کی کارروائیوں کا نتیجہ ہیں۔ 18 مارچ 2025 سے اب تک شہداء کی تعداد بڑھ کر 1,309 ہو چکی ہے، جب کہ زخمیوں کی تعداد 3,184 ہے۔ اب بھی بہت سے افراد ملبے تلے اور سڑکوں پر پھنسے ہوئے ہیں، جہاں امدادی کارکنوں کی رسائی ممکن نہیں ہو رہی۔ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک غزہ میں شہداء کی مجموعی تعداد 50,669 اور زخمیوں کی تعداد 115,225 ہو چکی ہے۔

وہ مناظر جب اسرائیلی فوج نے فلسطین میں 15 امدادی کارکنوں کو شہید کیا

23 مارچ کے واقعے کی ایک نئی موبائل فون ویڈیو نے اسرائیل کے اس مؤقف کو چیلنج کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ایمبولینسوں اور فائر ٹرک پر گولیاں چلانے کا جواز موجود تھا۔ اس واقعے میں 15 امدادی کارکن شہید ہوئے تھے۔ ویڈیو فلسطین ریڈ کریسنٹ سوسائٹی (پی آر سی ایس) نے جاری کی ہے، جو اندھیرے میں چلتی گاڑیوں کو دکھاتی ہے جن پر ہیڈلائٹس اور ایمرجنسی فلیشنگ لائٹس روشن تھیں، جس کے کچھ ہی دیر بعد ان پر حملہ ہوتا ہے۔ پی آر سی ایس کا کہنا ہے کہ یہ فوٹیج ایک پیرامیڈک کے فون سے ملی، جسے بعد میں مردہ پایا گیا۔ ویڈیو میں واضح طور پر دکھایا گیا ہے کہ نشان زدہ گاڑیاں سڑک کنارے رکی ہیں، ان کی لائٹس جل رہی ہیں اور کچھ امدادی کارکن رضاکاروں کا لباس پہنے باہر نکلتے ہیں۔ جس موبائل سے یہ ویڈیو بنی، اس کی ونڈ اسکرین پر گولیوں کے نشانات بھی نظر آتے ہیں، اور پس منظر میں فائرنگ کی آوازیں کئی منٹ تک سنائی دیتی ہیں۔ ویڈیو بنانے والے کی آواز میں دعا کی جا رہی ہے، اور اسے بعد میں مارے گئے پیرامیڈکس میں سے ایک سمجھا گیا۔ یہ فون ایک ہفتے بعد اس کی لاش کے ساتھ ایک اتلی قبر سے ملا۔ مجموعی طور پر آٹھ پیرامیڈیکس، چھ سول ڈیفنس کے کارکن، اور اقوام متحدہ کا ایک ملازم مارے گئے، اور ان کی لاشیں تباہ شدہ گاڑیوں کے قریب ریت میں دبی ہوئی پائی گئیں۔ اسرائیلی فوج آئی ڈی ایف نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ ان گاڑیوں پر کسی قسم کے ایمرجنسی سگنلز موجود نہیں تھے، لیکن ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد آئی ڈی ایف نے کہا کہ وہ اس واقعے کی مکمل اور گہرائی سے تحقیقات کرے گی۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اس واقعے میں عسکریت پسند مارے گئے، لیکن نہ کوئی ثبوت دیا، نہ مزید تفصیل پیش کی کہ فوجی کن خطرات کا سامنا کر رہے تھے۔ واقعے کے ایک زندہ بچ جانے والے، پیرامیڈک منتھر عابد نے خبر رساں ادارے بی بی سی کو بتایا کہ گاڑیاں مکمل طور پر شناخت شدہ تھیں، اور ان پر اندرونی و بیرونی لائٹس روشن تھیں۔ انہوں نے کسی عسکریت پسند تنظیم سے تعلق کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ ان کا کام صرف لوگوں کی جان بچانا ہے۔ اقوام متحدہ میں پی آر سی ایس کے صدر ڈاکٹر یونس الخطیب نے اس واقعے کو ظالمانہ جرم قرار دیتے ہوئے آزاد اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ایک شہید پیرامیڈک کے آخری الفاظ کا حوالہ بھی دیا: “ماں مجھے معاف کر دو، میں صرف لوگوں کی مدد کرنا چاہتا تھا، میں جان بچانا چاہتا تھا۔” اس واقعے کے بعد سے ایک پیرامیڈک ابھی تک لاپتہ ہے۔

‘آزاد فلسطین، یوکرینی سلامتی اور امریکی پالیسیاں’ ٹرمپ کے خلاف 12 سو مقامات پر مظاہرے

ہفتے کے روز امریکا بھر میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ واشنگٹن ڈی سی میں موسم اداس تھا، بارش ہلکی تھی، مگر جذبہ شدید۔ تقریباً 1,200 مقامات پر مظاہرے ہوئے، جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ارب پتی اتحادی ایلون مسک کی پالیسیوں کے خلاف اب تک کا سب سے بڑا عوامی احتجاج کہا جا رہا ہے۔ نیشنل مال میں لگ بھگ بیس ہزار افراد جمع ہوئے۔ ہر طرف سے لوگ آ رہے تھے، کچھ نے یوکرین کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے، کچھ نے فلسطینی کیفیہ اسکارف پہنے ہوئے تھے۔ “آزاد فلسطین” کے نعرے بھی سنائی دیے۔ امریکی ایوان نمائندگان کے ڈیموکریٹس بھی اسٹیج پر آئے اور ٹرمپ کی پالیسیاں تنقید کا نشانہ بنیں۔ ریٹائرڈ سائنسدان ٹیری کلین، جو پرنسٹن سے آئیں، کہتی ہیں کہ وہ امیگریشن، تعلیم، معاشی پالیسیوں اور حتیٰ کہ ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے ٹرمپ کی سمت پر شدید تحفظات رکھتی ہیں۔ ان کے مطابق ملک کی بنیادی اقدار خطرے میں ہیں۔ ویسٹ کیپ مے سے تعلق رکھنے والے وین ہوفمین کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیوں سے کسان، ملازمین، اور عام شہری متاثر ہو رہے ہیں۔ لوگوں کی بچتیں ضائع ہو رہی ہیں اور معاشی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔ ان مظاہرین میں ایک چہرہ مختلف تھا۔ اوہائیو سے تعلق رکھنے والی بیس سالہ کائل، جس نے “امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں” کی سرخ ٹوپی پہنی ہوئی تھی، تنہا ٹرمپ کی حمایت کرتی نظر آئی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ یقین نہیں رکھتی کہ لوگ ٹرمپ کے اتنے خلاف ہیں جتنا تاثر دیا جاتا ہے۔ اسی دن فلوریڈا میں ٹرمپ نے گولف کھیلا اور مار-اے-لاگو میں وقت گزارا، جبکہ چار میل دور سینکڑوں افراد ان کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔ ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا کہ مارکیٹس گر رہی ہیں اور ٹرمپ گولف کھیل رہے ہیں۔ اسٹیمفورڈ میں 84 سالہ سو-این فریڈمین بھی موجود تھیں، جنہوں نے ہاتھ سے بنی ایک پلے کارڈ کے ساتھ احتجاج میں شرکت کی۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں لگا تھا ان کے احتجاجی دن ختم ہو چکے ہیں، مگر ٹرمپ اور مسک نے انہیں دوبارہ سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا۔ 74 سالہ وکیل پال کریٹس مین نے کہا کہ یہ ان کی زندگی کا پہلا احتجاج تھا، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ سوشل سیکیورٹی جیسی بنیادی سہولیات ختم ہو جائیں گی اور حکومتی نظام کمزور ہو جائے گا۔ یہ مظاہرے ایک اجتماعی احساس کی نمائندگی کرتے ہیں، کہ اگر عوام خاموش رہے تو بہت کچھ چھن سکتا ہے۔ یہ ایک دن نہیں، ایک پیغام تھا۔ جمہوریت کو بچانے کے لیے آواز بلند کرنا ضروری ہے۔

یورپ میں ٹرمپ کے خلاف احتجاج،ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے مظاہرے کیوں کیے؟

ہزاروں افراد نے ہفتے کے روز یورپی شہروں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے مشیر ایلون مسک کے خلاف احتجاج کیا، یہ احتجاج مالیاتی منڈیوں کے لیے ایک مشکل ہفتے کے بعد ہوا، جب ٹرمپ نے عالمی سطح پر وسیع تر تجارتی محصولات کا اعلان کیا تھا۔ عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کے مطابق جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں’ ہینڈز آف’ مظاہرہ ڈیموکریٹس ابراڈ نے ترتیب دیا تھا، جو غیر ملکی امریکی شہریوں کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی آفیشل تنظیم ہے۔ برلن میں، جہاں مظاہرین نے ٹیسلا کے شوروم کے سامنے احتجاج کیا، انہوں نے اپنے ہم وطن امریکیوں سے اپیل کی کہ افراتفری کا خاتمہ کے لیے احتجاج کریں۔ فرینکفرٹ کے اوپران پلاتز پر جمع ہونے والے غیر ملکی ڈیموکریٹس گروپ کے ارکان نے امریکی صدر کی استعفیٰ کا مطالبہ کیا، ان کے ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈ تھے جن پر ‘جمہوری نظام بحال کرو’اور ‘دنیا تمہارے جھوٹ سے تھک چکی ہے، ڈونلڈ جاؤ جیسے نعرے تھے۔ برلن میں، ایلون مسک کے لیے نعرے تھے ‘چپ رہو ایلون، کسی نے تمہیں ووٹ نہیں دیا’ اور ایک کتے کے گلے میں ایسا بورڈ تھا جس پر لکھا تھا ‘ڈوگس اگینسٹ ڈوج’، جو کہ حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے مسک کی زیر قیادت حکومتی ادارے کے حوالے سے تھا، یہ ٹرمپ کی دوسری حکومت کا ایک اقدام تھا تاکہ وفاقی اخراجات میں فضول خرچی، دھوکہ دہی اور بدعنوانی کو کم کیا جا سکے۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں تقریباً 200 افراد، زیادہ تر امریکی شہری، پلےس ڈی لا ریپبلک پر جمع ہوئے اور ٹرمپ کے خلاف احتجاج کیا۔ کچھ نے تقریریں کیں اور صدر کی مذمت کی، مظاہرین نے مختلف نوعیت کے بینر اٹھا رکھے تھے جن پر ‘ظالم کا مقابلہ کرو’، ‘قانون کی حکمرانی’، ‘فیمینسٹس فار فریڈم ناٹ فاشزم’ اور ‘جمہوریت کو بچاؤ’ جیسے نعرے لکھے تھے ٹرمپ اور مسک کے خلاف احتجاج دیگر یورپی شہروں میں بھی ہوا، جن میں لندن اور لسبن شامل ہیں۔

انڈیا: زندگی دینے والا اسپتال یا موت کا مرکز؟ جعلی ڈاکٹر نے سات جانیں لے لیں

انڈین ریاست مدھیہ پردیش کے ضلع دموہ میں واقع ایک اسپتال میں جعلی ڈاکٹر کے ہاتھوں 7 مریضوں کی ہلاکت نے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ انڈین میڈیا کے مطابق دموہ شہر کے ایک کرسچن مشنری اسپتال میں ایک ماہ کے دوران دل کی بیماری میں مبتلا مریضوں کی پرسرار اموات ہوئیں، جن کی تعداد کم از کم 7 بتائی جا رہی ہے۔ تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ اسپتال میں خدمات انجام دینے والا شخص جو خود کو ماہر امراضِ قلب ظاہر کر رہا تھا، دراصل جعلی ڈاکٹر نکلا۔ ملزم نے ‘ڈاکٹر جان کیم’ کے نام سے اسپتال میں ملازمت اختیار کی تھی۔ مزید تحقیقات میں معلوم ہوا کہ جعلی ڈاکٹر کا اصل نام نریندر وکرمادتیہ یادو ہے، جس نے برطانیہ کے ایک معروف کارڈیالوجسٹ سے ملتے جلتے جعلی دستاویزات کے ذریعے اسپتال میں تقرری حاصل کی۔ ضلعی تفتیشی ٹیم نے اسپتال پر چھاپہ مار کر تمام ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے، جب کہ ملزم کے خلاف حیدرآباد میں پہلے سے ایک فوجداری مقدمہ بھی درج ہے۔ چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے ضلعی صدر اور وکیل دیپک تیواری نے دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری طور پر ہلاکتوں کی تعداد 7 بتائی جا رہی ہے، لیکن اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر عدالت میں باضابطہ شکایت بھی درج کروا چکے ہیں۔

عالمی تجارت کے لیے زہرِ قاتل؟ امریکا کے ٹیرف لگاتے ہی اسٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ کمی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے ٹیکسوں کی وجہ سے امریکی اسٹاک مارکیٹ میں بڑی کمی آئی ہے اور صرف دو دنوں میں سرمایہ کاروں کے 60 کھرب ڈالر سے زیادہ ڈوب گئے۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک پر نئے تجارتی ٹیکس لگائے ہیں۔ ان کے اس فیصلے سے دنیا کا تقریباً ہر حصہ متاثر ہوا ہے، یہاں تک کہ انٹارکٹیکا کے قریب وہ غیر آباد جزیرے بھی جہاں صرف پینگوئن رہتے ہیں اور جہاں شاید دس سال پہلے انسان گئے تھے۔ امریکی میڈیا کے مطابق ان ٹیکسوں کے اعلان کے بعد دو دنوں میں سرمایہ کاروں کے اسٹاک مارکیٹ میں لگے 60 کھرب ڈالر سے زیادہ ڈوب گئے۔ اس کے علاوہ، امکان ہے کہ امریکی ٹیکسوں کی وجہ سے چینی مصنوعات اب یورپی بازاروں میں زیادہ فروخت ہوں گی۔ ٹرمپ کے ٹیکسوں کے اعلان کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹ میں پچھلے پانچ سالوں کی سب سے بڑی کمی دیکھی گئی۔ ڈاؤ جونز میں 5 فیصد، ایس اینڈ پی 500 میں 4.6 فیصد اور نیسڈیک میں 4.7 فیصد کمی ہوئی۔ لندن اسٹاک ایکسچینج میں فٹسی ہنڈریڈ انڈیکس میں کووڈ وبا کے بعد سے ریکارڈ 5 فیصد، جرمنی کی اسٹاک مارکیٹ میں 4 فیصد اور جاپان میں 2.8 فیصد کمی ہوئی۔ تجارتی جنگ کے خدشات بڑھنے سے تیل کی قیمتیں 8 فیصد گر کر چار سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئیں۔ امریکی سینٹرل بینک کے سربراہ جیروم پاویل نے مہنگائی اور معاشی ترقی کی رفتار میں کمی سے خبردار کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی ضد کے باوجود، جیروم پاویل نے فی الحال شرح سود میں کمی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی کی سست رفتار کے وقت امریکی ٹیکس عالمی معیشت کے لیے خطرہ ہیں۔ برطانیہ، آسٹریلیا اور اٹلی کے وزرائے اعظم نے بھی تجارتی جنگ کو عالمی تجارت کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے اور معاشی استحکام کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

میانمار زلزلہ: آٹھویں دن بھی موت کی بُو آرہی ہے

میانمار میں آنے والے شدید زلزلے کے بعد انسانی المیے کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 3,354 ہو چکی ہے، جبکہ 4,850 افراد زخمی اور 220 لاپتہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ ٹام فلیچر نے امدادی کارروائیوں میں انسانی ہمدردی اور کمیونٹی گروپوں کے کردار کو سراہا اور کہا کہ وہ لوگ جو خود سب کچھ کھو چکے، وہ بھی دوسروں کی مدد کے لیے میدان میں ہیں۔ فوجی حکومت کے سربراہ من آنگ ہلینگ عالمی سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد نیپیتاو واپس لوٹے ہیں، جہاں انہوں نے علاقائی رہنماؤں سے ملاقات کی۔ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو دسمبر میں آزاد اور منصفانہ انتخابات کرانے کے ارادے سے آگاہ کیا۔ تاہم، ناقدین ان انتخابات کو فوجی اقتدار کو جاری رکھنے کی ایک چال سمجھتے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے ملک مسلسل سیاسی اور سماجی بحران کا شکار ہے۔ خانہ جنگی، معاشی تباہی، اور صحت کی سہولیات کی کمی نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے، جو اب زلزلے کی تباہ کاریوں سے مزید متاثر ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، ملک میں تیس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ ایک تہائی آبادی کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ زلزلے کے بعد کچھ علاقوں میں جنتا کی جانب سے امدادی رسد روکنے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں حکومت مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے انکشاف کیا ہے کہ فوج کی جانب سے مخالفین پر 53 حملے کیے گئے، جن میں 16 حملے اس ہفتے کی جنگ بندی کے اعلان کے بعد ہوئے۔ ان میں فضائی حملے بھی شامل ہیں، اور یہ الزامات اب تحقیقات کا حصہ ہیں۔