ہماری ترکیہ کے ساتھ براہ راست بات چیت جاری ہے، کرد کمانڈر مظلوم عبدی

Kurd commander

شمال مشرقی شام میں قابض کرد فورسز کے اعلیٰ کمانڈر مظلوم عبدی نے ایک انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی فورسز ترکی کے ساتھ براہِ راست رابطے میں ہیں اور وہ ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کے لیے بھی تیار ہیں۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب شام کی خانہ جنگی کو 14 سال مکمل ہو چکے ہیں اور ترکی و کرد فورسز کے درمیان شدید جھڑپوں کی طویل تاریخ رہی ہے۔ شمس ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں عبدی نے بتایا کہ “ہماری ترکی کے ساتھ براہِ راست بات چیت جاری ہے اور ہم ان تعلقات کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں۔” انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ یہ رابطے کب سے قائم ہیں تاہم اس انکشاف نے سفارتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے جبکہ ترکی کی جانب سے فوری طور پر اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ واضح رہے کہ ترکی طویل عرصے سے کرد ملیشیا “وائی پی جی” کو دہشتگرد تنظیم “پی کے کے” کا حصہ سمجھتا آیا ہے، جس نے حال ہی میں 40 سالہ مسلح جدوجہد کے بعد خود کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ بھی پڑھیں: نائیجیریا میں ’شدید سیلاب‘ نے 115 لوگوں کی جان لے لی، درجنوں افراد تاحال لاپتہ مظلوم عبدی کی سربراہی میں قائم سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (SDF) ترکی کے خلاف ماضی میں کئی بار میدان جنگ میں اتری ہے۔ عبدی کے مطابق گزشتہ دو ماہ سے دونوں فریقوں کے درمیان جنگ بندی قائم ہے اور وہ پرامید ہیں کہ یہ عارضی جنگ بندی مستقل امن میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم نے ایک طویل جنگ لڑی ہے لیکن اب جنگ بندی نے ہمیں نئی راہیں دکھائی ہیں۔” ایک سوال کے جواب میں کہ آیا وہ ترک صدر سے ملاقات کریں گے، عبدی نے کہا کہ “فی الحال ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں لیکن میں اس کا مخالف بھی نہیں ہوں۔ اگر حالات سازگار ہوں تو ہم ہر امکان پر غور کریں گے۔ ہم ترکی سے جنگ کی حالت میں نہیں، تعلقات کی بحالی کی امید رکھتے ہیں۔” عالمی میڈیا ادارے المانٹر کے مطابق ترکی نے عبدی سے اعلیٰ ترک عہدیدار کو ممکنہ طور پر وزیر خارجہ یا انٹیلیجنس چیف سے ملاقات کی تجویز دی ہے۔ گزشتہ دسمبر میں امریکا کی ثالثی سے ایک جنگ بندی معاہدہ طے پایا تھا جب SDF اور ترکی کے حمایت یافتہ گروہوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں۔ لازمی پڑھیں: ’مقامی صنعت کا تحفظ‘، امریکا کا اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر ٹیرف 50 فیصد کرنے کا اعلان مارچ میں عبدی نے شامی عبوری صدر احمد الشراع کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت شمال مشرقی شام کی نیم خودمختار حکومت کو دمشق کی مرکزی حکومت میں ضم کیا جانا ہے۔ تاہم جمعرات کے روز ترک صدر اردوان نے SDF پر اس معاہدے کے نفاذ میں تاخیر کا الزام لگایا۔ اس کے ردعمل میں عبدی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ “ہم مکمل طور پر معاہدے کی پاسداری کر رہے ہیں۔” اس انٹرویو میں عبدی نے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کی سختی سے تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ “ہم پر ایسے الزامات لگتے رہے ہیں لیکن میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ ہمارا اسرائیل سے کوئی رابطہ نہیں۔” یہ پیش رفت خطے میں ایک نئے سفارتی باب کی جانب اشارہ کرتی ہے جس کے اثرات نہ صرف شام بلکہ ترکی اور دیگر ہمسایہ ممالک پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ مزید پڑھیں: چین طاقت کے توازن کو بگاڑنے کے لیے فوجی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے، امریکی وزیردفاع

چین طاقت کے توازن کو بگاڑنے کے لیے فوجی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے، امریکی وزیردفاع

Pete hegseth

امریکی وزیردفاع پیٹ ہیگسیٹھ نے ہفتے کے روز سنگاپور میں جاری بین الاقوامی سیکیورٹی کانفرنس شنگریلا ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ چین کا خطرہ نہ صرف حقیقی ہے بلکہ یہ کسی بھی وقت عملی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈو پیسفک خطہ امریکی حکومت، خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ کی اولین ترجیح ہے اور اتحادی ممالک کو چاہیے کہ وہ اس ابھرتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے دفاعی بجٹ میں نمایاں اضافہ کریں۔ ہیگسیٹھ نے واضح الفاظ میں کہا کہ “اس میں کوئی لگی لپٹی نہیں ہونی چاہیے، چین کا خطرہ حقیقی ہے اور اس کا وقوع پذیر ہونا ممکنہ طور پر قریب ہے۔” انہوں نے کہا کہ اگر چین نے تائیوان پر چڑھائی کی کوشش کی تو اس کے تباہ کن نتائج نہ صرف انڈو پیسفک بلکہ پوری دنیا کے لیے سنگین ہوں گے۔ چین تائیوان کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے اور بارہا اعلان کرچکا ہے کہ وہ اسے طاقت کے ذریعے بھی “دوبارہ متحد” کرسکتا ہے۔ لازمی پڑھیں: پاکستانی وفد ’تجارتی مذاکرات‘ کے لیے اگلے ہفتے امریکا کے دورے پر آئے گا، ڈونلڈ ٹرمپ حالیہ مہینوں میں چین نے تائیوان کے گرد جنگی مشقوں میں اضافہ کیا ہے جسے ماہرین تائیوان پر دباؤ بڑھانے کی ایک منظم مہم قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب تائیوان کی حکومت بیجنگ کے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ جزیرے کا مستقبل صرف اس کے عوام طے کرسکتے ہیں۔ ہیگسیٹھ نے اپنی تقریر میں کہا کہ “یہ بات سب کو سمجھ لینی چاہیے کہ بیجنگ خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کے لیے فوجی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔” امریکی وزیردفاع کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب چین نے کانفرنس میں اپنے وزیردفاع کی شرکت سے انکار کرتے ہوئے صرف ایک تعلیمی وفد روانہ کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق چین کے اس اقدام کا مقصد ممکنہ طور پر تنقید سے بچنا اور خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے خود کو وقتی طور پر الگ رکھنا ہے۔ ہیگسیٹھ نے نہ صرف ایشیائی اتحادیوں کو خبردار کیا بلکہ ان پر زور دیا کہ وہ یورپ کی طرز پر دفاعی اخراجات میں اضافہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ “جب یورپی ممالک جیسے کہ جرمنی اپنے دفاع پر جی ڈی پی کا 5 فیصد خرچ کرنے کا عہد کر رہے ہیں تو ایشیائی اتحادیوں کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ ایسے خطرناک ماحول میں اس سے پیچھے نہ رہیں۔” یہ بھی پڑھیں: انڈونیشیا میں کان کنی کے دوران چٹان گر گئی، لاشیں ملبے تلے دب گئیں، 10 افراد ہلاک فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے بھی اپنی افتتاحی تقریر میں ہیگسیٹھ کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کا اتحادیوں سے دفاعی اخراجات بڑھانے کا مطالبہ جائز ہے۔ ڈچ وزیردفاع روبن بریکل مانس نے بھی اس امر کو سراہا کہ امریکی انتظامیہ نے بالآخر تسلیم کیا ہے کہ یورپی ممالک اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب شمالی کوریا کے بڑھتے ہوئے میزائل تجربات اور چین کی جارحانہ پالیسیوں نے خطے میں غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر اتحادی ممالک نے دفاعی تیاریوں پر سنجیدگی نہ دکھائی تو چین جیسے ممالک طاقت کے توازن کو یکسر بدلنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہیگسیٹھ کی تقریر نے خطے کے مستقبل سے متعلق کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور بظاہر یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ انڈو پیسفک میں طاقت کی جنگ مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ مزید پڑھیں: پاکستان انڈیا کشیدگی بڑھی تو صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی ہے، جنرل ساحر شمشاد مرزا

نائیجیریا میں ’شدید سیلاب‘ نے 115 لوگوں کی جان لے لی، درجنوں افراد تاحال لاپتہ

Floods in nigeria

نائیجیریا کے وسطی علاقوں میں موسلا دھار بارشوں کے بعد آنے والے شدید سیلاب نے کم از کم 115 افراد کی جان لے لی ہے اور درجنوں افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ مقامی حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔    بدھ کی رات سے جمعرات کی صبح تک ہونے والی موسلا دھار بارشوں نے ریاست نائیجر کے دارالحکومت موکوا اور قریبی علاقوں کو شدید متاثر کیا۔ نائیجر اسٹیٹ ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی کے ترجمان کے مطابق، اب تک 115 افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں، جن میں سے زیادہ تر کو دریائے نائیجر سے برآمد کیا گیا۔ ریسکیو ٹیمیں امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور مقامی افراد بھی اپنے پیاروں کو ملبے سے تلاش کر رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے، وزیراعظم شہباز شریف ماہرین کے مطابق، یہ ہولناک سیلاب موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ شدید اور مسلسل بارشوں کا غیر معمولی دورانیہ اور شدت بتاتی ہے کہ دنیا بھر میں موسم کس تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اسی طرح کے شدید موسمی حالات دیگر ممالک میں بھی سامنے آ رہے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اب عملی تباہی میں تبدیل ہو چکا ہے۔

’مقامی صنعت کا تحفظ‘، امریکا کا اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر ٹیرف 50 فیصد کرنے کا اعلان

Trump steel tarif

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسٹیل اور ایلومینیم کی درآمدات پر عائد 25 فیصد ٹیرف کو بڑھا کر 50 فیصد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پنسلوانیا کے صنعتی شہر پٹسبرگ میں ایک سیاسی جلسے سے خطاب کے دوران اس فیصلے کا اعلان کیا۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ اس اقدام سے امریکی اسٹیل انڈسٹری کو نئی زندگی ملے گی، ملازمتیں بڑھیں گی، اور ملک کی دفاعی صلاحیت مضبوط ہو گی۔ امریکی صدر نے کہا کہ، درآمد ہونے والے اسٹیل اور ایلومینیم پر ٹیکس (25) فیصد کے بجائے (50) فیصد کرنے کا مقصد مقامی صنعتوں کو تحفظ دینا اور امریکا کو عالمی سطح پر اسٹیل کی پیداوار میں خود کفیل بنانا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے، وزیراعظم شہباز شریف اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ فیصلہ مقامی انڈسٹری کی بقا، روزگار کے تحفظ اور قومی سلامتی کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی اسٹیل انڈسٹری کو چین، جاپان، انڈیا اور دیگر ممالک سے درآمد کی جانے والی سستی مصنوعات نے نقصان پہنچایا ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اُن کے پہلے دورِ حکومت میں لگائے گئے پچیس فیصد ٹیرف نے امریکی اسٹیل انڈسٹری کو جزوی طور پر بحال کیا، اور اب اس میں مزید بہتری لانے کے لیے ٹیرف کو دگنا کرنا ضروری ہے۔ یہ نیا ٹیرف پورے امریکا میں نافذ کیا جائے گا اور بدھ کے روز سے اس پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔ اس کا اطلاق تمام درآمدی اسٹیل اور ایلومینیم پر ہوگا۔ امریکی صدر نے کہا کہ، یہ فیصلہ نہ صرف امریکا کی مقامی صنعت کو تحفظ فراہم کرے گا بلکہ اس کے ساتھ جاپانی کمپنی نپّون اسٹیل اور امریکی یو ایس اسٹیل کے درمیان 14 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا آغاز بھی ہے۔ یہ سرمایہ کاری چودہ ماہ کے دوران کی جائے گی اور معاہدے کے تحت امریکی حکومت کو پیداوار میں کمی کے فیصلوں پر ویٹو پاور حاصل ہوگی۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ معاہدے کے تحت کسی بھی امریکی ملازم کو برطرف نہیں کیا جائے گا، نہ ہی کسی قسم کی آؤٹ سورسنگ ہوگی۔ ہر اسٹیل ورکر کو 5 ہزار ڈالر بونس بھی دیا جائے گا۔ تاہم، ٹرمپ نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ابھی تک معاہدے کی حتمی دستاویزات نہیں دیکھی ہیں۔ ماہرین کے مطابق، پاکستانی صنعتوں، خصوصاً آٹو، تعمیرات اور انجینئرنگ شعبہ جات، جو اسٹیل پر انحصار کرتے ہیں، اُنہیں اپنی قیمتوں میں تبدیلی اور درآمدی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا پڑ سکتی ہے۔ پاکستانی برآمد کنندگان کے لیے بھی یہ فیصلہ اہم ہے۔ اگر امریکا عالمی سطح پر درآمدی پابندیاں بڑھاتا ہے تو سپلائی چین متاثر ہوگی اور پاکستانی کمپنیوں کے لیے امریکی مارکیٹ تک رسائی مزید مشکل ہو سکتی ہے۔ چین، جو دنیا کا سب سے بڑا اسٹیل پیدا کرنے والا ملک ہے، نے امریکی فیصلے پر شدید ردعمل دیا ہے۔ بیجنگ نے امریکہ پر “امتیازی پابندیاں” لگانے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ امریکا تجارتی معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ٹرمپ نے چین پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ وہ حالیہ تجارتی معاہدے کی شقوں پر عمل نہیں کر رہا، خاص طور پر نان ٹیرف رکاوٹوں کے خاتمے کے حوالے سے۔

پاکستانی وفد ’تجارتی مذاکرات‘ کے لیے اگلے ہفتے امریکا کے دورے پر آئے گا، ڈونلڈ ٹرمپ

Trump

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان کا ایک وفد اگلے ہفتے امریکا کا دورہ کرے گا تاکہ تجارتی محصولات سے متعلق بات چیت کی جا سکے۔ عالمی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا کہ اگر پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی یا جنگ ہوتی ہے تو امریکا ان ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے کرنے میں دلچسپی نہیں رکھے گا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو امریکا کے ساتھ تین ارب ڈالر کے تجارتی فائدے کی وجہ سے اپنی برآمدات پر 29 فیصد ٹیرف کا سامنا ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب انڈیا کو بھی امریکی تجارتی پالیسی کے تحت 26 فیصد ٹیرف کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکا اور انڈیا کے درمیان ایک تجارتی معاہدے پر کام جاری ہے اور دونوں ملک اس معاہدے کے قریب ہیں۔ انڈین وزیر تجارت نے اس مقصد کے لیے حال ہی میں واشنگٹن کا دورہ بھی کیا۔ صدر ٹرمپ نے اس موقع پر کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ امریکا ان ملکوں کے ساتھ تجارت کرے جو جنگ میں مصروف ہوں اور ایک دوسرے پر گولیاں برسا رہے ہوں، خاص طور پر جب جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ موجود ہو۔ یہ بھی پڑھیں: پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے، وزیراعظم شہباز شریف انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ممکنہ جنگ کو روکا، جو کہ ایٹمی تباہی میں بدل سکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے رہنماؤں نے ان کے پیغام کو سمجھا اور جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی، جس کے بعد کشیدگی کم ہوئی۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے تجارتی پیشکش کو ایک سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور اس کی مدد سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان سیز فائر ممکن بنایا۔ جب دونوں ممالک نے پہلے جنگ بندی سے انکار کیا تو انہوں نے یہ پیغام دیا کہ اگر لڑائی بند ہو جائے تو امریکا تجارت کرے گا، ورنہ نہیں۔ یاد رہے کہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کے مختلف علاقوں پر حملوں کے بعد، پاکستان نے جوابی کارروائی کی تھی۔ اس کے بعد سعودی عرب، امریکا اور ترکی نے دونوں ممالک کو جنگ سے روکنے کے لیے مداخلت کی اور آخرکار جنگ بندی پر اتفاق ہوا۔ 10 مئی کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر اس جنگ بندی کی تصدیق کی تھی۔

انڈونیشیا میں کان کنی کے دوران چٹان گر گئی، لاشیں ملبے تلے دب گئیں، 10 افراد ہلاک

Indonesia

انڈونیشیا کے صوبے مغربی جاوا میں کان پر چٹان گرنے سے کم از کم 10 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہو گئے۔ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ ایجنسی (BNPB) کے مطابق، ملبے تلے دبے ہوئے افراد کی تلاش کا عمل تاحال جاری ہے۔ یہ حادثہ مغربی جاوا کے علاقے سیربن میں جمعہ کے روز پیش آیا، جہاں چٹانیں گرنے کے بعد صورتحال انتہائی سنگین ہو گئی۔ مقامی میڈیا، خاص طور پر کومپاس ٹی وی نے جائے وقوعہ سے مناظر نشر کیے جن میں بھاری مشینری کے ذریعے پتھروں کو ہٹانے کا عمل جاری تھا۔ امدادی اہلکاروں نے لاشوں کو ایمبولینس میں منتقل کیا۔ ڈیزاسٹر ایجنسی کا کہنا ہے کہ تین کھدائی کرنے والے اور دیگر بھاری مشینری بھی چٹانوں کے نیچے دب گئی ہے، اور امدادی سرگرمیاں ہفتہ کو بھی جاری رہیں گی۔ تاحال لاپتہ افراد کی درست تعداد معلوم نہیں ہو سکی، تاہم ابتدائی رپورٹس میں تقریباً 10 افراد کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات دی گئی تھیں۔ مغربی جاوا کے گورنر دیدی ملیادی نے اپنے انسٹاگرام پیغام میں حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کان کارکنوں کے لیے محفوظ نہیں تھی اور حفاظتی معیارات پر پوری نہیں اترتی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتظامیہ اس حادثے کی مکمل تحقیقات کرے گی اور متاثرہ خاندانوں کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔ مزید پڑھیں: پاکستان اور ایران کے درمیان بارڈر 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا اعلان یہ واقعہ انڈونیشیا میں کان کنی کی صنعت میں حفاظتی اقدامات پر نئے سوالات کھڑے کر رہا ہے، جہاں اکثر حفاظتی ضوابط کی خلاف ورزیاں سامنے آتی رہی ہیں۔

پاکستان انڈیا کشیدگی بڑھی تو صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی ہے، جنرل ساحر شمشاد مرزا

Genral shair shamshad

جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا ہے کہ اگر پاکستان اور انڈیا کے درمیان آئندہ کشیدگی میں اضافہ ہوا تو دونوں ممالک کے لیے صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی ہے۔ سنگاپور میں شنگری لا ڈائیلاگ فورم میں شرکت کے دوران عالمی خبر ارساں ادارے رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ دونوں ممالک کی افواج نے سرحد پر تعینات فوجیوں کی تعداد میں کمی کا عمل شروع کر دیا ہے، مگر آئندہ کشیدگی بڑھی تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ حالیہ کشیدگی کے دوران جوہری ہتھیاروں کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، لیکن یہ ایک انتہائی خطرناک صورتحال تھی۔ ساحر شمشاد مرزا نے خبردار کیا ہے کہ اس بار لڑائی صرف انڈیا کے زیر قبضہ کشمیر تک محدود نہیں رہی، اس لیے مستقبل میں کشیدگی بڑھنے کا خطرہ زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بار کچھ نہیں ہوا، لیکن آپ کسی بھی وقت کسی بھی اسٹریٹجک غلط حساب کتاب کو مسترد نہیں کر سکتے، کیونکہ جب بحران جاری ہوتا ہے تو ردعمل مختلف ہوتے ہیں۔ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین  نے کہا کہ یہ تصادم متنازعہ علاقے تک محدود نہیں رہے گا، یہ پورے ہندوستان اور پورے پاکستان تک آئے گا، یہ بہت خطرناک رجحان ہے۔ یہ بھی پڑھیں:’آپریشن شیلڈ‘، مودی سرکار کی پاکستانی سرحد کے ساتھ سول ڈیفینس مشقیں، انتظامیہ نے بلیک آؤٹ کا الرٹ جاری کر دیا انہوں نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان بحران سے نمٹنے کے مؤثر طریقہ کار کی عدم موجودگی کی وجہ سے آئندہ عالمی ثالثی مشکل ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول عالمی برادری کے لیے مداخلت کرنے کا وقت بہت کم ہو جائے گا اور میں یہ کہوں گا کہ نقصان اور تباہی اس وقت سے پہلے بھی ہو سکتی ہے جب عالمی برادری اس ٹائم ونڈو کا فائدہ اٹھائے گی۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ پاکستان مذاکرات کے لیے تیار ہے، تاہم اس وقت صرف ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹر جنرل کے درمیان بحران ہاٹ لائن اور سرحدی سطح پر چند حکمت عملی ہاٹ لائنز کے علاوہ کوئی رابطہ موجود نہیں ہے۔ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے چیئرمین نے واضح کیا کہ حالیہ کشیدگی کے دوران دونوں ممالک کے درمیان کوئی بیک چینل یا غیر رسمی بات چیت نہیں ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی انڈین  چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان سے ملاقات کا بھی کوئی منصوبہ نہیں ہے، جو اس وقت خود بھی شنگری لا فورم میں موجود ہیں۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا  نے اختتام پر کہا کہ یہ مسائل صرف مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے ہی حل کیے جا سکتے ہیں، انہیں میدان جنگ میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ مزید پڑھیں:ایران اور سعودی عرب کی بڑھتی قربت: پاکستان کیسے سفارتی توازن برقرار رکھ سکتا ہے؟ خیال رہے کہ انڈین وزیر اعظم نریندرا مودی پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر انڈیا پر دوبارہ حملے ہوئے تو انڈیا سرحد پار دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنائے گا، جب کہ انڈین  وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

ہم فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں، فرانسیسی صدر

France president

فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے کہا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا نہ صرف اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ سیاسی ضرورت بھی ہے۔ انہوں نے یورپی ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ کی سنگین انسانی صورتحال پر اسرائیل کے خلاف اپنا موقف سخت کریں۔ جمعہ کو سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ سیکیورٹی فورم کے آغاز سے قبل پریس کانفرنس میں میکرون نے کہا کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں انسانی بحران کے حل کے لیے فوری اقدامات نہیں کیے تو فرانس اور دیگر یورپی ممالک کو اسرائیل کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے، جن میں ممکنہ طور پر پابندیاں بھی شامل ہو سکتی ہیں۔ میکرون نے کہا کہ “اگر اگلے چند گھنٹوں یا دنوں میں اسرائیل نے غزہ کی صورتحال پر مناسب ردعمل نہیں دیا تو ہمیں اپنے اجتماعی موقف کو سخت کرنا ہوگا۔” انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ انسانی حقوق کے احترام کے بارے میں مفروضوں کو ترک کر کے پابندیاں عائد کی جائیں۔ فرانس اور سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ وہ جون میں نیو یارک میں ایک عالمی کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کریں گے جس کا مقصد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ایک روڈ میپ تیار کرنا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: ’میں نے سب کچھ کھو دیا‘، سوئٹزرلینڈ کے گاؤں میں گلیشیائی تودا گرنے سے رہائشی صدمے کا شکار میکرون نے اس موقع پر کہا کہ فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے لیکن یہ تسلیم اس وقت کیا جائے گا جب فلسطینی اتھارٹی ضروری اصلاحات کرے گی اور اسرائیل کے ساتھ باہمی تسلیمیت کی بنیاد پر عمل کیا جائے گا۔ انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں اپنے دورے کے دوران، میکرون اور انڈونیشی صدر پروباؤو سبیانتو نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں غزہ میں اسرائیل کے کنٹرول کے منصوبوں اور فلسطینی آبادی کو زبردستی نکالنے کی کسی بھی کوشش کی مذمت کی گئی۔ دونوں رہنماؤں نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ غزہ کی صورتحال انتہائی سنگین ہے، جہاں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں 54,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہے اور ایک تہائی سے زائد آبادی کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ لازمی پڑھیں: اسرائیل نے ’جنگ بندی کی تجویز‘ پر دستخط کر دیے، حماس غور کر رہا ہے، امریکا فرانس کی حکومت نے غزہ کے لیے 100 ملین یورو کی اضافی امداد کا اعلان کیا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ میکرون نے کہا ہے کہ “ہمیں غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کی حفاظت کی جا سکے اور امدادی سامان کی ترسیل ممکن ہو سکے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کو اپنی فوجی کارروائیوں کو دہشت گردوں کے خلاف مخصوص اور متناسب بنانا چاہیے۔ فرانس کے صدر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے اور یہ دونوں فریقوں کے درمیان دیرپا امن کے قیام کے لیے اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ “ہمیں ایک ایسا حل تلاش کرنا ہوگا جو دونوں فریقوں کے حقوق اور سلامتی کو یقینی بنائے۔” میکرون کے یہ بیانات بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے خلاف بڑھتے ہوئے دباؤ کی عکاسی کرتی ہیں اور یہ ظاہر کرتی ہیں کہ فرانس فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ مزید پڑھیں: ایلون مسک ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ

’ٹرمپ ٹیرف‘ عارضی طور پر بحال، پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟

Trump 100 day

امریکا کی وفاقی اپیلز کورٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں نافذ کیے گئے تجارتی محصولات کو عارضی طور پر بحال کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکی محکمہ تجارت کی اپیل پر کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ان محصولات کو فی الحال برقرار رکھا جائے تاکہ عدالتی کارروائی مکمل ہو سکے۔ گزشتہ دن ایک امریکی تجارتی عدالت نے ان محصولات کو غیر آئینی قرار دے کر فوری طور پر معطل کر دیا تھا۔ تاہم اب اپیلز کورٹ نے اس حکم پر عمل درآمد روک دیا ہے اور فریقین کو پانچ اور نو جون تک دلائل جمع کرانے کا وقت دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت میں اسٹیل، ایلومینیم اور دیگر درآمدی اشیاء پر بھاری محصولات عائد کیے تھے۔ ان کا موقف تھا کہ یہ اقدامات امریکی صنعت کو تحفظ دینے کے لیے ضروری ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ صورتحال تشویشناک ہو سکتی ہے، خاص طور پر جب کہ ملک کی معیشت برآمدات پر کافی حد تک انحصار کرتی ہے۔ اگرچہ ان امریکی محصولات کا ہدف براہ راست پاکستان نہیں، لیکن عالمی مارکیٹ میں اس قسم کی پالیسیوں سے پیدا ہونے والا عدم استحکام بالواسطہ طور پر پاکستانی برآمد کنندگان کو متاثر کر سکتا ہے۔ پاکستان امریکا کو ٹیکسٹائل، سرجیکل آلات، کھیلوں کا سامان اور دیگر اشیاء برآمد کرتا ہے۔ ان مصنوعات پر فی الحال کوئی نیا محصول لاگو نہیں کیا گیا۔

ایلون مسک ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ

Trump and musk

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ معروف کاروباری شخصیت ایلون مسک کے ساتھ آج اوول آفس میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کریں گے۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ایلون مسک ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں گے اور ان کے تعلقات مضبوط ہیں۔ یہ بیان ایک دن بعد سامنے آیا ہے جب یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ ایلون مسک نے ٹرمپ انتظامیہ سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ اس خبر کی تصدیق بعض وائٹ ہاؤس اہلکاروں نے بھی کی تھی، جس سے یہ تاثر ملا کہ مسک اب حکومت کا حصہ نہیں رہے۔ ایلون مسک ٹیسلا، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور دیگر کئی کمپنیوں کے مالک ہیں اور وہ امریکا کے محکمہ برائے حکومتی کارکردگی (DOGE) کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کے حوالے سے آنے والی متضاد اطلاعات کے باوجود صدر ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ ان کے اور مسک کے تعلقات قائم ہیں اور وہ ان کے ساتھ مکمل تعاون جاری رکھیں گے۔ دوسری جانب، امریکی عدالت نے ٹرمپ کی جانب سے عائد کیے گئے ٹیرف عارضی طور پر بحال کر دیے ہیں۔ اس سے قبل ایک عدالت نے انہیں غیر قانونی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپیل کورٹ میں مؤقف اختیار کیا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے لیے تجارتی پالیسی کو استعمال کیا گیا تھا۔ مزید پڑھیں: کشمیر خود لوٹ کے ہمارے پاس آئے گا، انڈین وزیردفاع کا دعویٰ