ستائیس سال قبل قاتلانہ حملے میں بچ جانے والا ایرانی جج آخر کار سفاکیت کی نظر ہو گیا

ایران کے دارالحکومت تہران میں سپریم کورٹ کے حملے میں 3 میں سے 2 جان کی بازی ہار گئے، جب کہ ایک زخمی ہوگیا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق 18 جنوری کی صبح کوایک مسلح شخص  نے سپریم کورٹ کے تین ججوں پر قاتلانہ حملہ  کردیا، حملے کے نتیجے میں 2 ججز کو جاں بحق جب کہ  ایک جج زخمی ہو گیا۔ فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے ججوں میں علی رازینی اور محمد مغیثی شامل ہیں، دونوں جج صاحبان قومی سلامتی، جاسوسی اور دہشتگردی سے متعلق کیسز کی سماعت کررہے تھے۔ یاد رہے کہ جج علی رازینی پر 1998 میں بھی قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا جس میں ان کی گاڑی میں بم نصب کیا گیا تھا اور وہ اس حملے میں زخمی ہوئے تھے۔ غیر میڈیا رپورٹ کےمطابق فائرنگ کا واقعہ مصروف علاقے تہران اسکوائر پر سپریم کورٹ کے قریب پیش آیا ، حملہ آور نے ججز کو گولی مارنے کے بعد خود کو گولی مارکر خودکشی کرلی۔ عدلیہ نیوز کی ویب سائیٹ  میزان نے حملہ آور کی شناخت کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم کیے بغیر کہا کہ حملہ آور سپریم کورٹ کے سامنے کسی بھی مقدمے میں ملوث نہیں تھا۔ حکام اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا اس حملے میں کوئی اور بھی ملوث ہے یا نہیں۔ ابھی تک حملے کا مقصد واضح نہیں ہوا  ہے، لیکن کہا جارہا ہے کہ دونوں ججوں نے 1980 کی دہائی سے اسلامی حکومت کے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن میں کردار ادا  کیاہے ۔ایک اور بیان میں عدلیہ کے میڈیا آفس نے اس حملے کو سوچا سمجھا قتل قرار دیا ہے۔ عالمی نیوز چینل بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق  68 سالہ تجربہ کار جج محمد مغیثی  کو 2019  میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر یورپی یونین، امریکہ اور کینیڈا نے پابندیاں عائد کی تھی۔ واضح رہے کہ گزشتہ چندسالوں سےایران کو دہشت گردی کا سامنا  ہے۔ پچھلے کئی دہائیوں سے اسرائیل کے خلاف ایران جنگ میں فلسطین کی مدد کررہا ہے۔ اس کے علاوہ اپریل 2024ء کو اسرائیل نے  دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر فضائی حملہ کیاتھا جس میں دو ایرانی جنرل سمیت سات اہل کار جاں بحق ہوئے۔ جس کے  چند روز بعد ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے لگ بھگ تین سو ڈرونز اور میزائیل اسرائیل کی جانب روانہ کیے۔جس میں کچھ میزائیل قائم اسرائیلی فوجی اڈے پر گرے اور رن وے کو جزوی نقصان پہنچا۔ یاد رہے کہ ایران میں دہشت گردی کےآئے  دن واقعات  میں  نہ صرف بین القوامی داعش اورالقائدہ  جیسی تنظیمیں ملوث ہیں بلکہ ایران میں موجود  تنظیم مجاہدین خلق ایران، عبدالمالک ریگی اور مقاومت ملی اہواز جیسی تنظیمیں  ایران کے داخلی معاملات میں زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان تنظیمیوں نے ایران کے نظام کی مخالفت کرتے ہوئے کئی دفعہ خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ 2024 ء میں ایران کو دہشت گردی اور پریشر گروپ کی وجہ سے بہت سے نقصانات کا سامنا کرناپڑا ہے۔ایران کے صدر ابراہیم رائیسی 19مئی 2024ء کو آزربائیجان کے دورے کے دوران  ہیلی کاپٹر کے سفر کے دوران ایک سفری حادثے کا شکار  ہوکر شہید ہوئے۔ابراہیم رائیسی کی موت کے حوالے سے متعدد ایرانی گروپ کہتے ہیں کہ انھیں پریشر گروپ نے نشانہ بناکر شہید کیا ہے، البتہ اس حوالے سے کوئی حقائق سامنے نہیں آئے۔ اس کے علاوہ  31جولائی 2024 کو  حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے گئے تھے ، ایران کا درالحکومت   تہران  ان  کے لیے محفوظ پناہ گاہ ثابت نہ ہوسکا اور   وہ  ایرانی فوجی مہمان خانے میں  اسرائیلی حملے میں قتل کر دیےگئے۔ ابھی تک سپریم کورٹ آف ایران کے قتل کی وجوہات سامنے نہیں آسکی ہیں تاہم کہا جارہاہے اس کے پیچھے غیر ملکی سازش ہوسکتی ہے، حکومتی ادارے قتل کی وجوہات ڈھونڈنے میں لگے ہیں، ابھی تک ان کے ہاتھ میں کوئی خاص شواہد نہیں لگے۔

“محمد سراج گوتم گمبھیر کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے” بھارت کا آئی سی سی چیمپئن ٹرافی کے 15 رکنی  اسکواڈ کا اعلان

آئی سی سی چیمپئن ٹرافی 2025 کے لیے بھارتی ٹیم کے 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان کردیا گیا ہے، ٹیم کی کپتانی روہت شرما کریں گے جب کہ شبھمن گل نائب کپتان ہوں گے۔ بھارتی فاسٹ بالر محمد سراج 15 رکنی ٹیم میں جگہ نہ بنا پائے اور ٹیم سے باہر کردیے گئے۔ 18 جنوری کو آئی سی سی چیمپئن ٹرافی کے لیے بھارتی ٹیم کے کپتان روہت شرما اور چیف سلیکٹر اجیت اگرکر نے پریس کانفرنس  کی، کانفرنس میں بھارت  کر کٹ ٹیم کے 15 رکنی اسکواڈ  کا اعلان کیا گیا ۔کانفرنس میں بتایا گیا کہ  چیمپئن ٹرافی 2025 میں ٹیم کی کپتانی روہت شرما کریں گے اور شبمن گل نائب کپتان کے طور پر فرائض سرانجام دیں گے۔ چیمئینز ٹرافی کے لیے بھارتی ٹیم میں چند بڑی  تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ دائیں ہاتھ کے نوجوان بلے باز شبمن گل کو نائب کپتان مقرر کیا گیا ہے ، جب کہ دوسری جانب   فاسٹ بالر محمد سراج کو 15 رکنی سکواڈ میں شامل نہ ہوسکے۔ حالیہ دورہ آسٹریلیا میں  محمد سراج بھارتی فاسٹ بالنگ اٹیک کا اہم حصہ تھے۔ بری کاردکردگی کے باعث انھیں 15 رکنی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی اسکواڈ میں جگہ بنانے والے یشوی جیسوال اب تک صرف ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ہی کھیلے ہیں۔ چیمپئنز ٹرافی کے لیے ان کا انتخاب بیک اپ اوپنر کے طور پر ہوا ہے۔ اگر انہیں موقع دیا گیا تو وہ اپنے ون ڈے کریئر کا آغاز کریں گے۔ بھارتی ٹیم کے 15رکنی اسکواڈ میں روہت شرما، شبھمن گل، ویرات کوہلی، شریاس ایئر، کے ایل راہول، ہاردک پانڈیا شامل ہیں۔اس کے علاوہ اکشر پٹیل، واشنگٹن سندر، کلدیپ یادیو، جسپریت بمراہ، محمد شامی، ارشدیپ سنگھ، یشسوی جیسوال، رشبھ پنت اور رویندرا جڈیجدا بھی اسکواڈ کا حصہ ہیں۔ یاد رہے کہ حال ہی میں بھارتی فاسٹ بالر محمد شامی اور کلدیپ یادو انجرڈ ہوئے تھے اور وہ ٹیم سے باہر تھے، ان کی  ٹیم میں واپسی ہوئی ہے اور کہا گیا ہے کہ دونوں کھلاڑی اب بلکل ٹھیک ہیں۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا کے خلاف رواں ماہ کھیلے جانے والے پانچویں ٹیسٹ میں فاسٹ بالر جسپریت بمرا  بھی انجری کا شکار ہو گئے تھے۔وہ ابھی تک صحت یاب نہیں ہوپائے، مگر ان کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے انھیں 15 رکنی اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے، صحت کو لے کر حتمی فیصلہ فروری میں کیاجائے گا۔ دوسری جانب  آسٹریلیا کے حالیہ دورے کےدوران بھارتی بلے باز کے ایل راہول کی کارکردگی کافی مایوس کن رہی،   اس کےباوجود انھیں ٹیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ فیصلہ آئی سی سی 2023 کے ورلڈ کپ میں ان کی بہترین کاردکردگی کی بدولت کیا گیا ہے۔  چیمپئن ٹرافی سے قبل دورہ انگلینڈ میں یشوی جیسوال  اور کے ایل راہول کی کارکردگی اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ فائنل الیون اسکواڈ کا حصہ کون بنتا ہے؟ دوسری جانب  نہ صرف بھارتی کرکٹ شائقین بلکہ بڑے بڑے نامور کھلاڑی بھی ٹیم کی سلیکشن سے کافی ناخوش دکھائی دیے۔  سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شائقین کی جانب سے محمد سراج کو ٹیم میں سلیکٹ نہ کرنے پر کافی شور مچایا گیا،  ساتھ میں تنقید کی گئی کہ  محمد شامی اور کلدیپ یادیو  ان فٹ ہونے کو باوجود ٹیم میں شامل کیوں کیے گئے ہیں؟ انڈین ٹیم کے سابق  فاسٹ باؤلر محمد ظہیر نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس ( سابقہ ٹوئٹر) پر عوام سے سوال کرتے ہوئے کہا  کہ واہ! محمد سراج جو 2022 سے فاسٹ بالروں کی فہرست میں سب سے آگے ہے اسے چیمپئن ٹرافی میں سلیکٹ نہیں کیا ، آپ لوگوں کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ جواب میں شائقین کی طرف سے دلچسپ تبصرے سننے کو ملے۔ ایک صارف کی جانب سے کہا گیا کہ انتہائی ناقص ٹیم کو 15 رکنی اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے، ٹیم میں مکمل آؤٹ آف فارم کھلاڑیوں کو ان کے تعصب کی وجہ سے شامل کیے گئے ہیں۔  15 میں سے 5 کھلاڑی آؤٹ آف فارم ہیں ۔ دوسری جانب ایک اور صارف نے محمد سراج کے ٹیم میں سلیکٹ نہ کیے جانے کو گوتم گمبھیر کی سیاست قرار دیا، صارف کی جانب سے کہا گیا کہ محمد سراج کے لیےئ بہت برا لگا، وہ گوتم گھمبھیر کی  سیاست کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ یاد  رہے کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا آغاز 19 فروری کو پاکستان اور نیوزی لینڈ کے میچ سے کراچی اسٹیڈیم میں ہوگا، ایونٹ میں بھارتی ٹیم 20 فروری کو بنگلا دیش کے خلاف دبئی میں اپنا پہلا میچ کھیلےگی جب کہ پاکستان اور بھارت کے میچز ہابرڈ ماڈل کے تحت کھیلے جائیں گے۔

الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کا ” ری بلڈ غزہ مہم” کے لیے 15 ارب روپے مختص کرنے کا اعلان

الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کی جانب سے غزہ میں جاری امدادی سرگرمیوں اور بحالی و تعمیرنو کے حوالے سے 18 جنوری کواہم پریس بریفنگ کا انعقاد کیا گیا  ،پریس بریفنگ  میں  مرکزی صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن، سیکرٹری جنرل سید وقاص جعفری اور نائب صدور سمیت دیگر ذمہ داران  نے شرکت کی۔ پریس کانفرنس میں الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان  کی جانب سے غزہ متاثرین کے ریلیف اور بحالی و تعمیر نو کے لیے اگلے 15 ماہ کے لیے 15 ارب روپے دے گی۔ الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمنٰ نے تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ الخدمت فاؤنڈیشن نے گزشتہ 15 ماہ میں ساڑھے 5 ارب روپے کی امدادی سرگرمیوں کے بعداگلے 15 ماہ کے لیے ریلیف اور بحالی و تعمیر کے لیے 15 ارب روپے سے ’’ری بلڈ غزہ‘‘ مہم کا آغاز کر دیا ہے ۔ ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن  نے بتایا کہ اس ری بلڈ غزہ مہم میں  متاثرین کو عارضی شیلٹر، اشیائے ضروریات، اشیائے خوردونوش ، طبی سہولیات، ایمبولینس، موبائل ہیلتھ یونٹس، ادویات اور تعلیمی سہولیات  کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ابتدائی طور پر غزہ میں ایک  ہسپتال کی  بحالی، مکمل یا جزوی طور پر متاثرہ 5 سکولوں کی تعمیر نو اور  25 مساجد کی تعمیر و بحالی کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے متاثرین کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے 100 سے زائد صاف پانی کے منصوبہ جات، مکانات اور چھت کی فراہمی کے لیے  ریزیڈینشل ٹاور اور 3 ہزار یتیم بچوں کی مستقل کفالت منصوبے کا حصہ ہے۔ صدر الخدمت فاؤنڈیشن نے  کہا کہ غزہ کی موجودہ صورتحال کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں نہ صرف ہزاروں انسانی جانوں کا نقصان ہوا ہے بلکہ غزہ کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہونے کے باعث لاکھوں متاثرین بے سر و سامانی کے عالم میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور  ہوکر رہ گئے ہیں۔  پاکستان کےعوام نے پہلے بھی اہل غزہ کے لیے دل کھول کر مدد کی اور ہمیں یقین ہے کہ اب بھی اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے آگے بڑھیں گے۔ انھوں نے کہا کہ   الخدمت اس سلسلے میں  اپنے امداد کرنے والے دوست اداروں کے اشتراک سے متاثرہ اعلاقوں کی امداد کرنے کے لیے ہر وقت موجود ہے اور اہل غزہ  کے لیے ہر ممکن امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان کے صدر ڈاکٹر حفیظ الرحمن کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ سے متاثرہ 22 لاکھ افراد پوری دنیا خاص طور پر مسلمانوں کےلیے امتحان ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن جنگ سے متاثرہ بہن بھائیوں کو ریلیف فراہم کرنے میں کوشاں ہے۔ واضح رہ کہ مارچ 2024 ء تک الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان نے غزہ اسرائیل جنگ میں متاثر ہونے والے مسلمانوں کے لیے 1ایک ارب 70 کروڑ روپے کےائیر کارگو اوربحری جہاز کے ذریعے ادویات، تیار کھانا، خیمے، ترپال، بے بی کٹس، ہائی جین کٹس اور ونٹر پیکج بھجوائےتھے ۔ اس کے علاوہ  اکتوبر 2024ء میں غزہ میں متاثر افراد کے لیے 15 کروڑ کا سازوسامان اور 50 کروڑ روپے مختص کیے تھے۔ یاد رہے کہ الخدمت  فاؤنڈیشن پاکستان  نے ہمیشہ سے ہی بڑھ چڑھ کر اپنی خدمات کو بروئے کار لاتے ہوئے سب سے پہلے متاثرہ اعلاقوں میں امداد فراہم کی ہیں۔ پاکستان میں سیلابی صورتحالی ہو یا  دیگر غیر متوقع صورتحال ہو  یا غزہ و اسرائیل جنگ ، الخدمت نے متاثرہ افراد کو بر وقت امداد پہنچائی ہیں۔الخدمت فاؤنڈیشن  ہمیشہ ہی اس بات سے بالاتر ہوکر خواہ وہ قومی مشکلات ہیں یا عالمی  ہمیشہ سے ہی بڑھ چڑھ کر آگے آئی ہے۔

امریکہ میں ٹک ٹاک پر پابندی: سپریم کورٹ کا قومی سلامتی کے خدشات پر فیصلہ برقرار

 امریکی سپریم کورٹ نے مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر پابندی کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے، جس کے امریکہ میں 17 کروڑ سے زائد صارفین ہیں۔ یہ فیصلہ اس وفاقی قانون کو نافذ کرتا ہے جس کے تحت ٹک ٹاک کی چینی پیرنٹ کمپنی بائٹ ڈانس کو 19 جنوری 2025 تک اپنے امریکی آپریشنز کسی امریکی کمپنی کو فروخت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ورنہ ملک بھر میں اس پر مکمل پابندی عائد ہو جائے گی۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر فیصلہ دیا کہ یہ قانون امریکی آئین کی پہلی ترمیم جو آزادی اظہار کے حق کی ضمانت دیتا ہےکی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ یہ قانون کانگریس نے گزشتہ سال منظور کیا تھا اور صدر جو بائیڈن نے اس پر دستخط کیے تھے۔ سماعت کے دوران امریکی محکمہ انصاف نے موقف اختیار کیا کہ ٹک ٹاک کی چینی ملکیت قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے، کیونکہ چینی حکومت ایپ کے مواد میں رد و بدل کرکے نقصان دہ پروپیگنڈا پھیلا سکتی ہے۔ محکمہ انصاف کے ایک نمائندے کی جانب سے کہا گیا کہ چینی ملکیت کے تحت ٹک ٹاک کا آپریشن ہماری قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ٹک ٹاک نے اعلان کیا کہ اگر حکومت فوری مداخلت نہ کرے تو وہ 19 جنوری سے امریکہ میں اپنی سرگرمیاں معطل کرنے پر مجبور ہوگی۔سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک نے ایک بیان میں کہا کہ وائٹ ہاؤس اور محکمہ انصاف ضروری وضاحت اور یقین دہانی فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو ٹک ٹاک کی دستیابی برقرار رکھنے کے لیے لازمی ہیں۔ آزادی اظہار کی اہمیت کے حوالے سے ٹک ٹاک کمپنی نے خبردار کیا کہ ایپ پر پابندی آزادی اظہار کے حق پر شدید ضرب لگائے گی۔ یہ اقدام ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب امریکہ میں عوامی اظہار کے سب سے مقبول پلیٹ فارمز میں سے ایک بند ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر دنیا میں مجموعی طور پر تقریباً 19 ممالک میں پابندی لگ چکی ہے۔ نجی ویب سائٹ انڈیپینڈنٹ نیوز کے مطابق 2020  میں انڈیا نے بھی اس ایپ پر مکمل پابندی لگا دی تھی، جس سے تقریباً 20 کروڑ صارفین محروم ہو گئے تھے۔ انڈین حکومت نے ایپ کے بارے میں رازداری کے مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بائٹ ڈانس کے چینی حکومت سے مبینہ تعلقات انڈیا کی خود مختاری اور سلامتی کے لیے خطرہ پیدا کرتے ہیں۔ دیگر ممالک اور خطوں نے بشمول یورپی یونین، جزوی پابندیاں عائد کی ہیں، جن کے تحت سرکاری ملازمین اور فوجی اہلکاروں کو ایپ انسٹال کرنے سے روکا گیا ہے۔ ان خدشات کے باوجود ٹک ٹاک کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ پچھلے سال یہ ایپ امریکہ اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپس میں شامل رہی جس کے امریکہ میں پانچ کروڑ 20 لاکھ اور دنیا بھر میں 73 کروڑ 30 لاکھ ڈاؤن لوڈز ہوئیں، جب کہ دنیا بھر میں تین ارب سے زائد افراد اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کرنے سے محروم ہیں۔اس کی وجہ سے ٹک ٹاک کے عالمی صارفین کی تعداد دو ارب سے تجاوز کر گئی ہے اور صرف انڈیا کی پابندی نےجو تین سال قبل لگائی گئی تھی نے اس کی ترقی کو عارضی طور پر تھوڑا سست کیا۔ پیو ریسرچ سینٹر کے ایک سروے کے مطابق ٹک ٹاک 2023 میں امریکہ میں سب سے تیزی سے بڑھنے والا پلیٹ فارم بن گیا کیونکہ نوجوان نسل سمیت دیگر عمر کے افراد بھی یہ ایپ استعمال کرنے لگے ہیں۔ امریکہ میں ٹک ٹاک صارفین خاص طور پر 18 سے 29 سال کی عمر کے ایک تہائی افراد اسے خبروں کے ذرائع کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔2023 میں 18 سے 29 سال کی عمر کے تقریباً ایک تہائی افراد باقاعدگی سے خبروں کے لیے اس ایپ کا استعمال کرتے رہے۔ یاد رہے کہ ٹک ٹاک پر پابندی کے قانون پر دستخط امریکی صدر جو بائیڈن  نے کیے تھے۔ صدر بائیڈن کی طرف سے ابھی تک کوئی واضح بیان نہیں  آیا کہ وہ اس پابندی کو روکنے کے لیے اقدامات کریں گے یا نہیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا کمپنی کے مطابق سپریم کورٹ کے اس  فیصلے سے امریکا میں ٹک ٹاک کے سترہ کروڑ سے زائد اکاؤنٹ بند ہوجائیں گے۔ ٹک ٹاک کے سی ای او پر امید ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ فیصلہ واپس لے لے گی۔ دوسری جانب نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ  جو 20 جنوری کو صدارت کا حلف اٹھائیں گےنے سی این این کو انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر عہدہ سنبھالنے کے بعد فیصلہ کریں گے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بیان میں پابندی کے حوالے سے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ متوقع تھا اور ہمیں اس کا احترام کرنا چاہیے، لیکن میں ٹک ٹاک کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرنے کے لیے وقت لوں گا۔ نجی نیوز چینل جیو نیوز کے مطابق  خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے حکام کے  حوالے سے بتایا کہ صدر جو بائیڈن کی جانب سے ٹک ٹاک پر پابندی کے قانون کا نفاذ نہیں کیا جائے گا۔حکام نے بتایا کہ ٹک ٹاک کے مستقبل کا فیصلہ 20 جنوری کو صدارت کا عہدہ سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ پر چھوڑ دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے 16 جنوری کو ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا تھا کہ ہم ٹک ٹاک کو تاریکی میں جانے سے روکنے کے لیے اقدامات کریں گے۔انہوں نے اشارہ دیا کہ اس قانون میں کمپنی کو مہلت دینے کی سہولت موجود ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹک ٹاک کی چینی ملکیت نے کئی سالوں سے امریکی سیاستدانوں میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ اس کے باوجود  ٹک ٹاک نے امریکہ میں مقبولیت کے کئی نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں، جہاں تقریباً نصف آبادی اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتی ہے۔ ایف بی آئی اور دیگر ادارے مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ بائٹ ڈانس کے چینی حکومت سے تعلقات امریکہ کی

چین میں ایمرجنسی کی افواہیں: حقیقت یا پروپیگنڈا؟

حالیہ دنوں میں چین میں وائرسز کے تیز پھیلاؤ سے متعلق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں نے دنیا بھر میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ سوشل میڈیا پر دعوے کیے جا رہے ہیں کہ چین نے ایمرجنسی کا اعلان کر دیا ہے، ہسپتال مریضوں سے بھر چکے ہیں، ادویات کی قلت ہو گئی ہے اور صورتحال دن بدن خراب ہو رہی ہے۔ تاہم چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن (سی ڈی سی ) اور دیگر عالمی اداروں نے ان دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ فیس بک سمیت مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر 2 جنوری 2025 کو ایسی تصاویر شیئر کی گئیں جن میں ہسپتالوں میں رش اور مریضوں کی حالت زار دکھائی گئی۔ پوسٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ چار اقسام کے وائرسزچین میں بہت تیزی سے پھیل رہے ہیں، جن میں انفلوئنزا اے، ہیومن میٹا نیومو وائرس  (ایچ ایم پی وی) ، مائیکوپلاسما نیومونیا اور کووڈ-19 شامل ہیں۔ ان وائرسسز نے  چین کے بڑے شہروں بیجنگ، شنگھائی اور گوانگژو کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ان وائرسز کے باعث چین میں ادویات کی قلت پیدا ہو گئی ہے اور مردہ خانوں میں بھیڑ لگ چکی ہے۔ مزید کہا گیا کہ عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) نے بھی وائرس کے تیز پھیلاؤ پر تشویش ظاہر کی ہے اور تمام ممالک کو اس نئی وبا کے خلاف تیاری کا مشورہ دیا ہے۔ چین کے سی ڈی سی نے 9 جنوری 2025 کو اپنی ہفتہ وار رپورٹ جاری کی، جس میں واضح کیا گیا کہ ملک میں وائرسز کی موجودگی معمول کی بات ہے اور یہ کسی نئی وبا کا اشارہ نہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ موسمی فلو، ایچ ایم پی وی اور مائیکوپلاسما نیومونیا کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، جبکہ کورونا وائرس کی شدت کم وبائی سطح پر موجود ہے۔ رپورٹ میں کسی بھی قسم کی ایمرجنسی کے اعلان یا خطرناک وبا کی موجودگی کی تردید کی گئی۔ چین کے حکام نے واضح کیا کہ سانس کے وائرسز کے پھیلاؤ پر مکمل کنٹرول ہے اور صورتحال معمول کے مطابق ہے۔ اگر وائرل تصاویر کی بات کی جائے تو فیس بک پر شیئر کی گئی تصاویر حقیقت میں 2022 اور 2023 کے دوران کووڈ-19 کی وبا کے عروج کی ہیں۔پہلی تصویر جس میں مریض آکسیجن سلنڈر کے ساتھ ہسپتال کی راہداری میں نظر آ رہے ہیں، وہ  4 جنوری 2023 کو روئٹرز کے ذریعے شائع کی گئی تھی۔ یہ تصویر شنگھائی کے ژونگشان ہسپتال کی ہے، جہاں کووڈ-19 کے کیسز میں اضافے کے دوران رش دیکھنے میں آیا تھا۔ دوسری تصویر جس میں ایک مریض اسٹریچر پر لیٹا ہوا ہے، اے ایف پی کے فوٹوگرافر نوئل سیلس نے دسمبر 2022 میں کھینچی تھی۔ یہ تصویر چانگ چن شہر کے ایک ہسپتال کی ہے، جہاں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے باعث مشکلات پیدا ہو رہی تھیں۔ یہ تصاویر خاص طور پر فلپائن کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گمراہ کن دعوؤں کے ساتھ شیئر کی گئیں۔ ایک فیس بک پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ چین میں وائرسز کے خطرناک پھیلاؤ کے باعث ہسپتالوں میں مریضوں کی بھرمار ہے اور ایک نئی وبا دنیا کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اس پوسٹ کے بعد کئی صارفین نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ ایک صارف نے لکھا کہ ہمیں چین کے شہریوں کو فلپائن آنے سے روک دینا چاہیے جب کہ دوسرے نے کہا کہ لاک ڈاؤن کا ایک نیا سیزن شروع ہونے والا ہے۔ فلپائن کے محکمہ صحت نے فوری طور پر ان افواہوں کی تردید کی۔ 3 جنوری کو فیس بک پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ نہ چین اور نہ ہی عالمی ادارہ صحت نے کسی قسم کی ایمرجنسی کی تصدیق کی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ تصاویر اور دعوے بے بنیاد ہیں اور عوام کو چاہیے کہ وہ مستند ذرائع سے معلومات حاصل کریں۔ یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ ایسی گمراہ کن معلومات سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی ہوں۔ دسمبر 2022 اور جنوری 2023 میں جب چین نے اپنی زیرو کووڈ پالیسی ختم کی تھی تو کووڈ-19 کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔ اس وقت ہسپتالوں میں رش اور مردہ خانوں کی صورتحال سنگین ہو گئی تھی۔ لیکن حالیہ دنوں میں پھیلائی جانے والی تصاویر اسی دور کی ہیں، جنہیں اب گمراہ کن دعوؤں کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے حالیہ رپورٹس میں واضح کیا ہے کہ چین میں وائرسز کا پھیلاؤ معمول کے مطابق ہے اور اس سے کسی نئی وبا کے خطرے کی نشاندہی نہیں ہوتی۔ موسمی فلو اور دیگر سانس کی بیماریاں موسم کی تبدیلی کے ساتھ دنیا کے مختلف حصوں میں عام ہیں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والی گمراہ کن معلومات پر فوری یقین نہ کریں۔ ایسی خبریں اکثر بغیر تحقیق کے شیئر کی جاتی ہیں اور عوام میں بلاوجہ خوف پیدا کرتی ہیں۔ مستند معلومات کے لیے حکومتی اداروں اور عالمی صحت کے اداروں پر اعتماد کریں۔ چین میں ایمرجنسی کے دعوے سراسر بے بنیاد ہیں اور ان کا مقصد صرف سنسنی پھیلانا ہے۔ پرانی تصاویر کا گمراہ کن استعمال اور غیر مصدقہ دعوے نہ صرف عوام میں الجھن پیدا کرتے ہیں بلکہ صحت کے شعبے میں غلط فہمیوں کو بھی جنم دیتے ہیں۔

‘وکٹوں کی برسات’، ملتان ٹیسٹ کا دوسرا روز اختتام پذیر

پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان جاری  2 ٹیسٹ میچز کی سیریز کے پہلے میچ کے دوسرے روزکے اختتام پرپاکستان نے اپنی دوسری اننگز میں 3 کھلاڑیوں کے نقصان پر 109 رنز بنا لیے ہیں۔ دوسرے روز کے اختتام پرقومی ٹیم کو مہمان ٹیم پر 202 رنز کی برتری حاصل ہے۔ ملتان میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا آغاز ایک تاریخی لمحہ ہے کیونکہ ویسٹ انڈیز کی ٹیم 19 سال بعد پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہی ہے۔ یہ سیریز آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ کا حصہ ہے، جس میں دونوں میچز ملتان میں شیڈول ہیں۔ اس موقع پر شائقین کرکٹ نے اپنی دلچسپی ظاہر کی اور دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے لیے بھرپور جوش و خروش پایا گیا۔ میچ کا پہلے دن پاکستانی بیٹرز کو خاصا آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹاس جیت کر قومی ٹیم کے کپتان شان مسعود نے بیٹنگ کا فیصلہ کیا، لیکن یہ فیصلہ ابتدائی طور پر ٹیم کے لیے اچھا ثابت نہ ہوا۔ پاکستان کی بیٹنگ لائن ایک مضبوط آغاز فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ نوجوان اوپنر محمد حریرہ جو اپنا ڈیبیوکررہے تھے صرف 6 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔ کپتان شان مسعود جن پر ٹیم کی قیادت کے ساتھ ساتھ اچھی اننگ کھیلنے کا دباؤ تھا وہ محض 11 رنز بنا سکے۔ کامران غلام محض  5 رنز بناکر پویلین لوٹ گئے۔ قومی ٹیم کے سب سے تجربہ کار بلے باز بابراعظم بھی کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے اور صرف 8 رنز پر آؤٹ ہو گئے۔وہ ابھی تک آؤٹ آف فارم ہیں۔ ابتدائی بلے بازوں کے جلد آؤٹ ہونے کے بعد سعود شکیل اور محمد رضوان نے اننگ کو سنبھالا۔ سعود شکیل نے شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے 84 رنز بنائے، جب کہ محمد رضوان نے بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے 71 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی۔ ان دونوں کھلاڑیوں نے ایک اہم شراکت قائم کر کے پاکستان کو مکمل تباہی سے بچایا۔ تاہم باقی بلے باز کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکے اور پاکستان کی پوری ٹیم پہلی اننگ میں 230 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ میچ کے پہلے روزویسٹ انڈیز کی باؤلنگ قابل تعریف رہی۔ جومل واریکن اور جیڈن سیلز نے پاکستانی بلے بازوں کو دباؤ میں رکھا۔ واریکن نے 4 وکٹیں حاصل کیں، جب کہ جیڈن سیلز نے 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ ویسٹ انڈیز کے دیگر باؤلرز نے بھی اچھے اسپیلز کرائے اور مجموعی طور پر پاکستانی بلے باز ان کے سامنے جدوجہد کرتے نظر آئے۔ ویسٹ انڈیز نے اپنی پہلی اننگز کے آغاز سے ہی لڑکھڑا گئی۔  مہمان ٹیم کے اوپنرز کریگ براتھویٹ اور کیویم ہوج پاکستانی اسپنرز کے سامنے بے بس دکھائی دیے۔ پاکستانی اسپنر ساجد خان نے ویسٹ انڈیز کی ابتدائی وکٹیں گرائیں، قومی بالر نے پہلے اوورز میں ہی حریف ٹیم کو مشکلات میں ڈال دیا۔ ساجد خان نے ابتدائی چار وکٹیں حاصل کرکے ویسٹ انڈیز کے ٹاپ آرڈر کومکمل طور پر بکھیر دیا۔ ساجد خان کے ساتھ ساتھ نعمان علی نے بھی شاندار باؤلنگ کی اور ویسٹ انڈیز کے بلے بازوں کو کھیلنے کا موقع نہیں دیا۔ نعمان علی نے 5 وکٹیں حاصل کیں اور ویسٹ انڈیز کی پوری ٹیم 137 رنز پر پویلین لوٹ گئی۔ جومل واریکن نے سب سے زیادہ 31 رنز بنائے، جب کہ دیگر بلے بازوں میں کوئی بھی قابل ذکر کارکردگی پیش نہ کر سکا۔ ویسٹ انڈیز کے مڈل آرڈر اور لوئر آرڈر دونوں نے پاکستانی اسپنرز کے سامنے جدوجہد کی۔ ابرار احمد نے بھی ایک وکٹ حاصل کی اور اپنی باؤلنگ میں نکھار دکھایا۔ پاکستان نے دوسری اننگز کا آغاز 93 رنز کی برتری کے ساتھ کیا۔ پہلی اننگ کی طرح  اس بار بھی اوپنرز زیادہ دیر کریز پر نہ ٹھہر سکے۔ محمد حریرہ نے 29 رنز بنائےاور وہ لمبی اننگ کھیلنے میں ناکام رہے۔ شان مسعود پہلی اننگ میں بھی زیادہ رنز نہ بنا سکے تھے اور اس بار بھی وہ  16 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے۔ مایہ ناز کھلاڑی بابراعظم جن سے شائقین کو بہت امیدیں تھیں، وہ دوسری اننگز میں بھی 5 رنز پر آؤٹ ہو گئے۔ دوسرے روز کے اختتام تک سعود شکیل اور کامران غلام کریز پر موجود تھے۔ سعود شکیل 2 اور کامران غلام 9 رنز پر ناٹ آؤٹ رہے جب کہ پاکستان نے 3 وکٹوں کے نقصان پر 109 رنز بنائے۔ ویسٹ انڈیز کے باؤلرز نے دوبارہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پاکستانی ٹاپ آرڈر کو جلد آؤٹ کیا۔ تاہم وہ قومی اسپنرز کی طرح اثرانداز نہ ہو سکے۔ دوسرے دن کے اختتام تک ویسٹ انڈیز کی ٹیم مزید وکٹیں لینے میں ناکام رہی۔ دوسرے دن کے اختتام پر پاکستان کو ویسٹ انڈیز پر 202 رنز کی واضح برتری حاصل تھی۔ پاکستانی اسپنرز کی عمدہ کارکردگی نے ٹیم کو ایک مضبوط پوزیشن میں پہنچا دیا۔ سعود شکیل اور کامران غلام پر انحصار ہو گا کہ وہ تیسرے دن زیادہ سے زیادہ رنز جوڑیں تاکہ حریف ٹیم کے لیے چیلنج مزید سخت ہو جائے۔ پاکستانی اسپنرز نے پورے دن کے کھیل پر اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ ساجد خان اور نعمان علی نے ایسی باؤلنگ کی کہ ویسٹ انڈیز کے بلے باز بے بس نظر آئے۔ نعمان علی کی باؤلنگ خاص طور پر متاثر کن رہی، اور وہ میچ کے بہترین باؤلر ثابت ہوئے۔ دوسری اننگز میں بھی پاکستان کی بیٹنگ کا آغاز مضبوط نہ رہا، لیکن سعود شکیل اور کامران غلام کی شراکت سے ٹیم نے دن کا اختتام مثبت انداز میں کیا۔ پاکستان کے پاس اب برتری بڑھانے کا موقع ہے، اور ان کی نظریں 300 سے زائد کا ہدف دینے پر ہوں گی۔ ویسٹ انڈیز کے بلے بازوں کو اگر اس میچ میں واپسی کرنی ہے تو انہیں پاکستانی اسپنرز کے خلاف ایک زبردست حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ملتان ٹیسٹ کے پہلے دو دن پاکستانی اسپنرز کی شاندار کارکردگی اور ویسٹ انڈیز کے بلے بازوں کی جدوجہد کے ساتھ یادگار رہے۔ پاکستان کی پوزیشن مضبوط ہے، اور وہ میچ جیتنے کے لیے پرعزم دکھائی دے رہا ہے۔

آرٹیفیشل انٹیلی جینس تیز رفتار لیکن چیلنجز کی بھر مار، اے آئی صنعت منافع بخش کیسے ہوسکتی ہے؟

انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کا مستقبل بے حد روشن اور ترقی پذیر ہے، خصوصاً مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے میدان میں جس نے دنیا بھر میں منافع بخش انڈسٹری کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ آئی ٹی ایک ایسی صنعت ہے جو کسی جغرافیائی حدود کی پابند نہیں، اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے ماہرین عالمی سطح پر اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں۔ اے آئی نہ صرف ڈیفنس، ہیلتھ کیئر، ایئرلائن بُکنگ سسٹمز اور تعلیمی شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں لا رہی ہے بلکہ روایتی ملازمتوں کے انداز کو بھی بدل رہی ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کا ڈیٹا مینجمنٹ ہو یا مسائل کا فوری حل، اے آئی ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ 2024 میں اس ٹیکنالوجی پر 98 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اس کی اہمیت اور تیزی سے بڑھتی ہوئی ترقی کا واضح ثبوت ہے۔ اگر آپ بھی جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں تو یہ وقت بہترین ہے کیونکہ اے آئی نہ صرف بے شمار فوائد فراہم کرتی ہے بلکہ مستقبل کی معیشت میں نمایاں مقام حاصل کرنے جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر تبت زلزلے کی وائرل ویڈیوز کی حقیقت سامنے آگئی

تبت کے علاقے میں آنے والے حالیہ زلزلے میں  تقریباً  126 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس زلزلے کے جھٹکے ہمسایہ ممالک نیپال اور بھارت کے بعض حصوں تک بھی پہنچے ہیں۔ سوشل میڈیا پر زلزلے کو لے کر کئی ویڈیوز زیرِگردش ہیں جن میں دیکھایا گیا ہے کہ کس طرح زلزلے نے تباہ کاریاں مچائی ہیں۔ 7 جنوری کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایک ڈرامائی ویڈیو وائرل ہوئی جو ایک مصروف چوک کو نقصان پہنچانے والے زلزلے کے حوالے سے آن لائن پھیلی اور تھائی ٹیلی ویژن رپورٹ میں بھی دکھائی گئی، اس ویڈیو کو تبت زلزلے کی قرار دیا گیا۔ واضح رہے کہ یہ ویڈیو حالیہ سانحے کی نہیں ہے بلکہ یہ ویڈیو اپریل 2015 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں آنے والے زلزلے کی ہے۔ 7 جنوری کو سوشل میڈیا  سائٹ فیس بک پر تھائی زبان میں ایک ویڈیو شیئر کی گئی، جس پر کیپشن لکھا ہوا تھا کہ تبت  زلزلے سے متاثرین کی تعداد 32 تک پہنچ چکی ہےجب کے 38 افراد زخمی ہیں۔ اس ایک منٹ کی ویڈیو میں دکھایا گیا کہ ایک مصروف چوک کے درمیان واقع عمارت زلزلے کے دوران گر رہی ہے۔ جیولوجیکل سروےکی رپورٹ کے مطابق  زلزلے کا مرکز 163 کلو میٹر  دور شہر شگاتسے تھا، جس کی آبادی تقریباً 80,000 ہے۔ مسلسل جھٹکوں کے امکان کے پیشِ نظرآبادی کی انخلا کی کارروائی جاری ہے۔ یہ پوسٹ 7 جنوری کو صبح کے وقت آنے والے ایک زلزلے کے بعد منظر عام پر آئی، جس میں کم از کم 126 افراد ہلاک اور 188 زخمی ہو گئے تھے۔ زلزلہ چین میں نیپال کی سرحد کے قریب ایورسٹ پہاڑ سے تقریباً 80 کلومیٹر (50 میل) شمال میں واقع ٹنگری ضلع کے دیہی اور بلند مقام پر آیا تھا۔ چائنہ زلزلہ  نیٹ ورکس سینٹرسی ای این سی نے اس زلزلے کی شدت 6.8 ریکارڈ کی، جب کےامریکی جیولوجیکل سروے نے اس کی شدت 7.1 بتائی۔ جھٹکے ہمسایہ ممالک نیپال اور بھارت میں بھی محسوس ہوئے، تاہم وہاں کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ تھائی نیوز چینل ون نیوز نے اس ویڈیو کو اپنے رپورٹ میں شامل کیا ہے۔ اسی طرح کی پوسٹس جس میں ویڈیو کا جھوٹا دعویٰ کیا گیا تھا وہ بھی حالیہ زلزلے کے نام پر انگریزی، ہندی، تامل اور ہسپانوی  زبانوں میں شیئر کی گئی ہیں۔ فیکٹ چیک ایجنسی فرانس پریس  اے ایف پی نے جب ویڈیو کے اہم فریموں کی سرچ کے لیے ریورس امیج کا استعمال کیا تو اسے برطانوی اخبار دی گارڈین میں 30 اپریل 2015 کو شائع پایا۔اس ویڈیو کا عنوان تھا کہ نیپال کے زلزلے نے ایک عمارت کو مصروف چوک پر گرا دیا۔ ویڈیو کے کیپشن میں لکھا ہوا تھا کہ یہ ویڈیو دارالحکومت کھٹمنڈو کے تریپورشور ضلع میں بنائی گئی ہے۔اس کے ساتھ ہی نیچے جھوٹی پوسٹ (بائیں) اور دی گارڈین کی شیئر کردہ ویڈیو (دائیں) کا اسکرین شاٹ موازنہ کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو کے اوپر دائیں کونے میں 25-04-2015  کا ٹائم اسٹیمپ بھی موجودہے۔ یاد رہے کہ 2015میں نیپال زلزلے کی شدت  7.8 تھی، اس زلزلے  میں تقریباً 9,000 افراد ہلاک اور 22,000 سے زائد زخمی ہوئے، جب کہ آٹھ لاکھ سے زائد گھر تباہ ہو گئے۔اگر اسکولوں کی بات کی جائے تو اس زلزلے نے قریباً 8,000 اسکولوں کو نقصان پہنچایا، جس کے باعث تقریباً ایک ملین بچے کلاس رومز سے محروم ہو گئے۔ اس کے علاوہ سینکڑوں یادگاریں اور شاہی محل  جن میں کٹھمنڈو وادی کی یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹس بھی شامل ہے تباہ ہوکررہ گئے۔ یہ قابلِ دید مقامات دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے تھے،  جس کی وجہ سے سیاحت کو  شدید نقصان پہنچا۔ فیکٹ چیک ایجنسی فرانس پریس اے ایف پی نے ویڈیو کی لوکیشن کی تصدیق گوگل میپس پر جیو ٹیگ کی گئی کاٹھمنڈو کے چوک کی تصویر کے ساتھ ایک اہم فریم کا موازنہ کر کے دیکھائی۔نیچے جھوٹ کی بنا پر شیئر کی گئی ویڈیو (بائیں) اور گوگل میپس پر جیو ٹیگ کی گئی تصویر (دائیں) کا اسکرین شاٹ موازنہ کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ غیر ملکی چینل  یورونیو ز نے بھی یہی ویڈیو 30 اپریل 2015 کو اپنے یوٹیوب چینل پر شیئر کی تھی۔ تبت  زلزلے کے بعد سوشل میڈیا پر غلط طریقے سے پیش کی گئی تصاویر کا سیلاب دیکھنے کو ملا جس کی وجہ سے یقین تک کرنا مشکل ہوگیا تھا کہ اصل میں ہوا کیا ہے، مگر اے ایف پی فیکٹ چیک ایجنسی فرانس پریس نے تمام تر جھوٹی خبروں اور ویڈیوز کو بے نقاب کیا۔

پاکستانی کوہ پیما اسد علی میمن نے انٹارکٹیکا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ونسن سر کرلی

پاکستان کے بلند پرواز کوہ پیما اسد علی میمن نے تاریخ رقم کر دی ہے۔ 7 براعظموں کی بلند ترین چوٹیوں کی تسخیر کے مشن میں اسد نے انٹارکٹیکا کی سرد ترین اور بلند ترین چوٹی ‘ماؤنٹ ونسن’ سر کر لی ہے۔ اس کامیاب مہم کے ساتھ اسد علی میمن نے چھٹی چوٹی کو اپنے قدموں تلے جیتا ہے اور اب صرف ایک آخری چوٹی، پنچاک جایا کو سر کرنا باقی ہے۔ انٹارکٹیکا کا سب سے بلند پہاڑ ماؤنٹ ونسن سطح سمندر سے 4,892 میٹر (16,050 فٹ) بلند ہے۔ ماؤنٹ ونسن سیون سمٹس کے حالیہ دریافت شدہ اور تسخیر شدہ پہاڑوں میں شامل ہے۔ یہ پہاڑ ایلس ورتھ ماؤنٹینز کی سینٹینل رینج کا حصہ ہے جو رونے آئس شیلف کے قریب واقع ہے۔ ایلس ورتھ ماؤنٹینز کو پہلی بار 1935 میں امریکی ہوا باز لنکن ایلس ورتھ نے فضائی طور پر دیکھا تھا لیکن ان پہاڑوں کی تسخیر کا عمل 1960 کی دہائی میں شروع ہوا۔ 1966 اور 1967 میں امریکی انٹارکٹک ماؤنٹینیرنگ ایکسپڈیشن کے گروہ کی قیادت نکولس کلنچ نے کی جس نے ماؤنٹ ونسن کی چوٹی کو پہلی بار سر کیا۔ اسد علی  نے اپنی کامیابی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی  شیئر کی جس میں ان کا جذباتی انداز اور خوشی کا اظہار قابل دید تھا۔ اسد نے کہا کہ “یہ لمحہ میرے لیے ایک خواب کی تکمیل ہےاور میں اللہ کا شکر گزار ہوں کہ میں اس مشکل اور پیچیدہ سفر کو کامیابی کے ساتھ مکمل کر سکا۔” اس کامیاب چڑھائی کے بعد اسد نے انٹارکٹیکا میں اپنے کوہ پیمائی کے تجربات کو شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ ماؤنٹ ونسن کے سفر میں ہر پل انتہائی سخت تھا۔ انٹارکٹیکا کی برفانی ہوائیں اور نہ ختم ہونے والی برف نے ان کی جسمانی اور ذہنی طاقت کو آزمایا لیکن اس کے باوجود اسد نے خود پر یقین رکھتے ہوئے اس چوٹی کو سر کیا۔ اسد علی میمن کا کہنا تھا کہ” جب آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ آپ جس راستے پر ہیں وہ آپ کی زندگی کے سب سے بڑی چیلنجز میں سے ایک ہے تب آپ کی محنت اور عزم ہی آپ کو منزل تک پہنچاتے ہیں”۔ اس مہم کی ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسد علی میمن نے اس وقت ماؤنٹ ونسن کو سر کیا جب انٹارکٹیکا میں برفانی طوفان اور انتہائی سرد موسم نے کئی دنوں تک تمام پروازیں اور کوہ پیمائی کے اقدامات روک دیے تھے۔ کئی کوہ پیماؤں کے لیے یہ سفر اس قدر خطرناک تھا کہ انہوں نے اسے ترک کر دیا مگر اسد علی میمن کا جذبہ اور حوصلہ اسے کامیاب بنانے میں کامیاب رہے۔ اس سے قبل، اسد علی میمن نے افریقہ کے کیل منجارو، یورپ کے مون بلیان، ایشیا کے ایورسٹ اور دیگر براعظموں کی بلند چوٹیوں کو بھی سر کیا ہے۔ اس مہم کے دوران اسد علی میمن کی عظمت اور عزم نے انہیں عالمی سطح پر ایک نمایاں شخصیت بنا دیا ہے۔ واضع رہے کہ رواں ہفتے پاکستانی کوہ پیما ثمر خان نے جنوبی امریکہ میں ایک اور بلند چوٹی سر کرنے کا شاندار کارنامہ انجام دیا تھا ۔ انہوں نے ارجنٹینا میں واقع 6,961 میٹر بلند ماؤنٹ اکونکاگوا کی چوٹی کو کامیابی سے سر کیا۔ ثمر خان نے کہا کہ شدید سرد موسم اور تیز ہواؤں میں چوٹی سر کرنا ایک بڑا چیلنج تھا، لیکن خدا کا شکر ہے کہ مشکل حالات کے باوجود وہ اس مقصد میں کامیاب رہیں۔

جامعہ نعیمیہ نے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کے خلاف فتویٰ دے دیا

جامعہ نعیمیہ کے ڈاکٹر مفتی راغب حسین نعیمی اور مفتی عمران حنفی نے اپنے فتویٰ میں یہ کہا ہے کہ ڈنکی کے ذریعے بیرون ملک جانا نہ تو قانونی طور پر درست ہے اور نہ ہی شرعی طور پر جائز ہے۔ فتویٰ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ شریعت محمدی ﷺ میں خودکشی کرنا اور اس کے باعث بننے والے تمام افعال حرام ہیں خود کو موت کے دہانے پر پہنچانا یا ایسا عمل کرنا جو موت کا سبب بنے، قطعی طور پر جائز نہیں ہے۔ فتویٰ میں  مزید کہا گیا کہ بیرون ملک جانے والے افراد کو قانونی طریقے اور محفوظ راستے اپنانے چاہئیں اور ایجنٹ حضرات کے لیے غیر قانونی کام کے عوض پیسے لینا جائز نہیں ہےاس کے علاوہ  حکومت کو انسانی جانوں کے دشمن ایجنٹوں کے بارے میں سخت قانون سازی کرنی چاہیے۔ دوسری جانب پاکستان کے شمالی پنجاب کے لوگوں کیلئے یورپ جنت ہے۔ یہاں سے گھروں میں صرف عورتیں ملتی ہیں مرد سارے سمندرپار رہتے ہیں،ایک گاؤں تو ایسا ہے جس کے بچے بچپن سے ہی باہر منتقل ہونے کے خواب آنکھوں میں سجالیتے ہیں۔زیادہ لوگ غیر قانونی طریقوں سے باہر جاتے ہیں،کئی تو اس کوشش میں سمندری مخلوق کی خوراک بن جاتے ہیں۔ بی بی سی اردو کے مطابق ہر سال 80 ہزار سے ایک لاکھ پاکستانی بہترمعاشی مواقع کے لئے غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔  یہ سفر خطرات اور جان لیوا حالات سے بھرا ہوتا ہےجس میں بے رحم اسمگلران افراد کا استحصال کرتے ہیں۔ان افراد کو غیر قانونی تارکینِ وطن بھی کہا جاتا ہے۔ لفظ ‘ڈنکی’  جو انسانی اسمگلنگ سے متعلق استعمال ہوتا ہے ایک پنجابی محاورے سے لیا گیا  ہے جس کا مطلب ہے غیر قانونی طور پر کسی جگہ جانا  جیسے کہ ایک گدھے کی طرح چھلانگ لگانا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سیف اللہ ،  جواٹلی جانے کے لیے غیر قانونی طور پر کشتی کے حادثے میں ہلاک ہو گیاتھا،  کی والدہ بتاتی ہیں کہ سیف اللہ ایک محنت کش تھا اور گھر کی مالی حالت بہتر کرنے کے لیے ملک سے باہر جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ وہ اپنی بہنوں کی شادی اور گھر کی حالت بہتر بنانے کی امیدیں لگا کر روانہ ہوا تھا۔  اپنے سفر کے دوران اس نے کئی مشکلات برداشت کیں جیسے پیدل چلنا اور کم کھانا پینا اورآخرکار اس کی زندگی کا یہ سفر آخری سفر ثابت ہوا ۔ اس کی والدہ کہتی ہیں کہ اب وہ اس خطرناک سفر کی حمایت نہیں کرتیں اور دوسروں کو ایسی کوششوں سے روکنے کی نصیحت کرتی ہیں۔ اسی طرح مدثر علی نامی شخص بھی اپنے غیر قانونی سفر کی کہانی سناتے ہیں جس میں انھیں جسمانی تشدد، دھوکہ دہی اور خطرناک  حالات کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے کئی مرتبہ اس راستے کو اختیار کیا لیکن ایک مرتبہ واپس آ کر انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دوبارہ کبھی ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ مدثر علی  دوسرے لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کہ ایجنٹس کی طرف سے دکھائے گئے سبز باغ حقیقت سے بہت مختلف ہیں۔ یہ دونوں داستانیں غیر قانونی ہجرت کے خطرات اور اس کے باعث خاندانوں کی زندگیوں پر پڑنے والے گہرے اثرات کو اجاگر کرتی ہیں۔ فروری 2024 میں ایک جہاز جو ترکی سے لیبیا کے راستے اٹلی جاتے ہوئے غرق ہو گیا تھا جس میں پاکستانی مسافر بھی سوار تھے۔پولیس کے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ انہوں نے اس راستے پر سفر کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد کو جہاز کے غرق ہونے تک کیوں نہیں سمجھا۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ کئی مسافر جائز دستاویزات اور ویزوں کے ساتھ دبئی یا مصر کے لیے پرواز کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان غیر قانونی ہجرت کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے اور اس سلسلے میں گزشتہ سال 19,000 افراد کو بیرون ملک جانے سے روکا گیا ۔ ڈنکی لگانے کی مختلف مذہبی، سیاسی، اور اقتصادی وجوہات ہو سکتی ہیں جن کا تعلق مختلف معاشرتی اور ثقافتی پس منظر سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں بعض فرقوں میں مذہبی رہنماؤں کی ہدایات کے تحت  ڈنکی لگانے کو روحانی ترقی یا عقیدے کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔مثلاًمیانمارحکومت کے مظالم سے تنگ ہزاروں افراد ڈنکی لگاکر بنگلہ دیش پہنچے تھے ،ان میں متعدد راستے میں ہی ڈوب کر جاں بحق ہوگئے تھے۔ کبھی کبھاراپنے ملک میں  کام کے حالات یا بیرون ملک معاشی فائدے کی بنیاد پربھی افراد ڈنکی لگا کر ملک سے باہر جاتے ہیں۔بعض ثقافتوں یا علاقوں میں مزدوروں یا کام کرنے والوں کو جسم پر نشان لگانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ کام کی جگہ تک پہنچ سکیں اور انہیں مخصوص حقوق یا مراعات دی جا سکیں۔ اس کے علاوہ کچھ مقامات پر مخصوص نشان یا علامات معاشی یا تجارتی شناخت کے طور پر استعمال ہوتی ہیں جو کسی خاص کاروبار یا صنعت کے افراد کے درمیان تعلقات اور شناخت کا ذریعہ بنتی ہیں۔ معاشی، قانونی، سماجی، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے معاملات بھی ڈنکی کا باعث بنتے ہیں۔ حقیقت میں یہ غیر قانونی کام مقامی معیشت پر دباؤ ڈالتا ہے، قانونی مسائل پیدا کرتا ہے اور اس سے افراد کو استحصال کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے حل کے لیے قانونی ہجرت کے راستوں کی فراہمی سرحدوں کی بہتر نگرانی، تعلیمی پروگرامز، بین الاقوامی تعاون اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت قوانین کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات سے غیر قانونی ہجرت کو کم کرنے اور عالمی امن و استحکام کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ دونوں رپورٹیں اور فتویٰ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ غیر قانونی ہجرت کے خطرات اور اس کے سماجی و اقتصادی اثرات سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر قوانین اور نگرانی کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ غیر قانونی ہجرت کو روکنے کے لئے حکومتوں کو سخت قانون سازی کرنی چاہیے اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف عالمی تعاون ضروری ہے تاکہ انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے۔