50 ہزار اقلیتی خاندانوں کے لیے حکومت پنجاب کی طرف سے منیارٹی کارڈ مختص

پنجاب میں اقیلتوں کے تحفظ کے لیے منیارٹی کارڈ کی لانچنگ کے لیے تقریب منعقد کی گئی، جس میں اقلیتی سکھ، ہندو، عیسائی اور دوسرے مذاہب کی برادری کے 50 ہزار خاندانوں کے لیے ہر 3 ماہ 10 ہزار روپے دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے پاکستان میں اقلیتی برادری کے حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے مالی امداد کے لیے منیارٹی کارڈ پچاس ہزار مستحق خاندانوں میں تقسیم کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے شرکاء سے خطاب کیا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے منیارٹی کارڈ لانچنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقلیتی برادری کی حفاظت اور زندگیوں میں بہتری لانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اقلیتی برادری کی حفاظت کا فرض پوری ذمہ داری سے نبھارہی ہوں۔ ان کے جان و مال کو خطرے میں ڈالنے والوں کا راستہ پوری قوت سے روکیں گے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اقلیتی برادری کو پکے پاکستانی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کی پہچان یہ نہیں کہ آپ غیر مسلم ہیں بلکہ آپ کی پہچان سچے اور پکے پاکستانی کی ہے۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اقلیتوں کا بھی مساوی کردار ہے۔ اقلیتوں کے لئے کوئی بھی خطرناک صورتحال ہو تو خود نگرانی کرتی ہوں۔ انھوں نے کہا کہ پہلے دن ہی کہا کہ مینارٹی ہمارے لیے سرکا تاج ہیں۔ اقلیتی بہن، بھائی، بزرگوں اور بچوں کو احساس ہو کہ وہ بھی پاکستانی اور پنجابی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اقلیتوں کو دوسرے پاکستانیوں کے برابر قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سیاسی بیان نہیں بلکہ سب کو احساس ہو جائے کہ مینارٹی بھی وطن عزیزکا اتنا ہی حصہ ہیں جتنا دوسرے پاکستانیوں کا ہے۔پاکستان میں اقلیتی نام رکھ دیا گیا ہے جسے میں اتفاق نہیں کرتی۔ وزیر اعلیٰ نے پاکستان میں رہنے والے ہر ایک فرد کو ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتیوں کی مانند قرار دیتے ہوئے کہا کہ سب مذاہب ایک مضبوط لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم بھی سفید رنگ کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ تقریب میں ہندو، عیسائی سکھ اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی موجود ہیں۔ حقدار کو حق ملنے پر خوشی ہو گی۔ وزیر اعلیٰ نے خطاب میں نبی کریم ؐ کی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا جو شخص کسی غیر مسلم پر ظلم کرے گا، حق چھینے گا، طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالے گا یا اس کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر لے گا تو قیامت کے دن میں اس کے خلاف گواہ بنوں گا۔ اقلیتوں کے بارے میں نبی کریم ؐ کی یہ حدیث اسلام کے اقلیتوں کے بارے میں رویے کا درس ہے۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اپنے والد نواز شریف کی اقلیتوں کے لیے نصحیت بتاتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کے بارے میں میرے والد محمد نواز شریف نے ہمیشہ اقلیت کہنے سے منع کیا۔ اقلیتی تعداد میں تو کم ہونگے مگر پاکستانیت اور انسانیت میں سے کسی سے کم نہیں۔ مریم نواز نے اقلیتوں کے لیے بجٹ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت نے اقلیتی امور کے ڈیپارٹمنٹ کے بجٹ کو بڑھایا ہے۔ مینارٹی کارڈ سے 50ہزار گھرانوں کو ساڑھے 10ہزار روپے ہر 3 ماہ ملے گے۔ ساڑھے 10ہزار رقم کوئی زیادہ نہیں، آئندہ چند سالوں میں اس رقم کو بڑھائیں گے۔ 50 ہزار گھرانوں کو 75ہزار گھرانوں تک لیکر جائیں گے۔ اقلیتی برادری کے لئے سالانہ ترقیاتی بجٹ میں 60فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ اقلیتی برادری کے عبادت گاہوں کو سجائیں گے۔ اقلیتی برادری کے محلوں اور مذہبی مقامات کو بھی ترقی دے رہے ہیں۔ مسیحی برادری کے لئے قبرستان چند ماہ میں تیار ہوجائے گا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے اقلیتوں کے لیے اس اقدام کا اقلیتی برادری کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا اور پنجاب حکومت کی طرف سے مزید اقلیتی برادری کے لیے اقدامات کرنے کی یقین دہائی کرائی گئی۔ واضح رہے کہ 25 دسمبر 2024 کو مریم نواز مریم آباد ( لاہور) کرسمس منانے کے لیے عیسائی برادری سے یکجیتی کرنے کے لیے گئی تھی اور وہاں پر انھوں نے تقریب میں کیک کاٹا تھا۔ اس تقریب میں مریم نواز نے منیارٹی کارڈ کی یقین دہائی کرائی تھی جسے لاؤنچ کرنے کے لیے تقریب منعقد کی گی۔
” ایلون مسک عوامی معافی مانگیں” اسٹارلنک کو لائسنس جاری کرنے کی مشروط تجویز

سینیٹر پلوشہ خان کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا اجلاس بدھ کومنعقد ہوا، اجلاس میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ سروسز کے لیے لائسنسنگ کے عمل پر بحث کی گئی، اجلاس کے دوران سینیٹر پلوشہ خان نے سٹار لنک کے مالک ایلون مسک کی حالیہ سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں انڈیا کی شیو سینا (یو بی ٹی) پارٹی سے منسلک راجیہ سبھا کی رکن پرینکا چترویدی نے ایکس ( سابقہ ٹویٹر) پر دعویٰ کیا کہ برطانیہ میں گینگ تیار کرنے کا الزام پورے ایشیا پر نہیں لگایا جانا چاہیے، بلکہ ایک بدمعاش قوم پاکستان پر ڈالنا چاہیے، جس کے جواب میں اسپیس ایکس اور ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک نے ایکس پر سچ لکھ کر راجیہ سبھا کی رکن کی حمایت کی۔ اجلاس میں اسٹارلنک کے مالک ایلون مسک کے بیانیے کو مد نظر رکھتے ہوئے گفتگو کی گئی، جس میں سینیٹر افنان اللہ خان نے تجویز پیش کی کہ اسٹار لنک کو لائسنس صرف اسی صورت میں دیا جانا چاہیے جب ایلون مسک اپنے ریمارکس پر پاکستانی عوام سے معافی نہ مانگ لیں۔ واضح رہے کہ ایلون مسک کی کمپنی اسٹارلنک نے فروری 2022 کو لائسنس کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) کو درخواست جمع کرائی تھی۔ خبر ارساں ادارہ انڈپینڈنٹ اردو کے مطابق اسٹار لنک کی پاکستان میں موجودگی حالیہ نہیں بلکہ اس کی بنیاد 2021 میں عمران خان کے دور حکومت میں رکھی گئی تھی۔ ایس ای سی پی کی ویب سائٹ کے مطابق اسٹار لنک انٹرنیٹ سروسز پاکستان کے نام سے یہ کمپنی جون 2021 میں رجسٹر ہوئی اور اس کا رجسٹریشن نمبر 0176324 ہے۔ ایلون مسک کی یہ کمپنی ٹیکس کے حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریوینو (ایف بی آر) کے پاس 17 فروری 2022 کو رجسٹر ہوئی اور اس کمپنی نے خود کو سیلز ٹیکس کے لیے 23 فروری 2022 کو رجسٹر کروایا۔ ایف بی آر میں یہ کمپنی اس وقت ایکٹو فائلنگ اسٹیٹس کے ساتھ موجود ہے اور اس کا رجسٹریشن نمبر 4491086 ہے۔ کمپنی کی پاکستان میں رجسٹریشن کے چند ہفتوں کے بعد چیئرمین پی ٹی اے کی دو مارچ 2022 کو بارسلونا میں اسٹارلنک کے نائب صدر (کمرشل) اور اسٹار لنک پاکستان کے سی ای او سے ملاقات ہوئی، جس میں اسٹار لنک کی پاکستان میں براڈ بینڈ سروس کی درخواست کے ریگولیٹری، تکنیکی اور کمرشل پہلوؤں پر تبادلہ خیال ہوا تھا۔ نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق اجلاس کے دوران پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے چیئرمین میجر جنرل (ریٹائرڈ) حفیظ الرحمٰن نے بتایا کہ 24 فروری 2022 کو اسٹار لنک نے رجسٹریشن کے لیے درخواست جمع کرائی تھی۔ انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ سیکورٹی کلیئرنس کے لیے وزارت داخلہ کو بھیجا گیا ہے۔ یہ کیس اس وقت نئی قائم کردہ پاکستان اتھارٹی فار اسپیس اینڈ ریگولیٹری باڈیز کے زیر جائزہ ہے، جو لائسنس کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرے گی۔ اجلاس کے دوران سینیٹر پلوشہ خان نے اسٹار لنک کے مالک ایلون مسک کی حالیہ سوشل میڈیا سرگرمیوں کی روشنی میں ان کے اقدامات پر تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے ایلون مسک پر پاکستان مخالف بیانیہ کے ساتھ ہم آہنگی کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے مبینہ پاکستان مخالف بیانیے پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ سیکورٹی کلیئرنس کے لیے وزارت داخلہ کو بھیجا گیا تھا۔ یہ کیس اس وقت نئی قائم کردہ پاکستان اتھارٹی فار اسپیس اینڈ ریگولی سینیٹر نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ایلون مسک نے پاکستان کے خلاف جھوٹے الزامات لگانے کے لیے بھارت کے ساتھ شراکت داری کی ہے۔ جواب میں سینیٹر لیگی افنان اللہ خان نے تجویز پیش کی کہ اسٹار لنک کو لائسنس صرف اسی صورت میں دیا جانا چاہیے، جب مسک اپنے ریمارکس پر عوامی معافی مانگے۔ سینیٹر افنان اللہ نے دلیل دی کہ پی ٹی اے کو لائسنس جاری کرنے سے پہلے مسک کی پاکستان کے خلاف مہم پر غور کرنا چاہیے۔ اسے مزید اقدامات کرنے سے پہلے اپنے بیانات پر معافی مانگنی چاہیے۔
“9 بلین ڈالر مالیت کے سونے کی پروسیسنگ پاکستان میں ہوگی یا باہر؟” ریکوڈک منصوبے میں اہم پیش رفت

سعودی عرب کی سرمایہ کاری مائننگ فنڈ پاکستان کے ریکوڈک پراجیکٹ میں حصص خریدنے کے لیے مکمل تیار ہےاور پاکستان کے 9 بلین ڈالر مالیت کے ریکوڈک منصوبے میں سعودی عرب 10 سے 20 فیصد حصص خریدے گا۔ سعودی نیوز چینل شفق نیوز کے مطابق منارا منزلز کمپنی پاکستان کے ریکوڈک پروجیکٹ میں حصص خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے۔مائننگ فنڈ کمپنی کا ایک اہم شیئر ہولڈر پاکستانی حکومت سے حصص خریدے گا، جو کہ کان کا 25 فیصد حصہ رکھتی ہے، جس کی مالیت لگائے گئے تخمینے کے مطابق 500ملین ڈالر سے 1 بلین ڈالر تک ہے۔ اس معاہدے میں مستقبل میں پروڈکشن آف ٹیک کا معاہدہ بھی شامل ہوگا۔ واضح رہے کہ ریکوڈک پروجیکٹ کینیڈا کی بیرک گولڈ کارپوریشن کی طرف سے تیار کیا جا رہا ہے۔ ایک بار مکمل ہونے کے بعدیہ دنیا کی سب سے بڑی تانبے اور سونے کی کانوں میں سے ایک بن جائے گی، جس کی تخمینی ترقیاتی لاگت 9 بلین امریکی ڈالرہے۔ بیرک کے مطابق توقع کی جارہی ہے کہ افغان اور ایرانی سرحدوں کے قریب مغربی بلوچستان میں واقع اس کان سے دو فیز پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد سالانہ 400,000 ٹن تانبا اور 500,000 اونس سونا پیدا ہوگا۔ دوسری جانب دسمبر 2024 میں پاکستانی حکومت نے اس کان کے 15 فیصد حصص سعودی عرب کو 540 ملین ڈالر میں فروخت کرنے کی منظوری دی تھی۔ پاکستان کا سعودی عرب کے ساتھ بیرک گولڈ کارپوریشن کے زیر کنٹرول تانبے اور سونے کی کان کنی کے پراجیکٹ میں حصص کی فروخت کا معاہدہ ابھی مہینوں دور ہے۔ خیال رہے کہ سعودی حکومت نے پہلے ہی ریکوڈک پراجیکٹ میں پاکستانی حکومت کے اقلیتی حصص کو منارا منرلز انویسٹمنٹ کمپنی کے ذریعے خریدنے کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا، جو کہ خودمختار دولت فنڈ کی حمایت یافتہ سعودی فرم ہے، جس کی مالیت کم از کم 1 بلین ڈالر ہے۔دوسری جانب ریاض میں ایک انٹرویو میں وزیرِ پیٹرولیم مصدق ملک کا کہنا تھا کہ بڑے بڑےنامور ادارے ان معدنیات کو حاصل کرنا چاہیں گے اور پھر انہیں پروسیسنگ کے لیے کہیں اور منتقل کرنا چاہیں گے، جب کہ بعض لوگ پراسیسنگ پاکستان میں کرنا چاہیں گے، جس کی وجہ سے پراجیکٹ میں تھوڑا بہت تناؤ موجود ہے۔ واضح رہے کہ ریکوڈک پراجیکٹ افغانستان اور ایران کی سرحد سے متصل بلوچستان کے علاقے میں 2028 میں پیداوار شروع کرنے کا ہدف ہے، جس میں بیرک منصوبے کا 50 فیصد مالک ہے، جب کہ بقیہ ملکیت پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ہے۔ ایک سابقہ انٹرویو میں سی ای او مارک برسٹو کا کہنا تھا کہ دنیا کے دوسرے سب سے بڑے گولڈ پروڈیوسر نے کہا کہ وہ سعودیوں کے ساتھ پاکستانی حکومت کے کسی بھی فیصلے کی حمایت کرے گا، جبکہ بیرک اس منصوبے میں اپنی ایکویٹی کو کمزور نہیں کرے گا۔قرض دہندگان مارک برسٹو کا کہنا تھا کہ کان کے ابتدائی مرحلے پر 4.5 بلین ڈالر لاگت آئے گی اور اس کے لیے 1.5 بلین ڈالر بیرک کی طرف سے فراہم کیے جائیں گے، جو کہ پاکستان سے اتنی ہی لیکن قدرے کم رقم ہے۔ اس کے علاوہ بقیہ قرضوں کے کنسورشیم سے ملے گا جس میں ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر مغربی ممالک شامل ہوں گے۔ دوسری جانب سعودی عرب کے وزیر صنعت و معدنیات بندر الخورائف نے تصدیق کی کہ منارا گزشتہ منگل کو فنانشل ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں ریکوڈک معاہدے پر غور کر رہی ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اس سے مملکت کی دھاتوں کی مانگ کو پورا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ سماجی رابطے کی سائٹ ایکس ( سابقہ ٹوئٹر) پر صارفین کی جانب سے اس منصوبے پر ملا جلا رجحان رہا، کسی نے منصوبے کو سراہا تو کسی نے اسے تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ایک صارف نے لکھا کہ ا س اہم سرمایہ کاری سے ممکنہ طور پر بیرون ملک پاکستان کی معیشت اور کان کنی کے شعبے کو بہت فروغ ملے گا۔ اس کے ساتھ ایک اور صارف نے لکھا کہ یہ سعودی عرب کی طرف سے ایک بڑا اقدام ہے، امید کرتے ہیں یہ ہمارے لیے کچھ اچھے احساسات لائے گا۔ دوسری جانب ایک صارف نے لکھا کہ حکومت کو اس میں پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کرنے کی ضرورت ہے، معدنیات کو پاکستان میں ہمارے نجی شعبے کے ذریعہ پروسیس کیا جانا چاہیے، اگر ہمارے پاس ٹیکنالوجی کی کمی ہے تو شاید غیر ملکی شراکت داروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے مقامی طور پر اور برآمد کے بجائے ویلیو ایڈیشن کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ایک اور صارف نے تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان میں ریفائننگ قائم کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے اور یہی معاہدہ کیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان کی معیشیت پر کیا اثر پڑتا ہے اور کیا اس منصوبے سے غریب عوام کا کچھ فائدہ ہوگا یا ملکی سطح پر بھی اس کے مفاد اٹھائے جائیں گے،خیر یہ تو اب وقت ہی بتائے گا کہ کیا ہوتا ہے۔
“جہاں کی سٹرکیں استعمال ہوتی ہیں ٹوکن ٹیکس بھی وہیں جمع ہونا چاہیے” پنجاب میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لیے نیا قانون نافذ

پنجاب حکومت نے گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لیے نیا قانون نافذ کردیا، دوسرے صوبوں کی رجسٹرڈ گاڑیوں کو پنجاب میں چلانے کے لیے 120 دنوں کے اندر رجسٹرڈ کروانا لازمی قرار دے دیا گیا، رجسٹریشن نہ کروانے کی صورت میں گاڑی کو بند کر دیا جائے گا۔ پنجاب حکومت کی طرف سے گاڑیوں کی نمبر پلیٹ کی رجسٹریشن کے لیے قانون نافذ کر دیا گیا ہے کہ کسی دوسرے صوبہ کی رجسٹرڈ گاڑی پنجاب میں نہیں چل سکے گی۔ اگر گاڑی کی رجسٹریشن کراچی،السلام آباد پشاوراور کوئٹہ کی ہے تو پنجاب میں ان رجسٹرڈ گاڑیوں کو 120 دنوں سے زیادہ نہیں چلا سکتے۔ پنجاب میں ان گاڑیوں کو چلانے کے لیے 120 دن کے اندر اندر پنجاب حکومت سے رجسٹریشن کرانا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ پنجاب کے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے مطابق لوگوں میں گاڑیوں کی رجسٹریشن وفاقی درالحکومت اسلام آباد میں کرانے کا زیادہ رحجان بڑھ گیا ہے، جس کی وجہ سے پنجاب کے خزانے کو ہر سال اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کی شرح پاکستان میں مجموعی گاڑیوں کی رجسٹریشن کی نسبت سب سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے سب زیادہ نقصان پنجاب حکومت کو اٹھانا پڑھ رہا ہے۔ پنجاب کے شہری گاڑیوں کی رجسٹریشن میں وفاق کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، جس سے گاڑیوں کی خریدوفروخت میں وفاق کی رجسٹریشن والی گاڑیوں کا دوسرے صوبوں کی نسبت 50 ہزار سے ایک لاکھ کا فرق پڑھ جاتا ہے۔ پنجاب حکومت کے اس فیصلے کا سب سے بڑا مقصد ریونیو کی وصولی اور مارکیٹ میں توازن پیدا کرنا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل( ڈی جی) ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب عمر شیر چٹھہ نے کہا کہ اس فیصلے سے لوگ اس فکر سے آزاد ہو جائیں گے کہ نمبر کہاں کا لگا ہوا ہے؟ ہم نے تمام چور دروازے بند کر دیے ہیں اور اس فیصلے سے سالانہ 8 سے 10 ارب روپے کا اضافی فائدہ صوبے کو ہو گا۔ اس کے علاوہ گاڑیاں جس صوبے کی سڑکیں استعمال کرتی ہیں ٹوکن ٹیکس بھی اسی صوبے میں جمع ہونا چاہیے۔ محکمہ ایکسائز کا کہنا ہے کہ اس قانون کی بدولت گاڑیوں کی رجسٹریشن سے نہ صرف قوانین میں شفافیت آئے گی بلکہ قیمتوں میں توازن بھی ہوگا۔ اس قانون کے تحت دوسرے صوبوں میں رجسٹرڈ گاڑیاں اب پنجاب میں رجسٹرڈ ہوں گی جس سے پنجاب کے ریونیو میں اضافہ ہو گا۔ عوام کے جانب سے اس فیصلے پر مختلف ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ کچھ افراد کے مطابق حکومت صرف اپنے خزانے کو بھرنے کے لیے اس فیصلے پر عمل کر رہی ہے اور اس میں عوام کاکوئی مفاد نہیں ہے۔ اس کے برعکس کچھ افراد کا کہنا ہے کہ یہ ایک خوش آئندہ فیصلہ ہے اور اس سے پنجاب حکومت کے خزانہ میں اضافے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی قیمتوں میں توازن آئے گا۔ خیال رہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں بھی اس طرح کے قوانین موجود ہیں جہاں گاڑیوں کی رجسٹریشن ایک ریاست یا صوبے کے قوانین کے مطابق ہوتی ہے، جس کی سب سے بڑی مثال امریکہ ہے جہاں ہر ریاست میں گاڑی کی رجسٹریشن مختلف ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص ایک ریاست سے دوسری ریاست میں منتقل ہوتا ہے تو اسے اپنی گاڑی کو وہاں کے قوانین کے مطابق دوبارہ رجسٹرڈ کروانا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا میں بھی یہی نظام رائج ہے جہاں ہر ریاست کی اپنی گاڑیوں کی رجسٹریشن پالیسی ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص ایک ریاست سے دوسری ریاست منتقل ہوتا ہے تو اسے اپنی گاڑی کو دوبارہ رجسٹرڈ کروانا ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی گاڑیوں کی رجسٹریشن پالیسیاں مخصوص صوبوں اور ریاستوں کے تحت ہوتی ہیں۔ ان ممالک میں یہ قوانین گاڑیوں کی مارکیٹ کو متوازن رکھنے اور حکومتی خزانے کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ پاکستان میں پنجاب حکومت کا یہ اقدام عالمی سطح پر موجود رجسٹریشن قوانین کے مطابق ہے۔ دوسری طرف بعض افراد کا خیال ہے کہ اس قانون سے انہیں پریشانی ہو سکتی ہے کیونکہ اب انہیں اپنی گاڑیوں کی رجسٹریشن دوبارہ کروانا پڑے گی۔ پنجاب حکومت کا یہ نیا قانون ایک اہم تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اس کا حقیقی اثر کب اور کیسے ظاہر ہو گا؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔
‘ٹیریان ناجائز ہے’ لائیو ٹی وی پروگرام میں لیگی اور پی ٹی آئی رہنماؤں کی لڑائی وائرل

ٹیلی ویژن کے کرنٹ افیئرز کے پروگرامز کو عموما پارٹی موقف کے فروغ کے ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن ان کے شرکا کبھی کبھی اس موقع کو میدان جنگ بنانے سے دریغ نہیں کرتے۔ پاکستان کے نجی ٹیلی ویژن چینل ‘بول نیوز’ کے ایک پروگرام میں شریک مہمان اپنے لیڈر کی تعریف اور دوسری کی تنقید میں اتنے جذباتی ہوئے کے لڑپڑے۔ خیبرپختونخوا کی حکمراں تحریک انصاف اور وفاق میں حکمراں ن لیگ کے رہنماؤں کے درمیان لڑائی کے یہ افسوسناک مناظر سوشل ٹائم لائنز پر آئے تو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہو گئے۔ چند سیکنڈ کے کلپ میں دھکم پیل بڑھی تو ٹیلی ویژن پروگرام کے سیٹ کے ٹیبل جگہ سے لڑھک گئے۔ لڑائی کے درمیان خاموشی سے بیٹھی خاتون میزبان ڈاکٹر فضہ کو بھی اپنی کرسی چھوڑنا پڑی۔ لاتوں، گھونسوں کا استعمال ہوا تو کیمرہ کے پیچھے موجود اسٹاف اور دیگر عملے نے سامنے آ کر مہمانوں کو روکنے کی کوشش کی، جس میں کامیابی کے لیے انہیں خاصی تگ ودو کرنا پڑی۔ ویڈیو شیئر اور اس پر تبصرہ کرنے والوں نے ‘لڑائی میں پہل’ اور استعمال کیے گئے الفاظ کے ‘نامناسب’ ہونے کو خاص توجہ دی۔ متعدد سوشل میڈیا صارفین نے ان مناظر کو ‘برداشت ختم ہونے’ سے بھی تعبیر کیا۔ بول نیوز پر نعیم حیدر پنجوتھہ اور ن لیگ کے اختیار ولی کے درمیان ہاتھا پائی pic.twitter.com/KvoI0vjoQ0 — Zubair Ali Khan (@ZubairAlikhanUN) January 22, 2025 ٹی وی پروگرام کے دوران لڑائی کا واقعہ مسلم لیگ ن کے رہنما اختیار ولی اور تحریک انصاف کے رہنما نعیم حیدر پنجوتھہ کے درمیان ہونے والی تکرار کے بعد پیش آیا۔
میرا برانڈ پاکستان نمائش کی کامیابی پر تاجروں اور عوام کا اظہارِ مسرت

پاکستان بزنس فورم کے زیر اہتمام صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں منعقد ہونے والی میرا برانڈ پاکستان نمائش کی کامیابی پر تاجروں، نمائش کنندگان اور عوام کی جانب سے خوشی کا اظہار کیا گیا ہے۔ نمائش میں شامل مختلف برانڈز کے نمائندوں نے اپنی آراء پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بزنس فورم نے ایک شاندار اور منظم نمائش کا انعقاد کیا، جس نے عوام اور تاجروں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ میرا برانڈ پاکستان نمائش کے تمام نمائش کنندگان نے نمائش کے انعقاد کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہم سب پاکستان بزنس فورم کے شکرگزار ہیں، جنھوں نے اس کا انعقاد کرکے تاجروں اور عوام کے درمیان براہ راست رابطے کو ممکن بنایا۔ اس کے ساتھ عوام کی بھرپور پذیرائی اور خریداری نے ہمارے اعتماد کو مزید مضبوط کیا۔ دوسری جانب کوئس فوڈز کے نمائندے کا کہنا تھا کہ ہمیں اس نمائش میں زبردست ردعمل ملا، عوام نے ہماری پروڈکٹس میں گہری دلچسپی ظاہر کی جس سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی۔اس کے علاوہ ہم نے خریداروں کو خصوصی رعایت بھی فراہم کی۔ اس کے ساتھ ہی مینیو فوڈز کے نمائندوں نے نمائش کو ہر لحاظ سے کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان بزنس فورم کی یہ کاوش عوام اور مقامی برانڈز کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی ہے۔ ہم فورم اور اہلِ کراچی کے شکر گزار ہیں۔ اس کے علاوہ بونا پاپا کے نمائندے نے کہا کہ پاکستانی عوام مقامی مصنوعات کو فروغ دینے میں بھرپور دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایسے مواقع بار بار فراہم کیے جائیں تو یہ ملکی معیشت، روزگار، اور زرمبادلہ میں اضافے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان بزنس فورم کے صدر سہیل عزیز اور سیکریٹری جنرل عامر رفیع نے نمائش کی کامیابی پر مسرت کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 18 اور 19 جنوری کو عوام اور تاجروں کی جانب سے ملنے والے زبردست ردعمل کے بعد ہم اگلے سال اس نمائش کو مزید بڑے پیمانے پر منعقد کریں گے۔مزید یہ کہ میرا برانڈ پاکستان اب بزنس فورم کی پہچان بن چکا ہے، اب ہماری کوشش ہے کہ یہ پلیٹ فارم مقامی مصنوعات کو فروغ دینے اور عوام کو معیاری مصنوعات فراہم کرنے کے لیے ایک مستقل ذریعہ بنے۔ میرا برانڈ پاکستان کی کامیابی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ برانڈ کی کامیابی نے یہ ثابت کر دیا ہےکہ پاکستانی عوام مقامی مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کے فروغ میں بھرپور تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ نمائش نہ صرف عوامی سطح پر مقامی برانڈز کو متعارف کرانے کا ذریعہ بنی بلکہ معاشی استحکام کی جانب ایک اہم قدم بھی ثابت ہوئی۔ یاد رہے کہ غیر ملکی برانڈ کا پاکستان میں بائیکاٹ کرنے کے لیے کراچی میں “میرا برینڈ پاکستان ” کے نام سے پاکستان بیزنس فورم کے تعاون سے 2 روزہ نمائش ایکسپو سنٹر کراچی میں منعقد کی گئی۔ نمائش میں پاکستان کے 500 برینڈز نے حصہ لیا ، جن کے 400 اسٹالز لگائے گئے ، جبکہ گزشتہ سال یعنی کہ 2024 میں میرا برینڈ پاکستان میں 200 اسٹالز لگائے گئے تھے۔ ہفتہ کے روز جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے اس 2 روزہ نمائش کا ایکسپوسنٹر کراچی میں افتتاح کیا۔ نمائش کے افتتاح کے موقع پرامیر جماعت اسلامی پاکستان کے ساتھ صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری جاوید بلوانی ،جماعت اسلامی پاکستان کے جنرل سیکرٹری امیر العظیم، امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفرخان،،صدر پاکستان بزنس فورم کراچی چیپٹر سہیل عزیز،جنرل سیکرٹری عامر رفیع،سینئر نائب صدرفیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ثاقب فیاض مگوں و دیگر بھی موجود تھے۔
ٹرمپ جو مرضی کہتے رہیں، خلیج میکسیکو کے نام کی تبدیلی پر میکسیکن صدر کا طنزیہ جواب

میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بام نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کر کے خلیج امریکہ رکھنے کے ایگزیکٹو آرڈر پر مسرت کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ اسے اپنی طرف سے جو چاہیں کہہ سکتے ہیں، لیکن ہمارے لیے اور پوری دنیا کےلیے یہ خلیج میکسیکو ہی رہے گا۔ میکسیکو صدر کلاڈیا شین بام کا پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ امریکہ اپنے علاقائی پانیوں کے لیے کوئی بھی نام استعمال کر سکتا ہے، لیکن عالمی سطح پر تسلیم شدہ نام میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ان کا مسکراتے ہوئے کہنا تھا کہ ٹرمپ اپنی طرف سے جو چاہیں خلیج میکسیکو کوکہہ سکتے ہیں، لیکن ہمارے لیے اور پوری دنیا کے لیے یہ خلیج میکسیکو ہی رہےگا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل شین بام نے طنزیہ انداز میں ٹرمپ کوشمالی امریکہ کا نام بدل کر امریکہ میکسیکونا رکھنے کی تجویز دی تھی، لیکن اس بار انہوں نے اس مسئلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا کے لئےیہ ہمیشہ خلیج میکسیکو رہے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ امریکہ میں اسے کون کس نام سے پکارتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ٹرمپ کے حکم کا اطلاق امریکی سمندری حدود میں ہو سکتا ہے لیکن اس کا بین الاقوامی وزن نہیں ہے۔ میکسیکو اور عالمی برادری اس تبدیلی کو تسلیم کرنے کا امکان نہیں ہے ، جس کی وجہ سے خلیج میکسیکو کا نام مضبوطی سے برقرار ہے۔ یاد رہے کہ امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ ماہ ایک نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب سے کچھ عرصے بعد خلیج میکسیکو کا نام بدل کر خلیج امریکہ رکھ دیا جائے گا۔ پیر کے روز نومنتخب امریکی صدر نے اپنے افتتاحی خطاب کے دوران نام تبدیل کرنے کا اعلان کیا کہ خلیج میکسیکو کا نام اب سے خلیج امریکہ ہے، جس کے بعد انھوں نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، جس کا عنوان امریکی عظمت کا احترام کرنے والے ناموں کی بحالی تھا۔ حکم نامے میں کہا گیا تھاکہ امریکی سیکریٹری داخلہ امریکی کانٹی نینٹل شیلف کے علاقے کا نام تبدیل کریں گے جو شمال مشرق، شمال اور شمال مغرب میں ٹیکساس، لوزیانا، مسیسیپی، الاباما اور فلوریڈا کی ریاستوں سے منسلک ہے اور اس کے ساتھ سمندری حدود تک پھیلا ہوا ہے۔ حکم نامے کے اطلاق کےلیے 30 دنوں کا وقت دیا گیا ہے۔ امریکی صدرنے اس ایگزیکٹو آرڈر میں کہا کہ امریکہ کی ترقی کے دوران خلیج میکسیکو ہمیشہ سے اس کا خزانہ رہا ہے۔ آج بھی خلیج میکسیکو امریکہ کا لازم و ملزوم حصہ ہے جس نے امریکہ کی ابتدائی تجارت اور عالمی تجارت کو سہارا دیا ہے۔ خیال رہے کہ خلیج میکسیکو امریکہ کے جنوب اور میکسیکو کے مشرق میں ایک آبی علاقہ ہے۔ خلیج میکسیکو کا نام 16ویں صدی سے استعمال کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف یہ پہلا موقع نہیں ہے جب دونوں ممالک کے درمیان لسانی تنازعات پیدا ہوئے ہیں۔ ماضی میں بھی متعدد بار اس طرح کے تنازعات سامنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد کا حصہ بننے والے دریا کو امریکہ میں ریو گرانڈے کہا جاتا ہے لیکن میکسیکو میں یہ ریو براوو کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جھوٹ پھیلانے پر 3 برس قید 20 لاکھ جرمانہ، پاکستان کے الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں نئی ترامیم کیا؟

پاکستان میں انٹرنیٹ سے متعلق قوانین میں تبدیلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت نے الیکٹرانک کرائم سے متعلق پیکا ایکٹ میں مزید ترامیم کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستانی میڈیا رپورٹس کے مطابق پیکا (دی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ) میں ترامیم کر کے ‘ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی’ قائم کی جائے گی جو سوشل میڈیا کے مواد کو ’ریگولیٹ‘ کرنے کا اختیار رکھتی اور شکایات پر کسی بھی قسم کے مواد کو حذف یا بلاک کر سکے گی۔ مسودہ کی کاپی اور حکومتی ذرائع سے سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق ‘جعلی خبروں اور سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی پر مبنی نکات کو جلد منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔’ مسودے میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی (ڈرپا) نامی اتھارٹی قائم کر کے اسے ممنوعہ مواد شیئر کرنے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار دینا تجویز کیا گیا ہے۔ اتھارٹی وفاقی اور صوبائی حکومت کو ’ڈیجیٹل اخلاقیات سمیت متعلقہ شعبوں’ میں تجاویز دے گی۔ تعلیم وتحقیق سے متعلق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرے گی، صارفین کے آن لائن تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ نئے قانون کے تحت پاکستان نے ایک مرتبہ پھر عالمی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ملک میں موجودگی یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔ مسودہ کے مطابق نئی اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیے ٹائم فریم دے گی اور انہیں پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کے لیے سہولت فراہم کرے گی۔ مسودے کے مطابق سوشل میڈیا کی تعریف تبدیل کی جائے گی۔ نئی تعریف کے مطابق سوشل پلیٹ فارمز تک رسائی کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز، ان سے متعلق سروسز فراہم کرنے والے افراد اور ایپس بھی ‘سوشل میڈیا’ کہلائیں گی۔ سوشل میڈیا کی نئی تعریف کے مطابق ’ویب سائٹ‘، ’ایپلی کیشن‘ یا ’مواصلاتی چینل‘ بھی اسی ڈومین میں تصور کیے جائیں گے۔ ڈرپا کیسے کام کرے گی؟ سوشل میڈیا ریگولیٹر کے طور پر بنائی جانے والی مجوزہ اتھارٹی ایک چیئرپرسن سمیت دیگر چھ ارکان پر مشتمل ہوگی۔ وفاقی حکومت چیئرپرسن اور تین ارکان کو تین برس کے لیے مقرر کرے گی جب کہ سیکرٹری اطلاعات، سیکرٹری آئی ٹی اور چیئرمین پی ٹی آئی بربنائے عہدہ اتھارٹی کے ارکان ہوں گے۔ اتھارٹی کے فیصلے اکثریتی ارکان کی رضامندی سے ہوں گے۔ سربراہ کو اختیار ہو گا کہ وہ کسی بھی غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک کرنے کی ہدایت دے سکے، ایسے احکامات کی اتھارٹی کو 48 گھنٹوں میں ’توثیق‘ کرنا ہوگی۔ نئی اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ’رجسٹرڈ‘ اور ان کے لیے شرائط وضع کرسکے گی۔ اسے اختیار ہوگا کہ حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو غیر قانونی آن لائن مواد کو بلاک کرنے یا ہٹانے کا حکم دے سکے۔ نئے قوانین میں خاص کیا؟ موجودہ قوانین کے تحت صرف وہ کنٹینٹ ‘غیر قانونی مواد’ کہلاتا ہے جو ‘اسلام مخالف، پاکستان کی سلامتی یا دفاع کے خلاف’ ہو۔ پیکا ایکٹ کے سیکشن 37 میں ترمیم تجویز کی گئی ہے جس کے تحت 16 مختلف اقسام کے مواد کو اسی ضمن میں شمار کیا جائے گا۔ ‘امن عامہ سے متعلق، غیرشائستگی، غیراخلاقی، توہین عدالت یا کسی جرم کے لیے اکسانے والا، فحش، گستاخانہ، تشدد، فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینا’ بھی ‘غیرقانونی مواد’ کہلائے گا۔ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی، جعلی یا جھوٹی رپورٹس، آئینی اداروں اور ان کے افسران بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف الزام تراشی، بلیک میلنگ اور ہتک عزت کو بھی ‘غیرقانونی مواد’ شمار کیا جائے گا۔ انٹرنیٹ سے متعلق اعدادوشمار کے پلیٹ فارم اسٹیٹسٹا کے مطابق جنوری 2025 تک پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 11 کروڑ 10 لاکھ ہے۔ یہ تعداد ملکی آبادی کا تقریبا نصف بنتی ہے۔ گزشتہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 4 کروڑ ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے ٹرمپ کے انکار کے بعد متبادل ذرائع سے فنڈز لینے پر غور کرنا شروع کردیا

عالمی ادارہ صحت سے نکلنے کے امریکی فیصلے کے بعد حکومتی عطیات میں کمی کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے عالمی صحت فنڈ نے نجی شعبے سے عطیات میں تیزی سے اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔ گلوبل فنڈ نے غیر ملکی خبرارساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ ایڈز، تپ دق اور ملیریا سے لڑنے کے لیے سال کے آخر میں ایک نیا فنڈنگ راؤنڈ شروع کیا جائے گا، جو تنظیموں اور کمپنیوں سمیت نجی اداروں سے تقریباً 50 فیصد مزید رقم مانگے گا جو کہ کل 2 بلین امریکی ڈالر ہوگی۔ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر سینڈز کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کا اعلان نومبر میں ہونے والے امریکی انتخابات سے پہلے کیا گیا تھا، یہ اعلان سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم میں کیا گیاتھا۔ دوسری جانب بین الاقوامی امدادی گروپ عالمی سطح پر سخت مالی ماحول کے ساتھ ساتھ تنازعات سے نمٹنے سے لے کر آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے تک اپنے کام کی بڑھتی ہوئی طلب سے نبرد آزما ہیں۔ حالیہ ہفتے ایک انٹرویو میں پیٹر سینڈز کا کہنا تھا کہ نجی شعبے کے عطیہ دہندگان جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس پر فنڈ پابندی بڑھا رہا ہے۔ اپنے آخری فنڈنگ راؤنڈ میں عالمی فنڈ نے تین سال کے دوران اپنے کام کے لیے 15.7 بلین ڈالرز اکٹھا کیے، اس میں نجی شعبے سے 1.3 بلین ڈالر شامل تھے، جن میں گیٹس فاؤنڈیشن جیسے رفاہی گروپ اور کان کنی کی بڑی کمپنی اینگلو امریکن اور جاپانی دوا ساز کمپنی تاکیڈا جیسی کمپنیاں شامل تھیں۔ واضح رہے کہ گلوبل فنڈ کی جانب سے سال کے آخر میں کام کی اگلی مدت 2027 سے 2029 کے لیے مطلوبہ کل رقم کا اعلان کیا جائے گا۔خیال رہے کہ امریکہ تاریخی طور پر فنڈ کا سب سے بڑا عطیہ دہندہ ہے، جس نے فنڈنگ کے آخری دور میں 6 بلین ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران 2016 سے 2020 تک ملک کی شراکتیں پچھلی انتظامیہ کی طرح تھیں۔پیر کے روز ٹرمپ نے دوسری بار صدارت کا حلف لیا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے تیزی سے ڈبلیو ایچ او سے باہر نکلنے اور عالمی امداد کو منجمد کرنے کے فیصلے کیے، جس سے دنیا بھر میں صحت کی عالمی برادری میں صدمے کی لہر دوڑ گئی۔ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ امریکہ کا عالمی صحت میں غیرمعمولی ریکارڈ ہے، جس کے ساتھ رہنمائی اور اصول طے کرنے میں ڈبلیو ایچ او کا کردار اہم ہے۔ ہمیں غریب ترین اور پسماندہ لوگوں کی صحت پر پڑنے والے اثرات پرتوجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔ بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکنے اور صحت کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے بیماری سے متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والی تنظیموں کو عالمی ادارہ صحت براہ راست گرانٹ دیتا ہے۔اس کے علاوہ وبائی امراض کو ٹریک کرنے اور ان پر قابو پانے، ہنگامی صورتحال کا جواب دینے اور بین الاقوامی سطح پر صحت اور عالمی صحت کی دیکھ بھال کو فروغ دینے کے لیے ڈبلیو ایچ او عالمی تعاون پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ واضح رہے کہ متعدد دیگر عالمی صحت کی تنظیمیں بھی اس سال رقم اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، جن میں ویکسین گروپ گاوی بھی شامل ہے، جو دنیا کے غریب ترین ممالک میں بچپن میں حفاظتی ٹیکوں کی مدد کے لیے 9 بلین ڈالر کی تلاش کر رہی ہے۔دسمبر میں جاری ہونے والی بورڈ دستاویزات میں عالمی معیشت کی سست روی، جنگوں، مسابقتی امدادی ترجیحات اور بہت سے عطیہ دینے والے ممالک میں انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے حکومتی کمیوں کی وجہ سے اپنے اہداف سے محروم ہونے کے بڑھتے ہوئے خطرے سے ڈبلیو ایچ او نےخبردار کیا تھا۔ مزید یہ کہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ گیوی اس سال نجی شعبے کے سرمایہ کاروں کا گروپ قائم کرنے اور اس کے فنڈنگ کے ذرائع کو متنوع بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ گیوی کبھی بھی عطیہ دہندگان کی مدد کو معمولی نہیں سمجھتی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومتوں کو درپیش متضاد مسائل سے آگاہ ہیں۔ یونائیٹڈ کنگڈم اور گیٹس فاؤنڈیشن کے ساتھ ساتھ امریکہ گیوی کے سب سے بڑے عطیہ دہندگان میں سے ایک ہے۔یاد رہے کہ گیوی ممالک کے ویکسینیشن پروگراموں کی حمایت کے لیے ڈبلیو ایچ او کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔
انڈین کرکٹرز کے سینوں پر ’پاکستان‘ سجانے کا اعلان

چیمپئنز ٹرافی شروع ہونے سے قبل ہی انڈیا کو’شکست‘ہوگئی ۔اپنے مؤقف سے پسپائی اختیار کرتے ہوئے اپنی ٹیم کے سینوں پر ’پاکستان‘ سجانے کا اعلان کردیا ۔ بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) نے تصدیق کی ہے کہ انڈین جرسی پر آئی سی سی کا آفیشل لوگو ہوگا، جس میں پاکستان کا نشان بھی شامل ہے۔ انڈین جرسی اور چیمپئنز ٹرافی کے لوگو پر تنازعہ کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بی سی سی آئی کے سیکریٹری دیواجیت سائکیا نے کہا ہے کہ ہم آئی سی سی کی ہدایات پر عمل کریں گے۔ نشاندہی کی گئی کہ آئی سی سی کے آفیشل لوگو کے نیچے پاکستان ہے۔ سائکیا نے یہ دہرایا کہ ہم آئی سی سی کی ہدایت پرعمل کریں گے۔ سائکیا کے اس دعوے سے بھارت کی جانب سے آفیشل لوگو پر اعتراض درج کرنے پر ہنگامہ ختم ہو گیا ہے۔ ٹیم پاکستان کا سفر نہیں کرے گی۔ پاکستان چیمپئنز ٹرافی کے نامزد میزبان ہے۔ جو 19 فروری سے 9 مارچ تک کھیلی جائے گی۔ بھارتی ٹیم دبئی میں اپنے میچز کھیلے گی۔