اپریل 11, 2025 3:35 صبح

English / Urdu

تارکین وطن کے لیے امریکی فوجی طیارے کا استعمال، میکسیکو کے بعد برازیل اور کولمبیا کا سخت رد عمل

امریکہ کی طرف سےتارکین وطن کے خلاف مہم جارہی ہے،جس میں غیر قانونی رہنے والے افراد کو نکالنے کے لیے سخت رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ،امریکی صدر ڈاؤنلڈ ٹرمپ کی طرف سےاس جاری مہم کو مدنظررکھتے ہوئے برازیل اور کولمبیا کے شہریوں کو امریکہ چھوڑنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ عالمی خبر ارساں ادارہ رائٹرز کے مطابق کولمبیا کے صدر گستاو پیٹرو نے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ تارکین وطن کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کر رہے ہیں۔ کولمبیا کے صدر نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پرلکھا کہ کولمبیا ملک بدر کیے جانے والے تارکین وطن کو شہری طیاروں میں خوش آمدید کہے گا، اور کہا کہ ان کے ساتھ عزت اور احترام سے پیش آنا چاہیے۔ کولمبیا کا یہ فیصلہ میکسیکو کے ایک اقدام کے بعد ہے ، جس نے گزشتہ ہفتے ایک امریکی فوجی طیارے کو تارکین وطن کے ساتھ اترنے کی درخواست سے انکار کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں تارکین وطن سے بھرا فوجی طیارہ امریکہ میکسیکو میں لینڈ کرانا چاہتا تھا لیکن میکسیکو کی طرف سے لینڈنگ کی اجازت نہ ملنے پر امریکہ طیارہ لینڈ کرانے میں نکام ہوا۔ صدر پیٹرو نے ایکس پر لکھا کہ امریکہ کولمبیا کے تارکین وطن کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک نہیں کر سکتا ، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ کولمبیا میں امیگریشن کی مناسب حیثیت کے بغیر 15,660 امریکی تھے۔ پیٹرو کے تبصرے لاطینی امریکہ میں عدم اطمینان کے بڑھتے ہوئے کورس میں اضافہ کرتے ہیں کیونکہ ٹرمپ کی ہفتہ پرانی انتظامیہ بڑے پیمانے پر ملک بدری کے لیے متحرک ہونا شروع کر دیتی ہے۔ برازیل کی وزارت خارجہ نے ہفتے کے روز دیر گئے برازیلیوں کے ساتھ “ذلت آمیز سلوک” کی مذمت کی جب تارکین وطن کو تجارتی ملک بدری کی پرواز میں ہتھکڑیاں لگائی گئیں۔ مقامی خبروں کے مطابق کچھ مسافروں نے پرواز کے دوران بدسلوکی کی بھی اطلاع دی۔فوجی طیارہ جس میں 88 برازیلین مسافر، 16 امریکی سیکیورٹی ایجنٹس، اور عملے کے آٹھ ارکان سوار تھے وہاں، برازیل کے حکام نے ہتھکڑیاں ہٹانے کا حکم دیا، اور صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا نے اپنا سفر مکمل کرنے کے لیے برازیلین ایئر فورس (ایف اے بی) کی پرواز کو نامزد کیا، برازیل کی وفاقی پولیس کے مطابق، تجارتی چارٹر پرواز اس سال امریکہ سے غیر دستاویزی تارکین وطن کو لے کر برازیل واپس بھیجی گئی اوریہ  ٹرمپ کے افتتاح کے بعد پہلی پرواز تھی۔ عالمی خبر ارساں ادارہ رائٹرز کے مطابق امریکی فوجی طیارے افراد کو ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنے کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں، جس میں ایک مثال افغانستان میں طالبان جنگ کی ہے ۔ ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ حالیہ یادوں میں یہ پہلا موقع تھا جب تارکین وطن کو ملک سے باہر لے جانے کے لیے امریکی فوجی طیارے استعمال کیے گئے۔ پینٹاگون نے کہا ہے کہ امریکی فوج ایل پاسو، ٹیکساس اور سان ڈیاگو، کیلیفورنیا میں امریکی حکام کے زیر حراست 5000 سے زائد تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے لیے پروازیں فراہم کرے گی۔ خیال رہے کہ 20 جنوری کو حلف برداری تقریب کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سلسلہ وار ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے تھے ، جن میں ایک کا مقصد امریکی عوام کو غیر قانونی مداخلت سے تحفظ دیناتھا۔ اس آرڈر میں کہا گیا کہ پچھلے چار سالوں کے دوران امریکہ کو غیر قانونی تارکین وطن کے سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے لاکھوں افراد امریکی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سرحد پار کر کے یا تجارتی پروازوں کے ذریعے امریکہ میں داخل ہوئے۔  

نواز شریف 8 فروری الیکشن کو ہار تسلیم کر لیتے تو آج پاکستان کا نقشہ مختلف ہوتا، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ نواز شریف سے کوئی ناراضی نہیں، نہ غلط فہمی ہے۔ہم نے ن لیگ اصول کی بنیاد پر چھوڑی ہے۔اگر نواز شریف 8 فروری کو الیکشن ہار تسلیم کر لیتے تو آج پاکستان کا نقشہ مختلف ہوتا۔ عوام پاکستان پارٹی (اے پی پی) کےسربر شاہد خاقان عباسی   اے پی پی کے سیکرٹری جنرل مفتاح اسماعیل کے ہمراہ لندن میں پریس کانفرس کرتے ہوئے کہا کہ اوورسیز پاکستانی دوسرے ملک کی شہریت لے کر بھی پاکستان سے تعلق برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق سابق وزیراعظم نے کہا کہ زرمبادلہ پاکستان بھیجنے کی تعداد بڑھ رہی ہے، ہماری جماعت مسائل کی بات کم اور حل کی بات زیادہ کرتی ہے۔ پاکستان میں اصل اپوزیشن عوام پاکستان پارٹی ہے۔ اے پی پی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ جب تک رول آف لاء نہیں ہوگا ملک ترقی نہیں کرے گا، اوورسیز پاکستانیوں کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سرمایہ کاری محفوظ ہو تو مزید زرمبادلہ آئے گا، پاکستان میں الیکشن چوری ہوتے ہیں، آئین کے مطابق ملک چلانا پڑے گا، اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہو گا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا قائد نواز شریف سے ملاقات کے حوالے سے کہنا ہے کہ نواز شریف سے آخری ملاقات لندن میں ہوئی تھی، نواز شریف سے 35 سال کا تعلق ہے، لندن سے واپسی کے بعد ملاقات نہیں ہوئی۔ نواز شریف کے ساتھ کوئی ناراضی نہیں، نہ کوئی غلط فہمی ہے، انکی سیاست کا عروج 2021 کا گوجرانوالہ جلسہ تھا، نواز شریف میرے لیڈر تھے، وہ ووٹ کو عزت دو سے ہٹ گئے۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے اتحاد کو مفاد کا نام دیتے ہوئے کہا کہ پی پی اور ن لیگ کا اتحاد مفاد کا اتحاد ہے۔ ن لیگ نے اقتدار کا راستہ چنا مجھے اتفاق نہیں تھا، شہباز شریف سے میرا کوئی رابطہ نہیں، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا اتحاد انہونا ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا ہم نے ن لیگ اصول کی بنیاد پر چھوڑی ہے، نواز شریف کو 8 فروری کو اللّٰہ نے موقع دیا، انہوں نے گنوا دیا، اگر نواز شریف 8 فروری کو الیکشن ہار تسلیم کر لیتے تو آج پاکستان کا نقشہ مختلف ہوتا۔ شاہد خاقان عباسی نے  انٹرنیٹ کہا کہ جو ملک انٹرنیٹ بند کر دیتا ہو وہاں ترقی نہیں ہو گی، پیکا کے ذریعے آزادیوں کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے، موجودہ حکومت نے ایک بھی قانون عوام کی فلاح کا نہیں بنایا۔ ے دوسری جانب اے پی پی کے سیکرٹری جنرل مفتاح اسماعیل  نےپریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سرمایہ نہ بھیجنے کی اپیل کرنا نامناسب ہے، بانی پی ٹی آئی کی اپیل پر اوورسیز پاکستانیوں نے پیسہ بھیجنا بند نہیں کیا،اوورسیز پاکستانی اپنی فیملی کو پیسہ بھیجنے سے نہیں رکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی قوت خرید میں کمی آئی ہے، پاکستان کا ہر شہری گزرتے سال کے ساتھ غریب ہو رہا ہے۔ 40 فیصد پاکستانی خط غربت سے نیچے ہیں۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سات کروڑ بچے خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ شہباز شریف صرف اپنی کرسی بچانے کیلئے بیٹھے ہیں۔

 آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر چوہدری لطیف اکبر کے قافلے پر قاتلانہ حملہ، 2 افراد زخمی

آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر چوہدری لطیف اکبر کے قافلے پر قاتلانہ حملے کے دوران 2 افراد زخمی ہو گئے اور چوہدری لطیف خود محفوظ رہے۔ چوہدری لطیف اکبر قافلے کے ساتھ اپنے حلقے مظفر آباد کے نواحی گاؤں کھاوڑہ میں ایک سیاسی میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے جا رہے تھے، جس دوران ان کے قافلے پر فائرنگ شروع کر دی گئی ، جس سے 2 افراد زخمی ہو گئے، نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق انھوں نے ٹیلی فون پر بتایا کہ کسی پروگرام میں شرکت کرنے کے لیے جا رہا تھا جس دوران میرے قافلے پر فائرنگ کی گئی۔ چوہدری لطیف کا کہنا ہے کہ 3 روز قبل مخالفین سوشل میڈیا پر دھمکیاں دے رہے تھے جن سے انتظامیہ اور پولیس کو آگاہ کر دیا تھا لیکن کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ فائرنگ سے دو افراد زخمی ہوئے ہیں جنہیں اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ اے سی رورل حماد بشیر کا کہنا ہے کہ حالات کنٹرول کرنے کے لئے جانے والی پولیس اور مسلم کانفرنس کارکنوں کے مابین فائرنگ کا تبادلہ ہوا،انتظامیہ حالات کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ اے سی نے کہا کہ چند لوگ ہیں جنہوں نے پہلے سپیکر اسمبلی کے قافلے پر فائرنگ اور پتھراؤ کیا،  پیپلز پارٹی کا ایک کارکن گولی لگنے اور ایک پتھر لگنے سے زخمی ہوا ہے،فائرنگ کرنےوالے افراد کی گرفتاری کے لیے متحرک ہیں۔حملہ آوروں نے  پولیس پر بھی فائرنگ شروع کر دی، فی الحال کوئی نقصان نہیں ہوا۔   اسپیکر اسمبلی کے پی آر او کے مطابق چودھری لطیف اکبر شمولیت پروگرام میں شرکت کیلئے ککلیوٹ پہنچ گئے ہیں  اور مخالف سیاسی جماعت سے سیکڑوں افراد  پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے،  پی آر اور چوہدری مراد  نے مزید کہا ہے کہ ہم اپنے شیڈول کے مطابق چل رہے ہیں شمولیت پروگرام کچھ ہی دیر میں شروع ہو گا۔

عدت نکاح کیس کا فیصلہ قابل قبول کیوں نہیں؟ مقدمے کی سماعت مقرر

سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نکاح کیس  میں بریت ہونے کے بعد خاور مانیکا نے چیلنج کر دیا تھا جس کی سماعت کل اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقرر،عدت کیس کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے نئے جج جسٹس اعظم خان سماعت کریں گے۔ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے ایڈیشنل سیشن جج کی جانب سے دیے گئے بریت کے فیصلے کو چیلنج کر رکھا ہے، اپیل میں ایڈیشنل سیشن جج کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ 13 جولائی 2024ء کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف عدت نکاح کیس میں سزا کے خلاف اپیلیں منظور کرتے ہوئے ان کی7،7 سال قیدکی سزائیں معطل کردی تھیں۔ خاور مانیکا نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف 25 نومبر 2023ء کو سول جج قدرت کی عدالت میں رجوع کر کے عدت نکاح کا کیس دائر کیا تھا، خاور مانیکا نے مؤقف اپنایا تھا کہ نومبر 2017 میں بشریٰ بی بی کو طلاق ہوئی تھی اور پہلے نکاح کے وقت بشریٰ  بی بی کی عدت کا دورانیہ مکمل نہیں ہوا تھا، بشریٰ بی بی اور عمران خان کا نکاح شرعی اصولوں کے مطابق نہ ہونے کی بنیاد پر  ان کو سزا دی جائے۔ تاہم یہ واضح رہے کہ 16 جنوری 2024ءکو عدت نکاح کیس میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر فرد جرم عائد کی گئی تھی،اس فیصلے کے خلاف عمران خان نے 18 جنوری کو درخواست پر کیس فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ارسال کردی تھی۔ 31 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس خارج کرنے کی درخواستیں مسترد کر دیں۔ 3 فروری کو سول عدالت نے سابق وزیراعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو عدت نکاح کیس میں 7، 7 سال قید کی سزا سنادی گئی تھی۔ 13 جون کو سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل نے سزا معطل کے لیے درخواست  داائر کی تھی جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے 10 دن کے اندر اندر فیصلہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ 27 جون کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد نے سابق وزیر اعظم و بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی عدت نکاح کیس میں سزا معطلی کی درخواست مسترد کردی تھی۔ 2 جون  کو وکیل سلمان اکرم راجا نے سزا معطلی کے درخواست مسترد ہونے کے فیصلے پر جزوی دلائل دیے تو 3 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے 8 جولائی تک سماعت ملتوی کر دی اور جج افضل مجوکا نے ریمارکس دیے کہ 12 جولائی تک ہر میں فیصلی سنایا جائے گا۔ 12جولائی کو بھی عدالت نے اس کیس کی سماعت کی تھی اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف کیس کی سماعت 13 جولائی تک کے لیے ملتوی کردی تھی،  13 جولائی کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج افضل مجوکا نے  اس کیس کا فیصلہ سنایا اور عمران خان اور ان کی اہلیہ کی سزا معطل کر دی۔ سزا معطل ہونےکے بعد بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے عدالت میں چیلنج کر دیا تھا جس کی کل اسلام آباد ہائیکورٹ کے نئے جج جسٹس اعظم خان سماعت کریں گے۔

وہ فوجی خواتین جن کو جدیدٹیکنالوجی بھی حماس کی قید سے نہ ڈھونڈ پائی

اسرائیل اور فلسطین کے درمیان 15 ماہ کی جنگ بندی کے بعد دونوں ممالک کی طرف سے غزہ جنگ بندی معاہدے کے مطابق قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت حماس نے 4مغوی اسرائیلی  قیدیوں کو رہا کر دیا  اور اسرائیل کی طرف سے 200 فلسطینیوں کو رہا کیا گیا۔ عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس نے جنگ بندی معاہدے کے تحت 4 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا ۔ مغوی اسرائیلی فوجی خواتین کے نام لیری الباگ، کرینہ ایریف ، ڈینئیل گلبوا اور نما لیوی  ہیں۔حماس ترجمان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں سے 200 فلسطینی قیدیوں کو بھی رہا کردیا گیا ہے۔ ہزاروں کے مجمع میں قابض 4 فوجی خواتین ریڈ کراس کے حوالے کر دی گئیں۔ جن کی بدن بولی، چہرے بشرے اور وضع قطع سے شادمانی ٹپک رہی تھی۔ کہیں سے نہیں لگ رہا کہ یہ کسی دشمن کی قید میں تھیں۔ اس حوالے سے غزہ کے میدان فلسطین میں ایک شاندار مختصر تقریب منعقد کی گئی۔ جسے نقاب پوش جانبازوں کے دستوں نے گھیر رکھا تھا۔ شہریوں کی بھی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ مغوی سپاہیوں کو نئی فوجی یونیفارم کے ساتھ فلسطینی پرچم سے مزین ڈوری والا کارڈ پہنایا گیا تھا اور اور ان قیدیوں کو تحائف سے بھرے پیکٹ بھی دیے گئے۔ عالمی خبر ارساں ادارہ بی بی سی کے مطابق حماس کی طرف سے اسرائیل کی قیدیوں کو رہا کرنے کے بعد اسرائیل نے الزام عائد کیا کہ حماس نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور اربیل یہود نامی سویلین خاتون کو رہا نہیں کیا، اس خاتون کو رہا نہ کرنے کے عوض میں اسرائیل نے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو شمالی غزہ طے شدہ واپسی کو بھی معطل کر دیا۔  حماس کا کہنا ہے کہ یرغمال بنائی گئی سویلین خاتون کو اگلے ہفتے رہا کیا جائے گا۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کو شمالی غزہ جانے سے روک دیا ہے جس کے بعد حماس نے اسرائیل پر معاہدے کی شرائط پر عمل کو معطل کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ اس تنازع کے بعد اسرائیل نے فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا ہے اور ان میں سے سنگین جرائم میں ملوث 70 قیدیوں کو فوری طور پر مصر کے راستے پڑوسی ممالک بھیجا گیا ہے۔اسرائیل کی جانب سے رہا کیے گئے کچھ قیدیوں کو غزہ منتقل کیا جائے گا، جبکہ کچھ قیدیوں کو مقبوضہ غربِ اردن اور مشرق یروشلم میں اپنے گھروں تک واپسی کی اجازت دی جائے گی۔ واضح رہے کہ 19 جنوری کو جنگ بندی کے معاہدے کے بعد سنیچر کو قیدیوں کی رہائی کا یہ دوسرا مرحلہ تھا۔ اس سے قبل پچھلے ہفتے حماس نے تین قیدی اور اسرائیل نے 90 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا تھا۔ اسرائیل نے قیدیوں کی رہائی کے لیے ہر ممکن کوشش کی لیکن اسرائیل ہر کوشش میں نکام رہا،جن میں فوجی اور انٹیلی جنس آپریشنز کے ساتھ ساتھ سفارتی اقدامات بھی شامل تھے اسرائیلی افواج نے غزہ کی پٹی پر متعدد فضائی اور زمینی حملے کیے تاکہ فلسطینی تنظیموں پر دباؤ ڈالا جا سکے یا قیدیوں کے مقامات کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ ان کارروائیوں میں ایسی جگہوں کو نشانہ بنایا گیا جو ممکنہ طور پر سرنگوں یا چھپے ہوئے ٹھکانوں پر مشتمل ہو سکتی تھیں، لیکن ان کاروائیوں کے باوجود اسرائیل کو نکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیل نے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا، جن میں ڈرون، جاسوسی آلات، سننے کی ڈیوائسز اور حتیٰ کہ مصنوعی ذہانت بھی شامل ہیں، تاکہ قیدیوں اور ان کی قید کی جگہوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ اس حوالے سے گوگل اور آئی ٹی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں ان کے دست و بازو رہیں۔ اس کے علاوہ، زمینی نیٹ ورکس اور مخبروں کے ذریعے بھی معلومات جمع کی گئیں۔ ان تمام کوششوں کے باوجود، اسرائیل قیدیوں کی رہائی میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکا، جس کی وجہ سے اسرائیلی معاشرے میں ان اقدامات کی مؤثر ہونے اور بحران سے نمٹنے کی حکمت عملی پر شدید بحث و تنقید ہوئی۔ بالآخر  اسرائیل کو حماس کی شرائط مان  کر مذاکرات کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

’یہ جماعت مذاکرات کے لیے بنی ہی نہیں‘

پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے 3 دور مکمل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مذاکرات  ختم ہونے پر لیگی سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کر کے اسپیکر اور کمیٹی کی توہین کی اور پورے مذاکراتی عمل کو تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔  میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف والے ہمارے پاس کوئی ہنسی خوشی نہیں تمام حربے استعمال کرکے آئے تھے، شاید یہ جماعت مذاکرات کے لیے بنی ہی نہیں۔   سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ہمارے جواب کا انتظار کیے بغیر پی ٹی آئی نے مذاکرات ختم کیے، کمیٹی میں کسی نے نہیں کہا تھا کہ 7 دن میں اعلان نہ ہوا تو چوتھی نشست نہیں ہوگی، اگر کمیٹی میں یہ بات کی گئی ہوتی تو ہم مشترکہ اعلامیہ میں ڈال دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی والے 28 تاریخ کو آئیں، بیٹھیں اور ہمیں سنیں، ہم نےکبھی نہیں کہا کہ جوڈیشل کمیشن نہیں بنائیں گے، ہم مذاکرات کے حوالے سے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں، اگر وہ مذاکرات کے لیے نہیں آئے گے تو ہم دیواروں سے باتیں کریں گئے؟ سینیٹر نے کہا کہ پی ٹی آئی میں کوئی جسارت نہیں کرسکتا ،اگر بانی پی ٹی آئی کہے تو کوئی کہہ سکیں ایسا نہیں، مذاکرات سے ہمدردی کا عالم یہ تھا کہ سول نافرمانی کی کال بھی ختم نہیں کی، اب یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم ان کے پیچھے پیچھے جائیں اور کہیں لوٹ آؤ اب مذاکرات کرو۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ  مذاکرات میں صبر اور تحمل کی ضرورت ہوتی ہے، اگر پی ٹی آئی مذاکرات کو چھوڑ کر جا رہی ہے تو یقیناً ان کے ذہن میں کوئی منصوبہ ہوگا۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے 23 جنوری کو مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ جمعرات کے روز پی ٹی آئی کے چئیرمین بیرسٹر گوہر نے اڈیالا جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے مذاکرات ختم کرنے کے لیےمؤقف اپنایا گیا کہ مذاکرات کمیٹی کو پی ٹی آئی کی طرف سے جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا تھا جس پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے ہم مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔

محسن نقوی کے خلاف ’زہریلا پروپیگنڈا‘ کون کررہا ہے؟

پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی اس وقت خبروں میں ہیں اور اپنے ایک وضاحتی بیان میں کہتے ہیں کہ انہوں نے امریکہ میں چین کے مخالف کسی تقریب میں شرکت نہیں کی۔ یہ ماجرا کیا ہے؟ محسن نقوی نے 25 جنوری کو پاکستان واپسی سے قبل امریکی شہر ہیوسٹن میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ انہوں نے امریکہ میں نوجوانوں کی ایک تقریب میں شرکت کی تھی جس کو ’پراپیگنڈہ کر کے غلط رنگ دیا گیا۔‘ وفاقی وزیر داخلہ  نے کہا کہ اپنے دورہ امریکہ کے دوران چین کے خلاف کسی تقریب میں شرکت نہیں کی اور ان کے مخالفین ’زہریلا پروپیگنڈا‘ کر رہے ہیں۔ایسے پروپیگنڈے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں کسی بھی اینٹی چائنہ فنکشن میں نہیں گیا۔‘ انھوں نے اپنے خلاف ہونے والی تنقید پر بولے کہ ’میرے دورے کا مقصد امریکہ کے سیاستدانوں سے مل کر دہشت گردی کے خلاف ایک موثر پلان بنانا ہے۔ دہشت گردی صرف پاکستان کی لڑائی نہیں یہ سب کی مشترکہ لڑائی ہے۔پاکستان کے خلاف جو بھی ہتھیار اٹھائے گا اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔‘ وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ امریکہ کے ایوان نمائندگان کو پاکستان کے خلاف اکسایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’سیاست کریں لیکن اس حد تک نہ جائیں کہ پاکستان کا نقصان ہو۔‘ امریکی کانگریس اراکین کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ’بہت مثبت‘ رہیں۔ یادرہے کہ محسن نقوی نے23 جنوری 2025 کو واشنگٹن میں امریکی کانگریس مین جو ولسن اور روب بریسنہان سے ملاقات کی جس کے کچھ دیر بعد کانگریس مین جو ولسن کے ایکس اکاؤنٹ پہ ’فری عمران خان‘ کی پوسٹ کی گئی۔ ہفتے کو وفاقی زیر داخلہ محسن نقوی نے امریکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی ہے۔ پاکستان کے سرکاری ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق وزیر داخلہ محسن نقوی نے واشنگٹن میں امریکی چیمبر آف کامرس کا دورہ کیا اور امریکہ پاکستان بزنس کونسل کے اعلیٰ سطح کے وفد سے ملاقات کی۔

پاکستانی معیشت کا بہتری کی طرف سفر: عالمی بینک نے بھی تصدیق کردی

پاکستان کی معیشت کئی چیلنجز کا شکار ہے، جیسے سیاسی عدم استحکام، قرضوں کا بوجھ اور سرمایہ کاری کی کمی۔ اگرچہ امکانات موجود ہیں، مگر معاشی اصلاحات، مستحکم حکومتی پالیسیاں، اور عالمی سطح پر تعلقات کی بہتری کے بغیر ترقی کا خواب حقیقت میں بدلنا مشکل ہے۔ عالمی بینک میں جنوبی ایشیا کے نائب صدر مارٹن رائسر نے ایک ایسا انکشاف کیا ہے جس سے پاکستان کی معیشت کے حوالے سے امید کی نئی کرن روشن ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان 2035 تک سات فیصد کی سالانہ شرح نمو کے ساتھ ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ مارٹن رائسر نے نجی ٹی وی کے شو میں گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ طویل المدتی اقتصادی پیش گوئیاں ہمیشہ مشکل ہوتی ہیں، لیکن اگر پاکستان اپنے معاشی بحالی کے منصوبوں پر سنجیدگی سے عمل کرے تو یہ خواب حقیقت بن سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے یہ ہدف حاصل کرنا بالکل ممکن ہے، تاہم اس کے لیے انتہائی اہم اصلاحات اور مضبوط پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ عالمی بینک آئندہ 10 سالوں میں پاکستان کو 20 ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کر چکا ہے، لیکن اس رقم کی فراہمی پاکستان کی معاشی صورتحال اور اصلاحات کے مطابق ہوگی۔اس لیے یہ رقم پاکستان کے معاشی حالات کے مطابق طے کی جائے گی۔ مارٹن رائسر نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اپنی توجہ ان عوامل پر مرکوز کرنی چاہیے جو اس کے قابو میں ہیں، خاص طور پر غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور تجارتی تعلقات میں بہتری لانے پر۔ اس کے لیے ملک کو ایک مضبوط حکمت عملی اور پالیسیوں پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ رائسر نے سیاسی مشاورت اور قرضہ کی غیر یقینی صورتحال کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ عالمی بینک نے پاکستان کے مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ مشاورت کی ہے تاکہ معاشی منصوبوں پر اتفاق رائے قائم کیا جا سکے۔ تاہم قرضہ پاکستان کی معیشت اور ادائیگی کی صلاحیت کے مطابق دیا جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ صرف مضبوط اصلاحات اور پائیدار معاشی ترقی ہی اس قرضہ کو حقیقت میں بدل سکتی ہے۔ ایک اور دلچسپ بات جو مارٹن رائسر نے بیان کی وہ پاکستان اور بھارت کے تجارتی تعلقات کے حوالے سے تھی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنے وسائل اور قابو میں موجود عوامل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے تاکہ عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مضبوط بنا سکے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے مگر اس موقع کو حقیقت میں بدلنے کے لیے وہ سخت معاشی اصلاحات، پالیسیوں کا نفاذ اور عالمی سطح پر بہتر تعلقات بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ موقع ایک نئی معیشت کے آغاز کا پیغام دیتا ہے، لیکن یہ صرف تبھی ممکن ہے جب پاکستان اپنے داخلی اور خارجی مسائل پر قابو پائے اور ایک مستحکم حکمت عملی اپنائے۔

یوم سیاہ:کشمیریوں کی بھارت کے جبری قبضے کے خلاف مزاحمت

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج یوم سیاہ منایا جا رہا ہے، جس کا مقصد کشمیری عوام کی بھارت کے جبری قبضے کے خلاف مزاحمت کو اجاگر کرنا ہے۔ اس وقت وادی میں مکمل ہڑتال ہے اور مقامی سطح پر مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں، جس کے دوران کشمیریوں نے اپنے حق خودارادیت کے لیے آواز بلند کی ہے۔ بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر کشمیریوں کا یہ احتجاج ان کے حقوق کی پامالی اور بھارت کے ظلم و جبر کے خلاف ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی اضافی تعیناتی اور سڑکوں پر چیک پوسٹوں کا قیام اس بات کا غماز ہے کہ بھارت کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری بھی اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں اور بھارت کے ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ اس دن کے ذریعے کشمیری عالمی برادری کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ بھارت کے قبضے کو مسترد کرتے ہیں اور اپنے حقوق کے لیے جدو جہد جاری رکھیں گے۔ مختلف ممالک میں بھارت مخالف ریلیاں اور مظاہرے اس بات کی علامت ہیں کہ کشمیریوں کے حقوق کا مسئلہ عالمی سطح پر تسلیم کیا جانا ضروری ہے۔ آج 26 جنوری، یوم سیاہ کے دن کا مقصد کشمیری عوام کے عزم و ہمت کو دنیا کے سامنے لانا ہے۔ یاد رہے کہ1947 میں پاکستان اور بھارت کی آزادی کے بعد کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوا تھا جب کشمیر کے ہندو راجہ نے فیصلہ نہیں کیا تھا اوراس کے بعد بھارت کی جانب سے کشمیر کا الحاق کر لیا۔ 1948 میں اقوام متحدہ نے کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کیا، لیکن بھارت نے اسے سرد جنگ کا حصہ بناتے ہوئے انکار کر دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ کشمیر میں تشدد، مظاہرے اور جنگیں ہوتی رہیں، اور 2019 میں بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کو اپنی مکمل عمل داری میں شامل کر لیا۔ کشمیری عوام ابھی تک اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

2025 ٹیسٹ کرکٹ میں نئے فارمیٹ کا آغاز: کمزور ٹیموں کی مشکلات میں اضافے کا امکان

گزشتہ سال 2024 میں ٹیسٹ کرکٹ ایک نیا جوبن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، لیکن اس کا مستقبل اب خطرے میں دکھائی دے رہا ہے۔ جب دنیا بھر میں کرکٹ کے پرستار پانچ روزہ کھیل کو ایک عظیم روایت اور ایوارڈ سمجھتے ہیں،جبکہ 2025 میں اس کے مستقبل پر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ 2024 میں ٹیسٹ کرکٹ نے نئے ریکارڈز بنائے اور ایک متنازعہ دور میں قدم رکھا۔ جب دنیا بھر میں ٹیسٹ کرکٹ میں 3.62 رنز فی اوور کا اوسط ریکارڈ بنا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ جس میں نیوزی لینڈ نے بھارت کو اپنے ہی میدان پر وائٹ واش کیا تھا،اس کے علاوہ  بنگلہ دیش نے پاکستان کو گھر میں شکست دی، اور جنوبی افریقہ نے پاکستان کو باکسنگ ڈے ٹیسٹ میں ہرایا اور ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے فائنل میں جگہ بنائی۔ لیکن پھر بھی پانچ روزہ کرکٹ کے مستقبل پر ہونے والی بات چیت ایسی نہیں کہ جو کرکٹ کے شائقین کی توقعات پر پورا اُتر سکے۔ اب سننے کو مل رہا ہے کہ 2025 میں ٹیسٹ کرکٹ ایک نیا نظام اختیار کرنے جا رہی ہے جس میں ٹیسٹ کرکٹ کی ممکنہ سات ٹیمیں پہلی ڈویژن میں آئیں گی۔ ان ٹیموں میں جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، انگلینڈ، بھارت، نیوزی لینڈ، سری لنکا اور پاکستان شامل ہوں گی جبکہ ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش، آئرلینڈ، افغانستان اور زمبابوے دوسری ڈویژن میں منتقل ہوں گے۔ دوسری جانب کمزور ٹیموں کے لیے یہ دو درجے کا نظام ایک تباہی بن کر سامنے آئے گا۔جبکہ ویسٹ انڈیز جیسے ممالک کے لیے یہ سسٹم ایک موت کی طرح ہوگا کیونکہ ان کی کرکٹ ٹیمیں ہمیشہ گھریلو سطح پر مشکلات کا سامنا کرتی ہیں اور باہر کے ممالک میں بھی ان کا پرفارمنس بہتر نہیں ہوتا۔ ایک طرف کرکٹ کی دنیا میں مالیات اور کمرشل فائدے کے معاملے میں بھارت، انگلینڈ اور آسٹریلیا سب سے زیادہ طاقتور ہیں جبکہ دوسری طرف باقی دنیا کی ٹیمیں اس مقابلے میں پیچھے نظر آتی ہیں۔ یہی وہ وقت ہے جب آئی سی سی اور کرکٹ کے بڑے ادارے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا ٹیسٹ کرکٹ کے نظام کو اس نئے دو درجے کے فارمیٹ میں ڈھالنا صحیح قدم ہوگا یا نہیں۔ خاص طور پر ان تین بڑی طاقتوں ‘بھارت، انگلینڈ اور آسٹریلیا’کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں کہ یہ نئے فارمیٹس ان کے فائدے میں ہیں کیونکہ ان کے پاس وسائل اور طاقت پہلے سے ہی موجود ہے۔ ایک طرف ان تین ممالک کا ٹیسٹ کرکٹ میں تسلط ہے وہیں دوسری طرف اس فارمیٹ کے دیگر ممبران اس تبدیلی کو کسی بربادی سے کم نہیں سمجھ رہے۔ دیکھا جائے تو ویسٹ انڈیز، بنگلہ دیش اور دیگر ترقی پذیر کرکٹ ٹیموں کے لیے یہ نظام بربادی کے مترادف ہو سکتا ہے کیونکہ ان ٹیموں کی عالمی سطح پر پرفارمنس کبھی بھی اس معیار کا نہیں رہی جو ان بڑی طاقتوں کی رہی  ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 2025 میں ہم ٹیسٹ کرکٹ کا حقیقی مستقبل دیکھ پائیں گے یا پھر یہ صرف ایک خوبصورت وہم ہی بن کر رہ جائے گا؟ اس سال کے آغاز میں کرکٹ کے حلقوں میں اس موضوع پر گہری بحث جاری ہے اور اس کا اثر آنے والے برسوں تک کرکٹ کی دنیا پر پڑے گا۔