اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی میں ایک بار پھر کشیدگی

اسرائیل اور حماس کے درمیان نازک جنگ بندی میں کشیدگی آئی ہے کیونکہ دونوں طرف نے معاہدے کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس نے ایک یرغمالی کو روکا، جب کہ حماس کا الزام ہے کہ اسرائیل نے معاہدے کی شرائط پر عمل نہیں کیا۔ دوسری جانب اسرائیل کہنا کہ اربل یہود کی رہائی میں تاخیر ہوئی، جسے فلسطینی اسلامی جہاد (PIJ) نے پکڑ رکھا ہے۔ اسرائیل نے اس کی رہائی کے لیے امریکی مدد کی درخواست کی ہے۔ اسی دوران سینکڑوں بے گھر فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ واپس جانے سے روکا، جس سے افراتفری پھیل گئی۔ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا ہونے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ایک فلسطینی شہید ہو گیا۔ عرب میڈیا کے مطابق فلسطینیوں نے شمالی غزہ میں اپنے گھروں کی واپسی کا انتظار کیا اور رات سڑکوں پر گزار کر صبح کے وقت وہاں پہنچے۔ تاہم جب وہ شمالی غزہ پہنچے، اسرائیلی فوج نے ان پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ایک فلسطینی شہید ہو گیا۔ حماس نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد میں تاخیر کر رہا ہے جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ حماس نے اسرائیلی یرغمالی خاتون کی رہائی میں تاخیر کی جس کی وجہ سے فلسطینیوں کی واپسی میں بھی رکاوٹ پیدا ہوئی۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں اسرائیلی فریق کی جانب سے مسلسل تاخیر ہو رہی ہے۔ عرب میڈیا نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ جنین میں اسرائیلی فوج کا آپریشن جاری ہے جس میں ایک بچی سمیت دو فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ یہ حملے اس وقت ہو رہے ہیں جب عالمی سطح پر غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سوئٹزرلینڈ میں ہیلتھ ورکرز نے یو این دفاتر کے باہر احتجاج کیا اور غزہ میں مستقل جنگ بندی کی حمایت کی۔ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 47,283 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ ایک لاکھ 11 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔ اس دوران حماس نے جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے میں چار اسرائیلی خواتین فوجیوں کو رہا کیا تھا جس کے بدلے میں اسرائیل نے 200 فلسطینیوں کو رہا کیا تھا۔
جماعت اسلامی کا 31 جنوری کو احتجاج، دھرنوں کا اعلان

جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ جب 17 آئی پی پیز سے ڈیل ہوگئی ہے تو حکومت بجلی سستی کیوں نہیں کررہی؟ 31 جنوری کو احتجاجی مظاہرے ہوں گے اور دھرنے بھی دیے جائیں گے۔ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ یہ سب حکومتیں اس معاملے میں ایک ہیں کہ مافیاز کو سپورٹ کیا ہے،انہوں نے ائی پی پیز پرکوئی قدغن نہیں لگائی اور عوام کا خون نچوڑا ہے بجلی کے بل بڑھائے ہیں، ٹیکس اس میں بڑھائے ہیں، پیٹرول کی لیوی پر سب کا اتفاق ہے۔ہر دور میں عوام کو برباد کرنے کا سامان یہ کرتے ہیں اور چند لوگوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں، جاگیرداروں پر ٹیکس نہیں لگاتے شوگر مافیا کو سپورٹ کرتے ہیں،گنا مافیا کو سپورٹ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسان تباہ ہوگئے۔ حکمران گندم کا ریٹ صحیح نہیں لگاتے۔ بڑے جاگیرداروں سے ان کی ساز باز ہے اور چھوٹے کاشتکاروں کا بیڑا غرق کر کے جونیشنل فوڈ سیکیورٹی ہے اس کے حوالے سے بھی ایک بحران پیدا ہو گیا ہے لہذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس پارلیمنٹ کے اس شرمناک رویے کو عوام کا خون نچوڑو اور اپنی تنخواہیں بڑھاؤ۔ اس کو مسترد کرتے ہیں اور یہ ساری جماعتیں اس کی ذمہ دار ہیں ۔ قوم انشاءاللہ ان سے حساب لے۔ جماعت اسلامی کا ائی پی پیز کے حوالے سے واضح موقف تھا جب کوئی نہیں بولا تو ہم نے قوم کی ترجمانی کی ہے اور احتجاج بھی کیا ہے دھرنے بھی دیے ہیں، معاہدہ بھی ہوا ہڑتال بھی کی اور اس وقت بھی حکومت بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ پانچ ائی پی پیز سے بات ہو گئی ہے ،18 ائی پی پیز سے رینگوچیٹ ہو گیا 17 ائی پی پیز سی ڈیل ہو گئی ۔ حافظ نعیم الرحمان نے سوال اٹھایا ہے کہ جب یہ ڈیل ہو گئی ہے اور ہزار ارب روپے کا فائدہ خزانے کو ہو رہا ہےتو عوام کو اس کا فائدہ کیوں نہیں پہنچ رہا ۔ 31 تاریخ کو انشاءاللہ احتجاجی مظاہرے، دھرنے دیے جائیں گے اور اسی میں ہم انشاءاللہ آئندہ کا بھی پورا روڈ میپ دیں گے از سرنو بڑے پیمانے پر عوامی سطح پرتحریک شروع کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ امپورٹ اگر کم ہوئی ہے اور ایکسپورٹ زیادہ ہوئی ہے ان کو کب تک خوشی رہے گی، امپورٹ اور ایکسپورٹ کی پالیسی کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، قانون بنانے میں عارضی کام اور رکاوٹیں ڈالنے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا، انرجی کو اسان بنائیں یوٹیلٹیز کو آسان بنائیں انڈسٹری خود بخود بہتر ہونا شروع ہو جائے گی، ایکسپورٹ بڑھنا شروع ہو جائے گی۔ ایران سے تجارت کرنی ہے تو حکومتی سطح پر کی جائے اور کھل کر کی جائے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن پر کام کریں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن پہ کام اس لیے نہیں کیا جارہا کہ امریکا ناراض ہو جائے گا اور امریکا کی ناراضگی کوئی بھی حکومت نہیں مول نہیں لیتی ۔ آصف ززداری گزشتہ دور حکومت میں جاتے جاتے پاک ایران گیس پائپ لائن پر کام شروع کرگئے تھے اب دوبارہ صدر بنے ہیں تو یہ کام کریں ۔ذرا امریکا سے بات کریں ۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تو شروع سے یہ مطالبہ کیا کہ فارم 45 پرایک کمیشن قائم ہو جو فارم 45 دیکھتا جائے اور فیصلہ کر دیا جائے۔ بدقسمتی سے یہ جو اپوزیشن بنی اس نے وہ مطالبے سے ہٹ گئی۔ اوراس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ نیا الیکشن کرایا جائے۔ یہ مطالبہ صرف پی ٹی آئی ہی نہیں کررہی بلکہ مولانا فضل الرحمان بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ ایک طرف لیگل ڈاکومنٹ بھی موجود ہے اور اس کی بنیاد پر حکومت بھی بدل سکتے ہیں تو وہ مطالبہ کر کے پریشر ڈالیں بجائے اس کے کہ ری الیکشن کروائے جائیں ۔
سیف علی خان کے 15 ہزار کروڑ داؤ پر لگ گئے

معروف بالی وڈ اداکار سیف علی خان اس وقت ایک قانونی تنازعے میں گھِرے ہوئے ہیں جس کی جڑیں پاکستان سے جڑتی ہیں،بالی ووڈ کے اس اسٹار پر چاقو سےحملے کی خبریں تو میڈیا کی سرخیوں میں رہ چکی ہیں لیکن اب ان کی جائیداد اور پاکستان سے تعلق کا تنازعہ زیادہ زور پکڑ چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا انڈیا کی حکومت سیف علی خان کی 15 ہزار کروڑ روپے مالیت کی جائیداد ضبط کرنے جا رہی ہے؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کی وجہ کیا ہو گی؟ بھوپال کا شاہی خاندان اور پاکستان کا تعلق یہ تمام تنازعہ اس جائیداد کے حوالے سے ہے جو بھوپال کے نواب خاندان کی موروثی ملکیت تھی۔ ہندوستان کی آزادی سے پہلے بھوپال ایک شاہی ریاست تھی اور اس کے نواب حمید اللہ خان کی سب سے بڑی بیٹی عابدہ سلطان 1948 میں پاکستان چلی گئیں۔ اس کے بعد 2015 میں حکومتِ ہند نے اس زمین کو “دشمن کی جائیداد” قرار دے دیا، اس ایک فیصلے نے پورے تنازعے کو جنم دیا، اور سوالات اٹھنے لگے کہ اس جائیداد کا کیا ہوگا؟ پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1965 کی جنگ کے بعد “اینیمی پراپرٹی ایکٹ” منظور کیا گیا تھا جس کے تحت وہ افراد جنہوں نے انڈیا چھوڑ کر پاکستان کا رخ کیا ان کی جائیدادوں اور کاروباروں کا کنٹرول حکومتِ انڈیا نے سنبھال لیا۔ اس قانون کے مطابق پاکستان یا چین کی شہریت اختیار کرنے والے افراد کی جائیداد “دشمن کی جائیداد” قرار پاتی ہے اور ان کا انتظام حکومت کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ دوسری جانب سیف علی خان کی جائیداد میں کئی اہم جائیدادیں شامل ہیں جن میں بھوپال کی موروثی جائیداد “فلیگ سٹاف ہاؤس”، “نور الصباح پیلس”، “دارالسلام”، “حبیبی بنگلہ”، “احمد آباد پیلس”، اور “کوہِ فضا” کی پراپرٹیز شامل ہیں۔ قبل ازیں جب حکومتِ ہند نے 2015 میں ان جائیدادوں کو “دشمن کی جائیداد” قرار دیا تو سیف علی خان کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا ہو گیا۔ ان کی والدہ شرمیلا ٹیگور اور خود سیف علی خان نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس فیصلے کے خلاف قانونی جنگ شروع کر دی۔ سیف علی خان کا اس جائیداد سے تعلق اس وقت بنتا ہے جب ہم عابدہ سلطان کی کہانی پر نظر ڈالیں۔ عابدہ سلطان جو بھوپال کے نواب حمید اللہ خان کی بیٹی تھیں،انہوں نے 1948 میں پاکستان جانے کا فیصلہ کیااور اس فیصلے کے بعد ان کی جائیداد پر حکومت انڈیا نے اپنا قبضہ جمانا شروع کیا۔ 2015 میں جب حکومتِ انڈیا نے ان جائیدادوں کو “دشمن کی جائیداد” قرار دیا، تو یہ بات مزید پیچیدہ ہو گئی کہ آیا سیف علی خان ان جائیدادوں کے قانونی وارث ہیں یا نہیں؟ بی بی سی اردو کے مطابق سیف علی خان اور ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ یہ جائیدادیں دراصل ان کی دادی ساجدہ سلطان کی ہیں اور اس پر ان کا قانونی حق ہے۔ ساجدہ کی شادی پٹودی کے نواب افتخار علی خان سے ہوئی تھی جو انڈیا کے سابق کرکٹ کپتان منصور علی خان پٹودی کے والد تھے اور سیف علی خان کے دادا تھے۔ اس بنیاد پر سیف علی خان کے وکلا کا موقف ہے کہ یہ جائیدادیں “دشمن کی جائیداد” قرار نہیں دی جا سکتیں کیونکہ یہ انڈیا میں واقع ہیں اور اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دسمبر 2024 میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے اس تنازعے پر فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ سیف علی خان اور ان کے خاندان کو اینیمی پراپرٹی ایکٹ کے تحت اپیل دائر کرنی ہو گی۔ اس فیصلے کے بعد یہ سوالات مزید گمبھیر ہو گئے کہ آیا سیف علی خان کی 15 ہزار کروڑ کی جائیداد حکومتِ انڈیا کے قبضے میں چلی جائے گی یا وہ اس قانونی جنگ میں کامیاب ہو پائیں گے۔ اس وقت تمام نظریں اس قانونی جنگ پر مرکوز ہیں اور کوئی بھی یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ سیف علی خان کی جائیداد پر حکومت کا قبضہ ایک پیچیدہ قانونی مسئلہ بن چکا ہے جس میں ان کے خاندان کا حق تسلیم کرنے کی جدوجہد جاری ہے۔ یہ تنازعہ صرف قانونی نہیں بلکہ انڈیا اور پاکستان کے سیاسی اور تاریخی تعلقات سے بھی جڑا ہے جس کی قیمت مالی سے بڑھ کر ایک گہرا سیاسی پہلو اختیار کر چکی ہے۔
ٹرمپ کا عالمی ادارہ صحت میں دوبارہ شمولیت پر غور، نئے ایجنٹس کی برطرفی کا اعلان

عالمی ادارہ صحت (WHO)، جو 1948 میں قائم ہوا، اس ادارے کا مقصد عالمی سطح پر صحت کی بہتری، بیماریوں کا مقابلہ اور وباؤں، بحرانوں اور قدرتی آفات کے دوران ایمرجنسی مدد فراہم کرنا ہے۔ یہ ادارہ 194 رکن ممالک کے ساتھ کام کرتا ہے جبکہ رکن ممالک اور عطیات سے فنڈنگ حاصل کرتا ہے۔ امریکا نے چندروز قبل اس ادارے سے نکلنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے نتیجے میں اس کے وسائل اور عالمی صحت کی کوششوں پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی حالیہ انتخابی ریلی میں عالمی ادارہ صحت (WHO) میں دوبارہ شمولیت کے امکان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں تاہم ساتھ ہی انہوں نے عالمی۔ادارہ صحت کی اصلاحات میں بہتری کی ضرورت پر زور دیا۔ صرف چند دن قبل ٹرمپ نے امریکا کے اس ادارے سے نکلنے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے لیکن اب وہ عالمی سطح پر امریکا کے مفادات کے لیے ایک نیا رخ اپنانا چاہتے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی اس ریلی میں کہا کہ “شاید ہم دوبارہ شمولیت پر غور کریں، لیکن انہیں کچھ صفائی کرنی ہوگی۔” انہوں نے عالمی ادارہ صحت کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اس ادارے کو بہت زیادہ رقم فراہم کرتا ہے جو اس کے مقابلے میں دوسرے ممالک خاص طور پر چین، بہت کم حصہ ڈالتے ہیں۔ ٹرمپ نے اس بات پر زور دیا کہ “1.4 بلین آبادی والاملک ‘ چین’ صرف 39 ملین ڈالر دیتا ہے جبکہ ہم 500 ملین ڈالر دیتے ہیں یہ غیر منصفانہ ہے”۔ اس کے بعد ٹرمپ نے کانگریس کے ساتھ مل کر ایک ٹیکس کٹ بل کے بارے میں بات کی جس کا مقصد نہ صرف ٹیکسوں میں کمی کرنا تھا بلکہ ان کی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے ایک وعدے کو پورا کرنا تھا جس میں ٹپس پر کوئی ٹیکس نہ لینے کی بات کی گئی تھی۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ “اب آپ کی ٹپس آپ کی ہوں گی، یہ کمال کی بات ہو گی، یہ بل امریکی عوام کے لیے ایک بڑی خوشخبری ہو گا۔” صدر نے مزید بتایا کہ ان کی حکومت امریکی ٹیکس دہندگان پر دباؤ ڈالنے والے نئے 80,000 IRS ایجنٹس کی بھرتی روکنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کر رہی ہے جن کی تنخواہیں 72 ارب ڈالر کے وفاقی بجٹ سے ادا کی جا رہی ہیں، جو انفلیشن ریڈکشن ایکٹ کے تحت مختص کیے گئے تھے۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے 88,000 ایجنٹس کو ہائر کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ آپ کے پیچھے لگ جائیں، اور ہم ایک ایسا منصوبہ تیار کر رہے ہیں جس میں ہم ان سب کو فارغ کریں گے یا شاید انہیں سرحد پر لگا دیں گے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی قیادت میں امریکا ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے جہاں نہ صرف ملک کی داخلی حالت بہتر ہو گی بلکہ عالمی سطح پر بھی امریکا کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہو گا۔ عالمی ادارہ صحت سے امریکا کی ممکنہ دوبارہ شمولیت، ٹیکس کٹ منصوبے اور IRS ایجنٹس کی برطرفی کے فیصلے نے ان کے حامیوں میں نئی امیدیں پیدا کی ہیں، جب کہ مخالفین ان اقدامات کو محض سیاسی کھیل سمجھتے ہیں۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری کا زوال: حکومتی پالیسیوں کی ناکامی یا غیر سنجیدگی؟

پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری، جو کبھی ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی تھی، آج زوال کی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف ملک کی سب سے بڑی برآمدی قوت تھی بلکہ لاکھوں خاندانوں کے روزگار کا ذریعہ بھی۔ مگر حالیہ اعدادوشمار کے مطابق، ملک کی 568 ٹیکسٹائل ملز میں سے 187 بند ہو چکی ہیں۔ یہ صرف کاروباری بحران نہیں بلکہ معیشت کے لیے ایک خطرناک الارم ہے۔ پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر ماضی میں اپنی صلاحیت اور معیار کے باعث دنیا بھر میں مشہور تھا۔ فیصل آباد، جو کبھی “پاکستان کا مانچسٹر” کہلاتا تھا، عالمی سطح پر برآمدات کا مرکز تھا۔ مگر آج، وہی صنعتی زون خاموش ہیں۔ پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، جہاں 147 ملز بند ہوچکی ہیں۔ فیصل آباد میں 31، ملتان میں 33، اور قصور میں 47 ملز کی بندش اس بحران کی شدت کو ظاہر کرتی ہے۔ ان بندشوں کے پیچھے صرف مشینیں خاموش نہیں ہوئیں، بلکہ لاکھوں خاندان بھی بے روزگاری کا شکار ہوئے ہیں۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟پاکستان میں بجلی اور گیس کی قیمتیں خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔ بجلی کی قیمت 50 روپے فی یونٹ تک جا پہنچی ہے، جس سے پیداواری لاگت ناقابل برداشت ہو گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے صنعت کو سہارا دینے کے لیے کوئی واضح پالیسی یا حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ برآمدات کا 60 فیصد فراہم کرنے والے اس شعبے کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے دباؤ کا شکار کر دیا گیا ہے۔ ڈالر کی قلت اور خام مال کی درآمد پر پابندیاں صنعت کو مزید بحران میں دھکیل رہی ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف کاروبار کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ برآمدی ہدف کو بھی ناممکن بنا رہے ہیں۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام نے سرمایہ کاری کے مواقع کو محدود کر دیا ہے۔ ایسی صورتحال میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کار لمبی مدت کی منصوبہ بندی سے گریز کر رہے ہیں۔ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ صنعت کی بحالی کے لیے اقدامات کر رہی ہے، لیکن زمینی حقائق ان دعوؤں کے برعکس ہیں۔ “ایکسپورٹ ریوائیول پیکج” اور سبسڈی کے اعلانات محض کاغذی ثابت ہوئے ہیں۔ عملی اقدامات کی کمی نے صنعت کاروں کو بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔ بنگلہ دیش اور ویتنام نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو حکومتی تعاون کے ذریعے عالمی سطح پر مستحکم کیا۔ بنگلہ دیش نے سستی بجلی، مزدوروں کو مراعات، اور جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کے ذریعے اپنی برآمدات کو مستحکم رکھا۔ دوسری طرف، پاکستان حکومتی نااہلی کے باعث اپنی موجودہ پوزیشن بھی کھو رہا ہے۔اس حوالے سے ماہرین کیا کہتے ہیں؟ سابق صدر لاہور چیمبر آف کامرس کاشف انور نے پاکستان میٹرز سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری، جو کبھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی تھی، آج شدید بحران کا شکار ہے۔ مہنگی بجلی اور گیس، غیر مستحکم معاشی پالیسیاں، بلند شرح سود، اور خام مال کی قلت اس صنعت کی بندش کی اہم وجوہات ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ عالمی مارکیٹ میں مسابقت کی کمی اور حکومت کی غیر سنجیدہ حکمت عملی نے بھی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے پیداواری لاگت کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے، جس سے برآمدات کم ہو رہی ہیں اور لاکھوں مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے حکومت کو فوری طور پر بجلی اور گیس پر سبسڈی فراہم کرنی ہوگی، کاروبار دوست اور طویل مدتی پالیسیاں بنانی ہوں گی، اور خام مال کی بروقت اور سستی فراہمی یقینی بنانی ہوگی۔ اس کے ساتھ برآمدات کی حوصلہ افزائی کے لیے خصوصی مراعات اور عالمی مارکیٹ میں مسابقت کے قابل بنانے کے لیے رعایتی قرضے دینا ناگزیر ہے۔ مضبوط حکومتی پالیسی اور عملی اقدامات ہی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی بحالی کا واحد راستہ ہیں۔ ٹیکسٹائل ایکسپرٹ غلام رسول چوہدری کے مطابق، اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔انہوں نے حکومت اور حکومتی اداروں کو تجاویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی لائی جائے تو ٹیکسٹائل پروڈکٹس کی پیداوار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔ برآمدات کے لیے سبسڈی اور خام مال کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے،ڈالر کی دستیابی اور امپورٹ پابندیوں کو ختم کیا جانا چاہئے، طویل المدتی صنعتی پالیسی کو نافذ کیا جائے تو صنعت میں استحکام آئے گا ،سرمایہ داروں کا اعتماد بڑھے گا،سیاسی استحکام ہی ملکی،غیر ملکی سرمایہ داروں کے اعتماد کی بحالی میں معاون ثابت ہوتا ہے،اگر پاکستان میں ایسا یقینی ہوجائے تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا ۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا زوال حکومتی بے حسی، ناقص منصوبہ بندی، اور نظرانداز رویے کا نتیجہ ہے۔ یہ بحران صرف ایک شعبے تک محدود نہیں بلکہ لاکھوں خاندانوں کے روزگار اور ملکی معیشت کے استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اگر حکومت نے فوری اور مؤثر اقدامات نہ کیے تو پاکستان نہ صرف اپنی برآمدی پوزیشن کھو دے گا بلکہ معیشت کو سنبھالنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ اب وقت ہے کہ حکمران خوابوں سے نکل کر حقیقت کا سامنا کریں اور اس اہم صنعت کو بچانے کے لیے عملی اقدامات کریں، ورنہ تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔
ٹرمپ کا بڑا فیصلہ:پناہ گزینوں کی مشکلات میں شدید اضافہ

امریکا میں پناہ کا عمل غیر ملکی افراد کو ظلم یا جنگ سے بچنے کے لیے پناہ کی درخواست دینے کا موقع دیتا ہے اور درخواست کے بعد امریکی حکومت درخواست دہندہ کی صورتحال کا جائزہ لیتی ہے۔اگر منظور ہو جائے تو فرد کو امریکا میں رہنے اور کام کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ دوسری جانب 24 جنوری 2025 کو امریک صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جس سے لاکھوں پناہ گزینوں، بشمول افغان باشندوں کے جنہوں نے امریکہ کی جنگی مشن میں معاونت فراہم کی تھی۔ اس فیصلے کے تحت امریکہ میں پناہ گزینوں کو فراہم کی جانے والی تمام خدمات فوری طور پر روک دی گئیں ہیں ۔ امریکی خبررساں ادارے ‘سی این این’ نے ایک مراسلے کا حصول کیا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اب پناہ گزینوں کی آبادکاری کے پروگراموں کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے آیا ہے جس میں وفاقی فنڈنگ کے تحت کام کرنے والی تمام ایجنسیز کو ہدایات دی گئی ہیں کہ وہ فوری طور پر اپنی خدمات کو معطل کر دیں۔ یہ اقدام اس بات کا غماز ہے کہ امریکا میں پہلے سے مقیم پناہ گزینوں کی زندگیوں میں ایک اور سنگین بحران آ رہا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے جس کے تحت پناہ گزینوں کی آمد کو معطل کر دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ امریکی عوامی تحفظ اور قومی سلامتی کے تحفظ کے نام پر کیا گیا تھا لیکن اس کا اثر ان ہزاروں افراد پر پڑا ہے جو سالوں سے اس پیچیدہ پروسیس کے ذریعے امریکا میں داخل ہونے کے منتظر تھے، تقریباً 10,000 پناہ گزینوں کی پروازیں منسوخ کر دی گئیں جنہیں امریکا آنے کا انتظار تھا۔ لیکن اس سے بھی بڑا دھچکا وہ مراسلہ ہے جس میں پناہ گزینوں کے لیے فراہم کی جانے والی تمام امداد کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ وہ خدمات تھیں جو پناہ گزینوں کو امریکا میں آباد ہونے کے ابتدائی تین مہینوں کے دوران فراہم کی جاتی تھیں، جیسے کیس ورکر کی مدد، رہائش کی فراہمی، اور دیگر ضروریات کی تکمیل۔ پناہ گزینوں کی آبادکاری کی ایجنسیوں کو اب یہ اطلاع دی گئی ہے کہ وہ اپنی تمام سرگرمیاں فوراً بند کر دیں، اور یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ آئندہ کسی بھی نئے خرچ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان ایجنسیوں کی مدد سے پناہ گزینوں کو امریکا میں آمد کے بعد اپنے قدم جمانے میں مدد ملتی تھی، جیسے کہ نئے ماحول میں زندگی گزارنا، ملازمت حاصل کرنا، اور معاشرتی نظام میں شامل ہونا۔ ایک پناہ گزین کے معاون نے نجی خبررساں ادارے ‘سی این این’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ”ہم پناہ گزینوں کو بے گھر ہوتے دیکھیں گے۔ جبکہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔” اس مراسلے کا اثر افغان پناہ گزینوں پر بھی پڑے گا، خاص طور پر ان افغان لوگوں پر جو امریکا کی جنگی مشن میں معاونت فراہم کر چکے ہیں اور جنہیں خصوصی ویزے کے ذریعے امریکا آنے کی اجازت دی گئی تھی۔ ان افغانوں کے لیے بھی فراہم کی جانے والی خدمات بھی اب معطل ہو گئی ہیں اور ان کے لیے آبادکاری ایجنسیوں کی حمایت کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ #AfghanEvac کے صدر ‘شاون وین ڈائیور’ جو کہ نیوی کے ریٹائرڈ افسر بھی ہیں انہوں نے کہاہے کہ “ہمیں ترجیحات کا دوبارہ جائزہ لینے اور ان کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے لیکن افغان پروگرامز کو اس سے استثنیٰ دینا ضروری ہے تاکہ ایک انسانی بحران سے بچا جا سکے،یہ ایک حل پذیر مسئلہ ہے، اور ہم انتظامیہ کے ساتھ مل کر اسے درست کرنے کے لیے تیار ہیں۔” ان کے مطابق اگر یہ مسئلہ حل نہ کیا گیا تو لاکھوں افغانوں کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔ ایک امیگریشن وکیل کا کہنا ہے کہ”اس کا مقصد خود کفالت ہے لیکن آپ لوگوں کی خدمات تک رسائی کو کم کر رہے ہیں جو ان کی خود کفالت کے عمل میں مدد دیتی ہیں۔” یعنی یہ کہ اگر ان افراد کو مدد نہیں ملے گی تو وہ کیسے خود کفیل بن پائیں گے؟ دوسری جانب یکم اکتوبر سے لے کر اب تک 30,000 سے زائد پناہ گزین امریکامیں آ چکے ہیں اور وہ تین ماہ کی مدد کے لیے اہل ہیں۔ لیکن اب وہ بالکل اکیلے ہیں کیونکہ وہ مدد جو ان کو دی جانی تھی، اب نہیں ملے گی۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس سب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کا حل کس طرح نکالا جائے گا اور کیا امریکی حکومت اس بحران سے نکلنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھائے گی۔
پاکستان کا پہلا سائبر ٹرک: تخلیق محنت اور عزم کی مثال

“یہ کہانی ہے خوابوں کی سرزمین پر ایک ایسے کارنامے کی، جو تخلیق، محنت اور عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لاہور کے سعد سہیل، جنہوں نے ایک ایسا خواب دیکھا جسے حقیقت میں ڈھالنے کی ہمت کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔ دنیا کے مشہور ٹیسلا سائبر ٹرک کی طرز پر ایک شاندار نقل اب پاکستان میں تیار ہو چکی ہے۔ سعد سہیل کے مطابق، یہ خیال انہیں تقریباً ایک سال پہلے آیا۔ ان کے دوستوں نے ان کی بھرپور سپورٹ کی، اور یوں ایک منفرد خواب کی بنیاد رکھی گئی۔ محض 10 لاکھ روپے کی لاگت اور 6 ماہ کی شب و روز محنت کے بعد، یہ پاکستانی سائبر ٹرک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سڑکوں پر چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ جب سعد اور ان کی ٹیم اسے لے کر پہلی بار سڑک پر نکلے، تو لوگ حیرت میں گم ہو گئے۔ یہ گاڑی ظاہری طور پر ٹیسلا کے مشہور سائبر ٹرک جیسی دکھائی دیتی ہے، لیکن اس کے پیچھے چھپی ہے پاکستانی ذہانت، ہنر اور لگن کی بے مثال کہانی۔ سعد سہیل اور ان کی ٹیم نے اس پراجیکٹ پر ایسا کام کیا ہے، جو ہر تفصیل میں مہارت اور تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ تاہم، جہاں اس کارنامے کی تعریف ہو رہی ہے، وہیں کچھ حلقے اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ایلان مسک کے مشہور سائبر ٹرک کی محض ایک نقل ہے، اور یہ کہ پاکستانیوں کو بجائے دوسروں کو کاپی کرنے کے، اپنے منفرد آئیڈیاز پر کام کرنا چاہیے تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایسی صلاحیتوں کو اگر تخلیقیت اور جدت کے ساتھ استعمال کیا جائے، تو یہ پاکستان کو عالمی سطح پر پہچان دلانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس گاڑی نے دھوم مچا دی ہے۔ اسے ’پاکستانی ٹیسلا‘ کا خطاب ملا ہے، اور تصاویر و ویڈیوز نے لاکھوں دلوں کو جیت لیا ہے۔ لیکن تعریفوں کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ہمیں صرف نقل پر اکتفا کرنا چاہیے یا کچھ نیا اور منفرد تخلیق کرنے کی طرف بڑھنا چاہیے؟ سعد سہیل کا کہنا ہے کہ یہ ان کا پہلا پراجیکٹ ہے، اور وہ مستقبل میں مزید منفرد اور تخلیقی آئیڈیاز پر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ سائبر ٹرک صرف ایک گاڑی نہیں، بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب خوابوں کو محنت اور جذبے کا سہارا ملے، تو کچھ بھی ممکن ہے۔ یہ کہانی پاکستان کے ہنر مند ذہنوں کی ہے—ایک ایسی قوم کی، جو اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینا جانتی ہے، مگر تنقید یہ بھی ہے کہ اس حقیقت کو تخلیقیت اور انفرادیت کا رنگ دینا اب وقت کی ضرورت ہے۔”
پاکستان نے علامتی غلامی چھوڑ کر دوبارہ کیوں اختیار کی؟

دولت مشترکہ (کامن ویلتھ) 56 آزاد ممالک کی عالمی تنظیم ہے جو کہ جمہوریت ثقافت اور اقتصادی تعاون کے فروغ، قانونی کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے کام کرتی ہے، دولت مشترکہ ممالک میں سے زیادہ تر وہ ملک ہیں جو برطانوی راج سے آزاد ہوئے ہیں۔ دولت مشترکہ دنیا کی 30 فیصد سے زائد آبادی اور 20 فیصد سے زائد رقبے پر پھیلی ہوئی ہےجو کہ عالمی معیشت میں 16 فیصد حصہ ڈالتی ہے۔ ہر 4 سال بعد دولت مشترکہ ممالک کے مابین کھیلوں کے مقابلے بھی ہوتے ہیں۔ دولت مشترکہ ممالک میں سڑک اور پٹری کے بائیں جانب سفری نظام اور امریکی انگریزی کی بجائے برطانوی انگریزی کا استعمال کیا جاتا ہے، اس کا صدر دفتر برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں واقع ہے۔ پاکستان نے بھی آزادی کے بعد 1947 میں ہی دولت مشترکہ تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی تھی، لیکن 30 جنوری 1972 میں وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے برطانیہ کی جانب سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے پر احتجاجاً دولت مشترکہ سے علیحدگی کا اعلان کر دیا، بھٹو کے اس اقدام کے باعث برطانیہ میں موجود تارکین وطن کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دولت مشترکہ سے علیحدگی کے بعد پاکستان کے لئے کامن ویلتھ کے ترقیاتی پروگراموں سے استفادے کے مواقع ختم ہو گئے، عالمی تعلقات بھی متاثر ہوئے اور کئی دہائیوں تک اقتصادی اور سفارتی ساکھ کو تقصان پہنچتا رہا۔ 80 کی دہائی میں پاکستان نے ایک بار پھر سے دولت مشترکہ میں شمولیت اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، جمہوریت کی بحالی اور عالمی تعلقات کی مضبوطی کے لئے اس تنظیم کا دوبارہ حصہ بننے کی کوشش کی گئی، 1989 میں بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں پاکستان دوبارہ دولت مشترکہ کا حصہ بن گیا۔ دولت مشترکہ رکنیت بحال ہوتے ہی پاکستان کو تجارتی، اقتصادی اور تعلیمی پروگراموں میں دوبارہ شمولیت کا موقع ملا، پاکستان نے اس پلیٹ فارم کے ذریعے عالمی برادری تک اپنا مؤقف پہنچایا اور بین الاقوامی سطح پر اپنی ساکھ کو بحال کرنے کے سفر کا آغاز کیا۔ پاکستان کا برطانیہ سے آزادی کے بعد اس علامتی غلامی (کامن ویلتھ) کو اختیار کرنا، پھر سے الگ ہو کر دوبارہ حصہ بننے کا سفر عالمی تعلقات کی پیچیدگیاں اور ملکی مفادات کے لئے بین الاقوامی پلیٹ فارمز کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغیات کے پروفیسر ڈاکٹر نوید اقبال نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے دولت مشترکہ سے علیحدگی کے فیصلے پر روشنی ڈالی۔ انہوں کا کہنا ہے کہ “جدید دنیا میں کوئی بھی ملک تنہا گزارا نہیں کر سکتا۔ اسے اپنے خارجی تعلقات ہر ایک کے ساتھ بنا کر رکھنے ہوتے ہیں۔ پاکستان کو پہلا نقصان یہی ہوا کہ بین القوامی سطح پر کسی حد تک ساکھ متاثر ہوئی، کیونکہ پاکستان بنے کے کچھ ہی سال بعد جمہوریت حکومت کے خاتمہ کے بعد فوجی حکومت آئی تھی۔دوسرا پاکستان کو نقصان تب ہوا جب پاکستان نے دولت مشترکہ سے علحیدگی اختیار کی تھی کیونکہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے تو پاکستان میں معیشت پر قابو پانے کے لیے دولت مشترکہ جیسے اداروں کی اشد ضرورت تھی”۔ دوسری جانب اس حوالے سے ماہر بین الاقوامی تعلقات محمد بلال نے پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفگو کرتے ہوئے کہا کہ “1972 میں پاکستان نے کامن ویلتھ چھوڑ دی تھی۔ پھر 1989 میں واپس آیا۔ اس کے بعد 2004 میں پاکستان کو سسپینڈ کردیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان دوبارہ 2008 کے اندر آگیا۔ کامن ویلتھ ایک کالونیالیزم کی نشانی ہے۔ اور کالونیالیزم کی آسان ترین تعریف یہ ہے کہ جب سے کلونیل پاؤرز نے کالونیوں کو چھوڑا ہے تو وہاں پہ وہ اپنا سسٹم اور اپنی سوچ دے کر گئے۔ اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ جب حضرت موسیؑ جس وقت بنی اسرائیل کو لے کر نکلے ہیں تو وہاں بنی اسرائیل نے خود دیکھا کس طرح ریڈ سی پھٹا کس طرح راستہ بنا فرعون ڈوبا”۔ محمد بلال نے مزید کہا کہ “اس سے پہلے بھی انہوں نے حضرت موسیؑ کے معجزات دیکھے۔ لیکن جیسے ہی موسیؑ کوہ طور پر پیغام لے جاتے ہیں تو پیچھے سے سامری ایک بچھڑا بناتا ہے اسی طرح کا بچھڑا جس کی پوجا مصری کرتے ہیں۔ اور اس کی پوجا شروع ہوجاتی ہے کہ یہ کیا ہوا ہے موسیؑ نیچے اترتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کیا ہوا ہے اپنے بھائی حضرتِ ہارونؑ کو ڈانٹتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ کلیونیٹیز کا مطلب یہ ہے کہ آپ جسمانی طور پر تو نکل جاتے ہیں لیکن ذہنی لحاظ سے آپ غلام رہتے ہو ان کلونیل ماسٹرز کے اور کلونیل پاؤرز کے”۔ کامن ویلتھ سے علیحدگی کے بعد چیلنجز پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نوید اقبال نے کہا کہ “میں سمجھتا ہوں کہ 2 بڑے چیلنجز تھے ایک پاکستان عالمی سطح پر ساخت کی بحالی کا تھا، کیونکہ پاکستان کا دشمن ملک بھارت پاکستان کو عالمی سطح پر نقصان کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے کہ پاکستان کو عالمی تنہائی میں دیکھیلا جائے۔ پاکستان کو دوسرا بڑا چیلنج اس دورانیہ میں معیشت کا تھا۔ اسا دورانیہ میں پاکستاں کی معیشت خراب تھی اور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں کی جارہی تھی۔ لیکن رکنیت ختم ہونے کے سبب پاکستان کو اس طرح سے فائدہ نہ ہو سکا، نہ معیشت بحال ہو پائی اور نہ ہی تجارت میں بہتری آ سکی”۔ دوسری جانب محمد بلال کے نزدیک “پاکستان کو کیا ہے تھوڑی سی سپورٹ لیکن اس چیز کے بدلے میں آپ اس چیز کے بدلے میں ان کا کنٹرول جو ہے وہ بہت زیادہ ہم پر بڑھ جاتا ہے۔ آج بھی آپ دیکھ لیں کہ ہم سمجھتے ہیں کے جو پڑھا لکھا بندہ ہے وہ امریکہ سے یا برطانیہ سے پڑھ کر آیا ہے۔ اپنی ڈگریوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ انکی تعلیم کو اور انکی ڈگریوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ کی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے لیکن ہماری خط و کتابت ساری انگریزی میں ہے۔ جو اپنا نظام اور کلونیلٹی چھوڑ کر گئے ہیں ابھی تک اسی کی پیروی کررہے ہیں۔ انہی کے نظام تلے دبے ہوئے ہیں”۔ دولت مشترکہ میں