“ابھی موقع ہے ڈریں مت”، “کشمیر بزورِ شمشیر ہی آزاد ہوگا”

 اسلام آباد میں منعقدہ قومی کشمیر کانفرنس میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے کہا کہ “ابھی موقع ہے ڈریں مت، کشمیر بزورِ شمشیر ہی آزاد ہوگا”۔ امیر جماعت اسلامی کی صدارت میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے سیاسی، سماجی و مذہبی رہنماؤں اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے نمائندوں نے شرکت کی۔ سینیٹر مشاہد حسین سید،  سردار عتیق خان، نیر بخاری، عبدالرشید ترابی، مقبوضہ کشمیر سے کشمیری رہنما غلام محمد صفی، عبداللہ گل، آصف لقمان قاضی بھی کانفرنس میں شریک تھے۔

وضاحت کی جائے کہ جنرل باجوہ دور میں کشمیر پر کیا ڈیل ہوئی، حافظ نعیم الرحمان

امیر جماعت اسلامی پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ قومی یکسوئی کےلیے وضاحت کی جائے کہ جنرل باجوہ دور میں کشمیر پر کیا ڈیل ہوئی، آئی ایس پی آر اس پرایک وضاحتی بیان جاری کرکے پوری قوم کو یہ میسج دے کہ حکومت اور فوج کی سطح پر ہم انڈیا کے خلاف ہیں۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان نے لاہور میں ’یوم یکہجتی کشمیر‘ مارچ سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان کوانڈیا کی جارحیت کے خلاف ہیں اور کشمیریوں کی آزادی کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اور عملی اقدامات سے اس بات کا اظہار کرنا پڑے گا۔  ’پوری پاکستانی قوم یہ سمجھتی ہے کہ ہم کسی جرنیل کی ڈیل کو نہیں مانتے ہم کسی وزیراعظم کی ڈیل کو نہیں مانتے، یہ 25 کروڑ لوگوں کا معاملہ ہے یہ  ڈیڑھ کروڑ سے زائد کشمیریوں کا معاملہ ہے ۔ ریاست جموں و کشمیر ان کا یہ حق ہے کہ انہیں رائٹ ٹو سیلف ڈیٹرمینیشن  ملنا چاہیے‘۔ حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ کیا پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام اور پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی اور پاکستان کی اتنی بڑی فوج صرف بیان دینے کے لیے ہے یا اپنے انٹرنل معاملات کو ایڈریس کرنے کے لیے ہے، پاکستانی فوج کا کوئی جواز ہی نہیں ہے جب تک کہ وہ انڈیا کے مقابلے میں اگے بڑھ کر کھڑی نہ ہو اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کریں۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے حکمران طبقے میں سے کوئی بھی مودی کے ساتھ سازباز کرنا چاہتا ہے ، کوئی بھی یہ بات کہتا ہے کہ کشمیر کو بیڈ برنر پہ رکھو۔ آلو پیاز ٹماٹر کی تجارت کرو، تو پاکستانی قوم ایسے سارے حکمرانوں کو غدار قرار دے کر عبرت کا نشان بنا دے جو کشمیریوں کے خون کا سودا کرے، حکمران چھوٹی چھوٹی تجارتوں کے اوپر لگ جائیں، ہم قبول نہیں کریں گے۔  ’پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے بغیر کوئی مذاکرات پائیدار نہیں ہو سکتے اور کوئی اس میں بات چیت نہیں ہو سکتی ۔ اس میں کشمیریوں کی حریت  کانفرنس کو فریق بنایا جائے اور اس کے نتیجے میں ایک کمپری ہینسو پالیسی بناتے ہوئے کشمیریوں کے حق خودرادیت کو پوری دنیا کے سامنے لایا جائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ڈپلومیسی کی محاذ پر بہت کوتاہیاں کر لی ہے اب پوری دنیا میں کشمیریوں کا مقدمہ لڑنا پڑے گا، ہم پرامن لوگ ہیں ، ہم اس طرح کی جنگ نہیں چاہتے کہ جس میں تباہ کاری ہوتی ہے ۔ لیکن جب کوئی ہماری شہ رگ پر پیر رکھ کر کھڑا ہوگا تو پھر ہم تماشہ بھی نہیں دیکھ سکتے۔ ’افغانستان سے بامعنی مذاکرات کیے جائیں‘  امیر جماعت اسلامی نے افغانستان کے مسئلے پر بھی بات کی اور کہا کہ ’میں حکمرانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ افغانستان کے مسئلے کو کول ڈاؤن کیا جائے، افغانستان سے بامعنی مذاکرات کیے جائیں، ہماری پختون اور بلوچ بیلٹ پر وہ اقدامات کیے جائیں ، جس سے پوری قومی یکجہتی کا تاثر بنے ، بلوچ اگر ناراض ہیں تو ان سے بیٹھ کر بات کریں اور ان کی ناراضی کو دور کیا جائے۔ پختونوں میں اگرغلط فہمیاں ہیں یا وہاں کے حالات بگڑ گئے ہیں تو اس کو بگاڑنے میں خود حکمرانوں کا کام ہے، خزیداروں کا اگر کام ہے تو بیٹھ کر مذاکرات کریں، ایک اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح قائد اعظم  نے کہا تھا کہ ہماری پوری  قبائلی بیلٹ ہے اس میں تو ہمیں فوج رکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، یہ تو خود ہماری فوج کا کردار ادا کر رہی ہے ، جب یہ ہماری فوج کا کردارادا کر رہی ہے تو پھراس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں سے فوج کو پیچھے کی طرف لایا جائے، لیکن اس کے لیے حالات کو بہتر بنایا جائے، ترقی دی جائے اور روزگار مہیا کیا جائے، ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے ۔  حافظ نعیم  نے نریندر مودی کے حالیہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا مودی کچھ عرصے سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے آداب کشمیر کا تذکرہ کرتا ہے ۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ آزاد کشمیر میں لوگوں کو با اختیار بنایا جائے۔ نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار دیا جائے، ہم آزاد کشمیر کے لوگوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پورا پاکستان تمہارے لیے کھلا ہوا ہے لاہور بھی تمہارا ہے، راولپنڈی بھی تمہارا ہے۔ اوراسی طرح کراچی بھی تمہارا ہے،پورا پاکستان تمہارا ہے۔ انڈیا کبھی بھی کشمیر کے لوگوں کا حامی نہیں ہو سکتا، مددگار نہیں ہو سکتا اور سبق سیکھتا ہے تو بنگلہ دیش سے سیکھ لو وہاں بھی کچھ لوگوں نے سمجھا تھا کہ انڈیا کے ساتھ چلیں گے تو ہمیں بہت آزادی مل جائے گی لیکن پوری بنگلہ قوم انڈیا کے خلاف اٹھ کر کھڑی ہو گئی ہے۔ انڈیا پاکستان کے بھی خلاف ہے، کشمیر کے عوام کے بھی خلاف ہیں لہذا حالات کو سمجھا جائے اور سب مل کر متفقہ طور پر پوری پاکستانی اور کشمیری قوم ایک پیج پرکھڑی ہو۔ اپنی وادی کے لوگوں کو یہ واضح پیغام دیں کہ ہم سب کشمیری عوام کی جدوجہد کے ساتھ ہیں ان کے شہداء کے ساتھ ہیں ان کے زخمیوں کے ساتھ ہیں،ان کی ماؤں بہنوں کے ساتھ ہیں ان کے اسیروں کے ساتھ ہیں اور ایک نئے عزم سے اس مقدمے کو پیش کریں گے ۔

غزہ پر قبضے کا اعلان، ٹرمپ کو امریکہ کے اندر سے مخالفت کا سامنا

امریکی صدر کے غزہ پر قبضے کے اعلان کے بعد امریکا کے اندر سے ہی حکام نے ٹرمپ کے اس بیان کی محالفت کر دی۔ سینیٹر کرس مرفی نے ایکس پر لکھا کہ ٹرمپ مکمل طور پر اپنا دماغ کھو چکے ہیں۔ غزہ پر امریکی حملہ ہزاروں امریکی فوجیوں کے قتل اور مشرق وسطیٰ میں کئی دہائیوں کی جنگ کا باعث بنے گا۔ یہ ایک بھیانک مذاق کی طرح ہے۔ ایک اور امریکی سینیٹرکرس وان ہولان نے کہا ہے کہ”یہ اعلان خطے میں ہمارے عرب شراکت داروں کو کمزور کرتے ہوئے ایران اور دیگر مخالفین کو حملہ کرنے پہ اکسائے گا”۔ ڈیموکریٹ نے کہا کہ “ٹرمپ کی تجویز دو ریاستی حل کے لیے کئی دہائیوں کی دو طرفہ امریکی حمایت کی نفی کرتی ہے۔ کانگریس کو اس خطرناک اور لاپرواہ منصوبےکا مقابلہ کرنا چاہیے”۔

یومِ یکجہتی کشمیر: کشمیریوں کی آزادی تک پاکستان کا عزمِ جواں

پاکستانی عوام 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر کے طور پر مناتے ہیں، جس کا مقصد کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ اپنے غیر متزلزل عزم کا اظہار کرنا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور ان کے حقِ خودارادیت کی حمایت میں عالمی برادری کو متحرک کرنا ہے۔ اس موقع پر مختلف پاکستانی رہنماؤں نے اپنے پیغامات میں کشمیریوں کے عزم و حوصلے کی تعریف کی اور بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و جبر کے خلاف عالمی برادری سے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ یومِ یکجہتی کشمیر کے اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے یومِ یکجہتی کشمیر پر بیان دیتے کہا کہ پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کے ساتھ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں معاشی استحکام اور ترقی کے لیے سب کی مشترکہ محنت کی ضرورت پر زور دیا اور عالمی برادری سے کشمیر میں بھارتی ظلم کا نوٹس لینے اور کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس موقعہ پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے یومِ یکجہتی کشمیر پر اپنے پیغام میں کہا کہ “کشمیری عوام آزادی کا سورج جلد دیکھیں گے۔” انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی کے دل میں کشمیر کی محبت خون کی مانند دوڑتی ہے اور کشمیری شہداء کے خون کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی بربریت نے جنت نظیر وادی کو جیل میں تبدیل کر دیا ہے، لیکن اس کے باوجود کشمیری عوام اپنے حقِ خودارادیت کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔ مریم نواز نے اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں اور خونریزی کے خلاف فوری طور پر اپنا کردار ادا کریں۔ یہ بھی پڑھیں:’حکمران کشمیر پر سودے بازی سے باز رہیں ‘ کراچی کشمیر کانفرنس کے شرکا کا مطالبہ اس کے علاوہ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے بھی یومِ یکجہتی کشمیر پر اپنے پیغام میں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ “اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری کو کشمیریوں سے 77 سال قبل کیے گئے وعدوں کا احترام کرنا ہوگا۔” صدر زرداری کا کہنا تھا کہ بھارت کشمیریوں کے حقوق چھین رہا ہے، اور مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عالمی برادری کے لیے ایک سنگین چیلنج ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو غیر قانونی اقدامات کے ذریعے کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی، جس سے کشمیری عوام کی جدوجہد مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ “کسی بھی قسم کا ظلم کشمیریوں کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتا، اور پاکستان ہمیشہ اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا رہے گا۔“ دوسری جانب صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے بھی اپنے پیغام میں کہا کہ “بھارت کی ہندوتوا پالیسیوں کے باعث بھارت کا شیرازہ جلد بکھر جائے گا، اور مودی بھارت کا گورباچوف ثابت ہوگا۔” انہوں نے کشمیری عوام کے حوصلے اور استقلال کو سراہتے ہوئے کہا کہ بھارت کے ظلم و جبر کے باوجود کشمیری اپنی جدوجہد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے بھی یومِ یکجہتی کشمیر پر اپنے پیغام میں کہا کہ “یہ دن پاکستان اور کشمیر کے عوام کے لازوال رشتہ کی علامت ہے۔” انہوں نے کشمیری عوام کی جدوجہد کو سراہا اور کہا کہ وہ دن دور نہیں جب کشمیری عوام آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہوں گے۔ چوہدری انوار الحق نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ بھارت کے انتہا پسندانہ اقدامات کا نوٹس لے اور کشمیری عوام کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ان کا حقِ خودارادیت دلانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ یومِ یکجہتی کشمیر کے اس موقع پر پاکستانی رہنماؤں نے عالمی برادری سے سخت مطالبات کیے ہیں۔ اقوامِ متحدہ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا نوٹس لے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ یومِ یکجہتی کشمیر پاکستان اور کشمیری عوام کے لازوال رشتہ کو ثابت کرتا ہے۔ جس میں کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کا عہد کیا جاتا ہے۔ اس دن کے موقع پر پاکستانی رہنماؤں نے کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے عالمی برادری کی ذمہ داریوں کو اجاگر کیا اور کشمیری عوام کی جدوجہد کو کامیاب بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ یہ دن ایک یاددہانی ہے کہ کشمیر کے لوگ اپنے حق کے لیے مسلسل جدو جہد کر رہے ہیں اور وہ وقت قریب ہے جب انہیں آزادی کی نعمت نصیب ہوگی۔ مزید پڑیھیں:اسماعیلیوں کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان انتقال کر گئے

اسرائیلی حملوں میں غزہ میں شہید ہونے والوں کی تعداد 61 ہزار ہوگئی

اسرائیلی حملوں میں غزہ میں شہید ہونے والوں کی تعداد 61 ہزار ہوگئی۔ اطلاعات کے مطابق غزہ میں ہونے والے اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والوں میں کُل 61 ہزار لوگ شہید ہوئے ہیں۔ اسرائیلی حملوں سے شہید ہونے والوں کی تعداد پہلے 48 ہزار بتائی جا رہی تھی۔  

اسماعیلیوں کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان انتقال کر گئے

پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں 88 برس کی عمر میں اسماعیلی برادری کے روحانی امام، عالمی سطح پر فلاحی کاموں کے بے تاج بادشاہ، اور ارب پتی ’شہزادہ‘ کریم آغا خان انتقال کر گئے۔ ان کی وفات ایک ایسا سانحہ ہے وہ 68 برس تک اسماعیلی شیعہ مسلمانوں کے امام رہے اور دنیا بھر میں اپنی فلاحی خدمات اور سرمایہ کاری کے ذریعے ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) نے اپنے بیان میں ان کی وفات کی تصدیق کی اور کہا کہ شہزادہ کریم آغا خان اپنی آخری سانسیں اپنے اہل خانہ کے درمیان اور پر سکون طور پر لے رہے تھے۔ ان کی وفات نہ صرف اسماعیلی کمیونٹی بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک گہرا دھچکہ ہے کیونکہ آغا خان کا شمار دنیا کے عظیم ترین فلاحی رہنماؤں میں کیا جاتا ہے۔ ان کے زیر انتظام چلنے والی تنظیمیں اور منصوبے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی زندگی بدلنے کا باعث بنے ہیں۔ کریم آغا خان کا نام دنیا بھر میں فلاحی کاموں، معاشرتی ترقی، اور انسان دوستی کے حوالے سے معروف ہے۔ اُن کی قیادت میں آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک نے تقریباً 35 ممالک میں غربت کے خاتمے اور انسانوں کی زندگی بہتر بنانے کے لئے بے شمار منصوبوں کا آغاز کیا۔ ان کی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ ان کے زیر انتظام کام کرنے والی تنظیمیں، جیسے آغا خان فاؤنڈیشن، آغا خان ہیلتھ سروسز، اور آغا خان ایجنسی فار مائیکرو فنانس، دنیا بھر میں تعلیمی اداروں، اسپتالوں، اور فلاحی منصوبوں کی کامیاب مثالیں پیش کرتی ہیں۔ اگرچہ کریم آغا خان کا دل انسانیت کے لیے دھڑکتا تھا، لیکن ان کی زندگی میں اتنی ہی شاہانہ شان و شوکت بھی تھی۔ انہوں نے نہ صرف اسماعیلی برادری کی قیادت کی بلکہ اپنے ذاتی طور پر بھی ایک فلاحی اور کاروباری شخصیت کے طور پر دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ ضرور پڑھیں: طالبان حکومت میں خواتین پر تعلیمی پابندی: وزارت خارجہ کے سینیئر وزیر کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑ ا شہزادہ کریم آغا خان کا کردار صرف ایک روحانی پیشوا تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ ایک عالمی سطح کے کاروباری اور فلاحی رہنما بھی تھے۔ ان کی نظر کا دائرہ انتہائی وسیع تھا اور اسی وسیع دائرے کے تحت ان کی سرمایہ کاریوں نے انہیں ایک عظیم سرمایہ دار بننے کے ساتھ ساتھ ایک انسان دوست رہنما بھی بنایا۔ فوربز میگزین کے مطابق 2008 میں ان کی دولت کا تخمینہ ایک ارب ڈالر تک پہنچا تھا لیکن ان کی اصل وراثت ان کی فلاحی خدمات اور معاشرتی ترقی کے منصوبے ہیں۔ ان کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ان کے اداروں اور منصوبوں میں دیکھی جا سکتی ہے جنھوں نے دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی زندگیوں میں تبدیلی لائی۔ آغا خان فاؤنڈیشن کی مدد سے پاکستان کے دور دراز علاقوں میں تعلیمی ادارے، صحت کے مراکز اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبے کامیابی سے چل رہے ہیں۔ ان کا پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان میں ترقیاتی کاموں میں بھی اہم کردار رہا جہاں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام نے علاقے کی تقدیر بدل ڈالی۔ کریم آغا خان نے اپنے مقام کو ہمیشہ خدمت خلق کے لئے استعمال کیا اور ان کے ادارے آج بھی دنیا بھر میں پسماندہ اور ضرورت مند کمیونٹیز کی مدد کر رہے ہیں۔ کریم آغا خان کی وفات کے بعد بھی ان کی میراث زندہ رہے گی، کیونکہ ان کے زیر اثر شروع کیے گئے منصوبے اور ادارے ابھی تک دنیا بھر میں ترقی اور خوش حالی کے راستے پر گامزن ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک اور رہنماؤں کی جانب سے آغا خان کی وفات پر گہرے دکھ اور تعزیت کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ برطانوی شاہی خاندان، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس، اور پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ان کی انسانیت کے لئے کی جانے والی خدمات کی بھرپور تعریف کی۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم نے انہیں ایک دور رس نظر رکھنے والا ایماندار، سخی اور اہم رہنما قرار دیتے ہوئے کہا کہ “انھوں نے غربت کے خاتمے، صحت کی دیکھ بھال اور صنفی مساوات میں انتھک کوششیں کیں، اور ان کی کوششوں نے ان گنت زندگیوں پر انمٹ نقوش چھوڑے۔” نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے بھی کہا کہ “ان کی میراث اس ناقابل یقین کام کے ذریعے جاری رہے گی جو انھوں نے دنیا بھر میں تعلیم، صحت اور ترقی کے لئے کیا۔” کریم آغا خان کی وفات ایک ایسا سانحہ ہے جس نے دنیا بھر کے لوگوں کو گہرے غم میں ڈوبو دیا ہے مگر ان کی زندگی اور خدمات کا اثر ہمیشہ باقی رہے گا۔ ان کا مشن انسانوں کی فلاح اور بہتر معیار زندگی کے لیے تھا، اور وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اسی راستے پر چلتے رہے۔ ان کی دنیا سے رخصتی کے باوجود، ان کی تنظیموں کی شکل میں انسانیت کے لئے کی جانے والی خدمات ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ مزید پڑھیں: امریکی صدر ٹرمپ کا غزہ پر قبضہ اور فلسطینیوں کو بےدخل کرنے کا اعلان

حماس، سعودی عرب، چین سمیت عالمی برادری نے غزہ پر قبضے کا امریکی منصوبہ مسترد کر دیا

حماس، سعودی عرب، فرانس، یوکے، آسٹریلیا، برازیل اور ترکیہ نے غزہ پر قبضے کا امریکی منصوبہ مسترد کر دیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے منگل کے روز ایک چونکا دینے والا  اعلان کیا تھا کہ “امریکا غزہ پر قبضہ کرے گا  اور وہاں استحکام کے لیے کام کرے گا۔ امریکہ فلسطینیوں کو دوسری جگہوں پر آباد کرنے اور اسے معاشی طور پر ترقی دینے کے بعد جنگ سے علاقے پر قبضہ کر لے گا”۔  وہ اسرائیل کے دورے پر آئے ہوئے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ امریکی صدر کے اعلان کے بعد عالمی ممالک کا ردِ عمل آگیا۔ سعودی عرب سعودی عرب نے امریکا کے موقف کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ “وہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرے گا”۔ سعودی وزارتِ خارجہ نےکہا کہ “سعودی عرب فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتا ہے”۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بدھ کے روز ایک بیان میں کہا کہ” سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے واضح انداز میں سعودی عرب کے موقف بتایا ہے جو کسی بھی حالت میں کسی قسم کی تشریح کی اجازت نہیں چاہتا”۔ ان کا کہنا تھا کہ “فلسطینیوں کی کسی بھی قسم کی نقل مکانی فلسطینیوں اور عرب ممالک دونوں کے درمیان ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ غزہ کی جنگ میں جب لڑائی شروع ہوئی توفلسطینیوں کو خدشہ تھا کہ وہ ایک اور “نقبہ” یا تباہی کا شکار ہو جائیں گے، اس وقت جب اسرائیل کی ریاست کے بننے کے وقت جنگ میں لاکھوں لوگوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا”۔ حماس فلسطینی حکمران جماعت حماس کے سینئر عہدیدار سمیع ابو زہری نے کہا کہ “غزہ میں فلسطینیوں کو نسلی طور پر پاک کرنے کا مطالبہ ان کی سرزمین سے بے دخلی ہے”۔ ابو زہری نے کہا کہ “غزہ پر قبضے کی خواہش کے بارے میں ٹرمپ کا بیان مضحکہ خیز ہے اور اس قسم کے کوئی بھی خیالات خطے کو مزید بھڑکانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ “ہم انہیں خطے میں افراتفری اور کشیدگی پیدا کرنے کا ایک نسخہ سمجھتے ہیں کیونکہ غزہ کے لوگ ایسے منصوبوں کو منظور نہیں ہونے دیں گے”۔” انہوں نے کہا کہ “ہم ٹرمپ کے ان بیانات کو مسترد کرتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا “غزہ کی پٹی کے باشندوں کے پاس چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے” اور ہم انہیں خطے میں افراتفری اور کشیدگی پیدا کرنے کا ایک نسخہ سمجھتے ہیں۔  “غزہ کی پٹی میں ہمارے لوگ ان منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کے خلاف قبضے اور جارحیت کو ختم کیا جائے، نہ کہ انہیں ان کی سرزمین سے بے دخل کیا جائے”۔ آسٹریلیا دوسری جانب آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نےکہا ہے کہ ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے اعلان سے انہیں شدید جھٹکا لگا ہے۔ آسٹریلوی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہم اس مسئلے میں دو ریاستی حل چاہتے ہیں۔ آسٹریلوی سینیٹر لیڈیا تھوپے نے ایکس پر لکھا کہ “امریکا کا یوں کھلے عام غزہ پر قبضہ کرنا نسلی امتیاز اور نوآبادیاتی مطالبہ ہے”۔ روس روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ “مقبوضہ مغربی کنارے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے اسرائیلی منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں ہیں اور غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں،” روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ “اجتماعی سزا کی پالیسی پر عمل کرنا ایک ایسا طریقہ ہے جسے روس مسترد کرتا ہے”۔ چین چین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ “وہ غزہ کے لوگوں کی جبری منتقلی کی مخالفت کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ تمام فریق جنگ بندی اور تنازعات کے بعد کی حکمرانی کو مسئلہ فلسطین کو دو ریاستی حل پر مبنی سیاسی حل کی طرف واپس لانے کے موقع کے طور پر استعمال کریں گے”۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل انسانی حقوق کی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پال اوبرائن نے کہا ہے کہ “غزہ سے تمام شہریوں کو بے دخل کرنا انہیں بطور انسان تباہ کرنے کے مترادف ہے”۔ انہوں نے مزید کہا کہ “غزہ ان کا گھر ہے، غزہ کی موت اور اس کی تباہی اسرائیلی حملوں کا نتیجہ ہے جو اس نے امریکی بارود کے ساتھ کی ہے”۔ ترکیہ ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے کہا کہ “ٹرمپ کے تبصرے ناقابل قبول ہیں” اور انہوں نے خبردار کیا کہ فلسطینیوں کی رائے کو چھوڑنا مزید تنازعات کو جنم دے گا”۔ فیدان نے کہا کہ “ترکیہ اسرائیل کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات پر نظرثانی کرے گا۔ اگر فلسطینیوں کا قتل بند نہ ہوا اور ان کے حالات نہ بدلے تو تجارت منقطع کرنا اور اپنے سفیر کو واپس بلانا جیسے اقدامات ہو سکتے ہیں”۔ فرانس  فرانس کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کرسٹوف لیموئن  نے کہا کہ “فرانس غزہ کی فلسطینی آبادی کی کسی بھی جبری نقل مکانی کے خلاف اپنی مخالفت کا اعادہ کرتا ہے، جو کہ بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی، فلسطینیوں کی جائز امنگوں پر حملہ، بلکہ دو ریاستی حل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ اور ہمارے قریبی شراکت داروں مصر اور اردن کے لیے ایک بڑا عدم استحکام کا باعث ہے”۔ لیموئن نے مزید کہا کہ “غزہ کا مستقبل مستقبل کی فلسطینی ریاست کے تناظر میں ہونا چاہیے اور اس پر کسی تیسرے ملک کا کنٹرول نہیں ہونا چاہیے”۔ یوکے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ “فلسطینیوں کا مستقبل صرف اپنے ملک میں ہی ہے”۔ انہوں نے کہا کہ “ہم ہمیشہ اپنے مؤقف میں واضح رہے ہیں کہ ہمیں دو ریاستوں کو دیکھنا چاہیے۔ ہمیں فلسطینیوں کو غزہ اور مغربی کنارے میں اپنے آبائی علاقوں میں زندہ اور خوشحال دیکھنا چاہیے۔ برازیل برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا نے کہا کہ “ٹرمپ کی تجویز کوئی معنی نہیں رکھتی‘‘۔ فلسطینی کہاں رہیں گے؟ یہ کسی بھی انسان کی سمجھ سے باہر ہے،” لولا نے مقامی ریڈیو سٹیشنوں کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا۔ “فلسطینیوں کو غزہ کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے”۔”

پاکستان کا آئی ایم ایف سے تعلق، عارضی استحکام یا پھر معاشی خودکشی؟

گزشتہ سال آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی منظوری دے دی تھی۔ اس قرضے کی منظور کے بعد پاکستان کے لیے خوشخبری آئی ہے لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض کا بوجھ پاکستانی معیشت پر کس حد تک اثر ڈالے گا؟ آئی ایم ایف کا قیام 1944 میں امریکا کے شہر بریٹن ووڈ میں ہوا تھا اور اس کا مقصد عالمی معیشت کو مستحکم کرنا اور دنیا بھر کے ممالک کو معاشی بحران سے نکلنے میں مدد فراہم کرنا تھا۔ پاکستان اس عالمی مالیاتی ادارے کا 1950 میں رکن بنا تھا اور تب سے لے کر اب تک پاکستان 20 سے زائد مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لے چکا ہے۔ اگر ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان کی معیشت ہمیشہ کسی نہ کسی معاشی بحران کا شکار رہی ہے جس میں آئی ایم ایف کا قرض ایک اہم جزو بن چکا ہے۔ آئی ایم ایف ایک عالمی بینک کی مانند ہے لیکن اس کا مقصد صرف قرض فراہم کرنا نہیں بلکہ عالمی معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے معیشتوں کی نگرانی اور انہیں مشورے دینا بھی ہے۔ اس کے رکن ممالک کی تعداد 190 تک پہنچ چکی ہے اور یہ ادارہ اپنی مالی مدد سے ترقی پذیر ممالک کو قرض فراہم کرتا ہے تاکہ وہ اپنے معاشی بحرانوں سے نکل سکیں۔ اس قرض کے بدلے آئی ایم ایف ممالک سے خاص اکانومک اصلاحات کا مطالبہ کرتا ہے جن میں ٹیکس بڑھانا، سرکاری اخراجات میں کمی، اور دیگر مالیاتی اقدامات شامل ہیں۔ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا قرض 1958 میں شروع ہوا تھا جب پاکستان نے آئی ایم ایف سے پہلی مرتبہ قرض حاصل کیا۔ دیکھا جائے تو اب تک پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ مختلف معاہدوں میں شامل ہو چکا ہے جس کی تاریخ میں کئی دفعہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی وجہ سے معیشت میں اتار چڑھاؤ آیا ہے۔ پاکستان کے حالیہ قرض پروگرام میں آئی ایم ایف نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ٹیکس نظام کو بہتر بنائے اور عوامی اخراجات میں کمی کرے۔ اس طرح کی پالیسیوں کو کبھی کبھی عوامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ عوامی سہولتوں پر اثر ڈالتی ہیں۔ لیکن آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر ‘کرسٹالینا جیورجیوا’ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جو اصلاحات کی ہیں ان کے نتیجے میں معیشت میں بہتری آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے مثبت اصلاحات کی ہیں جس سے افراط زر میں کمی آئی ہے اور پیداوار کا گراف اُوپر جا رہا ہے۔ پاکستان کا قرضہ اگرچہ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کا حصہ ہے مگر یہ قرض آئی ایم ایف کی شرائط پر ہی دیا جاتا ہے۔ پاکستان نے معیشت کی بہتری کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، وہ آئی ایم ایف کی تجاویز پر مبنی ہیں جنہیں عالمی ادارہ گاہے گاہے اپنے رکن ممالک سے اختیار کراتا ہے۔ پاکستان کی آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات ہمیشہ پیچیدہ رہے ہیں۔ قرض کے حصول کے دوران آئی ایم ایف کے مطالبات اور پاکستان کے معاشی حالات کا تنازعہ اکثر میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کا قرض جب بھی پاکستان کے دروازے پر دستک دیتا ہے تو وہ قرض کے ساتھ سخت اکانومک اصلاحات کی شرائط بھی لے کر آتا ہے جنہیں عوامی سطح پر اکثر شدید ردعمل کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستانی معیشت میں آئی ایم ایف کی مداخلت کو مختلف طبقوں میں مختلف نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض کی وجہ سے معیشت کو مستحکم کیا جا سکتا ہے جبکہ دیگر افراد یہ مانتے ہیں کہ ان قرضوں کے بوجھ سے پاکستان کی خودمختاری متاثر ہوتی ہے اور ترقی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے قرض کی خاص بات یہ ہے کہ یہ قرض کسی ایک پراجیکٹ یا پروگرام کے لیے نہیں بلکہ ملک کی مجموعی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ ان قرضوں کی واپسی حکومت کی معاشی پالیسیوں پر منحصر ہوتی ہے اور جب ملک کی معیشت بہتر ہو جاتی ہے تو قرض کی رقم واپس کی جاتی ہے تاکہ وہ دوبارہ دوسرے ممالک کے لیے دستیاب ہو سکے۔ اگرچہ آئی ایم ایف کا قرض پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے اثرات پر ابھی تک واضح اختلافات ہیں۔  2002 میں برازیل نے آئی ایم ایف سے قرض حاصل کیا تھا اور جلد ہی معیشت کو بہتر کر لیا۔ اسی طرح ارجنٹائن نے 2018 میں آئی ایم ایف سے 57 ارب ڈالر کا قرض حاصل کیا تھا جو اس وقت تاریخ کا سب سے بڑا قرض تھا اور اس کے نتیجے میں ارجنٹائن نے اپنی معیشت میں استحکام لایا۔ پاکستان کی معیشت پر آئی ایم ایف کے قرض کے اثرات کی بات کریں تو یہاں بھی کامیاب مثالیں اور ناکامی کے واقعات دونوں موجود ہیں۔  1990 کی دہائی میں جب پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا تو اس کے بعد معیشت میں اضافہ ہوا لیکن عوامی اخراجات میں کمی اور ٹیکس کے نفاذ نے عوام میں غم و غصہ پیدا کیا۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کی شرائط پر اکثر تنقید کی جاتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے اصرار پر معاشی اصلاحات اتنی سخت ہوتی ہیں کہ وہ معاشرتی مشکلات پیدا کر دیتی ہیں۔  2009 میں یونان میں آئی ایم ایف کی مداخلت کے بعد یونان نے معیشت میں اہم تبدیلیاں لائیں لیکن اس کے نتیجے میں ملک میں شدید معاشی مشکلات آئیں اور عوامی بغاوتیں ہوئیں۔ پاکستان میں بھی آئی ایم ایف کے قرض کی شرائط پر اختلافات ہیں۔ حکومتیں اور عوام اکثر اس بات پر متفق نہیں ہو پاتیں کہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا اثر عوام کی زندگی پر کس طرح پڑے گا۔ اس کے باوجود اگر پاکستان آئی ایم ایف سے قرض نہ لے تو مالیاتی بحران میں اضافہ ہو سکتا ہے جس سے ملک میں مزید

مچل مارش کے بعد آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز کا چیمپئنز ٹرافی سے باہر ہونیکا امکان

آسٹریلوی ہیڈ کوچ اینڈریو میکڈونلڈ نے شدید خدشے کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ پیٹ کمنز ٹخنے کی تکلیف کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ سے ابھی تک انہوں نے باؤلنگ شروع نہیں کی ہے۔ سری لنکا کے خلاف جاری ٹیسٹ سیریز میں پیٹ کمنزکی جگہ اسٹیو اسمتھ کپتانی کر رہے ہیں۔ آسٹریلوی کوچ کا کہنا تھا کہ پیٹ کمنز کی چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت ان کی فٹنس سے مشروط ہے۔ فی الحال میگا ایونٹ میں کپتانی کے لیے ٹریوس ہیڈ اور اسٹیو اسمتھ سے مشاورت جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئندہ چند روز میں میڈیکل رپورٹس آنے کے بعد ہی صورتحال معلوم ہو سکے گی کہ اگلا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔ اینڈریو میکڈونلڈ نے کہا کہ پیٹ کمنز نے ابھی بولنگ کا آغاز نہیں کیا ہے، ان کی انجری کی وجہ سے چیمپئنز ٹرافی سے باہر ہونے کا قوی امکان ہے۔ پیٹ کمنز بارڈر گواسکر ٹرافی میں ٹخنے کی انجری کا شکار ہوئے تھے جس کے باعث وہ باقی میچز سے باہر ہو گئے تھے۔ تا حال وہ انجری پر قابو نہیں پا سکے ہیں۔ یاد رہے آسٹریلوی کرکٹر مچل مارش پہلے ہی فٹنس کے مسائل کی وجہ سے چیمپئنز ٹرافی سے باہر ہو چکے ہیں۔

چین میں وزیر داخلہ محسن نقوی کی اہم ملاقات، پاکستان اور چین کے درمیان سکیورٹی اور ٹیکنالوجی پر اہم فیصلے

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا چین کے دورے کے دوران چینی ہم منصب کیو ینجن (QI Yanjun) کے ساتھ ایک اہم ملاقات ہوئی، جس میں دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں نیا اور شاندار تعاون طے پایا۔ اس ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے انٹیلیجنس شئیرنگ کو مزید مضبوط کرنے کے حوالے سے اہم فیصلے کیے۔ پاکستان کی داخلی سکیورٹی کے حوالے سے یہ ملاقات خاص اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ اس میں پیرا ملٹری فورسز اور بارڈر سکیورٹی پر باہمی تعاون کے نئے امکانات پر بات چیت کی گئی۔ محسن نقوی نے چینی ہم منصب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی اور آلات چین سے حاصل کرے گا جس سے سکیورٹی کے شعبے میں انقلاب آ سکتا ہے۔ چین کی جدید پولیس ٹیکنالوجی کا پاکستان میں نفاذ اور نیشنل پولیس اکیڈمی کے ساتھ بڑھتا ہوا تعاون، دونوں ممالک کے سکیورٹی اداروں کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرے گا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد اور بیجنگ پولیس کے مابین تعاون کو بڑھانے کا فیصلہ بھی کیا گیا، جس سے مشترکہ آپریشنز اور انٹیلیجنس شئیرنگ میں تیزی آئے گی۔ یہ ملاقات دو گھنٹے تک جاری رہی، اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے چینی ہم منصب کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی، جس پر کیو ینجن نے خوشی کا اظہار کیا۔ یہ دورہ دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی جہت دینے کی جانب اہم قدم ہے۔ یاد رہے اس سے قبل وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں آئی ٹی، زراعت، کان کنی، سٹیل، ٹیکسٹائل، قابل تجدید توانائی، دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کے امکانات بڑھانے کی بات کی ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے پاکستان میں موجود چینی شہریوں کو سکیورٹی فراہم کرنے کے اقدامات کی بھی بات کی اور سکیورٹی کو ‘فول پروف’ بنانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ مزید پڑھیں:یوم یکجہتی کشمیر 5 فروری کو ہی کیوں منایا جاتا ہے؟