اپوزیشن جماعتوں کا نئے انتخابات کا مطالبہ

اسلام آباد میں اپوزیشن رہنماوں کا مشاورتی اجلاس ہوا جس کے بعد انہوں نے میڈیا سے گفتگو کی۔ گفتگو میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملک بھر میں نئے اور منصفانہ انتخابات کروائے جائیں۔ اپوزیشن رہنماؤں نے 8 فروری کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا۔ اجلاس کے بعد سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مشترکہ اعلامیہ پڑھ کے سنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں نے یہ فیصلہ سنایا ہےکہ عوام پر مسلط حکومت عوام کی نمائندگی نہیں کر سکی ہے۔ سیاسی عدم استحکام ، معاشی بحران اور دہشت گردی جیسے مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے نئے انتخابات ہونے چاہیے۔ سابق وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ملک میں جاری فسطائیت کو ختم اور سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ اس موقع پر اسد قیصر نے کہا کہ ملک میں آئینی حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی۔ جمیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانہ فضل الرحمان نے کہا کہ گزشتہ سال کے انتحابات دھاندلی زدہ تھے۔ حکمرانوں کو عوام پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں رہا ۔ چیف الیکشن کمشنر کی آئینی مدت پوری ہوچکی ہے، اس پر مشاورت ہونی چاہیے۔ تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر کی رہائش گاہ پر اپوزیشن رہنماؤں نے ملاقات کی۔ عشائیے میں مولانا فضل الرحمان، اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمدد خان اچکزئی، اپوزیشن لیڈر عمرایوب، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر شامل تھے۔ اس کے علاوہ چیئرمین پی اے سی جنید اکبر، صاحبزادہ حامد رضا، وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس بھی موجود تھے۔
امریکی صدر ٹرمپ کا غزہ پر قبضہ اور فلسطینیوں کو بےدخل کرنے کا اعلان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ (اسرائیلی) جنگ سے تباہ حال غزہ کی پٹی پر قبضہ کرے گا اور فلسطینیوں کو پڑوسی ممالک میں بےدخل کرنے کے بعد اسے ترقی دے گا تاکہ دنیا کے لوگ وہاں آباد ہوں۔ ٹرمپ کا یہ اعلان اسرائیل فلسطین تنازع کے حوالے سےدہائیوں سے جاری امریکی پالیسی کےبرعکس دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے قبل امریکا دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ٹرمپ نے زیادہ تفصیل فراہم کیے بغیر اپنے حیران کن منصوبے کا اعلان اس وقت کیا جب عالمی عدالت انصاف سے جاری ہونے والے وارنٹ گرفتاری کی وجہ سے پریشانی کا شکار اسرائیلی وزیراعظم بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا “امریکا غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا، اور ہم اس کے ساتھ بھی کام کریں گے۔” اس اعلان سے پہلے ٹرمپ کی جانب سے غزہ سے فلسطینیوں کے نکال کر مستقل طور پر ہمسایہ ممالک میں بھیجنے کا کہا گیا تو مصر اور اردن نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کے باوجود ایک مرتبہ پھر ٹرمپ نے غزہ میں مقیم 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کر کے پڑوسی ممالک بھیجنے کا اعلان کیا۔ غزہ جنگ کے لیے اسرائیل کو سب سے زیادہ اسلحہ اور زمینی حملے کے لیے فوجی قوت فراہم کرنے والے امریکا کے صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے شرکا کو بتایا کہ “ہم اس (غزہ) کے مالک ہوں گے اور وہاں پر موجود تمام خطرناک ہتھیاروں اور دیگر کو ختم کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔” ٹرمپ نے مزید کہا کہ “ہم اس ٹکڑے پر قبضہ کرنے جا رہے ہیں، ہم اسے ترقی دینے جا رہے ہیں ہزاروں ملازمتیں پیدا کریں گے اور یہ ایسی چیز ہو گی جس پر پورا مشرق وسطیٰ فخر کر سکتا ہے۔” انہوں نے کہا “میں ایک طویل مدتی ملکیت کی پوزیشن دیکھ رہا ہوں اور میں اسے مشرق وسطیٰ کے اس حصے میں زبردست استحکام لاتا ہوا دیکھ رہا ہوں” انہوں نے دعوی کیا کہ “علاقائی رہنماؤں سے بات کی ہے اور انہوں نے اس کی حمایت کی ہے۔” جب ان سے پوچھا گیا کہ وہاں کون رہے گا تو ٹرمپ نے فلسطینیوں کے ملک میں انہی کی رہائش کا حق ماننے کے بجائے کہاکہ “وہ دنیا کے لوگوں کا گھر بن سکتا ہے۔ دنیا بھر سے لوگ آ کر یہاں بس سکتے ہیں”۔ ٹرمپ نے اس سوال کا براہ راست جواب نہیں دیا کہ امریکہ کس طرح اور کس اختیار کے تحت غزہ پر قبضہ کر سکتا ہے۔ امریکی انتظامیہ بشمول ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں، وہاں امریکی فوجیوں کی تعیناتی سے گریز کیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ”ٹرمپ اس مسئلے پر غیرروایتی سوچ رکھتے ہیں۔ ان کی غیرروایتی سوچ نئے خیالات کو جنم دیتی ہے۔” امریکی صدر کی جانب سے غزہ پر قبضے کا یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اسرائیل اور غزہ کی حکمراں جماعت حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے پہلے فیز کے تحت متعدد اسرائیلی اور جواب میں سینکڑوں فلسطینی قیدی رہا کیے گئے ہیں۔ پہلے سے اعلان کردہ ٹائم لائن کے مطابق اب مزید قیدیوں کی رہائی کے لیے دوسرے فیز کی تفصیلات طے کی جانی تھیں۔ مبصرین کو توقع ہے کہ ٹرمپ مستقبل کے مذاکرات کے لیے پیرامیٹرز طے کرنے کے لیے بعض اوقات عالمی سطح پر انتہائی سخت موقف اختیار کرتے ہیں۔ اپنی پہلی مدت میں، ٹرمپ نے بعض اوقات ایسے بیانات جاری کیے جنہیں خارجہ پالیسی کے بڑے اعلانات کے طور پر دیکھا جاتا تھا، ان میں سے اکثر کو انہوں نے کبھی نافذ نہیں کیا۔
یوم یکجہتی کشمیر 5 فروری کو ہی کیوں منایا جاتا ہے؟

پاکستان میں پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے ایک دن جو نہ صرف پاکستانی عوام کے دلوں میں کشمیریوں کے ساتھ محبت اور یکجہتی کا جذبہ بھرتا ہے بلکہ اس دن کی تاریخ بھی ایک سنسنی خیز اور دل دہلا دینے والی کہانی سموئے ہوئے ہے۔ یہ دن کشمیر کی آزادی کے لئے آواز اٹھانے والے، ان کے حقوق کے لئے لڑنے والے اور ان کے درد کو محسوس کرنے والے تمام افراد کے لئے ایک نشانِ عزم ہے۔ یہ دن پہلی مرتبہ 1990 میں منایا گیا جب جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے پاکستان میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لئے ایک ہڑتال کی کال دی۔ اس وقت ملک کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو پنجاب میں نواز شریف وزیر اعلیٰ تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جماعت اسلامی کے سابق رہنما قاضی حسین احمد کی ایک کال پورے پاکستان میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کرنے کا سبب بنی۔ دونوں رہنماؤں نے اس کال کی حمایت کی اور پانچ فروری کو سرکاری سطح پر یوم یکجہتی کشمیر منانے کا آغاز ہوا۔ لیکن یہ دن محض ایک رسمی تعطیل یا احتجاج کا دن نہیں تھا بلکہ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا جب پاکستانی عوام نے کشمیر کے مسئلے کو اپنی تقدیر سمجھ کر اس کے حل کے لیے ایک نیا جذبہ محسوس کیا۔ یوم یکجہتی کشمیر کی جڑیں ایک صدی پرانی ہیں یہ دن کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی ایک طویل تاریخ کی نشاندہی کرتا ہے۔ خبر رساں ادارے بی بی سی اردو کے مطابق پہلی مرتبہ 1931 میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا دن پورے ہندوستان میں منایا گیا تھا۔ اس وقت ایک ناخوشگوار واقعے میں 21 کشمیریوں کی موت ہوئی تھی جس کے بعد علامہ اقبال نے کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی تھی۔ یہ 14 اگست 1931 کا دن تھا جب ہندوستان بھر میں کشمیریوں کے حق میں احتجاج اور یکجہتی کی تحریک شروع ہوئی۔ یہ وقت تھا جب کشمیریوں کی آواز بلند ہوئی اور ایک نئی سیاسی بیداری کا آغاز ہوا۔ دوسری جانب فروری 1989 میں جب سوویت یونین افغانستان سے نکلا تو کشمیریوں کے دلوں میں آزادی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ کشمیر کے نوجوانوں نے اپنے لیے آزادی کی تحریک چلانے کا عزم کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب انڈیا کے وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کی صاحبزادی ربعیہ سعید کا اغوا ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ کشمیریوں نے اس واقعہ کو اپنی آزادی کے حق میں ایک کامیابی کے طور پر منایا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب کشمیریوں کی تحریک آزادی میں ایک نئی شدت آئی۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں نوجوانوں کی حمایت میں جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں اور مظفر آباد میں قاضی حسین احمد نے کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی۔ پاکستان کی حکومت نے اس دن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے 1990 میں اس دن کو سرکاری طور پر منانے کی ہدایت دی۔ اس کے بعد پانچ فروری کو ملک بھر میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے مختلف پروگرامز اور مظاہرے ہوتے ہیں۔ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے پروفیسر حسن عسکری شعبہ تاریخ یونیورسٹی آف اوکاڑہ نے بتایا”یوم یکجہتی کشمیر 5 فروری کو منانے کا آغاز 1990 میں ہوا جب پاکستان نے کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے اس دن کو مخصوص کیا۔ اس دن کا مقصد عالمی برادری کو مسئلہ کشمیر کی اہمیت یاد دلانا اور بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرنا ہے”۔ اس کے علاوہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں بھی پاکستان نے کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کیا اور کشمیریوں کے حقوق کے لئے ہر فورم پر آواز اٹھائی۔ یوم یکجہتی کشمیر کا آغاز ایک سیاسی تحریک سے ہوا تھا لیکن اس کے پیچھے ایک اور گہری حقیقت چھپی ہوئی ہے۔ یہ دن کشمیر کے لاکھوں بے گناہ شہریوں کی قربانیوں اور جدوجہد کی علامت ہے۔ یہ دن کشمیریوں کے لئے ایک پیغام ہے کہ پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔ پروفیسر حسن عسکری نے کہا کہ” یوم یکجہتی کشمیر منانے سے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں مدد ملتی ہے، لیکن صرف علامتی حمایت کافی نہیں۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر مزید مضبوط حکمت عملی اپنانے، بین الاقوامی فورمز پر فعال کردار ادا کرنے، اور کشمیری عوام کی عملی مدد کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ مسئلہ حل کی طرف بڑھ سکے”۔ کشمیر کی آزادی کا خواب پاکستانیوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا، اور یہ دن اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کا مسئلہ ہے۔ پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے پروفیسر عبدالباسط جامعہ سرگودھا شعبہ تاریخ ماہر امور خارجہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے متعلق کہا ” اقوامِ متحدہ کی قراردادیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ایک مضبوط قانونی اور اخلاقی بنیاد فراہم کرتی ہیں، لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اور عالمی برادری کی عدم دلچسپی کے باعث ان پر عملدرآمد ممکن نہیں ہو سکا۔ پاکستان کو سفارتی، سیاسی اور عوامی سطح پر کوششیں جاری رکھنی چاہییں، لیکن ساتھ ہی دیگر ممکنہ حل، جیسے بیک ڈور ڈپلومیسی اور علاقائی مذاکرات، پر بھی غور کرنا ہوگا تاکہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق کوئی قابلِ قبول حل نکالا جا سکے۔” انڈین پالیسیوں کے نوجوانوں پر اثرات کے بارے میں انہوں نے کہا”بھارتی پالیسیوں نے کشمیر کے نوجوانوں میں شدید مایوسی اور بے چینی کو جنم دیا ہے۔ مسلسل کرفیو، انٹرنیٹ کی بندش، جبری گرفتاریاں، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ان کی ذہنی اور سماجی ترقی پر گہرے اثرات ڈال رہی ہیں۔ بدقسمتی سے عالمی برادری، بالخصوص بڑی طاقتیں، اپنے اقتصادی اور اسٹریٹجک مفادات کی وجہ سے اس معاملے پر مؤثر اقدامات نہیں کر رہیں، جس سے بھارت کو مزید جارحیت کی شہ مل رہی ہے۔” آج بھی پانچ فروری کو لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کشمیری ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے عزم میں کمی نہیں آئی بلکہ ہر گزرتے سال کے ساتھ یہ عزم مزید پختہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے
فلائی جناح نے کراچی سے ڈھاکہ کی براہ راست پروازوں کی منظوری حاصل کر لی

پاکستانی ایئرلائن فلائی جناح کو بنگلہ دیشی حکام سے کراچی اور ڈھاکہ کے درمیان براہ راست پروازیں چلانے کی منظوری مل گئی ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان فضائی رابطے کو مضبوط بنانے میں ایک اہم قدم ہے۔ یہ پیشرفت گزشتہ ہفتے پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر محمد اقبال حسین کے ایک اعلان کے بعد ہوئی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان آنے والے مہینوں میں براہ راست پروازیں شروع ہونے کی توقع ہے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ تجارت اور کاروباری تبادلے کو بڑھانے کے لیے جلد ہی ڈھاکہ، کراچی اور لاہور کو ملانے والی کارگو پروازیں متعارف کرائی جائیں گی۔ نجی چینل ایکسپریس کے مطابق بنگلہ دیش کی سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے بی) کے چیئرمین ایئر وائس مارشل مونجر کبیر بھویاں نے تصدیق کی کہ فلائی جناح کی براہ راست پروازیں چلانے کی درخواست منظور کر لی گئی ہے۔ بھوئیان نے کہا کہ ایئر لائن نے ہمارے پاس درخواست دی، اور ہم نے اسے منظور کر لیا ہے،انہوں نے مزید کہا کہ ایئر لائن کو اب فلائٹ سلاٹ اور فریکوئنسی کو حتمی شکل دینے سے پہلے ایک جنرل سیلز ایجنٹ (جی ایس اے)کا تقرر کرنا چاہیے۔ بنگلہ دیش کی شہری ہوا بازی اور سیاحت کی وزارت کے ایڈیشنل سیکرٹری عبدالناصر خان نے کہا سی اے اے بی نے فلائی جناح کی بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان براہ راست پروازیں چلانے کی تجویز کو منظور کر لیا ہے۔ ہم جلد ہی ڈھاکہ کراچی براہ راست پروازیں دوبارہ شروع کرنے کے معاہدے پر دستخط کریں گے۔ توقع ہے کہ براہ راست پروازوں کے دوبارہ شروع ہونے سے کاروبار، سیاحت اور عوام کے درمیان تبادلے کو فروغ ملے گا، جس سے دونوں جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان فاصلوں کو مزید پر کیا جائے گا۔
طالبان حکومت میں خواتین پر تعلیمی پابندی: وزارت خارجہ کے سینیئر وزیر کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑ ا

افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر عائد پابندی نے نہ صرف عالمی سطح پر احتجاج کو جنم دیا بلکہ طالبان حکومت کے اندر بھی اس مسئلے پر شدید اختلافات پیدا کر دیے ہیں۔ ایک حیران کن رپورٹ کے مطابق طالبان کی وزارت خارجہ کے سینیئر وزیر ‘شیر عباس ستنکزئی’ نے حال ہی میں اس پابندی کی کھل کر مذمت کی تھی اور اس کی وجہ سے انہیں اپنے ہی حکومتی حلقوں کی طرف سے سنگین ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ جنوری 2025 میں شیر عباس ستنکزئی نے طالبان کے دیگر رہنماؤں سے واضح طور پر اپیل کی تھی کہ وہ لڑکیوں اور خواتین کے لیے تعلیمی ادارے کھولیں۔ اس وقت انہوں نے کہا تھا “تعلیم پر پابندی کا حکم شریعت کے مطابق نہیں۔ نہ اب، نہ ہی مستقبل میں۔” ستنکزئی کا کہنا تھا کہ “ہم دو کروڑ افراد کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں۔” ان کا اشارہ افغانستان کی نصف آبادی، یعنی خواتین اور لڑکیوں کی طرف تھا جو تعلیم سے محروم ہو چکی ہیں۔ یہ بیان ایک بہت بڑی تبدیلی کی علامت ہے کیونکہ طالبان حکومت میں شاذ و نادر ہی اس قسم کے اختلافات سامنے آتے ہیں۔ یہ بیان طالبان کے تعلیمی پابندیوں کے خلاف پہلی کھلی مخالفت تھی اور اس نے دنیا بھر کی توجہ کو اپنی جانب کھینچ لیا۔ لیکن اس کے فوراً بعد طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے ستنکزئی کی گرفتاری کا حکم دے دیا تھا اور انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یہ بھی پڑھیں: غزہ کی جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر حماس کا ماسکو میں اہم اجلاس طالبان کے اندرونی اختلافات اس وقت منظرعام پر آئے جب اس بات کی اطلاع ملی کہ شیر عباس ستنکزئی ملک چھوڑ کر متحدہ عرب امارات روانہ ہو گئے ہیں۔ کچھ ذرائع کے مطابق وہ طالبان کی گرفتاری سے بچنے کے لیے فرار ہوئے، جبکہ خود ستنکزئی نے اس کی وجہ صحت کے مسائل بتائی۔ تاہم، طالبان کے ساتھ ستنکزئی کا یہ اختلاف ایک ایسا سنگین موڑ تھا جسے عالمی برادری اور طالبان کے اندر موجود اعتدال پسندوں کے لیے ایک دھچکا سمجھا گیا۔ سترہ سال بعد طالبان کے قبضے کے دوران افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم پر عائد پابندی نے پورے ملک کو ایک عالمی بحران میں بدل دیا ہے۔ طالبان کی حکومت نے لڑکیوں کو چھٹی جماعت کے بعد اسکول جانے کی اجازت نہیں دی، جس کے نتیجے میں افغان خواتین کی تعلیم کی شرح میں زبردست کمی آئی ہے اور عالمی سطح پر طالبان حکومت کی سخت تنقید ہوئی ہے۔ دوسری جانب شیر عباس ستنکزئی کا یہ اقدام طالبان کے اندرونی تضادات اور اختلافات کو مزید اجاگر کرتا ہے۔ طالبان کی قیادت کے دو بڑے دھڑے ہیں ایک قندھار میں مقیم ہے، جس کی طاقت اور اثر و رسوخ بیشتر افغانستان پر ہے جبکہ دوسرا دھڑا کابل میں ہے جو زیادہ عالمی تعلقات رکھتا ہے۔ ستنکزئی، جو طالبان کے نسبتاً اعتدال پسند رہنماؤں میں شمار کیے جاتے ہیں، ان اختلافات کے مرکز میں ہیں۔ افغانستان انٹرنیشنل رپوٹ مطابق نہ صرف ستنکزئی بلکہ طالبان کے نائب وزیر داخلہ محمد نبی عمری نے بھی حالیہ دنوں میں خواتین کی تعلیم پر پابندی کی زہر آلود اثرات کے بارے میں بات کی۔ ‘خوست’ میں ایک مقامی تقریب کے دوران عمری آبدیدہ ہو گئے اور ان کے جذباتی ردعمل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ ان کا کہنا تھا، “جب مذہبی تعلیم کی اجازت ہے، تو جدید علوم کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔ خدا ہمیں صحیح راستہ دکھائے۔” ضرور پڑھیں: شمالی کوریا کے فوجی روس-یوکرین محاذ سے واپسی پر مجبور، بھاری نقصان کی اطلاعات یہ ساری صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ طالبان حکومت میں داخلی سطح پر ایک بہت بڑی کشمکش چل رہی ہے جو نہ صرف افغان عوام کے لیے بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی انتہائی تشویش کا باعث بن چکی ہے۔ عالمی سطح پر طالبان پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائیں، لیکن ان کے اندرونی اختلافات اور مختلف دھڑوں کی آپس کی لڑائی اس بات کو پیچیدہ بنا رہی ہے۔ شیر عباس ستنکزئی کا فرار اور طالبان کے اندر تعلیمی پابندی پر موجود اختلافات ایک ایسی گونج پیدا کر رہے ہیں جس سے مستقبل قریب میں طالبان کے اندر مزید بے چینی اور تنازعہ بڑھنے کا امکان ہے۔ اس کے ساتھ ہی عالمی برادری یہ دیکھ رہی ہے کہ آیا طالبان حکومت اپنے فیصلوں میں نرمی لائے گی یا اپنی روایات کے مطابق اپنی سخت گیر پالیسیوں کو جاری رکھے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا طالبان کی قیادت آخرکار اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائے گی یا وہ اسی راستے پر چلتے رہیں گے جو انہیں عالمی سطح پر تنہائی کا شکار کر رہا ہے۔ مزید پڑھیں: سویڈن کے ایک سکول میں خونریز فائرنگ، 10 افراد ہلاک ہوگئے