اپریل 9, 2025 12:03 صبح

English / Urdu

ہم اپنا حق لینے تک نہیں رکیں گے، علی امین گنڈا پور کا دعوی

صوابی میں خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور عمران خان ایک نظریہ بن چکے ہیں جو کبھی نہیں مرتا اور نہ ہی ڈرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست میں پی ٹی آئی کا کردار محض ایک سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ ایک تحریک کا ہے اور یہ تحریک اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر رہے گی۔ صوابی میں پی ٹی آئی کے احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے کہا کہ انہیں کسی نے مجبور نہ کیا تو وہ اپنا حق مانگتے رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے شہدا اور غازیوں کو ہمیشہ یاد رکھیں گے اور ان کی قربانیاں ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ انکا کہنا تھا کہ اگر ہم انقلاب کا نعرہ لگا دیتے ہیں تو تم اس کا بوجھ برداشت نہیں کر سکو گے۔ یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں پتنگ بازی پر مکمل پابندی: ثقافتی روایت کا خاتمہ یا عوامی حفاظت ہے؟ وزیراعلیٰ نے حکومتی اقدامات پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت عوام اور فوج کو ایک دوسرے کے سامنے لا کر لڑوا رہی ہے۔ “ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں، لیکن یہ حکومت بھاگ رہی ہے۔ حکومت اگر بات چیت سے بھاگ رہی ہے تو اس کا جواب ہمیں دینا آتا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کا پیغام اور انقلاب ناگزیر ہو چکا ہے۔ علی امین گنڈا پور نے دہشت گردی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں عوام کے تعاون کے بغیر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ حکومت کے ساتھ نہ چل کر تحریک انصاف کے ساتھ آئیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں۔ وزیراعلیٰ نے پی ٹی آئی کی جدوجہد کو ایک نظریے کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ “ہمارا نظریہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔” ان کا کہنا تھا کہ جب پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین جیل میں بیٹھ کر جیت گئے ہیں، تو ہم بھی ان کی قیادت میں متحد ہو کر اپنے حقوق کا تحفظ کریں گے۔ آخر میں علی امین گنڈا پور نے واضح طور پر کہا کہ “تم ایوانوں میں بیٹھ کر بھی ہار چکے ہو کیونکہ تمہارے پاس کوئی نظریہ نہیں ہے، لیکن پی ٹی آئی کا نظریہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔” ان کا یہ عزم تھا کہ پی ٹی آئی اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر ہی رہے گی۔ ضرور پڑھیں: مجھے نیند نہیں آتی! میرا بس چلے تو ابھی 15 فیصد ٹیکس اور شرح سود کم کردوں، وزیراعظم شہباز شریف

8 فروری 2024 کے الیکشن دھاندلی زدہ تھے جس کے نتیجے میں حکومت بنی، سینیٹر کامران مرتضی

سینیٹر کامران مرتضی نے حالیہ ٹی وی ٹالک شو میں ایک انکشاف کیا ہے، جس میں انہوں نے 8 فروری 2024 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور کہا کہ ان انتخابات کے نتیجے میں حکومت کا قیام ممکن ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کی ملاقات میں شامل نہیں تھے اور دونوں جانب سے ملاقات کے حوالے سے کوئی اعلامیہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق، 8 فروری کے انتخابات میں ان کی جماعت کا مینڈیٹ چھین لیا گیا ہے اور اس کی بھرپور مذمت کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ جے یو آئی ف نے اپنے مطالبات کے حوالے سے واضح موقف اختیار کیا ہے کہ حکومت میں شامل ہونے کی خواہش نہیں ہے، بلکہ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ شفاف انتخابات کرائے جائیں۔ اس کے علاوہ سینیٹر کامران مرتضی نے مزید کہا کہ پہلے بھی کوشش کی گئی تھی کہ جے یو آئی ف کو حکومت کا حصہ بنایا جائے مگر وہ اس بات پر قائم ہیں کہ ملک میں صرف صاف و شفاف انتخابات ہی جمہوری عمل کو تقویت دے سکتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں پتنگ بازی پر مکمل پابندی: کیا اس کا مقصد ثقافتی روایت کا خاتمہ یا عوامی حفاظت ہے؟ سینیٹر مرتضی نے اپوزیشن اتحاد کی جانب سے ایک نیا ایجنڈا سامنے آنے کی توقع ظاہر کی جس کے بعد وہ اس پر اپنے پارٹی موقف کا اعلان کریں گے۔ انہوں نے اس بات کو بھی اہم قرار دیا کہ اگر تمام اپوزیشن جماعتیں ایک ساتھ نکلیں تو یہ ایک معجزہ ہوگا، اور اس معجزے کو مولانا فضل الرحمان ہی ممکن بنا سکتے ہیں۔ تاہم، انہوں نے اس بات کا اشارہ بھی دیا کہ اپوزیشن کو اپنے ورکرز کو یکجا کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ وہ اس معجزے کو حقیقت میں بدل سکیں۔ مزید پڑھیں: جو لوگ فوج کے خلاف باتیں کرتے ہیں ان کی خود 190 ملین پاؤنڈز کی چوری نکل آئی، عطا اللہ تارڑ

پنجاب میں پتنگ بازی پر مکمل پابندی: ثقافتی روایت کا خاتمہ یا عوامی حفاظت ہے؟

پاکستان کے سب سے زیادہ آباد صوبے پنجاب نے بسنت کے ہزاروں سالہ تہوار کے دوران پتنگ بازی پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عوامی حفاظت کے پیش نظر کیا گیا ہے جبکہ نقادوں کا ماننا ہے کہ یہ ایک اہم ثقافتی تہوار کی خلاف ورزی ہے جسے پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ حکام نے کہا ہے کہ پچھلے چند برسوں میں پتنگ بازی کے دوران تیز دھار دھاگوں، خاص طور پر شیشے اور دھاتی کوٹڈ دھاگوں کی وجہ سے متعدد افراد کی اموات اور زخمی ہونے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ ان دھاگوں کی زد میں آ کر درجنوں لوگ جان کی بازی ہار گئے، اور کچھ کی موت برقی تاروں سے لگنے والی کرنٹ کی وجہ سے ہوئی۔ ان تمام واقعات نے حکومت کو سخت فیصلے پر مجبور کیا۔ پنجاب اسمبلی نے 2024 میں پنجاب پروہبیشن آف کائٹ فلائنگ (ایمینڈمنٹ) ایکٹ منظور کیا، جس میں پتنگ بازی کے علاوہ پتنگ بنانے والوں، بیچنے والوں اور ٹرانسپورٹرز کے لیے بھی سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ اس نئے قانون کے تحت پتنگ بازی کو غیر ضمانتی جرم قرار دیا گیا ہے اور اس میں تین سال کی قید یا 100,000 روپے جرمانے کی جگہ پانچ سال کی قید اور دو لاکھ روپے جرمانہ مقرر کیا گیا ہے۔ اگرچہ حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ پابندی عوامی حفاظت کے لیے ضروری ہے، لیکن بہت سے لوگ اس فیصلے کو بے جا سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب پنجاب کے مختلف علاقوں میں لوگ اس بات پر احتجاج کر رہے ہیں کہ یہ پابندی ایک اہم ثقافتی ورثے کا خاتمہ کر رہی ہے۔ لاہور اور گردونواح میں بسنت کا تہوار سالوں سے رنگ و روشنی کا اہم موقع رہا ہے۔ اس دن، نہ صرف مختلف علاقوں سے لوگ اپنی پتنگیں اڑانے کے لیے نکلتے ہیں بلکہ ایک ساتھ کھانے پینے کی محفلیں بھی ہوتی ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: مجھے نیند نہیں آتی! میرا بس چلے تو ابھی 15 فیصد ٹیکس اور شرح سود کم کردوں، وزیراعظم شہباز شریف پنجاب اسمبلی نے جو ترمیم منظور کی ہے وہ 2007 کے “پروہبیشن آف کائٹ فلائنگ ایکٹ” کا حصہ ہے۔ اس ترمیم کے تحت اب پتنگ بنانے والوں، ٹرانسپورٹرز اور بیچنے والوں کو پانچ سے سات سال کی قید اور پانچ لاکھ سے پانچ ملین روپے جرمانہ کی سزا ہو گی۔ اس قانون میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ پتنگ بازی کے لیے استعمال ہونے والی دھاگے خاص طور پر شیشہ اور دھات سے کوٹڈ دھاگوں کی منتقلی اور ان کی تیاری کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نابالغوں کے لیے بھی سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ پتنگ بازی، خاص طور پر بسنت کے دوران ایک ایسا ثقافتی تہوار تھا جس میں لوگ ایک ساتھ آ کر خوشیاں مناتے تھے۔ بسنت کی مناسبت سے پتنگ بازی کے تمام ہنر مند افراد اس صنعت سے جڑے ہوئے تھے جن میں سے زیادہ تر غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ 2004 میں لاہور میں بسنت سے وابستہ صنعت نے 220 ملین روپے کی آمدنی حاصل کی تھی اور پورے صوبے میں اس صنعت کا حجم تین ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔ لیکن پابندی کے نتیجے میں ہزاروں لوگوں کے روزگار پر برا اثر پڑا ہے، خاص طور پر خواتین جو اس صنعت میں کام کرتی ہیں۔ ان کے لیے اب کوئی متبادل روزگار دستیاب نہیں۔ ضرور پڑھیں: جو لوگ فوج کے خلاف باتیں کرتے ہیں ان کی خود 190 ملین پاؤنڈز کی چوری نکل آئی، عطا اللہ تارڑ میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے گزشتہ برس لاہور میں 100,000 سے زیادہ پتنگیں ضبط کیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی۔ بعض مقامات پر تو پولیس نے کائٹ فیکٹریوں کو سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے چھوٹ دی جس سے ان کی کارروائی کو کمزور بنایا۔ کچھ میڈیا ادارے، جیسے کہ ‘دی ٹربیون’ نے اس فیصلے کو عوامی حفاظت کے حق میں ایک ضروری قدم قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “بسنت ایک خوبصورت تہوار ہے، لیکن جب یہ جشن انسانی زندگیوں کے نقصان کا باعث بنے تو حفاظت کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔” اگرچہ حکومتی اقدامات پر کچھ افراد نے حمایت کی ہے مگر پتنگ بازی کی جماعتیں اس پابندی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ راولپنڈی کائٹ فلائنگ ایسوسی ایشن نے اعلان کیا ہے کہ وہ 13 اور 14 فروری کو بسنت کا جشن منائیں گے اور پابندی کے باوجود پتنگ بازی کریں گے۔ پنجاب میں پتنگ بازی پر پابندی کا فیصلہ نہ صرف عوامی تحفظ کے حوالے سے ایک بڑا قدم ہے بلکہ یہ ایک ثقافتی تبدیلی کی علامت بھی ہے۔ جہاں ایک طرف یہ پابندی عوام کی زندگیوں کو بچانے کے لیے ضروری قرار دی گئی ہے، وہیں دوسری طرف اس نے لوگوں کے دلوں میں بسنت کی روح کو کمزور کر دیا ہے۔ یہ تذبذب اب تک باقی ہے کہ آیا پابندیاں لوگوں کو روکتی ہیں یا انہیں ان کی روایت سے جڑا رہنے کے لیے نئے طریقے اختیار کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ مزید پڑھیں: پتنگ بازی کرنے والے کے والد کے خلاف مقدمہ، سڑک پر پٹائی اور گھر مسمار کرنے کی وارننگ

امریکی ریاست الاسکا سے لاپتہ طیارے کا ملبہ مل گیا، تمام مسافر ہلاک

امریکی ریاست الاسکا میں جمعرات کو لاپتہ ہونے والی ایک علاقائی ایئرلائن کی پرواز کے طیارے کا ملبہ مل گیا، جس میں سوار تمام 10 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق یہ سیسنا 208 بی لاپتہ طیارہ جمعہ کے روز نومے کے قریب 34 میل جنوب مشرق میں ملبے کی صورت میں ملا۔ تحقیقات کے مطابق طیارہ اس وقت حادثے کا شکار ہوا، جب یہ انالیکٹ سے نومے کی طرف جا رہا تھا۔ کوسٹ گارڈ کے لیفٹیننٹ کمانڈر مائیک سالرنو نے کہا کہ ریسکیو ٹیموں نے طیارے کے اندر تین لاشوں کی شناخت کی ہے، جب کہ باقی سات افراد کے بارے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ ملبے کے اندر ہوں گے، لیکن ابھی  تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی۔ اس افسوسناک حادثے میں ایک غیر منافع بخش تنظیم کے دو ملازمین، رون بومگارٹنر اور کامرون ہارٹ ویگسن بھی ہلاک ہوئے ہیں، جو اپنے کام کے سلسلے میں انالیکٹ جا رہے تھے۔ الاسکا اسٹیٹ ٹروپرز کے مطابق بیرنگ ایئر کی جانب سے چلایا جانے والا یہ طیارہ جمعرات کی سہ پہر 3 بج کر 18 منٹ پر لاپتہ ہو گیا۔ اس حادثے کا شکار طیارہ جب پوزیشن سے رابطہ منقطع کرنے لگا، تو یہ تقریباً 12 میل کی بلندی پر تھا۔ طیارے کی بلند پرواز میں تیزی سے کمی آنا شروع ہوئی، جس کے باعث وہ زمین کی طرف تیزی سے گرنے لگا۔ کوسٹ گارڈ نے ایک تصویر بھی جاری کی ہے، جس میں طیارے کے ملبے کو برفانی علاقے میں ٹوٹا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب طیارے میں نصب ایمرجنسی لوکیٹر ٹرانسمیٹر کے ذریعے پوزیشن کا اطلاع نہیں بھیجا گیا۔ اس کے علاوہ خراب موسم کی وجہ سے تلاشی کے دوران مشکلات پیش آئیں۔ نوم ہوائی اڈے پر اس روز ہلکی برف باری ہو رہی تھی اور شدید ہوائیں چل رہی تھیں، جس نے فضائی راستوں کی تلاش کو پیچیدہ بنا دیا۔ کوسٹ گارڈ اور امریکی فضائیہ کی سی-130 طیارے کے ذریعے ابتدائی تلاشی پر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اس کے بعد تلاشی کے نئے سرے سے آغاز کیا گیا، تلاش کی کوششوں میں شامل طیارے نے کسی ‘دلچسپی کی چیز’ کی نشاندہی کی اور پھر کوسٹ گارڈ کی ٹیمیں اس مقام کی طرف بڑھیں۔ اس حادثے کے نتیجے میں الاسکا کے مقامی قبائلی صحت کنسورشیم کے دو ملازمین کی ہلاکت نے ایک اور سنگین پہلو سامنے رکھا، جہاں دونوں افراد کا کام برادری کی خدمت کرنا تھا۔ اے این ٹی ایچ سی کی عبوری صدر اور سی ای او نتاشا سنگھ نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں افراد اپنے کام کے بارے میں بہت پرجوش تھے اور انہوں نے ہمیشہ دیہی برادریوں کی بہتری کے لیے کام کیا۔ الاسکا کے گورنر مائیک ڈنلیوی نے اس حادثے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ متاثرہ خاندانوں، دوستوں اور کمیونٹیز کے ساتھ دلی ہمدردی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر تلاشی اور بچاؤ کی کوششوں میں شامل تمام اداروں اور افراد کا شکریہ ادا کیا۔ تلاش اور بچاؤ کی کوششوں میں ایک اور اہم مسئلہ ایمرجنسی لوکیٹر ٹرانسمیٹر کی ناکامی تھی، جس کی وجہ سے طیارے کا پتہ لگانا زیادہ مشکل ہوگیا تھا۔ ایک اور پیچیدہ پہلو یہ تھا کہ طیارے کا پائلٹ ایئر ٹریفک کنٹرول کو مطلع کر چکا تھا کہ وہ رن وے کلیئر ہونے کا انتظار کر رہا ہے اور اس دوران طیارہ ہولڈنگ پیٹرن میں تھا۔ اس کے بعد رابطہ منقطع ہو گیا اور طیارہ لاپتہ ہو گیا۔ تلاش کے دوران  موسمی حالات کی وجہ سے حد نگاہ بھی کم ہوگئی تھی، جس کے باعث ریسکیو ٹیموں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کوسٹ گارڈ، نیشنل گارڈ اور دیگر محکمے مل کر برف سے ڈھانپے ہوئے علاقوں اور سمندر کی برف میں طیارے کی تلاش میں مصروف ہیں۔ امریکی وزیر نقل و حمل شان ڈفی نے اس سانحے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دعاؤں کی اپیل کی اور کہا کہ اس حادثے کے اثرات پورے الاسکا اور اس کے مقامی کمیونٹیز پر گہرے ہیں۔ یہ حادثہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب امریکا میں فضائی حفاظتی تدابیر پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور صرف ایک ہفتے کے اندر دو بڑے فضائی حادثے رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں کئی افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس سانحے نے تمام ایوی ایشن اداروں کو ایک بار پھر اپنی حفاظتی تدابیر پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ الاسکا کے اس افسوسناک حادثے میں 10 افراد کی ہلاکت نے پورے علاقے کو غم و افسوس میں ڈبو دیا ہے اور اب سب کی نظریں تلاشی کے عمل اور تحقیقات پر مرکوز ہیں تاکہ اس سانحے کی اصل وجوہات کا پتا چل سکے۔

مجھے نیند نہیں آتی! میرا بس چلے تو ابھی 15 فیصد ٹیکس اور شرح سود کم کردوں، وزیراعظم شہباز شریف

وزیراعظم شہباز شریف نے یوم تعمیر و ترقی کی خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کے ایک سال کی کامیابیوں اور چیلنجز کو تفصیل سے بیان کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے ایک سال میں اندھیروں سے اجالوں کی طرف سفر طے کیا اور اس عمل میں قوم کی دعائیں اور اجتماعی کوششیں شامل ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے خطاب میں واضح کیا کہ ملک کو اقتصادی بحران اور مہنگائی کی دلدل سے نکالنے کے لیے سخت فیصلے کیے گئے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ “ہم سب نے مل کر ملک کو اندھیروں سے نکالا ہے، یہ ترقی کا سفر اجتماعی کاوشوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔” انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان کے مطابق حکومتی اقدامات کے باعث مہنگائی کی شرح کم ترین سطح پر آ گئی ہے۔ انہوں نے ملک میں موجودہ معاشی چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ 2023 میں آئی ایم ایف پروگرام خدشات کا شکار تھا تاہم حکومت نے فوری اقدامات کر کے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ “پاکستان دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑا ہوچکا ہے، اور ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ 7 ارب ڈالر کا پروگرام طے ہوچکا ہے۔” انکا کہنا تھا کہ ملک میں کاروباری طبقے نے 300 ارب روپے کا ٹیکس دیا، جس سے ملک کی اقتصادی حالت میں بہتری آئی۔   وزیراعظم نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ملک میں مہنگائی 40 فیصد تک پہنچ چکی تھی اور مشکلات کا سامنا تھا، لیکن انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ان کے فیصلوں کی وجہ سے ملکی معیشت اب مضبوط ہو چکی ہے۔ یہ بھی پڑھیں: “حکومت عوام کی مشکلات سے باخبر ہے” خواجہ آصف شہباز شریف نے مزید کہا کہ “میں نہیں چاہتا کہ پچھلی حکومت پر الزام تراشی کی جائے، ہم اپنے کام پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔” انہوں نے کہا کہ “ڈیفالٹ کا سوچ کر نیند نہیں آتی تھی، لیکن قوم کی دعاؤں اور ہماری ٹیم ورک کی وجہ سے ہم اس مشکل دور سے باہر نکلے ہیں۔” انہوں نے حکومت کے کفایت شعاری کی پالیسی پر عمل درآمد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ “حکومت کفایت شعاری کی پالیسی پر سختی سے گامزن ہے، اور ہم اپنے وسائل کو بہترین انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔” وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کاروباری طبقے کی مشاورت سے پالیسیوں کو تشکیل دیں گے تاکہ ملک کی برآمدات کو بڑھایا جا سکے اور صنعتی ترقی کی رفتار تیز ہو سکے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں دہشت گردی کے مسئلے پر بھی بات کی اور سوال اٹھایا کہ “یہ دہشت گردی واپس کیوں آئی؟” انہوں نے کہا کہ “80 ہزار پاکستانیوں کی قربانیوں کے بعد دہشت گردی کا خاتمہ ہوا تھا، لیکن یہ واپس کیوں آئی؟ ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا۔”  انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی ختم نہیں ہوگی تو سرمایہ کاری واپس نہیں آئے گی اور ملکی استحکام کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں۔ انکا کہنا تھا کہ “ہمارے جوان روز دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، اور افواج پاکستان دن رات قربانیاں دے رہی ہیں۔” اس کے علاوہ وزیراعظم نے دہشت گردی کے خاتمے اور ملک میں امن و استحکام کی ضرورت پر زور دیا تاکہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ “مجھے مختلف القابات سے نوازا جاتا ہے لیکن ان سب کا مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ میں ہمیشہ ملک کی خدمت میں مصروف ہوں، اور قوم کی ترقی کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کروں گا۔” وزیراعظم شہباز شریف کا یہ خطاب ایک پرعزم اور متحرک حکومت کی عکاسی کرتا ہے، جو پاکستان کو اقتصادی بحران سے نکال کر ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ مزید پڑھیں: جو لوگ فوج کے خلاف باتیں کرتے ہیں ان کی خود 190 ملین پاؤنڈز کی چوری نکل آئی، عطا اللہ تارڑ

جو لوگ فوج کے خلاف باتیں کرتے ہیں ان کی خود 190 ملین پاؤنڈز کی چوری نکل آئی، عطا اللہ تارڑ

آج یوم تعمیر و ترقی کیی خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس میں وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم حلقے کے عوام کے لیے بڑھ چڑھ کر کام کر رہے ہیں اور عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے پاکستان میں مہنگائی میں کمی کو تسلیم کر رہے ہیں اور معیشت استحکام کی جانب گامزن ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہمارے تمام کارکن عوامی خدمت میں حصہ لے رہے ہیں، اور ملک بھر میں یوم تعمیر و ترقی منایا جا رہا ہے۔ عطا اللہ تارڑ نے مزید کہا کہ پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا کریڈٹ وزیر اعظم شہباز شریف کو جاتا ہے جن کی قیادت میں ملک نے سنگین اقتصادی مشکلات کا مقابلہ کیا۔ انہوں نے شہداء کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بدولت پاکستان کی معیشت دوبارہ درست راستے پر گامزن ہوئی۔ آخر میں، وزیر اطلاعات نے اس بات پر زور دیا کہ جو لوگ فوج کے خلاف باتیں کرتے ہیں ان کی خود 190 ملین پاؤنڈز کی چوری سامنے آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپہ سالار کی قیادت میں پاکستان ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے اور ان کی بھرپور کوششوں کی بدولت ملک نے ترقی کی راہ اختیار کی ہے۔ اس تقریب میں وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف اور دیگر اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔ مزید  پڑھیں: “حکومت عوام کی مشکلات سے باخبر ہے” خواجہ آصف

سمندر کی گہرائی میں انسانیت کا نیا سفر: سائنسدانوں نے منصوبہ تیار کر لیا

انسان نے زمین پر اپنے گھر بنانے کے بعد اب سمندر کی گہرائی میں بھی اپنی زندگی کا آغاز کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ ایک برطانوی کمپنی ‘ڈیپ’ نے ایک انقلابی منصوبہ تیار کیا ہے جس کے تحت انسان سمندر کے اندر ایک بیس میں رہ سکیں گے اور طویل عرصے تک پانی کی گہرائی میں زندگی گزار سکیں گے۔ اس منصوبے کی کامیابی کے بعد انسان کی زیر سمندر زندگی کا نیا باب شروع ہو گا، جو نہ صرف سائنس کے لیے ایک نیا سنگ میل ثابت ہو گا بلکہ انسانیت کی تاریخ میں بھی ایک اہم مقام حاصل کرے گا۔ ڈیپ کمپنی نے اپنے منصوبے کی تفصیلات میں بتایا ہے کہ یہ زیر سمندر بیس  سطح سمندر سے 200 میٹر نیچے واقع ہو گی، جہاں چھ یا اس سے زائد افراد بآسانی رہ سکیں گے۔ یہ بیس انسانوں کو سمندر کی گہرائی میں رہنے کی ایک نئی دنیا فراہم کرے گا، اور اس کے ذریعے ہم سمندر کے غیر دریافت شدہ حصوں تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔ اس منصوبے کا موازنہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن سے کیا جا رہا ہے، جو خلا میں انسانوں کی طویل مدت تک موجودگی کی پہلی مثال ہے۔ ڈیپ کمپنی کا کہنا ہے کہ سمندر زمین کا دو تہائی حصہ ہے اور وہ آکسیجن فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں لیکن ابھی تک ہم نے سمندر کے اندر کی دنیا کے بارے میں بہت کم جانا ہے۔ یہ بیس سمندر کی گہرائیوں میں انسانی زندگی کے امکانات کو دریافت کرنے کا ایک سنہری موقع فراہم کرے گی۔ اس کے ذریعے ہم نہ صرف سمندر کے راز کھول سکیں گے بلکہ بحری جہازوں کے ملبے کا جائزہ لے کر ہنگامی امدادی آپریشنز کے لیے نئے طریقے بھی دریافت کر سکیں گے۔ کمپنی کے مطابق ان کی کوشش ہے کہ 2027 تک یہ بیس سمندر کے اندر مکمل ہو جائے گی۔ اس منصوبے کی کامیابی کے بعد انسان پہلی بار سمندر کی گہرائی میں طویل عرصے تک رہنے کے قابل ہو گا۔ ضرور پڑھیں: آپ کی ایک گوگل سرچ بھی ماحول کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مگر کیسے؟ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پانی کے اندر انسان کا رہنا ممکن ہو گا کیونکہ خلا میں بھی انسان برسوں تک بغیر ہوا کے رہنے کے قابل ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سمندر میں زندگی گزارنا بھی ممکن ہے بشرطیکہ ضروری حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں۔ تاہم، اس کا ایک بڑا چیلنج پانی کا دباؤ ہے جو سمندر کی گہرائی میں بڑھ جاتا ہے اور کسی انسان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ لیکن سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس دباؤ کے اثرات کو کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور حفاظتی تدابیر موجود ہیں، جو اس نئے تجربے کو ممکن بنائیں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ، جیسے خلا میں انسان کا جسم بغیر ہوا کے زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتا ہے، ویسے ہی سمندر کی گہرائی میں بھی جسم پانی کے دباؤ کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جائے گا۔ سائنس کے ڈائریکٹر ‘ڈان کیرناگس’ نے اس حوالے سے تفصیل سے بات کی اور بتایا کہ جب کوئی غوطہ خور ایک خاص گہرائی میں رہتا ہے تو اس کا جسم پانی میں حل شدہ گیسوں کو جذب کر لیتا ہے جس سے اس کی جسمانی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ دباؤ کو بہتر طریقے سے برداشت کر سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کی تحقیق سمندر کے بارے میں ہمارے علم میں مزید اضافہ کرے گی اور ہمیں سمندری حیات کے بارے میں نئی معلومات حاصل ہوں گی۔ یہ منصوبہ نہ صرف انسانیت کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا بلکہ سائنسدانوں کے لیے بھی ایک انقلابی کامیابی ہو گی۔ اس کے ذریعے ہمیں سمندر کی گہرائیوں میں رہنے کے بارے میں نئی بصیرت ملے گی اور ایک نیا دور شروع ہو گا جہاں انسان اور سمندر کا تعلق ایک نئے انداز میں قائم ہو گا۔ ڈیپ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی کامیابی کے بعد سمندر میں رہنا ایک روز معمول بن جائے گا، اور یہ ایک نیا چیلنج بھی ہو گا۔ جو لوگ اس تجربے کا حصہ بنیں گے وہ نہ صرف نئی دنیا کا حصہ ہوں گے بلکہ انسانیت کی تاریخ کے ایک انقلابی لمحے کے گواہ بھی بنیں گے۔ مستقبل قریب میں سمندر کی گہرائی میں انسانی زندگی ممکن بننا ایک خواب کی طرح لگتا ہے لیکن سائنس کی تیز رفتار ترقی اور نئی ٹیکنالوجیز کی مدد سے یہ خواب حقیقت میں بدل سکتا ہے۔ جیسے جیسے یہ منصوبہ آگے بڑھے گا دنیا بھر کے لوگ اس کا مشاہدہ کریں گے اور ممکن ہے کہ مستقبل میں سمندر کی گہرائی میں زندگی گزارنا انسانیت کے لیے ایک عام بات بن جائے۔ مزید پڑھیں: پاکستانی خاندان کی منفرد صلاحیت سے واقف محقیقین کی دوا ایف ڈی اے نے منظور کر لی

پرنس کریم آغا خان کی آخری رسومات پرتگال میں ادا کر دی گئیں، کب اور کہاں سپرد خاک کیا جائے گا؟

اسماعیلی فرقے کے امام و روحانی پیشوا، پرنس کریم آغا خان چہارم کی آخری رسومات پرتگال کے شہر لزبن میں ادا کی گئیں اور کل انہیں مصر کے شہر اسوان میں سپردِ خاک کیا جائے گا۔ پرنس کریم آغا خان چہارم 88 برس کی عمر میں 5 فروری کو انتقال کر گئے، جس کے بعد ان کی روحانی اور فلاحی خدمات کا ایک نیا باب اختتام پذیر ہوا۔ آج ان کی نماز جنازہ پرتگال میں ادا کی گئی ہیں جس میں دنیا بھر سے عقیدت مندوں اور رہنماؤں نے شرکت کی۔ پرنس کریم آغا خان کا انتقال ایک عالمی سانحہ بن چکا ہے کیونکہ ان کی قیادت میں اسماعیلی جماعت نے دنیا بھر میں مذہبی رواداری، تعلیم اور فلاحی کاموں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کے تحت لاکھوں افراد کی زندگیوں میں بہتری آئی، اور ان کی سرپرستی میں مختلف ثقافتی، تعلیمی اور معاشی منصوبوں نے دنیا بھر میں انسانیت کی خدمت کی۔ یہ بھی پڑھیں:یوکرین نے اپنے معدنی وسائل اتحادیوں کے لیے کھول دیے، قیمت جنگ بندی پرنس کریم آغا خان کی زندگی کا مقصد ہمیشہ انسانیت کی فلاح و بہبود رہا۔ ان کی رہنمائی اور فلاحی کاموں کو عالمی سطح پر سراہا گیا، اور انہیں پاکستان میں ستارہ امتیاز اور ستارہ پاکستان جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کی قیادت میں اسماعیلی جماعت نے نہ صرف مذہبی خدمات سرانجام دیں بلکہ دنیا بھر میں تعلیمی ادارے اور صحت کے مراکز بھی قائم کیے جو آج بھی لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لا رہے ہیں۔ پرنس کریم آغا خان کے انتقال کے بعد ان کے جانشین کے طور پر ان کے فرزند پرنس رحیم کو منتخب کیا گیا ہے۔ ان کے انتقال پر پاکستان میں یوم سوگ منایا جا رہا ہے، جہاں لوگوں نے اپنے پیارے رہنما کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ پرنس کریم آغا خان کا انتقال ایک غمگین لمحہ ہے مگر ان کی رہنمائی، نظریات اور فلاحی منصوبے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کا دلی اثر اور انسانیت کے لیے ان کی خدمات تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ یاد رہے کے آغا کریم خان کی وافت کے بعد  53 سالہ رحیم اب نِزارہ اسماعیلی شیعہ مسلک کے پچاسویں امام کے طور پر خدمات انجام دیں گے اور اس مقدس عہدے پر فائز ہو کر اس خطے میں ایک نئی تاریخ رقم کریں گے۔ ضرور پڑھیں:چین کے عالمی اثر و رسوخ کو چیلنج کرنے میں امریکا کی مداخلت: پاناما نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو چھوڑ دیا آغا خان کی وفات، جو منگل کو 88 برس کی عمر میں ہوئی، اس کمیونٹی کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے کیونکہ کئی اسماعیلی افراد کے لیے یہ پہلا موقع ہے کہ وہ کسی دوسرے امام کو دیکھیں گے۔ ان کی قیادت میں آغا خان نے دنیا کے مختلف حصوں میں مثلاً افریقہ اور ایشیا میں انسانی فلاح کے کاموں کو تیز کیا جن میں سے خاص طور پر کینیا کی صحافتی تاریخ میں ان کا کردار نمایاں ہے۔  1960 کی دہائی میں آغا خان نے وہاں پریس کی ترقی میں مدد فراہم کی اور ‘نیشن میڈیا گروپ’ قائم کیا جو اب مشرقی اور وسطی افریقہ کا ایک بڑا میڈیا ادارہ ہے۔ اسماعیلی عقیدہ آٹھویں صدی میں شروع ہوا تھا اور اس کی بنیاد امام علی کی نسل سے ہے۔ نزارہ اسماعیلیوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان کا ایمان ان کے اندر انسانیت کی خدمت اور مذہبی رواداری کو اہمیت دیتا ہے۔ ان کی تاریخ نے ہمیشہ مسلمانوں کے دیگر فرقوں سے خود کو دور رکھا ہے اور اس میں ہمیشہ عالمی سطح پر امن اور ہم آہنگی کا پیغام دیا گیا ہے۔ آغا خان سوم نے بھی 1957 میں اپنے نواسے کو اپنے جانشین کے طور پر منتخب کیا تھا کیونکہ ان کے مطابق ایک نوجوان فرد کی ذہنیت عالمی تبدیلیوں کا بہتر جواب دے سکتی تھی۔ اب رحیم الحسنینی بھی اس سنت کو اپنانے جا رہے ہیں۔ اب رحیم کو اپنے والد کے اس وسیع فلاحی نیٹ ورک کو چلانے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی روحانی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دینا ہے۔ مزید پڑھیں: شیخ حسینہ واجد کی برطرفی، کیا محمد یونس ڈوبتے بنگلہ دیش کو بچا پائیں گے؟

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین ہونے والے میچ کے حوالے سے ٹریفک پلان جاری

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین قذافی اسٹیڈیم میں ہونے والے میچ کے حوالے سے ٹریفک انتظامات مکمل ہو گئیں، پارکنگ پلان جاری کر دیا گیا۔ سٹی ٹریفک آفیسر ڈاکٹر اطہر وحید کا کہنا ہے کہ میچ کے دوران ایک ہزار سے زائد ٹریفک پولیس اہلکار  ڈیوٹی سرانجام دیں گے، رانگ پارکنگ ہرگز نہیں ھونے دی جائے گی۔ 20 فورک لفٹرز،04 بریک ڈاؤنز ہر وقت تیار رہیں گی۔ سٹی ٹریفک آفیسر کا کہنا ہے کہ ڈیفینس سے آنے والے شرکاء فردوس مارکیٹ سے، سنٹر پوائنٹ سے لیفٹ ٹرن لے کر سی بی ڈی میں گاڑیاں پارک کریں گے۔ دوسری طرف فیروز پور روڈ سے آنے والے کلمہ چوک سے ٹرن لے کر نیشنل پارک سے گورنمنٹ کالج گلبرگ میں پارک کریں گے۔ مزید یہ کہ ڈیفنس اور کینٹ سے آنے والے شرکاء حسین چوک کی طرف سے یا شیر پاو برج سے ہوتے ہوئے مین بلیوارڈ گلبرگ سے لبرٹی پارکنگ میں پارک کریں گے۔ مغل پورہ اور گڑھی شاہو سے آنے والے مین بلیوارڈ گلبرگ سے سن فورٹ ہوٹل لبرٹی پارکنگ میں پارک کریں گے۔ ڈاکٹر اطہر وحید نے کہا ہے کہ کسی بھی روڈ کو مستقل طور پر بند نہیں رکھا جائے گا، تمام سڑکیں ٹریفک کے لئے کھلی رہیں گی بشمول مال روڈ جیل روڈ کینال روڈ اور فیروز پور روڈ اور مین بلیووارڈ گلبرگ پر بھی ٹریفک معمول کے مطابق چلتی رہے گی۔ شہریوں اور شائقین کرکٹ کو ٹریفک کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور شہریوں سے گزارش ہے کہ شہری رانگ پارک ہرگز نہ کریں، مقرر کردہ پارکنگ سٹینڈز میں اپنی گاڑی پارک کریں۔ مزید یہ کہ راستہ ایپ،راستہ ایف ایم 88.6 کے ذریعے شہریوں کو آگاہ رکھا جائےگا۔

پاکستان میں غذائی قلت: ”یہ بھوک نہیں، نسلوں کی بقا کا مسئلہ ہے”

پاکستان میں غذائی قلت ایک ایسا بحران ہے جو آہستہ آہستہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس وقت ملک کی ایک بڑی آبادی بنیادی غذائی اجزا سے محروم ہے، جس کے نتیجے میں بچے اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ نیوٹریشن انٹرنیشنل کی ایک حالیہ ورکشاپ میں سامنے آنے والے اعداد و شمار انتہائی تشویش ناک ہیں۔ پاکستان میں ہر تین میں سے ایک بچہ غذائی قلت کا شکار ہے اور اگر صورت ِحال یہی رہی تو آنے والے سالوں میں اس کے اثرات ناقابلِ واپسی ہو سکتے ہیں۔ “میرے بچے کی ہڈیاں نکل آئی ہیں، ڈاکٹر کہتے ہیں اچھی خوراک دو، پر کہاں سے لاؤں؟” پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ میں رہنے والی شبانہ بی بی کا چھوٹا بیٹا کمزور ہو کر ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا ہے۔ “ڈاکٹر کہتے ہیں کہ بچے کو دودھ، گوشت اور پھل دیں، مگر ہم تو دن میں ایک بار دال روٹی پوری کر لیں تو بڑی بات ہے۔” یہ کہانی صرف شبانہ بی بی کی نہیں، بلکہ ملک کے لاکھوں والدین کی ہے جو اپنے بچوں کو متوازن خوراک دینے سے قاصر ہیں۔ پاکستان میں غذائی قلت کے چونکا دینے والے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، جن کے مطابق 34 فیصد بچے (پانچ سال سے کم عمر) پست قد کا شکار ہیں۔ 22% نومولود بچے کم وزن کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ 53% بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔ 41% حاملہ خواتین آئرن کی کمی میں مبتلا ہیں، جس سے ان کے بچوں کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ نیوٹریشن انٹرنیشنل، یونیسف، ورلڈ بینک، پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس  کے مطابق غذائی قلت کے باعث پاکستان کی معیشت کو سالانہ 17 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مسئلہ صرف خوراک کی کمی نہیں بلکہ غیر متوازن خوراک بھی ایک بڑا سبب ہے۔ ملک میں زیادہ تر لوگ سادہ کاربوہائیڈریٹس (چاول، آٹا، چینی) پر گزارا کرتے ہیں، جب کہ پروٹین، وٹامنز اور منرلز کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ غذائیت ڈاکٹر زین نے کہا کہ یہ لوگ بھوکے نہیں، بلکہ غذائی اجزاء کی کمی کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر زین نے کہا ہے کہ ‘پاکستان میں ہر سال ہزاروں بچے اس لیے کمزور پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ماؤں کو دورانِ حمل مناسب خوراک نہیں ملتی۔ آئرن، کیلشیم اور وٹامن ڈی کی شدید کمی  کے باعث مائیں  بیمار پڑ جاتی ہیں اور بچے بہتر نشوونما نہیں کر پاتے۔” جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والی بتول بی بی نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ حمل کے دوران انہیں کبھی گوشت، دودھ یا پھل کھانے کو نہیں ملے۔ گھر میں جو کھانے کو ہوتا، وہی انھیں کھانا پڑتا تھا۔ اب ان کا بیٹا کمزور پیدا ہوا ہے، وہ بیمار بھی بہت رہتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں 41 فیصد حاملہ خواتین آئرن کی کمی کا شکار ہیں، جس کے نتیجے میں کم وزن بچوں کی پیدائش عام ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف غذائی قلت کا معاملہ نہیں، یہ پورے معاشرتی نظام کی ناکامی ہے۔ بچوں کو اسکولوں میں صحت مند کھانے کا نظام دینا ہوگا، حاملہ خواتین کے لیے سپلیمنٹس کو سستا اور آسانی سے دستیاب بنانا ہوگا۔ اس کے بغیر ہم آنے والی نسلوں کو بچا نہیں سکتے۔ مزید یہ کہ غذائی قلت پاکستان کی معیشت کو بھی نگل رہی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی معیشت کو سالانہ 17 ارب ڈالر کا نقصان غذائی قلت کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق غذائی قلت کے شکار بچے بڑے ہو کر جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور رہتے ہیں، جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور وہ ایک پیداواری شہری کے طور پر معیشت میں اپنا بھرپور کردار ادا نہیں کر پاتے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں ہر سال لاکھوں ٹن گندم، چاول، دالیں اور دیگر غذائی اجناس پیدا ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے عام طور پر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ  پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود  غذائی قلت کا شکار کیوں ہے؟ ماہرین نے  اس کی تین بڑی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ  مہنگائی کے سبب معیاری اور متوازن خوراک عام آدمی کی پہنچ سے باہر جا  چکی ہے۔ غلط ترجیحات کی وجہ سے خوراک کی تقسیم اور غذائی اجزاء کی شمولیت پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ مزید یہ کہ پاکستان میں 70 فیصد سے زائد پانی آلودہ ہے، جس کی وجہ سے بچوں میں اسہال اور دیگر بیماریاں عام ہو رہی ہیں، جو غذائی قلت کو مزید بڑھا رہی ہیں۔ پاکستان میں غذائی قلت ایک ایسا بحران بن چکا ہے جو صرف غربت یا مہنگائی کی وجہ سے نہیں، بلکہ حکومتی پالیسیوں کی ناکامی کا نتیجہ بھی ہے۔ یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان کی بڑی آبادی غذائی کمی کا شکار کیوں ہے؟ پاکستان میں ہر حکومت غذائی قلت پر بڑے بڑے دعوے تو کرتی ہے، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ‘احساس نشوونما پروگرام’، ‘فوڈ سیکیورٹی پالیسی’ اور مختلف فلاحی اسکیموں کا اعلان کیا گیا، لیکن یہ پروگرام یا تو بیوروکریسی کی نذر ہو گئے یا ناکافی ثابت ہوئے۔ ماہر خوراک ڈاکٹر زین کا کہنا ہے کہ حکومت غذائی قلت کے اعداد و شمار تو جمع کرتی ہے، لیکن ان پر عملی اقدامات نہیں کیے جاتے۔ بچوں کو متوازن خوراک دینے کے بجائے حکومتی سطح پر سبسڈی کم کی جا رہی ہے، جس سے صحت مند خوراک مزید مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں غذائی قلت ایک ایسی تباہی لا سکتی ہے جس کا اثر دہائیوں تک محسوس کیا جائے گا۔ یہ بحران پانی کی کمی، غربت اور مہنگائی سے جڑا ہوا ہے۔ اگر حکومت نے صحت مند خوراک کو سستا اور آسانی سے دستیاب نہ کیا، تو پاکستان میں آنے والی نسلیں مزید کمزور ہوں گی اور ہم ایک صحت مند قوم بنانے کے خواب کو کھو دیں گے۔” پاکستان کو بھوک کے خلاف نہیں، بلکہ غذائی کمی