’صورتحال مزید خراب نہ کریں‘ امریکا دونوں ممالک سے رابطے میں ہے

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ہفتے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے مہلک حملے کے بعد انڈین فوج کو مکمل کارروائی کی اجازت دے دی ہے، جس کا مقصد مبینہ طور پر پاکستان کو نشانہ بنانا ہے۔ نشریاتی ادارے ڈان کی رپورٹ کے مطابق، حملے کے ایک ہفتے بعد مودی نے تینوں افواج کے سربراہان، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے ساتھ بند کمرے میں ملاقات کی۔ ایک سینئر حکومتی ذریعے نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ مودی نے افواج کو ہدایت دی کہ وہ ردعمل کے وقت، طریقہ کار اور اہداف کے حوالے سے مکمل خودمختاری کے ساتھ فیصلے کریں۔ منگل کو ہونے والی اس ملاقات کی مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ ایک دن قبل پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے انڈیا کی ممکنہ دراندازی کے بارے میں خبردار کیا تھا، اور کہا تھا کہ آئندہ دن نہایت اہم ہوں گے اور پاکستان ہر ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ مودی نے اعلان کیا تھا کہ وہ حملے میں ملوث افراد اور ان کے حامیوں کا پیچھا کریں گے اور انہیں سزا دیں گے۔ انڈیا میں اس اجلاس کے بعد میڈیا میں ممکنہ فوجی ردعمل سے متعلق قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں، جس سے خطے میں کشیدگی بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ ان بیانات پر چین سمیت کئی ممالک نے فریقین پر تحمل اختیار کرنے اور بات چیت کی اپیل کی ہے۔ امریکا کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آیا ہے۔ محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو انڈیا اور پاکستان کے وزرائے خارجہ سے بات چیت کریں گے۔ امریکا دونوں ممالک پر زور دے گا کہ صورتحال کو مزید خراب نہ ہونے دیں۔ بروس نے کہا کہ روبیو دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ سے بھی رابطہ کر رہے ہیں تاکہ معاملے کو پرامن طریقے سے حل کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی پاکستان کے وزیر اعظم اور انڈیا کے وزیر خارجہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کی، اور کشیدگی میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ان کے ترجمان نے بتایا کہ گوتریس نے تصادم سے بچنے اور اپنے کردار کی پیشکش کی ہے تاکہ کشیدگی میں کمی لائی جا سکے۔ اسلام آباد میں وزیر اعظم آفس کے مطابق شہباز شریف نے گوتریس سے گفتگو میں انڈیا کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کیا اور واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ دہرایا۔ انہوں نے انڈیا کی جانب سے کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی قرار دینے کی کوششوں اور مقبوضہ علاقے میں ریاستی دہشت گردی پر تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی انڈین کوشش ناقابل قبول ہے کیونکہ یہ 24 کروڑ لوگوں کی زندگی سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ کشیدگی کے دوران سوشل میڈیا پر افواہیں گردش کرنے لگیں کہ پاکستان میں ہوائی اڈے بند کیے جا رہے ہیں۔ تاہم، حکام نے اس کی تردید کی ہے اور بتایا کہ ملکی و عالمی پروازوں کا شیڈول معمول کے مطابق جاری ہے۔ مثال کے طور پر اسلام آباد سے دوحہ کی پرواز بدھ کی رات روانہ ہوئی جبکہ شارجہ سے آنے والی پرواز وقت پر پہنچی۔ اسلام آباد اور لاہور ایئرپورٹس کے حکام نے بھی تصدیق کی ہے کہ فلائٹ آپریشن مکمل طور پر فعال ہے۔
’وہ شخص مجرم تھا، گواہ تھا یا محض راہ گیر، کچھ واضح نہیں‘ سویڈن میں فائرنگ سے 3 افراد ہلاک

پولیس نے بتایا کہ سویڈن کے شہر اپسالا میں منگل کے روز فائرنگ کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے اور اس واقعے کی قتل کے طور پر تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ پولیس کے مطابق، انہیں اس واقعے کو دہشت گردی یا نفرت پر مبنی جرم سمجھنے کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ پولیس کے ترجمان نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ ایک شخص سکوٹر پر جائے وقوعہ سے روانہ ہوا، لیکن یہ واضح نہیں کہ وہ شخص مجرم تھا، گواہ تھا یا محض راہ گیر تھا۔ ہلاک شدگان کی شناخت ابھی تک نہیں ہو سکی اور پولیس نے قتل کے ممکنہ اسباب پر بات کرنے سے گریز کیا ہے۔ سویڈن میں حالیہ برسوں کے دوران تنازعات کے نتیجے میں ہونے والی فائرنگ کے بعد فرار ہونے کے لیے الیکٹرک سکوٹر کا استعمال دیکھا گیا ہے۔ اپسالا، جو کہ دارالحکومت اسٹاک ہوم سے شمال میں تقریباً 40 منٹ کی مسافت پر ہے، میں گذشتہ دہائی میں متعدد فائرنگ کے واقعات پیش آ چکے ہیں، تاہم یہ واقعات عام طور پر شہر کے مرکزی حصے سے دور پیش آئے۔ یہ بھی پڑھیں: یورپ میں ٹی بی کا بڑھتا ہوا خطرہ، بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں سویڈن کے وزیر انصاف گنر سٹرومر نے کہا کہ وزارت پولیس کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے اور اس واقعے کی پیش رفت پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اپسالا کے مرکزی علاقے میں تشدد کی ایک سنگین واردات ہوئی ہے، اور یہ ایسے وقت پیش آئی ہے جب وہاں والپورگیس نائٹ کی تقریبات کا آغاز ہو رہا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ انہیں شہریوں کی کالز موصول ہوئیں جن میں شہر کے مرکز میں گولیاں چلنے کی آواز کی اطلاع دی گئی، اور ایمرجنسی سروسز فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں۔ تفتیشی ٹیم نے بعد میں تصدیق کی کہ تین افراد فائرنگ میں ہلاک ہو گئے ہیں، اور معاملے کی قتل کے طور پر تحقیقات کی جا رہی ہے۔ چشم دید گواہوں نے سویڈن کے نشریاتی ادارے ایس وی ٹی کو بتایا کہ انہوں نے تقریباً پانچ گولیاں چلنے کی آواز سنی اور لوگ گھبراہٹ میں محفوظ جگہوں کی طرف بھاگتے نظر آئے۔ سویڈش میڈیا اداروں جیسے ٹی ٹی نے رپورٹ کیا ہے کہ فائرنگ ایک ہیئر سیلون کے اندر یا اس کے آس پاس ہوئی۔ فروری میں سویڈن کے شہر اوربرو میں ایک شخص نے بالغوں کے تعلیمی مرکز میں فائرنگ کر کے دس افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جو ملک کی سب سے جان لیوا اجتماعی فائرنگ کا واقعہ بن گیا۔ سویڈن گزشتہ کئی برسوں سے گروہوں سے متعلقہ تشدد کی لہر کا سامنا کر رہا ہے، جس میں آتشیں اسلحے کا استعمال بھی شامل ہے۔ ملک کی دائیں بازو کی اقلیتی حکومت نے 2022 میں اقتدار میں آنے کے بعد گروہی تشدد پر قابو پانے کے وعدے کیے تھے، اور اس نے قوانین سخت کرتے ہوئے پولیس کو مزید اختیارات دیے ہیں۔ اوربرو واقعے کے بعد حکومت نے کہا تھا کہ وہ بندوقوں سے متعلق قوانین کو مزید سخت کرنے کی کوشش کرے گی۔
پاکستان، انڈیا کشیدگی: دفاعی لحاظ سے کون کتنا طاقتور ہے؟

22 اپریل بروز منگل کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک ایسا واقعہ ہو، جس نے دو ایٹمی طاقتوں کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کردیا ہے۔ حملے کے فوری بعد انڈین وزیرِاعظم نریندر مودی سعودی عرب کا دورہ ختم کر کے وطن واپس پہنچتے ہیں، ہوائی اڈے پر ہنگامی اجلاس طلب ہوتا ہےاور حملے کا الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے۔ ترجمان انڈین وزارتِ خارجہ کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ انڈیا نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا ہے، اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن سے فوجی مشیروں کو واپس بلا رہا ہے۔ مزید یہ کہ اٹاری اور واہگہ بارڈر کو بند کیا جارہا ہے، تمام پاکستانی شہریوں کو 48 گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ مودی سرکار اور گودی میڈیا کی جانب سے پاکستان پر الزام عائد کرنے کے بعد اعلان کیا جاتا ہے کہ انڈیا ملوث ہونے والوں کو عبرتناک سزا دے گا اور حملہ کرنے والوں سے رعایت نہیں برتی جائے گی۔ مقامی افراد، کچھ سیاستدان اور آئینی شاہدین نےاسے فالس فلیگ آپریشن کا نام دے دیا۔ انڈین ریٹائرڈ جنرل کے ایس گل نے کہا ہے کہ سال 2000 میں بی جے پی حکومت نے امریکی صدر بل کلنٹن کو متاثر کرنے کے لیے کشمیر میں ایک منصوبہ بند قتل عام کے ذریعے 25 بے گناہ سکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ یہ ایک خوفناک سازش تھی، جس میں اپنے ہی شہریوں کی جان لے کر عالمی بیانیہ کو موڑا گیا۔ ہندوستانی عوام کو بیدار ہونا چاہیے اور ایسی جنگی چالاکیوں کو مکمل طور پر مسترد کرنا چاہیے۔ ہمیں جنگ کو ‘نہیں’ کہنا چاہیے۔” دوسری جانب پاکستانی عوام و سیاستدان متحد نظر آرہے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ پہلگام حملے کے پیچھے انڈیاکے بہت سے عزائم ہیں، اگر انڈیا نے شرارت کی تو ایک کے بدلے دو کے تناسب سے جواب دیا جائے گا۔ اس سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ جب دو ایٹمی طاقتیں جنگ کریں گی تو کون جیتے گا؟ کس کا پلہ بھاری ہے؟ ایک سابق انڈین کورکمانڈرنے اپنے ملک کی جنگی صلاحیتوں پر سوال اٹھا دیا ہے اور کہا ہے کہ انڈیا کے پاس پاکستان سے جنگ کی نہ اہلیت ہے نہ صلاحیت، ہمارے پاس ایسی تکنیکی برتری نہیں جو جنگی کارروائیاں بغیر کسی خوف کے انجام دینے کے لیے درکار ہوتی ہے، جیسے امریکا کرتاہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے وکیل جمال جعفر خان نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب دو ایٹمی طاقتیں جنگ کریں گی تو کوئی نہیں جیتے گا۔ ایٹمی جنگ میں صرف تباہی ہوگی، دونوں طرف ناقابلِ تصور جانی و مالی نقصان ہوگا اور انسانیت کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔ 2023 میں دی ایکنامک ٹائمز کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کے پاس 170 نیوکلیئر ہتھیار ہیں، جن کی تعداد تقریباً 200 ہے۔ دوسری جانب فیڈریشن آف امیریکن سائینٹسٹ نے 26 مارچ 2025 کو ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ انڈیا کے پاس 180 نیوکلیئر ہتھیار موجود ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کئی چھوٹی بڑی جنگیں ہوچکی ہیں، پہلی جنگ 1947 میں تقسیم کے فوراً بعد پہلی جنگ کشمیر پرہوئی۔ بانی پاکستان نے کشمیر کا پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔ اس جنگ کا نتیجہ ایک عارضی جنگ بندی اور ایک مستقل مسئلہ نکلا، جو آج بھی اپنے حل کے لیے عالمی عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے۔ دوسری جنگ 1965 میں ہوئی جب رات کی تاریکی میں انڈیا نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ لاہور کی فضا دھماکوں کی گھن گرج سے گونجتی رہی۔ دونوں جانب سے شدید لڑائی ہوئی، پاکستان نے دفاعی میدان میں تاریخ رقم کی۔ لیکن بات دوبارہ تاشقند کے معاہدے پر ختم ہوئی۔ تیسری جنگ1971میں ہوئی، جس میں انڈیا نے اپنی چالاکی کھل کر عیاں کی اور سازشوں کے گھیرے میں آ کر پاکستان نے اپنے مشرقی بازو کو کھو دیا۔ اورپھرآخری جنگ 1999 میں کارگل کے مقام پر ہوئی اور اس میں پاکستان کی فوجی پوزیشن نے انڈیاکو حیران کر دیا، لیکن عالمی دباؤ کے باعث پاکستان کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ نوجوان صحافی سراج حمید نے پاکستان میٹرز کو بتایا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان مستقل حل نہ نکلنے کی بڑی وجہ کشمیر کا حل طلب تنازع، باہمی عدم اعتماد، سیاست میں جنگی بیانیہ اور مسلسل مذاکرات کا فقدان ہے۔ اس کے علاوہ عالمی سیاست بھی اہم وجہ ہے، عالمی طاقتیں جنوبی ایشیا میں امن اور ترقی برداشت نہیں کرسکتیں، جس کی وجہ سے پشت پناہی کرکے اس مسئلے کو ابھی تک حل نہیں کیا گیا۔ یہ آج تک کی پاکستان انڈیا بڑی جنگیں ہیں لیکن پاکستان اور انڈیا کے درمیان صرف ہتھیاروں کی جنگ نہیں ہوتی بلکہ سوشل میڈیا، ڈیٹا شئیرنگ اور سب سے اہم پانی کی جنگ بدستور جاری ہے۔ پاکستان کو اندرون ممالک خوارج کا مسئلہ درپیش ہے، پاک فوج مغربی سرحد پر افغانستان سے ہونے والی دراندازی سے نمٹ رہی ہے، بلوچستان میں بی ایل اے کے دہشت گرد درد سر بنے ہوئے ہیں۔ انڈیا کو دیکھیں تو اس کی اپنی حالت خراب ہے، یہ طویل عرصے سے مقبوضہ کشمیر میں مارکھارہا ہے، 8 لاکھ فوج ہونے کے باوجود پہلگام جیسے واقعات ہورہے ہیں ، منی پور میں بغاوت کی تحریک چل رہی ہے، تامل ناڈو، آسام میں الگ مسئلہ ہے، چینی سرحد پر بھی انڈین فوج مارکھارہی ہے۔ انڈین سکھ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف نہیں لڑیں گے۔ خالصتان تحریک مودی سرکار کے درد سر ہے۔ تحریک خالصتان کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ انڈین اقلیتوں، بالخصوص سکھوں پر ہونے والے مظالم اب دنیا سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔ ہم پاکستانی عوام کے ساتھ اینٹ کی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔یہ نہ 1965 ہے، نہ 1971 بلکہ 2025 ہے۔ ہم انڈین آرمی کو پنجاب سے گزر کر پاکستان پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اگر دیکھیں تو پاکستان میں سیاسی استحکام ہے اور پوری سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے مگر انڈین وزیراعظم
اسلام آباد:اربوں روپے کی جعلی الاٹمنٹس کا انکشاف، سی ڈی اے کے افسران گرفتار

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اینٹی کرپشن سرکل اسلام آباد نے ایک بڑی کارروائی کے دوران کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے پانچ اعلیٰ افسران کو گرفتار کر لیا ہے۔ گرفتار افراد پر اربوں روپے کی جعلی پلاٹ الاٹمنٹس میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ گرفتار افسران میں اصغر علی، راجہ شعیب ملال، تیمور احمد، عنایت اللہ اور آفتاب احمد شامل ہیں، جو سی ڈی اے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدوں پر فائز تھے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق، ملزمان کو اسپیشل جج سینٹرل II اسلام آباد کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ کیے جانے کے بعد گرفتار کیا گیا۔ ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ملزمان نے جعلی اراضی متاثرین ظاہر کر کے اسلام آباد کے اہم سیکٹرز آئی 14، ای11 اور ڈی13 میں غیر قانونی طور پر 43 پلاٹس الاٹ کیے۔ یہ جعلی الاٹمنٹس قومی خزانے کو تقریباً ایک ارب روپے کا نقصان پہنچانے کا سبب بنیں۔ ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے جعلی فائلوں کی بنیاد پر پلاٹس الاٹ کیے اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ ایف آئی اے نے گرفتار افسران سے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے، جبکہ کیس سے منسلک دیگر مشتبہ افراد کے خلاف بھی چھاپہ مار کارروائیاں جاری ہیں۔ مزید گرفتاریاں متوقع ہیں اور کیس کی تحقیقات کو مزید وسعت دی جا رہی ہے۔