موٹر وے پر مسافر کوچ اور ٹرالر میں تصادم، بنوعاقل میں ٹریفک حادثے میں تین افراد جاں بحق

پنوعاقل کے قریب سانگی کے مقام پر ایم 5 موٹر وے پر ایک افسوسناک حادثے میں مسافر کوچ اور ٹرالر کے درمیان تصادم کے نتیجے میں تین افراد جاں بحق اور بارہ شدید زخمی ہو گئے۔ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب کراچی سے علی پور جانے والی مسافر کوچ کا ٹائر پھٹ گیا اور وہ بے قابو ہو کر ٹرالر سے جا ٹکرائی۔ حادثے میں جاں بحق ہونے والوں میں ایک معصوم بچی رحیماں بنت محمد ندیم، 40 سالہ محمد ہاشم اور ایک نامعلوم عورت شامل ہیں، جن کی شناخت تاحال نہیں ہو سکی۔ زخمیوں میں آسیہ زوجہ محمود، علیشا، ثمینہ، زینب، علینا، شازیہ، حمزہ، محمد امجد، شاہد، حماد، اور محمد سلیم شامل ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: اسکول ٹیچر کی ہراسانی، لودھراں میں 16 سالہ زینب نے کیڑے مار دوا کھا کر خودکشی کر لی حادثے کے فوراً بعد موٹر وے پولیس اور سانگی تھانے کی پولیس نے جاں بحق اور زخمی افراد کو تعلقہ ہسپتال پنوعاقل منتقل کیا۔ جاں بحق افراد کی لاشیں مردہ خانے میں رکھ دی گئی ہیں جب تک کہ ان کے لواحقین ہسپتال نہ پہنچ جائیں۔ زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے اور ان کا علاج جاری ہے۔ پنوعاقل پولیس کی جانب سے متاثرہ افراد کے اہل خانہ سے رابطے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ زخمیوں میں سے بعض کا تعلق ایک ہی خاندان سے بتایا جا رہا ہے۔ پنوعاقل کی سیاسی و سماجی تنظیمیں زخمیوں کی مدد میں سرگرم عمل ہیں اور ہسپتال میں تعاون فراہم کر رہی ہیں۔ تاحال واقعے کا کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا، تاہم پولیس کی جانب سے مزید تحقیقات جاری ہیں۔ حادثے کے بعد کوچ میں سوار دیگر مسافروں کو پنوعاقل کے شہریوں کی مدد سے ان کی منزل مقصود تک پہنچایا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ ایک بار پھر شاہراہوں پر سفر کے دوران احتیاط اور گاڑیوں کی فٹنس یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
اسکول ٹیچر کی ہراسانی، لودھراں میں 16 سالہ زینب نے کیڑے مار دوا کھا کر خودکشی کر لی

لودھراں کے علاقے گوگراں میں دسویں جماعت کی ایک طالبہ دعا زینب نے مبینہ طور پر ہراسانی، بلیک میلنگ اور مسلسل دھمکیوں کے باعث خودکشی کر لی۔ 16 سالہ دعا زینب نے زہریلی کیڑے مار دوا کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ یہ دوا عموماً گندم کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ دعا کے والد اللہ بخش کی شکایت پر قریشی والا تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 316 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جس میں اسکول کے کیمسٹری اور عربی کے استاد محمد ثقلین کو نامزد کیا گیا ہے۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: بنوں میں دہشتگردوں اور سی ٹی ڈی کے درمیان جھڑپ میں تین اہلکار شہید، دو دہشتگرد ہلاک اللہ بخش نے بیان دیا کہ ان کی بیٹی کو اس کے استاد ثقلین نے وٹس ایپ پر بارہا کالز اور پیغامات کے ذریعے ہراساں کیا، بلیک میل کیا اور شادی کی پیشکش کا دباؤ ڈالا۔ دعا نے اپنی موت سے قبل ایک ویڈیو بیان بھی ریکارڈ کیا، جس میں اس نے ملزم کا نام لے کر ساری صورتحال بیان کی اور کہا کہ وہ اپنی عزت اور خاندان کی عزت کی خاطر یہ انتہائی قدم اٹھا رہی ہے۔ پولیس نے دعا زینب کا موبائل فون اور ویڈیو بیان قبضے میں لے کر باقاعدہ تفتیش شروع کر دی ہے۔ اللہ بخش نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف، چیف جسٹس آف پاکستان، اور پنجاب کے آئی جی پولیس عثمان انور سے اپیل کی ہے کہ ان کی بیٹی کو انصاف دلایا جائے اور ملزم کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی اور بچی کے ساتھ ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔ انہوں نے زور دیا کہ اسکولوں کا مکمل آڈٹ کیا جائے، اساتذہ کے کردار و طرز عمل پر نظر رکھی جائے، اور اسکول مالکان و پرنسپلز کو ان کے عملے کی حرکات پر جوابدہ بنایا جائے۔ اللہ بخش نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی نہایت ذہین، نیک اور نماز کی پابند تھی، اور ان کے خاندان نے ایک ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ہر فورم پر آواز بلند کریں گے تاکہ ان جیسے خاندانوں کو مزید اذیت سے نہ گزرنا پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ دعا کی موت محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک ویک اپ کال ہے، جس پر فوری اور سنجیدہ ایکشن لینا ضروری ہے۔
غزہ پر حملوں کے خلاف احتجاج: ٹیکساس یونیورسٹی کے طلباء کا گورنر اور پولیس پر گرفتاریوں کے خلاف مقدمہ

یونیورسٹی آف ٹیکساس آستین کے پرامن طلباء اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے تو اچانک ریاستی پولیس نے ان کا محآصرہ کرلیا۔ اب، ان ہی چار طلباء نے ریاستی گورنر گریگ ایبٹ، یونیورسٹی کے صدر جے ہارٹزل اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مقدمہ دائر کر دیا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ ان کی گرفتاری نہ صرف غیر قانونی تھی بلکہ ان کے آئینی حقوق پر ایک سیدھا حملہ تھا، خاص طور پر آزادیِ اظہار اور پُرامن اجتماع کے حقوق پر۔ یہ مقدمہ امریکی-عرب اینٹی ڈسکریمنیشن کمیٹی (ADC) نے سان انتونیو کی وفاقی عدالت میں دائر کیا ہے۔ مقدمے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 24 اپریل 2024 کو کیمپس میں ہونے والے احتجاج کو دبانے کے لیے ریاستی سطح پر منظم طاقت کا استعمال کیا گیا، جس کا حکم بذات خود گورنر ایبٹ نے دیا۔ پولیس نے بکتر بند لباس پہنے، آنسو گیس کے شیل داغے اور درجنوں مظاہرین کو بے دردی سے گرفتار کر لیا۔ ان میں سے بیشتر بعد میں بغیر کسی چارج کے رہا کر دیے گئے، ٹریوس کاؤنٹی اٹارنی آفس نے صاف کہہ دیا کہ “کسی بھی گرفتاری کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔” لازمی پڑھیں: ’سندھ طاس معاہدے کو ہتھیار بنانا افسوس ناک ہے‘ وزیر اعظم شہباز شریف کی امریکی وزیر خارجہ سے گفتگو دوسری جماعت کی طالبہ اروِن ہیلرین نے بتایا کہ وہ زمین پر گرائی گئیں، ہاتھوں میں سختی سے زپ ٹائیز کس دی گئیں اور وہ اس وقت سے شدید ذہنی دباؤ اور PTSD کا شکار ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ “ہمیں دہشت گردوں کی طرح دکھایا گیا، جیسے ہم کسی جرم کے مرتکب ہوں، لیکن ہمارا واحد ‘جرم’ سچ بولنا تھا۔” تیسری جماعت کی طالبہ میا سسکو، جن کا حجاب زبردستی اتار دیا گیا، وہ کہتی ہیں کہ “یہ لڑائی اب صرف میرے لیے نہیں، ان سب کے لیے ہے جن کی آوازیں دبائی جا رہی ہیں۔” یونیورسٹی نے ردِعمل میں ایک مختصر بیان جاری کیا کہ ان اقدامات کا مقصد کیمپس کی سیکیورٹی اور ضوابط کا نفاذ تھا۔ ترجمان مائیک روزن کا کہنا تھا کہ “اکثریت وہ افراد تھے جو یونیورسٹی سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔” ADC کے ڈائریکٹر عبد ایوب کا کہنا ہے کہ “گورنر ایبٹ اور ان کے حمایتی یہ سمجھنے میں ناکام ہو رہے ہیں کہ امریکی، خصوصاً ٹیکساس کے عوام، اپنے آئینی حقوق اور خاص طور پر اظہارِ رائے کی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔” یہ مقدمہ صرف ایک قانونی جنگ نہیں بلکہ ایک نظریاتی جنگ ہے، یہ طے کرے گی کہ آیا امریکا کی جامعات آئندہ نسلوں کو سوچنے، بولنے اور سچائی کے لیے کھڑا ہونے کا حق دیں گی یا نہیں۔ مزید پڑھیں: یوکرین کی ’قیمتی معدنیات‘ امریکا کے ہاتھ میں، معاہدہ طے پا گیا
بنوں: جھڑپ میں تین اہلکار جاں بحق، دو دہشت گرد ہلاک

خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں دہشت گردوں اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) پولیس کے درمیان ہونے والے فائرنگ کے تبادلے میں سی ٹی ڈی کے تین اہلکارجاں بحق اور دو زخمی ہو گئے۔ یہ واقعہ بنوں کے علاقے چشمی کے سپن تنگی مقام پر پیش آیا، جس کی تصدیق بنوں کے ریجنل پولیس آفیسر سجاد خان کے دفتر سے جاری بیان میں کی گئی۔ فائرنگ کے دوران سی ٹی ڈی کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر بنیامین خان، کانسٹیبل انعام خان اور کانسٹیبل مصور جان کی بازی ہار گئے، جب کہ کانسٹیبل وافد خان اور عمران شدید زخمی ہوئے۔ حکام کے مطابق، مقابلے کے دوران دو دہشتگرد مارے گئے، جب کہ ان کے دیگر ساتھی لاشیں اور زخمی افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ پولیس نے جائے وقوعہ سے اسلحہ، گولہ بارود، دیسی ساختہ بم اور دستی بم برآمد کیے ہیں۔ یہ بھی پڑھیں: قلعہ روہتاس، جہاں تاریخ کی سرگوشیاں آپ کا استقبال کرتی ہیں واقعے کی اطلاع ملتے ہی آر پی او سجاد خان، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سلیم عباس کلاچی اور سی ٹی ڈی کے سپرنٹنڈنٹ پولیس فوری طور پر اسپتال پہنچے، جہاں زخمی اہلکاروں کی عیادت کی گئی۔ حکام نے اسپتال انتظامیہ کو زخمیوں کے بہترین علاج کی ہدایات دیں اور کہا کہ تمام دستیاب وسائل زخمی اہلکاروں کی صحتیابی کے لیے بروئے کار لائے جائیں گے۔ آر پی او سجاد خان نے کہا کہ ہم اپنے شہداء کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور دہشتگردوں کو سخت ترین جواب دیں گے۔ بنوں پولیس اور سی ٹی ڈی کی بھاری نفری نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے، جب کہ دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب حالیہ مہینوں میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کو بارہا نشانہ بنایا گیا ہے۔ مارچ میں کوہاٹ کے ٹانڈہ ڈیم پر حملے میں سی ٹی ڈی کے دو اہلکار شہید ہوئے تھے، جب کہ جنوری میں میرعلی بازار میں فائرنگ سے ایک اہلکار شہید ہوا تھا۔ اس تازہ واقعے نے خطے میں سیکیورٹی کی صورتحال پر ایک بار پھر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
مائنز اینڈ منرلز بل پر قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں، بل پڑھیں، سمجھیں اور تب بولیں، علی امین گنڈاپور

خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے مائنز اینڈ منرلز بل کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں اور قیاس آرائیوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے واضح پیغام دے دیا کہ “بل پر بیانیہ مفروضوں پر نہیں، سمجھ بوجھ پر بنائیں۔” پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے واٹس ایپ گروپ میں جاری کیے گئے آڈیو پیغام میں وزیراعلیٰ نے دوٹوک انداز میں کہا کہ بعض افراد نے بل پڑھے بغیر اس پر رائے قائم کی ہے جو نہ صرف غیر سنجیدہ طرزِ عمل ہے بلکہ پارٹی نظم و ضبط کے بھی خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر رکن کو بل کی کاپی مہیا کی جا چکی ہے، لہٰذا مناسب یہی ہے کہ بل کو خود پڑھیں یا قانونی ماہر سے رجوع کریں۔ علی امین گنڈاپور نے پُرعزم انداز میں واضح کیا کہ مجوزہ بل میں نہ تو کسی کو صوبے کا اختیار منتقل کیا جا رہا ہے اور نہ ہی وفاق یا کسی سرمایہ کاری کونسل کو غیرمعمولی طاقت دی جا رہی ہے۔ انہوں نے پارٹی رہنماؤں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ “بغیر سمجھے بات کرنا صرف انتشار کو جنم دیتا ہے جو اس وقت بالکل بھی مناسب نہیں۔” یہ بھی پڑھیں: نیب نے خیبرپختونخوا کے سرکاری ٹھیکوں میں 40 ارب روپےکی کرپشن بے نقاب کر دی وزیراعلیٰ نے اس بات پر زور دیا کہ بل پر کوئی بھی فیصلہ مشاورت کے بغیر نہیں کیا جائے گا اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ترمیم بھی ممکن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قانون سازی صرف تحریری سطور نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری ہے، جسے نبھانے کے لیے مکمل فہم ضروری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ علی امین گنڈاپور نے بل کی منظوری سے قبل صوبے میں مائنز اینڈ منرلز سے حاصل ہونے والی آمدن میں نمایاں اضافے کی خوشخبری بھی دی۔ ان کے مطابق موجودہ ریونیو ساڑھے تین ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اور اندازہ ہے کہ جون کے آخر تک یہ دُگنا ہو سکتا ہے۔ یہ بیانیہ نہ صرف پارٹی کے اندر بیداری کا پیغام ہے بلکہ اُن عناصر کے لیے بھی وارننگ ہے جو بل کو سیاسی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مزید پڑھیں: وزیر اعظم شہباز شریف اور امریکی وزیر خارجہ کا ٹیلی فونک رابطہ، علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال
قلعہ روہتاس، جہاں تاریخ کی سرگوشیاں آپ کا استقبال کرتی ہیں

کہتے ہیں زمین اپنے راز پتھروں میں چھپا لیتی ہے اور کچھ راز ایسے ہوتے ہیں جو دیواروں، دروازوں اور برجوں کی صورت میں سانس لیتے ہیں۔جب آپ جہلم کی سرزمین پر قدم رکھتے ہیں، تو تاریخ کی سرگوشیاں آپ کا استقبال کرتی ہیں۔یہ وہی سرزمین ہے جہاں وقت تھم سا جاتا ہے اور سامنے آتا ہے قلعہ روہتاس ایک ایسا قلعہ، جو صرف پتھروں کا ڈھیر نہیں بلکہ ایک عہد کی گونج ہے۔” 1541کی بات ہے. شیر شاہ سوری ایک عظیم سپہ سالار، ایک باکمال حکمران ایک خطرے سے دوچار تھا۔گکھڑ قبائل، جو آزادی کے متوالے تھے، اُس کے اقتدار کے لیے چیلنج بنے ہوئے تھے۔شیر شاہ کو ایک قلعہ چاہیے تھا، ایسا قلعہ جو دشمن کے خوابوں کو بھی دہلا دے۔مگر یہ آسان نہ تھا کہا جاتا ہے کہ جب قلعے کی تعمیر شروع ہوئی، مزدور خوف سے کانپ اٹھے۔ہر پتھر رکھنے کے بدلے میں ایک اشرفی دی گئی، کیونکہ گکھڑوں کے خوف نے پورے علاقے پر سائے ڈال رکھے تھے۔ بالآخر، پسینے، حوصلے اور بے مثال حکمت عملی سے قلعہ روہتاس اپنی شان کے ساتھ کھڑا ہوا۔چار کلومیٹر پر پھیلی بلند فصیلیں، 68 عظیم برج، 12 شاہانہ دروازےاور وہ مشہور ہاتھی دروازہ، جو آج بھی آنے والوں کو ماضی کے درباروں کی جھلک دکھاتا ہے۔ایسا قلعہ جس پر کبھی کوئی جنگ نہ لڑی گئی، کبھی کوئی یلغار نہ ہوئی۔” مگر وقت کسی کا وفادار نہیں۔صدیوں بعد، قلعے کے اندر بستیاں بس گئیں، دیواروں پر دراڑیں پڑ گئیں،اور کئی عظیم دروازے اپنی عظمت کھونے لگے۔لیکن قلعہ روہتاس آج بھی اپنی ہر اینٹ سے سرگوشی کرتا ہےکہ جہاں حکمت، حوصلہ اور خواب ملتے ہیں، وہاں تاریخ بنتی ہے۔
شہباز شریف کا امریکی وزیرخارجہ کو ٹیلی فون: ’ سندھ طاس معاہدے کو ہتھیار بنانا افسوسناک ہے‘

پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے امریکا نے دونوں ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو یقینی بنائیں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور انڈین وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر سے علیحدہ علیحدہ فون پر رابطہ کیا۔ دونوں رہنماؤں سے 22 اپریل کو انڈیا کے زیر قبضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد کی صورتحال پر گفتگو کی گئی، جس میں 26 سیاح ہلاک ہوئے تھے۔ انڈیا نے اس حملے کے بعد فوری طور پر پاکستان پر الزامات عائد کیے اور سخت اقدامات کا اعلان کیا، جن میں سفارتی تعلقات محدود کرنا، پاکستانی شہریوں کو ملک سے نکالنا، سندھ طاس معاہدے کی معطلی، واہگہ-اٹاری بارڈر اور دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی بندش شامل ہیں۔ جواب میں پاکستان نے بھی سخت موقف اختیار کرتے ہوئے انڈین طیاروں کے لیے فضائی حدود بند کر دی۔ پاکستان نے واضح کیا کہ اگر انڈیا نے پاکستان کا پانی روکنے کی کوشش کی تو اسے جنگی اقدام تصور کیا جائے گا اور اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی وزیر خارجہ کو آگاہ کیا کہ پاکستان دہشتگردی کی ہر شکل کی مذمت کرتا ہے اور اس کے خلاف جنگ میں 90 ہزار جانیں قربان کر چکا ہے۔ پاکستان کو 152 ارب ڈالر کا معاشی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے انڈیا کے حالیہ اقدامات کو اشتعال انگیز اور قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان سے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی سنجیدہ کوششوں کو نقصان پہنچے گا، خاص طور پر داعش خراسان، تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی جیسے گروپوں کے خلاف جاری کارروائیوں میں۔ وزیراعظم نے انڈیا کی جانب سے پاکستان پر الزامات کو دوٹوک انداز میں مسترد کیا اور پہلگام واقعے کی شفاف، غیر جانبدار اور قابل اعتماد تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے امریکا سے درخواست کی کہ وہ انڈیا پر دباؤ ڈالے کہ وہ بیان بازی کم کرے اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹمی بروس نے تصدیق کی کہ وزیر خارجہ روبیو نے حملے کی مذمت کی اور پاکستان سے تحقیقات میں تعاون کرنے کی اپیل کی۔ انڈین وزیر خارجہ جے شنکر سے گفتگو میں روبیو نے دہشتگردی کے خلاف انڈیا سے تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا اور ساتھ ہی انڈیا کو پاکستان کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی ترغیب دی۔ شہباز شریف نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کو ہتھیار بنانے کی کوشش کی ہے، جو پاکستان کے 24 کروڑ عوام کے لیے زندگی کی بنیاد ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اس معاہدے میں کسی ایک فریق کو یکطرفہ طور پر معاہدے سے انحراف کی اجازت نہیں دی گئی۔ وزیراعظم نے امریکا کے ساتھ پاکستان کے 70 سالہ تعلقات کو سراہتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک انسداد دہشتگردی، معیشت، اور خاص طور پر معدنیات کے شعبے میں مزید تعاون کر سکتے ہیں۔ انہوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور امریکا کے ساتھ تمام باہمی دلچسپی کے شعبوں میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ امریکی جریدے نیوز ویک کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں کردار ادا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف دو ممالک کا مسئلہ نہیں بلکہ جوہری صلاحیت رکھنے والے ملکوں کے درمیان ایک خطرناک بحران ہے، جسے روکنے کے لیے امریکا کو سنجیدہ اور مستقل سفارتی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ادھر انڈیا نے بدھ کو پاکستان کی ایئر لائنز کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی، جس کا اطلاق 30 اپریل سے 23 مئی تک ہوگا۔ اگرچہ یہ پابندی پاکستان کی ایئر لائن انڈسٹری پر بڑے پیمانے پر اثر نہیں ڈالے گی، لیکن پی آئی اے نے انڈین فضائی حدود سے پروازیں نہ گزارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ تمام پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ پاکستان کے پاس قابل اعتماد انٹیلی جنس ہے کہ انڈیا آئندہ 24 سے 36 گھنٹوں میں کوئی فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔
جنگی حالات اورمحنت کشوں کی بقا!

دنیا کے مختلف خطوں کو دہشت گردی اور جنگی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایک طرف فلسطینی عوام کی نسل کشی کی جا رہی ہے دوسری طرف اس آگ کو مشرقِ وسطیٰ میں بھی پھیلایادیا گیا ہے۔ جس کی مثال امریکہ کی طرف سے یمن میں کی گئی تباہی ہے جس سے حالات کی سنگینی میں مذید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یوکرین اور روس کی جنگ میں امریکی پالیسی میں تبدیلی کو جواز بنا کر یورپ اپنے عوام کی فلاح وبہبود کو پس پشت ڈال کر دفاعی بجٹ کو بڑھاتے ہوئے اسلحہ کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑنے کی کاوششوں میں مصروف ہو گیا ہے۔ پاکستان پر نظر ڈالیں تو بلوچستان میں بڑھتی دہشت گردی اور ایران میں پاکستانی مزدوروں کا قتل انتہائی تشویشناک اور قابل مذمت ہے۔ اب مقبوصہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی کے انتہائی دلخراش سانحہ کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتے تناؤ سے عام عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ نہ صرف لوگوں کی جانیں گئیں بلکہ پابندیوں کی پالیسی سے معاشی نقصان بھی پہنچ رہا ہے۔ دنیا بھر میں جاری اس تباہی و بربادی میں اب تک لاکھوں معصوم شہری خواتین، بچے، بزرگ مارے گے لیکن عالمی طاقتیں اس آگ سے اپنے ہاتھ گرم کرنے کے علاہ کچھ نہیں کر رہیں۔ اس آگ پر تیل ڈالتے ہوئے امریکہ نے نام نہاد ٹیرف وار کا آغاز بھی کر دیا ہے جس کے باعث اب تک ٹریلین ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے اور پوری دنیا ہل کے رہ گئی ہے۔ ہیجان کی یہ کیفیت اس بات کی عکاس ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے اور اقوام متحدہ اپنے قیام کے مقاصد میں ناکام ہو چکے ہیں اور یہ بین الاقوامی ادارے چند طاقتوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ موجودہ سرمایہ داری نظام میں انسانوں کی حیثیت ریت کے ایک زرے برابر ہے۔ اس نظام سے فائدہ اٹھانے اور اس کو مضبوط بنانے میں چند سرمایہ دار اورملٹی نیشنل کمپنیاں ملوث ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2023 میں 2 ہزار 443 ٹریلین ڈالر فوجی بجٹ میں ڈالا گیا تھا۔ اب حالات سے لگ رہا ہے کہ 2025 میں یہ بجٹ دگنا کرنے کا پروگرام ترتیب دیا جا رہا ہے۔ ایسے میں عوام کے حالات کا جائزہ لیں تو تیسری دنیا سے لے کر یورپ اور امریکہ تک ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔ دنیا کی تقریباً 10فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے۔ آئی ایل اور (ILO) کی رپورٹ کے مطابق 160 ملین بچے جس میں 63 ملین بچیاں اور 97 ملین بچے چالڈ لیبر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ کرونا کی وبا کے بعد اس تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ خواتین ورکرز بھی پوری دنیا میں مسائل کاسامنا کر رہی ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں کم معاوضہ ایک گلوبل ایشو ہے۔ اس کے علاوہ ہراسگی، ہیلتھ اینڈ سیفٹی ، مستقل ملازمت، روزگار کے محدود مواقعے، کام کی غیر محفوظ جگہ، زرعی مزدور خواتین کی اکثریت کا بلامعاوضہ کام اور دوہرا استحصال ہر خطے کی عورتوں کا مسئلہ ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کام کرتی خواتین ،ورک فورس کے اعدادوشمار میں مردوں کے مقابلے میں کم نظر آتی ہیں کیونکہ غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی 80 فیصد خواتین ورکر اپنی شناخت اور حقوق سے محروم ہیں۔ انصاف کی فراہمی کی بات کریں تو لاہور میں 9 سال تک حصول انصاف کی جدوجہد کرنے والے ورکر کی ہائی کورٹ کے سامنے خود سوزی عدالتی نظام پرسیاہ دھبہ ہے۔ مزدوروں کو ان تمام مسائل کا سامنا 21ویں صدی میں اس وقت ہے جب مصنوعی ذہانت (AI) کی ترقی اور اثرات کے گن گائے جا رہے ہیں۔ لیکن AI کی ترقی محنت کش خواتین اور مردوں کی زندگی میں بہتری کی ضمانت نہیں بلکہ ان کے بنیادی حق روزگار پر ذد پہنچ رہی ہے کیونکہ وہ صعنت جہاں 10 سے 12ورکرز کام کر رہے تھے آج جدید مشنری کے سبب وہاں 2 سے 4 مزدور بنا مستقل ملازمت اوردیگر بنیادی حقوق کے کام کر رہے ہیں۔ دوسری جانب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ AIسے کئی نئی ملازمتوں کے مواقعے پیدا ہوں گے۔ لیکن آنے والے وقت میں ٹیکنالوجی اور معاشی ڈھانچہ بےروزگاری میں اضافے کی بڑی وجہ ہو گی۔ ترقی پذیرممالک کی مزدور تحریک اس چیلنج سے بے خبر نظر آرہی ہے۔ اس خطرے سے نپٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں اور یونینز کی کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آرہی۔ محنت کشوں کے حال اور مستقبل سے لاتعلق حکمرانوں کو نہ ہی اپنی ناک سے نیچے دیکھنے میں دلچسپی ہے نہ ہی صلاحیت بس جنگ کا شور مچا کر عوام کے لئے جاری فلاحی منصوبوں پر کٹ لگانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان زمینی حقائق کے ساتھ 2025 میں مزدروں کے عالمی دن پر نہ صرف ملکی بلکہ بین لاقوامی سطح پر مزدوریونینز اور مزدور تنظیموں کو دور اندیشی کے ساتھ مؤثر لائحہ عمل اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ دنیا میں رائج سرمایہ دارانہ نظام میں وسائل پر چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کے قبضے سے ثابت ہو چکا ہے کہ اس استحصالی نظام کو بدلنے کے علاوہ اب ہم محنت کشوں کے پاس کوئی اور چارہ نہیں۔ منافع کی حرس میں جہاں سرمایہ داروں نے مزدوروں کا خون چوسا وہاں انھوں نے دنیا کی ماحولیات کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ اس کے اثرات موسموں کی شدت، سیلاب، خشک سالی، قحط، بھوک، آلودگی اور مہلک بیماریوں کی صورت میں عام غریب عوام، مزدور اور کسان بھگت رہے ہیں۔ فضائی آلودگی اور آلودہ پانی سے سینکڑوں اموات ہو چکی ہیں جو مسلسل ہوتی جا رہی ہیں۔ اس سے نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلیں بھی متاثر ہوں گی۔ لہذا یکم مئی کو مزدوروں کے مطالبات صرف تنخواہ بڑھانے یا روزگار دینے تک محدود نہیں رہنے چاہیے بلکہ پہلا مطالبہ استحصالی نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ پوری دنیا کہ مزدور جنگ کا خاتمہ اور امن کا قیام چاہتے ہیں۔ اس لیے سیاسی محاذ پر محنت کشوں کی آواز کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی تشکیل دینی ہو گی۔ خواتین جو دنیا کی آدھی آبادی ہیں ان کی
یوکرین کی ’قیمتی معدنیات‘ امریکا کے ہاتھ میں، معاہدہ طے پا گیا

یوکرین اور امریکہ نے بدھ کے روز ایک اہم معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت امریکا کو یوکرین کی قیمتی معدنیات کے نئے سودوں میں ترجیحی رسائی حاصل ہوگی اور وہ یوکرین کی تعمیرِ نو میں سرمایہ کاری کرے گا۔ یہ معاہدہ کئی مہینوں کے مذاکرات کے بعد واشنگٹن میں ہوا۔ اس معاہدے کے تحت یوکرین کی دوبارہ تعمیر کے لیے ایک مشترکہ سرمایہ کاری فنڈ قائم کیا جائے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے کو بہت اہم قرار دے رہے ہیں کیونکہ وہ یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ کا حل نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ معاہدہ یوکرین کی ان کوششوں کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ امریکا سے تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے۔ یوکرینی حکام کو امید ہے کہ اس سے امریکا کی جانب سے یوکرین کی زیادہ حمایت حاصل ہوگی۔ معاہدے پر دستخط کرنے کی ایک تصویر امریکی وزارت خزانہ نے سوشل میڈیا پر شیئر کی، جس میں لکھا گیا کہ یہ معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکا ایک آزاد اور خوشحال یوکرین کا حامی ہے۔ یوکرین کی نائب وزیر اعظم یولیا سویریڈینکو نے کہا کہ اس معاہدے کے تحت امریکہ فنڈ میں پیسہ دے گا، اور یوکرین کو مزید امداد جیسے کہ فضائی دفاعی نظام بھی مل سکتا ہے۔ امریکا، روس کے 2022 کے حملے کے بعد سے، یوکرین کا سب سے بڑا فوجی مددگار رہا ہے اور اب تک 72 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد دے چکا ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ کو یوکرین کی مدد کے بدلے کچھ حاصل ہونا چاہیے، اور اسی وجہ سے معدنیات سے متعلق یہ معاہدہ سامنے آیا۔ یہ معاہدہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ یوکرین کے ساتھ کھڑا ہے اور روسی حملے کے بعد سے اس کی مدد کر رہا ہے۔
یوم مزدور: ’غزہ کے محنت کشوں کو انصاف کے عالمی نظام سے کاٹ دیا گیا‘

گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے، لاہور کی سڑک پر ایک مزدور سر پر اینٹوں کا گٹھا اٹھائے تیزی سے چل رہا ہے۔ اُس کے ماتھے سے پسینہ ٹپک رہا ہے، ہاتھ چھل گئے ہیں اور پیٹھ پسینے سے شرابور ہے۔ اُسے نہیں معلوم کہ آج یکم مئی ہے، عالمی یومِ مزدور۔ اُسے یہ بھی معلوم نہیں کہ کبھی شکاگو کے مزدوروں نے اُس جیسے انسانوں کے لیے جان دے دی تھی۔ وہ تو بس اتنا جانتا ہے کہ شام تک کام مکمل نہ ہوا تو دیہاڑی کٹ جائے گی۔ یہ کہانی صرف پاکستان کی نہیں، یہ حقیقت غزہ کی تباہ حال گلیوں میں ملبہ اٹھاتے فلسطینی مزدوروں کی بھی ہے اور سری نگر میں چپ چاپ سلائی کرتی کشمیری خواتین کی بھی، جن کے ہاتھوں میں ہنر ہے مگر زبان پر خوف کا پہرہ۔ دنیا مزدوروں کے حقوق کی بات کرتی ہے، عالمی تنظیمیں قراردادیں منظور کرتی ہیں، لیکن جب ظلم ریاستی پالیسی بن جائے، تو محنت کش صرف استحصال کا استعارہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ آج جب ہم یکم مئی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں صرف فیکٹریوں اور کھیتوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اُن خطوں کی بھی بات کرنی چاہیے جہاں انسانیت خود مزدور بن چکی ہے، جیسے فلسطین اور مقبوضہ کشمیر۔ فلسطین میں مزدور صرف روزی روٹی کے لیے نہیں لڑ رہے، بلکہ اپنی شناخت اور زندگی کی بقا کے لیے بھی برسرِپیکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں ہوں یا انسانی حقوق کے عالمی معاہدے، اسرائیل کی جارحیت کے سامنے سب بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ غزہ کی گلیوں میں محنت کرنے والا مزدور اکثر یہ نہیں جانتا کہ کل اُس کی چھت سلامت ہوگی یا نہیں۔ فلسطینی محنت کش اسرائیلی ناکہ بندیوں، معاشی پابندیوں اور روزگار کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ اُنہیں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں اور اگر کوئی مزدوری کی نیت سے اسرائیل کی طرف جائے تو اُس کی تذلیل معمول بن چکی ہے۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کا مزدور بھی خاموش غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ ہندوستان نے پانچ اگست 2019 کو آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیریوں کو اُن کے تشخص اور معاشی خودمختاری سے محروم کر دیا۔ آج کشمیری نوجوان، جنہیں تعلیم کے بعد روزگار ملنا چاہیے تھا یا تو جیلوں میں ہیں یا خوف کی فضا میں معمولی تنخواہوں پر کام کر رہے ہیں۔ خواتین ہنر مند ہونے کے باوجود معاشی نظام سے کٹی ہوئی ہیں۔ نہ بولنے کی آزادی ہے، نہ سفر کی۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اقوام متحدہ ان دونوں خطوں میں مزدوروں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر کیوں خاموش ہیں؟ امریکہ کی پالیسی واضح طور پر اسرائیل کے حق میں جھکاؤ رکھتی ہے۔ ہر سال اربوں ڈالر کی فوجی امداد اسرائیل کو دی جاتی ہے، جس سے غزہ کے عوام پر بمباری کی جاتی ہے۔ برطانیہ، جو انسانی حقوق کا علمبردار بننے کا دعویٰ کرتا ہے، تاریخی طور پر فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو مغربی دنیا کی پالیسی یہاں بھی منافقت سے بھرپور ہے۔ ہندوستان کے ساتھ معاشی اور اسٹریٹجک تعلقات کی بنا پر عالمی طاقتیں مقبوضہ وادی میں ہونے والے مظالم پر آنکھیں بند کر لیتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں صرف فائلوں میں قید ہو چکی ہیں۔ پاکستان بار بار ان مسائل کو اجاگر کرتا ہے، لیکن عالمی سطح پر وہ آواز گونج نہیں بن پاتی جس کی ان محنت کشوں کو ضرورت ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین ندیم سلطانی کا کہنا تھا کہ “ہم یکم مئی کو مزدوروں کی عظمت کا دن تو مناتے ہیں، لیکن کیا کبھی ہم نے ان مزدوروں کے بارے میں سوچا جو عالمی سیاست کا ایندھن بنے ہوئے ہیں؟ فلسطین اور کشمیر کے محنت کشوں کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اُنہیں انصاف کے عالمی نظام سے کاٹ دیا گیا ہے۔ جب مزدور کو ریاستی جبر کا سامنا ہو، تو اُس کا استحصال صرف معاشی نہیں بلکہ اخلاقی بھی ہوتا ہے۔“ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے سماجی کارکن شعیب عباس نے کہا کہ “میں نے کشمیری نوجوانوں کے ساتھ آن لائن ورکشاپس کی ہیں۔ وہ ذہین، باصلاحیت اور محنتی ہیں، لیکن اُن کے لیے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اُنہیں مزدوری کے ساتھ ساتھ اپنی شناخت کے لیے بھی لڑنا پڑتا ہے۔ ہمیں اپنے یومِ مزدور پر اُن کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔“ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن عندلیب اسلم کا کہنا تھا “مجھے یہ بات ہمیشہ چبھتی ہے کہ مغربی میڈیا مزدوروں کے حق میں خوب خبریں چھاپتا ہے، مگر فلسطین اور کشمیر کے مزدوروں کی بات آئے تو مکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔ اگر یکم مئی کو ہم حقیقی معنوں میں عالمی مزدوروں کے لیے آواز اٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اُن خطوں پر توجہ دینی ہوگی جہاں محنت کش صرف غربت نہیں بلکہ گولی، بارود اور پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔“ یکم مئی کو ہم جب بھی مزدوروں کا دن منائیں، تو یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ صرف مقامی فیکٹری کے مزدور ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص بھی اس دن کا اصل وارث ہے جو اپنے حق، اپنی زمین اور اپنی شناخت کے لیے لڑ رہا ہے۔ فلسطین اور کشمیر میں مزدور محض اقتصادی غلام نہیں بلکہ وہ سیاسی قیدی بھی ہیں جنہیں عالمی ضمیر نے نظرانداز کر دیا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مزدوروں کے حقوق کی بات کرتے وقت ان دو خطوں کو نظر انداز نہ کریں۔ کیونکہ اگر ہم واقعی انصاف، امن اور برابری پر یقین رکھتے ہیں، تو یہ آواز صرف سڑکوں تک محدود نہیں رہنی چاہیے، بلکہ عالمی ایوانوں تک پہنچنی چاہیے۔ یکم مئی محض تاریخ کا ایک دن نہیں، یہ ایک عہد ہے، کہ ہم ہر اُس انسان کے ساتھ کھڑے ہوں گے جو اپنی محنت کے بل بوتے پر عزت کا حق دار ہے، چاہے وہ غزہ کے ملبے میں ہو یا کشمیر کی خاموش وادیوں میں۔