نجکاری کے سائے میں صحت کا بحران، کیا شہریوں سے ان کا بنیادی حق چھینا جا رہا ہے؟

Privatization

ملک کے مختلف حصوں میں سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کے منصوبوں نے صحت کے شعبے میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ عوامی سطح پر احتجاج، سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی رائے اور طبی ماہرین کے تحفظات، یہ سب اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ نجکاری کے فیصلے سے عوامی صحت پر دور رس اور ممکنہ طور پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اب یہاں سوال یہ ہے پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس فیصلے کے ذریعے عام شہری سے اس کا بنیادی حق، یعنی صحت کی سہولت چھینی جا رہی ہے؟ نجی شعبہ منافع کے اصول پر کام کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ خدمات صرف اس حد تک فراہم کرے گا جہاں سے اسے فائدہ حاصل ہو۔ اس کے نتیجے میں وہ سہولیات جو پہلے سرکاری ہسپتالوں میں مفت یا کم قیمت پر دستیاب تھیں، وہ اب مہنگے پیکیجز اور بھاری فیسوں کے تابع ہو سکتی ہیں۔ پشاور سے ینگ ڈاکٹر شرنا امین نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نجکاری کے بعد صحت کی سہولیات صرف منافع کے لیے چلائی جائیں گی، جس سے غریب عوام بنیادی علاج سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غریب عوام علاج کے بھاری اخراجات تلے دب جائیں گے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اس طبقے کی مشکلات کا احساس کرے اور ان کے لیے نرم رویہ اختیار کرے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مفت دی جانے والی دوائیں، لیبارٹری ٹیسٹ اور آپریشن جیسی سہولیات نجی اداروں کی مداخلت کے بعد محدود یا مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہیں۔ نجی ادارے عمومی طور پر ہر سروس کو ایک پیکیج یا فیس کے تحت فراہم کرتے ہیں جس سے مریض پر مالی بوجھ بڑھ سکتا ہے۔ نجی شعبے کا رجحان شہری اور زیادہ منافع بخش علاقوں کی طرف ہوتا ہے۔ نتیجتاً دیہی اور پسماندہ علاقوں میں صحت کی سہولیات یا تو محدود ہو سکتی ہیں یا مکمل طور پر بند ہونے کا خطرہ لاحق بھی ہوسکتا ہے اور ایسے علاقوں میں تو پہلے ہی وسائل کی کمی ہے اور نجکاری کے بعد صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ فیصل آباد کے ایک نجی ادارے میں زیر تعلیم ایم بی بی ایس کی طالبہ زہرا بتول نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نجکاری کے بعد سرکاری ہسپتالوں میں دی جانے والی مفت سہولیات ختم ہو جائیں گی اور ہر چیز کے لیے فیس یا پیکیج لاگو ہو گا اور دیہات والوں کو تو پہلے ہی ڈاکٹر نہیں ملتا، نجکاری کے بعد تو شاید دوا بھی نہ ملے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سسٹم امیروں کے لیے بہتر ہو گا، غریب کے لیے نہیں اور حکومت کا مقصد صرف نجی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔  ایک بڑا خدشہ یہ بھی ہے کہ نجی ادارے مریض کی مالی حیثیت کو علاج کے فیصلوں میں شامل کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں غریب مریضوں کو یا تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے یا ان کے لیے معیاری علاج مہیا نہیں ہوگا، جو کہ طبی انصاف کی کھلی خلاف ورزی ہو گی۔ اس کے علاوہ نجکاری کے بعد نجی ہسپتالوں پر حکومتی نگرانی کمزور پڑ سکتی ہے۔ اس کا نتیجہ بدعنوانی، غیر ضروری ٹیسٹ، غلط بلنگ اور غیر معیاری سروسز کی صورت میں نکل سکتا ہے جن پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔ اگرچہ نجکاری کے خلاف تحفظات مضبوط ہیں مگر کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت سخت ریگولیشن، سبسڈی اور عوامی مفاد کو ترجیح دے تو نجکاری سے مثبت نتائج بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ان میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، ماہرین کی دستیابی اور بیوروکریسی سے آزاد ہسپتالوں کی بہتر کارکردگی شامل ہیں۔ دوسری جانب پنجاب میں حکومت نے بنیادی اور دیہی صحت مراکز کے علاوہ بڑے ہسپتالوں کے کچھ شعبہ جات کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کے خلاف لاہور سمیت مختلف شہروں میں ڈاکٹروں، نرسوں، اور پیرا میڈیکل اسٹاف نے شدید احتجاج کیا ۔ اپریل 2025 میں لاہور کے چیرنگ کراس پر گرینڈ ہیلتھ الائنس (GHA) اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (YDA) کی قیادت میں بڑے پیمانے پر دھرنا دیا گیا۔ اس دوران او پی ڈی سروسز معطل رہیں، تاہم ایمرجنسی اور انڈور سروسز جاری رکھی گئیں۔ بلوچستان میں بھی نجکاری کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔ دسمبر 2024 میں صحت کے کارکنوں نے نجکاری منصوبوں کے خلاف بائیکاٹ کیا جس کے نتیجے میں پولیو ویکسینیشن مہم ملتوی کرنی پڑی تھی۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کی قیادت میں مظاہرین نے حکومت پر زور دیا کہ وہ مجوزہ پالیسی واپس لے۔ خیبر پختونخوا میں 58 ہسپتالوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا مگر نگران حکومت نے یہ منصوبہ مؤخر کر دیا تھا۔ اس وقت اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ نگران حکومت کو ایسے بڑے پالیسی فیصلے کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ علاوہ ازیں، سندھ میں تاحال ہسپتالوں کی نجکاری کے حوالے سے کوئی بڑی پیشرفت یا احتجاج سامنے نہیں آیا۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خاموشی عارضی ہو سکتی ہے اور مستقبل میں ایسی حکمت عملی سامنے آ سکتی ہے۔ صحت کا شعبہ براہ راست عوام کے بنیادی حقوق سے جڑا ہے۔ نجکاری اگرچہ ایک ممکنہ حل کے طور پر پیش کی جا رہی ہے مگر اس کے اثرات گہرے اور طویل مدتی ہو سکتے ہیں۔ اگر ریاست نے بروقت موثر ریگولیشن، مالی معاونت، اور شفافیت کو یقینی نہ بنایا تو یہ عمل عوامی صحت کے لیے ایک بحران میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

اگر بات ہو گی تو وہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہو گی ،عمران خان

Imran khan

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے خود بات کرنا چاہتا ہوں اگر وہ تیار ہے، مگر حکومت کے ساتھ کسی بھی صورت بات نہیں ہو گی۔ اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کی بہن علیمہ خان  نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے واضح طور پر یہ کہا کہ مسلم لیگ (ن) سے کسی صورت بات نہیں ہوگی، (ن) لیگ نے پاکستان کی اخلاقیات ختم کردی ہیں، بانی نے امر بالمعروف کی بات کی کہ سچ کے ساتھ کھڑا ہونا ہے اور این آر او دینے والے سچ کیسے بولیں گے۔ یہ بھی پڑھیں:’عمران خان کی زندگی خطرے میں ہے‘ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے ہائیکورٹ میں رہائی کی درخواست دائر کر دی علمیہ خان نے بتایا کہ عمران خان نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف آواز اٹھانے کا کہا، ان کا کہنا تھا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد انصاف دفن ہوچکا ہے، حالات یہ ہیں ہم بھی جب عدالت جاتے ہیں جج کہتے ہیں ان کے ہاتھ بندھے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے ڈاکٹر یاسمین راشد اور عندلیب عباس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پریس کانفرنس نہیں کی تو وہ جیل میں ہیں جب کہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس ختم ہوگیا لیکن وہ ابھی بھی جیل میں ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ بات کرنا چاہتی ہے پاکستان کے بارے تو وہ تیار ہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ سے خود بات کرنا چاہتے ہیں اگر وہ تیار ہیں، پاکستان کے لیے بات کرنے کیلئے تیار ہوں جب کہ ڈیل کی کوئی بات نہیں پاکستان کی خاطر بات کروں گا۔ ایک سوال کے جواب میں علیمہ خان نے کہا کہ آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دینے پر ہم بات نا ہی کریں تو اچھا ہے۔