موبائل ایپ، جو سعودی عرب میں حاجیوں کی مدد کرے گی

سعودی عرب کی کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کے طلبہ نے ایک انقلابی موبائل ایپ تیار کی ہے جو حج کے دوران عازمین کو راستہ تلاش کرنے میں مدد دے گی۔ اس ایپ کا نام “مساعد” ہے، اور اسے یونیورسٹی کے طلبہ کی ایک ٹیم نے حسن السلمی کی قیادت میں تیار کیا ہے۔ اس ایپ کا مقصد حج کے دوران عازمین کو اپنے کیمپ تک پہنچنے، بھیڑ بھاڑ والے مقامات سے بچنے اور منزل پر آسانی سے پہنچنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ عرب نیوز کے مطابق، حسن السلمی کا کہنا ہے کہ اس ایپ کا تصور پہلی بار 2022 میں اس وقت سامنے آیا جب وہ اور ان کی ٹیم حج کے دوران یہ مشاہدہ کر رہے تھے کہ کئی عازمین اپنے کیمپوں کا راستہ بھول جاتے ہیں، جس سے انہیں شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات اس الجھن کے باعث وہ حج کے اہم ارکان بھی ادا نہیں کر پاتے۔ مساعد ایپ نہ صرف راستہ بتاتی ہے بلکہ مختلف فیچرز کے ذریعے عازمین کے تجربے کو مزید آسان بناتی ہے۔ یہ ایپ ایک بار ڈاؤن لوڈ کرنے کے بعد آف لائن بھی کام کر سکتی ہے، جس سے انٹرنیٹ کی دستیابی کا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے۔ ایپ کے اہم فیچرز میں فون کے کیمرے کی مدد سے کیمپ کی سمت معلوم کرنا شامل ہے، بالکل ویسے ہی جیسے قبلہ تلاش کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایپ میں زبانی اور بصری ہدایات شامل ہیں جو عازمین کو منزل تک پہنچنے میں ذاتی رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ مساعد ایپ یہ بھی بتاتی ہے کہ کون سے راستے میں رش کم ہے اور کون سا راستہ اختیار کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔ رش والے علاقوں کے بارے میں ایپ صارفین کو نوٹیفیکیشن کے ذریعے بروقت خبردار بھی کرتی ہے۔ ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ایپ صارفین کو سپروائزر یا متعلقہ حکام سے براہ راست رابطے کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے، جو حفاظتی اعتبار سے نہایت اہم ہے۔ فی الحال یہ ایپ آزمائشی مراحل میں ہے اور اسے مکمل طور پر فعال ہونے کے لیے سرکاری منظوری درکار ہے۔ تاہم، اس منصوبے نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ سعودی نوجوان نہ صرف تخلیقی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے حج جیسے بڑے اجتماع کو آسان بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہر سال دنیا بھر سے 10 لاکھ سے زائد عازمین حج کے لیے سعودی عرب آتے ہیں، اور اس طرح کی ایپس ان کے لیے قابلِ عمل، محفوظ اور آسان سفر کو ممکن بنانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ یہ اقدام سعودی عرب کے اس وژن کا بھی حصہ ہے جس کے تحت وہ عازمین کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بہترین سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
’فلسطین کو آزاد کرو‘، امریکا میں ایک شخص نے ہجوم پر پیٹرول بم پھینک دیا، چھ افراد زخمی

امریکا کے شہر بولڈر، کولوراڈو میں ایک شخص نے ہجوم پر پیٹرول بم پھینک دیے جس کے نتیجے میں چھ افراد زخمی ہو گئے، جن میں بعض کی حالت تشویشناک ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف بی آئی) نے اس واقعے کو ممکنہ دہشت گردی کی کارروائی قرار دیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق واقعہ بولڈر کے ایک مشہور شاپنگ مال میں پیش آیا، جہاں ‘رن فار دی لائف’ نامی رضاکار گروپ کے کارکن اور مظاہرین جمع تھے۔ مظاہرین غزہ میں جاری انسانی بحران اور یرغمالیوں کی رہائی کے مطالبے پر توجہ مبذول کروانے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ مزید پڑھیں:اسرائیلی ٹینکوں نے امدادی مرکز پر گولے برسادیے، 31 نہتے افراد شہید، 150 زخمی ایف بی آئی کے مطابق حملہ آور کی شناخت 45 سالہ محمد صابری سلیمان کے طور پر کی گئی ہے، جسے موقع پر ہی گرفتار کر لیا گیا۔ ایف بی آئی کے اسپیشل ایجنٹ مارک میچیلک نے بتایا کہ حملے سے قبل سلیمان نے “فلسطین کو آزاد کرو” کا نعرہ بلند کیا اور اس کے بعد ایک بوتل کو آگ لگا کر ہجوم پر پھینک دیا۔ حملے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے، جس میں لوگوں کو چیختے اور دوڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ ایک پولیس اہلکار کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جو بندوق تھامے حملہ آور کی طرف بڑھتا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق سلیمان کے ہاتھ میں کئی کنٹینر تھے جو مبینہ طور پر پیٹرول بم سے بھرے ہوئے تھے۔ زخمیوں میں کچھ کی حالت نازک ہے جبکہ دیگر کو معمولی زخم آئے ہیں۔ حملہ آور خود بھی زخمی ہوا اور اسے قریبی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، تاہم حکام نے اس کی حالت کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ امریکا میں مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ کے اثرات کے باعث کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دو ہفتے قبل واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے اہلکاروں پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا، جس میں شکاگو سے تعلق رکھنے والے حملہ آور نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے حملہ فلسطین اور غزہ کے لیے کیا۔ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر ڈین بونگینو نے واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ اقدام نظریاتی بنیاد پر تشدد پر اکسانے کی ایک کوشش معلوم ہوتا ہے۔ دوسری جانب امریکی محکمہ انصاف نے اس حملے کو “تشدد کا ایک غیر ضروری اقدام” قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ نفرت پر مبنی حملوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ کولوراڈو کے گورنر جیرڈ پولس نے واقعے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ صورت حال کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: “کسی بھی قسم کی نفرت انگیز کارروائیاں ناقابل قبول ہیں اور ہماری ریاست میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔” یہ واقعہ غزہ میں جاری اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع کی عالمی سطح پر گونج اور امریکا میں پیدا ہونے والی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 54 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جبکہ تقریباً 90 فیصد آبادی نقل مکانی پر مجبور ہو چکی ہے۔ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ میں 1,200 سے زائد اسرائیلی شہری ہلاک اور تقریباً 250 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ ان میں سے 58 یرغمالی اب بھی قید ہیں جن میں سے ایک تہائی کے زندہ ہونے کی امید ہے، جبکہ دیگر کو جنگ بندی معاہدوں کے تحت رہا کیا جا چکا ہے۔ بولڈر حملے نے امریکی معاشرے میں موجود کشیدگی اور سیاسی و نسلی تقسیم کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے، اور حکام اس واقعے کے محرکات کو سمجھنے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے تحقیقات میں مصروف ہیں۔
’جنگ اور امن کی کوششیں ایک ساتھ جاری‘، روس اور یوکرین آج ترکیہ میں مذاکرات کریں گے

روس اور یوکرین استنبول میں براہ راست دوسری مرتبہ امن مذاکرات کے لیے بیٹھیں گے۔ لیکن دونوں فریق اب بھی جنگ کے خاتمے کے منصوبے سے بہت دور کھڑے ہیں۔ پہلی مرتبہ مذاکرات کے بعد میں قیدیوں کا تبادلہ تو ہوا، لیکن کسی جنگ بندی یا امن معاہدے کی طرف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ دونوں ممالک نے صرف اپنی ابتدائی شرائط اور مؤقف واضح کیے۔ صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ یوکرین کے وزیر دفاع رستم عمروف مذاکرات میں شریک ہوں گے، جبکہ روسی وفد کی قیادت کریملن کے معاون ولادیمیر میڈنسکی کریں گے۔ میڈنسکی نے پہلے مرحلے کے بعد اس بات پر زور دیا تھا کہ جنگ اور مذاکرات اکثر ایک ساتھ جاری رہتے ہیں، جیسا کہ نپولین نے بھی کہا تھا۔۔ اتوار کے روز یوکرین نے ایک بڑا حملہ کیا جس میں روسی جوہری بمبار طیاروں کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ روس نے یوکرین پر 472 ڈرون, سات بیلسٹک اور کروز میزائلوں کے حملے کیے، جو اب تک کی سب سے بڑی کارروائی تھی۔ ان حملوں کے دوران استنبول میں امن کی بات چیت کی تیاری جاری تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ اپنی شدت پر ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دونوں فریقوں سے امن قائم کرنے کی اپیل کی ہے، لیکن وائٹ ہاؤس نے خبردار کیا ہے کہ اگر مذاکرات ضد کی نذر ہوئے تو امریکا جنگی صورتحال سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ کیتھ کیلوگ، جو امریکا کے خصوصی ایلچی ہیں، نے کہا ہے کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے نمائندے بھی مذاکرات میں شامل ہو سکتے ہیں، تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ امریکا کس سطح پر نمائندگی کرے گا۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے تجویز دی ہے کہ جنگ بندی پر بات چیت اس وقت کی جائے گی جب امن معاہدے کا ابتدائی مسودہ تیار ہو جائے گا۔ یوکرین کا کہنا ہے کہ وہ تاحال روس کی جانب سے کسی مسودے کا منتظر ہے۔ روسی اہلکار میڈنسکی نے دعویٰ کیا ہے کہ ماسکو کو یوکرین کا مسودہ موصول ہو چکا ہے اور وہ آج پیر کو اس کا جواب دے گا۔ لازمی پڑھیں: پاکستانی وفد ’تجارتی مذاکرات‘ کے لیے اگلے ہفتے امریکا کے دورے پر آئے گا، ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین کے وفد میں نائب وزیر خارجہ کے علاوہ فوجی اور انٹیلیجنس حکام بھی شامل ہوں گے۔ روس کے مطالبات بدستور سخت ہیں، جن میں یوکرین کا نیٹو میں شمولیت کا ارادہ ترک کرنا اور چار متنازعہ علاقوں سے اپنی فوجوں کا مکمل انخلا شامل ہے۔ ان میں سے بیشتر علاقے اس وقت روس کے زیرِ کنٹرول ہیں۔ مذاکرات کا یہ دوسرا مرحلہ عالمی برادری کے لیے ایک نازک موقع ہے، کیونکہ ایک طرف لڑائی شدید ہو رہی ہے اور دوسری طرف بات چیت کا آغاز ہو رہا ہے جس میں امن کی کوئی جھلک ابھی تک نظر نہیں آ رہی۔
چین سے گوادر تک: سی پیک پاکستان کے لیے ترقی کا سفر یا پھر خودمختاری کو خطرہ؟

چین اور پاکستان کی شراکت میں شروع ہونے والے سی پیک میں اب افغانستان بھی شراکت دار بن چکا ہے، جس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے جیسا کہ کیا پاکستان ایک نئے اقتصادی انقلاب کی دہلیز پر کھڑا ہے یا پھر ایک ایسے معاہدے میں الجھ چکا ہے جو کہیں اس کی خودمختاری کو داؤ پر نہ لگا دے؟ چین کے ساتھ شروع ہونے والا ”چائنا-پاکستان اکنامک کوریڈور“یا”سی پیک“ اب ایک دہائی مکمل کر چکا ہے، لیکن اس کے اثرات اور ثمرات پر بحث آج بھی جاری ہے۔ 2015 میں جب وزیرِاعظم نواز شریف کی حکومت نے سی پیک کا اعلان کیا، تو اسے پاکستان کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ قرار دیا گیا۔ 62 ارب ڈالر سے زائد کے اس منصوبے کے تحت سڑکوں، توانائی، ریلوے اور بندرگاہوں سمیت انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے پر کام شروع ہوا۔ یہ راہداری چین کے مغربی صوبے سنکیانگ سے شروع ہوکر پاکستان کے گوادر بندرگاہ تک جاتی ہے۔ تجارتی لحاظ سے یہ منصوبہ چین کو مشرقی بحیرہ جنوبی چین کے خطرناک سمندری راستوں سے بچاتا ہے اور پاکستان کو ایک اسٹریٹیجک تجارتی گزرگاہ میں تبدیل کرتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ منصوبہ صرف انفراسٹرکچر نہیں، بلکہ عالمی تجارتی نیٹ ورکس کا مرکز بننے کا موقع ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہماری اقتصادی، سیاسی اور سیکیورٹی بنیادیں اتنی مضبوط ہیں کہ ہم اس بڑے منصوبے کو سنبھال سکیں؟ سی پیک کے تحت اب تک کئی بڑے منصوبے مکمل یا زیرِتعمیر ہیں۔ گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے، کروٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، حویلی بہادر شاہ پاور پلانٹ، لاہور-اورنج لائن ٹرین اور موٹروے نیٹ ورکس ایسے اقدامات ہیں، جنہیں حکومت ترقی کا چہرہ بنا کر پیش کرتی ہے۔ پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ غالب طلال چانڈیونے کہا ہے کہ سی پیک کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری سے انکار ممکن نہیں، لیکن ترقی اس وقت متوازن ہوگی، جب قانون، عدل اور بنیادی سہولیات کا دائرہ بھی ان علاقوں تک پھیلے گا جہاں سے یہ راہداری گزرتی ہے۔ صرف سڑکیں کافی نہیں، انسانی ترقی بھی اتنی ہی اہم ہے۔ حکومت کے مطابق سی پیک کے تحت پاکستان میں 20 لاکھ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) اور ’اسکلز فار آل‘جیسے پروگرامز سے نوجوانوں کو تکنیکی تربیت دی جا رہی ہے تاکہ انہیں جدید مارکیٹ سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔ پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ لاہور ہائیکورٹ جمال جعفر کا کہنا تھا کہ اگر روزگار کے مواقع مقامی نوجوانوں کو نہیں دیے گئے، اگر مہارت کی منتقلی صرف کاغذوں میں رہ گئی تو پھر یہ منصوبہ صرف بیرونی سرمایہ کاروں کے فائدے کا ذریعہ بنے گا۔ سی پیک کی کامیابی مقامی شرکت اور شفافیت سے جڑی ہے۔ سی پیک کے مخالفین کا ماننا ہے کہ یہ منصوبہ شفافیت کے فقدان، قرضوں کے بوجھ اور خودمختاری پر سوالات کھڑے کرتا ہے۔ چینی کمپنیوں کو ملنے والے ٹھیکے، چینی ورکرز کی اکثریت اور معاہدوں کی خفیہ نوعیت عوامی اعتماد کو کمزور کرتی ہے۔ بلوچستان میں سیکیورٹی خدشات اب بھی برقرار ہیں اور سی پیک سے وابستہ کئی منصوبے ماضی میں حملوں کی زد میں آ چکے ہیں۔ سی پیک کے بارے میں عوامی رائے منقسم ہے۔ کچھ لوگ اسے خوشحالی کی کنجی سمجھتے ہیں، تو کچھ اس میں محرومی اور نابرابری کا عنصر دیکھتے ہیں۔ گوادر میں پانی، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی مسائل اب بھی موجود ہیں۔ گوادر کے ایک مقامی شخص نے کہا ہے کہ سی پیک ہمارے لیے کیا لایا؟ نہ پانی، نہ بجلی، نہ تعلیم۔ گوادر اب بھی وہیں کا وہیں ہے، فائدہ شاید کسی اور کو ہوا ہے۔ سی پیک صرف سڑکوں کا جال نہیں، بلکہ پاکستان کو چین کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی، ماحول دوست توانائی، سیاحت اور زراعت میں ترقی کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔ اگر حکومت نے پائیدار ترقی، شفاف پالیسی سازی اور مقامی شمولیت کو ترجیح دی، تو سی پیک واقعی گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ ایڈووکیٹ جعفر جمال مزید کہتے ہیں کہ ہمیں اب صرف تعمیرات پر نہیں، بلکہ شراکت داری کے ماڈلز، ماحولیاتی اثرات اور مقامی کاروبار کی شمولیت پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ بصورتِ دیگر یہ ایک چینی منصوبہ کہلائے گا، پاکستانی منصوبہ نہیں۔ اگر ہم سی پیک کو ایک کامیاب منصوبہ بنانا چاہتے ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ وہ شفافیت، جوابدہی اور عوامی شراکت داری کو یقینی بنائے۔ علاقائی تعاون کو فروغ دے، ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی اور سفارتی روابط مضبوط کرے اور مقامی کمیونٹیز کو فیصلوں کا حصہ بنائے۔ ایڈووکیٹ غالب چانڈیو کہتے ہیں کہ سی پیک کو سیاست سے ہٹ کر ریاستی پالیسی کا حصہ بنایا جائے۔ جب تک منصوبے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہے گا، اس کی حقیقی صلاحیت محدود ہی رہے گی۔ سی پیک اس وقت ایک نازک موڑ پر ہے، جہاں سے یا تو ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں یا پھر غیر مساوی ترقی، قرضوں کے بوجھ اور سیاسی بے یقینی کی دلدل میں پھنس سکتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان اپنی اقتصادی ترقی کے لیے ایک واضح، شفاف اور جامع حکمت عملی اپنائے تاکہ سی پیک محض ایک خواب نہ رہے بلکہ ایک حقیقت بن کر ابھرے جو ہر پاکستانی کی زندگی میں بہتری لائے۔