‘آئی پی ایل’ کی جیت کے جشن میں بھگدڑ سے ہلاکتیں، وراٹ کوہلی کے خلاف پولیس کو شکایت مل گئی

انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں رائل چیلنجرز بنگلور کی پہلی فتح کے بعد شہر میں منائے گئے جشن کے دوران بھگدڑ کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں پر بھارت کے معروف کرکٹر وراٹ کوہلی کے خلاف پولیس کو شکایت موصول ہو گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق، کرناٹک کے دارالحکومت بنگلورو میں رائل چیلنجرز بنگلور کی جیت کے بعد شائقین کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی۔ ایم چنا سوامی اسٹیڈیم کے باہر اور شہر کے دیگر مقامات پر ہزاروں افراد جمع ہوئے، جہاں ٹیم کے اعزاز میں خصوصی تقاریب اور وکٹری پریڈ منعقد کی گئی تھی۔ ہجوم کے بے قابو ہونے پر دو مختلف مقامات پر بھگدڑ مچ گئی، جس کے نتیجے میں کم از کم گیارہ افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ انڈین میڈیا کے مطابق، بھگدڑ اس وقت مچی جب چنا سوامی اسٹیڈیم کے باہر ہزاروں شائقین اکٹھے ہو گئے۔ ان میں اکثریت ان مداحوں کی تھی جو ٹیم کو قریب سے دیکھنے اور جشن میں شریک ہونے آئے تھے۔ سیکیورٹی اقدامات ناکافی ثابت ہوئے اور انتظامیہ ہجوم کو قابو میں رکھنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ واقعے کے بعد وراٹ کوہلی نے سوشل میڈیا پر جاں بحق افراد کے لیے تعزیت کا پیغام جاری کیا، تاہم سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد نے کوہلی پر شدید تنقید کی کہ وہ اس سانحے کے باوجود وکٹری پریڈ میں شریک رہے اور جشن مناتے رہے۔ عوامی دباؤ کے بعد یہ معاملہ سنگین رخ اختیار کر گیا۔ ریاستی حکومت نے تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے رائل چیلنجرز بنگلور کی ٹیم انتظامیہ کے 11 افراد کو حراست میں لے لیا۔ ان افراد پر غفلت، بدانتظامی اور ہجوم کو غیر محفوظ ماحول فراہم کرنے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ ویرات کوہلی کے خلاف بھی بنگلورو کے کوبن پارک پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی گئی ہے۔ شکایت سوشل ورکر ایچ ایم وینکٹیش کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ کوہلی نے نہ صرف وکٹری پریڈ کو فروغ دیا بلکہ آئی پی ایل کے ذریعے جوئے کو بھی بڑھاوا دیا، جو بالآخر اس سانحے کا باعث بنا۔ پولیس ذرائع کے مطابق، شکایت موصول ہونے کے باوجود تاحال وراٹ کوہلی کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ درخواست کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور اسے حالیہ واقعے کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ دوسری جانب، بنگلورو ہائیکورٹ نے واقعے کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے رائل چیلنجرز بنگلور کے 4 عہدیداروں کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔ عدالت نے انتظامیہ کی جانب سے ناکافی حفاظتی اقدامات پر سخت اظہار برہمی کیا ہے۔

عیدالاضحیٰ: شوگر، بلڈ پریشر اور دل کے مریضوں کو کتنا گوشت کھانا چاہیے؟

عیدالاضحیٰ پر ماہرینِ صحت کا انتباہ، گوشت کا استعمال اعتدال سے کریں، زیادہ مقدار بدہضمی اور امراضِ قلب کا سبب بن سکتی ہے پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں آج عیدالاضحیٰ مذہبی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ سنتِ ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے لاکھوں مسلمان قربانی کے جانور ذبح کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو دعوتوں پر مدعو کر کے خوشیاں سمیٹ رہے ہیں۔ تاہم، عید کے موقع پر کھانوں کی فراوانی اور گوشت کے بے دریغ استعمال سے صحت کے مسائل پیدا ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ ماہرینِ صحت نے عید کے ان خوشیوں بھرے ایام میں عوام کو گوشت اور چٹ پٹے کھانوں کے استعمال میں اعتدال برتنے کا مشورہ دیا ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ گرم موسم میں زیادہ گوشت کھانے سے بدہضمی، تیزابیت، پیٹ درد اور دیگر معدے کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ اسی حوالے سے سوشل میڈیا پر معروف معالج ڈاکٹر ریحان عمر کی ایک ویڈیو زیرِ گردش ہے جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ خاص طور پر دل، شوگر اور بلڈ پریشر کے مریضوں کو گوشت کے استعمال میں سخت احتیاط برتنی چاہیے۔ انہوں نے تجویز دی کہ جن افراد کو انجائنا یا دل کا دورہ پڑ چکا ہے یا جو ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسے امراض میں مبتلا ہیں، وہ پورے ہفتے میں صرف آدھا کلو یعنی تقریباً پانچ سو گرام گوشت کھائیں۔ ڈاکٹر ریحان عمر کا کہنا ہے کہ عام طور پر صحت مند افراد بھی ریڈ میٹ (سرخ گوشت) کی مقدار کو ایک ہفتے میں 350 سے 500 گرام تک محدود رکھیں تاکہ نظامِ ہاضمہ پر بوجھ نہ پڑے اور دل کی صحت متاثر نہ ہو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کسی کو یورک ایسڈ، دل کی بیماری یا کولیسٹرول کا مسئلہ درپیش ہے تو اسے گوشت کے استعمال میں مزید احتیاط برتنی چاہیے۔ انہوں نے کھانوں میں نمک کے استعمال کے حوالے سے بھی خبردار کرتے ہوئے کہا کہ تیار کھانوں پر اوپر سے نمک ہرگز نہ ڈالیں اور عمومی طور پر نمک کی مقدار کم رکھیں۔ انہوں نے یہ بھی مشورہ دیا کہ کم چکنائی والا گوشت استعمال کریں اور تیل کا استعمال بھی معتدل رکھا جائے تاکہ دل، جگر اور معدے پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں۔ عیدالاضحیٰ پر جہاں قربانی ایک اہم مذہبی فریضہ ہے، وہیں کھانے پینے میں میانہ روی بھی نہایت ضروری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عید کی خوشیوں سے بھرپور لطف اٹھانے کے لیے صحت کا خیال رکھنا لازمی ہے، کیونکہ احتیاط نہ کی گئی تو یہ خوشی بیماریاں لے سکتی ہے۔ طبی ماہرین نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ عید کے دنوں میں گوشت کو مناسب مقدار میں استعمال کریں، کھانوں میں توازن رکھیں اور خاص طور پر بیمار افراد معالج کے مشورے کے بغیر گوشت کی زیادہ مقدار استعمال نہ کریں۔ یہ احتیاط نہ صرف صحت کے لیے بہتر ہے بلکہ عید کی خوشیوں کو برقرار رکھنے میں بھی مددگار ثابت ہو گی۔

غزہ میں عید کے روز بھی اسرائیلی بمباری نہ رک سکی، مزید 42 فلسطینی شہید

Gaza.

اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ عیدالاضحیٰ کے روز بھی جاری رہا، جمعے کو اسرائیلی فضائی حملوں اور فائرنگ کے نتیجے میں مزید 42 فلسطینی شہید ہو گئے۔ غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق اسرائیل نے عید کے پہلے دن مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا، جن میں رہائشی مکانات اور شہری تنصیبات شامل ہیں۔ ایجنسی کے ایک عہدیدار نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ صرف شمالی علاقے جبالیا میں اسرائیلی فضائی حملے کے باعث 11 افراد شہید ہوئے۔ دیگر علاقوں میں بھی شدید بمباری اور فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ فلسطینی حکام کے مطابق، تازہ حملوں کے بعد مجموعی طور پر شہادتوں کی تعداد (54 ہزار 677) تک پہنچ چکی ہے، جبکہ ایک لاکھ 25 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہو چکے ہیں۔ زخمیوں میں بڑی تعداد عورتوں، بچوں اور بزرگوں کی ہے۔ اسپتالوں میں سہولیات کی شدید کمی کے باعث طبی عملہ شدید مشکلات کا شکار ہے۔ غزہ کے جنوبی علاقے خان یونس میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملے میں چار اسرائیلی فوجی ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق فوجی ایک عمارت میں داخل ہوئے تھے تاکہ دھماکہ خیز مواد اور زیر زمین سرنگوں کا پتا لگایا جا سکے، تاہم مزاحمت کاروں نے پہلے سے بارودی مواد نصب کر رکھا تھا، جس کے دھماکے سے عمارت فوجیوں پر آگری۔ اسرائیلی میڈیا نے مزید بتایا کہ یہ حملہ مزاحمت کاروں کی منظم منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا، جو اسرائیلی فوج کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے کیا گیا۔ زخمیوں کو فوری طور پر اسرائیل کے فوجی اسپتالوں میں منتقل کیا گیا، جہاں بعض کی حالت تشویشناک ہے۔ دوسری جانب، امریکی حمایت یافتہ ایک بین الاقوامی تنظیم نے غزہ کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر اپنے تمام امدادی مراکز کو ایک روز سے زائد کے لیے بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ فلسطینی حکام کے مطابق، ان مراکز پر اسرائیلی حملوں میں اب تک کم از کم 110 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جو امداد کے منتظر تھے۔ اس تمام تر بربریت اور دباؤ کے باوجود اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے فلسطین کو مبصر ریاست کا درجہ دے دیا ہے، جو عالمی سطح پر فلسطینی موقف کی پذیرائی کا مظہر ہے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کی جا رہی ہے، تاہم اسرائیل نے اب تک عالمی دباؤ کو یکسر نظر انداز کیا ہوا ہے۔ فلسطینی عوام کا کہنا ہے کہ جب تک بین الاقوامی برادری اسرائیل کو جوابدہ نہیں بناتی، اس طرح کے حملے جاری رہیں گے، اور بے گناہ شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتے رہیں گے۔

وزیر داخلہ محسن نقوی کا وانا کا دورہ، ایف سی جوانوں کے ساتھ عید منائی

Mohsin naqvi in pastport office

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر فرنٹیئر کور خیبرپختونخوا (ساؤتھ) کے ہیڈکوارٹر وانا کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے مغربی سرحد پر تعینات افسران و جوانوں کے ساتھ عید منائی۔ دورے کے دوران انسپکٹر جنرل ایف سی (ساؤتھ) نے وزیر داخلہ کا پرتپاک استقبال کیا۔ محسن نقوی نے یادگارِ شہداء پر پھول چڑھائے اور دہشت گردی کے خلاف قربانی دینے والے سیکیورٹی اہلکاروں، پولیس اور قبائلی عوام کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ وزیر داخلہ نے ایف سی جوانوں کے ساتھ عید کی نماز ادا کی اور ملک میں امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے خصوصی دعا کی۔ بعدازاں اپنے خطاب میں انہوں نے جوانوں کے جذبۂ قربانی، حب الوطنی اور عزم کو سراہتے ہوئے کہا “آپ کی قربانیاں اور ثابت قدمی وطن کے تحفظ کی ضمانت ہیں، اور یہی جذبہ پاکستان کی اصل طاقت ہے۔” انہوں نے قبائلی عوام کے دہشت گردی کے خلاف کردار کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کے جذبے کو قوم کا قیمتی اثاثہ قرار دیا۔ محسن نقوی کا یہ دورہ سیکیورٹی فورسز کی قربانیوں کو تسلیم کرنے اور ان کے حوصلے کو بلند کرنے کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

’الگ انداز اور ثقافتی حسن‘، وادئ کیلاش میں عیدالاضحی کیسے منائی جاتی ہے؟

عیدالاضحی جہاں ملک بھر میں مذہبی عقیدت و احترام سے منائی جاتی ہے، وہیں پاکستان کے دلکش اور منفرد خطے وادئ کیلاش میں یہ تہوار اپنے الگ انداز، رنگوں، موسیقی اور ثقافتی حسن کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ یہاں کیلاش قبیلے کے لوگ مذہبی ہم آہنگی اور روایتی محبت کے جذبے کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شامل ہوتے ہیں، جہاں روایتی لباس، دلکش رقص، خوش کن دھنیں اور مہمان نوازی اس تہوار کو ایک یادگار تہذیبی تجربہ بنا دیتی ہے۔ وادئ کیلاش میں عید صرف ایک مذہبی موقع نہیں، بلکہ یہ ثقافت، امن، اور انسان دوستی کا رنگین امتزاج بن کر اُبھر آتی ہے۔

’ مداخلت سے دونوں ممالک جوہری جنگ سے بچ گئے‘، ٹرمپ نے ایک بار پھر پاک انڈیا جنگ بندی کا کریڈٹ خود کو دے دیا

Trump

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کا سہرا اپنے سر لے لیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی مداخلت سے دونوں ممالک کسی بڑے تصادم، یہاں تک کہ جوہری جنگ سے بھی بچ گئے۔ اپنے تازہ بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی اور صورتحال اس نہج تک پہنچ گئی تھی جہاں دونوں جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’میں نے دونوں ممالک کو صاف طور پر کہا کہ اگر تم ایک دوسرے پر بم گراتے ہو تو ہم تم سے کوئی تجارتی تعلق نہیں رکھیں گے۔‘‘ ٹرمپ کے مطابق، ان کے اس واضح مؤقف کے بعد دونوں ممالک پیچھے ہٹ گئے اور جنگ فوری طور پر رک گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تجارتی دباؤ ایک مؤثر ذریعہ ہے جس کے ذریعے امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اسی گفتگو کے دوران یہ بھی دعویٰ کیا کہ امریکہ اور چین کے درمیان نایاب معدنیات کی فراہمی کے معاملے پر پیشرفت ہوئی ہے اور چینی صدر شی جن پنگ نے امریکہ کو دوبارہ ان اہم معدنیات کی فراہمی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ چین سے تجارتی معاہدے کے بھی بہت قریب ہے۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ ماضی میں بھی کئی بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ میں کمی اور جنگ بندی میں ان کا کردار کلیدی رہا ہے۔ تاہم، بھارت اس دعوے کی مسلسل تردید کرتا رہا ہے۔ گزشتہ ماہ بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاک-بھارت جنگ بندی مکمل طور پر دوطرفہ فیصلہ تھا، جس میں امریکی صدر یا کسی تیسرے فریق کا کوئی کردار نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا، ’’صدر ٹرمپ نے ہم سے ثالثی یا مداخلت کی اجازت نہیں لی۔ وہ خود ہی منظرِ عام پر آنا چاہتے تھے، اور آ گئے۔‘‘ 10 مئی کو صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر اعلان کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔ اس وقت بھی ان کے بیان کو بھارتی حکومت نے مسترد کر دیا تھا، جبکہ بھارتی اپوزیشن جماعت کانگریس نے مودی حکومت کو اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ ایک بار پھر عالمی سطح پر بھارت کا مؤقف کمزور نظر آیا۔ بھارتی حکومت کی جانب سے ٹرمپ کے دعوے پر ہر بار ناراضی کا اظہار کیا جاتا ہے، جب کہ بھارتی اپوزیشن اسے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرتی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے ایسے دعوے امریکی داخلی سیاست اور بین الاقوامی سفارت کاری میں ان کی شبیہ بہتر بنانے کی کوشش ہو سکتے ہیں، لیکن اس سے خطے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان حساس معاملات مزید پیچیدہ بھی ہو سکتے ہیں۔

’آغاز خوش آئند ہے‘، انگلینڈ نے ویسٹ انڈیز کو پہلے ٹی ٹوئنٹی میں 21 رنز سے شکست دے دی

چیسٹر لی اسٹریٹ میں کھیلے گئے تین میچز کی ٹی ٹوئنٹی سیریز کے پہلے مقابلے میں انگلینڈ نے ویسٹ انڈیز کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد 21 رنز سے شکست دے کر سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل کر لی۔ انگلینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 188 رنز بنائے۔ کپتان جوش بٹلر نے شاندار بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 59 گیندوں پر 96 رنز کی اننگز کھیلی اور ٹیم کی بنیاد مضبوط کی۔ اس عمدہ کارکردگی کی بدولت ویسٹ انڈیز کو 189 رنز کا ہدف دیا گیا۔ ہدف کے تعاقب میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم مقررہ 20 اوورز میں مطلوبہ ہدف حاصل نہ کر سکی اور پوری ٹیم 167 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ انگلینڈ کی جانب سے واپسی کرنے والے لیام ڈاؤسن نے تباہ کن بولنگ کرتے ہوئے 4 اوورز میں صرف 20 رنز دے کر 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ انہیں میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔ میچ کے بعد گفتگو کرتے ہوئے انگلینڈ کے کپتان ہیری بروک نے کہا “سیریز کا آغاز جیت سے کرنا خوش آئند ہے۔ ڈاؤسن اور راشد کی تجربہ کار بولنگ نے ہمیں اہم لمحات میں برتری دلائی۔ جوش بٹلر کی بیٹنگ ناقابلِ یقین تھی۔ ہم نے درمیان کے اوورز میں تھوڑی مشکلات کا سامنا کیا، مگر چند باؤنڈری اور تیز دوڑ ہمیں مزید بہتر بنا سکتی ہے۔ ہم ہر میچ سے سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔” ویسٹ انڈیز کے کپتان شائی ہوپ نے شکست پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا “ہم پاور پلے میں مؤثر بولنگ نہ کر سکے، مگر بولرز نے بعد میں واپسی کی کوشش کی۔ ہمیں معلوم ہے کہ مخالف ٹیمیں ہمارے خلاف اسپن بولنگ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں، اس کا حل نکالنا ہوگا۔ ہماری ٹیم میں بے پناہ پاور ہے، مگر بحیثیت بیٹنگ یونٹ ہمیں بہتری کی ضرورت ہے۔ سیریز ابھی باقی ہے اور ہم باقی دونوں میچ جیتنے کے لیے پُرعزم ہیں۔” لیام ڈاؤسن، جو نومبر 2022 کے بعد پہلی مرتبہ بین الاقوامی کرکٹ میں نظر آئے، نے کہا”کافی عرصے بعد کھیلنے کے باعث تھوڑا دباؤ تھا، مگر کارکردگی سے خوش ہوں۔ جب آپ کے پاس 190 جیسا بڑا اسکور ہو تو بولنگ آسان ہو جاتی ہے۔ ویسٹ انڈیز جیسی خطرناک ٹیم کے خلاف درست لینتھ برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ امید ہے اگلا میچ بھی ہم اچھا کھیلیں گے۔” واضح رہے کہ انگلینڈ نے ہیری بروک کی باقاعدہ کپتانی میں یہ چوتھی مسلسل فتح حاصل کی ہے۔ سیریز کا دوسرا ٹی ٹوئنٹی میچ اتوار کو برسٹل میں شام 2:30 بجے (برطانوی وقت کے مطابق) کھیلا جائے گا۔ اس سے قبل ہفتے کے روز ویمنز ون ڈے انٹرنیشنل میچ میں انگلینڈ ویمنز ٹیم ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹاؤنٹن میں 11:00 بجے مدمقابل ہوگی۔ بی بی سی اسپورٹس ویب سائٹ دونوں مقابلوں کی مکمل کوریج فراہم کرے گی۔

“پی ٹی آئی جو تحریک شروع کرنے جارہی ہے، اسے اس سے کچھ نہیں ملے گا”، رانا ثناء اللہ

Rana sanaullah

وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جو تحریک شروع کرنے جارہی ہے، اسے اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اس وقت کسی بھی عوامی تحریک کو چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہ بات انہوں نے فیصل آباد میں نمازِ عید کی ادائیگی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ ملک کو اس وقت سیاسی استحکام اور قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے، لہٰذا اپوزیشن کو وزیراعظم کی ملاقات کی پیشکش قبول کرنی چاہیے اور انتخابی قوانین میں ترامیم کے لیے حکومت کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کا آغاز کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ صرف تنقید یا احتجاج کی سیاست کے بجائے ‘چوبیس کروڑ’ عوام کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ طرزِ عمل اپنائے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کی بہتری اور استحکام صرف حکومت کی نہیں بلکہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے، اور معاشی خوشحالی ہر فرد کا مسئلہ ہے۔ رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو بارہا مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے، اور سب سے پہلے “میثاقِ معیشت” پر اتفاق ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان کے مطابق، میثاقِ معیشت کے بعد سیاست، انتخابات اور دیگر اہم معاملات پر بھی گفتگو ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو درپیش سیاسی اور معاشی چیلنجز کے حل کے لیے تمام فریقین کو ایک صفحے پر آنا ہوگا، تاکہ ایک مضبوط قومی بیانیہ تشکیل دیا جا سکے۔ وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی نے اپنے بیان میں پاکستان کے خارجی محاذ پر مؤقف کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بھارت کو ایسا منہ توڑ جواب دیا ہے کہ بھارت آج دنیا بھر میں رسوائی کا سامنا کر رہا ہے۔ ان کے مطابق، پاکستان اب دنیا میں ایک مضبوط اور باوقار ملک کے طور پر ابھر رہا ہے، اور عالمی سطح پر پاکستان کا مؤقف مضبوط ہوا ہے۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ حکومت ملک میں آئین، قانون، جمہوریت اور معاشی استحکام کو ترجیح دے رہی ہے، اور اپوزیشن کی بھی یہی ذمہ داری ہے کہ وہ ذاتی مفادات کے بجائے قومی مفادات کو ترجیح دے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عوام کی بہتری اور ریاست کے استحکام کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو سنجیدہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔ رانا ثناء اللہ نے ایک بار پھر کہا کہ جو تحریک پی ٹی آئی شروع کرنا چاہتی ہے، وہ غیر مؤثر ثابت ہوگی کیونکہ عوام اب سیاسی شعبدہ بازی کے بجائے ترقی، روزگار اور امن چاہتے ہیں۔

بجٹ کی آمد: پاکستان کو ‘ٹارچ’ کی نہیں، ‘پاور ہاؤس’ کی ضرورت ہے

Inflation

تصور کریں کہ آپ ایک بہت بڑے، بالکل اندھیرے ہال میں کھڑے ہیں اور آپ کے پاس صرف ایک چھوٹا سا ٹارچ ہے۔ آپ صرف وہی دیکھ سکتے ہیں جو بالکل آپ کے سامنے ہے۔ یہی حال پاکستان کے پالیسی سازوں کا ہے، جو بہت محدود سوچ کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں اور اردگرد پھیلی ہوئی عوام کی مشکلات کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک کی 44.7 فیصد آبادی، یعنی تقریباً 10 کروڑ 70 لاکھ لوگ، عالمی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ لکیر فی دن 4.2 ڈالر ہے، جو پاکستانی روپوں میں تقریباً 1,200 روپے بنتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ 3 ڈالر روزانہ سے بھی کم پر جینے والے لوگوں کی تعداد 3 کروڑ 90 لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ لاکھوں زندگیاں ہیں جو بھوک، بے بسی اور محرومی کی تکلیف سہہ رہی ہیں۔ لیکن حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ایک گھرانہ 37,000 روپے ماہانہ میں گزارا کر سکتا ہے۔ آج کی مہنگائی میں یہ بات نہ صرف ناقابلِ یقین ہے بلکہ غیر اخلاقی بھی ہے۔ جب حکمران زمینی حقیقتوں سے ہٹ کر لوگوں کی بنیادی ضروریات کا اندازہ لگاتے ہیں تو وہ عوام اور اقتدار کے درمیان خلیج کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔ اصل پاکستان میں حالات ایسے ہیں کہ سفید پوش لوگ، جو کبھی مڈل کلاس کی پہچان ہوا کرتے تھے، اب لنگر خانوں کی قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کی خاموش عزت کو بھوک کے شور نے دبا دیا ہے۔ بزرگ بھوک سے مر رہے ہیں، جیسے حال ہی میں بہاولپور میں افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ کچھ لوگ اسے معیشت کی حقیقت کہیں گے، لیکن دراصل یہ ہمدردی، قیادت اور سیاسی ارادے کی ناکامی ہے۔ خوش قسمتی سے سول سوسائٹی نے عوام کو تنہا نہیں چھوڑا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے اپنی رپورٹ ‘زندگی سے وقار تک: ایک زندہ تنخواہ کی ضرورت’ میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صرف کم سے کم تنخواہ نہ دے، بلکہ ’زندہ تنخواہ‘ کا نظام اپنائے۔ یہ فرق بہت اہم ہے۔ کم سے کم تنخواہ اکثر بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر رہتی ہے، جبکہ زندہ تنخواہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پورا وقت کام کرے تو وہ عزت کے ساتھ زندگی گزار سکے – یعنی اسے کھانا، رہائش، علاج، تعلیم اور بہتر مستقبل کا خواب پورا کرنے کا موقع ملے۔ HRCP کے مطابق، ایک چھ افراد کے خاندان کے لیے کم از کم 75,000 روپے ماہانہ ضروری ہیں۔ اب جب کہ وفاقی بجٹ آنے والا ہے، صرف باتوں سے کام نہیں چلے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس چیلنج کا سامنا کرے گی یا پھر ہمیشہ کی طرح صرف کاروباری طبقے کی خوشنودی کی فکر کرے گی، جسے صرف اپنے منافع کی پڑی ہے؟ مزدوروں کے حقوق کے قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے مالکان آسانی سے تنخواہیں کم رکھ کر ورکرز کا استحصال کرتے ہیں۔ اگر اصل اصلاحات نہ ہوئیں تو بجٹ میں تنخواہوں کا کوئی بھی اضافہ صرف دکھاوا ہی رہے گا۔ ہم اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ غربت اور مایوسی نے نوجوانوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ غیر قانونی طریقے سے بیرونِ ملک جانے کی کوشش کریں، چاہے انہیں اپنی جان کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ راستہ خطرناک ہے، لیکن انہیں یہاں کوئی امید نظر نہیں آتی۔ سچ یہ ہے کہ اگر انہیں بھوک نہ مارے، تو ناامیدی ضرور مار دے گی۔ پاکستان کو اب ایک اور چھوٹے ٹارچ کی نہیں، بلکہ ایک نئے ’پاور سورس‘ کی ضرورت ہے – ایک ایسی حکومت جو اپنے عوام کو پوری روشنی میں دیکھے اور ان کی بقا ہی نہیں، بلکہ ان کے وقار کے لیے قانون بنائے۔

‘قربانی، بھائی چارہ اور اتحاد’، عیدالاضحیٰ کے موقع پر صدر، وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کا خصوصی پیغام

عیدالاضحیٰ ملک بھر میں مذہبی عقیدت اور احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔ ملک بھر میں عید کی نماز کے اجتماعات مساجد، عیدگاہوں اور کھلے میدانوں میں منعقد ہوئے۔ چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں نماز عید کے اجتماعات ہو رہے ہیں۔ عیدگاہوں اور مساجد میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں تاکہ لوگ محفوظ طریقے سے عبادت کر سکیں۔ نماز کے دوران امتِ مسلمہ کی بھلائی، ملک کی ترقی، خوشحالی اور سلامتی کے لیے دعائیں کی گئیں۔ علمائے کرام نے اپنے خطبات میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی عظیم قربانی کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس کے مقصد اور روحانی پہلو کو اجاگر کیا۔ لوگ حضرت ابراہیمؑ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے جانور قربان کر رہے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کی جانب سے عید کے دنوں میں جانوروں کی باقیات اور کوڑا کرکٹ فوری طور پر صاف کرنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری، وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے پوری قوم کو عید کی مبارکباد دی ہے۔ صدرِ مملکت نے کہا کہ ہمیں محبت، قربانی، بھائی چارے اور اتحاد کو اپنانا چاہیے۔ ایک دوسرے کا ساتھ دے کر ہم پاکستان کو خوشحال ملک بنا سکتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ قربانی اور اتحاد کی جذبے کی آج بھی بہت ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حملے کے وقت قوم کا اتحاد دشمن کے لیے ایک مضبوط پیغام تھا۔ وزیراعظم نے اپیل کی کہ عید کی خوشیوں میں فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم لوگوں کو بھی یاد رکھیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر، ائیر چیف، نیول چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نے بھی قوم کو عید کی مبارکباد دی ہے۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ ہم پاکستانی قوم کی ہمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ فوج، پولیس اور بہادر شہریوں کی قربانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔عیدالاضحیٰ کا موقع ہمیں قربانی، اتحاد اور غور و فکر کا پیغام دیتا ہے۔ دعا ہے کہ یہ مبارک دن ہمارے معاشرے میں ہم آہنگی اور اتحاد کو بڑھائے۔