جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس: ‘وقت آچکا ہے کہ مسلم ممالک متحد ہوکر اسرائیلی تسلط کا خاتمہ کریں’

جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کی زیر صدارت منصورہ لاہور میں جاری ہے، جس میں ملک بھر سے شوریٰ اراکین شریک ہیں، یہ اجلاس تین روز تک جاری رہے گا۔ اجلاس کے دوران ایران پر بلاجواز اسرائیلی حملے کے خلاف شدید مذمت کی گئی اور اس حوالے سے ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی گئی۔ قرارداد میں اسلامی ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آپس کے اختلافات بھلا کر متحد ہوں اور اسرائیل کی جارحیت کے خلاف مشترکہ موقف اپنائیں۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی ناجائز ریاست اور اس کے جارحانہ عزائم ایک ناسور کی صورت میں پورے خطے میں سرایت کر رہے ہیں۔ اب وقت آ چکا ہے کہ مسلمان ممالک متحد ہو کر اس تسلط کا خاتمہ کریں۔ مزید پڑھیں: سندھ طاس جیسے معاہدے کمزور ہوئے تو علاقائی امن کمزور ہوگا، بلاول بھٹو زرداری قرارداد میں ایران کی خودمختاری، سلامتی اور دفاع کی حمایت کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ایران کو ہر قسم کی ممکنہ مدد فراہم کرے۔ جماعت اسلامی نے ایرانی حکومت اور عوام سے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ اسرائیلی جارحیت کا مؤثر علاج صرف مسلم امہ کے اتحاد میں پوشیدہ ہے۔ اگر مسلمان ممالک ایک ہو جائیں تو اسرائیلی تسلط کا خاتمہ ممکن ہے۔ اجلاس میں ملکی و عالمی سیاسی صورتحال، مسئلہ فلسطین، کشمیر، معاشی بحران اور آئندہ کی حکمت عملی پر بھی غور متوقع ہے۔
آئی جی سندھ کا جائزہ اجلاس: ‘عادی، مفرور و مطلوب ملزمان موقع پاتے ہیں قتل کرتے ہیں’

آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے خبردار کیا ہے کہ عادی، مفرور اور مطلوب ملزمان جب بھی موقع پاتے ہیں، وہ قتل جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ آئی جی سندھ کی زیر صدارت سینٹرل پولیس آفس کراچی میں امن و امان اور جرائم کی روک تھام کے حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا، جس میں صوبے میں اغواء برائے تاوان، ہائی وے ڈکیتی اور مفرور ملزمان کے خلاف جاری کارروائیوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں سی پی ایل سی چیف زبیر حبیب، ڈی آئی جیز ایڈمن، ٹی اینڈ ٹی، کرائم اینڈ انویسٹی گیشنز، اسٹبلشمنٹ، فائنانس، زونل و ڈویژنل ڈی آئی جیز اور تمام اضلاع کے ایس ایس پیز نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران اغواء برائے تاوان کے کیسز، شاہراہوں پر ڈکیتیوں کی وارداتیں اور مفرور و مطلوب ملزمان کی گرفتاریوں سے متعلق رپورٹس پیش کی گئیں۔ مختلف زونز کے افسران نے اپنی اپنی کارکردگی کی تفصیلات سے آئی جی سندھ کو آگاہ کیا۔ آئی جی سندھ نے ڈی آئی جیز ویسٹ، سکھر اور لاڑکانہ کو اغواء برائے تاوان کے کیسز میں تسلی بخش کارکردگی دکھانے پر شاباش دیتے ہوئے کہنا تھا کہ میری خواہش اور عزم ہے کہ صوبے سے اغواء برائے تاوان کی شکایات کا مکمل خاتمہ ہو۔ غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ ہنی ٹریپ جیسا خطرناک رجحان اب ایک صنعت کی شکل اختیار کرچکا تھا، جس پر سندھ پولیس نے محنت سے قابو پایا ہے، آپ نے شہریوں کو اغواء برائے تاوان اور ہنی ٹریپ جیسے جرائم سے محفوظ رکھا، یہ آپ کی محنت کا ثمر ہے۔ آئی جی سندھ نے خبردار کیا کہ عادی، مفرور اور مطلوب ملزمان جب بھی موقع پاتے ہیں، وہ قتل جیسے سنگین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہائی وے سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے سندھ پولیس نے “ہائی وے پیٹرول” کے نام سے ایک خصوصی یونٹ قائم کیا ہے تاکہ شہری شاہراہوں پر محفوظ سفر کر سکیں۔ آئی جی سندھ نے انکشاف کیا کہ احتجاج، دھرنوں اور ٹریفک جام کے دوران ڈکیتی کی شکایات موصول ہوئی ہیں جن پر فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تمام افسران کو ہدایت دی کہ گرفتار ملزمان کا ڈیٹا اور کیس کی تفصیلات PSRMS میں لازمی درج کی جائیں،عدالتوں سے شناختی کارڈز بند کروانے اور شناخت پریڈ کی کارروائیاں مکمل کی جائیں۔ اس کے علاوہ پولیس اسٹیشنز میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں اور خوش اخلاق عملہ تعینات کیا جائے، تھانوں میں عملے کی غیر ضروری تقرریوں کی نگرانی کی جائے۔ آئی جی سندھ نے واضح کیا کہ سندھ پولیس کو عوامی اعتماد بحال رکھنے اور جرائم کے خلاف بلا تفریق کارروائی جاری رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ صوبے میں پائیدار امن قائم کیا جا سکے۔
پاکستان کے شہر شدید گرم موسم کی زد میں ہیں، محکمہ موسمیات

ملک بھر میں جمعے کے روز موسم شدید گرم اور خشک رہا، جب کہ چار شہروں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا۔ پنجاب کے متعدد شہروں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر ریکارڈ کیا گیا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ہیٹ ویو میں ممکنہ کمی متوقع ہے کیونکہ جمعہ سے پیر تک شمالی اور وسطی علاقوں میں تیز ہواؤں اور بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ سبی میں ملک بھر میں سب سے زیادہ درجہ حرارت 47 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، جہاں موسم انتہائی گرم اور خشک رہا اور نمی کی سطح صرف سات فیصد رہی۔ کراچی میں دوپہر 2 بجے درجہ حرارت 39 ڈگری سینٹی گریڈ رہا، جب کہ نمی کا تناسب 48 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔ بعض رپورٹس کے مطابق کراچی میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 50.4 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق 41 سے 54 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ہیٹ انڈیکس کی سطح پر ہیٹ اسٹروک، جسمانی درد اور تھکن کے ممکنہ خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ بہاولپور میں درجہ حرارت 46 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، تاہم فیل لائکس درجہ حرارت 55.8 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، جو ملک میں سب سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا درجہ حرارت ہے۔ ہیٹ انڈیکس کے مطابق 54 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد درجہ حرارت انتہائی خطرے کی سطح پر شمار ہوتا ہے۔ مزید پڑھیں:پاکستان میں چائلڈ لیبر سے ایک کروڑ سے زائد بچے متاثر ملک کے مختلف شہروں میں درج ذیل درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا: فیصل آباد اور سرگودھا میں 46 ڈگری سینٹی گریڈ (فیل لائکس: 48.4°C)، ڈیرہ اسماعیل خان میں 45 ڈگری (فیل لائکس: 49.6°C)، ملتان میں 45 ڈگری (فیل لائکس: 47.9°C)، لاہور میں 44 ڈگری (درجہ حرارت: 51.1°C)، سیالکوٹ میں 43 ڈگری (درجہ حرارت: 51.4°C)، اسلام آباد میں 43 ڈگری (فیل لائکس: 44.4°C)، راولپنڈی میں 42 ڈگری (فیل لائکس: 41.2°C)، پشاور میں 41 ڈگری، مظفرآباد میں 43 ڈگری اور کوئٹہ میں 30 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ ملک کے مختلف حصے اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں اور درجہ حرارت معمول سے کافی زیادہ ہے، جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی عکاسی کرتا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سے جاری ہیٹ ویو میں تاحال کوئی کمی نہیں آئی۔
سندھ طاس جیسے معاہدے کمزور ہوئے تو علاقائی امن کمزور ہوگا، بلاول بھٹو زرداری

سابق وزیرِ خارجہ و چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کو غیر قانونی یکطرفہ طور پر معطل کیا، سندھ طاس جیسے معاہدے کمزور ہوئے تو علاقائی امن کمزور ہوگا۔ یورپین تھنک ٹینک کو خطے کی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے اعلیٰ سطح پارلیمانی وفد کے ہمراہ بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان-انڈیا جنگ بندی کے لیے عالمی برادری کی کوششیں لائقِ تحسین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعہ پر تحقیقات کی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا گیا، انڈیا پہلگام واقعہ کے ذمہ داروں کے نام اور شناخت تاحال سامنے نہیں لایا۔ انڈین حکومت نے پہلگام واقعہ کے ابھی تک کوئی شواہد نہیں دیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم انسدادِ دہشت گردی اور کشمیر کے معاملے پر بات چیت کے لیے تیار ہیں، سندھ طاس جیسے معاہدے کمزور ہوئے تو علاقائی امن کمزور ہوگا۔ سابق وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ماحولیاتی وسائل کو ہتھیار بنانا خطرناک ہے، ایران پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خطے میں امن کے لیےمسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے ہزاروں جانوں کی قربانی دی۔ مودی کے اقدامات خطے میں امن کی کوششوں کو متاثر کررہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ عالمی برادری نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کو سراہا ہے، افغان صورتِ حال کےبعد پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ انڈین جارحیت پر پاکستان نے تحمل سے کام لیا، انڈین حملوں کےجواب میں پاکستان نے دفاع کا حق استعمال کیا، انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کو غیر قانونی یکطرفہ طور پر معطل کیا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ انڈیا کے ساتھ تمام مسائل پاکستان بات چیت سے حل کرنے کا خواہاں ہے، پاکستان نے انڈین الزامات کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے، انڈیا میں ہندوتوا پالیسوں کے تحت مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، خطے میں امن کے لیے مذاکرات کے خواہاں ہیں ۔ دوسری جانب اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے یورپی یونین کے ادارہ برائے خارجہ امور کے حکام سے ملاقات کی، جس میں انہوں نے پاکستان کے مؤقف پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کشمیری عوام کی جدوجہد، سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں اور بھارت کی جانب سے کی گئی جنگی کارروائیوں سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ امن کی بات کرتا رہا ہے اور اس مؤقف کو عالمی برادری میں اجاگر کرنے کے لیے ہر سطح پر سفارتی کوششیں جاری ہیں۔ یورپی یونین سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ خطے میں امن قائم کرنے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش اور اقوام متحدہ میں ہونے والی پیش رفت مثبت اشارے ہیں، جب کہ برطانیہ اور یورپی یونین سے بھی پاکستان کو حوصلہ افزا ردعمل ملا ہے۔ ایران اسرائیل کشیدگی پر گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے ایران پر اسرائیل کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے سابق وزیرِ خارجہ و چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ یہ صرف ایران ہی نہیں بلکہ پورے خطے کو جنگ کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطین میں نسل کشی، امتیازی پالیسی اور مسلسل جنگی روش پر گامزن ہے، جسے اب خطے تک وسعت دی جا رہی ہے۔ عالمی برادری کو اس عمل کو روکنے کے لیے فوری کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان اور ریاستی ادارے ہر سطح پر اس ممکنہ جنگ کے خلاف مؤقف اختیار کر چکے ہیں، کیونکہ پاکستان خطے میں کسی بھی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
نئے مالی سال کے لیے سندھ اسمبلی میں بجٹ پیش: ‘غربت نہیں بلکہ غریب کے خاتمے کا بجٹ ہے’

سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے مالی سال 2025-26 کے لیے 3,451.87 ارب روپے کا صوبائی بجٹ پیش کیا، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 12.9 فیصد زیادہ ہے۔ پیش کردہ بجٹ کو جامع بجٹ قرار دیتے ہوئے وزیرِاعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ یہ بجٹ سماجی بہتری، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور اقتصادی خودمختاری کے اہداف لیے ہوئے ہے، یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ مجھے مسلسل گیارہویں بار بجٹ پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔ بجٹ تقریر کے دوران وزیراعلیٰ سندھ نے تنخواہوں، پنشن، تعلیم، صحت، انفرااسٹرکچر، پولیس اصلاحات، سماجی فلاح، زراعت اور کراچی کی ترقی کے منصوبوں کی تفصیلات بیان کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گریڈ 1 سے 16 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 12 فیصد، گریڈ 17 سے 22 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 8 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔ سندھ حکومت نے آئی ایم ایف کی پابندیوں کے باوجود صحت اور تعلیم کے شعبوں میں ریکارڈ ترقیاتی کام کیے۔ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس سال صحت کے لیے 326.5 ارب روپے اور تعلیم کے لیے 523.7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ این آئی سی وی ڈی، ایس آئی یو ٹی، گمبٹ انسٹیٹیوٹ، ایس آئی سی ایچ اور جے پی ایم سی میں صحت کی سہولیات کو وسعت دی گئی ہے۔ کراچی میں 50 نئی الیکٹرک بسوں کا اعلان بھی کیا گیا ہے، جب کہ ریڈ لائن بی آر ٹی منصوبہ 50 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ کورنگی کاز وے پل اور شاہراہ بھٹو سمیت مختلف ترقیاتی منصوبے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے پولیس اصلاحات، نوجوانوں کے لیے آئی ٹی ٹریننگ، معذور افراد کی فلاح، تعلیم میں ڈیجیٹل اقدامات اور کسانوں کے لیے سبسڈی جیسے نکات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عوام نے حالیہ انتخابات میں پیپلز پارٹی پر اعتماد کا اظہار کیا اور یہ بجٹ سندھ کی غیر استعمال شدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ واضح رہے کہ بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن کی جانب سے شدید ہنگامہ آرائی بھی دیکھنے میں آئی۔ اپوزیشن اراکین نے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے نعرے بازی کی اور ایوان میں شور شرابا کیا۔ اس دوران اپوزیشن جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی محمد فاروق نے سندھ بجٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ محمد فاروق کا کہنا تھا کہ یہ غربت نہیں بلکہ غریب کے خاتمے کا بجٹ ہے۔ کراچی ملک کو سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے لیکن اسے مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بجٹ میں کراچی کے لیے کوئی میگا پروجیکٹ شامل نہیں کیا گیا اور شہر پر صرف ٹیکس عائد کیے جا رہے ہیں، سہولیات مہیا نہیں کی جا رہیں۔ انہوں نے بجٹ کو وفاق کی طرز پر عوامی امنگوں کے خلاف قرار دیا اور کہا کہ سندھ میں احتجاج کرنے والی ایم کیو ایم وفاق میں اقتدار کا حصہ ہوتے ہوئے بھی کراچی کے لیے کچھ حاصل نہ کر سکی۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور ن لیگ کراچی کے ساتھ مسلسل زیادتیوں کا ذمہ دار ہیں۔ محمد فاروق نے کہا کہ 20 سال گزرنے کے باوجود کراچی کے پانی کا مسئلہ حل نہیں کیا جا سکا۔ انہوں نے بجٹ کو مہنگائی کا طوفان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ صحت، تعلیم اور انفرااسٹرکچر کے شعبوں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور یہ بجٹ متوسط اور مزدور طبقے پر کاری ضرب ہے۔ بجٹ اجلاس کے دوران ماحول خاصا گرم رہا اور ایوان میں اپوزیشن اور حکومتی بینچوں کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، تاہم وزیراعلیٰ سندھ نے اپنی تقریر مکمل کی اور حکومتی ارکان نے بجٹ کو ترقی کا ضامن قرار دیا۔ صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا گٹھ جوڑ واضح طور پر سامنے آ چکا ہے، جو جماعتیں ماضی میں سیٹوں پر ایک دوسرے کے خلاف لڑتی تھیں، وہ آج اسمبلی کے فلور پر ایک ساتھ کھڑی نظر آئیں۔ یہ اتحاد ایک نیا پیغام ضرور ہے، لیکن پیپلز پارٹی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کی سیاست سب پر عیاں ہے، یہ جماعت ہمیشہ بلدیاتی انتخابات سے بھاگتی رہی ہے کیونکہ عوام میں ان کی کوئی مقبولیت باقی نہیں رہی۔ سندھ کے عوام نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ دیا ہے۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے کراچی سے غنڈہ گردی، بوری بند لاشوں، بھتہ خوری اور کھالوں کی سیاست کا خاتمہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے آج جو طرزِ عمل اسمبلی میں اختیار کیا، وہ احساسِ محرومی کا نتیجہ ہے۔ ایران پر حملے کا بہانہ بنا کر جو ڈرامہ رچایا گیا، وہ بھی بے نقاب ہو چکا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے اپنی تقریر کی ابتدا ایران پر بزدلانہ حملے کی مذمت سے کی، لیکن اپوزیشن نے اس موقع پر بھی منفی سیاست کا مظاہرہ کیا۔
زخموں پر نمک یا مرہم؟ حنا بٹ کی مظلوم خاتون سے ‘ملاقات’ پر عوامی ردعمل نے سوالات اٹھا دیے

حافظ آباد میں ایک اندوہناک واقعے کا شکار ہونے والی خاتون سے اظہارِ یکجہتی کے لیے مسلم لیگ (ن) کی رہنما حنا پرویز بٹ کی جانب سے کی گئی “سرکاری ملاقات” اب سوالیہ نشان بن گئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کی گئی اس ملاقات کو جہاں ایک جانب حکومتی حلقے سراہ رہے ہیں، وہیں سوشل میڈیا پر اس ملاقات کے انداز، مقام، ویڈیو جاری کرنے اور فوٹو سیشن پر شدید عوامی ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ ملاقات کے بعد ایک ٹویٹ کے ذریعے واقعے کی تفصیل اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے حنا پرویز بٹ کا کہنا تھا کہ مریم نواز صاحبہ کی ہدایت پر حافظ آباد میں شوہر کے سامنے درندگی کا شکار ہونے والی خاتون سے خود ملنے گئی، خاتون کو گلے لگا کر حوصلہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تین درندے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں اور باقی بھی جلد قانون کے شکنجے میں ہوں گے، مریم نواز اور میں ہر مظلوم عورت کے ساتھ کھڑی ہیں۔ یہ ملاقات، جو سرکاری دفتر میں کی گئی اور جس کی ویڈیو اور تصاویر سرکاری ذرائع سے جاری کی گئیں، سوشل میڈیا پر عوامی اور صحافتی حلقوں کی تنقید کی زد میں آ گئی۔ سوشل میڈیا صارف آصف اسلم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا ملنے گئی ہیں آپ؟ یہ ملاقات تو سرکاری دفتر میں ہورہی ہے۔ آپ جیسے لوگ ہی مریم نواز صاحبہ کے دوست نہیں، آستین میں چھپے سانپ ہیں، جو ان کے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ غیر ضروری فوٹو شوٹس اور ایسے شودے اقدامات نیک نامی کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ردعمل دیتے ہوئے صارف امجد خان نے کہا کہ متاثرہ شہری سے یہ ہمدردی بغیر ویڈیو جاری کیے بھی کی جاسکتی تھی، یہ حرکت پہلے بھی متعدد بار ہوچکی ہے۔ اس عورت کی تصویر اب تک سامنے نہیں آئی ہے تھی، جناب نے ساتھ بٹھا کر ویڈیو جاری کردی ہے۔آپ لوگ سیکھنے سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ ایک اور صارف ملک شکیل کا کہنا تھا کہ خود ملنے گئی ،شرمناک،اس کو سرکاری دفتر میں بلایا،اس عمل کی ویڈیو بنائی اور جاری کی ،خاتون کو درجنوں لوگوں کے سامنے اس تشہیری مہم سے گزار کر اس کی تذلیل کی۔ صارف کامران خان نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ کتنا جھوٹ بولتے ہیں، اپنے فوٹو سیشن کے لیے بے چاری کو وزیر اعلیٰ ہاؤس بلایا ہے، جب سے یہ ڈائن وزیر اعلیٰ بنی ہے پنجاب میں خواتین مزید غیر محفوظ ہوگئی ہیں۔ سینئر صحافی اظہر جاوید نے اس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کیا ایک مظلوم خاتون، جس کے ساتھ بھیانک ظلم ہوا ہے، اس کو سرکاری دفتر میں بلاکر اس کے ساتھ فوٹو شوٹ کرواکر پھر میڈیا کو جاری کرنا درست عمل ہے ؟ انہوں نے ہر معاملے میں تشہیری مہم کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، مریم نواز کو اس عمل کا نوٹس لے کر حنا پرویز بٹ صاحبہ سے جواب طلب کرنا چاہیے اور آئندہ کے لیے اس طرح کے واقعات کی متاثرہ خواتین کی ویڈیو اور تصاویر کی بھی ممانعت کردینی چاہیے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف جنسی تشدد جیسے حساس اور سنگین واقعات میں ریاستی ردعمل کا طریقہ نہایت محتاط اور باوقار ہونا چاہیے۔ جب حکومت کے نمائندے متاثرین سے اظہارِ ہمدردی کے نام پر سرکاری دفاتر میں ملاقاتیں کرتے ہیں اور ان کی ویڈیوز اور تصاویر جاری کرتے ہیں، تو یہ اقدامات متاثرہ افراد کے لیے مزید صدمے اور تذلیل کا سبب بن سکتے ہیں۔ حنا پرویز بٹ کی جانب سے کی گئی ملاقات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہمارے نظام میں اب بھی “ہمدردی” کو تشہیر کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جب تک مظلوم کی عزتِ نفس کو مقدم نہیں سمجھا جائے گا، تب تک ایسے اقدامات عوام کی نظر میں دکھاوا ہی رہیں گے۔ واضح رہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی نمائندے محض کیمروں کے سامنے جذبات کا اظہار کرنے کی بجائے پسِ پردہ مؤثر قانونی، سماجی اور نفسیاتی مدد کا نظام قائم کریں۔ مظلوم کی داد رسی صرف انصاف سے نہیں، احترام سے بھی ہوتی ہے اور وہ احترام بغیر کیمروں کے خاموشی سے عزت کے ساتھ ممکن ہے۔
ٹرمپ کی ایران کو تنبیہ: ’معاہدہ کریں ورنہ کچھ نہیں بچے گا‘

اسرائیل کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات اور اعلیٰ حکام پر شدید حملوں کے بعد، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ وہ “کسی معاہدے پر پہنچے، اس سے پہلے کہ کچھ باقی نہ بچے”۔ یہ بیان انہوں نے جمعہ کی صبح اپنے سوشل میڈیا پیغام میں دیا۔ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق متعدد اہداف پر فضائی حملے کیے۔ ان حملوں میں ایرانی فوجی اور جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جوابی کارروائی میں ایران نے اسرائیل کی طرف 100 سے زائد ڈرون بھیجے، جن کے بارے میں اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے۔حملے ایران کے مختلف شہروں میں واقع جوہری تنصیبات اور فوجی اہداف پر کیے گئے، جبکہ ایرانی ڈرون حملے اسرائیلی حدود میں متعدد مقامات پر رپورٹ ہوئے۔ حملوں کا آغاز جمعرات کی شب ہوا اور جمعہ کی صبح تک دونوں فریقوں کی جانب سے فوجی کارروائیاں جاری رہیں۔اسرائیل کا مؤقف ہے کہ اس کے حملوں کا مقصد ایران کی جوہری صلاحیت کو محدود کرنا ہے۔ دوسری جانب ایران نے اسرائیلی حملوں کو جارحیت قرار دیتے ہوئے جوابی کارروائی کی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا، “میں نے ایران کو بارہا موقع دیا کہ وہ معاہدہ کرے، مگر انہوں نے یہ موقع ضائع کیا۔” انہوں نے مزید کہا کہ امریکی اسلحہ دنیا کا سب سے جدید اور مہلک ہے، اور اسرائیل کے پاس اس کی وافر مقدار موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کے سخت گیر عناصر نے انتباہات کو نظر انداز کیا، “اور اب وہ سب مارے جا چکے ہیں۔” ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ “صیہونی حکومت نے اپنے لیے تلخ اور دردناک انجام تیار کر لیا ہے۔” عالمی رہنماؤں نے صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر اُرسولا فان ڈیر لاین نے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور کشیدگی کو بڑھنے نہ دیں۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے اسٹاک ہوم میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ “ترجیحی طور پر کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔” ابھی تک امریکی حکومت کی جانب سے باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم واشنگٹن میں صورتحال پر قریبی نظر رکھی جا رہی ہے۔ خطے میں کشیدگی کے پیش نظر عالمی منڈیوں اور تیل کی قیمتوں پر بھی اثرات پڑنے کا امکان ہے۔
عالمی ممالک کا اسرائیل کی جانب ’بدلتا رویہ‘ اُس کی پالیسی تبدیل کرانے کی طاقت رکھتا ہے؟

غزہ میں اسرائیل کی مسلسل اور شدید جارحیت نے نہ صرف انسانی المیہ کو جنم دیا ہے بلکہ عالمی برادری کے رویے میں بھی واضح تبدیلی پیدا کی ہے۔ جہاں پہلے کئی مغربی ممالک اسرائیل کے دفاع کے حق کو تسلیم کرتے تھے، وہیں اب اسرائیلی کارروائیوں میں بڑھتی ہوئی شدت، شہری ہلاکتیں، اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں پر حملوں نے ان کی پالیسیوں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور کئی عالمی رہنما اب کھل کر اسرائیل کی مذمت کر رہے ہیں اور غزہ میں سیز فائر کا مطالبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسے میں یہ سوال سراٹھاتا ہے کہ کیا اسرائیل کو اب اپنی سیکیورٹی پالیسیوں، جنگی حکمتِ عملی اور فلسطینی عوام کے ساتھ برتاؤ پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے؟ کیونکہ اب نہ صرف اسرائیل کی عالمی ساکھ داؤ پر لگی ہے، بلکہ اس کے طویل المدتی اسٹریٹجک مفادات بھی خطرے میں نظر آ رہے ہیں۔
ایران پر اسرائیلی حملہ: خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

13جون 2025 کی گرم رات، جب دنیا نیند کی آغوش میں تھی، مشرق وسطیٰ کی فضا ایک بار پھر دھماکوں سے گونج اٹھی۔ اسرائیلی فضائیہ نے تہران، اصفہان اور نطنز سمیت ایران کے اہم عسکری اور جوہری مراکز پر بڑے پیمانے پر حملے کیے۔ ان حملوں نے نہ صرف سفارتی کشیدگی کو شدید تر کر دیا بلکہ دونوں ممالک کے عوام کو بھی خوف، غصے، اور غیر یقینی صورتحال میں مبتلا کر دیا۔ ایک طرف ایران کا ریاستی بیانیہ ہے جو “جواب دینے کے لیے تیار” ہونے کی دھمکیاں دے رہا ہے، تو دوسری طرف اسرائیلی دفاعی ادارے ان کارروائیوں کو “احتیاطی اور دفاعی اقدامات” قرار دے رہے ہیں۔ لیکن اس سب کے بیچ، اصل کہانی عوامی ردِعمل کی ہے وہ عام لوگ جو سوشل میڈیا پر اپنے خوف، غصے، حب الوطنی یا تنقید کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے شہری سوشل میڈیا پر اس تنازعے کو کیسے دیکھ رہے ہیں، عالمی ردِعمل کیا ہے، اور یہ سب ایک ممکنہ جنگ کی جانب اشارہ تو نہیں کر رہے؟ ایرانی عوام کا ردِعمل:ایرانی شہری سوشل میڈیا پر شدید غصے اور خوف کا اظہار کر رہے ہیں ماریزیہ، 39 سالہ ایرانی خاتون نے رائٹرز کو بتایا:” میں ایک زوردار دھماکے کی آواز سے جاگی۔ میری گلی کے لوگ گھبراہٹ میں گھروں سے باہر نکل آئے، ہم سب شدید خوفزدہ تھے“اگر یہ صورتحال مزید بگڑتی ہے تو میں اپنے بچوں کی سلامتی کے حوالے سے شدید فکرمند ہوں،”کچھ صارفین نے حب الوطنی کے جذبات کا اظہار کیاقم سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے انسٹاگرام پر لکھا:“میں بسیج کا رکن ہوں۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے خون سے دشمن کو جواب دیں۔دوسری جانب، کئی افراد نے ترکی یا متحدہ عرب امارات جانے کا ارادہ ظاہر کیا، جس سے شہری نقل مکانی کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ اسرائیلی مؤقف:اسرائیلی وزارت دفاع کے ترجمان کے مطابق: “یہ حملے ایران کے عسکری اور جوہری منصوبوں کو محدود کرنے کے لیے کیے گئے تاکہ اسرائیل کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔” اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں اسے “تاریخی کامیابی” قرار دیا جا رہا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا گیا کہ اسرائیل امریکا یا نیٹو کی حمایت کے بغیر تنہا یہ کارروائی کر رہا ہے۔امریکی موقف:امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے فوری ردِعمل میں واضح کیا کہ: “یہ حملے اسرائیل کا یکطرفہ فیصلہ تھے۔ امریکا اس میں شریک نہیں۔” تاہم امریکا نے خطے میں موجود اپنے فوجی اڈوں پر ہائی الرٹ جاری کر دیا ہے تاکہ کسی ممکنہ ایرانی ردعمل سے بچا جا سکے۔چین نے ایران پر اسرائیلی حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خطے میں امن اور استحکام کے لیے کشیدگی کم کرنے پر زور دیا ہے، جیسا کہ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے جمعے کے روز ایک معمول کی پریس بریفنگ میں ترجمان لن جیان نے کہا: “چین ایران کی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کی کسی بھی خلاف ورزی کی مخالفت کرتا ہے، اور وہ کسی بھی قسم کی کشیدگی میں اضافے یا تنازعے کے پھیلاؤ کے خلاف ہے۔ خطے میں اچانک تناؤ کا بڑھ جانا کسی کے مفاد میں نہیں”چین اس صورتحال کو کم کرنے میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ بیجنگ اور تہران کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں، جو چین کی توانائی کی ضروریات کے لیے ایرانی تیل کی ترسیل اور مشرق وسطیٰ میں امریکی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ پاکستان نے شدید الفاظ میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا: “یہ حملہ بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ ایران کو اپنی سالمیت کا دفاع کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ سعودی عرب، ترکی اور قطر نے بھی اس حملے کو غیرضروری اشتعال انگیزی قرار دیا اور فوری سیزفائر کا مطالبہ کیا۔آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم انتھونی البانیز نے ایران اسرائیل کشیدگی پر بات کرتے ہوئے کہا کہہم موجودہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی ذرائع کے ذریعے کام کر رہے ہیں۔ ہماری بھرپور کوشش ہے کہ حالات مزید غیر مستحکم نہ ہوں”انہوں نے مزید کہا کہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی نہ صرف مقامی بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے، اور تمام فریقین کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی ٹویٹس مڈل ایسٹ آئی کا کہنا ہے کہ ایران کے نطنز پلانٹ پر حملہ مشرقِ وسطیٰ میں نئی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔ ایک پاکستانی سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ اگر ایران جواب دیتا ہے تو پورا خطہ آگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ ایک اور صارف نے کہا کہ پاکستان کو غیرجانبدار رہنا چاہیے، مگر انسانی بنیادوں پر امن کی اپیل لازم ہے۔ حملے کے فوری بعد عالمی تیل کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ دبئی، ہانگ کانگ اور نیویارک اسٹاک مارکیٹس میں بھی کمی دیکھی گئی۔ ایران میں ڈالر کی قیمت 20,000 تومان سے تجاوز کر گئی، ایران نے عندیہ دیا ہے کہ وہ “جلد، سخت اور ہدفی” ردعمل دے گا۔ ماہرین کے مطابق اگر ایران براہِ راست اسرائیل پر جوابی حملہ کرتا ہے، تو یہ مشرقِ وسطیٰ کو ایک اور تباہ کن جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان، ترکی، خلیجی ریاستیں اور چین کو ثالثی کے کردار کی طرف بڑھنا ہوگا۔ اسرائیل کا حالیہ اقدام محض ایک حملہ نہیں بلکہ ایک نئی جنگ کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری بحث، عوامی اضطراب اور علاقائی حکومتوں کی مذمت اس بات کا اشارہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں ایک غلط فیصلہ لاکھوں زندگیاں خطرے میں ڈال سکتا ہے ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تصادم صرف عسکری نوعیت کا نہیں، بلکہ اس کی جڑیں سیاسی، نظریاتی اور علاقائی اثر و رسوخ کی کشمکش میں پیوست ہیں۔ ایک طرف جوہری پروگرام پر عالمی برادری کی تشویش، تو دوسری جانب خودمختاری اور مزاحمت کے بیانیے کے گرد گھومتی ایرانی پالیسی۔لیکن سب سے زیادہ اثر اس صورتحال کا عام عوام پر ہو رہا ہے ، وہ ایرانی جو خوف میں راتیں جاگ کر گزارتے ہیں، اور وہ اسرائیلی جو ہر لمحے ممکنہ راکٹ حملوں کے سائے میں جیتے
سندھ کابینہ کی ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت: ’حملہ عالمی قوانین، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے‘

سندھ کابینہ کے جمعرات کو ہونے والے پری بجٹ اجلاس میں ایران پر اسرائیل کے حالیہ حملے کی شدید مذمت کی گئی۔ اجلاس کی صدارت وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کی، جس میں کابینہ کے تمام اراکین شریک ہوئے۔ اجلاس میں ایران پر اسرائیل کی جانب سے کیے گئے فضائی حملے کو “بلاجواز اور غیر انسانی” قرار دیا گیا۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ “یہ حملہ عالمی قوانین، انسانی حقوق اور امن کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ سے امن، مکالمے اور عالمی ہم آہنگی کا حامی رہا ہے۔ کابینہ اراکین نے متفقہ طور پر اسرائیلی کارروائی کو خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ “سندھ حکومت ایرانی عوام کے دکھ درد میں برابر کی شریک ہے۔” انہوں نے اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بگڑتی ہوئی صورتحال کا فوری نوٹس لے اور مؤثر اقدامات کرے۔ مزید پڑھیں: ایران پر اسرائیل کا حملہ، اسلامی ممالک کہاں کھڑے ہیں؟ بیان میں کہا گیا کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے عالمی سطح پر سنجیدہ اور مؤثر کردار ادا کرنا ناگزیر ہے۔ اجلاس کے دوران کابینہ نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کی پالیسی ہمیشہ سے پرامن بقائے باہمی پر مبنی رہی ہے، اور کسی بھی قسم کی جارحیت کی مخالفت کی جاتی ہے۔ تاحال وفاقی حکومت کی جانب سے اس حملے پر باضابطہ ردعمل جاری نہیں کیا گیا، تاہم سندھ حکومت کے اعلامیے کو بعض تجزیہ کار ملک کے اندرونی ردعمل کا ابتدائی اشارہ قرار دے رہے ہیں۔ مستقبل میں اس معاملے پر پارلیمانی سطح پر بحث متوقع ہے، جبکہ خارجہ امور کی وزارت بھی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔