Follw Us on:

دنیا کی تیزی سے بدلتی صورتحال: کیا طاقت کا توازن بدل چکا؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
میں پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں طاقت کے توازن میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ (فوٹو: فوربس)

سال بدل گیا مگر دنیا کے حالات جوں کے توں ہیں، طاقت کے حصول کے لیے بارود کی بو میں سانس لینا دشوار ہے، عالمی طاقتوں کی کھینچا تانی میں پستے غریب عوام دربدر ہیں، کوئی یورپ میں پناہ لینے کے لیے بھٹک رہا ہے تو کوئی قریبی ممالک میں پناہ لے رہا ہے۔ مشرق سے مغرب تک طاقت کا توازن بگڑ چکا ہے، کیا حالات نیا جنم لے رہے ہیں؟ کیا طاقت کا توازن بدل چکا ہے؟

عالمی طاقتوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو 20ویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں نوآبادیاتی یعنی سامراجی نظام تھا اور بڑی طاقتوں نے مختلف خطوں پر بادشاہت کے ذریعے قبضہ جما رکھا تھا۔ مگر 1919 میں پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں طاقت کے توازن میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، جب عالمی طاقتوں کے درمیان زور آزمائی کا سلسلہ شروع ہوا اور الائنس کا نظام متعارف ہوا۔ نظریاتی، جغرافیائی، ثقافتی اور سماجی لحاظ سے قریب سمجھے جانے والے ممالک نے آپس میں اتحاد کرلیا، جس کے نتیجے میں طاقت کا توازن بگڑ گیا۔

اتحادی ممالک میں یہ اصول طے پایا کہ اگر کسی ملک پر حملہ ہوگا تو اس کے اتحادی اس کا جواب دیں گے، مگر جیسے ہی طاقت کا توازن بگڑا تو خطے میں نئی جنگ چھڑ گئی۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ابوالحسن نے کہا کہ “امریکا اب بھی دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت ہے، لیکن اس کی برتری چیلنج ہو رہی ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ “چین اور روس جیسے ممالک عالمی سطح پر زیادہ اثر و رسوخ حاصل کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ایک نئے ملٹی پولر ورلڈ آرڈر کے آثار نظر آ رہے ہیں۔”

ملٹی پولر’ سے ‘بائی پولر ورلڈ آرڈر’ وجود میں آیا جس کے نتیجے میں سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ (فوٹو: نیویارک کارنر)

اس کے علاوہ طاقتوں کے فروغ میں مادیت پرستی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ہر ریاست نے اپنی عسکری قوت پر خاص توجہ دی اور اپنی افواج کو درکار تمام سہولیات سے لیس کرنے میں کامیابی سمجھی۔ ان عوامل کے علاوہ بادشاہت اور قوم پرستی نے بھی جنگی جنون اور ورلڈ آرڈر میں اہم تبدیلی کے لیے کام کیا۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد عرفان علی فانی نے کہا کہ “روس اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون مغرب کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ توانائی، معیشت اور فوجی تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں، لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ یہ دونوں ممالک مل کر مغرب کا متبادل طاقت کا محور بن سکتے ہیں۔”

پہلی جنگ عظیم کے بعد ‘ملٹی پولر ورلڈ آرڈر’ وجود میں آیا، جس کے بعد لیبر انسٹی ٹیوشنز اور گلوبل گورننگ باڈیز کے قیام نے عالمی طاقت کے ڈھانچے کو تبدیل کیا۔

تاہم، 1939 میں ایک اور بڑی جنگ، یعنی دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی، جو 1945 میں ختم ہوئی۔ اس کے بعد طاقت کی ساخت مکمل طور پر تبدیل ہوئی اور ‘ملٹی پولر’ سے ‘بائی پولر ورلڈ آرڈر’ وجود میں آیا جس کے نتیجے میں سرد جنگ کا آغاز ہوا۔

یہ جنگ 1991 میں افغانستان میں ختم ہوئی، جس کے بعد ‘بائی پولر’ سے ‘یونی پولر ورلڈ آرڈر’ قائم ہوا، جو تاحال برقرار ہے، مگر اس پر اب مختلف آرا موجود ہیں کہ پاور ڈائنامکس ایک مرتبہ پھر تبدیل ہو رہی ہے۔

عالمی امور کے ماہرڈاکٹرابوالحسن کا کہنا تھا کہ “چین اپنی اقتصادی ترقی، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے عالمی سطح پر اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ اگر چین اسی رفتار سے ترقی کرتا رہا تو مستقبل میں عالمی طاقت کا توازن مشرق کی طرف جھک سکتا ہے۔”

دورٍحاضر میں دنیا کی تیزی سے بدلتی صورتحال، چین اور روس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ طاقت کی ساخت میں تبدیلی کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔

روس اور چین کے درمیان بڑھتا ہوا تعاون مغرب کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ (فوٹو: دی چائنا وائر)

اس کے علاوہ ‘برکس’ کی شکل میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کا سوشیو اکنامک الائنس بھی اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ موجودہ عالمی نظام زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گا۔

اس کے علاوہ پاکستان، سعودی عرب اور دیگر ممالک بھی اس اتحاد کا حصہ بننے کی کوشش میں ہیں جن میں امریکا کے اسٹریٹیجک پارٹنرز بھی شامل ہیں۔

پروفیسر عرفان علی کا کہنا ہے کہ “بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو بہت بڑا منصوبہ ہے، جو عالمی معیشت پر چین کے اثر و رسوخ کو بڑھا رہا ہے۔ اگر یہ منصوبہ کامیابی سے جاری رہا تو ایشیا عالمی طاقت کے نئے مرکز کے طور پر ابھر سکتا ہے۔”

انہوں نے یہ بھی کہا کہ “اگر سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک برکس میں شامل ہو جاتے ہیں تو یہ امریکا کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔ مشرق وسطیٰ کا جھکاؤ چین اور روس کی طرف ہو سکتا ہے، جس سے خطے کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔”

دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو دنیا میں یونی پولر ورلڈ آرڈر ہی برقرار ہے، لیکن رجحان میں بڑی تبدیلی آ چکی ہے اور مستقبل قریب میں عالمی منظرنامہ مکمل طور پر تبدیل ہونے کا امکان ہے۔

پروفیسر ابوالحسن نے اس پر کہا کہ “عالمی ادارے ابھی تک مغربی ممالک کے زیر اثر ہیں، لیکن بدلتی ہوئی صورتحال کے باعث انہیں اپنی پالیسیوں میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ چین سمیت دیگر ابھرتی ہوئی طاقتیں اقوام متحدہ اور آئی ایم ایف میں زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔”

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس