ورلڈ بینک کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کا کُل بیرونی قرضہ 130 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے جو اس کی اوسط سالانہ برآمدات سے 352 فی صد زیادہ ہے۔
گزشتہ حکومت کی نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے ملک پر واجب الادا بیرونی قرضے کے حجم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ملک کہا تھا۔
مالی سال 25-2024 کے بجٹ میں اخراجات کا سب سے بڑا حصہ قرضوں پر سود کی ادائیگی کا ہے جس کی مد میں 9775 ارب روپے ادا کیے جائیں گے۔ یہ رقم دفاعی اخراجات سے تقریبا چار گنا زیادہ ہے۔
فیڈرل بیورو آف ریونیو نے اس سال بجٹ میں 12900 ارب روپے تک ٹیکس جمع کرنے کا ہدف رکھا ہے اور یہ رقم گزشتہ سال کے مجموعی ہدف سے 40 فی صد زیادہ ہے۔
حکومت نے آئی ایم ایف سے 6 سے 8 ارب ڈالر کا قرضہ لیا ہے اور اس قرض کی شرائط محنت کش طبقے اور عام لوگوں کے لیے معاشی طور پر نہایت تباہ کن ہیں۔
اس بجٹ میں آئی ایم ایف کے حکم پر گیس اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا گیا۔ جبکہ تنخواہ میں اضافہ ملک میں مہنگائی کی موجودہ شرح سے کئی گنا کم ہے۔
حل کیا ہے؟
سابق صوبائی وزیرخزانہ اور سابق امیر جماعت اسلامی کے مطابق مخلص قیادت کا فقدان، کرپشن اور اشرافیہ کی مراعات ہمارے معاشی مسائل کی جڑ ہیں۔ جب تک یہ مسائل حل نہیں ہوں گے تب تک عوام معیشت کی بہتری کے لیے عملاً حکومت اور ادروں کا ساتھ ضروری تعاون نہیں کریں گے۔
معروف معیشت دان قانت خلیل اللہ کے مطابق پاکستان کے سنگین معاشی مسائل کا حل مکمل ریزرو بینکنگ کا نفاذ ہے۔ جو کہ عین اسلامی اصولوں کے مطابق ہے۔
یہ منظم مالیاتی نظام بھاری سرکاری قرضوں کے بوجھ اوران پر سود کے اخراجات کو ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ نظام ان بنیادی اصولوں پر کام کرے گا
۱۔تجارتی بینکس قرض جاری کرنے اور انویسٹمنٹ کرنے کے عمل میں نیا پیسہ /کرنسی تخلیق نہیں کرسکیں گے۔
۲۔ پیسہ تخلیق کرنے کی صلاحیت ایک خود مختار ادارے جیسے اسٹیٹ بینک کو منتقل کی جائے گی جو جی ڈی پی میں اضافے کے برابر نیا پیسہ تخلیق کرے گا تاکہ مہنگائی یا افراط زر نہ ہو۔
فل ریزرو سسٹم میں، بینکوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اپنے تمام ڈپازٹس کیلئے 5 فیصد کی جگہ 100فیصد تک مرکزی بینک کی ریزرو کرنسی رکھیں۔ نتیجتاً، بینک کے قرضوں سے نیا پیسہ تخلیق کرنے کا عمل بند ہو جائے گا۔
اس نظام میں حکومت کا چھ ہزار ارب کا سودی خرچ ختم ہوجائے گا اور اسکے پاس ٹیکس کے علاوہ تقریباً 2ہزار ارب کی نئی تخلیق کردہ کرنسی ہوگی۔
اس لیے حکومت کو اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کیلئے بینکوں سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، جس سے افراط زر کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی ختم ہوجائے گی ۔
فل ریزرو بینکنگ پاکستان کے سنگین اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جدید اور پائیدار حل پیش کرتی ہے، اور ایک طویل عرصے بعد مالیاتی استحکام کو یقینی بنا سکتی ہے۔