نیو یارک سٹی کے میئر ‘ایرک ایڈمز’ نے پیر کے روز اعلان کیا کہ شہر نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (PIA) کے زیر ملکیت روزویلٹ ہوٹل کے ساتھ 220 ملین ڈالر کے کرایہ کے معاہدے کو ختم کر دیا ہے۔
یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب امریکا کے ٹیکس دہندگان کے پیسے کے استعمال پر شدید تنقید کی جا رہی تھی جس کا مقصد پناہ گزینوں کو اس ہوٹل میں ٹھہرانا تھا۔
یہ ہوٹل 2020 میں کووڈ-19 کی وبا کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہونے کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔
تاہم، 2023 میں اس ہوٹل کو دوبارہ پناہ گزینوں کے لیے پناہ گاہ کے طور پر کھولا گیا، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو ٹیکساس کے قدامت پسند گورنر کی جانب سے لبرل ریاستوں میں منتقل کیے گئے تھے۔
میئر ایڈمز کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ نیو یارک سٹی کے ایمرجنسی ردعمل اور پالیسی فیصلوں کے کامیاب ہونے کی وجہ سے کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے شہر کو لاکھوں ڈالر کی بچت ہوگی، جو ٹیکس دہندگان کے پیسے کے بچاؤ کے لیے ضروری تھا۔
روزویلٹ ہوٹل نے 1,025 کمروں میں پناہ گزینوں کو ٹھہرا کر ان کی رہائش کا انتظام کیا تھا، جس کی ایک رات کی قیمت تقریباً 200 ڈالر تک تھی۔
رپورٹ کے مطابق اس ہوٹل میں لاکھوں کی تعداد میں پناہ گزینوں نے قیام کیا جن میں سے بیشتر نے امریکا کے مختلف حصوں سے نیو یارک سٹی کا رخ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کے اشتہارات یا خبریں؟ صحافت کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان
2023 کے اوائل میں شہر میں پناہ گزینوں کی آمد میں غیر معمولی اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں روزویلٹ ہوٹل کو ایک اہم پروسیسنگ سینٹر کے طور پر استعمال کیا گیا۔
اس دوران نیو یارک سٹی نے حکومت کے ساتھ تین سالہ کرایہ داری معاہدہ کیا تھا جس کی مالیت 220 ملین ڈالر تھی۔
مگر 2024 کے شروع میں جب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے اس ہوٹل کی نجکاری کے امکانات نے زور پکڑا، شہر کے حکام نے اس معاہدے کو دوبارہ جائزہ لیا۔
اس دوران پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (PIA) اور امریکی کنسورشیم کے درمیان ایک مشترکہ منصوبے کی بنیاد پر ہوٹل کی ترقی کی بات چیت بھی شروع ہو گئی۔
روزویلٹ ہوٹل، جو 1924 میں امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ کے نام پر کھولا گیا تھا، امریکی تاریخ کا ایک اہم نشان ہے۔
اس ہوٹل کی شان و شوکت میں امریکی متمول افراد اور مشہور شخصیات کی بڑی تعداد نے قیام کیا، مگر آج کل اس ہوٹل کی بیشتر رہائشی لاطینی امریکہ سے آئے ہوئے پناہ گزین ہیں۔
یہ ہوٹل 1979 میں امریکی رئیل اسٹیٹ ڈویلپر پال مِل اسٹین نے PIA کو لیز پر دے دیا تھا، اور 2000 میں PIA اور سعودی شہزادہ فیصل بن خالد نے اس ہوٹل کو خرید لیا تھا، جس کے بعد PIA نے شہزادہ فیصل کا شیئر خرید لیا۔
اب اس ہوٹل کا مستقبل ایک نیا موڑ لے رہا ہے جہاں ایک جانب اس کی نجکاری کا عمل جاری ہے، تو دوسری طرف نیو یارک سٹی کے حکام پناہ گزینوں کی آبادکاری کے معاملے پر مسلسل دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔
یہ تمام اقدامات ایک پیچیدہ صورتحال کو جنم دے رہے ہیں، جہاں عالمی سطح پر پناہ گزینوں کے بحران اور اقتصادی بچت کی سیاست کے درمیان توازن قائم کرنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
مزید پڑھیں: یورپ جانے کی خواہش اور موت کے منہ میں چھلانگ، یہ ڈنکی آخر ہے کیا؟