وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی محمد علی نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے خط میں لگائے گئے آزاد توانائی پیدا کرنے والے اداروں آئی پی پیز کے ساتھ زبردستی معاہدے کروانے کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب آٹھ بین الاقوامی ترقیاتی مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستانی حکومت کو ایک خط لکھا گیا، جس میں حکومت کے بجلی کی لاگت کم کرنے کے لیے آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے نئے معاہدوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے تحفظات
بین الاقوامی مالیاتی اداروں، جن میں ورلڈ بینک کا انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن ، ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک اور یورپ کے چار بڑے مالیاتی ادارے شامل ہیں، نے حکومت پاکستان کو متنبہ کیا کہ
“آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے زبردستی یا غیرمشاورتی انداز میں تبدیل کرنے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوگا، جو پاکستان میں مستقبل کی نجی سرمایہ کاری کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔”
حکومت کی وضاحت اور ردعمل
محمد علی نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی اداروں کو غلط معلومات دی گئی ہیں اور حقیقت میں حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ مکمل طور پر مشاورتی اور خوشگوار انداز میں مذاکرات کیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ:
“یہ مذاکرات مکمل طور پر سول قیادت میں ہوئے اور ان کا ماحول دوستانہ اور خوشگوار تھا۔ معاہدے کی شرائط میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں، وہ تمام فریقین کے حق میں ہیں اور اس سے توانائی کے شعبے کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔”
ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کو اب بھی معقول منافع حاصل ہوگا، البتہ کچھ کمپنیوں کو واپسی پر معمولی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن وہ اب بھی کافی حد تک منافع بخش کاروبار جاری رکھ سکیں گے۔
حکومت کے اصلاحاتی اقدامات اور بڑی کامیابیاں
محمد علی نے بتایا کہ حکومت نے اب تک آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں تقریباً 1.571 کھرب روپے کی بچت کی ہے، جو مستقبل میں بجلی کے بلوں میں کمی لانے اور گردشی قرضے کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوگی۔
اس کے علاوہ، حکومت نے ایک آئی پی پی کے خلاف فارنزک آڈٹ کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ اس کے معاہدے میں کوئی غیر قانونی یا غیر منصفانہ شقیں شامل تو نہیں تھیں۔
بجلی کے شعبے میں حالیہ حکومتی اقدامات
حکومت پاکستان نے بجلی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر اصلاحاتی اقدامات کیے ہیں، جن کا مقصد گردشی قرضے میں کمی، بجلی کے نرخوں میں استحکام، اور مستقبل میں سستی بجلی کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔
- پانچ پرانی آئی پی پیز کے معاہدے وقت سے پہلے ختم کر دیے گئے، جس سے 411 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
- 14 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی گئی، جس سے 1.4 کھرب روپے کی بچت متوقع ہے۔
- بگاس (گنے کے چھلکوں) پر چلنے والی 8 آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے کیے گئے، جن کے ذریعے 240 ارب روپے کی بچت ہوگی۔
- گیس پر چلنے والے نجی بجلی گھروں کو گیس کی سپلائی معطل کر دی گئی تاکہ مقامی صنعتوں کو سستی گیس فراہم کی جا سکے۔
- بجلی کی خرید و فروخت کے مسابقتی نظام (Competitive Trading Bilateral Contract Markets) کو تیزی سے لاگو کیا جا رہا ہے تاکہ بجلی کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھا جا سکے۔
توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے حکومتی حکمت عملی
حکومت نے بجلی کے شعبے میں ان اصلاحات کا مقصد ملک میں بڑھتے ہوئے گردشی قرضے (Circular Debt) کو روکنا اور صارفین پر پڑنے والے اضافی مالی بوجھ کو کم کرنا قرار دیا ہے۔
محمد علی نے مزید کہا کہ بجلی کے معاہدوں کی نظرثانی اور دیگر اقدامات سے حکومت کو اربوں روپے کی بچت ہوگی، جو عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کیے جا سکیں گے۔
حکومت نے عالمی سرمایہ کاروں کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع بدستور محفوظ اور پائیدار رہیں گے اور حکومت بجلی کے شعبے میں مزید نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتی رہے گی۔
“ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ عوام کو سستی بجلی فراہم کی جائے اور گردشی قرضے کے بوجھ کو کم کیا جائے۔ ہم تمام سرمایہ کاروں کا احترام کرتے ہیں اور انہیں پاکستان میں مزید مواقع فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔”