Follw Us on:

مریم نواز حکومت کے منصوبے: نئی ترقی یا پرانی پالیسیوں کی ری برانڈنگ؟

عاصم ارشاد
عاصم ارشاد

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی حکومت نے اپنے پہلے سال میں 90 سے زائد ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جن میں سے کئی منصوبے صحت، تعلیم، زراعت، توانائی اور سماجی بہبود سے متعلق ہیں۔

اگر ان منصوبوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بیشتر منصوبے یا تو ماضی کی حکومتوں کے جاری کردہ ہیں یا محض نام بدل کر دوبارہ پیش کیے گئے ہیں۔

یہ رپورٹ شہباز شریف، عثمان بزدار، اور پرویز الٰہی کی حکومتوں کے تناظر میں مریم نواز حکومت کے منصوبوں کا تنقیدی جائزہ پیش کرے گی تاکہ واضح کیا جا سکے کہ آیا یہ واقعی عوامی خدمت ہے یا صرف سیاسی تشہیر؟

  1. صحت کے منصوبے: نئے اقدامات یا پرانے وعدے؟

1.1 نواز شریف کینسر ہسپتال – حقیقت یا تاخیر کا شکار منصوبہ؟

مریم نواز حکومت نے لاہور میں پاکستان کا پہلا سرکاری کینسر ہسپتال بنانے کا اعلان کیا، جو ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہے۔

پرویز الٰہی دور (2002-2007) میں بھی کینسر کے مریضوں کے لیے علیحدہ یونٹ بنانے کی تجویز دی گئی تھی، لیکن عملدرآمد نہیں ہوا۔ شہباز شریف حکومت (2008-2018) نے بھی کوئی بڑا کینسر ہسپتال بنانے پر توجہ نہیں دی۔

عثمان بزدار دور (2018-2022) میں بھی اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔ اگر یہ منصوبہ اتنا ضروری تھا تو پچھلی مسلم لیگ (ن) حکومتوں نے اس پر پہلے کام کیوں نہیں کیا؟ اس سوال کا جواب شاید مریم نواز حکومت کے پاس نہیں ہے۔

1.2 کلینکس آن ویلز – شہباز شریف دور کی اسکیم کی بحالی

مریم نواز حکومت کے مطابق “موبائل کلینک” اور “فیلڈ ہسپتال” کے ذریعے 68 لاکھ افراد کو طبی سہولیات فراہم کی جا چکی ہیں۔

حقیقت:

شہباز شریف حکومت (2010-2018) میں موبائل کلینک متعارف کرائے گئے تھے۔ عثمان بزدار دور میں بھی یہ سروس موجود تھی، مگر محدود پیمانے پر۔ اب مریم نواز حکومت نے اسی اسکیم کو دوبارہ شروع کیا ہے۔ یہ نیا منصوبہ نہیں، بلکہ پرانے منصوبے کی بحالی ہے، لیکن اسے نیا ظاہر کیا جا رہا ہے۔

1.3 مفت ادویات کی فراہمی – پرویز الٰہی دور کی اسکیم کی ری برانڈنگ؟

 

مریم نواز حکومت نے دعویٰ کیا کہ مریضوں کو گھروں پر مفت ادویات فراہم کی جا رہی ہیں۔

پرویز الٰہی دور میں 2005 میں “ریسکیو 1122 ایمبولینس سروس” متعارف کرائی گئی تھی، جو مریضوں کو ہسپتال پہنچانے کے ساتھ ساتھ مفت ادویات کی فراہمی بھی یقینی بناتی تھی۔

یہ اسکیم پہلے بھی موجود تھی، مگر اس کا دائرہ محدود تھا۔ مریم نواز حکومت نے اسے وسیع کر دیا، لیکن اسے مکمل طور پر نیا منصوبہ قرار دینا غلط ہوگا۔

  1. زراعت کے منصوبے: بزدار حکومت کے ماڈل کی کاپی؟

 

2.1 کسان کارڈ – عثمان بزدار کی اسکیم کی توسیع

مریم نواز حکومت نے “کسان کارڈ” کے تحت 30 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عثمان بزدار حکومت نے 2021 میں “کسان کارڈ” اسکیم متعارف کرائی تھی، جس کے تحت کھاد، بیج اور زرعی مشینری پر سبسڈی دی گئی تھی۔

مریم نواز حکومت نے اسی اسکیم کو بڑھایا ہے، مگر نیا منصوبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اصل مسئلہ وہیں کا وہیں ہے، کسان اب بھی مہنگی کھاد، ڈیزل، اور زرعی پانی کی کمی کا شکار ہیں، جو سبسڈی دینے سے نہیں بلکہ زرعی اصلاحات سے حل ہو سکتا ہے۔

 

2.2 گرین ٹریکٹر اسکیم – شہباز شریف دور کا منصوبہ دوبارہ

حکومت نے اعلان کیا کہ کسانوں کو 10 لاکھ روپے فی ٹریکٹر سبسڈی دی جا رہی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف حکومت (2008-2013) میں 50 فیصد سبسڈی پر ٹریکٹر دینے کی اسکیم تھی۔

بزدار حکومت میں بھی یہی اسکیم دوبارہ شروع کی گئی، مگر محدود پیمانے پر۔ موجودہ حکومت نے اسی پرانی اسکیم کو دوبارہ شروع کر دیا، لیکن دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ “نئی” اسکیم ہے۔

  1. توانائی کے منصوبے: پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں

3.1 روشن گھرانہ سولر اسکیم – شہباز شریف حکومت کا پرانا ماڈل؟

مریم نواز حکومت نے اعلان کیا کہ 500 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو سولر پینلز دیے جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف حکومت (2013-2018) نے “نواز شریف سولر پروگرام” شروع کیا تھا۔

شہباز شریف حکومت نے بھی سولر انرجی کو فروغ دینے کی اسکیمیں متعارف کرائی تھیں۔ عثمان بزدار دور میں “پنچایت گھروں” اور “مساجد” کے لیے سولر پینلز دیے گئے۔ موجودہ حکومت نے صرف سبسڈی بڑھا دی، لیکن بنیادی پالیسی وہی پرانی ہے۔

 

3.2 الیکٹرک بس سروس – پرویز الٰہی اور شہباز شریف دور کے ٹرانسپورٹ منصوبوں کی نئی شکل؟

حکومت نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں پہلی بار الیکٹرک بسیں متعارف کرائی گئی ہیں۔ پرویز الٰہی حکومت (2002-2007) نے پہلی بار لاہور میں “سی این جی بسیں” متعارف کرائیں۔ شہباز شریف حکومت نے “میٹرو بس” اور “اورنج لائن” ٹرانسپورٹ منصوبے مکمل کیے۔ عثمان بزدار حکومت نے “بلو لائن بس سروس” پر کام شروع کیا تھا۔ موجودہ حکومت نے صرف بسوں کی نوعیت بدلی ہے، بنیادی پالیسی پرانی ہی ہے۔

  1. سماجی بہبود کے منصوبے: ماضی کے پروجیکٹس کا نیا نام

4.1 اپنا گھر اپنی چھت – نیا پاکستان ہاؤسنگ کا متبادل؟

حکومت نے بلا سود قرضوں کے ذریعے گھروں کی تعمیر میں مدد دینے کا اعلان کیا۔ یہی ماڈل “نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم” میں بھی تھا، جسے بزدار حکومت نے متعارف کرایا تھا۔ یہ نیا منصوبہ نہیں، بلکہ پرانے کا تسلسل ہے۔

4.2 دھی رانی پروگرام – شہباز شریف دور کی جہیز اسکیم

حکومت نے اعلان کیا کہ غریب لڑکیوں کی شادی کے لیے مالی امداد دی جائے گی۔ شہباز شریف دور میں “جہیز فنڈ اسکیم” کے نام سے یہی پالیسی پہلے بھی موجود تھی۔

 نئے منصوبے یا محض سیاسی دعوے؟

مریم نواز حکومت نے کئی پرانے منصوبوں کو نیا ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں واقعی پنجاب میں ترقی کر رہی تھیں، تو انہیں انہی پرانے منصوبوں کو دوبارہ کیوں متعارف کرانا پڑ رہا ہے؟ یہ حکمت عملی سیاسی تشہیر کے لیے کارآمد ہو سکتی ہے، مگر عوامی مفاد میں نہیں۔

عاصم ارشاد

عاصم ارشاد

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس