ایران میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران اور کرنسی کی بےقدری کے پیش نظر حکومت نے کرپٹو کرنسی اور آن لائن ایکسچینجز کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے۔
گزشتہ ماہ ایرانی مرکزی بینک نے اچانک تمام کرپٹو کرنسی ایکسچینجز میں ریال کی ادائیگی روک دی، جس سے دس ملین سے زائد ایرانی کرپٹو صارفین بٹ کوائن اور دیگر عالمی ڈیجیٹل کرنسیوں میں سرمایہ کاری سے محروم ہوگئے۔
کرنسی بحران اور حکومتی اقدامات
ایرانی حکام کے مطابق، اس پابندی کا مقصد مزید کرنسی گراوٹ کو روکنا اور مقامی معیشت کو غیر ملکی کرنسی میں تبدیل ہونے سے بچانا ہے۔
تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ملک کی کرپٹو مارکیٹ اور نوجوان سرمایہ کاروں کے لیے شدید دھچکا ثابت ہو سکتا ہے، جو مغربی پابندیوں کے سبب پہلے ہی محدود معاشی مواقع کے شکار ہیں۔
ایران میں کرپٹو مارکیٹ تیزی سے ترقی کر رہی تھی اور 2025 کے لیے تیزی کے رجحان کی توقع کی جا رہی تھی۔ لیکن اب حکومت کی جانب سے سخت نگرانی اور کنٹرول نافذ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
مرکزی بینک کو “مکمل اختیار” مل گیا
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے ایک خط میں مرکزی بینک کو “کرپٹو مارکیٹ کے مکمل انتظام کا واحد ذمہ دار” قرار دیا۔
مرکزی بینک کو کرپٹو مارکیٹ کی مکمل نگرانی کے اختیارات دے دیے گئے ہیں، جس کے تحت آن لائن ایکسچینجز کو سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑے گا۔
رپورٹس کے مطابق، بعض ایکسچینجز کو کچھ شرائط ماننے کے بعد محدود حد تک ریال ٹریڈنگ کی اجازت دی گئی، لیکن ان پر مسلسل نگرانی اور سخت قواعد و ضوابط لاگو کر دیے گئے ہیں۔
ٹیتھر پر 4 فیصد حد
ایرانی حکومت خاص طور پر ڈالر سے منسلک کرپٹو کرنسی ‘ٹیتھر’ پر سخت کنٹرول چاہتی ہے۔ اگر ڈالر کی قیمت ایک دن میں 4 فیصد سے زیادہ بڑھے، تو ایرانی صارفین کو اس کی خریداری سے عارضی طور پر روک دیا جائے گا۔
یہ پالیسی ایرانی اسٹاک مارکیٹ میں نافذ مصنوعی حدود جیسی لگتی ہے، جس میں مارکیٹ کے آزادانہ اتار چڑھاؤ پر قدغن لگائی جاتی ہے۔
فیصلے پر تنقید
ایرانی کرپٹو ایکسچینج کے سی ای او عیسیٰ کشاورز نے پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ
“ایک طرف حکومت سوشل میڈیا اور دیگر غیر ملکی سروسز کو بند کر کے ایرانی صارفین کو مقامی پلیٹ فارمز پر لانا چاہتی ہے، اور دوسری طرف کرپٹو پر پابندیاں لگا کر انہیں بیرونی ایکسچینجز کی طرف دھکیل رہی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ حکومت کے یہ اقدامات “ایرانی عوام اور حکومت کے درمیان خلیج کو مزید وسیع کر رہے ہیں”۔
کرپٹو مارکیٹ پر مزید سختی یا ریگولیشن؟
2019 میں ایران نے کرپٹو مائننگ کو قانونی تو قرار دیا تھا، لیکن سخت شرائط اور بجلی بحران کے باعث بہت سے کرپٹو مائنرز ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
اب ماہرین کا ماننا ہے کہ حکومت کرپٹو ٹرانزیکشنز پر ٹیکس عائد کرنے کی تیاری کر رہی ہے، جبکہ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق، ایران کرپٹو کو بین الاقوامی تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے، تاکہ امریکی پابندیوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
کرپٹو تجزیہ کار سعید خوشبخت کا کہنا ہے کہ حکومت “رسک کم کرنے” کی پالیسی اپنا رہی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ رسک کس کے لیے کم کیا جا رہا ہے؟
ایرانی کرنسی کا مسلسل زوال
اس دوران، ایرانی ریال کی قدر ایک بار پھر نئی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، اور ایک امریکی ڈالر 9,40,000 ریال تک جا چکا ہے۔
2018 میں ایک ڈالر کی قیمت 40,000 ریال تھی، جبکہ اکتوبر 2023 میں یہ 6,00,000 تک پہنچ گئی تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ علاقائی کشیدگی، ایران کی “محور مزاحمت” کی ناکامیاں، اور ڈونلڈ ٹرمپ کے “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کے عزم نے کرنسی بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔
ایران میں کرپٹو صارفین اور کاروباری حضرات اس وقت شدید غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔
ایک طرف کرنسی کی تیزی سے گرتی قدر، دوسری طرف حکومت کی سخت پالیسیاں، اور تیسرے مغربی پابندیوں کے خطرات، ان تمام چیلنجز نے ایران کی کرپٹو مارکیٹ کو ایک مشکل دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس سیکٹر کو کنٹرول کر کے مزید سختیاں نافذ کرتی ہے یا ایرانی عوام کو کرپٹو مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے کے لیے نئی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے؟