Follw Us on:

ملٹری ٹرائل کیس:جسٹس مسرت ہلالی اور دیگر ججز کے درمیان دلچسپ مکالمے

حسیب احمد
حسیب احمد
بطور وکیل کیس ہارنے کے بعد میں بار میں بہت شور کرتی تھی(تصویر،گوگل)

سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس کے دوران جسٹس مسرت ہلالی اور دیگر ججز کے درمیان دلچسپ مکالمے ہوئے۔

سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی جس دوران سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیئے۔

سماعت کے دوران جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بطور وکیل کیس ہارنے کے بعد میں بار میں بہت شور کرتی تھی، کہتی تھی ججز نے ٹرک ڈرائیورز کی طرح اشارہ کہیں کا دیا اور گئے کہیں اور طرف ہیں۔

اس موقع پر جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ کیا آپ بھی ٹرک چلاتی ہیں؟ جسٹس مسرت نے جواب دیا، ٹرک تو میں چلا سکتی ہوں۔

جسٹس مسرت نے کہا کہ میرے والد ایک فریڈم فائٹر تھے، ان کی ساری عمر جیلوں میں ہی گزری، والد کی شاعری ان کی وفات کے بعد ایک پشتون جرگہ میں کسی نے پڑھی تو شاعری پڑھنے والا گرفتار ہوگیا۔

سماعت کے دوران وکیل فیصل صدیقی کی جانب سے احمد فراز کیس میں عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ احمد فراز پر الزام تھا کہ شاعری کے ذریعے آرمی افسر کو اُکسایا گیا۔

احمد فراز اور فیض احمد فیض کے ڈاکٹر میرے والد تھے، مجھ پر بھی اُکسانے کا الزام لگا لیکن میں گرفتار نہیں ہوا، اس پر جسٹس مندوخیل نے ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کو اب گرفتار کرا دیتے ہیں۔

جسٹس نعیم افغان نے ماضی کا واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ شاعر احمد فراز نے ایک نظم کے بارے عدالت میں یہ کہہ دیا تھا کہ یہ نظم میری ہے ہی نہیں۔

اس پر جسٹس افضل ظُلہ نے کہا آپ کوئی ایسی نظم لکھ دیں کہ فوج کےجذبات کی ترجمانی ہو جائے۔

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس