اسلام آباد میں اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان کی قومی یکجہتی تنظیم کے دوسرے روز کا اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ کے وجودکی کوئی سیاسی اور قانونی اخلاق کی حمایت نہیں ہے اور پیکا حکمران آئین کی روح کی طرف سے متصادم تمام ترامیم ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
نجی خبررساں ادارے ڈان کے مطابق اپوزیشن گرینڈ الائنس نے آج قومی کانفرنس کرنے کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی اسلام آباد کے نجی ہوٹل پہنچے۔ اس موقع پر ایف سی اور پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی اور جب سابق وزیرِاعظم ہوٹل پہنچے تو انھیں ہوٹل میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو انتظامیہ کی جانب سے آج کانفرنس کی اجازت نہیں دی گئی، اپوزیشن جماعتوں کے رہنما نجی ہوٹل میں زبردستی کانفرنس کے لیے گھس گئے۔ تھانہ سیکرٹریٹ کی پولیس نے ہوٹل کے مینجر سے وقوعہ سے متعلق بیان ریکارڈ کر لیا، ہوٹل مینجر نے کہا کہ یہ تمام افراد ہماری اجازت کے بغیر ہوٹل کی حدود میں داخل ہوئے ہیں، تمام سیاسی رہنما ہوٹل میں داخل ہو کر ہال پر قابض ہو گئے ہیں۔
پولیس وقوعہ سے بیان ریکارڈ کرنے کے بعد رپورٹ لے کر روانہ ہوگئی، جب کہ اپوزیشن گرینڈ الائنس کی قیادت پر مقدمہ درج ہونے کا امکان ہے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا محسن نقوی اور شہباز شریف کو جس نے مشورہ دیا کہ ہمیں کانفرنس نہ کرنے دی جائے، 23 مارچ کو ڈفر ایوارڈ دیا جائے، اس وقت ملک ترقی نہیں کررہا ہے۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ یہ انسٹال 47 کی رجیم ہے جس کے پاس عوام کا مینڈیٹ نہیں ہے، 60 صفحات پر اشتہارات چھاپنے سے ملک میں ترقی نہیں آتی۔ بلوچستان میں عوام جلسے کی دعوت دیتے ہیں، بلوچستان حکومت ایک طرف اور دوسری طرف ہم عوامی جلسہ کریں گے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ مسنگ پرسنز کا مقدمہ چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے بھی لڑا، خیبرپختونخوا کے واجبات وفاقی حکومت نے دینے ہیں وہ دیے جائیں، اس ملک میں صرف سیاسی قیدیوں کو جیل میں ڈالا جا رہا ہے۔
سیاست کا کیا مقصد ہے آپ کے پوتے، نواسے وزیر اعظم بن جائیں، مفتاح اسماعیل
پاکستان پارٹی کے سیکریٹری جنرل اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے خطاب میں کہا کہ سیاست کا مقصد خاندانی وراثت کی بجائے عوامی خدمت ہونا چاہیے۔ مسلم لیگ (ن) پہلے “ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ لگاتی تھی، جو درحقیقت آئین کی عزت کرنے کے مترادف تھا، مگر آج ان کے پاس کوئی جواز نہیں۔
سابق وزیرِخزانہ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے آئین اور قانون کی پاسداری نہیں کی اور انتخابات میں فارم 47 کے ذریعے نتائج تبدیل کیے گئے۔

8 فروری کو عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا، سلمان اکرم راجا
پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ملک میں جمہوری اقدار پامال ہو چکی ہیں۔ 8 فروری کے انتخابات میں عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا اور اب حکومت کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ایسے حالات میں ملک نہیں چل سکتا۔ پاکستان میں بسنے والے تمام شہری برابر ہیں اور اگر عوام متحد ہوکر آواز اٹھائیں تو کوئی رکاوٹ انہیں نہیں روک سکتی۔
سلمان اکرم راجا نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کسی ڈیل کا حصہ نہیں اور اگر وہ ایسا کرنا چاہتے تو بہت پہلے لندن جا سکتے تھے۔
مزید پڑھیں: ‘پارلیمان کو اختیار نہیں کہ بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی کر سکے’پیکا ایکٹ سپریم کورٹ میں چیلنج
آئین کی بالادستی کے بغیر ملک کو نہیں بچایا جا سکتا، محمود خان اچکزئی
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں آئین کی حکمرانی ضروری ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے علیحدہ ہونا چاہیے اور جن جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات رکھے، انہیں توبہ کرنی ہوگی۔
سربراہ پختونخوا ملی پارٹی نے اعلان کیا ہےکہ فارم 47 کے تحت وجود میں آنے والی اسمبلی میں نہیں بیٹھا جائے گا اور ایک متوازی اسمبلی بنانے کی تجویز دی جس کے اسپیکر اسد قیصر ہوں گے۔
پی ٹی آئی عوامی طاقت پر یقین رکھتی ہے، بیرسٹر گوہر
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ملک میں 175 سیاسی جماعتیں ہیں، لیکن صرف جماعت اسلامی نے کراچی میں پی ٹی آئی کے حق میں سیٹ واپس کی۔

بیرسٹر گوہرنے کہا کہ پی ٹی آئی کسی بھی قسم کی پاور شیئرنگ پر یقین نہیں رکھتی بلکہ عوامی طاقت کو ترجیح دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی قیادت جیل میں قید ہے۔ جب تاریخ لکھی جائے گی تب شہباز شریف کا نام بھی لکھا جائے گا، تاریخ میں بانی پی ٹی آئی کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا، اب وقت ہے ایک دوسرے کو پہچاننا پڑے گا اور ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا ہوگا۔
اس وقت ملک میں آئین نام کی کوئی چیز موجود نہیں، مصطفی نواز کھوکھر
سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ملک میں آزادی اظہار رائے مکمل طور پر ختم کر دی گئی ہے اور عام شہریوں کی آواز دبانے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان معاہدہ ختم ہوچکا ہے اور اپوزیشن کی کانفرنس کو روکنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کا استعمال کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پیکا ایکٹ کی متنازعہ ترامیم: سوشل میڈیا پر کنٹرول یا آزادی کا کچلنا؟
عدلیہ کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی، لیاقت بلوچ
جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے کہا کہ نوجوانوں کو مایوس کیا جا رہا ہے اور خواتین کے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ ملک کو بچانے کے لیے قانون کی بالادستی ضروری ہےاور جمہوری قوتوں کو اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔
ملک میں آئین اور جمہوریت کی بالادستی ضروری ہے،مہتاب عباسی
مہتاب عباسی نے کہا کہ ملک کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں، معیشت درست کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے لیے آئین کی بحالی اور قانون کی پاسداری ضروری ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور حکومت کو تمام علاقوں کے مسائل یکساں طور پر حل کرنا ہوگا۔

کانفرنس کی کامیابی میں حکومت نے حصہ ڈالا ہے، کامران مرتضیٰ
جے یو آئی (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آج آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کی بات کرنے والوں کو دبایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ بار کی عمارت میں سیاسی عمل ہونے سے روکا گیا، جو شرمناک ہے۔ حکومت کے جبر کی وجہ سے ہی اس کانفرنس کو زیادہ توجہ ملی ہے۔
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ان کی جماعت اپوزیشن اتحاد کا حصہ نہیں اور انہوں نے اعلامیے پر دستخط نہیں کیے۔ ترجمان جے یو آئی اسلم غوری نے وضاحت کی کہ انہیں ذاتی حیثیت میں مدعو کیا گیا تھا اور انہوں نے اپنے نقطہ نظر کا اظہار کیا، لیکن کسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے۔
قومی کانفرنس کا اعلامیہ جاری
قومی کانفرنس کے اختتام پر اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ اعلامیہ جاری کیا، جس میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو ملک کے مسائل کا واحد حل قرار دیا گیا۔ اعلامیے میں 8 فروری 2024 کے انتخابات کو موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی بحران کا سبب قرار دیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ اس کے نتائج کو کالعدم قرار دیا جائے۔
مزید پڑھیں: “اگر پیکا ایکٹ نافذ ہو گیا تو صحافی صرف موسم کی رپورٹنگ کریں گے”، صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار
اعلامیے کے مطابق موجودہ پارلیمنٹ کی اخلاقی، سیاسی اور قانونی کوئی حیثیت نہیں ہے، آئین کے خلاف کی گئی تمام ترامیم کو ختم کیا جائے۔ تمام سیاسی قیدیوں کو فوری رہا کیا جائے۔ میڈیا اور عوام کی زبان بندی کے لیے کیے گئے قوانین خصوصاً ‘پیکا ایکٹ’ میں ترمیم کو منسوخ کیا جائے۔
مزید یہ کہ بلوچستان، خیبرپختونخوا، پنجاب اور سندھ میں پانی کی تقسیم 1991 کے معاہدے کے مطابق کی جائے ، ملک میں فوری طور پر آزادانہ، شفاف اورمنصفانہ انتخابات کرائے جائیں۔