بنگلا دیش کے طلباء، جنہوں نے پچھلے سال حکومت کے خلاف انقلاب برپا کیا تھا، انہوں نے ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کر دیا ہے جو 2025 یا 2026 کے متوقع انتخابات سے قبل سیاسی جنگ کے نئے مورچے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
ان طلباء کا نیا گروپ “گانترنترک چھاترا سنگساد” یعنی “ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس کونسل” کے نام سے تشکیل پایا ہے۔
اس گروپ میں وہ مرکزی قائدین شامل ہیں جنہوں نے “اسٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکرمنیشن” (SAD) نامی طاقتور تحریک کی قیادت کی تھی جس نے اگست میں شیخ حسینہ کی آہنی حکومت کو گرا دیا تھا۔
یہ انقلابی طلبا گروپ بنگلا دیش کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز سمجھا جا رہا ہے جس نے اقتدار کے جبر کے خلاف عوامی تحریک کو ایک نئی توانائی فراہم کی۔
ان طلباء کی قیادت میں ہونے والے انقلاب نے حسینہ کی حکومت کو ختم کر دیا تھا اور اب وہ ایک نئی سیاسی پارٹی کے ساتھ میدان میں آ گئے ہیں تاکہ مستقبل کی سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کر سکیں۔
تاہم، جیسے ہی اس نئی سیاسی جماعت کا اعلان کیا گیا مختلف گروپوں کے درمیان اختلافات نے سر اٹھا لیا، جس کے نتیجے میں شدید جسمانی جھڑپیں بھی ہوئیں۔
لازمی پڑھیں: شام بشار الاسد کے دور میں ہزاروں افراد کی اذیت و قتل پر رپورٹ شائع ہوگئی
گانترنترک چھاترا سنگساد کا دعویٰ ہے کہ اس میں شامل افراد نے ملک کی سیاست میں انقلابی تبدیلی کے لئے جو جدوجہد کی ہے وہ طلباء کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہے۔
گروپ کے رہنما زاہد احسن نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “ہم نے یقین دہانی کی ہے کہ کوئی بھی ایسا فرد اس تحریک میں شامل نہیں جو انقلاب کے دوران قتل و غارت یا تشدد میں ملوث رہا ہو۔ ہمارا مقصد طلباء کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے اور ہم اپنے انقلاب کی روح کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔”
مگر اس گروپ کے قیام کے بعد سٹوڈنٹس اگینسٹ ڈسکرمنیشن کے اندر موجود مختلف دھڑوں میں سخت اختلافات سامنے آئے ہیں اور اس کے نتیجے میں باہمی جھگڑے اور جسمانی تصادم بھی ہوئے۔
اسی دوران SAD کے دیگر رہنما جو ماضی میں عبوری حکومت میں شامل تھے اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اپنے الگ سیاسی پارٹی کا اعلان کرنے والے ہیں۔
یہاں تک کہ گانترنترک چھاترا سنگساد میں کچھ طلباء وہ بھی ہیں جو پہلے شیخ حسینہ کی جماعت “آوامی لیگ” کے یوتھ ونگ سے منسلک تھے مگر ان کا کہنا ہے کہ ان طلباء کی شمولیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ان کے ہاتھ خون سے رنگے نہیں ہیں۔
ایک طرف تو یہ انقلابی جماعتیں ہیں، دوسری طرف بی این پی کی قیادت نے انتخابات کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رامافوسا کی ٹرمپ کے ساتھ معاہدے کی کوشش، جنوبی افریقہ کے عالمی تنازعات پر حل کی تگ و دو
سابق وزیراعظم اور بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیا نے اپنے ایک براہِ راست خطاب میں انتخابات کے لئے فوری اور کم سے کم اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ “عوام ایک ایسا انتخابات چاہتے ہیں جو سب کے لئے قابل قبول ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اصلاحات کی جائیں تاکہ جمہوریت کو بحال کیا جا سکے۔”
خالدہ ضیا کی یہ باتیں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ بی این پی اگلے انتخابات کے لئے تیار ہو چکی ہے۔
خالدہ ضیا نے مزید کہا کہ “ہمارے کارکنوں اور طلباء کی جدوجہد نے فاشسٹ حکومت کو شکست دے دی ہے اور اب ہمیں ملک میں جمہوریت کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے متحد ہو کر کام کرنا ہے۔”
ان کے اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بی این پی کی قیادت اقتدار میں واپس آنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر رہی ہے اور انہیں یقین ہے کہ عوامی حمایت ان کے ساتھ ہے۔
ادھر حسینہ کی حکومت کی شکست کے بعد وہ خود بھارت میں جلاوطنی اختیار کر چکی ہیں اور ان کے خلاف مختلف الزامات عائد ہیں جن میں انسانیت کے خلاف جرائم شامل ہیں۔
ان کے خلاف عدالت کی طرف سے گرفتاری کے احکامات بھی جاری ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں، بنگلا دیش کا سیاسی منظرنامہ بہت پیچیدہ اور بے یقینی کی حالت میں داخل ہو چکا ہے۔
بنگلا دیش کے موجودہ سیاسی ماحول میں طلباء کی طاقت اور ان کی فعال سیاست ایک نئی شکل اختیار کر چکی ہے۔
یہ جمہوریت، انقلاب اور طاقت کے درمیان ایک پیچیدہ کھیل بن چکا ہے، جس میں طلباء اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے میدان میں ہیں، اور دوسری طرف سیاسی جماعتیں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے سخت محنت کر رہی ہیں۔
اگرچہ ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت کی مکمل کامیابی کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے، مگر یہ بات واضح ہے کہ بنگلا دیش کا آئندہ سیاسی منظر نامہ شدید کشمکش کا شکار ہے اور اس میں طلباء کا کردار اہم ہوگا۔
مزید پڑھیں: سوڈان میں جنگ اور قحط کے بڑھتے ہوئے خطرات: اقوام متحدہ کا انتباہ