Follw Us on:

جمہور ہی جمہوریت سے دور، بلدیاتی انتخابات نہ کروا کے حکومت کیا چاہتی ہے؟

احسان خان
احسان خان

پاکستان میں جمہوریت کے نام پر ڈھول تو بجایا جاتا ہے، مگر اس کی گونج محض شور ثابت ہوتی ہے، جو حقیقت میں آمرانہ طرزِ حکومت کے تسلسل کے سوا کچھ ظاہر نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات بھی جمہوریت کے نام پر قربان کیے جاتے رہے ہیں، خاص طور پر پنجاب میں گزشتہ 10 سالوں سے بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے،کبھی لوکل گورنمنٹ کے قوانین میں تبدیلی کو جواز بنا کر معاملہ ٹال دیا جاتا ہے تو کبھی سیکیورٹی خدشات کو بنیاد بنا کر التوا کا شکار کر دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں 1956ء سے لوکل گورنمنٹ سسٹم متعارف کرایا گیا، لیکن بااثر حکمرانوں نے ہمیشہ عوامی سطح پر اختیارات کی تقسیم کی ہر کوشش کو ناکام بنایا،آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت بلدیاتی اداروں کو سیاسی، مالی اور انتظامی خودمختاری دی گئی ہے، مگر اس کا فائدہ لوکل گورنمنٹ کے بجائے اراکینِ پارلیمنٹ اپنے نام کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گلیوں، نالیوں اور محلوں کے فنڈز بھی عام آدمی کے نمائندوں کے بجائے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے اختیار میں رہتے ہیں۔

بدقسمتی سے کوئی بھی جمہوری حکومت اپنے اراکینِ اسمبلی کے بجائے بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات دینے کے حق میں نہیں رہی، حقیقت یہ ہے کہ آمریت کے ادوار میں ہی نسبتاً بااختیار بلدیاتی نظام متعارف کرائے گے، جنہیں ہر آنے والی جمہوری حکومت نے ختم کر دیا، ہر حکومت نے بلدیاتی انتخابات کو ٹالنے کے حربے اپنائے کیونکہ اگر یہ انتخابات ہو جائیں تو بلاواسطہ لوکل گورنمنٹ کے اختیارات عام آدمی کو منتقل ہو سکتے ہیں، جو پارلیمنٹ کے ارکان کو کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔

الیکشن کمیشن نے تین مرتبہ حلقہ بندیاں مکمل کیں اور انتخابی شیڈول جاری کیا، لیکن اس کے باوجود صوبے میں انتخابات کا انعقاد ممکن نہ ہو سکا،پنجاب حکومت کی جانب سے مؤثر حکمتِ عملی اختیار نہ کیے جانے پر الیکشن کمیشن میں سماعت ہوئی، جس میں پنجاب حکومت کو جلد از جلد قانون سازی مکمل کرنے اور بلدیاتی انتخابات یقینی بنانے کا حکم دیا گیا۔

سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی الیکشن کمیشن اپنی تیاریاں مکمل کرتا ہے، تو صوبائی حکومتیں قوانین میں ترامیم کر دیتی ہیں، بدقسمتی سے کوئی بھی صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے تیار نہیں۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کے مطابق، پنجاب حکومت نے پانچ مرتبہ انتخابی قوانین میں تبدیلی کی، جس کے باعث انتخابات کے انعقاد میں مسلسل رکاوٹ پیدا کی جاتی رہی۔

اگر بلدیاتی انتخابات کے ذریعے مقامی اداروں کو فعال کر دیا جائے تو گلیوں، نالیوں اور محلوں کے بنیادی مسائل عام آدمی کی دہلیز پر ہی حل ہو سکتے ہیں۔

پاکستان میٹرز نے جب ضلع کونسل خانیوال کے سابق چیئرمین انجینئر محمدرضا سرگانہ سے سوال اٹھایا کہ لوکل گورنمنٹ کے نمائندے کس طرح عوام کی خدمت کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ مقامی حکومتیں دراصل عوام کی نچلی ترین سطح پہ نمائندگی کرتی ہیں اور نمائندےاپنے مسائل کی ترجیحات کو ازسرِ نو ترتیب دے کروسائل کے مطابق حل کے لیے کوشاں رہتے ہیں، جس سے عام آدمی کے بلواسطہ مسائل حل ہو جاتے ہیں۔

’یہ حقیقت تو بہر کیف جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ ہر دفعہ جمہوری ادوار میں ہی مقامی حکومتوں پہ شب خوں مارا جاتا رہا ہے، تاکہ اختیارات کو نچلی ترین سطح سے چھین کر مرکز تک ہی محدود کر دیا جائے‘۔

آئین کے آرٹیکل 140اے  (2) اور الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 219 کے تحت الیکشن کمیشن صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کروانے کا پابند ہے۔ وفاق سمیت تین صوبوں اور کنٹونمنٹ میں بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں، مگر پنجاب میں تاحال انتخابات نہیں کرائے جا سکے۔

روزنامہ مشرق نیوز کے ایڈیٹر اشرف سہیل کا کہنا ہے کہ پاکستان کو جن سنگین مسائل کا سامنا ہے اور جمہوریت کے نام پر جو بد دیانتیاں کی جاتی ہیں ان میں بلدیاتی اداروں کے ساتھ نہ انصافی سر فہرست ہے، کسی بھی جمہوری معاشرے، ملک اورجہاں بھی جمہوری سیاسی نطام ہو وہاں پر بلدیاتی نظام کو مضبوط بنانا ضروری ہوتا ہے ۔

’ہمارے ہاں بد قسمتی یہی رہی ہے کہ جب بھی جمہوری حکومتیں آئی ہیں انہوں نے بلدیاتی نظام کو بر طرح متاثر کیا ہے اس میں باقائدہ بد دیانتی اختیار کی گئی ہے اور سیاسی پارٹیز تمام کی تمام اس میں برابر کی شریک رہی ہیں، کس حد تک پاکستان تحریک انصاف نے خیبر پختو نخوا میں بلدیاتی نظام کو متعارف کرایا لیکن پی ٹی آئی نے بھی کچھ خاص اس  کو ترجیع نہیں دی‘۔

ایڈیٹر اشرف سہیل نے بلدیاتی نظام کامیاب نہ ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بلدیاتی نظام قاصر ہونے کی سب سے بڑی وجہ  یہ ہےکہ ہماری سیاسی جماعتیں اور  ہماری پارلیمانی سیاست کا دارومدار شروع سے ہی ایم این اے اور ایم پیز پر ہے، ہماری قوم سمجھ ہی نہیں پا رہی کہ ایم این اے اور ایم پی اے کا کام نالیاں، گلیاں اورسیورج سسٹم کا نہیں ہے،ان کاکام ملکی اور عالمی سطح پر پالیسیز کو ترتیب دینا ہے،ان کو چاہیے قانون سازی کریں اور آئینی معاملات کو دیکھیں لیکن اراکین پارلیمنٹ اپنے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیز پر عمل درآمد کرتے ہیں ۔

’اراکین پارلیمنٹ نے لوگوں کو اسی چکر میں الجھایا ہوا ہے کہ ترقیاتی کام صوبائی اورقومی اسمبلی کے ممبران کی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی ترقیاتی فنڈ ہوتے ہیں انہوں نے اپنے ہاتھوں رکھا ہوتا ہے حالانکہ اصولی طور پر یہ تمام بلدیاتی اداروں کو ٹرانسفر ہو جانے چاہیے‘۔

مشرق نیوز کے ایڈیٹر کا مزید کہنا ہے کہ لوکل گورنمنٹ کے فنڈ بلدیاتی ادروں کے ناظم اور کونسلر کو ملنے چاہئیں  تا کہ وہ تعلیم، صحت، ترقیاتی شعبوں میں کام کریں  اور وہ زیادہ بہتر کام کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ عام آدمی کے ساتھ زیادہ جڑے ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس کے بکل برعکس کیا جاتا ہے۔

بلدیاتی نطام کسی بھی معاشرے کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، پاکستان میں اس پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے سیاسی جماعتیں ، سماجی بہبود کے گروپس کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔

احسان خان

احسان خان

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس